Ads Top

Aur Neil Behta Raha By Inyat Ullah Altamish Episode No. 67 ||اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش قسط نمبر 67

Aur Neel Behta Raha
 By
Annyat Ullah Altamish

اور نیل بہتا رہا
از
عنایت اللہ التمش

Aur Neel Behta Raha  By  Annyat Ullah Altamish  اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش

 #اورنیل_بہتارہا/عنایت اللہ التمش
#قسط_نمبر_67

گزشتہ رات مجاہدین نے رومیوں کے باہر رہنے والے دستوں پر پتھراؤ کیا تھا اور تیر بھی برسائے تھے اس لئے رومی اس صبح جلدی باہر آگئے اور ان کے انداز سے صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ غصے میں ہیں، مجاہدین تو فجر کی نماز کے بعد ہی تیار تھے انہیں معلوم تھا کہ آج صبح کی تیاری پہلے دنوں سے بہت ہی مختلف ہوگی۔
رومی فوج ہر صبح باہر آتی تھی اور نالے کے پاس آکر مجاہدین پر حملہ کر دیتی تھی، اس صبح رومیوں نے پہلی بار یہ حرکت کی کہ وہ للکارتے ہوئے اور طعنہ آمیز نعرے لگاتے ہوئے آرہے تھے، ان میں گھوڑ سوار بھی تھے اور پیادے بھی، وہ تو بڑے جوش و خروش سے دونوں پلوں سے گزرتے آرہے تھے، تمام دستوں کو نالے کے پار آکر لڑائی کی ترتیب میں ہونا تھا اور پھر لڑائی شروع ہونی تھی۔ سالار زبیر بن العوام اور ان کے ساتھ چند ایک مجاہدین ایک طرف چھپے ہوئے پلوں کو دیکھ رہے تھے ، پل ابھی سلامت کھڑے تھے۔
کم و بیش تین ہزار رومی گھوڑ سوار اور پیادے پلوں سے گزر آئے اور پل ابھی تک کھڑے تھے ۔
سالار زبیر پریشان ہونے لگے انہوں نے یہ سوچا تھا کہ تین ہزار رومی ادھر آ جائیں اور پھر ان کی تجویز زیر عمل آئے، لیکن رومی چلے ہیں آ رہے تھے اچانک پلوں پر جو سوار اور پیادے گزر رہے تھے وہ روکنے لگے اور کچھ گھبرانے بھی لگے ،ایک شور سنائی دیا کہ پل ہل رہا ہے، وہ سوچ ہی رہے تھے کہ یہ کیا معاملہ ہے کیا زلزلہ آیا ہے ، پل وزن سے بڑی زور سے ہلا اور بیٹھ گیا ، جتنے سوار اور پیادے پل کے اوپر تھے وہ نالے میں جا پڑے، پیچھے رومی ہجوم کی صورت میں آگے والوں کو دھکیلتے آ رہے تھے ۔ان میں سے بھی کئی نالے میں گرے اور گہرے پانی میں ہاتھ پاؤں مارنے لگے۔
سالار زبیر کی اسکیم کامیاب ہوگئی تین ہزار یا اس سے کچھ زیادہ جو رومی فوجی آگے آ گئے تھے وہ اپنے پیچھے شور سن کر مڑ مڑ کر دیکھنے لگے اور ان میں سے کئی ایک نے مجاہدین کی طرف بیٹھے کردیں اور نالے میں اپنے ساتھیوں کو بہتا اور تیرتا دیکھنے لگے۔ مجاہدین اسی موقع کے انتظار میں تھے سپہ سالار کے اشارے پر مجاہدین ان پر ٹوٹ پڑے ان رومیوں کو انہوں نے سنبھلنے کا موقع نہ دیا، وہ تو یوں سمجھیں کہ رومیوں کا قتل عام ہو رہا تھا۔
نالے کے پاس جو رومی دستے رہ گئے تھے وہ اپنے کٹتے اور گرتے ہوئے ساتھیوں کی کچھ مدد نہ کرسکتے تھے سوائے تیر اندازی کے یا برچھیاں پھینکنے کے، لیکن وہاں تو گتھم گتھا قسم کی لڑائی ہورہی تھی اس لئے رومیوں نے تیر اندازی اور برچھی بازی کی نہ سوچی ،وہ رومی سوار اور پیادے جو نالے میں گر کر تیر رہے تھے اور دوسرے کنارے پر پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے ان پر مجاہدین نے تیر چلانے شروع کر دیے اور شاید ہی ان میں سے کوئی نالے سے زندہ نکلا ہو گا۔
زیادہ تر دستے تو ابھی نالے کے پاس تھے ان کے ساتھ دو جرنیل بھی تھے ،لیکن وہ بکھلا گئے تھے کہ یہ ہوا کیا ہے، انہیں فوراً سوچ لینا چاہیے تھا کہ نالے کے پار آنا ان کے لیے مشکل نہیں کیونکہ یہ نالا شہر کے اردگرد نہیں بہتا تھا بلکہ صرف صدر دروازے والی طرف سے شہر کے ساتھ ساتھ گزرتا آگے نکل جاتا تھا ،کچھ دور پیچھے اور کچھ دور آگے لکڑی ہی کے دو پل اور تھے رومی فوراً ادھر چلے جاتے اور پلوں سے گزر آتے لیکن وہ تو جیسے سوچنے کے قابل ہی نہیں رہے تھے۔ آخر کسی کو ان پلوں کا خیال آ ہی گیا، رومی دستے دو حصوں میں بٹ کر ان دونوں محفوظ پلوں کی طرف چل پڑے ابھی کچھ ہی دور گئے تھے کہ ان پر منجیقیوں سے پھینکے ہوئے پتھر آنے لگے۔
گزشتہ رات کی اسکیم میں عمرو بن عاص اور زبیر بن العوام نے یہ بھی شامل کیا تھا کہ ان محفوظ پلوں کے قریب منجیقیں لگا دی جائیں گی ،ان دونوں پلوں کو سلامت کھڑا رکھنا تھا کہ کامیابی کی صورت میں مجاہدین کو نالے کے پار جانا اور شہر میں داخل ہونا تھا ،رومی ان پلوں کی طرف چلے تو ان پر سنگ باری شروع ہو گئی، پتھر زیادہ وزنی نہیں پھینکے جا رہے تھے کیونکہ اس طرح ایک کے بعد دوسرا پتھر پھینکنے میں زیادہ وقت لگ جاتا تھا، ذرا کم وزن کے پتھر زیادہ تیزی سے پیچھے جا رہے تھے ایک پتھر کسی ایک آدمی یا ایک گھوڑے کو لگتا تھا لیکن دہشت اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ رومی فوج ان پتھروں سے بچنے کے لئے ایک دوسرے کے پیچھے ہو رہے تھے۔
پتھر دائیں اور بائیں سے آ رہے تھے پیچھے شہر کی دیوار تھی اور آگے نالا تھا اس لئے رومی دستے ایک دوسرے کو اس طرح دبانے لگے جیسے سر کے گھنے بال آپس میں الجھ جاتے ہیں ۔اگر انسان انسانوں کو دباتے تو اتنا نقصان نہ ہوتا وہاں گھوڑے بھی تھے اور ان پر ان کے سوار تھے اس قیامت خیز ہڑبونگ میں گھوڑے پیچھے بھی ہٹتے اور دائیں بائیں بھی سرکتے تھے۔ اس طرح پیادے گھوڑوں کے درمیان آ کر کچلے گئے اور بعض دم گھٹنے سے مر گئے۔ وہاں کوئی اچھا بھلا آدمی گرا تو وہ گھوڑوں اور پیادوں کے پاؤں کے تلے کچلا مسلا گیا۔
مجاہدین نے اپنے کنارے پر کھڑے ہوکر اس ہجوم پر تیروں کی بوچھاڑ ے پھینکنی شروع کر دیں ،شہر کے لوگ سامنے دیوار پر کھڑے اپنی فوج کا یہ حشر دیکھ رہے تھے یہ محض بھگدڑ کا مظاہرہ تھا ،شہر کے اندر ابھی فوج موجود تھی اگر اس کے کمانڈر اپنے دماغ حاضر رکھتے تو پچھلے دروازے سے اپنے دستوں کو نکال کر باہر لے آتے اور دور کے پلوں سے گزر کر مجاہدین پر پہلوؤں سے حملہ کرسکتے تھے، لیکن وہ تو جیسے عقل کے اندھے ہو گئے تھے اور یہ اللہ کی ایک خاص مدد تھی جو اس کی ذات باری ایمان والوں کو دے رہی تھی۔
اندر والوں نے صرف یہ کیا کہ نالے کی طرف والا ایک دروازہ کھول دیا تھا کہ باہر کے فوجی اندر آ سکیں۔ اس دروازے کے سامنے نالے کا موڑ آتا تھا جس سے نالا دیوار کے کچھ اور قریب ہوگیا تھا ،اس سے مجاہدین نے یہ فائدہ اٹھایا کہ اس موڑ پر اپنی طرف والے کنارے پر چلے گئے اور جو رومی اس دروازے سے اندر جانے لگتے تھے، مجاہدین ان پر تیر پھینکتے تھے، اسی طرح انہوں نے بہت سے رومیوں کو اس دروازے پر ہی رکھا کچھ تو تیر کھا کر اندر جا گرے اور کچھ تڑپتے ہوئے باہر ہی رہے اور گرتے رہے ۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے حکم دیا کہ دو تین منجیقیوں کو نالے کے قریب لے جا کر اس طرح پتھر پھینکے جائیں کہ دیوار کے اوپر سے شہر کے اندر گرے۔ اس حکم پر فوری طور پر عمل شروع ہو گیا بعض پتھر دیوار پر اس جگہ بھی لگتے تھے جہاں شہر کے لوگ اور فوجی کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے، اس سنگ باری سے کچھ زخمی ہوئے اور باقی وہاں سے اتر گئے ،ان لوگوں نے اور شہر پر سنگ باری نے شہر کے لوگوں میں بھگدڑ مچادی اور لوگ دوسری طرف کے دروازوں سے بھاگنے لگے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
ایک طرف سے سالار زبیر بن العوام مجاہدین کی ایک بڑی جماعت کو ساتھ لے کر دور کے پل سے نالے سے گزر گئے۔ دوسری طرف سے سالار عبادہ بن صامت نے مجاہدین کی ایک جماعت ساتھ لی اور وہ اس طرف والے پل سے گزرے ،انھوں نے اس چال کے لئے موقع موضوع دیکھ لیا تھا ،دونوں سالار بڑی ہی تیزی سے اس دروازے کی طرف آ گئے جو بعد میں کھلا تھا، مجاہدین نے اس طرف تیر اندازی روک دیں اور سالار زبیر اپنے مجاہدین کے ساتھ اس دروازے سے اندر چلے گئے۔
سالار عبادہ بن صامت بھی اسی دروازے سے اندر گئے لیکن ان کے کچھ مجاہدین نے دیکھا کہ صدر دروازے سے بھی اندر جا سکتے ہیں وہ ادھر سے اندر گئے ،ان مجاہدین نے بھاگ کے اندر والے دہشت زدہ رومی فوجیوں پر حملہ کر دیا اس کے ساتھ ہی مجاہدین نے شہر کے دروازے کھولنے شروع کردیئے ،شہر خاصا وسیع و عریض تھا، فاصلے زیادہ تھے پھر بھی کچھ وقت بعد تین چار دروازے کھل چکے تھے۔
عمرو بن عاص نے مجاہدین کی ایک اور جماعت کو شہر میں داخل ہونے کے لئے بھیج دیا اندر گئے ہوئے دونوں سالاروں نے اعلان کروانے شروع کر دیے کہ شہری بھاگنے کی کوشش نہ کریں، ان کی جان و مال کی اور گھروں کی حفاظت کی جائے گی ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ کوئی شہری اپنے فوجیوں کی مدد نہ کرے ورنہ اسے قتل کرکے اس کے گھر کو آ گ لگا دی جائے گی۔
اس لڑائی کا تفصیلی ذکر کرنے والے مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مصر کے قبطی عیسائی پہلے ہی کہتے تھے کہ مسلمان جس طرح فتح پر فتح حاصل کرتے آ رہے ہیں اس سے یہی نظر آتا ہے کہ یہ سارے مصر پر قبضہ کرلیں گے، بہتر یہی ہے کہ مسلمانوں کا ساتھ دیا جائے۔
 یہ باتیں کرتے وہ ہرقل اور قیرس کے ظلم و ستم کو ضرور یاد کرتے تھے۔ کریون کے اندر قبطی عیسائیوں نے رومیوں کا ساتھ چھوڑ دیا، اور مجاہدین کے ساتھ تعاون شروع کردیا۔ تاریخ میں ایسا واضح اشارہ بھی ملتا ہے کہ بعض شہریوں نے تلواروں اور برچھیوں سے رومی سپاہیوں کو مارنا شروع کردیا تھا۔
جنرل تھیوڈور اور دوسرے جرنیل کہیں نظر نہیں آ رہے تھے، ایک طرف سے آواز آئی کے ہمارے جرنیل پچھلے دروازے سے بھاگ گئے ہیں ،یہ ایک اواز کئی آوازیں بن گئی اور سارے شہر میں خبر پھیل گئی کہ جرنیل اور دوسرے کمانڈر اپنی فوج کو چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں، اس خبر کا یہ اثر ہوا کہ ان کے فوجی بھی بھاگنے لگے، لیکن انہیں بھاگنے نہ دیا گیا اب تمام مجاہدین اندر آ چکے تھے، انہوں نے رومیوں کو کاٹنا شروع کر دیا۔
آخر کریون پوری طرح مجاہدین اسلام کے قبضے میں آگیا ،یہ فتح ایک معجزے سے کم نہ تھی ،خود مجاہدین اور انکے سالار بھی حیران تھے کہ انہوں نے یہ فتح کس طرح حاصل کرلی ہے ،رومیوں پر تو اس کا بہت ہی برا اثر پڑا جرنیل تھیوڈور نے اپنی فوج کے جو حوصلے اور جو جذبہ بڑی مشکل سے زندہ بیدار کیا تھا وہ پھر دم توڑ گیا ۔
اب اسکندریہ مجاہدین کی آخری منزل تھی لیکن بہت ہی دشوار اور خطرناک۔

#جاری_ہے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.