Ads Top

Aur Neil Behta Raha By Inyat Ullah Altamish Episode No. 69 ||اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش قسط نمبر 69

Aur Neel Behta Raha
 By
Annyat Ullah Altamish

اور نیل بہتا رہا
از
عنایت اللہ التمش
Aur Neel Behta Raha  By  Annyat Ullah Altamish  اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش

 #اورنیل_بہتارہا/عنایت اللہ التمش
#قسط_نمبر_69

دانشمندوں نے کہا ہے کہ تاریخ بہترین استاد ہے ،جس قوم نے تاریخ سے سبق سیکھا وہ قوم تاریخ میں زندہ اور پائندہ رہی اور رہتی صدیوں تک نام پایا، اور جن قوموں نے تاریخ کے عبرتناک واقعات سے عبرت حاصل نہ کی وہ دوسروں کے لئے عبرت کا باعث بن کر تاریخ سے ہمیشہ کے لئے لاپتہ ہوگئیں۔
تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات ملتے ہیں کہ جس مذہب میں تفرقہ بازی پیدا ہوئی وہ مذہب زندہ نہ رہ سکا ،اور اگر زندہ رہا بھی تو اس کے پیروکار غیروں کے غلام رہے اور انکا مذھب غیروں کے لئے تماشا بنا رہا ،یہ بھی کہ جس قوم کی قیادت میں ذاتی مفادات آگئے اور اقتدار کی کشمکش شروع ہوگئی وہ قوم اگر زندہ رہیں بھی تو دوسروں کے محتاج بن کر زندہ رہی،،،،،،،نہ اس قوم کی کوئی عزت رہی، نہ وقار اور نہ کوئی پہچان،،،،،،،مجاہدین اسلام کے جذبہ جہاد اور ایمان کی پختگی رومیوں کو اس مقام پر پہنچا دیا تھا۔
پہلے گزر چکا ہے کہ مرتینا کے بیٹے ہرقلیوناس کو کونستانس کے ساتھ شریک حکمرانی بنا دیا گیا تھا، یہ مرتینا کے سازشی اور ابلیسی ذہن کا حاصل تھا، ورنہ ہرقلیوناس اس قابل ہی نہیں کہ اس میں شریک کیا جاتا۔ اس نے دیکھا کہ کریون کی شکست کے معاملے میں ہر کوئی کونستانس کے ساتھ بات کرتا ہے اور اس کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دیتا ،معلوم نہیں اس کی ماں نے اسے اپنی اہمیت جتانے کا یہ طریقہ بتایا تھا یا اس کے اپنے دماغ میں یہ بات آئی تھی کہ ایک روز اس نے بزنطیہ کی ساری فوج کو گھوڑ دوڑ کے میدان میں اکٹھا کر لیا فوج کے ساتھ تین چار جرنیل بھی تھے۔
ہرقلیوناس گھوڑے پر سوار تھا اس نے فوج کو یہ خبر سنائی کے مصر میں مسلمانوں نے کریون نام کا ایک اور بڑا شہر فتح کرلیا ہے، اور اب وہ اسکندریہ کی طرف بڑھ رہے ہیں جو مصر کا دارالحکومت ہے اور اگر مسلمانوں نے اسکندریہ بھی فتح کرلیا تو پورا مصر مسلمانوں کے قبضے میں چلا جائے گا ،، ،،،،،ہر قلیوناس نے یہ پیغام سنا کر کہا کہ اپنی فوج مسلمانوں کے آگے بھاگی بھاگی پھر رہی ہے ،اگر پورا مصر ہاتھ سے نکل گیا تو مسلمان بحیرہ روم پار کرکے بزنطیہ پر حملہ کریں گے، اور پھر تم بھی مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈال دو گے۔
بزنطیہ کی فوج کو یہ خبر دینے کا کوئی جواز نہیں تھا اگر اس فوج کو یہ خبر سنانی ہی تھی تو اس فوج کی حوصلہ افزائی کرنی تھی کہ وہ فوجی اپنے ان فوجی ساتھیوں جیسے نہ ہو جائیں جو مصر میں مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈالتے چلے آ رہے ہیں اور پورا مصر دے بیٹھے ہیں ،لیکن ہرقلیوناس نے اس فوج کو بزدل اور حرام خور کہا جو ابھی مصر گی ہی نہیں تھی۔ اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ تم لوگ تنخواہ حرام کر رہے ہو، اور اپنا فرض دیانتداری سے پورا نہیں کر رہے، پھر اس نے جرنیلوں کو بھی توہین آمیز الفاظ کہہ دیے، اور اس کا بولنے کا انداز طنزیہ اور غصیلا ہوتا چلا گیا۔ اس نے کہا کہ یہاں سے جو کمک بھیجی گئی تھی وہ بھی مصر کی فوج جیسی بزدل نکلی،،،،،،، ہرقلیوناس کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کمک کا بہت تھوڑا حصہ کریون بھیجا گیا تھا اور باقی ساری کمک ابھی اسکندریہ میں ہے اور وہ مسلمانوں کے مقابلے میں آئی ہی نہیں۔ وہ دراصل جرنیلوں اور فوج پر یہ رعب فانٹھ رہا تھا کہ وہ بھی سلطنت روم کا ایک بادشاہ ہے اور جو چاہے کر اور کہہ سکتا ہے۔
 آخر ایک جرنیل بول پڑا ۔۔۔۔اس نے کہا کہ انہیں وہ بلاجواز بزدل اور حرام خور نہ کہے ابھی تو وہ مسلمانوں کے مقابلے میں بھیجے ہی نہیں گئے اگر مصر کی فوج نے مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈالے ہیں تو بزنطیہ کی فوج بزدل کس طرح قرار دے دئے گئے ہیں۔
ہرقلیوناس نے کوئی تسلی بخش یا حوصلہ افزا جواب دینے کی بجائے اس جرنیل کو یوں ڈانٹ دیا جیسے وہ جرنیل نہ ہو کوئی ادنی سپاہی ہوں، ایک جرنیل کے ساتھ یہ سلوک دیکھ کر ایک اور جرنیل بول پڑا اور اس نے بھی احتجاج کیا اور کہا کہ ہرقل لیوناس بادشاہ ہی کیوں نہ ہو وہ فوج کے سامنے کسی جرنیل کی اس طرح توہین نہ کریں۔
ہرقلیوناس میں تدبر کا تو نام و نشان نہ تھا وہ بگڑا ہوا شہزادہ تھا اس میں کونستانس جیسی ذہانت تھی ہی نہیں کونستانس کی تربیت اس کے باپ قسطنطین نے کی تھی جس میں عسکری ٹریننگ بھی شامل تھی اور سلطنت کے امور و مسائل کی تعلیم و تربیت بھی، ہرقلیوناس اپنی ماں کے زیراثر رہا تھا اور مرتینا ایک انتہائی خوبصورت اور بے حد سازشی ذہن والی عورت تھی۔
جب ہرقلیوناس نے دوسرے جرنیل کو پہلے جرنیل سے بھی زیادہ ڈانٹ پلا دی تو باقی جرنیل غصے اور احتجاج سے بھرے ہوئے ایسے بولے کے ہر قلیوناس کو ایک دو تلخ باتیں کہہ ڈالی، اس کے ساتھ ہی پوری کی پوری فوج نے شور و غل برپا کر دیا اور کچھ نے ترتیب ہی توڑ ڈالی اور ایک منظم فوج نے غم و غصے سے بھرے ہوئے ہجوم کی صورت اختیار کرلی، ہرقلیوناس تحکمانہ لہجے میں چیخ چلا رہا تھا لیکن اس کی کوئی سنتا ہی نہیں تھا، نہ اس کی آواز اس قدر زیادہ شور و غل میں سنائی دے رہی تھی۔
ہرقلیوناس فوج سے خطاب کرنے کے لیے پورے شاہانہ کروفر سے گیا تھا اس کے ساتھ شاہی باڈی گارڈز کا دستہ بھی تھا اور ایک باڈی گارڈ نے شاہی پرچم اٹھا رکھا تھا وہاں صورتحال ایسی پیدا ہو گئی تھی کہ ہرقلیوناس کی جان خطرے میں نظر آنے لگی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے فوجی اس پر حملہ کر کے اسے تلواروں سے چیر پھاڑ ڈالیں گے۔
 حفاظتی دستے کے کمانڈر نے اپنے دستے کو اشارہ دے کر ہرقلیوناس کو حفاظتی حصار میں لے لیا۔
حفاظتی دستے کے کمانڈر نے اپنا دماغ حاضر رکھا اور عقلمندی یہ کی کہ تلواریں نیام و سے نہ نکلنے دیں، تلوار بےنیام کرنے کا مطلب چیلنج ہوتا تھا ،حفاظتی دستے کے فرائض کا تقاضا کچھ اور تھا لیکن اس کے کمانڈر نے صورتحال کی نزاکت کے پیش نظر اپنی ہی فوج کے مقابلے میں آنے سے گریز کیا اور ساتھ ہی یہ دانشمندی کی کہ ایک باڈی گارڈ کو کان میں کہا کہ وہ بہت ہی تیزی سے جائے اور جنرل اقلینوس کو اطلاع دے کہ گھوڑ دوڑ کے میدان میں بغاوت کی صورت پیدا ہو گئی ہے۔ یہ محافظ گھوڑے کو ایڑ لگا کر ہوا سے باتیں کرتا جنرل اقلینوس کے پاس جا پہنچا ،اس جرنیل نے کونستانس کو اطلاع دی اور دونوں گھوڑوں پر سوار ہو کر گھوڑے سرپٹ دوڑاتے گھوڑ دوڑ میدان میں جا پہنچے، دیکھا کہ فوج ان کی اپنی فوج لگتی ہی نہیں تھی، وہاں شاہی خاندان کے خلاف نعرے لگ رہے تھے، اور بار بار ایسی آوازیں اٹھتی تھی کہ ہم بزدل نہیں بزدل شاہی خاندان ہے وغیرہ۔
کونستانس اور سپریم کمانڈر جنرل اقلینوس کے لیے یہ صورتحال کوئی نئی نہیں تھی اس سے پہلے باقاعدہ بغاوت ہو چکی تھی جو بہت حد تک خانہ جنگی کی صورت اختیار کرگئی تھی، یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب قسطنطین کی موت پر پتہ چلا تھا کہ مرتینا نے شاہی طبیب کے ہاتھوں اسے زہر دلوایا ہے۔ روم کے تخت و تاج کی وراثت پر جرنیل اور سول انتظامیہ کے اعلیٰ یہ حکام دو حصوں میں بٹ گئے تھے ،اور پھر جرنیلوں نے آپس میں بٹ کر فوج کو دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔ بظاہر فوج ایک تھی لیکن ان کے دل بٹ کر دو ہو گئے تھے، بڑی مشکل سے وہ خانہ جنگی قابو میں آئی اور امن وامان بحال کیا گیا تھا۔ اسی کے نتیجے میں تخت کی وراثت کونستانس اور ہرقلیوناس کو دی گئی تھی ۔
اب صورتحال خانہ جنگی والی نہیں رہی تھی کیونکہ زیادہ تر حمایت کونستانس کو حاصل تھی اور تقریباً تمام جرنیل سمجھ گئے تھے کہ مرتینا شیطان صفت عورت ہے اور اس کا بیٹا ہرقلیوناس عیاش اور بگڑا ہوا شہزادہ ہے۔ اور اس میں حکمرانی کی ذرا سی بھی رمق نہیں تھی۔
جنرل اقلینوس نے کونستانس اور ہرقلیوناس کو پیچھے کر دیا اور خود فوج کو ٹھنڈا کرنے کے لئے چیخنے چلّانے لگا، آدمی جہاندیدہ اور دانشمند تھا اس لئے اس کا اندازہ اب جھاڑنے والا نہیں تھا بلکہ بڑے ہی دوستانہ اور صلح جو انداز سے فوج سے مخاطب ہو رہا تھا ۔اس نے کہا کہ پہلے فوج اپنی ترتیب میں ہو جائے پھر بات ہو سکے گی کہ فوجیوں کو کیا شکایت پیدا ہوئی ہے۔ فوج فوراً ترتیب میں ہو کر خاموش ہو گئی اقلینوس نے ایک سینیئر جرنیل سے کہا کہ وہ سب کی نمائندگی کرتے ہوئے بتائیے کہ یہ فساد کس طرح شروع ہوا ہے۔
ہمیں بزدل اور حرام خور کہا گیا ہے۔۔۔۔ اس جرنیل نے کہا۔۔۔ ہم بزنطیہ میں ہیں مصر میں نہیں مصری کی شکست کے ذمہ دار ہم نہیں۔
ہمارا ایک مطالبہ پورا کیا جائے۔۔۔۔ ایک اور جرنیل بیچ میں بول پڑا ۔۔۔ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتی ہم نے ایک بادشاہی کے دو بادشاہ کبھی نہیں سنے، ہم شاہ ہرقل اور قسطنطین کی قاتلہ کے بیٹے کا حکم نہیں مانیں گے۔

ہم صرف کونستانس کو شاہ روم مانتے ہیں۔۔۔۔ ایک اور جرنیل نے کہا ۔۔۔ہرقلیوناس پوری فوج کو مروا دے گا یا ایک بار پھر آپس میں لڑوا دے گا۔
فوج نے ایک بار پھر شور شرابہ شروع کردیا فوجی ایک ہی بات کہے چلے جا رہے تھے کہ وہ کونستانس کو شاہ روم مانتے ہیں اور اسی کا حکم مانیں گے۔
مرتینا کو بھی اطلاع پہنچ گئی تھی وہ بھاگی بھاگی وہاں آ پہنچی اور اپنے بیٹے کے پاس کھڑی اور احتجاجی مظاہرہ دیکھ رہی تھی۔ کونستانس فوج کے قریب اور بالکل سامنے کھڑا تھا اس نے اپنے دونوں بازو بلند کئے جو اشارہ تھا کہ فوجی خاموش ہو جائیں فوجی آہستہ آہستہ خاموش ہو گئے۔
تم لوگ کہتے ہو کہ صرف میرا حکم مانو گے۔۔۔۔ کونستانس نے کہا۔۔۔۔ میرا حکم یہ ہے کہ خاموشی سے اپنے ٹھکانوں پر چلے جاؤ تمہاری جو توہین کی گئی ہے اسے میں نظرانداز نہیں کروں گا ،اگر تمہیں بزدل کہا گیا تو اس کا مطلب یہ نہ لو کہ میں بھی اور جنرل اقلینوس بھی تمہیں بزدل سمجھتے ہیں۔ ہماری نظر میں تمہاری عزت اور وقار قائم ہے اور قائم رہے گا۔ اپنے آپ کو بالکل ٹھنڈا کر لو اور واپس اپنی جگہ چلے جاؤ۔
 کونستانس نے جنریلوں کو اشارہ کیا کہ وہ یہیں موجود رہے، فوج خاموشی سے بارکوں میں چلی گئی۔
 مرتینا اور ہرقلیوناس آہستہ آہستہ چلتے کونستانس اور جنرل اقلینوس اور دوسرے جرنیلوں کے قریب ہو گئے۔
قابل احترام خاتون!،،،،،،، جنرل اقلینوس نے کہا۔۔۔ آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ آپ کے بیٹے نے کیا صورتحال پیدا کردی تھی ،کیا آپ پہلی بغاوت اور خانہ جنگی کو بھول گئی ہیں، اب صورت کچھ اور ہے ، محترمہ اب آپ کے حمایتی اتنے تھوڑے رہ گئے ہیں کہ ان کی آواز کسی کو سنائی نہیں دیتی نہ ان کی آواز میں کوئی اثر رہ گیا ہے۔ میں آپ کو صاف الفاظ میں بتا رہا ہوں کہ اب آپ دونوں کی جان خطرے میں ہے، ادھر مصر ہاتھ سے جارہا ہے ادھر فوج کو آپ کا بیٹا بغاوت کے لیے بھڑکا رہا ہے، مت بھولیں کے مسلمان بزنطیہ آ سکتے ہیں روم کی سلطنت ہی نہ رہی تو اپنے بیٹے کو کونسے تخت پر بٹھائی نگی۔
میری بات پر کبھی کسی نے غور نہیں کیا۔۔۔ مرتینا نے دبی دبی زبان سے کہا۔۔۔ میں کہتی تھی کہ تخت و تاج میرے حوالے کر دیں لیکن مجھ پر الزامات لگائے گئے، میرا مطلب یہی تھا کہ حکمرانی ایک انسان کے ہاتھ میں رہے، اب کونستانس کا کچھ اور خیال ہوتا ہے، اور ہرقلیوناس کچھ اور سوچتا ہے ،اگر آپ میری بادشاہی تسلیم کریں،،،،،،،،،،، میں پھر بھی وہی بات کہوں گا جو پہلے کہہ چکا ہوں۔۔۔۔ جنرل اقلینوس نے مرتینا کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔۔۔ ادھر مصر ہاتھ سے جارہا ہے اور ادھر دارالحکومت میں آپ نے تخت و تاج کو مسئلہ کھڑا کر رکھا ہے، پہلے ہمیں اس عظیم سلطنت کو بچا تو لینے دیں۔
مرتینا خاموش ہو گئی اس کا بیٹا ہرقلیوناس اس کے منہ کی طرف احمقوں کی طرح دیکھ رہا تھا ،مرتینا چپ چاپ اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر وہاں سے چلی گئی سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تو یہی سوچ رہے ہوں گے کہ اس عورت کی خاموشی بڑی ہی تیز و تند اور تباہ کن طوفان کے پہلے کی خاموشی ہے۔ کوئی بھی اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں تھا کہ اس عورت کو کچھ کھری کھری باتیں کہہ کر لاجواب کردیا گیا ہے۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
مجاہدین اسلام کا لشکر اسکندریہ تک پہنچ گیا لیکن اس شہر کو محاصرے میں لینا ممکن ہی نہیں تھا، اس کا محل وقوع پہلے بیان ہوچکا ہے ۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے دو مقامات حلوہ اور قصر فاروس کے درمیان اپنے لشکر کو روک کر خیمہ زن کردیا ،خیمہ گاہ کے لئے وہ علاقہ موزوں تھا لیکن وہاں مسئلہ صرف خیمہ زن ہونے کا نہیں بلکہ اسکندریہ کو سر کرنا اصل مقصد تھا جو پورا ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔ لشکر نے شہر کے سامنے والی دیوار پر بےشمار منجیقیں دیکھیں۔
 عمرو بن عاص ان منجیقوں کی زد سے دور رہے۔
بڑے مضبوط اور مشہور قلعوں کو دیکھا گیا تھا جن پر برجیاں اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی اسکندریہ کی دیواریں پرتھی ان برجوں میں تیر انداز اور برچھیاں پھینکنے والے بالکل محفوظ تھے۔
عمرو بن عاص نے سالاروں کو اکٹھا کیا اور ان کے سامنے یہ سوال رکھیں کہ کیا رومی باہر آکر لڑیں گے؟ اگر انہوں نے یہ طریقہ اختیار نہ کیا تو اس شہر کو لینے کے لئے کیا تدبیر اختیار کی جائے ،اور کیا اسکندریہ نہ لینے کی صورت میں مسلمان پورے مصر پر قبضہ برقرار رکھ سکیں گے۔
سالاروں نے اپنے اپنے مشورے دیے اور تجاویز پیش کیں۔ عمرو بن عاص نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ،اس اجلاس میں یہ طے پایا کہ اللہ کی ذات سے مایوس نہیں ہونا چاہیے محاصرے کو طول دینا پڑا تو دینگے، اور روکنے کی کوشش کریں گے، اس طرح ہو سکتا ہے کہ رومی جرنیل اسے اپنی ذلت سمجھ لیں اور باہر آکر لڑیں۔
مجاہدین کو پورے دو مہینے رکنا پڑا کوئی رومی باہر نہ آیا، پہلے جتنے بھی قلعوں کو مجاہدین نے محاصرے میں لیا تھا وہاں رومیوں کی جنگی پالیسی یہ رہی تھیں کہ باہر آکر محاصرے پر حملہ کرتے تھے اور ان کی یہی پالیسی ان کی شکست کا باعث تھی، سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں سے کہا کہ اب رومیوں نے اپنا وہ طریقہ جنگ بدل دیا ہے لیکن یہ سوچ کر کے یہ شہر ناقابل تسخیر ہے اسے چھوڑا نہیں جا سکتا۔ مسلمانوں کو رسد کی جو ضرورت رہتی تھی وہ انہوں نے اردگرد کی بستیوں سے حاصل کرنی شروع کردی تھی۔
دو مہینوں بعد عمرو بن عاص نے ایک اور جگہ دیکھ لی جو انہیں خیمہ گاہ کے لئے اور جنگی نقطہ نظر سے بھی زیادہ موزوں نظر آئی، اس جگہ کا نام مقس تھا۔ انہوں نے سارے لشکر کو اس جگہ منتقل کردیا اور یہ نئی خیمہ گاہ بن گئی، یہ ایک وسیع اور غیر ہموار سا میدان تھا جس میں خیمے گاڑے گئے تھے، خیمہ گاہ سے ذرا ہی دور بائیں طرف ہری بھری ٹکریاں تھیں جن پر درخت بھی تھے اور ان کے نیچے بھی درختوں کی بہتات تھی، اسکندریہ شہر کی طرف سے بھی کوئی حرکت نہیں ہو رہی تھی نہ مجاہدین کوئی سرگرمی دکھا رہے تھے، اگر کچھ ہی رومی باہر آجاتے تو تھوڑی سی ہلچل برپا ہو جاتی لیکن دونوں طرف سکوت طاری تھا اور روز و شب بڑی تیزی سے گزرتے جا رہے تھے۔
چونکہ وہاں دشمن کا خطرہ نہیں تھا اس لئے مجاہدین خیمہ گاہ سے تھوڑی دور گھوم پھر آتے تھے ایک روز بارہ مجاہدین خیمہ گاہ سے نکل کر ٹکریوں والے علاقے میں چلے گئے وہاں ایسی اوٹ تھی کہ قلعے کے اندر سے کوئی نکل کر اس طرف خیمہ گاہ کی طرف آتا تو وہ نظر نہیں آ سکتا تھا یہ مجاہدین چلے تو گئے لیکن شام تک واپس نہ آئے، کوئی مجاہد کیمپ سے زیادہ غیر حاضر نہیں رہتا تھا، یہ مجاہدین واپس نہ آئے تو ان کے ساتھی ان کے پیچھے گئے۔
کچھ اور آگے گئے جہاں اوٹ زیادہ تھی وہاں مجاہدین کی لاشیں بکھری ہوئی نظر آئیں ان کے کپڑے خون سے لال تھے ان کے ہاتھوں میں تلواریں نہیں تھی، اس سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ رومی گھات میں تھے اور ان پر ایسا اچانک حملہ کیا کہ انہی نیاموں سے تلواریں نکالنے کی بھی مہلت نہ مل سکی، یہ بھی پتہ نہ چل سکا کہ ان کے قاتل کس طرف سے آئے تھے۔
لاشیں کیمپ میں آئی اور سپہ سالار کو اطلاع دی گئی، سپہ سالار اظہار افسوس کے سوا کر ہی کیا سکتے تھے دشمن سامنے ہوتا تو اس پر حملہ کرکے انتقام لیا جا سکتا تھا۔
 سپہ سالار کے حکم کے مطابق ٹکریوں پر پہرے کا انتظام کردیا گیا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ رات رومی کہیں ادھر سے آجائیں اور کیمپ پر حملہ کر کے نکل بھاگے ۔
دو مہینوں سے زیادہ عرصہ گزر گیا تھا ایک روز سپہ سالار عمرو بن عاص نے سالاروں کو بلایا۔
میرے رفیقو !،،،،،عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ کیا تم نے اپنے مجاہدین میں بیزاری کا تاثر نہیں دیکھا مجاہدین یہاں لڑنے آئے تھے لیکن اتنے عرصے سے بے کار پڑے ہیں، اب ان کے بارہ ساتھی شہید ہوگئے ہیں تو میں لشکر میں بے چینی اور بے قراری دیکھ رہا ہوں ،اگر ہم نے اسکندریہ کو محاصرے میں لے رکھا ہوتا تو پھر کسی کو اکتاہٹ نہ ہوتی مگر یہاں ہم صرف بے کار بیٹھے ہیں اور محاصرے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
یہ تو ہم بھی محسوس کر رہے ہیں ایک سالار نے کہا ۔۔۔کیا سپہ سالار بتائیں گے کہ اس کا علاج کیا ہو سکتا ہے ۔
میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ لشکر کو کچھ نہ کچھ مصروفیت ملنی چاہیے۔
میں ایک اور خدشہ محسوس کر رہا ہوں عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔۔کہیں ایسا نہ ہو کہ مجاہدین یہ سمجھنے لگے کہ سالاروں میں لڑنے کی تاب ہی نہیں رہی اور اب یہ زیادہ محتاط ہو گئے ہیں، اگر لشکر کی سوچ یہ ہے تو یہ مجاہدین کے جذبے کو مجروح کر دے گی، میں نے اس کا علاج سوچا ہے کہ اس علاقے میں جو شہر اور قصبے ہیں ان پر حملہ کر کے قبضہ کیا جائے، اس سے ہمیں وہ فائدے حاصل ہوں گے ایک تو لشکر کو ان کی من پسند مصروفیت مل جائے گی، اور دوسرا فائدہ یہ کہ ہم نے اگر اسکندریہ پر حملہ کیا تو ان شہروں میں جو فوج موجود ہے وہ ہم پر عقب سے حملہ کر سکتی ہے، ہوسکتا ہے ان فوجیوں کو یہی حکم ہوا ہو، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمیں جو عام شہری اور دیہاتی نظر آتے ہیں وہ فوجی ہی ہوں۔
تمام سالاروں نے سپہ سالار کی اس تجویز کے ساتھ اتفاق کیا اور اسی وقت حملوں کا پلان تیار کرلیا ،اس علاقے کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہر حصے میں چار چار پانچ پانچ قصبے یا شہر تھے، ہر ایک حصے پر حملے کرنے کے لئے سالار مقرر کردیئے گئے، جن کے نام تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں۔
 ایک تھے خارجہ بن حذافۃ العدوی ،دوسرے عمر بن وہاب حجمی ، اور تیسرے کا نام عقبہ بن عامر، دو مؤرخوں نے چوتھا نام بھی لکھا ہے۔ یہ نام ہے وردان، یہ عمرو بن عاص کا آزاد کیا ہوا غلام تھا پہلے اس کا ذکر گزر چکا ہے، یہ جنگوں میں علمبرادر ہوا کرتا تھا اور عمرو بن عاص کے بیٹے عبداللہ کے ساتھ رہتا تھا۔ تاریخ میں آیا ہے کہ وردان شجاعت والا مجاہد تھا ،اسے جنوبی علاقے کے دیہات میں بھیجا گیا تھا کہ اس علاقے کو رومی فوج سے پاک کر دے، جو اس نے بڑی خوش اسلوبی سے کر دیا تھا۔
سپہ سالار عمرو بن عاص خیمہ گاہ میں ہی رہے اور گھوم پھر کر اسکندریہ کو دیکھتے اور سوچتے رہے کہ اس پر حملہ کیا جائے تو کس سمت سے اور کس انداز سے کیا جائے۔ تینوں سالار اور وردان اپنی اپنی ذمہ داری کے علاقے میں مجاہدین کا ایک ایک دستہ لے کر چلے گئے۔
ان سب کی جنگی سرگرمیوں اور کارروائیوں کی روئیداد ایک ہی جیسی ہے ،یہاں بھی وہی بات سامنے آئی جو پہلے اکثر جگہوں پر آچکی تھی کہ ان رومی فوجیوں پر جو مختلف مقامات پر تھے مجاہدین کی دہشت طاری تھی بعض شہروں کے فوجیوں نے کچھ دیر مقابلہ کیا لیکن ہتھیار ڈال دیے ،اور بیشتر مقامات پر یوں ہوا کہ رومیوں نے بغیر لڑے ہتھیار ڈال دیے ،مجاہدین نے کسی پر بلاوجہ تشدد نہ کیا بلکہ ایسا رویہ اپنایا اور ایسا سلوک روا رکھا جیسے مجاہدین ان کے دشمن نہ ہوں بلکہ ان کے محافظ ہوں۔
سالاروں نے ہر جگہ اعلان کیا کہ ان میں سے جو بارضا و رغبت اسلام قبول کرلیں گے انہیں مسلمان اپنا بھائی سمجھیں گے اور وہ تمام مراعات کے حقدارہوں گے، اور جو اسلام قبول نہیں کریں گے ان پر کوئی جبر نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ انہیں جزیہ ادا کرنا پڑے گا۔ مورخوں نے لکھا ہے کہ کئی ایک عیسائی حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔
جن شہروں کے رومی فوجیوں نے مقابلہ کیا تھا اور مجاہدین کو کچھ نقصان پہنچا کر ہتھیار ڈالے تھے ان شہروں سے مال غنیمت اکٹھا کیا گیا جو سپہ سالار عمرو بن عاص نے وہی مجاہدین میں تقسیم کردیا یہ مال غنیمت اتنا زیادہ نہ تھا کہ اس کا ایک حصہ بیت المال کے لئے مدینہ بھیجا جاتا۔
تین مہینے گزر گئے اب یہ تبدیلی آئی کے رومی فوجیوں کی بہت تھوڑی سی نفری باہر آتی مجاہدین کو للکارتی اور لڑے بغیر واپس چلی جاتی، کچھ دنوں بعد چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ہونے لگی بہت تھوڑے رومی فوجی باہر آتے اور مجاہدین ان پر حملہ کرتے تو وہ رومی لڑتے ہوئے بڑی تیزی سے پیچھے ہٹتے اور پھر قلعے میں چلے جاتے تھے، مجاہدین دروازے تک پہنچنے کا خطرہ مول نہیں لیتے تھے کیونکہ دیوار سے تیر بھی آتے تھے اور برچھیاں بھی، اور منجیقوں سے پتھر بھی۔
ان جھڑپوں کا یہ اثر اور فائدہ ہوا کہ مجاہدین کے جسموں میں جان آگئی اور ان کی روحیں تروتازہ ہو گئیں، مجاہدین نے یہ توقع رکھیں کہ کسی دن رومی فوج کے دو چار دستے باہر آ کر ان پر حملہ کریں گے اور بڑے پیمانے کی لڑائی لڑی جائے گی اور ہو سکتا ہے شہر میں داخل ہونے کا موقع مل جائے لیکن ایسا نہ ہوا اور دن گزرتے چلے گئے۔
رومی فوجی بدستور بہت تھوڑی تعداد میں باہر آتے رہے اور ان کا انداز بتاتا تھا جیسے وہ مجاہدین کے لشکر سے مذاق کر رہے ہو یا وہ اس مقصد سے باہر آتے تھے کہ مجاہدین اتنا آگے آجائیں کہ اوپر سے تیر انداز انہیں واپس جانے کے قابل نہ چھوڑیں، ایک روز پھر رومیوں کی تھوڑی سی تعداد باہر نکلی اور اس روز تو انہوں نے مجاہدین کا بہت مذاق اڑایا اور مجاہدین کو رومی للکارنے لگے چند ایک مجاہدین دوڑے گئے کہ آج ان میں سے کسی کو واپس نہ جانے دیں گے لیکن رومی حسب معمول پیچھے ہٹ گئے اور مجاہدین تیروں کی زد میں آنے لگے۔
مجاہدین بغیر لڑے تیروں سے گھائل نہیں ہونا چاہتے تھے لیکن ایک مجاہد ایسا جوش میں آیا کہ وہ اپنے ساتھیوں سے زیادہ آگے نکل گیا وہ اکیلا تھا اور رومی زیادہ تھے رومیوں نے اسے گھیر کر پکڑ لیا اسے گرایا اور اس کا سر کاٹ کر دوڑتے ہوئے قلعے میں چلے گئے، وہ اس مجاہد کا سر اپنے ساتھ لے گئے تھے یہ مجاہد قبیلہ مہرہ کا تھا ۔
اس قبیلے کے بہت سے مجاہدین لشکر میں موجود تھے تین چار دوڑے گئے اور تیروں کی بوچھاڑوں میں جاکر اپنے ساتھی کی لاش اٹھا کر لے آئے، اس قبیلے کی کچھ اپنی ہی روایت تھی عام حالت میں ان کا انداز بڑا خوشگوار اور دوستانہ ہوا کرتا تھا ،لیکن میدان جنگ میں اس قبیلے کا ہر مجاہد سراپا قہر اور غضب بن جاتا تھا، اس قبیلے کے مجاہدین نے جب اپنے ساتھی کی لاش بغیر سر کے دیکھی تو انہوں نے اعلان کردیا کہ وہ اس شہید کی لاش سر کے بغیر دفن نہیں کریں گے ،اور اس کا سر لے کر آئیں گے ورنہ سب اپنے سر کٹوا دیں گے۔
 میں تمہارے اس جذبے کی بہت قدر کرتا ہوں۔۔۔۔ سپہ سالار عمرو بن عاص نے انہیں کہا۔۔۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ تم قلعے کے اندر جا کر ایسی لڑائی لڑو کے اپنے ساتھی کا سر لے آؤ اگر تم سب مارے گئے تو سوچو کہ لشکر کو کتنا نقصان پہنچے گا لشکر کی تعداد پہلے ہی کم ہے۔
 اس قبیلے کے مجاہدین پر اپنے سپہ سالار کی اس بات کا کچھ اثر نہ ہوا وہ اپنی اس سے ضد پر ڈٹے رہے کہ شہید کا سر لا کر ہی اسے دفن کریں گے ۔
پھر یوں کرو۔۔۔ عمرو بن عاص نے انھیں کہا۔۔۔ بہادری یہ نہیں کہ اندھا دھن پاگلوں کی طرح دیوار کے ساتھ جا ٹکراؤ اور مارے جاؤ تمہیں اس کا سر نہیں ملے گا بہادری یہ ہے کہ اب رومی باہر آئیں تو ان میں سے کسی کا سر کاٹ لاؤ۔ اس طرح تم سر کے بدلے سر لے آؤ گے۔
 یہ بات اس قبیلے کے مجاہدین کے پلے پڑ گئی انہوں نے عہد کر لیا کہ اپنے ساتھی کے سر کے بدلے سر لائیں گے ۔
تاریخ میں اس واقعے کے بیان کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ سپہ سالار عمرو بن عاص نے کہا تھا کہ بنو مہرہ قتل کرنا جانتے ہیں قتل ہونا نہیں جانتے۔ ایک ہی روز بعد کچھ رومی فوجی حسب معمول ایک دروازے سے باہر نکلے اور مجاہدین کو للکارنے اور ان کا مذاق اڑانے لگے ،بنومہرہ کے چند ایک مجاہدین آگے گئے اور اس انداز سے آگے گئے جیسے انکا لڑنے کا ارادہ نہ ہو، رومیوں نے جب ان کا ٹھنڈا ٹھنڈا سا انداز دیکھا تو وہ اور آگے آ گئے، یکلخت بنو مہرہ کے مجاہدین رومیوں پر جھپٹ پڑے رومی بغیر لڑے بھاگ اٹھے لیکن مجاہدین نے ان میں سے ایک کو پکڑ لیا اور اسے وہیں گرا کر اس کا سر کاٹا اور سر کو تلوار کی نوک پر اڑس کر بلند کیا اور تکبیر کے نعرے لگاتے واپس آگئے ۔اب انہوں نے سپہ سالار سے کہا کہ ان کے شہید ساتھی کا جنازہ پڑھیں اور اسے دفن کروا دیں۔
جنازہ پڑھا گیا اور شہید کو پورے اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا رومی کے جسم سے کاٹا ہوا سر دور پھینک آئے۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=*
بزنطیہ کونستانس، جنرل اقلینوس ،اور دوسرے جرنیل مصر کی مخدوش صورتحال کے متعلق بہت پریشان تھے، اور ہر لمحہ کسی پیغام کے منتظر رہتے تھے انہیں سلطنت روم کا بڑا ہی برا انجام صاف نظر آنے لگا تھا۔
ادھر مرتینا تھی جو کچھ اور ہی سوچوں میں غرق پیچ و تاب کھا رہی تھی، یہ چوٹ اس کے لئے قابل برداشت نہیں تھی کہ اس کے بیٹے کے ساتھ جرنیلوں نے اور فوج نے بہت برا سلوک کیا تھا، اور اس کا حکم ماننے سے انکار کردیا تھا، مرتینا کے تو خواب چکنا چور ہوگئے تھے وہ نیند میں ہوتی یا بیدار تخت و تاج کے ہی خواب دیکھا کرتی تھی، وہ قیرس سے مایوس ہوچکی تھی ،بزنطیہ کے تخت و تاج سے مایوس ہو گئی تھی، اور اس نے خود جو چالیں چلی تھی وہ بھی ناکام رہی، اور اب اسے ہر سو مایوسی ہی مایوسی نظر آتی تھی، وہ اب آخری حربہ پر اتر آئی۔
رومی جرنیلوں اور مذہبی پیشواؤں کو معلوم ہوگا ہی کے باہر کے بڑے ہی طاقتور دشمن کی نسبت اندر کا کمزور سا دشمن بھی بہت ہی خطرناک ہوتا ہے ،لیکن انہیں شاید یہ اندازہ نہ تھا کہ مرتینا وہ دشمن ہے جو شاہی محل کی آستین میں بیٹھ کر اپنی ہی سلطنت کو ڈس سکتی ہے، اور یہ بہت ہی زہریلی ناگن ہے۔
مرتینا کی ایک خاص ملازم ربیکا تھی ، عالم شباب میں تھی اور بڑی ہی پرکشش لڑکی تھی ،مرتینا نے اسے کہیں دیکھا تھا ایک تو اس کی شکل و صورت اور جسمانی حسن سے متاثر ہوئی ،اور جب اس کے ایک دو جوہر اور دیکھے تو مرتینا اسے شاہی محل میں لے آئی، دو چار دنوں میں ہی مرتینا نے دیکھ لیا کہ یہ بڑی ہی ذہین اور ہر ڈھنگ کھیلنے والی لڑکی ہے ۔بڑی ہی خوشگوار طبیعت والی تھی۔ مرتینا تو اس پر فریفتہ ہو گئی تھی چند دنوں میں ہی ربیکا نے مرتینا کے دل میں وہ مقام پیدا کر لیا جو کوئی رازدار سہیلی ہی پیدا کرسکتی ہے۔ مرتینا نے بخوشی اسے اپنی رازدان بنا لیا ،کچھ اور دن گزرے تو مرتینا نے صاف طور پر محسوس کیا کہ یہ لڑکی جو شکل و صورت سے ہنس مکھ بھولی بھالی اور معصوم سی لگتی ہے دراصل بڑی کھلاڑی لڑکی ہے، اور اس کے جال میں آیا ہوا شخص نکل نہیں سکتا ،مرتینا کو ایسی ہی ملازمہ کی ضرورت تھی۔
مرتینا کی عمر پچاس برس سے کچھ اوپر ہو گئی تھی، لیکن اپنی جوانی کو یا جوانی کے جذبات کو اس نے زندہ و بیدار رکھا ہوا تھا، وہ ایک بدکار عورت تھی اس نے ایک دو آدمیوں کے ساتھ خفیہ دوستی لگا رکھی تھی، ربیکا اس کے لیے کبھی کبھی کوئی بڑا ہی خوبرو اور جواں سال آدمی لے آتی تھی، یہ شاہی محل کا کردار تھا جسے معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔
پھر مرتینا کو ربیکا اس وجہ سے بھی اچھی لگتی تھی کہ اس کا بیٹا ہرقلیوناس ربیکا کا شیدائی ہو گیا تھا ، ربیکا بڑی خوشی سے ہرقلیوناس کی داشتہ بن گئی تھی۔ ہرقلیوناس کو تو ربیکا انگلیوں پر نچا رکھتی تھی، اور وہ نوجوان اسی میں بہت خوش ہوتا تھا۔
مرتینا سے ربیکا کو پتہ چلا کہ فوج نے ہرقلیوناس کو دھتکار دیا ہے، اور فوج اس سے باغی ہو گئی ہے، تو ربیکا نے مرتینا سے کہا کہ اب اس جادو گرنی کو آزما ہی لیا جائے۔
 تینوں کو ربیکا کی یہ تجویز پسند آگئی اور اس نے ربیکا سے کہا کہ وہ اس کے پاس جائے اور اسے بتائے کہ ہم کیا چاہتے ہیں اگر وہ یہ کام کر سکتی تو اسے اپنے ساتھ لے آئے۔
 ربیکا ان دنوں امید سے تھی اور چند ہی دنوں بعد ماں بننے والی تھی بچے کی پیدائش میں کچھ دن ہی باقی تھے۔
مجھے ایک بچے کی خواہش بہت ہی پریشان رکھتی تھی۔۔۔ ربیکا نے مرتینا سے کہا۔۔۔ یہ تو میں بھی جانتی تھی کہ شادی ہو گئی تو بچہ بھی ہو جائے گا لیکن میں آپ کی ملازمت میں آگئی اور آپ کے بیٹے کو دیکھ کر شادی کا خیال دل سے نکال ہی دیا ، آپ کے بیٹے نے مجھے اپنی داشتہ بنا لیا، اڑائی تین سال گزر گئے بچے کے آثار نظر نہ آئے، آخر میں اس جادو گرنی کے پاس گئی اس نے ناجانے کیا عمل کیا اب آپ دیکھ رہی ہیں کہ میں ماں بننے والی ہوں، مجھے امید ہے کہ یہ عورت آپ کی ہر خواہش پوری کر دی گی۔
وہ ایک بوڑھی عورت تھی جو بزنطیہ کی ایک مضافاتی بستی میں رہتی تھی ،وہ جادوگرنی کے نام سے مشہور تھی اس کے پاس شیشے کا ایک گولا تھا جس میں سے روشنی گزرتی تو کئی رنگ نظر آتے تھے، لوگوں کے چہرے اور ہاتھ دیکھتی اور پھر اس گولے میں جھانکتی اور بتاتی تھی کہ اس کا مستقبل کیسا ہوگا ،لوگ پورے یقین کے ساتھ کہتے تھے کہ بگڑی ہوئی قسمت کو سنوار دیتی اور تاریک مستقبل کو درخشندہ کر دیتی ہے، لیکن وہ معاوضہ اتنا زیادہ لیتی تھی جو کوئی عام آدمی ادا نہیں کر سکتا تھا،،،،،،، اس کے ہاتھ میں کوئی ایسی طاقت تھی یا نہیں یہ ایک الگ بات ہے لیکن حالات کے پٹے ہوئے لوگوں کے لئے وہ آخری سہارا تھی۔
مرتینا اور ربیکا جیسے انسان اس قسم کے جادوگروں اور قسمت سنوارنے والوں کا بڑا آسان شکار ہوا کرتے ہیں، یہ لوگ اپنے کردار اور اپنے ذہنوں میں اپنی نیتوں کو سنوارنے کی بجائے اپنی قسمت سنوارنے کے لیے جوتشوں اور جادوگروں کے قدموں میں جا گرتے ہیں، مرتینا نے بھی شاید اس جادو گرنی کی شہرت سنی ہوگی، اگر نہیں سنی تھی تو ربیکا نے ایسی تصویر پیش کی کہ مرتینا نے اسے کہا کہ اس جادوگرنی کو کسی ایسے وقت اس کے پاس لے آئے جب کوئی دیکھ نہ سکے۔
اگلی ہی رات یہ جادو گرنی مرتینا کے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی، ربیکا اسے مرتینا کے پاس بٹھا کر باہر نکل گئی تھی تاکہ مرتینا تنہائی میں اس کے ساتھ دل کی باتیں کر سکے ،مرتینا نے پہلے تو اس جادو گرنی کا حال اور حلیہ دیکھا ۔ایک تو بڑھاپے نے اس کے چہرے پر رونق نہیں رہنے دی تھیں، اور چہرے پر ٹیڑھی میڑھی لکیریں پیدا ہوگئی تھیں ویسے بھی اس کا چہرہ مکروہ سا تھا، اور رنگ بالکل سیاہ اس نے سر پر میلا کچیلا رومال باندھ رکھا تھا ،اس کے بال رسیوں جیسے تھے، لباس عجیب و غریب تھا، جسے بیان کرنا بھی کسی کے لیے آسان نہ تھا۔
اس نے شیشے کا گولا اپنے سامنے رکھ لیا اس کے ہاتھ میں دو فٹ لمبا ایک ڈنڈا تھا جس پر کئی رنگوں کے کپڑے لپٹے ہوئے تھے، اور اس کے دونوں سروں میں پرندوں کے رنگ برنگے پر اڑسے ہوئے تھے، ڈنڈے کے ساتھ چھوٹی چھوٹی گھنٹیا اور تین چار گھنگرو بندھے ہوئے تھے ،اس عورت کی آنکھیں گہری لال اور ہونٹ گہرے زرد تھے، وہ کراہت کا جیتا جاگتا مجسمہ تھی۔
بول ملکہ ۔۔۔۔جادوگرنی نے مرتینا سے کہا۔۔۔ حاجت مندوں کی جھولیاں بھر دینے والی ملکہ کو ایسی کونسی حاجت آن پڑی ہے کہ مجھے بلایا ہے، لوگ کہتے ہیں کہ رعایا کی قسمت ان کے بادشاہوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے ۔
لیکن بادشاہوں کی اپنی قسمت نہ جانے کس کے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔۔۔۔مرتینا نے کہا۔۔۔ اگر تو میری تین مرادیں پوری کر دے تو اتنا سونا تجھے دوں گی جو تو اٹھا نہیں سکے گی، تو میری قسمت سنوار دے اور میں تیری کایا پلٹ دونگی۔
بول کیا چاہتی ہے۔۔۔ جادوگرنی نے کہا۔
کونستانس مرجائے۔۔۔ مرتینا نے کہا۔۔۔ سلطنت روم کی ملکہ بن جاؤ ،یا میرا بیٹا تخت نشین ہو، اور تیسری مراد یہ کہ مصر سے مسلمان بھاگ جائیں، اور مصر روم کی سلطنت سے نہ نکلے،،،،،، کیا تو اتنی طاقت رکھتی ہے۔
دیکھ کر بتاؤں گی۔۔۔۔ جادوگرنی نے جواب دیا۔ اور مرتینا کے چہرے کو بڑے غور سے دیکھنے لگی، پھر بولی میری زبان سے کوئی ایسی ویسی بات نکل جائے تو مجھے معاف کر دینا ،بھول جانا کہ تو ملکہ ہے اور میں تیری رعایا ہوں ،تیرے سامنے وہ آئے گا جو اس شیشے میں دکھائی دے گا، بات کہیں اور سے آئے گی جو میری زبان سے تیرے کانوں تک پہنچے گی۔
 جو جی میں آئے کہہ دے۔۔۔ مرتینا نے کہا۔۔۔ میں جو چاہتی ہوں وہ ہوجائے، تو جو جی میں آئے مجھے کہہ دے۔
بوڑھی جادوگرنی مرتینا کے چہرے پر نظریں گاڑے ہوئے تھی ،اس کے مکروہ چہرے پر کچھ اور ہی طرح کی سنجیدگی آ گئی تھی، یوں لگتا تھا جیسے اس کے چہرے کے خدوخال تبدیل ہو رہے ہیں ،اس نے اچانک اپنا ایک ہاتھ آگے بڑھایا اور مرتینا کا دایاں ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور ہاتھ کو پھیلا کر دیکھنے لگی، اب جادوگرنی پر کچھ ایسی کیفیت طاری ہو گئی تھی کہ اس کی سانسیں اکھڑ نے لگی تھی، پھر یوں ہوا جیسے وہ پھنکار رہی ہو۔
ہے تو بھی جادو گرنی۔۔۔ جادوگرنی نے کہا۔۔۔ لیکن کسی جگہ تیرا پاؤں پھسل گیا اور تو منہ کے بل گری ،قسمت ان کی چمک اٹھی جنہوں نے اپنی عقل اور سوچ کو ٹھکانے رکھا، کوئی راستہ نکل ہی آئے گا ۔اس نے مرتینا کا ہاتھ یوں اس کی طرف دھکیل دیا جیسے کوئی بیکار سی چیز پرے پھینک دی ہو ۔ اس نے گولے میں جھانکنا شروع کر دیا اور اس کے ساتھ ہی ڈنڈا ہاتھ میں لے لیا وہ گولے پر جھکی ہوئی تھی اور اس کا چہرہ نہایت آہستہ آہستہ گولے کی طرف جا رہا تھا جیسے کسی چیز کو بہت قریب سے دیکھنا چاہتی ہو۔
اس نے یکلخت اپنا سر یوں پیچھے کیا جیسے گولے نے اسے ڈس لینے کی کوشش کی ہو، اب تو اس کا چہرہ اور ہی زیادہ مکروہ ہو گیا تھا ،اس نے ڈنڈے کا سرا گولے پر پھیرا اور ایک بار گولے کو ہلکی سی ضرب لگائی ،اس کے ہاتھ کانپنے لگے ہاتھ کانپے تو ڈنڈا بھی تھرتھرانے لگا اور گھنٹیا اور گھنگرو بجنے لگے۔
اس کے ہاتھوں کا رعشہ زیادہ ہونے لگا، اور پھر اس کا پورا جسم کانپنے لگا وہ اچانک اٹھ کھڑی ہوئی اور سر سے پاؤں تک تھرتھرانے لگی، اس کا منہ اس طرح کھل گیا تھا کہ سارے دانت نظر انے لگے تھے، اس کی نظریں گولے پر لگی ہوئی تھی ،ذرا دیر بعد یوں لگا جیسے جادوگرنی کھڑے کھڑے ناچ رہی ہو ،مرتینا پر خوف طاری ہونے لگا۔
اس کے وجود کا رعشہ اتنا بڑھ گیا تھا کہ شک ہوتا تھا کہ بے ہوش ہو کر گر پڑے گی۔ گھنٹیوں اور گھنگروؤں کی جھنکار ڈراونی سی ہوتی جارہی تھی، خاصی دیر بعد اس کا پھڑکنا ذرا کم ہونے لگا ،اور کم ہوتے ہوتے اس کا جسم اپنی قدرتی حالت میں آگیا ،اس نے منہ چھت کی طرف کرکے کھولا اور منہ سے بڑی لمبی ہُو جیسی آواز نکالی، پھر اس نے بڑی دور سے ڈنڈا دو چار مرتبہ ہوا میں گھمایا جیسے کسی کو مار رہی ہو ،اس کے بعد دوسرا ہاتھ ہوا میں اوپر کرکے یو گھومانے پھرانے لگی اور بار بار اس طرح مٹھی بند اور کھولنے لگی جیسے ہوا کو یا ہوا میں کسی چیز کو پکڑنے کی کوشش کر رہی ہو، آخر وہ بیٹھ گئی اور پھر شیشے کے گولے میں جھانکنے لگی۔
ہوجائے گا۔۔۔ اس نے لرزتی کانپتی آواز میں کہا۔۔۔ کچھ نہ کچھ ہو جائے گا، ایک بچہ چاہیے عمر ایک مہینے سے زیادہ نہ ہو، کچھ نہ کچھ ہاتھ آ ہی جائے گا۔
 کیا کہا ؟،،،،،مرتینا نے پوچھا۔۔۔ ایک بچہ چاہیے؟ عمر ایک مہینے سے زیادہ نہ ہو۔
ہاں ملکہ!،،،،،،، جادو گرنی نے ہانپتی کانپتی سانسوں کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔مجھے ایک بچہ دے دے جس کی عمر ایک مہینے سے دوچار دن کم ہو ،میں اپنے گھر میں اسے کچھ دن رکھونگی اور اس پر کچھ عمل کروں گی یہ عمل مکمل کر کے بچے کا دل نکال لوں گی پھر اس دل پر اپنا کچھ کام کرکے اسے ناگن کو کھلا دوں گی۔
ایک تو جادو گرنی کی شکل و صورت بھی مکروہ اور ڈراؤنی سی تھی، اور پھر اس کا حلیہ اور ہی زیادہ کراہت آمیز تھا ،اور اس کے بولنے کا انداز تو بالکل ہی غیر فطرتی تھا ، اس نے جب یہ کہا کہ وہ بچے کا دل اپنے ناگن کو کھلا دی گی تو مرتینا جیسی شیطان فطرت عورت بھی لرز گئی، اس نے گھبرائی ہوئی نگاہوں سے جادو گرنی کی طرف دیکھا۔
بچے کی تلاش کوئی مشکل نہیں۔۔۔ جادو گرنی نے کانپتی ہوئی سرگوشی کی،،،،،، تیری قسمت تیرے اپنے ہاتھوں میں آ جائے گی بچہ تیرے گھر میں موجود ہے، چند دنوں بعد تجھے مل جائے گا، ربیکا کو بچہ پیدا ہونے والا ہے ۔
،،نہیں؛، نہیں،،،، مرتینا نے کہا۔۔۔ ربیکا اپنا بچہ نہیں دے گی، یہ لڑکی تو ایک بچے کی خاطر مری جا رہی تھی اسے ایک بچے کی بہت ہی خواہش تھی ،اس نے مجھے بتایا تھا کہ تیرے ہی عمل سے اسے یہ بچہ ملا ہے، میں تجھے یہ بھی بتا دیتی ہوں کہ یہ میرے بیٹے کا بچہ ہے 
یہ تو بہت اچھا شگون ہے۔۔۔ جادو گرنی نے کہا۔۔۔ اس بچے میں تیرا خون ہے یہ تیری کایا پلٹ دے گا ۔ پرایا بچہ ذرا مشکوک ہوتا ہے، ربیکا سے یہ بچہ خرید لے تیرے پاس خزانہ ہے اور خزانوں میں کوئی کمی نہیں۔
 نہیں دے گی۔۔۔ مرتینا نے کہا۔۔۔ میں حکم دے کر اس سے بچہ لے سکتی ہوں لیکن حکم نہیں دونگی اس لڑکی کے ساتھ مجھے بہت پیار ہے میں اس کا دل نہیں دُکھاؤ نگی۔
پھر اپنی مرادیں اور خواہشیں دل سے پھینک دے ۔۔۔جادو گرنی نے کہا ۔۔۔ملکہ کو اتنا رحم دل نہیں ہونا چاہیے، قلوپطرہ بن جا اور دل سے رحم وکرم نکال پھینک، بچہ چوری کروا اور مجھ تک پہنچا دے، یہی بچہ موزوں ہے، ربیکا کو پتہ نہ چلنے دینا کہ میں نے بچہ مانگا ہے۔
مرتینا گہری سوچ میں کھو گئی وہ کوئی رحم دل عورت نہیں تھی، لیکن آخر عورت تھی اس کی ذات میں ممتا موجود تھی، ایک معصوم بچے کا دل ناگن کو کھلا دینا ۔ اسکے تصور آتا ہی نہیں تھا، اور اگر آیا بھی تو وہ سر سے پاؤں تک کانپ گئی۔ جادوگرنی کچھ نہ کچھ بولے جا رہی تھی اس نے مرتینا کو بتایا کہ اس نے سانپ پالے ہیں تین سانپ ہیں اور تینوں بڑے زہریلے ہیں، ان میں ایک ناگن ہے اور اس ناگن نے اسکی کئی مرادیں آسان کی ہیں۔
مرتینا نے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کرنا شروع کردیا کہ وہ ربیکا کا بچہ جادوگرنی کو دے دی گی، اس نے جب تصور میں اپنے آپ کو ملکہ کے روپ میں دیکھا تو وہ ممتا اس کے وجود میں ہی کہیں گم ہو کر غائب ہو گئی۔ اس نے جادوگرنی کو بتایا کہ ربیکا کا بچہ اسے مل جائے گا، جادوگرنی اسے یہ یقین دلا کر اٹھی کہ اس کی تینوں مرادیں پوری ہو جائیں گی، بشرطیکہ بچہ اس تک پہنچا دیا جائے۔
مرتینا نے جادوگرنی کو کچھ انعام دیا اور کہا کہ کام ہو جانے پر وہ اس پر خزانہ لوٹا دے گی، جادوگرنی رخصت ہوگئی اور ربیکا دوڑی دوڑی مرتینا کے پاس آئی۔
کیا کہتی ہے؟،،،،، ربیکا نے مرتینا سے پوچھا۔۔۔ کیا آپ کا کام ہو جائے گا۔
 ہاں ربیکا!،،،،،، مرتینا نے جواب دیا ۔۔۔ہوجائے گا۔
ربیکا ملازموں کے کمروں میں رہنے والے کمروں میں سے ایک کمرے میں رہتی تھی، وہ مرتینا کی خاص اور معتمد ملازمہ تھی اور ہرقلیوناس کی داشتہ تھی۔
دس بارہ دن ہی گزرے ہونگے کہ ربیکا کا بچہ پیدا ہوا، مرتینا نے شاھی دائی کو ربیکا کی خدمت پر لگا دیا تھا۔ مرتینا بھی اور ہرقلیوناس اسے دیکھنے کے لئے اس کے کمرے میں گئے ،اور اس کے آرام و آسائش کو اچھی طرح دیکھا بڑا خوبصورت اور پھول جیسا بچہ تھا ،ربیکا تو بہت ہی خوش تھی کہ اس کی ایک خواہش پوری ہو گئی ہے۔
ربیکا بچے کی پیدائش پر اس قدر خوش تھی کہ بیس دن ہی گزرے تھے کہ نارمل حالت میں آکر مرتینا کے پاس جا پہنچی اور روزمرہ کے کام کاج میں مصروف ہوگئی ۔کبھی وہ بچہ اپنے ساتھ لے آتی تھی اور کبھی اپنے کمرے میں ہی سوتا چھوڑ آتی تھی ۔
ایک رات ربیکا کام سے فارغ ہو کر اپنے کمرے میں چلی گئی، کچھ ہی دیر بعد مرتینا نے اسے پھر بلوا لیا ،اور جب ربیکا آئی تو اسے کسی کام میں لگا دیا اور ساتھ ساتھ اس کے ساتھ باتیں بھی کرتی رہی، اسے کم و بیش ایک گھنٹہ اپنے ساتھ رکھا اور پھر اسے فارغ کیا ،ربیکا چلی گئی۔
تھوڑی ہی دیر بعد ربیکا چیختی چلاتی اور روتی ہوئی مرتینا کے پاس دوڑتی آئی، مرتینا گھبرا کر اٹھی اور پوچھا کیا ہوگیا ہے ؟
میرا بچہ غائب ہو گیا ہے۔۔۔ ربیکا نے چلاتے ہوئے کہا ۔۔۔میں اسے سوتا چھوڑ آئی تھی۔
مرتینا اور ہرقلیوناس دوڑے گئے اور انہوں نے بھی دیکھا کہ بچہ غائب ہے۔ مرتینا نے ہنگامہ بپا کردیا اور تمام ملازموں کو جگا کر اکٹھا کیا اور حکم دیا کہ بچے کو تلاش کریں، ہرقلیوناس سب کو گالیاں دے رہا تھا، صرف مرتینا کو معلوم تھا کہ بچّہ کہاں ہے۔

#جاری_ہے
#محمدسکندرجیلانی

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.