Ads Top

Aur Neil Behta Raha By Inyat Ullah Altamish Episode No. 68 ||اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش قسط نمبر 68

Aur Neel Behta Raha
 By
Annyat Ullah Altamish

اور نیل بہتا رہا
از
عنایت اللہ التمش

Aur Neel Behta Raha  By  Annyat Ullah Altamish  اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش

 #اورنیل_بہتارہا/عنایت اللہ التمش
#قسط_نمبر_68

#مدینہ* منورہ میں خوشیاں منائی جارہی تھیں ،اور بزنطیہ میں صف ماتم بچھ گئی تھی، کریون کی فتح کی اطلاع مدینہ منورہ اور بزنطیہ تقریباً ایک ھی وقت پہنچی تھی۔
 مدینہ میں امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اعلان کیا تھا کہ مسجد میں اکٹھے ہوجائیں مصر کے محاذ کی خبر آئی ہے۔
 لوگوں کے کان محاذوں کی خبر کی طرف ہی لگے رہتے تھے اس وقت مصر ایک ایسا محاذ تھا جو لوگوں کی دعاؤں کا مرکز بنا ہوا تھا۔ سب جانتے تھے کہ مجاہدین کی تعدادبہت ہی تھوڑی ہے اور رومیوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے، مدینہ کے لوگوں کو یہ بھی معلوم تھا کہ تمام بزرگ صحابہ کرام مصر پر فوج کشی کے خلاف تھے، امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سپہ سالار عمرو بن عاص کو اجازت دے دی تھی لیکن ان کا ذہن بھی ایک مقام آکر بٹ گیا تھا۔ یہ تو اللہ کا خاص کرم تھا اور سپہ سالار عمرو بن عاص کی غیر معمولی قوت ارادی اور عسکری قابلیت کا کرشمہ تھا کہ مصر سے پیش قدمی اور فتح کی ہی خبریں آرہی تھیں۔
مصر سے جب قاصد کوئی اطلاع لے کر آتا تھا تو یہ اطلاع اگر فتح کی ہوتی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ لوگوں کو مسجد میں اکٹھا کرکے قاصد سے کہتے تھے کہ وہ پیغام سنائے۔ کریون کی فتح کا پیغام بھی لوگوں کو سنایا گیا، پھر قاصد نے زبانی بتایا کہ کریون کس طرح غیر معمولی کارنامے کرکے فتح کیا گیا ہے۔
یا اللہ میرے سارے خدشے غلط ثابت کرے ۔۔۔۔یہ آواز حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کی تھی۔۔۔ انہوں نے مصر پر فوج کشی کی سب سے زیادہ مخالفت کی تھی وہ کہتے تھے کہ اپنے پاس نفری بہت تھوڑی ہے اور اصل خطرہ یہ ہے کہ عمرو بن عاص ،خالد بن ولید سے زیادہ خطرہ مول لینے والے خود سر سپہ سالار ہیں، یہ سپہ سالار کہیں جا کر پورے لشکر کو یقینی موت کے منہ میں لے جائے گا، لیکن اب حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ایک اور انتہائی مضبوط قلعے کی فتح کی خبر سنی تو دونوں ہاتھ پھیلا کر بلند آواز سے بولے۔۔۔ یا اللہ میرے سارے خدشے غلط ثابت کردے، اور میری یہ دعا بھی سن اور قبول کرلے کہ عمرو بن عاص اسکندریہ بھی فتح کر لے۔
امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ شکرانے کے نفل باجماعت ادا کیے اور پھر سب سے کہا کہ روح کی گہرائیوں سے مجاہدین کی کامیابی کی دعا کریں۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔÷=÷*
مصر کے دارالحکومت اسکندریہ سے جب ب کریون کی شکست کا پیغام سلطنت روم کے دارالحکومت بزنطیہ پہنچا تو کونستانس تڑپ اٹھا، اس کے جواں سال چہرے کا اتنا اچھا رنگ پھیکا پڑ گیا، ہرقل کی بیوہ مرتینا کا بیٹا ہرقلیوناس بھی وہاں موجود تھا ۔
مرتینا کو پتہ چلا کہ مصر سے قاصد کوئی پیغام لایا ہے تو وہ بھی دوڑی دوڑی پہنچ گئی تھی۔
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ کونستانس اور ہرقلیوناس مل کر حکمرانی کے فرائض سر انجام دے رہے تھے ،مرتینا اب ملکہ نہیں تھی اور نہ ہی حکومت کے کاموں میں اس کا کوئی عمل دخل تھا، کریون کی شکست کی اطلاع پر مرتینا اور اس کے بیٹے ہرقلیوناس کا ردعمل ٹھنڈا ٹھنڈا سا تھا ،کونسٹانس کا ردعمل تو سب کو صاف نظر آ گیا تھا اس نے جرنیلوں اور مشیروں کو فوراً بلوا لیا۔
اب صرف اسکندریہ رہ گیا ہے۔۔۔ کونستانس نے جرنیلوں اور مشیروں کو پیغام سنا کر کہا۔۔۔ آپ کہیں گے کہ اسکندریہ تو بڑا ہی مضبوط قلعہ ہے اور مسلمانوں کی نفری اتنی تھوڑی ہے کہ وہ اسکندریہ نہیں لے سکیں گے، اگر آپ ایسا کہیں گے تو میں اسے ایک خوش فہمی سمجھوں گا ،جنہوں نے بابلیون اور کریون جیسے مضبوط قلعہ بند شہر فتح کرلیے ہیں وہ اسکندریہ کو بھی فتح کر سکتے ہیں ،اسکندریہ سے وہ بحیرہ روم عبور کر کے سیدھے بزنطیہ پر آئیں گے ۔
ایسا نہیں ہوگا ۔۔۔۔ایک جنرل نے کہا ۔۔۔مسلمان جہاز رانی میں صفر ہیں، انھیں جہاز رانی کا ذرا سا بھی تجربہ نہیں۔
شاہ کونستانس کا یہ خدشہ بجا ہے۔۔۔ افواج کے سپریم کمانڈر جنرل اقلینوس نے کہا ۔۔۔عرب کے یہ بدوّ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں کوئی کم عقل لوگ نہیں وہ ہمارے ہی جہاز رانوں کو استعمال کریں گے قبطی بھی ان کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں، ان میں جہاز ران بھی ہونگے وہ مسلمانوں کو بحیرہ روم پار کرا دیں گے، ہمیں اب یہ سوچنا ہے کہ اسکندریہ مسلمانوں سے کس طرح بچایا جائے، اس پیغام میں صاف لکھا ہے کہ مسلمانوں کا رخ اسکندریہ کی طرف ہے ۔
مزید کمک دی جائے۔۔۔ مرتینا نے کہا۔
 تمام جرنیلوں اور مشیروں نے مرتینا کی طرف ایسی نگاہوں سے دیکھا جیسے انہیں وہاں مرتینا کی موجودگی پسند نہ ہو، لیکن وہ چپ رہے۔ 
مزید کمک نہیں بھیجی جاسکتی ۔۔۔کونستانس نے کہا ۔۔۔ہمیں بزنطیہ کا دفاع مضبوط کرنا ہے۔
اور جو کمک بھیجی جاچکی ہے وہ کچھ کم نہیں ۔۔۔جنرل اقلینوس نے کہا ۔۔۔ہمیں یہ حقیقت قبول کر لینی چاہیے کہ ہماری فوج لڑنے کا جذبہ کھو چکی ہے اور ہم مصر مسلمانوں کے حوالے کر چکے ہیں، پھر بھی ہمیں اس صورتحال کا سامنا کرنا، اور اس کا کوئی علاج سوچنا پڑے گا۔
میرا ایک مشورہ ہے ۔۔۔۔ہرقلیوناس بولا۔۔۔۔کونستانس اسکندریہ چلا جائے اور خود نگرانی کرے۔
جس طرح مرتینا کا بولنا کسی کو اچھا نہیں لگا تھا اسی طرح ہرقلیوناس کے اس مشورے پر سب کے چہروں پر بیزاری کا تاثر آگیا اور کسی ایک نے بھی اس مشورے کے خلاف یا حق میں بات نہ کی، سب جانتے تھے کہ مرتینا اپنے بیٹے ہرقلیوناس کو سلطنت روم کے تخت پر بٹھانے کے جتن کر رہی تھی، اپنی اسی خواہش کی تکمیل کی خاطر اس نے ہرقل کو زہر دے کر مارا تھا اور قسطنطین کو بھی اس نے اس حکیم سے زہر دلوایا تھا جو اس کا بیماری کے دوران علاج کر رہا تھا ،وہ اب چاہتی تھی کہ کونستانس بزنطیہ سے چلا جائے اور ہرقلیوناس بزطیہ میں تخت نشین رہے۔
پہلے گزر چکا ہے کہ یہ فیصلہ بڑوں نے مل کر کیا تھا کہ کونستانس اور ہرقلیوناس مل کر حکمرانی کے فرائض سرانجام دیں، ہرقلیوناس کے اس مشورے کے پیچھے کہ کونستانس مصر چلا جائے جو ذہنیت کارفرما تھی اسے سب سمجھتے تھے اسی لئے کسی نے بھی اس کو توجہ نہ دی۔
جنرل اقلینوس نے مشورہ دیا کہ ابھی پیغام لکھوا کر اسی قاصد کے ہاتھ اسکندریہ بھیج دیا جائے، مصر میں جو رومی فوج تھی اس کا کمانڈر انچیف جنرل تھیوڈور تھا۔ 
ہر عقل کا بنایا ہوا اسقف آعظم قیرس بھی یہ ذمہ داری لے کر اسکندریہ گیا تھا کہ وہ مصر کی جنگ کی نگرانی کرے گا اور کمک کی تقسیم خود کرتا رہے گا، آخر یہ طے پایا کہ جنرل تھیوڈور اور قیرس کے نام مشترکہ پیغام لکھا جائے۔
 پیغام اسی وقت لکھوایا جانے لگا ۔
مختلف مؤرخوں نے اس پیغام کے مختلف حصے لکھے ہیں اور باقی پیغام کا لب لباب تاریخ کے حوالے کیا ہے، تاریخ میں اس پیغام کے جو الفاظ آج تک محفوظ ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں۔
شہنشاہ روم جنرل تھیوڈور اور اسقف اعظم قیرس سے اور دیگر تمام جرنیلوں سے مخاطب ہیں۔ کیا تم سب مر گئے ہو؟،،،،، یا زندہ لاشیں بن گئے ہو، صاف نظر آ رہا ہے کہ جس طرح تم نے بابلیون اور کریون جیسے قلعے مسلمانوں کو دے دیے اور پسپا ہو گئے ،اسی طرح اسکندریہ بھی دے دو گے، کیا تم اتنی سی بات نہیں سمجھ سکتے کہ اسکندرہ گیا تو پورا مصر ہاتھ سے نکل جائے گا ،اور پھر مسلمان سیدھے بزنطیہ پر آئینگے، اسکندریہ مصر کا دل ہے اس میں بھی مسلمانوں کا خنجر اتر گیا تو نتیجہ صاف ظاہر ہے،،،،،،،،،، 
کریون سے اسکندریہ تک نیل کے ڈیلٹا کے وسیع علاقے میں اپنی فوج جگہ جگہ موجود ہے ،اور اس کی تعداد تیس ہزار سے زیادہ ہے، اگر تم لوگ جانوں کی بازی لگا کر اسکندریہ کا دفاع کرو تو ان دس بارہ ہزار عربی مسلمانوں کو ڈیلٹا کی دلدل میں گم کر سکتے ہو ،یہ ذہن میں رکھ لو کہ اب مزید کمک نہیں ملے گی، یہ اس لئے کہ تم لوگوں پر اعتبار نہیں، تم اسکندریہ بھی دے بیٹھے تو بزنطیہ کے دفاع کے لئے فوج کی ضرورت ہوگی مسلمان یہاں تک آ سکتے ہیں، اگر اسکندریہ ہاتھ سے جاتا نظر آیا تو بندرگاہ میں اور ساحل پر جہاں کہیں بھی اپنے بحری جہاز بڑی کشتیاں اور چھوٹی کشتیاں بھی موجود ہیں سب کو آگ لگا دینا تاکہ مسلمانوں کے کام نہ آئے، یہ بھی سن لو کہ اسکندریہ سے بھاگ کر یہاں نہ آنا، یہاں کوئی تمہاری صورت دیکھنا گوارا نہیں کرے گا ،سمندر میں ڈوب مرنا،،،،،،،، اسقف اعظم قیرس کو واضح ہو کہ آپ مذہبی پیشوا ہیں آپ بلند بانگ دعویٰ کرکے یہاں سے روانہ ہوئے تھے ،آپ کے لئے اور فوج کے لئے بہتر یہ ہے کہ آپ صحیح عیسائیت رائج کریں ،بنیامین کو ساتھ لیں اور قبطیوں کو فوج میں شامل ہونے کی ترغیب دیں، انہیں بتائیں کہ شاہ ہرقل نے عیسائیت کو فرقوں میں بٹنے سے بچانے کے لئے اپنی عیسائیت رائج کی تھی، ان کا اپنا ذاتی کوئی مقصد نہیں تھا ،فوج کو مذہب سے ڈرائیں اور مسلمانوں کی غلامی سے بھی ڈرائیں، دس بارہ ہزار مسلمانوں کو شکست دینا کوئی مشکل کام نہیں، یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ مسلمان مسلسل پیش قدمی کر رہے ہیں اور لڑائیاں بھی لڑ رہے ہیں اور وہ بری طرح تھک چکے ہونگے ان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھائیں۔
یہ پیغام اسی وقت اسی قاصد کو دے کر روانہ کر دیا گیا جو مصر سے کریون کی شکست کا پیغام لایا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
جس وقت یہ پیغام لکھوایا جا رہا تھا مرتینا اٹھ کر چلی گئی تھی، ظاہر تو یہ ہوتا تھا کہ وہ دیکھ کر چلی گئی ہے کہ اسے کوئی ذرا سی اہمیت اور توجہ ہی نہیں دے رہا، لیکن اس کے جانے کا مقصد کچھ اور تھا ،اس قاصد کو جو پیغام لایا اور پیغام کا جواب لے جارہاتھا مرتینا بڑی اچھی طرح جانتی تھی۔ پیغام لانے لے جانے والے قاصد چند ایک ہی تھے جنہیں یہ تجربہ حاصل تھا، تقریباً تمام قاصدوں مرتینا نے کو اپنے جال میں لے رکھا تھا ،انہیں وہ بے دریغ انعام و اکرام دیا کرتی اور چوری چھپے اپنے پیغام بھیجا کرتی تھی۔
 مرتینا نے بڑی تیزی سے قیرس کے نام پیغام لکھا اور ایک کپڑے میں لپیٹ کر ہاتھ میں رکھ لیا۔
قاصد پیغام کا جواب لے کر رخصت ہوا تو وہ شاہی محل سے نکلنے والے سیدھے راستے سے ہٹ کر اس طرف چلا گیا جس طرف مرتینا کا کمرہ تھا، اسے معلوم تھا کہ مرتینا قیرس کے نام کوئی نہ کوئی پیغام ضرور دے گی، وہ جب مرتینا کے دروازے کے قریب پہنچا تو مرتینا نے سرگوشی میں اسے پکارا وہ ادھر ادھر دیکھ کر بڑی تیزی سے کمرے میں چلا گیا ۔مرتینا نے اسے کپڑے میں لپٹا ہوا پیغام دے دیا جو قاصد نے اپنے کپڑوں کے نیچے چھپا لیا پھر مرتینا نے اسے انعام دیا اور وہ کمرے سے نکل گیا ۔
قاصد شہر سے کچھ دور چلا گیا تو درختوں کے ایک جھنڈ کے قریب سے اس کا راستہ جاتا تھا وہاں جا کر اس نے اپنے گھوڑے کی رفتار کم کردی اور درختوں کے جھنڈ میں چلا گیا، وہاں ایک آدمی ایک درخت کے پیچھے کھڑا تھا قاصد نے مرتینا کا پیغام اپنے کپڑوں کے نیچے سے نکال کر اس آدمی کو دے دیا اور رخصت ہو گیا۔
مرتینا اپنے خفیہ پیغام بھیجتی رہتی تھی لیکن کسی وقت کسی طرح اس کا یہ راز کھل گیا اور جنرل اقلینوس تک جاپہنچا ،پیغام لے جانے والے یہ قاصد آخر فوج کے ملازم تھے اور اقلینوس اپنی فوج کا سپریم کمانڈر تھا ،اس نے تمام قاصدوں کو خفیہ طور پر بڑی سختی سے کہا کہ جب کبھی مرتینا کسی کو قیرس یا جنرل تھیوڈور کے نام پیغام دے تو وہ اس سے لے لے اور شہر سے باہر اسے ایک آدمی ملے گا یہ پیغام اس کے حوالے کر دیں، اور پھر کبھی مرتینا سے ملاقات ہو تو اسے بتا دیں کہ اس کا پیغام پہنچا دیا گیا تھا۔ مرتینا کا یہ پہلا ایسا پیغام تھا جو راستے میں سے ہی واپس آگیا تھا قاصد خوش تھا کے اسے مرتینا سے انعام مل گیا تھا، اور اس کا سپریم کمانڈر بھی اس پر خوش ہو گیا تھا۔
اس طرح مرتینا کا پیغام بنام قیرس راستے سے ہی واپس آ گیا اور جنرل اقلینوس تک پہنچ گیا۔
 جنرل اقلینوس نے پیغام پڑھا ۔ 
قیرس آخر اسقف اعظم تھا اور اس کا کردار جیسا کیسا بھی تھا پھر بھی اس کا احترام لازم تھا لیکن مرتینا نے اسے یوں مخاطب کیا تھا جیسے اس کا کوئی ہم جولی بے تکلف دوست ہو ۔ مرتینا نے لکھا تھا کہ تمہیں میں نے بڑی امیدوں سے مصر بھیجا تھا، اور تم بڑے اچھے وعدے کرکے گئے تھے لیکن میرے خواب ٹوٹے پھوٹے نظر آ رہے ہیں، میرے لئے بزنطیہ میں حالات ٹھیک نہیں رہے ،مخالفت بڑھ رہی ہے مجھے تو صاف نظر آنے لگا ہے کہ مصر ہاتھ سے نکل گیا ہے، کیا تم ایسا نہیں کر سکتے کہ مصر کے کچھ حصے پر قبضہ کرلو اور مسلمانوں کے ساتھ کوئی صلح سمجھوتہ کرلو اور مجھے بلا لو، اگر ایسا ممکن نہ ہو تو مجھے بتاؤ کہ کونستانس کا کیا کیا جائے۔ تقریباً تمام جرنیل اس کی حمایت میں ہو گئے ہیں اور میں تنہا رہ گئی ہوں، کوشش کرو اسکندریہ ہاتھ سے نہ جائے اور مسلمانوں کو پسپا کر دو پھر میں تمہارے پاس ہی آ جاؤ گی، جنرل تھیوڈور کو اپنے اعتماد میں رکھنا، ہم نے آخر مصر میں خودمختاری کا اعلان کرنا ہے۔
مرتینا نے اتنے کھلے اور واضح الفاظ میں یہ پیغام اس یقین اور بھروسے پر بھیجا تھا کہ کوئی قاصد اسے دھوکا نہیں دے سکتا ۔ جنرل اقلینوس نے یہ پیغام پڑھا اور کونستانس کے پاس چلا گیا، پیغام کونستانس کو دیا اس جواں سال شاہ روم نے پیغام پڑھا تو غصے اور جذبات کی شدت سے اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
میں آپ کے سامنے ایک نادان بچہ ہوں۔۔۔ کونستانس نے کہا ۔۔۔آپ جہاندیدہ اور تجربے کار ہیں کچھ بتائیں یہ پیغام پڑھ کر کیا کیا جائے۔
میں یہ پیغام پڑھ کر ذرا سا بھی حیران نہیں ہوا ۔۔۔جنرل اقلینوس نے کہا۔۔۔ مرتینا سے یہی توقع رکھی جا سکتی ہے، اگر میں اس کا یہ پیغام نہ پڑھتا تو بھی مجھے معلوم ہے کہ یہ کس ذہنیت کی عورت ہے اور اس کے ارادے کیا ہیں، ہم اس کے خلاف کچھ بھی نہیں کر یں گے ،میں یہ پیغام اپنے پاس محفوظ رکھوں گا اور ہم خاموشی اختیار کیے رکھی گے، آپ بھی بالکل خاموش رہیں جیسے آپ کو کچھ بھی علم نہیں۔
کونستانس خاموش تو ہوگیا لیکن اس کے چہرے کا تاثر بتا رہا تھا جیسے وہ اس خیال میں کھو گیا ہو کہ مرتینا بڑی ہی خطرناک عورت ہے ،اور نہ جانے اس نے کیسی کیسی خوفناک سازشیں تیار کر رکھی ہو نگی، اگر کونستانس کو یہی خیال پریشان کر رہا تھا تو یہ غلط نہ تھا چھوٹی چھوٹی تفصیلات لکھنے والے مورخوں نے مرتینا کی زمین دوز سرگرمیوں کا ذکر کیا ہے ،جن میں سے ایک تو بے حد خطرناک اور ہیبت ناک تھی اس کا تفصیلی بیان آگے چل کر آئے گا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
جنرل تھیوڈور کریون سے بھاگ کر سیدھا اسکندریہ پہنچا، اس شکست کو تو وہ اپنی ذاتی شکست سمجھتا تھا اس کے ذہن میں اب سلطنت روم نہیں بلکہ مرتینا تھی۔ مرتینا نے اسے لالچ دے رکھا تھا کہ وہ مسلمانوں کو مصر سے نکالے تو اسے مصر کے کچھ حصے کا یا تمام تر مصر کا فرمانروا بنا دیا جائے گا۔
جنرل تھیوڈور اسکندریہ اکیلا نہیں پہنچا تھا، کریون سے آگے نیل کے ڈیلٹا کا علاقہ شروع ہو جاتا تھا جو کچھ دشوار گزار تھا اس وسیع و عریض علاقے میں چند ایک چھوٹے بڑے شہر اور قصبے تھے ان میں چند ایک قلعہ بند تھے تھیوڈور نے ان شہروں اور قصبوں میں فوج رکھی ہوئی تھی کہ ان مقامات سے تھوڑی تھوڑی اپنے ساتھ لیتا گیا اور اسکندریہ پہنچا، یہ نفری ملا کر (تاریخ کے مطابق) سکندریہ میں پچاس ہزار سے زیادہ فوج اکٹھی کر لی گئی۔
خاص طور پر ذہن میں رکھیں کہ مجاہدین اسلام کی تعداد پوری بارہ ہزار نہیں رہ گئی تھی ، ہر مفتوحہ جگہ پر کچھ نہیں چھوڑنی پڑتی تھی ایسے ہی کریون کے انتظامات سنبھالنے کے لئے اور امن وامان بحال کرنے کے لیے خاصی نفری رکھی گئی، تاریخ میں صحیح اعداد و شمار نہیں ملتے کہ مجاہدین اسلام کی تعداد کیا تھی، اگر پہلے آئی ہوئی کمک اور سپہ سالار عمرو بن عاص کے ساتھ آئے ہوئے لشکر کی تعداد سامنے رکھی جائے اور پھر شہیدوں اور شدید زخمیوں کا اور پھر پیچھے رکھے جانے والے مجاہدین کا حساب کیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ مجاہدین جب اسکندریہ کی طرف پیش قدمی کرنے لگے اس وقت ان کی تعداد پوری دس ہزار نہیں تھی ، یہ مجاہدین کا شوق شہادت اور جذبہ جہاد تھا کہ وہ اپنی تعداد کو نہیں بلکہ باطل کی ان چٹانوں کو دیکھ رہے تھے جو ان کے راستے کی رکاوٹ بن رہی تھی۔
اللہ کی رحمت کا کوئی حساب نہیں اس کی ذات باری جسے چاہے رحمت عطا کر دے اور جسے چاہے اسے محروم رکھے، لیکن یہ اللہ کا فرمان ہے کہ رحمت الہی کے لیے اپنے آپ کو حقدار ثابت کرنا ضروری ہے، معجزہ رونما نہیں ہوا کرتے بلکہ کیے جاتے ہیں، اس کے لیے ایمان کی قوت کی ضرورت ہے مجاہدین اسلام نے اپنی جان اللہ کے حوالے کر دی تھی اور اپنی جانوں کے صلے میں باطل کی شکست اور اسلام کی سربلندی چاہتے تھے۔
کریون فتح کرنے والے مجاہدین کو معلوم نہیں تھا کہ اسکندریہ کس قدر مضبوط قلعہ ہے، اسے اگر ناقابل تسخیر کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا، اسکندریہ کا شہر ایسی جگہ آباد کیا گیا تھا جہاں اسے تین اطراف سے قدرتی دفاع میسر آ گیا تھا۔
مجاہدین تو اسکندریہ سے واقف نہیں تھے لیکن سپہ سالار عمرو بن عاص نے یہ شہر اچھی طرح دیکھا بھالا تھا، یہ اس وقت کی بات ہے جب عمرو بن عاص نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا، ان کے اسکندریہ آنے کا واقعہ اس سلسلے کی ابتدا میں بیان کیا جا چکا ہے۔ عمرو بن عاص کو اچھی طرح احساس تھا کہ اب وہ ناممکن کو ممکن بنانے جارہے ہیں، لیکن وہ اسکندریہ کو سر کرلینے کا دعوی نہیں کر رہے تھے، کچھ جاسوس مجاہدین آگے جا کر پورے اسکندریہ کو بھی دیکھ آئے تھے۔ چند ایک قبطی بھی جاسوسی کا کام کر رہے تھے ان میں جو کوئی آگے جاکر جو کچھ بھی دیکھتا وہ واپس آکر سپہ سالار عمرو بن عاص کو تفصیل سے بتاتا تھا، عمرو بن عاص کو اسکے راستے اور راستے کے علاقے اور اس علاقے کے خطرات سے واقفیت حاصل ہو گئی تھی۔
یہاں موزوں معلوم ہوتا ہے کہ اسکندریہ کا محل وقوع اور اس کا دفاع بیان کردیا جائے تاکہ اندازہ ہوجائے کہ مجاہدین اسلام صحیح معنوں میں آتش نمرود میں کود جانے کو چلے جا رہے تھے۔اس شہر کے شمال میں بحیرہ روم تھا لہذا اس طرف سے حملے یا محاصرے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ جنوب میں ایک وسیع و عریض جھیل جیسا بحیرہ مریوط تھا جو اس طرف سے اسکندریہ کو قدرتی دفاع مہیا کرتا تھا۔ اور بلاشبہ یہ ایک ناقابل تسخیر دفاعی انتظام تھا۔ مغرب میں ایک چوڑا اور گہرا نالہ گزرتا تھا جس کا نام ثعبان تھا۔ یہ کہنا تو صحیح نہیں ہو سکتا کہ اس نالے کو عبور نہیں جاسکتا تھا ۔ عام حالات میں لوگ اسے کشتیوں سے بھی پار کرتے تھے اور اس پر پل بھی تھے البتہ محاصرے اور جنگ کی صورت میں حملہ آور اسے عبور نہیں کر سکتے تھے کیونکہ سامنے سے تیر آتے تھے اور برچھیاں بھی آتی تھیں اور پلوں کی حفاظت کا ایسا ہی مہلک انتظام تھا۔
صرف مشرق کی ایک سمت رہ جاتی تھی جدھر سے اسکندریہ پر حملہ کیا جاسکتا تھا۔ یہی وہ راستہ تھا جو کریون سے اسکندریہ کی طرف جاتا تھا اس راستے کے دائیں بائیں دور دور تک چھوٹی بڑی قلعہ بندیاں تھیں، جنہوں نے اس راستے کو حملہ آوروں کے لیے پرخطر بنا رکھا تھا ،صرف یہی ایک سمت تھی جدھر سے اسکندریہ پر حملہ کیا جاسکتا تھا۔ جنرل تھیوڈور نے شہر کے اندر پچاس ہزار فوج اکٹھی کر لی تھی اور رسد اور کمک کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی، سمندر رومیوں کے قبضے میں تھا بزنطیہ سے سمندر کے راستے کمک بھی آ سکتی تھی اور رسد بھی، رسد ادھر سے نہ آتی تو رومیوں کا جس علاقے پر قبضہ تھا وہاں کی بستیوں سے اور کھیتوں سے رسد بڑی آسانی سے آ سکتی تھی۔
سپہ سالار عمرو بن عاص کی قیادت میں مجاہدین اسلام کا لشکر ابھی راستے میں تھا کہ ایک قبطی جاسوس نے آ کر بتایا کہ جنرل تھیوڈور نے اسکندریہ کے اندر کی فوج کو مجاہدین کے خلاف ایسا بھڑکایا ہے کہ یہ فوج آگ بگولہ ہو کر مجاہدین کا انتظار کر رہی ہے۔ جنرل تھیوڈور نے فوج کو اکٹھا کرکے بتایا تھا کہ مسلمانوں کی تعداد بہت ہی تھوڑی ہے اور وہ اس لئے کامیاب ہوتے چلے آرہے ہیں کہ مصر کے اندر سے انہیں تعاون مل رہا ہے، اور مصر میں کچھ غدار موجود ہیں۔ تھیوڈور نے قبطیوں کا نام تو نہ لیا لیکن اس کا اشارہ قبطیوں کی طرف ہی تھا وہ قبطیوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا اس نے فوج سے کہا کہ سوچ لو کہ اسکندریہ ہاتھ سے نکل گیا تو پورا مصر مسلمانوں کے قبضے میں آ جائے گا اور یہ دیکھ لو کہ اسکندریہ عیسائیت کا مرکز ہے اور اتنے گرجے کسی اور شہر میں نہیں جتنے اسکندریہ میں ہے۔
اس دوران بزنطیہ کا پیغام اسکندریہ پہنچ گیا، جنرل تھیوڈور نے یہ پیغام جرنیلوں کو قیرس کو اور پوری فوج کو پڑھ کر سنایا، اس نے کہا کہ مسلمانوں کو اگر اسکندریہ میں ہی شکست دے دی گئی تو ان کا تعاقب کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی انہیں یہیں قتل اور قید کردیا جائے گا۔
رومی فوج دراصل بزنطیہ کے شاہی محل کے پیغام سے بھڑک گئی تھی اور اب ہر ایک سپاہی نے جان کی بازی لگا دینے کا عہد کرلیا تھا، رومی فوج اسکندریہ میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے تھے پھر جنرل تھیوڈور نے اپنی فوج کا کام یوں آسان کردیا کہ اسکندریہ کی دیواروں پر چھوٹی منجیقیں لگا دی اور ان کے قریب پتھروں کے ڈھیر لگا دیے۔
محاصرے کو ناکام اور پسپا کرنے کے لیے دیواروں پر تیر انداز اور برچھی باز مورچہ بند کر دیے تھے جو حملہ آوروں کو دروازوں اور دیواروں کے قریب نہیں آنے دیتے تھے، حملہ آور اگر قلعے پر یلغار کرتے تو اوپر سے ان پر تیروں کی بوچھاڑ اور برچھیاں آتی تھیں، ان سے وہی بچتا تھا جو پیچھے کو بھاگ آتا تھا۔ لیکن تھیوڈور نے دیواروں پر منجیقیں لگا دی جن کے پھینکے ہوئے پتھروں نے حملہ آوروں کو دور ہی رکھا تھا۔
اسقف اعظم قیرس نے اپنا محاذ کھول لیا تھا جس کا تعلق مذہب کی تبلیغ کے ساتھ تھا ۔
اس کی تفصیلات پچھلے سلسلے میں بیان ہوچکی ہیں۔ تمام بستیوں میں اس نے پادری بھیج دیے تھے لیکن مجاہدین اسلام کی پیش قدمی اور حملے ایسے طوفانی تھے کہ قیرس کے اس محاذ کو خشک و خاشاک کی طرح اڑاتے چلے گئے۔
قیرس نے ایک انتظام یہ کر لیا تھا کہ دوسرے اسقف اعظم بنیامین کو جلاوطنی سے اپنے پاس اسکندریہ بلا لیا تھا ۔اسے قیرس قائل کر رہا تھا کہ وہ قبطیوں کو آمادہ کرے کہ وہ فوج میں شامل ہو جائیں، یا مسلمانوں کے دوست بن کر ان کی پیٹھ پر وار کریں۔
 بنیامین اسے وہ قتل عام یاد دلا رہا تھا جو اس نے ہرقل کی شہ پر قبطیوں کا کیا تھا۔
 ہرقل مر گیا ہے۔۔۔۔ قیرس نے بنیامین سے کہا ۔۔۔اس کا بیٹا قسطنطین بھی مر گیا ہے، سمجھو کہ ہرقل کی عیسائیت مر گئی ہے اور اب ہم دونوں اصل عیسائیت کی تبلیغ کریں اور قبطیوں کو بتائیں کہ اسلام سے عیسائیت کو بچائیں، مصر ہاتھ سے جارہا ہے اور ہم مصر کو ہی عیسائیت کا مرکز بنانا چاہتے ہیں۔
مصر جا نہیں رہا بلکہ ہاتھ سے نکل گیا ہے۔۔۔ بنیامین نے کہا۔۔۔ تم لوگوں نے مذہب کو کھلونا بنا لیا ہے۔
 میرے بھائی بنیامین!،،،،،، قیرس نے جھنجلا کر کہا۔۔۔ مذہب کو الگ رکھ دو مصر کا خیال کرو جو ہمارا اپنا وطن ہے۔
یہی تمہاری بھول ہے ۔۔۔بنیامین نے کہا۔۔۔ ہماری شکست اور مسلمانوں کی فتح کی بڑی وجہ یہی ہے کہ تم لوگوں نے مذہب کو الگ رکھ دیا تھا ،بلکہ مذہب کو اپنے ذاتی مفادات اور شہنشاہیت کو مزید تقویت دینے کے لیے اپنے سانچے میں ڈھال لیا تھا ،،،،،،،
حیران مت ہو قیرس بھائی !،،،،،،،،اتنے تھوڑے مسلمان فتحیاب ہوئے تو اس میں کوئی حیرت والی بات نہیں تم مذہبی پیشوا اور عالم ہو حیران ہونے والی بات تو یہ ہے کہ تم سمجھ نہیں سکے کہ مسلمان صرف اس لئے فتحیاب ہوتے چلے جا رہے ہیں کہ انہوں نے مذہب کو الگ نہیں رکھا بلکہ اپنی ذات اپنے دنیاوی مفادات اور اپنی جانوں کو الگ رکھ کر مذہب کو سینے سے لگائے رکھا ہے، اس جنگ کو وہ اپنے مذہب کی جنگ کہتے ہیں ،یہ ان کے مذہب کا ایک فریضہ ہے جو جہاد کہلاتا ہے، ان کے مذہب میں نماز قضا ہو سکتی ہے جہاد کو قضا نہیں کیا جاسکتا، پھر ان کے مذہب کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ مفتوحہ لوگوں کو اپنا غلام نہ سمجھو اور انہیں بحیثیت انسان پورے حقوق اور تعظیم دو، ان مسلمانوں نے یہاں اپنے اس مذہبی اصول کی پابندی کی اور لوگ ان کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گئے ان کے مقابلے میں تم لوگوں نے قتل اور جبر و تشدد سے اپنی غلط عیسائیت منوائی اور ان کی آہوں اور فر یادوں کی طرف توجہ ہی نہ دی تم ہی بتاؤ کہ یہ لوگ کسے اپنا اور کسے پرایا سمجھیں۔
اس وقت جو صورتحال اس کی طرف دھیان دیں۔۔۔۔ قیرس نے ہاری ہوئی سی آواز میں کہا۔۔۔۔۔ قبطیوں کو میدان میں لاؤ ۔انہیں بتاؤ کہ مصر تمہارا ہے اور تمہارا اپنا ایک مذہب ہے۔مسلمان اس ملک پر قابض ہو گئے تو تم ان کے غلام بنے رہو گے اور تمھارا کوئی مذہب نہیں ہوگا۔
قبطی میدان میں نہیں آئیں گے۔۔۔ بنیامین نے کہا ۔۔۔اگر رومی مصر سے دستبردار ہو جائیں پھر دیکھو قبطی کس طرح مصر کے دفاع میں لڑتے ہیں۔
اگر یہ نہیں تو ایک اور کام کرو۔۔۔ قیرس نے کہا۔۔۔ قبطیوں سے کہو کہ مسلمانوں کے ساتھ تعاون کرنا چھوڑ دیں۔میں نے کہا تھا کہ قبطی مسلمانوں کی پیش قدمی کو آسان اور تیز کرنے کے لیے ان کے راستے کی رکاوٹیں صاف کرتے ہیں اور ان کی رہنمائی بھی کرتے ہیں، جہاں پل بنانے کی ضرورت پڑتی ہے وہاں پل بنا دیتے ہیں۔
میری آخری بات سن لو قیرس بھائی!،،،،،، بنیامین نے کہا۔۔۔۔ میں نے تم سے یہ گلہ شکوہ تو کیا ہی نہیں کہ مجھے لوگوں نے اسقف اعظم بنایا تھا ،لیکن تم نے خود اسقف آعظم بن کر مجھے شاہی حکم سے جلا وطن کر دیا ،بلکہ میری گرفتاری کا حکم نامہ لیا اور میں صحراؤں میں جا روپوش ہوا، یہ معاملہ تو میں نے خدا کے سپرد کردیا ہے ،قبطیوں کے متعلق میں تمہیں آخری فیصلہ سنا دیتا ہوں کہ انہوں نے یہ پالیسی اختیار کر رکھی ہے کہ جہاں رومی قابض ہیں وہاں قبطی رومیوں کے وفادار ہیں، اور جو علاقہ مسلمانوں کے قبضے میں آگئے ہیں وہاں قبطی مسلمانوں کے وفادار بن گئے ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ ان دونوں طاقتوں میں سے کسی کے خلاف دشمنی پیدا کی اور وہی طاقت مصر پر قابض ہو گئی تو پھر ان کے لیے زندگی جہنم بنا دی جائے گی، میں تمہیں یہ ضمانت دیتا ہوں کہ قبطی عیسائی روم کی بادشاہی کے خلاف بغاوت نہیں کریں گے ۔
ہم دونو چونکے مذہبی پیشوا ہیں اور مذہب سے زیادہ واقفیت رکھتے ہیں اس لیے میں یہ بات کہنا چاہوں گا کہ جس مذہب میں فرقے پیدا ہو جاتے ہیں وہ مذہب کھیل تماشا بن جاتا ہے، اور اس مذہب کی قسمت میں غیروں کی غلامی لکھ دی جاتی ہے، تم نے ہرقل کے ساتھ مل کر عیسائیت کو دو حصوں میں تقسیم کردیا اور آج اس کی سزا بھگت رہے ہو، اپنے مقابلے میں مسلمانوں کو دیکھو ان میں کوئی فرقہ نہیں وہ ایک جماعت ہے اپنے سپہ سالار کو اپنا فوجی قائد ہی نہیں بلکہ اپنے مذہب کا امام بھی کہتے ہیں۔
یہاں تاریخ کا ایک اور پہلو سامنے لانا ضروری ہے مصر کی فتح ایک معجزاتی فتح سمجھی جاتی ہے لیکن یہ معجزہ اپنے آپ ہی رونما نہیں ہو گیا تھا ،مجاہدین نے اپنی جانیں اللہ کے سپرد اور اپنے جسم اپنے سالاروں کے سپرد کر دیے تھے ،انہیں جتنا بھروسہ اپنے اللہ پر تھا اتنا ہی اعتماد قیادت پر تھا، مصر کی فتح میں ایمان کی پختگی اور سپہ سالار عمرو بن عاص کی غیرمعمولی عسکری ذہانت کا کرشمہ تھا ،لیکن غیرمسلم مؤرّخوں نے اس حقیقت کو اس طرح جھٹلانے کی کوشش کی ہے کہ مصر کے تمام قبطیی عیسائی مسلمانوں کے ساتھ مل گئے تھے اور مسلمانوں کی فتح کا باعث بنے تھے۔
 یہ مورخ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ رومی جرنیلوں کی کمزوری تھی کہ وہ ہر شہر میں مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کرکے ہتھیار ڈال دیتے تھے۔
یہ دونوں باتیں بالکل غلط ہے، قبطی عیسائیوں کی جو پالیسی تھی وہ قیرس اور بنیامین کی گفتگو میں واضح ہوجاتی ہے، یہ صحیح ہے کہ ہر شہر میں جرنیل مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کر لیتے تھے لیکن وہ اس وقت ایسا کرتے تھے جب دیکھ لیتے تھے کہ اب اس شہر کو مسلمانوں سے بچانا ممکن نہیں رہا تو کم از کم اپنی جانیں ہی بچا لی جائیں اور بچی کھچی فوج کو یہاں سے نکال لیا جائے ،اس مقصد کے لیے وہ معاہدہ کرتے اور شہر مسلمانوں کے حوالے کر کے رخصت ہو جاتے تھے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=*
کریون کی فتح کے بعد سپہ سالار عمرو بن عاص نے وہاں زیادہ انتظار مناسب نہ سمجھا، ان کا اصول تھا کہ بھاگے ہوئے دشمن کے تعاقب میں رہا جائے تاکہ وہ کہیں سنبھل اور سستا نہ سکے، لیکن عمرو بن عاص کو پھر بھی کچھ دن انتظار کرنا پڑا وہ اس لئے کہ مجاہدین کے لشکر کو ذرا سستانے کی شدید ضرورت تھی اور وہ زخمی جو لڑنے کے قابل نہیں رہے اتنے صحت یاب ہو جائیں کہ پیش قدمی کر کرسکیں اس کے علاوہ کریون جیسے بڑے شہر میں امن و امان بحال کرنا تھا اور وہاں کے سرکاری انتظامات کو بھی رواں کرنا ضروری تھا۔
عمرو بن عاص پر تو جیسے دیوانگی طاری ہو گئی تھی لیکن وہ حقیقت پسندی سے دستبردار نہ ہوئے، اور عقل و ہوش کو ٹھکانے رکھا ۔
مقریزی اور ابن الحکم جیسے مستند تاریخ دان لکھتے ہیں کہ مجاہدین کی جسمانی کیفیت اس قابل رہی ہی نہیں تھی کہ وہ چند قدم بھی پیش قدمی کرسکتے ،لیکن روحانی طور پر وہ اس قدر تروتازہ اور مسرور تھے کہ وہ کریون میں زیادہ انتظار کے حق میں تھے ہی نہیں، سالاروں کے جذبے کی کیفیت تو اور ہی زیادہ پرجوش تھی، سپہ سالار عمرو بن عاص اپنے لشکر کی اور اپنے سالاروں کی یہ کیفیت دیکھ رہے تھے لیکن انہیں یہ احساس بھی تھا کہ لشکر پر جذباتیت طاری ہوگئی تو یہ شکست کا باعث بن سکتی ہے۔ انہوں نے پہلے دو تین موقعوں پر مجاہدین سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ فتح کے نشے سے سرشار ہو کر اگلی لڑائی نہیں لڑنی چاہیے، کیونکہ فتح کا نشہ خوش فہمی میں مبتلا کرسکتا ہے اور خوش فہمیاں شکست کا باعث بن جایا کرتی ہیں۔
اب عمرو بن عاص نے کریون سے اسکندریہ کی طرف پیش قدمی کے وقت ضروری سمجھا کے لشکر سے خطاب کیا جائے ایک تو وہ لشکر کو جذباتیت اور خوش فہمی سے نکالنا چاہتے تھے، اور دوسرے یہ کہ لشکر کو یہ بتانا بہت ہی ضروری تھا کہ اب وہ جس ہدف پر جارہے ہیں وہ ایسے ہی ہے جیسے پہاڑ کو جڑوں سے اکھاڑنے کی کوشش ہو۔
 چنانچہ انہوں نے لشکر کو اکٹھا کیا اور کچھ وقت لگا کر خطاب کیا پہلے تو لشکر کو یہ ذہن نشین کرایا کے حقیقت کو نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں، اور اس خوش فہمی کو بھی دل و دماغ پر طاری نہ ہونے دیں کہ وہ جہاں بھی جائیں گے انہیں فتح ہی حاصل ہوگی۔
پھر لشکر کو بتایا کہ اب وہ جس شہر پر حملہ کرنے جا رہے ہیں وہ صحیح معنوں میں ناقابل تسخیر ہے اور اس کا زیادہ تر دفاع قدرتی ہے۔ عمرو بن عاص نے اسکندریہ کے دفاع کے تمام انتظامات وغیرہ لشکر کو تفصیل سے بتائیے اور بتایا کہ ہم نے اسکندریہ کا شہر فتح کرلیا تو سمجھو پورا مصر فتح کر لیا ہے رومیوں کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں رہے گی، ان کے پاس بحری بیڑہ ہے جو انہیں سمندر پار پہنچا دے گا۔
اسلام کے علمبردارو !،،،،،عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔جب کوئی لشکر لڑنے کے لئے نکلتا ہے تو نتیجہ فتح کی صورت میں بھی سامنے آسکتا ہے، اور شکست کی صورت میں بھی، لڑنے والوں کے لئے فتح اور شکست پہلو بہ پہلو چلا کرتی ہے لیکن ہمارے معاملے میں صورت کچھ اور بھی ہے اگر اسکندریہ میں ہم شکست کھا گئے تو پھر ہمارے قدم شاید کہیں بھی نہ جم سکیں، تم میں سے بہت کم جانتے ہوں گے کہ ہماری شکست کی صورت کچھ اور ہو گی ،وہ یہ کہ ہم مدینہ واپس جا کر اپنی قوم کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں گے ،تمہیں نہیں لوگ مجھے طعنہ دیں گے کہ تمہیں بزرگ صحابہ نے منع کیا تھا کہ مصر پر فوج کشی نہ کرو اور تم باز نہ آئے اب اتنی زیادہ ماؤں کے جوان بیٹے مروا کر اور پرائی زمین پر ان کی لاشیں پھینک کر آ گئے ہو،،،،،،، 
تمہیں شاید معلوم نہ ہو کہ میں نے امیرالمومنین سے مصر پر فوج کشی کی اجازت مانگی تھی تو تقریباً تمام صحابہ کرام نے مخالفت کی تھی جن میں سب سے زیادہ محترم بزرگ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ خاص طور پر شامل ہیں اب یہ سوچو کہ میں نے اتنا بڑا خطرہ کیوں مول لیا ہے ،اس میں میری یا تم میں سے کسی کی کوئی ذاتی غرض نہیں کوئی ذاتی مفاد نہیں ہم باطل کے خلاف اللہ کی راہ پر جہاد میں نکلے ہیں،،،،،، 
دین اسلام کے مجاہدو!،،،،،،، مصر کے متعلق یہ ذہن میں رکھو کہ یہ فرعونوں کا ملک ہے یہاں حضرت موسی علیہ السلام ایک فرعون کو دعوت حق دینے آئے تھے لیکن اس فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو زیر کرنے کے لیے اپنے جادوگر کو بلایا اللہ تبارک و تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کے عصا میں اتنی خدائی طاقت ڈال دی جس کے سامنے ہر جادو بے کار ہو کے رہ گیا ،یہ تو بڑی لمبی کہانی ہے میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس نیل نے حضرت موسی علیہ السلام کو راستہ دے دیا تھا اور پھر اسی نیل نے فرعون کو غرق کردیا ،آج اللہ نے تمہیں یہ اعجاز بخشا ہے کہ فرعون کی زمین سے باطل کا نام و نشان مٹا دو ،تم سوچو گے کہ فرعون تو کبھی کے دفن ہو چکے ہیں حقیقت یہ ہے کہ فرعون صدیاں گزریں ختم ہوگئے ہیں، لیکن مصر میں فرعونیت ابھی تک باقی ہے اللہ نے یہ فرض تمہیں سونپا ہے کہ اس فرعونیت کو اس ملک سے ختم کرو، تم نے رومیوں کی فرعونیت کے قصے سنے ہوں گے ہمیں اس سرزمین کو پاک اور مقدس بنانا ہے کیونکہ یہ ہمارے نبیوں اور پیغمبروں کی سرزمین ہے۔
عمرو بن عاص نے ایسی باتیں کی اور ایسے پردے اٹھائے کے اپنے لشکر کو جذباتیت اور خوش فہمیوں سے نکال کر حقیقت کا صحیح روپ دکھا دیا اس کے بعد کریون سے لشکر روانہ ہوا۔
پیش قدمی کا راستہ خطروں سے خالی نہیں تھا اس علاقے میں کئی ایک چھوٹی بڑی بستیاں تھیں ان میں قصبے بھی تھے اور درمیانہ درجے کے شہر بھی، ان میں سے بعض میں رومی فوج موجود تھی، فوج کی کچھ نفری جنرل تھیوڈور اپنے ساتھ اسکندریہ لے گیا تھا اور جو نفری پیچھے رہ گئی تھی اسے تھیوڈور نے یہ حکم دیا تھا کہ مسلمانوں پر دائیں بائیں اور پیچھے سے حملے کرتے رہیں تاکہ ان کی پیش قدمی سست رہے اور ان کا جانی نقصان ہوتا رہے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص میں یہی تو بنیادی خوبی تھی کہ وہ اس قسم کے خطرات کو پہلے ہی بھانپ لیا کرتے تھے انہوں نے اپنے جاسوس آگے بھیج رکھے تھے جو انہیں اطلاع دیتے جا رہے تھے کہ کہاں سے حملے کا خطرہ ہے۔ عمرو بن عاص اس خطرے کا سدباب یہ کرتے کے مجاہدین کے کچھ دستے لے کر اس جگہ کو محاصرے میں لے لیتے اور ایسی غضبناک یلغار کرتے کے رومی فوج ہتھیار ڈال دیتے تھے۔
اس طرح پیش قدمی کی رفتار کچھ کم تو رہیں لیکن خطرے چلتے جارہے تھے۔ تاریخ میں آیا ہے کہ بعض مقامات پر رومیوں نے بغیر لڑے ہتھیار ڈال دیے اس کی وجہ وہی تھی جو پہلے کئی موقعوں پر بیان ہو چکی ہے، وہ یہ کہ کریون سے بھاگے ہوئے فوجی ان مقامات پر چلے گئے اور وہاں کے فوجیوں کو مسلمانوں کی بے جگری اور شجاعت کی باتیں بڑھا چڑھا کر سنائی کہ ان پر بھی دہشت طاری کردی۔ وہاں کے فوجی یہ بھی تو ضرور سوچتے ہونگے کہ جنہوں نے اتنے قلیل تعداد میں کریون جیسا مستحکم قلعہ لے لیا ہے ان کے آگے یہ چھوٹی سی قلعہ بندی کیا حیثیت رکھتی ہے، بعض بستیوں کو عمرو بن عاص نے نظر انداز کردیا کیوں کہ وہاں سے کوئی خطرہ نہیں تھا ،اس طرح مجاہدین کا لشکر آگے ہی آگے بڑھتا گیا اور منزل قریب آتی گئی۔

#جاری_ہے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.