Ads Top

Aur Neil Behta Raha By Inyat Ullah Altamish Episode No. 66 ||اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش قسط نمبر 66

Aur Neel Behta Raha
 By
Annyat Ullah Altamish

اور نیل بہتا رہا
از
عنایت اللہ التمش

Aur Neel Behta Raha  By  Annyat Ullah Altamish  اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش

 #اورنیل_بہتارہا/عنایت اللہ التمش
#قسط_نمبر_66

صبح طلوع ہوئی تو دو ملازم آئے انہوں نے اسطافت کے غسل کا انتظام کیا ،اور دونوں اس وقت تک حاضری میں کھڑے رہے جب اسطافت غسل کرکے اور کپڑے پہن کر تیار ہو گیا، پھر اس کے لیے بڑا ہی پرتکلف اور مرغن ناشتہ آیا۔
وہ ناشتے سے فارغ ہوا ہی تھا کہ بوڑھا پادری میزبان بزرگ کے ساتھ آ گیا، انہوں نے اسطافت کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا جیسے وہ کوئی بہت ہی اونچی شخصیت ہو۔ خوشامدانہ لہجے اور انداز میں اس سے پوچھا کہ رات کیسی گزری اور اسے تکلیف یا بےآرامی تو نہیں ہوئی۔
 اسطافت پر ابھی تک کرسٹی کے حسن اور اس کی دوشیزگی کا خمار طاری تھا، دونوں بوڑھے نے باتوں باتوں میں وہی بات چھیڑ دی جو گزشتہ رات انہوں نے اسطافت کے ساتھ کی تھی، وہ اسی پر زور دے رہے تھے کہ اب مصر میں عیسائیت کا راج ہوگا ۔
اسطافت کی جذباتی اور ذہنی حالت ایسی ہو گئی تھی جیسے اسے دنیا سے کوئی دلچسپی ہی نہیں رہی تھی، گزشتہ رات کرسٹی نے اس کے ساتھ یہی باتیں کی تھیں ،جو اس کے ذہن میں گونج رہی تھی اور وہ اپنے وجود میں انتقام کی تپش محسوس کر رہا تھا۔
میں نے کچھ فیصلے اور کچھ ارادے کر لئے ہیں ۔۔۔اسطافت نے پر عزم لہجے میں کہا۔۔۔ میں یسوع مسیح کے مقدس نام پر مسلمانوں کو ایسا نقصان پہنچاؤ گا جس سے ان کی کمر ٹوٹ جائے گی ،سوچا تھا کہ ان کے سپہ سالار کو ہی قتل کر دو لیکن یہ ممکن نہیں کیونکہ وہ ہر وقت اپنے محافظوں کے نرغے میں رہتا ہے، اس کی بجائے سالاروں کو قتل کردوں گا اور اس کے ساتھ ہی اپنے قبیلے کے لوگوں سے یہ کہنا شروع کر دوں گا کہ وہ دو دو چار چار کر کے لشکر سے نکلیں اور اپنے گھروں کو پہنچیں۔
واہ۔۔۔ واہ۔۔۔ پادری نے بے ساختہ خراج تحسین پیش کر نے کے لہجے میں کہا۔۔۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں اگر تم یہ کام کردو تو تمہیں اس دنیا کی بادشاہی ملے گی ۔
دونوں بوڑھے کچھ دیر اسی موضوع پر باتیں کرتے رہے اور جب اسطافت نے کہا کہ بہت وقت گزر گیا ہے اور اب اسے واپس جانا چاہئے ،اس وقت تک اسطافت کے اندر مسلمانوں کی عداوت بھڑکتی ہوئی آگ کی صورت اختیار کر چکی تھی، اور اب وہ آگ بگولے کی صورت میں ان سے رخصت ہوا ۔
وہ جب اس گاؤں سے نکلا تو بار بار پیچھے دیکھتا تھا اسے اپنے بزرگ میزبان کی منڈیر پر کرسٹی نظر آگئی جو ہاتھ اوپر کئے ہلا رہی تھی ،اسطافت کے عزم اور عہد تروتازہ اور مکمل طور پر مستحکم ہوگئے ،اس نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی اور کچھ ہی دیر بعد مجاہدین کے لشکر میں جا پہنچا۔
کریون کی جنگ جاری تھی مجاہدین کریون کی دیواروں تک پہنچنے کے ابھی خواب دیکھ رہے تھے، رومیوں نے تو جیسے عہد کر لیا تھا کہ مسلمانوں کو شکست دے کر پسپا کریں گے یا موت قبول کرلیں گے۔ بزنطیہ سے جو کمک آئی تھی اس میں سے کچھ دستے اسکندریہ سے کریون بھیج دیے گئے تھے ،ان دستوں کو مسلمانوں کے خلاف میدان میں اترنے کا پہلا تجربہ ہو رہا تھا، انہوں نے مسلمانوں کی شجاعت کی بہت باتیں سنی تھی جس نے انہیں بھڑکا اکسا کر کریون بھیجا تھا ،یہی دستے جو جانوں کی بازی لگا کر لڑ رہے تھے ۔اور انکی دیکھیں دیکھا روم کی جو فوج پہلے ہی مصر میں تھی اور مسلمانوں سے خوفزدہ تھی بے جگری سے لڑ رہی تھی۔
اگلے آٹھ نو روز اس میدان میں ایسے ہی معرکے لڑے جاتے رہے جن میں سے پہلے روز کا معرکہ تفصیل سے بیان ہو چکا ہے۔
 ہر روز یہی منظر دیکھنے میں آتا تھا کہ کسی دن رومی پیچھے ہٹ جاتے اور ان کا جانی نقصان خاصا زیادہ ہوتا ،اور کبھی مجاہدین رومیوں کا دباؤ اور ان کے تابڑ توڑ حملے برداشت نہیں کرسکتے اور لاشیں پیچھے چھوڑ کر پسپا ہو آتے تھے، فتح اور شکست کا فیصلہ ہوتا ہی نہیں تھا، نہ ہوتا نظر آتا تھا۔
کریون کی اس جنگ کا آخری معرکہ سنانے سے پہلے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس محاذ کا ذکر مکمل کر دیا جائے جو قیرس نے مسلمانوں کے خلاف تیار کیا تھا۔
 یہ کہنا کہ سپہ سالار عمرو بن عاص کو اس محاذ کی خبر نہیں تھی صحیح نہیں۔ جاسوس مجاہدین میدان جنگ کے اردگرد کے دیہات میں مصری دیہاتیوں کے بہروپ میں گھومتے پھرتے رہتے تھے وہ زیادہ تر یہ دیکھتے تھے کہ مقامی لوگوں کی سوچ مجاہدین اسلام کے متعلق کیا ہے، اور ان کی درپردہ سرگرمیاں کیا ہے، ان جاسوسوں نے دیہات میں کچھ مخبر بنا لئے تھے جو لوگوں کے گھروں کے اندر کی باتیں بھی بتا دیتے تھے۔
قیرس کی زمین دوز محاذ کو بیان کرنے کے لیے ان دو بوڑھوں، اسطافت اور کرسٹی کا واقعہ بیان کردینا ہی کافی ہے، ہم یہ واقعہ اس کے انجام تک سنا دیتے ہیں اس سے واضح ہو جائے گا کہ قیرس کا محاذ کیا کارروائیاں کرتا تھا، اور مجاہدین اسلام کے پاس اس کا کیا توڑ تھا ،کوئی توڑ تھا بھی یا نہیں۔
کریون کی جنگ کے دوران جاسوس مجاہدین اور مخبر اطلاع دینے لگے تھے کہ دیہات میں پادری قسم کے افراد پھیل گئے ہیں اور وہ لوگوں کو اسلام کے خلاف بھڑکا رہے ہیں، عیسائی مخبروں نے بتایا کہ گرجوں میں پادری خطبہ دیتے ہیں اور ان میں بھی اسلام کے خلاف باتیں ہوتی ہیں، اور یہ باتیں اس قسم کی ہوتی ہے کہ مسلمان مصر پر قابض ہو گئے تو سب کو زبردستی مسلمان بنا لیں گے، اور تمام کی تمام خوبصورت عیسائی لڑکیوں کو اپنے پاس رکھ لیں گے۔
مخبر اور اپنے جاسوس یہ بھی اپنے سپہ سالار کو بتارہے تھے کہ قبطی عیسائیوں کو یسوع مسیح کے نام پر کہا جا رہا ہے کہ وہ مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ دیں اور انکے ساتھ ذرا سا بھی تعاون نہ کریں، کچھ دنوں بعد یہ اطلاع بھی مل گئی کہ بدوؤں کو بھی مجاہدین کے لشکر سے لا تعلق کرنے کی کوشش جاری ہے۔ 
سپہ سالار عمرو بن عاص کی یہ مجبوری تھی کہ ان کے پاس اتنی نفری نہیں تھی کہ کچھ نفری کو دیہات میں پھیلا دیتے اور ان پادری وغیرہ کا منہ بند رکھتے۔ کریون کی جنگ کے لئے تو انہیں اور زیادہ نفری کی ضرورت تھی۔
سپہ سالار یہی کر سکتے تھے جو انہوں نے بہت دن پہلے کردیا تھا انہوں نے حکم جاری کیا تھا کہ لشکر کے ساتھ جو بدوّ اور قبطی عیسائی ہیں انہیں باہر کا کوئی آدمی نہ ملے اور نہ ہی یہ باہر کے کسی آدمی کے ساتھ تعلق رکھیں، لیکن یہ ممکن نہیں تھا بدوؤں کی وہ نفری جو دیہات سے رسد اکٹھی کرنے پر مامور تھی وہ تو باہر کے لوگوں کے ساتھ رابطہ رکھتی ہی تھی ورنہ اپنے کام میں وہ کامیاب نہیں ہوسکتی تھی ،ان بدوؤں کو لوگوں سے دور رکھا ہی نہیں جاسکتا تھا ۔
مثلا اسطافت اس گاؤں گیا اور ایک رات وہاں ٹھہرا بھی لیکن پیچھے لشکر میں اس کی کمی محسوس نہ ہوئی وہ اپنا کام خوش اسلوبی سے پورا کر رہا تھا ۔
سپہ سالار عمرو بن عاص کو اپنے جاسوسوں کی رپورٹ مل رہی تھی لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ قیرس کا یہ محاذ کتنا گہرا ،کتنا مضبوط اور خطرناک ہوتا جارہا ہے۔ انہیں صرف اللہ پر بھروسہ تھا جس کے نام پر وہ حق و باطل کے معرکے لڑ رہے تھے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
کریون کی جنگ کے دوران کا واقعہ ہے کہ جاسوسوں نے ایک گاؤں کی رپورٹ دی جو کچھ زیادہ ہی تشویشناک تھی، رپورٹ یہ تھی کہ اس گاؤں میں ایک بوڑھا پادری آ گیا ہے اور اس نے آتے ہیں اپنے گھر میں عبادت کے لیے گرجا بنا لیا ہے ،گاؤں کے لوگ اس گرجے میں جاتے ہیں اور پادری انہیں اسلام کے خلاف خطبے دیتا ہے ،اور یہ بھی کہتا ہے کہ جن عیسائیوں کے عزیز رشتے دار مسلمانوں کے لشکر کے لئے کام کر رہے ہیں ان رشتے داروں کو اس لشکر سے ہٹا کر واپس لے آئیں، مطلب یہ کہ یہ پادری نظریاتی قسم کی تخریب کاری کررہا تھا ،اس رپورٹ میں یہ بھی تھا کہ اس گاؤں کا بوڑھا سردار زمین دوز کاروائیوں میں بہت ہی سرگرم ہے۔ مخبروں نے یہ بھی بتایا کہ ان بدوؤں کا ایک سردار جو مجاہدین کے لشکر کے ساتھ ہے گاؤں کے اس سردار کے گھر دو تین مرتبہ آ چکا ہے اور ایک دو راتیں وہاں ٹھہرا بھی ہے۔
یہ اسی گاؤں کی رپورٹ تھی جس گاؤں میں اسطافت گیا تھا اور اسے کرسٹی ملی تھی۔
 یہ پادری وہی تھا اور گاؤں کا سردار بھی وہی تھا جن دونوں نے اسطافت کو اپنے زیراثر کر لیا تھا ۔
مخبروں نے یہ شک بھی ظاہر کیا کہ گاؤں کے سردار کی ایک بیٹی بہت ہی خوبصورت اور نوجوان ہے اور اسے بدوؤں کے سردار کو مجاہدین کے لشکر کے خلاف استعمال کرنے کے لئے کام میں لایا جا رہا ہے۔
مجاہدین کے لشکر کے ایک سالار مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کریون کے پہلے معرکے میں زخمی ہوگئے تھے، زخم ایک ٹانگ پر تھا اور دایاں بازو بھی زخمی تھا، سالار اور مجاہدین زخموں کی پروا کئے بغیر لڑا کرتے تھے وہ اس وقت تک لڑتے رہتے جب تک کے زخم انہیں گرا کر بے ہوش نہ کر دیتے، لیکن سالار مقداد کے زخم ایسے تھے کہ وہ میدان جنگ میں گھوڑے کو اپنے قابو میں رکھنے کے قابل نہیں رہے تھے، لڑائی کے دوران گھوڑے کو قدم قدم پر دائیں بائیں آگے اور پیچھے کرنا ہوتا تھا لیکن سالار مقداد لگام کو اچھی طرح ہاتھ میں نہیں رکھ سکتے تھے۔
اس گاؤں کی رپورٹ ملی تو سپہ سالار عمرو بن عاص نے ضروری سمجھا کہ اس گاؤں میں جا کر فوری طور پر انسدادی کاروائی کی جائے ،اس کے لئے ایک سالار کی ضرورت تھی کسی بھی سالار کو میدان جنگ سے نہیں ہٹایا جا سکتا تھا، سالار مقدار نے رضا کارانہ طور پر اپنی خدمت پیش کی اور کہا کہ وہ گاؤں میں جا کر ہر طرح کی کارروائی کرنے کے قابل ہیں۔
 عمر بن عاص نے انہیں اجازت دے دی اور ساتھ دو محافظ بھی بھیج دیے کیونکہ سالار مقداد اپنا دفاع کرنے کے قابل نہیں تھے۔ دو اور مجاہدین بھی ان کی مدد کے لیے سات گئے دو تین جاسوس اور مقامی مخبر پہلے ہی اس گاؤں میں موجود تھے، اور گاؤں کے کسی بھی فرد کو معلوم نہیں تھا کہ یہ جاسوس ہیں۔
اس روز اسطافت ایک بار پھر اس گاؤں میں گیا اور گاؤں کے سردار کا مہمان بنا ہوا تھا ۔
اب کرسٹی اسے چوری چھپے نہیں ملتی تھی بلکہ سب کے سامنے اس کے پاس بیٹھتی اور اس کے جذبات کے ساتھ کھیلتی رہتی تھی۔ اسطافت تو اب مکمل طور پر اس کے قبضے میں چلا گیا تھا اس نے کرسٹی سے اور پادری سے اور اس گاؤں کے بوڑھے سردار سے وعدہ کیا تھا کہ وہ سالاروں کو باری باری قتل کردے گا ،لیکن ابھی وہ اپنا وعدہ پورا نہیں کر سکتا تھا، اس نے موقع ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ لڑنے والے لشکر میں شامل نہیں تھا اس لیے لڑائی میں شامل نہیں ہوتا تھا۔ بہرحال اسے ان لوگوں نے اپنا نہایت کارآمد آلہ کار بنا لیا تھا۔
گاؤں کا ایک آدمی دوڑتا ہوا گاؤں کے سردار کے گھر میں داخل ہوا اور اسے بتایا کہ مسلمان فوجی آ رہے ہیں اور ان میں ایک سالار ہے۔ معلوم نہیں اسے کس طرح علم تھا کہ مقداد بن اسود سالار ہیں، سردار نے پادری کو اطلاع بھجوا دیں کہ ایک سالار چار پانچ مسلمان لشکریوں کے ساتھ آ رہا ہے۔
 پھر اس نے اسطافت کو بتایا اور ساتھ یہ کہا کہ وہ کہیں چھپ جائے ایسا نہ ہو کے سالار اس کے گھر کی تلاشی لینے آ جائے۔
 نہیں!،،،،،،،، اسطافت نے کہا ۔۔۔میں جھکوں گا نہیں مجھے اپنی کمان اور تیر دے دیں اگر یہ سالار ہے تو اسے میرا شکار سمجھیں۔ نہیں ۔۔۔۔سردار نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ گاؤں میں اسے قتل نہ کرنا ورنہ یہ مسلمان پورے گاؤں کو تباہ کر دیں گے۔
اسطافت کی تو ان لوگوں نے اور خصوصا کرسٹی نے ایسی برین واشنگ کر رکھی تھی کہ وہ کسی کی سن ہی نہیں رہا تھا اس نے سردار کی جوانی کے وقتوں کی کمان دیوار کے ساتھ لٹکی دیکھی تھی۔
 اسطافت دوڑا گیا اور وہ کمان لے آیا، اس کے ساتھ ترکش بھی تھی جس میں چھے سات تیر پڑے ہوئے تھے، وہ دوڑتا سیڑھی چڑھ گیا اور چھت پر چلا گیا ،سردار کا مکان قلعے جیسا تھا اس کی منڈیروں پر قلعوں جیسی فصیل بنی ہوئی تھی اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر جگہ خالی چھوڑی گئی تھی، تیرانداز وہاں سے چھپ کر نیچے تیر اندازی کر سکتے تھے، اسطافت نے پہلے دیکھا کہ سالار کس طرف سے آ رہا ہے وہ اسے نظر آگیا۔ اسطافت اس کے مطابق فصیل کے ساتھ چھپ کر بیٹھ گیا اور کمان میں ایک تیرا ڈال لیا۔
یہ بڑے سائز کی اور بڑی سخت کمان تھی اسے کوئی اسطافت جیسا طاقتور آدمی ہی کھینچ سکتا تھا ۔
سالار مقداد گاؤں میں داخل ہوگئے وہ سب سے آگے تھے ان کے دونوں محافظ پیچھے تھے۔
اسطافت نے کمان کھینچی اور سالار مقداد کو نشانے میں لینے لگا۔ یہ اللہ کا خاص کرم تھا کہ ایک محافظ نے ادھر دیکھ لیا اور اسے کمان نظر آئی جس میں تیر تھا اور تیر انداز کا ایک بازو نظر آیا کمان پوری کھینچ چکی تھی اور اب تین نکلنے والا ہی تھا۔
محافظ فوراً جان گیا کہ تیر انداز نے سالار کو نشانے میں لیا ہے۔ وہ اس تیر کو نہیں روک سکتا تھا اس کے پاس کمان اور ترکش ہوتی تو فوراً کمان میں تیل ڈال کر اسطافت پر تیر چلا دیتا جو لگتا تو اس کے بازو کو ہی کیونکہ اس کا صرف بازو سامنے تھا لیکن یہ فائدہ ہوتا کہ اس کا تیر کمان سے نہ نکل سکتا اور اگر نکل بھی جاتا تو خطا جاتا ۔مجاہد کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا اس نے یہ کارنامہ کر دکھایا کہ اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اس کا گھوڑا سالار مقدار کے گھوڑے سے پانچ چھے قدم ہی دور تھا دوسرے لمحے وہ سالار کے گھوڑے کے پہلو میں تھا۔
اس نے سالار کے گھوڑے کی پیٹھ کے پیچھے بڑی زور سے ہاتھ مارا اور اس کی ایک ٹانگ پر اپنے پاؤں کی ٹھوکر بھی ماری گھوڑا آگے نکل گیا اور عین اس وقت اسطافت کی کمان سے تیر نکلا، ادھر تیر نکلا ادھر سالار آگئے ہو گیا اور تیر محافظ کے گردن میں اتر گیا۔ چونکہ تیر قریب سے آیا تھا اس لئے اس کی نوک محافظ کی گردن کی دوسری طرف سے باہر آ گئی۔
سالار نے پیچھے دیکھا تو انہیں پتا چلا کہ کیا ہو گیا ہے اتفاق سے ایک مجاہد نے دیکھ لیا تھا کہ یہ تیر کہاں سے آیا ہے یہ مجاہد بھی گھوڑے پر سوار تھا اس نے بڑی تیزی سے اپنا گھوڑا سالار مقداد کے پہلو کے ساتھ کرلیا تھا کہ دوسرا تیرا آئے تو وہ انہیں نہ لگے۔ سالار محفوظ رہے لیکن دوسرا تیر نہ آیا
زخمی محافظ کو بچانا ممکن نہیں تھا اس کی گردن سے خون چشمے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر بہہ رہا تھا ساتھیوں نے اسے سہارا دے لیا اس لیے وہ گھوڑے سے نہ گرا اسے سہارا دے کر گھوڑے سے اتارنے لگے لیکن وہ شہید ہو گیا۔
سالار کو بتایا گیا کہ تیر کہاں سے آیا تھا سالار اور دوسرے مجاہدین فوراً سردار کے گھر تک پہنچے اور اندر چلے گئے ۔
اسطافت ایک ہی تیر چلا کر بھاگ آیا تھا وہ اب چھپنے کی کوشش کررہا تھا ۔مکان کے صحن میں بوڑھا سردار کھڑا تھا اور اس گھر کے ایک دو افراد اور بھی تھے، سالار نے انھیں کہا کہ گھر میں جتنے افراد ہیں سب کو صحن میں لائیں ورنہ اس گھر کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا جائے گا، کوئی اور باہر نہ آیا، سالار کے حکم سے مجاہدین مکان کے تمام کمرے دیکھنے لگے ایک کمرے سے کرسٹی برآمد ہوئی اسے صحن میں لے آئے اور فوراً بعد ہی اسطافت خود ہی باہر آ گیا۔
تیر میں نے چلایا تھا۔۔۔ اسطافت نے کہا۔۔۔ اس لڑکی کو پریشان نہ کرنا۔
اتنے میں بوڑھا پادری خود ہی آ گیا سالار مقداد کے ساتھ جو جاسوس مجاہد تھے انہوں نے سالار کو بتایا کہ یہ ہے وہ پادری جو گاؤں کی آبادی کو مسلمانوں کے خلاف وعظ سناتا رہتا ہے ۔ سالار مقدار اس پادری کو، گاؤں کے سردار کو، اسطافت اور کرسٹی کو اپنے ساتھ باہر لے گئے۔
گاؤں کے لوگ تیر سے شہید ہونے والے محافظ کی لاش کے اردگرد اکٹھے ہوگئے تھے ،سالار مقدار جب باہر نکلے تو لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے ایک مقامی مخبر نے سالار مقداد کے کان میں آکر کہا کہ سارے گاؤں پر یہ خوف طاری ہو گیا ہے کہ ایک مجاہد کی موت کے جواب میں پورے گاؤں کو تباہ کردیا جائے گا۔
 سالار مقداد نے یہ بات سنی تو کہا کہ تمام لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے لوگ گاؤں کے وسط میں ایک کھلے میدان میں آگئے۔ گاؤں کی عورتیں دروازوں میں اور اپنی منڈیروں پر کھڑی تھیں۔
گاؤں کے لوگوں!،،،،، سالار مقداد بن اسود نے بلند آواز سے کہا۔۔۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ تم سب پر یہ خوف طاری ہو گیا ہے کہ میں اپنے ایک مجاہد کے خون کا انتقام تم سے لونگا اور گاؤں کو تباہ کر دوں گا ۔اگر مارا جانے والا کوئی رومی فوجی ہوتا تو روم کی فوج آکر پورے گاؤں سے انتقام لیتی اور اس گاؤں کا کوئی گھر روم کی فوج کے ہاتھوں سلامت نہ رہتا، لیکن ہمارا دستور کچھ اور ہے، ہم اسلام کے پیروکار ہیں اسلام میں صرف اسے سزا دی جاتی ہے جو جرم کرتا ہے، تمام خوف اور ڈر دلوں سے نکال دو ،تیر اس ایک آدمی نے چلایا تھا سارے گاؤں نے نہیں سزا صرف اسے ملے گی اور تمہارے سامنے ملے گی۔
 لوگوں میں کھسر پھسر شروع ہوگئی جو بلند ہونے لگی وہ اطمینان اور مسرت کا اظہار کر رہے تھے۔
میں جانتا ہوں تمہارا یہ پادری تمہیں کیا وعظ سناتا رہتا ہے ۔۔۔سالار مقداد کہہ رہے تھے۔۔۔ تمہارا یہ مذہبی پیشوا اسلام کے خلاف اور ہمارے خلاف بے بنیاد اور جھوٹی باتیں تمہارے کانوں میں ڈالتا رہتا ہے۔ کیا حضرت عیسی علیہ السلام نے جھوٹ بولنے کی اور دوسروں پر جھوٹے الزام عائد کرنے کی اجازت دی ہے۔ لوگوں کے ہجوم میں سے چند ایک آوازیں سنائی دیں۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔بالکل نہیں۔۔۔۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے جھوٹ بولنے کو گناہ قرار دیا تھا۔
ہم کسی کے مذہب میں دخل نہیں دیا کرتے۔۔۔ سالار مقداد نے کہا ۔۔۔ہم تمہارے اس پادری کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں میں اسے صرف یہ کہوں گا کہ مذہبی پیشوا ہو تو اپنے مذہب کے تقدس کا کچھ خیال کرو۔
اس کے بعد سالار مقداد نے لوگوں سے پوچھا کیا تم لوگ گواہ نہیں ہو کے تیر کہاں سے آیا تھا جس سے میرا ایک مجاہد شہید ہوگیا۔
 کئی آوازیں آئیں کہ وہ جانتے ہیں۔
 اس طرح سالار مقداد نے پورے گاؤں کو گواہ ٹھہرا کر اسطافت کو قتل کا مجرم قرار دیا۔ اور اپنے دوسرے محافظ سے کہا کہ وہ اسی کمان میں تیل ڈال کر اسطافت کے سینے میں تیر مارے۔ کمان اور تیر پہلے ہی قبضے میں لے لئے گئے تھے اسطافت کو ایک دیوار کے ساتھ کھڑا کر دیا گیا اور محافظ نے یکے بعد دیگرے دو تیر چلائے جو اسطافت کے سینے میں اتر گئے اور وہ گر پڑا اس کے بعد گاؤں کے سردار کو اور کرسٹی کو سالار مقداد نے ساتھ دیا اور ایک بار پھر لوگوں سے مخاطب ہوا۔
ہماری کاروائی اپنے مذہب کے مطابق پوری ہوگئی ہے۔۔۔ سالار مقداد نے کہا ۔۔۔ہم جا رہے ہیں تمہارے سردار کو اور اس لڑکی کو اس لیے ساتھ لے جا رہے ہیں کہ یہ تمہیں گمراہ کر رہے ہیں، اور تمہارے دلوں میں ہماری دشمنی پیدا کرتے ہیں، ہم عمل سے ثابت کریں گے کہ ہم تمہارے دشمن ہیں یا دوست، لوگوں کا ردعمل صاف بتا رہا تھا کہ وہ سالار مقدار سے متاثر ہوئے ہیں۔
 سالار مقداد وہاں سے چل پڑے شہید محافظ کی لاش اٹھا کر اس کے گھوڑے پر ڈالی اور اسلام کی یہ مجاہدین رخصت ہوگئے کرسٹی اور بوڑھا سردار الگ الگ گھوڑوں پر سوار تھے ،اور اب یہ دونوں سالار مقدار کی قیدی تھے۔
سالار مقداد اس گاؤں میں آئے تو کسی اور کا روائی کے لئے تھے، لیکن گاؤں میں کچھ اور ہی ہو گیا، ایک مجاہد محافظ قربان ہو گیا لیکن یہ گاؤں مجاہدین کے زیراثرآگیا۔
 گاؤں کے بوڑھے سردار اور کرسٹی کے ساتھ سپہ سالار نے کیا سلوک کیا یہ بعد میں سامنے آئے گا۔ ابھی ہم کریون کی جنگ کے میدان میں چلتے ہیں۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
سپہ سالار عمرو بن عاص اور دوسرے سالاروں نے دیکھا کہ آٹھ نو دنوں کی اتنی زیادہ خونریز لڑائیوں میں مجاہدین کی تعداد خطر ناک حد تک کم ہوگئی ہے، اور کمک کے بغیر قدم جمائے رکھنا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی دشوار ضرور ہوگیا ہے ۔مگر اس وقت مدینہ کو قاصد بھیجتے کہ کمک بھیجی جائے تو بھی کمک کو پہنچنے میں ڈیڑھ دو مہینے درکار تھے۔ اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ سپہ سالار یا کوئی بھی سالار یہ سوچ رہا تھا کہ اتنی کم تعداد سے اتنے کثیر التعداد دشمن سے نہیں لڑا جا سکتا اس لئے پیچھے ہٹ جائیں اور کمک آئے تو آگے بڑھیں، انہوں نے یہ اصول اپنا لیا کہ ابھی نہیں یا کبھی نہیں،،،،،،، جانے چلی جائیں پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ ایک روز کا معرکہ اس قدر خونریز تھا کہ مجاہدین کے پاؤں جمتے نظر نہیں آرہے تھے۔ یہ عمر بن عاص کی دانشمندی تھی کہ انہوں نے ابھی تک محفوظہ کے دستوں کو آگے نہیں کیا تھا لیکن اس روز انہیں نظر آنے لگا کہ جو کچھ بھی ان کے پاس ہے وہ فتح و شکست کی بازی پر لگانا پڑے گا۔ مجاہدین کے لشکر کے ساتھ ان کی خواتین بھی تھیں وہ بھی جنگ کی صورتحال اور اپنے لشکر کی حالت دیکھ رہی تھیں جو مخدوش ہو چکی تھی، ایک شام یہ تمام خواتین سپہ سالار عمرو بن عاص کے ہاں پہنچی اور کہا کہ وہ مجاہدین کے دوش بدوش لڑیں گی۔
 ضرور لڑو!،،،،،، سپہ سالار نے کہا ۔۔۔لیکن اس وقت جب ایک بھی مجاہد زندہ نہیں رہے گا۔
خواتین کا اسرار اتنا بڑھ گیا کہ عمرو بن عاص پریشان ہوگئے انھوں نے بڑی ہی مشکل سے خواتین کو لڑنے کے ارادے سے باز رکھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ پہلا محاذ نہیں جہاں یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے، اللہ کا فرمان ہے کہ کئی بار ایک چھوٹی جماعت بڑی جماعت پر غالب آئی ہے بشرطیکہ چھوٹی جماعت ایمان والی ہو۔
مورخ لکھتے ہیں کہ پہلی بار سپہ سالار عمرو بن عاص کے چہرے پر تشویش اور پریشانی کے آثار دیکھے گئے، انہوں نے محفوظہ کے ایک دستے کو ساتھ لیا اور کچھ دور پیچھے چلے گئے انہوں نے اپنی امامت میں اس دستے کے ساتھ نماز خوف ادا کی، نماز خوف اس وقت ادا کی جاتی تھی جب ہلاکت یقینی نظر آنے لگتی تھی اور سوائے پسپائی کے بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ سپہ سالار پسپائی کو تو قبول ہی نہیں کرتے تھے، بہرحال عمرو بن عاص نے نماز خوف پڑھی اور ہاتھ پھیلا کر آنسوؤں کی روانی میں اللہ کے حضور التجا کی کہ وہ اپنے عظیم نام کی لاج رکھ لے اور مجاہدین نے جانوں کی جو قربانیاں دیں ہیں وہ قبول کر لے، اور اس طاقتور دشمن پر غلبہ عطا فرمائے۔
رومی جرنیل بہت ہی خوش تھے اعلانیہ کہتے پھرتے تھے کہ مسلمان کاٹے جا چکے ہیں اور اب کسی بھی وقت وہ سب بھاگ اٹھیں گے جو زندہ رہ گئے ہیں۔ لیکن اس دن کا سورج غروب ہونے تک مسلمان میدان جنگ میں لڑتے رہے اور کوئی ایک بھی مجاہد خوفزدہ ہوکر پیچھے نہ آیا مجاہدین کو اپنے اللہ پر بھروسہ تھا جس کے نام سے وہ جانیں قربان کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے جسم لہو لہان کرالئے لیکن جذبے پر آنچ نہ آنے دی حوصلوں کو مجروح نہ ہونے دیا۔
عمرو بن عاص کو یقین تھا کہ اللہ کی ذات باری ان کی دعا اور ان کے آنسوؤں کو نظر انداز نہیں کریں گی، انہوں نے دیکھا کہ جوں جوں مجاہدین کی نفری زخمی ہو ہو کر گرتی جا رہی تھی مجاہدین کے جذبے اور ان کی شجاعت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
 ایک مؤرخ نے لکھا ہے کہ عمرو بن عاص نے جب مجاہدین کا یہ جذبہ دیکھا تو انہوں نے ان کی طرف ہاتھ بڑھا کر بڑی ہی بلند آواز سے کہا وہ دیکھو اللہ کے نام پر جان قربان کرنے والوں کو وہ موت کے پیچھے دوڑے جا رہے ہیں اور موت ان کے آگے آگے بھاگی جارہی ہے۔
اب اس جذبے اور اس ایمان کی صرف ایک جھلک دیکھیں جو مجاہدین اسلام کی اصل قوت ہے، جسم تو ان کے تھکن سے چور چور اور شل ہو چکے تھے لیکن جذبہ زندہ اور ایمان تازہ تھا ،یہ واقعہ تقریباً تمام مؤرخوں نے لکھا ہے اور دو مؤرخوں نے اس واقعے کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔
واقعہ یوں تھا کہ سپہ سالار عمرو بن عاص کے بیٹے عبداللہ بن عمرو بھی اس کے لشکر میں تھے ،وہ نوجوانی کی عمر میں تھے خاص طور پر پیش نظر رکھیں کہ عبداللہ کو سالاری عہدہ نہیں دیا گیا تھا، اس وقت قابلیت اور اہلیت دیکھی جاتی تھی ،کوئی امیر ہوتا یا غریب معاشرے میں اونچی حیثیت کا مالک ہوتا ہے یا اس کی کوئی حیثیت ہی نہ ھوتی لشکر میں اس کی قابلیت اور ذہانت دیکھی جاتی تھی، عبداللہ بن عمرو صرف اس لئے قابل احترام نہیں تھے کہ وہ سپہ سالار کے بیٹے تھے بلکہ ان کا احترام اسی حد تک تھا جس حد تک لشکر میں ان کی حیثیت تھی، تاریخ میں یہ واضح نہیں کہ ان کی حیثیت کیا تھی صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ علم یعنی پرچم کے دفاع میں لڑتے تھے، پرچم کو بلند رکھنے والوں کو سردھڑ کی بازی لگانی پڑتی تھی۔
پرچم برادر کا نام وردان تھا۔ وردان عمرو بن عاص کا غلام ہوا کرتا تھا اور پھر انھوں نے اس غلام کو آزاد کر دیا ،اور وہ مجاہدین کے لشکر میں شامل ہوگیا اس میں لڑنے کا جذبہ اور جوش حیران کن حد تک زیادہ تھا، اس کی اس بے خوفی اور شجاعت کو دیکھتے ہوئے سپہ سالار نے اسے علم برادری کا اعزاز دیا تھا۔
عبداللہ بن عمرو اس کے ساتھ رہتے تھے اور دونوں اکٹھے لڑتے اور تیغ زنی کے ایسے جوہر دکھاتے کے دشمن علم کے قریب آنے سے گھبراتے تھے۔
 عبداللہ اور وردان تو زندگی اور موت کے ساتھی بن گئے تھے، ان کے متعلق لشکر میں مشہور ہو گیا تھا کہ زندہ رہیں گے تو دونوں زندہ رہیں گے اور شہید ہوئے تو دونوں اکٹھے شہید ہونگے ،کریون کی ان لڑائیوں میں ایک دن عبداللہ بن عمرو کچھ زیادہ زخمی ہوگئے اور نڈھال ہو کر بیٹھ گئے ۔تاریخ میں لکھا ہے کہ اس وقت پرچم وردان کے ہاتھ میں تھا ۔ یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ عبداللہ اور وردان اکٹھے تھے اور حسب معمول شجاعت کے جوہر دکھا رہے تھے ،وردان نے دیکھا کہ عبداللہ تو بہت ہی زخمی ہو کر بیٹھ گئے ہیں تو وہ بھی رک گیا۔
اٹھ کھڑا ہو ابن عمر!،،،،،، وردان نے کہا۔۔۔ خدا کی قسم یہاں بیٹھ جانے والوں کو موت اٹھنے کا موقع نہیں دیا کرتی ۔
ذرا ٹھہر جاؤ وردان!،،،،، عبد اللہ بن عمرو نے ہانپتے ہوئے کہا۔۔۔ ذرا میرے پاس روک جا میں دم لے لوں، ذرا آرام کر لوں۔
 تو آرام کرنا چاہتا ہے ابن عمرو!،،،، وران نے کہا۔۔۔ آرام تیرے آگے ہیں پیچھے نہیں۔
اس غلام نے مختصر سے الفاظ میں بہت بڑی بات کہہ دی تھی اس کا اثر عبداللہ پر یہ ہوا کہ وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور ہونٹوں پر مسکراہٹ لے کر آگے بڑھے، وردان ان کے ساتھ رہا۔ عبداللہ یوں لڑے جیسے ان کے جسم پر کہیں خراش بھی نہ آئی ہو ،لیکن وہ خون سے نہائے ہوئے تھے، ان کا خون بہ رہا تھا اور ان کی تلوار چل رہی تھی۔
اس روز کا معرکہ ختم ہوا تو عبداللہ اور وردان زندہ اور سلامت پیچھے آ گئے، عبداللہ بن عمرو زندہ تو تھے لیکن زخموں سے ان کا حال بہت برا تھا۔
 کسی نے سپہ سالار عمرو بن عاص کو جا بتایا کہ ان کا بیٹا بری طرح زخمی ہو کر واپس آیا ہے اور اس کی مرہم پٹی ہو رہی ہے، اطلاع دینے والے نے سپہ سالار کو وردان کی بات بھی سنائی جو اس نے عبداللہ سے کہہ کر اسے اٹھایا تھا، پھر یہ بتایا کہ اس شدید زخمی حالت میں عبداللہ شام تک لڑے۔
ایسا بالکل نہیں ہوا کہ عمرو بن عاص اپنے فرائض کو بھول کر اپنے بیٹے کو دیکھنے دوڑ پڑتے، انہوں نے اتنا ہی کیا کہ اپنے ایک قاصد کو بھیجا کہ وہ دیکھ کر آئے عبداللہ کیسے ہیں، قاصد دوڑا گیا اور دیکھ کر واپس آیا اور سپہ سالار کو پوری رپورٹ دی کہ وہ کس طرح زخمی ہوئے تھے اور اب بہتر ہو رہے ہیں۔
عرب کا ایک مشہور شاعر ابن اطتابہ ہوا کرتا تھا ،عبداللہ بن عمرو اور وردان کا یہ واقعہ اس کے کانوں تک پہنچا تو اس نے فی البدیہہ یہ شعر کہا۔
 میرا دل جب آ جاتا ہے 
بے چین اور نڈھال ہوجاتا ہے 
تو میں اپنے دل سے کہتا ہوں
 اپنی جگہ ڈٹا رہے
 زندہ بچ گیا تو داد و تحسین کا مستحق قرار پائے گا 
اور اگر مر گیا تو بڑی پرسکون اور ہمیشہ کی نیند سوئے گا
 اور اللہ کے حضور احترام کا اعزاز حاصل کرے گا۔
صرف عبداللہ بن عمرو اور وردان ہی نہیں وہاں ہر مجاہد کا ایمان اور جذبہ ایسا ہی تھا۔ 
عمرو بن عاص اس پہلو سے مطمئن تھے لیکن قیرس نے جو زمین دوز محاذ کھول دیا تھا وہ عمرو بن عاص کو پریشان کیے ہوئے تھا ۔صرف ایک گاؤں میں یہ محاذ توڑا گیا تھا۔ عمرو بن عاص کے پاس اتنی نفری تھی ہی نہیں جس میں سے کچھ مجاہدین کو وہ دیہاتی علاقے میں پھیلا دیتے۔ اس مجبوری اور کمزوری کا مجاہدین کے پاس کوئی علاج نہ تھا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
کریون کی یہ ہر روز کی لڑائی مجاہدین اسلام کو مہنگی پڑ رہی تھی ،رومیوں کے لئے کمک کی کوئی کمی نہیں تھی شہر میں فوج بھی موجود تھی اور لڑنے کے قابل شہری بھی فوج کے ساتھ تھے، مسلمانوں کی تعداد روز بروز کم ہوتی جا رہی تھی، رومی ہر صبح یہ توقع لے کر باہر نکلتے تھے کہ آج مسلمان ہتھیار ڈال دیں گے یا بھاگ اٹھے گے ان کی یہ توقع بے بنیاد نہیں تھی وہ دیکھ رہے تھے کہ انہوں نے مسلمانوں کو کتنا زیادہ جانی نقصان پہنچایا ہے اور اب مسلمانوں کے پاس اتنی نفری رہ بھی نہیں گئی کہ وہ اتنی بڑی فوج کے مقابلے میں ٹھہر سکے۔
آٹھ یا نو دن گزر گئے تھے شہر کے لوگ شہر کی دیوار پر کھڑے ہو کر ہر روز کی لڑائی دیکھا کرتے تھے، ان لوگوں کے ساتھ فوجی بھی ہوتے تھے وہ بھی دیکھ رہے تھے کہ یہ مسلمان آخر کس بل بوتے پر لڑرہے ہیں، جنگی دستور کے مطابق کوئی فوج کتنی تھوڑی تعداد میں اتنی بڑی فوج کے مقابلے میں آیا ہی نہیں کرتی تھی، شہریوں اور فوجیوں پر حیرت کا تاثر پیدا ہونے لگا ،یہ تو وہ دیکھ ہی رہے تھے کہ مجاہدین کس بے جگری سے لڑتے ہیں ،ایک روز رومی فوج کے کسی عہدے دار کے منہ سے یہ بات نکل گئی کہ ہم جھوٹ نہیں کہتے کہ ان مسلمانوں کے ہاتھ میں کوئی غیبی یا پراسرار طاقت ہے کہ یہ پیچھے ہٹتے ہی نہیں، اور اپنے دشمن کی فوج کو لہولہان کر کے شکست دیتے ہیں ، انہیں اپنی آنکھوں لڑتا دیکھو ۔ ان پر ہماری اس فوج سے بھی بڑی فوج غالب نہیں آسکتی۔
اس فوجی عہدے دار کی یہ بات سینہ بسینہ کانوں کان لوگوں تک جا پہنچی اور سارے شہر میں پھیل گئی، شہر کے اور زیادہ لوگ دیواروں پر آکر مسلمانوں کو لڑتا دیکھنے لگے اور پھر سب کے سب کہنے لگے کہ ان مسلمانوں کو شکست دی ہی نہیں جاسکتی۔ بعض نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ یہ غلط نہیں کہ مسلمان جنات کی مخلوق میں سے ہیں۔
یہ اللہ تبارک وتعالی کی خاص مدد تھی اور بڑا خاص کرم تھا کہ شہر کے لوگوں پر اور رومی فوج پر بھی مسلمانوں کی وہ دہشت جو پہلے طاری تھی اور جرنیلوں نے صاف کر دی تھی وہ دہشت پھر غالب آنے لگی۔ مجاہدین کی بے جگری اور جذبہ ایثار کا یہ کرشمہ تھا کہ دشمن نفسیاتی طور پر کمزور ہونے لگا۔ شہریوں میں بددلی اور بے چینی پیدا ہو گئی تھی۔ تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بعض والدین نے اپنے بیٹوں کو جو رضاکارانہ طور پر رومی فوج میں شامل ہوگئے تھے لڑائی میں شامل ہونے سے روک دیا تھا ، وہ کہتے تھے کہ مسلمانوں کے خلاف اپنے بیٹوں کو بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے بیٹوں کو موت کے منہ میں پھینک دیا ہے۔
بڑے بوڑھوں اور سیانوں نے اور شہر کے لوگوں نے یہ بھی کہنا شروع کردیا تھا کہ مسلمانوں نے ان کی فوج کو شکست دے کر شہر پر قبضہ کرلیا تو وہ شہر کی ساری آبادی کو سزا دیں گے کہ شہریوں نے ان کے خلاف اپنے بیٹے لڑائے تھے اور رومی فوج کی مدد کی تھی، یہ بھی ایک وجہ تھی کہ شہریوں نے مجاھدین اسلام کے خلاف لڑنا ترک کردیا۔
 جنگ کے مبصرین آج بھی کہتے ہیں کہ صورتحال ایسی تھی کہ مسلمانوں کو وہیں سے واپس آ جانا چاہیے تھا ،اور اس قدر زیادہ خطرہ مول لینا کوئی دانشمندی والا اقدام نہیں تھا ،یہ مبصرین فن حرب و ضرب اور جنگی اصولوں اور امور کو سامنے رکھ کر بات کرتے ہیں ، لیکن ان کی نظر مجاہدین کے اندر نہیں جا سکتی جہاں صرف اللہ کا نام روشن ہے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص کے متعلق واضح ہو چکا ہے کہ وہ پیچھے ہٹنے والے مجاہد تھے ہی نہیں، وہ ان خطروں میں کود جانے کو زندگی سمجھتے تھے جہاں موت یقینی ہوتی تھی ۔ یہ تو سپہ سالار کی شخصیت تھی وہاں ہر سالار اور ہر مجاہد جوش ایمان اور جذبہ جہاد سے آگ بگولا بن چکا تھا۔ وہ اب جسم تھے ہی نہیں وہ تو روحیں تھیں اور ان روحوں پر اللہ کا ہاتھ تھا۔ مجاہدین نے اللہ کی یہ شرط پوری کر رکھی تھی کہ اگر تم ایمان والے ہو۔ ایمان کے استحکام کی اور بڑی نشانی کیا ہو گی کہ ان مجاہدین کے دلوں میں مال غنیمت کا لالچ نہیں تھا ،جس شہر کو فتح کرتے تھے وہاں کی کسی نوجوان لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے تھے ،اس کی بجائے وہ شہر کے لوگوں کی عزت و آبرو اور جان و مال کے محافظ بن جاتے تھے ، وہی مجاہدین جو میدان جنگ میں فولاد کی طرح سخت ہوتے تھے مفتوحہ بستی میں جا کر وہاں کے لوگوں کے لئے ریشم سے زیادہ نرم ہو جایا کرتے تھے۔
عمرو بن عاص ایک رات سالاروں کے ساتھ اپنی اگلی کارروائی کے متعلق صلح مشورہ کر رہے تھے، اس اجلاس میں نائب سالار اور ان کے ماتحت کماندار بھی موجود تھے، کسی نے بھولے سے بھی مشورہ نہ دیا کہ پیچھے ہٹ جائیں اور کمک کا انتظار کریں، ایک ہی مسئلہ زیر بحث تھا کہ رومیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر کس طرح مجبور کیا جائے، ایسی بات کسی کے منہ سے نکلتی ہی نہیں تھی کہ رومیوں کی تعداد اتنی زیادہ جانی نقصان کے باوجود بہت زیادہ ہے۔
سالار زبیر بن العّوام نے ایک ترکیب سوچی اور وہ پیش کی۔ چونکہ لڑائیاں قلعے کے باہر کھلے میدان میں ہوتی تھیں اس لیے منجیقیں الگ رکھی تھیں، ایسی لڑائیوں میں منجیقیں استعمال نہیں ہوسکتی تھیں۔ سالار زبیر نے جو مشورہ پیش کیا وہ سب کو اچھا لگا اور اس پر تبادلہ خیالات ہونے لگا اور آخر میں اسے ایک قابل عمل شکل دے دی گئی۔
رات گہری ہوتے ہی مجاہدین پیچھے آ جاتے اور رومی قلعے کے اندر چلے جاتے تھے۔ وہ دو تین دستے قلعے کے باہر رہنے دیتے جو نالے اور شہر کی دیوار کے درمیان رات گزارتے تھے۔
اس رات جب مجاہدین پیچھے آ گئے اور رومی فوج اندر چلی گئی اور اس کے کچھ دستے شہر کے باہر رہ گئے تو آدھی رات کے وقت مجاہدین تین چار منجیقیں گھسیٹ کر ذرا آگے لے گئے اور ان میں پتھر ڈال کر ان دستوں پر پھینکنے شروع کر دیئے جو قلعے کے باہر سوئے ہوئے تھے، ان دستوں میں کھلبلی مچ گئی، اور انہوں نے اسی میں عافیت سمجھی کہ قلعے کے اندر چلے جائیں۔ مجاہدین نے یہ کارروائی بھی کی کہ اپنے تیر انداز نالے کے کنارے پر بھیج دیے اور اندر کو بھاگتے ہوئے دستوں پر تیر پھینکنے شروع کر دیئے، وہ رومی مرد اور عورتیں جو اپنے عزیزوں کی لاشیں اور زخمی دیکھنے آئے تھے وہ بھی بھاگ گئے اور میدان صاف ہو گیا۔
نالہ چوڑا بھی تھا اور گہرا بھی، اس وقت یہ پانی سے لبریز تھا اس پر لکڑی کے دو پل تھے جو ایک دوسرے سے دور دور تھے، چند ایک مجاہدین اس پلان کے مطابق جو سپہ سالار کے سامنے زبیر بن العوام نے بنایا تھا تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نالے میں اتر گئے ان کے پاس لکڑی کاٹنے والے اوزار تھے۔ انہوں نے نالے کے اپنی طرف والے کنارے سے پل کے ستونوں کو کاٹنا شروع کر دیا لیکن پورے کا پورا نہ کاٹا بلکہ بہت کمزور کردیا پھر درمیان والے دو ستونوں کو اسی طرح کاٹ کر بہت کمزور کردیا ، یہ کام آسان نہیں تھا پانی کے بہاؤ میں اپنے آپ کو ایک جگہ رکھنا محال ہو رہا تھا۔ بہرحال مجاہدین نے وہ کام کردیا جو زبیر بن العوام نے بتایا تھا۔
 مجاہدین نالے سے نکل آئے۔

#جاری_ہے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.