Ads Top

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر56 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi

 by 

Abu Shuja Abu Waqar 


غازی از ابو شجاع ابو وقار
 پیشکش محمد ابراہیم
56قسط نمبر
 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar 
Presented By Muhammad Ibraheim
 Episode 56
ٹھیک 5 بجے میں کافی شاپ پہنچ گیا تھوڑی دیر بعد کرنل آنند میجر باسو اور کیپٹن مان بھی آ گئے کرنل نے مجھے کہا کہ میجر باسو اس دن کے رویہ کی معذرت کرنے آئے ہیں میجر باسو نے معذرت خواہ انداز میں مجھے سوری کہا تو میں نے کہا آل اوکے نو پرابلم ایسا ہو جاتا ہے میں نے ان کے لیے کافی اور سنیکس کا آرڈر کیا کرنل آنند نے انگریزی اردو ہندی اور پنجابی سے ملی جلے الفاظ میں گفتگو شروع کی اور پھر اس گفتگو کا رخ سقوط ڈھاکہ اور لیڈروں کیطرف پھیر دیا قارئین میں یہاں کرنل آنند کی اس شام والی گفتگو کو مختصر ضرور لکھوں گا کیونکہ اس دن زیادہ ٹائم وہی گفتگو کرتا رہا اور جب وہ جانے لگے تو میرے ایک سوالیہ نشان چھوڑ گئے کرنل آنند نے سقوط ڈھاکہ سے پہلے پاکستان کے سیاسی حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر آصف گو یہ آپ کے ملک کا اندرونی معاملہ ہے جس کے متعلق اپنی راے ظاہر کرنے کا کوئی حق نہیں لیکن مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں ہمارے ملک کا بھی ہاتھ تھا اس حوالے سے میں یہ بات کر رہا ہوں اس وقت پاکستان کا صدر یحییٰ خان تھا جسکے شرابی کبابی اور عیاشی ہونے کی داستانیں دنیا بھر کے اخبارات میں شائع ہوتی تھیں میرے پاس ٹائمز اور نیوز ورک کے دو شمارے موجود ہیں جن میں یحییٰ خان کی رنگین مزاجی کی الف لیلی والی داستانیں چھپی ہوئی ہیں اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو یہ میگزین بھینٹ کر سکتا ہوں پاکستانی عوام نے اپنے دونوں بازوؤں کے الیکشن میں دو پارٹیوں کو سب سے زیادہ ووٹ ڈالے یعنی عوامی لیگ مشرقی پاکستان اور پیپلز پارٹی مغربی پاکستان دونوں پارٹیوں کے منشور میں امراء اور جاگیرداروں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لینا اور عوام کی فلاح و بہبود پر لگانا اور غریب عوام کو روٹی کپڑا اور مکان فراہم کرنا تھا مجیب الرحمن کی عوامی لیگ پارٹی کو سب سے زیادہ ووٹ ملے اور اس پارٹی کے منشور میں علیحدگی کا اشارہ تک نہ تھا اصولی طور پر حکومت عوامی لیگ کو سونپ دینی چاہیے تھی کیونکہ اس پارٹی نے صوبائی سطح پر نہیں بلکہ ملکی سطح پر الیکشن لڑا اور واضح کامیابی حاصل کی تھی. لیکن ہوا کیا تھا؟ پیپلزپارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو آڑے آ گئے اور ملکی سطح کے الیکشن کو صوبائی سطح کا الیکشن قرار دے کر ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ لگا دیا حالانکہ اگر مجیب کو حکومت دی جاتی تو وہ پورے پاکستان کا وزیر اعظم بنتا اور پورے پاکستان کے مفاد کے لیے کام کرتا مگر اسے گرفتار کر کے مغربی پاکستان لے جایا گیا کیا آپ آج تک اس ڈیمو کریٹک ورلڈ میں کوئی ایسی مثال دے سکتے ہیں کہ جیتنے والی پارٹی کے چیف ایگزیکٹو کو وزیر اعظم بنانے کی بجائے جیل میں ڈال دیا گیا ہو. کرنل آنند ذرا دیر کے لیے رکا وہ اپنی گفتگو یا اچھے الفاط میں اپنے لیکچر کا مجھ پر اثر دیکھنا چاہتا تھا اور میری حالت ایسی تھی کہ میں سچ کی کڑواہٹ بڑی مشکل سے نگل رہا تھا کرنل اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا. یحییٰ خان کے اس عمل کو مشرقی پاکستان کے ووٹروں نے بڑی سنجیدگی اور جذباتی طور پر محسوس کیا تھا ہمارے لیے یہ سنہری موقع تھا اور ہم نے انہیں اس بات کا یقین دلایا کہ مشرقی پاکستان والے چاہیں جیتیں یا ہاریں حکومت ہمیشہ مغربی پاکستان کی ہی رہے گی یحییٰ خان کے فوجی ہونے اور مارشل لاء کو بنیاد بنا کر ہمیں مشرقی پاکستانیوں کو پاکستانی فوج کے خلاف بھڑکانے کا بھی اچھا موقع مل گیا تھا ان دنوں پاکستان میں ایسے سیاسی عجوبے ہو رہے تھے جن کی دنیا میں مثال نہیں ملتی اکثریتی پارٹی کے لیڈر کو جیل میں ڈالا گیا اور لاکھوں بنگالیوں (مشرقی پاکستانیوں) کو محض اس جرم کی پاداش میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ بنگالی بولتے تھے بھٹو کو سول چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر بنایا گیا. یہ نیا عہدہ بھی دنیا میں پہلی دفعہ وجود میں آیا تھا مسئلہ کشمیر پر پاکستان آور بھارت کے درمیان تین جنگوں نے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا رکھا ہے پاکستان کی سالمیت اور دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کے جب مجیب بھٹو اور یحییٰ خان ہی ٹکڑے کرنے پر تلے ہوئے تھے تو ہم کیوں خاموش رہتے.
ہم نے تینوں کی پیٹھ تھپکی مالی اور مادی امداد دی اور جب ضرورت پڑی اپنی فوج بھی جھونک دی مسٹر آصف ذرا غیر جانبدار ہو کر سوچیں. مجیب کو ہم نے نہیں یحییٰ خان نے جیل میں ڈالا تھا سلامتی کونسل میں بھٹو کو اس وقت فلو ہو گیا جب پاک بھارت جنگ اپنے انجام کو پہنچ چکی تھی اور پولینڈ کی قرارداد (جسمیں فوری جنگ بندی دونوں ملکوں کی افواج کو واپس انکی سرحدوں میں جانے اور مشرقی پاکستان کا تصفیہ کرنے کا کہا گیا تھا اس قرارداد کو دونوں سپر پاورز یعنی روس اور امریکہ کی تائید حاصل تھی) کو ہمارے نمائندے نے نہیں بلکہ بھٹو نے پھاڑ ڈالا تھا حالانکہ اس قرارداد کے مطابق بھارتی افواج جو ڈھاکہ کے قریب پہنچ چکی اور فتح یقینی ہو چکی تھی کو واپس بھارتی سرحد میں لوٹنا پڑنا تھا جب کہ پاکستانی افواج مشرقی پاکستان میں ہی رہنی تھیں. مغربی پاکستان کا 5ہزار مربع میل کا علاقہ بھی پاکستان کو واپس مل جاتا پاکستانی افواج کو ہتھیار ڈالنے نہ پڑتے اور نہ ہی 90ہزار جنگی قیدی بنتے مگر بھٹو نے ذلت خواری منظور کر لی کس لیے؟
صرف مغربی پاکستان میں اپنی حکومت بنانے کے لیے. مسٹر آصف میں مانتا ہوں کہ پاک بھارت کے سیاسی لیڈروں کی کرسی جب ڈگمگانے لگتی ہے تو وہ پاک بھارت جنگ کی باتیں کر کے عوام کو بے وقوف بنا لیتے ہیں لیکن ہمارے اور آپ کے لیڈروں میں بہت فرق ہے پاک اور بھارت کو ازاد ہوئے 28 سال ہو چکے ہیں ہمارے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو تھے جبکہ ان کے بعد دوسرے وزیراعظم لال بہادر شاستری بنے تو انہوں نے پنڈت کی ملکی خدمات کو بہت سراہا اور کہا کہ میں ان کے بناے ہوئے اصولوں پر ملکی ترقی کو آگے لے کر چلوں گا اور یہی الفاظ دوسرے وزیراعظم کی موت کے بعد اندرا گاندھی جو کہ بھارت کی تیسری وزیراعظم تھی نے کہی تھے ہمارے ملک میں 28 سال میں تین حکومتں بدلیں وہ بھی پہلے والے کے مرنے کے بعد. اس دوران آپ کے ملک میں 11 حکومتیں بدلیں ہر حکومت کا تختہ الٹا گیا ہر نئے آنے والے نے پچھلوں کو کوسا برا بھلا کہا اور ان پر ملکی دشمنی کے بدترین الزام لگاے ہمارے اور آپ کے ملک کے لیڈروں میں فرق یہ ہے کہ اپنی ذاتی کمزوریوں کے باوجود ہمارے ملکی کے لیڈر اپنے ملک کے وفادار رہے جبکہ آپ کے لیڈر اپنے ملک کے بھی وفا دار نہیں ہیں اگر ہمیں مجیب اور بھٹو کا اشرباد نہ ہوتا تو ہم کبھی بھی جنگ میں نہ کودتے ہم پاکستانی افواج کی محب الوطنی اور بہادری 65ء کی جنگ میں دیکھ چکے تھے ہمیں علم تھا کہ پاک فوج کٹ تو سکتی ہے مگر پیٹھ نہیں دکھا سکتی یہ صرف آپکے مقبول ترین لیڈروں کی تھپکی اور سبز جھنڈی تھی جس نے ہمیں پاکستان کی سیاسی بے چینی سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا
کرنل اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ میری گفتگو کافی دیر تک جاری رہی جب وہ رخصت ہوے تو میرے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان چھوڑ گئے جسے میں آج تک اپنے دل و دماغ سے دور نہیں کر سکااور نہ میرے ذہن میں اسکا جواب آ سکا ہے. 
شائد آپ لوگ اسکا جواب دے سکیں؟
کافی شاپ میں کافی دیر بیٹھا میں کرنل کی باتوں کے متعلق سوچتا رہا دراصل اس دن میری کہی گئی باتوں کا اس نے آج جواب دیا تھا کرنل آنند نے مجھ سمیت پوری پاکستانی قوم کو آئینہ دکھا دیا تھا اس کی کہی ہوئی سب باتیں سچ پر مبنی تھیں واقعی اس وقت پاکستان ایسے ہی حالات سے دوچار تھا جسکا بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا بھارت نے جوانوں کا برین واشنگ کا سلسلہ جاری رکھا اور 65ء کی جنگ میں ہارنے کے بعد انہوں نے ایسا عمل شروع کیا کہ آج 1999ء میں پاکستان کئ سیاسی پارٹیوں میں تقسیم ہو چکا ہے اور سب کا اپنا الگ منشور ہے لیکن ایک منشور سب کا ایک ہے اور وہ ہے دوسری پارٹی کو غلط کہنا.
اس ملاقات کے بعد کئ مرتبہ کرنل آنند مجھ سے ملنے آتا رہا ان ملاقاتوں میں وہ زیادہ تر بولتا اور میں کسی مناسب موقع پر چھوٹا سا جواب دے دیتا تھا کرنل ایک طرح سے میرا برین واش کر رہا تھا اور اسے نظر آ رہا تھا کہ وہ اس میں کامیاب ہو رہا ہے مگر میرا ذہن یہ تھا کہ پاکستان کے خلاف ان کے پراپگنڈہ کی تہہ تک پہنچنا. کرنل آنند سے ملاقاتوں کی تفصیل میں اپنے محکمے کو برابر بھیجتا رہا ایسی ہی ایک ملاقات میں جب کرنل نے یہ محسوس کیا کہ میں اسکی باتوں سے خاصا متاثر ہو چکا ہوں مجھ سے سوال کیا کہ بھارتی سفارت خانے میں تمہارے وہ کون سے تین آدمی ہیں جنہیں تم لوگوں نے پلانٹ کیا ہے اگر بتا دو گے تو مہربانی ہو گی بطور ملٹری اٹاچی میرا یہ فرض بنتا ہے کہ میں اپنے سفارت خانے کو ایسے لوگوں سے پاک رکھوں اور میرا یہ اس پر ذاتی احسان ہو گا اگر میں اس معاملے میں اسکی مدد کروں ان سے پہلی گفتگو میں میں نے انکے سامنے ذکر کیا تھا کہ ان کے سفارت خانے میں انکی افواج کے ہیڈ کوارٹرز میں ہمارے آدمی پے رول پر کام کر رہے ہیں اور میری وہ کہی ہوئی باتیں ضائع نہیں گئیں ان کا یہ نتیجہ تھا جو کرنل مجھ سے ہیلپ مانگ رہا تھا میں نے کرنل کو کہا کہ اس وقت اس موضوع کو چھیڑنا قبل از وقت ہو گا میں نے ہمسنتے ہوئے کہا کرنل تم ہی پہل کر دو تاکہ میں تمہارے زیر احسان ہو جاؤں اس ہوٹل میں تمہارے پلانٹیڈ آدمی کو میں پہچان چکا ہوں اور اس کا برا حشر کرنے والا ہوں لیکن تمہارے منہ سے سن کر اسکا نام مجھے یقین ہو جائے گا کہ تم مجھ سے سچائی اور دیانت داری سے مراسم بڑھا رہے ہو. جو آگے جا کر اعتماد کا وہ مقام بھی حاصل کر سکتا ہے جہاں میں تم کو ایسے سربستہ راز بھی بتا دوں گا جنہیں سن کر تم انگشت بد انداں زدہ ہو جاؤ گے. . لیکن ہمارا تو کوئی آدمی اس ہوٹل میں نہیں ہے کرنل نے جواب دیا اتنی معمولی بات کو جسے میں جان چکا ہوں کرنل صاحب تم مجھ سے چھپانا چاہتے ہو تو تمہاری مرضی میں تم سے اس کے بارے میں مزید بات نہیں کروں گا لیکن میں اسے پہچان چکا ہوں اس کے بے جان جسم کا تحفہ تمہیں ضرور بھیجوں گا میں نے لاپروائی برتتے ہوئے کرنل سے کہا
کرنل آنند نے سر بستہ رازوں تک پہنچنے کے لئے پہلی سیڑھی پر پہلا قدم ہی الٹا پڑتے دیکھا تو اس نے پینترا بدلا بہت ممکن ہے کہ میری لاعلمی میں میجر باسو نے ایسا کیا ہو مجھے بھگوان کی سوگند میرے علم میں نہیں ہے میں اس بارے میں پوری جانکاری کر کے پھر تم سے بات کروں گا ابھی کوئی ایسا ویسا قدم نہ اٹھانا. کل شام تک تمہیں حقیقت معلوم ہو جاے گی اور اگر میجر نے ایسا کوئی آدمی انگیجڈ کیا ہے تو اسے فوراً ہٹا دیا جائے گا کرنل میرا تحفہ بھیجنے کی دھمکی سے ڈر گیا تھا اسکی باتوں سے میرا یقین پختہ ہو گیا کہ کوئی آدمی ہوٹل میں ضرور پلانٹ کیا گیا ہے میں نے تو اندھیرے میں تیر چلایا تھا جو نشانے پر لگا تھا کرنل کے جانے کے بعد میں ٹہلتا ہوئے ٹیلی فون آپریٹر کے کمرے میں گیا اور اسے 500 روپیہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکیوں کی ہلاکت والے دن کی دوپہر کی آؤٹ گوئنگ کال کی تفصیل چاہیئے اس نے پیسے جیب میں رکھے اور ساری لسٹ نکال کر میرے سامنے رکھ دی اسکی ڈیوٹی سیکنڈ ٹائم تھی. اس لیے میں نے اس سے لسٹ لی اور اسے اگلے دن اسکی ڈیوٹی کے دوران واپس کرنے کا وعدہ کر کے لسٹ اپنے کمرے میں ساتھ لے گیا. بھارتی سفارت خانے کے نمبر ڈائریکٹری سے نکالے اور لسٹ کے ساتھ ملانے لگ گیا اس روز دوپہر سے لے کر رات 11 بجے بھارتی سفارت خانے 3 تین کالز ہوئی تھیں اور یہ کالز ہوٹل کے فون کی گئی تھیں اور کرنے والا صفائی سے تعلق رکھتا تھا اسکی ڈیوٹی سیکنڈ شفٹ میں تھی میں نے اسکا اس دن پتہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ ڈیوٹی پر نہیں آیا اور اس کے بعد جب تک میں کھٹمنڈو میں رہا وہ مجھے دوبارہ نظر بھی نہیں آیا اور نہ ہوٹل سے اپنے واجبات لینے آیا تھا کرنل آنند سے اگلی میٹنگ کے دوران میں نے کہا کہ تم نے مجھے تحفہ بھیجنے کی زحمت سے بچا لیا اور اس ہاؤس کیپنگ کی جان بھی بچ گئی کرنل نے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے کہا کہ ہماری اتنی تعریف تو کرو کہ بعض باتوں میں ہم بھی بہت تیز ہیں میں کھٹمنڈو میں رہتے ہوئے بہت تنگ آ چکا تھا اب پاکستان جانے والی ہر ڈاک. میں اپنے محکمے سے کہتا تھا کہ مجھے پاکستان واپس بلا لیں لیکن ہر بار یہی جواب آتا کہ تمہیں جلد ہی واپس بلا لیا جائے گا لیکن اس جلد میں دن ہفتے مہینے گزرتے جا رہے تھے میرے گرد دشمن کا گھیرا تنگ ہوتا جا رہا تھا دن یونہی بےکیفی کی حالت میں گزرتے جارہے تھے اس دوران مہاجروں کے نمائندے میرے پاس آتے رہے اپنی مشکلات بتاتے رہے کہ پاکستان جانے والے مہاجر خوش بھی ہیں اور پریشان بھی کہ پاکستان جا کر بے سروسامانی کے عالم میں وہ کیا کریں گے میں نے انہیں بتایا کہ سب کو بتا دو کہ ہر فلائٹ میں جانے والے مہاجروں کے تین تین ہزار پاکستانی روپے پیکٹ میں انہی مل جائیں گے یہ سن کر سب خوش ہو گئے پیر گنج سے لے کھٹمنڈو تک کے وہ مہاجر جن کے فلائٹ میں نام تھے اور انہیں دو دو ہزار فیس جمع کروانے کی تاریخ دے دی گئی تھی کہ اگر انہوں نے پیسے نہ جمع کروائے تو ان کے نام لسٹ سے کاٹ کر پیسے جمع کروانے والوں کے نام لسٹ میں شامل کر دیئے جائیں گے اس بات پر انہوں نے سفارت خانے کے سامنے ہڑتال کر رکھی تھی ہڑتال کا سن کر میں خاموش رہا کیونکہ میں کچھ نہیں کر سکتا تھا
 انہی دنوں جب ایک شام میں مہاجر نمائندوں سے بات چیت کر رہا تھا کہ اچانک کیپٹن مان خلاف توقع ریسیپشن پر رکا ایک پرچی دی اور کافی شاپ میں جا کر بیٹھ گیا ریسیپشن نے مجھے وہ چٹ دی اس پر لکھا تھا کہ ارجنٹ ملنا ہے میں سیدھا کافی شاپ کیپٹن کے پاس پہنچ گیا ابھی بیٹھا ہی تھا کہ اس نے کہا کہ تمہاری وین کے نیچے بم فٹ کر دیا گیا ہے جونہی تم وین سٹارٹ کرو گے بم پھٹ جاے گا مجھے جونہی اس بات کا پتہ چلا میں موقع دیکھ کر فوراً تمہیں بتانے کے لیے آ گیا میں بم سکواڈ میں کام کرتا رہا ہوں اگر کہو تو میں بم ڈیفیوز کر دیتا ہوں مگر جلدی کیوں کہ میرے پاس ٹائم بہت کم ہے میں نے کہا چلو اور ڈیفیوز کر دو ہم وین کے پاس گئے وہ وین کے نیچے گھسا اور تھوڑی دیر بعد وہ بم نکال کر باہر نکل آیا اس نے بتایا کہ بم ڈیفیوز ہو چکا ہے اس کے ایک ہاتھ میں بم تھا اور دوسرے ہاتھ میں تاریں تھیں میں نے تاریں اس سے لے لیں اور انکا گچھا بنا لیا
میں نے کہا کہ میں کپڑا لا کر دیتا ہوں تم بم لے جاؤ وہ بولا بم تاروں کے بغیر کوٹ کی جیب میں آ جاے گا اب میں چلتا ہوں کسی نے دیکھ لیا تو مصیبت کھڑی ہو جائے گی یہ کہہ کر وہ تیزی سے وہاں سے چلا گیا میں واپس مہاجر نمائندوں کے پاس آیا اور انہیں جلدی رخصت کر کے اپنے کمرے میں آ گیا میں حیران تھا کہ یہ بم کس نے فٹ کیا اور کیپٹن مان کیوں مجھے بتانے آیا اسکو مجھ سے کیا ہمدردی ہو سکتی ہے اور وہ تاریں کاٹنے والا پلاس بھی لے کر آیا تھا میں نے تاریں جیب سے باہر نکالیں اور انہیں دیکھنے لگا تاریں دونوں طرف سے کٹی ہوئی تھیں اس کا مطلب اسے بیٹری کے ساتھ فٹ کیا گیا تھا اگر وہاں سے کاٹی گئیں ہیں تو لازمی بات ہے تاروں کے سرے بیٹری کے ساتھ ہی ہوں گے ابھی شام کا ٹائم تھا میرا جانا خطرناک بھی ہو سکتا تھا لہذا میں نے صبح وین کسی مکینک کو چیک کروانے کا فیصلہ کر لیا میں نے مریم کو کال کی کہ میری وین خراب ہے اس لیے اگر تم آ سکتی ہو تو آج ملنے تم آ جاؤ. اگلی صبح میں وین کو ایک سروس اسٹیشن پر لے گیا وین کی سروس بھی کروائی اور لفٹ پر چڑھی وین کے نیچے اچھی طرح دیکھا مگر وین کا نچلا حصہ لوہے کی ایک بڑی چادر نے ڈھانپ رکھا تھا سواے ریڈی ایٹر کے کچھ دکھائی نہ دیتا تھا سروس کے دوران میں نے انجن کا بھی اچھی طرح جائزہ لیا لیکن انجن کے ساتھ بھی ایسی کوئی تار دکھائی نہ دی جس کے ساتھ بم کی تاریں جوڑ سکتے مجھے ساری گیم سمجھ میں آ گئی کیپٹن مان بارودی بم نہیں بلکہ ڈمی بم ساتھ لایا تھا جسے اس نے کوٹ کی جیب میں اس طرح چھپایا ہوا تھا جس طرح واپس لے کر گیا تھا وین کے نیچے گھس کر اس نے ڈمی نکالی اور تھوڑی دیر بعد باہر آ کر مجھے دکھائی اور کوٹ کی جیب میں ڈال کر رفوچکر ہو گیا یہ مجھے ہراساں کرنے کی ایک کمزور اور ناکام کوشش تھی میں نے اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ ان سے بدلہ لینے کے لیے انکی کسی گاڑی میں اصلی بم دھاکہ کروں گا اس واقعے کے تیسرے دن ہی کرنل آنند اور کیپٹن مان مجھے ملنے آئے گو کہ کیپٹن نے بم کی بات صرف اپنے تک محدود رکھنے کا کہا تھا لیکن کرنل نے کافی شاپ میں بیٹھتے ہی کہا کہ دیکھو آصف تمہاری جان بچانے کے لیے کیپٹن نے اپنی ملازمت داؤ پر لگا دی تھی تم یقین نہیں کرو گے جب ہم سفارت خانے کے غیر پنجابی لوگوں سے بات کرتے ہیں تو تمہارا ذکر ضرور کرتے ہیں کہ کیا ہوا جو آصف پاکستانی ہے مگر ہے تو بہادر اور بہادری کی ایسی مثال قائم کی ہے کہ کوئی غیر پنجابی ایسا نہیں کر سکتا اور ایسے کارنامے سر انجام دیئے ہیں کہ پنجابیوں کا نام روشن کر دیا ہے پنجابی چاہے بارڈر کی دوسری طرف کا ہو یا اس طرف کا مگر جب وہ کوئی کارنامہ سرانجام دیتا ہے تو سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے اب کرنل نے باقاعدہ میری برین واشنگ کرنی شروع کر دی تھی بم کے واقعہ کے ساتھ اس نے پنجابی ہونے والے موضوع کو بھی خوب ہوا دینی شروع کر دی تھی میں اسکی ہاں میں ہاں ملا رہا تھا میرا مقصد یہ تھا کہ وہ دونوں میرے سامنے کھل جائیں ورنہ ایک آنند تو کیا ہزار آنند بھی آ کر میرا برین واش کرنے کی کوششش کرتے تو انہیں منہ کی کھانی پڑتی میرا انکے ہاں میں ہاں ملانے کا مقصد اب انکو فلی طور پر جاننا تھا. کافی دیر گپ شپ اور کافی پینے کے بعد وہ دونوں چلے گئے اور جاتے وقت ہر بار کیطرح بڑی گرمجوشی سے ملے مگر اس بار انکے ملنے میں مجھ سے کچھ امید لگانا محسوس ہوا
روٹین کے ساتھ دن گزر رہے تھے کہ افغان ائیر کی پہلی پرواز پاکستان جانے کے لیے ائیر پورٹ پر آ کھڑی ہوئی. میں مریم کے ساتھ پہلے ہی ائیر پورٹ پر پہنچ گیا تھا ائیر پورٹ پر عجب گہما گہمی تھی جانے والے مہاجروں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے اور انہیں الوداع کہنے والےمہاجر اپنی بے بسی چھپا رہے تھے میں اور مریم امیگریشن کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور کلیرنس ملنے والے افراد کو الوداعی دعاؤں کے ساتھ ایک روپوں والا پیکٹ تھماتے جاتے تھے سفارت خانے کا ایک نچلے درجے کا ملازم بھی وہاں کھڑا تھا جو بڑی بےزاری کے ساتھ یہ سب دیکھ رہا تھا ان دنوں افغان ائیر دنیا کی گھٹیا ترین ائیر لائن تھی تبھی یو این او نے کم معاوضہ پر انکے جہاز چارٹر کیے تھے. اس کے باوجُود ہمارے سفارت خانے کی فرعونیت عروج پر تھی اور ساتھ ہی جہاز کے عملے کی فرعونیت بھی عروج پر تھی وہ مہاجروں کا سامان ایسے لے کر پھینک رہے تھے جیسے وہ انہیں مفت میں لے جا رہے ہوں دوسری طرف مہاجروں نے بھی اخیر کر دی تھی اپنے ساتھ گھر کے جاڑو تک باندھ کے لے جارہے تھے ایسے لگتا تھا کہ وہ کسی جہاز پر نہیں بیل گاڑی پر جا رہے ہوں
یہ 1975ء کا سال تھا ایک طرف پہلے والے مہاجر پاکستان جا رہے تھے تو دوسری طرف روز 5 یا 10 مہاجر کھٹمنڈو پہنچ رہے تھے اور ان نئے آنے والے مہاجروں کو دیکھ کر میری شکوک وشبہات بڑھ رہے تھے کہ لازمی یہ انڈین انٹیلیجنس کے ہاتھوں سے ہو کر آے ہیں اسی دوران مجھے ڈاک موصول ہوئی اس میں ایک شخص کی فوٹو اور اس کے متعلق لکھا ہوا تھا. خط میں لکھا تھا کہ یہ شخص ڈی ایم آئی کا ایک ماہر تجربہ کار جاسوس ہے اس نے جسمانی طور پر مسلمان ہونے کے سارے تقاضے پورے کیے ہیں دو خاصی پڑھی لکھی اور خوبصورت عورتیں جو کہ تربیت یافتہ بھارتی جاسوسہ ہیں اس کے ہمراہ ہیں ان میں ایک اسکی بیوی بنی ہوئی ہے اور دوسری بیٹی یہ شخص شکل چینج کرنے کا ماہر ہے یہ کبھی بھی ایک روپ میں نہیں رہتا کبھی کلین شیو کبھی نقلی داڑھی کبھی پاجامہ قمیض کبھی پینٹ شرٹ کبھی تھری پیس پہن کر اپنا آپ بدلتا رہتا ہے اسکو بھارت سے تمہارے متعلق مکمل بریف کیا گیا ہے یہ دیکھتے ہی تمہی پہچان لے گا اسکی شکل نہ بہاری ہے نہ پٹھانی ہے نہ بنگالی ہے اور نہ ہی پنجابی لگتا ہے یہ تینوں عنقریب کھٹمنڈو پہنچنے والے ہیں آخر میں لکھا تھا کہ
 Give Tham a good treat
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی میری واپسی کو بہت جلد کہہ کر ٹرخا دیا گیا تھا
 میرے دل میں بھی یہ خیال آیا کہ جس طرح یہ مجھے ٹرخا رہے ہیں میں بھی انہیں ٹرخا دوں مگر ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ میں ان افراد کی خاطر نہیں بلکہ وطن کی محبت کی خاطر آگ کے اس سمند میں کودا ہوں اللہ میرے وطن پاکستان کو قائم ودائم و سلامت رکھے اور حکومتیں تو آنی جانی والی چیزیں ہیں مگر یہ وطن تو ہمیشہ رہنا ہے افراد بدلتے جائیں گے مگر وطن یہی رہے گا جو شخص مجھے کھٹمنڈو میں رکھ کر میرا آخری قطرہ خون کا نچوڑنا چاہتا ہے ہو سکتا ہے وہ مجھ سے بھی زیادہ محب وطن ہو اور اسے یقین ہو کہ میں یہ سب کر سکتا ہوں اور حالات کو فیس کر سکتا ہوں وطن رہے گا تو ہم رہیں گے ہماری فیملیز رہیں گی اگر وطن ہی نہیں رہے گا تو پھر ہم کہاں رہیں گے ہمیں یا تو غلام بنا لیا جاے گا یا پھر قتل کر دیا جائے گا اس لیے جب بھی کوئی کام کرنے لگو تو وطن کی محبت کو اولین ترجیح دو.
میں نے مریم کے ساتھ اس مسئلے کو ڈسکس کیا تو اس نے کہا کہ اس مہم میں میں بھی تمہارا ساتھ دوں گی میں نے حامی بھر لی اور اس کو فیس کرنے کی تیاری میں لگ گیا محسن اور نئے شادی شدہ لڑکوں کی میں نے ڈیوٹی لگائی کہ ہر نئے آنے والے مہاجر پر نظر رکھیں اور اسکی مجھے روپوٹ دیں سفارت خانے سے سفیر سے کہہ کر پچھلے دو ماہ کی رجسٹریشن لسٹیں منگوا لیں کیونکہ ہو سکتا ہے وہ چیک ان ہو گیا ہو میں نے اپنی طرف سے ہر طرح سے جانچ پڑتال کرنا شروع کر دی.میں نے پاکستان سے آنے والے ہدایت نامے کو کئی بار پڑھا اتنی مفصّل ہدایات اور تینوں جاسوسوں کی مکمل تفصیلات اور تصاویر بھیجنے کا مطلب تھا کہ میرے محکمے کا رابطہ ڈی ایم آئی کے کسی ایسے رکن سے ہو چکا تھا جس نے انہیں اس قدر مفصل تفصیلات مہیا کی تھیں دوسری بات جو میرے ذہن میں کھٹک رہی تھی. وہ یہ تھی کہ نارمل پروسیجر کے مطابق ہر ڈاک بھارت سے پاکستان پہنچنے اس کی تجزیات ہونے اور پھر مجھ تک پہنچنے میں تقریباً ڈیرھ ماہ کا عرصہ لگا ہو گا تصویریں بھی سٹوڈیو کی بنی ہوئی نہیں تھیں بلکہ چلتے پھرتے کی کھنچی گئی تھیں ان تمام باتوں سے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ بھارت میں ہمارے کسی گروپ کو یہ معلومات دینے والے کو خود اس بات کا علم شاید ڈیرھ ماہ قبل ہوا ہو گا پاکستان جانے والی پروازیں شروع ہو چکی تھیں اور اگر ان تینوں جاسوسوں نے ان پروازوں کے شیڈول میں پاکستان جانا تھا تو سفارت خانے کی فائنل لسٹ میں انکے نام ہونے چاہئیں میں نے اس لسٹ کو کئی بار پڑھا لیکن ایسی کوئی مہاجر فیملی جو ایک مرد اور دو عورتوں پر مشتمل ہو دکھائی نہ دی میں صرف مفروضوں پر کام کر رہا تھا اور بعض اوقات مفروضے بھی سچ ثابت ہو جایا کرتے ہیں اب مجھے یہ یقین ہو چکا تھا کہ یہ تین جاسوس کھٹمنڈو پہنچ چکے ہیں اور انہی پروازوں پر انہیں پاکستان بھی جانا ہے ان دو باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے تمام امکانات پر سوچنا شروع کر دیا اول یہ کہ سفارت خانے کی لسٹ میں کھٹمنڈو کے گردونواح میں رہنے والے مہاجر لیٹ ہو جانے کیوجہ سے شامل ہونے سے رہ گئے تھے اور ان مہاجروں کی جگہ دوسرے مہاجروں کو انکی جگہ پاکستان بھیجنے کے اختیارات ہمارے سفارت خانے کے صرف ایک آدمی کے پاس تھے اور وہ بھی بس رجسٹرڈ مہاجروں کو بھیج سکتا تھا گذشتہ دو ماہ میں ہونے والے مہاجرین کی رجسٹریشن لسٹ کو بھی میں نے کئی بار پڑھا لیکن کوئی سراغ ہاتھ نہ لگا اس مقصد کو حل کرنے میں کسی حد تک میرا ذاتی مفادبھی تھا اپنے محکمے کیطرف سے مجھے کھٹمنڈو میں کوئی خاص اور پہلا مشن سونپا گیا تھا ورنہ عام ہدایات ہی ملتیں تھیں میں نے کھٹمنڈو میں آج تک جو بھی کیا صرف اپنی صوابدید پر کیا تھا اس میں مجھے اپنے محکمے کیطرف کوئی ہدایت نہی ملی تھی آگر اس مشن کو میں کامیابی سے انجام دے دیتا ہوں تو میں اپنے محکمے پر زور دے کر پاکستان جا سکتا ہوں.
محسن اور اس کے ساتھی کھٹمنڈو میں پھیل گئے اور تلاشی شروع کر دی مگر ناکام رہے کبھی کرنل آنند اور کیپٹن مان آ جاتے اور میرا برین واش کرتے رہتے اسی طرح کافی دن گزر گئے مگر ہر طرف ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا تھا مریم کیطرف جانا اور واپس آنا اور اس گتھلی کو سلجھانے کی کوشش بس انہی کاموں میں گزرتے شب وروز پتہ بھی نہ چلا کہ کتنے دن گزر گئے ہیں مریم کی اردو سن کر لطف اندوز ہوتا وہ اکثر ہاتھ ماتھے پر لے جا کر سلام کرتی وہ بہت جلد اور تیزی سے اردو سیکھ رہی تھی
حسب معمول ایک روز میں مریم کے ہاں گیا تو اس نے ماتھے تک ہاتھ لے جاتے ہوئے آداب کیا اور اٹک اٹک کر بولی کہ قدم رنجہ فرمائیے. میں نے اسے اتنی جلدی اردو سیکھنے پر داد دی باتیں تو میں مریم کے ساتھ کر رہا تھا لیکن میرا ذہن کچھ اور ہی سوچ رہا تھا کہ بہاری مہاجر تو ایسی سلیس اور لکھنؤی انداز کی اردو نہیں بولتے انکی اردو کا تو اپنا ہی ایک الگ انداز ہے گذشتہ 28 سالوں میں انہوں نے 24 سال مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کے ساتھ گزارے ہیں اور اسی وجہ سے انکی اردو پر بنگالی رنگ چھا چکا ہے تو پھر مریم کسی بہاری خاتون سے اتنی عمدہ اردو کیسے سیکھ رہی ہے میں نے مریم سے پوچھا کہ اسکی ٹیوٹر کی عمر کتنی ہو گی تو اس نہیں کہا کہ 21 یا 22 سال ہو گی میں حیران تھا کہ جو لڑکی مشرقی پاکستان میں پیدا ہوئی اور جس کے گھر میں بھی بہاری اور بنگالی ملی جلی اردو بولی جاتی ہے وہ کیسے اتنی صحیح اردو بول سکتی ہے 
جاری ہے

Next Episode


No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.