Ads Top

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi

 by 

Abu Shuja Abu Waqar 



غازی از ابو شجاع ابو وقار
 پیشکش محمد ابراہیم
60 آخری قسط نمبر
 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar 
Presented By Muhammad Ibraheim
 Episode 60(Last Episode)

جنازے سے واپسی کے بعد فصیح کے بےحد اصرار پر میں نے چاے کا ایک کپ پیا اور واپس اپنے ہوٹل آ گیا. تو معلوم ہوا کہ چینی دوست مریم کی والدہ کی لاش لے کر سیدھے چنگ وا ہوٹل چلے گئے ہیں. اور انہوں نے ہی مریم کے والد کو اس حادثے کی خبر بھی سنا دی تھی. مریم کا والد بھی اپنے گھر چلا گیا تھا. دوسرے روز مریم کی والدہ کو بھی اس کے پہلو میں دفن کر دیا گیا. مجھے بار بار ایک ہی خیال آ رہا تھا کہ مریم کار حادثے میں فوت نہیں ہوئی. بلکہ اسے زہر کے انجکشنوں سے ہلاک کیا گیا ہے. اور یہ انجکشن دینے میں میں ہر اس مجاز اس اتھارٹی کا ہاتھ ہے جو کھٹمنڈو میں بلاوجہ میرے قیام کو طول دے رہے تھے. کبھی میں کہتا کہ ہو سکتا تھا کہ شادی کے بعد مریم کا رویہ میرے ساتھ بدل جاتا. اور اسکی محبت میں وہ شدت نہ رہتی جو اب تھی. اور قدرت یہ چاہتی تھی کہ اب ہم ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں. مریم تو چند لمحوں کی تکلیف سہہ کر آرام کی نیند سو گئی. شاید قدرت ابھی بھی مجھ پر مہربان تھی جو وہ مزید مجھے مصیبت میں ڈالنا نہیں چاہتی تھی. 20 مئی کو مریم کے گھر میں دونوں ماں بیٹی کے ایصال ثواب کیلئے محفل ہوئی جسمی سب مہاجروں کے علاوہ فصیح نے بمعہ اہل خانہ شرکت کی. میں نے چینی دوستوں اور گورکھوں سے حادثے کی تفصیل پوچھی تو چینی دوستوں نے مریم کے والد کے ذریعے اور گورکھوں نے مجھے انگریزی میں بتایا دونوں کے بیان کے مطابق چینی ساتھیوں کی گاڑی آگے تھی اور درمیان میں مریم کی گاڑی اور پیچھے ہوٹل کہ وین تھی. ان کے مطابق سب گاڑیاں اپنی سپیڈ سے چل رہی تھیں کہ ایک خطرناک موڑ کاٹتے ہوئے مریم شاید اسٹئرنگ پر قابو نہ رکھ سکی اور اسکی گاڑی گہرے کھڈے میں جا گری. میرے کرید کرید کر پوچھنے پر بھی انہوں نے کسی قسم کی تخریب کاری یا کسی دشمن کے حملے کی نشاندہی نہ کی میں نے اپنی تسلی کے لیے حادثہ والی جگہ پر جا کر دیکھا گاڑی کے ٹائر بلکل صحیح حالت میں تھے ونڈ شیشیہ اور گاڑی کے باقی شیشے کچھ سلامت اور کچھ ٹوٹے ہوئے تھے. ان پر گولی کا کوئی نام ونشان تک نہ تھا بریکیں بھی درست حالت میں تھیں. اگر مجھے ذرا سا بھی ثبوت مل جاتا کہ اس حادثے میں دشمن کا ہاتھ ہے تو میں بھارتی سفارت خانے اور اسکے سارے عملے کا نام و نشان تک مٹا دیتا. حادثے میں کسی کے بھی ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہ تھا. جھینگوں کے ٹرک کا ایکسل واقعی ٹوٹا ہوا تھا. حادثے میں کہیں بھی کوئی ایسا جھول نہ تھا کہ اس میں کسی دشمن کا ہاتھ ہو. سردار ہرنام سنگھ کو دوسرے دن پتہ چلا وہ میرے ہوٹل آیا اور گلے لگ کر روتا رہا میری ایک طرح دنیا اجڑ گئی تھی میں شدید صدمے میں تھا. چنگ وا سے لایا ہوا سارا سامان میں نے واپس بھیج دیا. میں نے سارے گورکھا چوکیداروں کو فارغ کر دیا ہرنام سنگھ کے بھتیجوں کو بھی بڑی مشکل سے واپس بھیج دیا. اور ہوٹل کے فالتو کمرے بھی کینسل کروا دیئے. میں نے چینی دوستوں کو بھی واپس بھیجنا چاہا مگر وہ مریم کے والد کو لے آے جس نے بتایا کہ انکے ذمے ہے کہ جب تک آپ کھٹمنڈو میں رہیں گے یہ آپکی حفاظت کے لیے آپ کے ساتھ رہیں گے اور وہ اس حکم کے پابند ہیں. میں نے مزید اعتراض نہ کیا میں نے خود کو کمرے میں بند کر لیا صرف چینی دوستوں اور محسن کے علاوہ باقی کسی سے نہ ملتا. دل گھبرانے پر اچانک کمرے سے نکلتا اور گاڑی لے کر پھول لیتا اور مریم کی قبر پر جا کر بیٹھ جاتا. اور دعا کرتا رہتا. میرے چینی ساتھیوں نے اس کی خبر مریم کے والد کو دی تو اس نے میرے لیے قرآن پاک بھیج دیا اور کہا کہ روزانہ اسکی پڑھا کرو. میں نے قرآن پڑھنا شروع کر دیا پھر آہستہ آہستہ اس کے پڑھنے سے مجھے سکون ملنے لگا میں نے قرآن پاک کو زیادہ پڑھنا شروع کر دیا اور پھر آہستہ آہستہ پرسکون ہوتا گیا.
جون کہ 16 تاریخ تھی. صبح صبح مجھے پاکستانی سفارت خانے کے ملٹری اٹاچی کا فون آیا. کہ مجھے آج ہی پاکستان کے لیے روانہ ہونا ہے. اس لیے اپنی تیاری کر لو. اور کسی کو بھی میری روانگی کا علم نہیں ہونا چاہیے. میں حیران ہوا کہ نہ تو میرے محکمے نے مجھے اس بارے کوئی اطلاع دی ہے. اور نہ ہی سفیر صاحب نے کوئی اشارہ دیا ہے. پھر میری روانگی کو پوشیدہ کیوں رکھا جا رہا تھا. تھوڑی دیر بعد ہی سفارت خانے کا ایک رکن میرے پاس ہوٹل میں آیا. اور مجھے سفیر صاحب کا خط دیا. خط میں میری پاسپورٹ سائز پکس فوری طلب کی گئی تھیں. اور مجھے تین بجے سفارت خانے پہنچنے اور اپنی روانگی کو راز رکھنے کی پرزور تلقین کی گئی تھی. میں نے جلدی جلدی اپنا سامان دو سوٹ کیسوں میں پیک کیا. ہوٹل کے لاکر سے تمام رقم نکالی. ہوٹل والوں کے پاس میرا ابھی 2ہزار زائد ایڈوانس جمع تھا. 2 ہزار کو ویسے ہی چھوڑا اور ہوٹل انتظامیہ کو چند روز کے لیے کھٹمنڈو سے باہر جانے کا کہہ کر تینوں چینی ساتھیوں کو لے کر ہوٹل سے اپنی وین میں بیٹھ کر رخصت ہو گیا. سب سے پہلے میں مریم کی قبر پر گیا. مجھ پر اتنا بڑا سانحہ گزر گیا تھا. لیکن اب تک میری آنکھوں سے آنسو کا ایک قطرہ بھی نہ نکلا تھا. ضبط کی کچھ ایسی عادت ہو گئی تھی کہ اندر ہی اندر دم پکتا رہتا تھا لیکن مریم سے الوداع ہوتے وقت ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے. آنسوؤں کی ایک ایسی جھڑی لگی کہ تھمنے نہ تھمتی تھی. اپنے ساتھ میں اتنے پھول لایا تھا کہ مریم کی ساری قبر ان پھولوں میں ڈھک گئی تھی. آخری فاتح کا ثواب پیش کر کے میں سیدھا شیر پنجاب ہوٹل سردار ہرنام سنگھ کے پاس گیا. اور اس کے گلے ملتے ہوئے آہستہ سے اسکے کان میں کہا کہ آج میں یہاں سے جا رہا ہوں. اور میری روانگی کو وہ راز میں ہی رکھے. محسن بھی وہی بیٹھا ہوا تھا وہاں سے اسکو بھی ساتھ لیا. اور چنگ وا ریسٹورنٹ چلا گیا. میں نے مہاجروں کے لیے پیسوں کے بقیہ لفافے مریم کے والد کو دیئے. کہ جانے والے مہاجروں میں تقسیم کر دے. محسن اور بزرگ شاعر کے لیے رکھے ہوئے بیس بیس ہزار مریم کے والد سے لے کر محسن کے حوالے کیے. اور پندرہ ہزار ڈالر اور بقیہ تمام بھارتی کرنسی مریم کے والد کو دے دی. اور اپنی وین بھی بطور تحفہ اسے تحریری طور پر لکھ کر دے دی. یہ روپیہ اور وین مریم کا نعمالبدل تو نہ تھا. لیکن بڑھاپے میں اس کے کچھ کام تو ضرور آ سکتا تھا. وہیں پر میں نے تین لفافوں میں پانچ پانچ ہزار ڈالر رکھے. میرے پاس اب صرف سو ڈالر رہ گئے تھے. وہاں سے فارغ ہو کر ہم سیدھا سفارت خانے پہنچے. میں نے وین باہر ہی کھڑی کر دی اور اپنے دو بیگ لے کر سیدھا سفیر صاحب کے پاس چلا گیا. وہ میرے ہی منتظر تھے. انہوں نے بتایا کہ کل شام انہیں نیپالی وزارت خارجہ میں بلایا گیا تھا. جہاں نیپال کے وزیر خارجہ نے انہیں بھارتی وزارت خارجہ اور بھارتی سفارت خانے کے دو خط دکھائے تھے. جن میں یہ تحریر تھا کہ آصف علی نام سے کھٹمنڈو میں رہنےی والا سویلین اور مہاجر نہیں بلکہ پاکستانی جاسوس ہے. جو بھارت میں فوجی تنصیبات کو تباہ کرنے اور کئی فوجیوں اور شہریوں کے قتل کا ذمہ دار ہے. اسے فوری طور پر بھارت کے حوالے کیا جائے. دھمکی آمیز لہجے میں ایسا نہ کرنے کی صورت میں نیپال سے تعلقات ختم کرنے اور برے نتائج بھگتنے کا مژدہ سنایا گیا تھا. نیپال اپنی جغرافیائی پوزیشن کیوجہ سے ہر معاملے میں بھارت کا محتاج ہے. اس بارے میں نیپالی وزارت خارجہ کا خط بھی سفیر صاحب نے مجھے دکھایا. بقول اسکے کہ نیپالی وزارت خارجہ کو اس نے بھارت کے مجھ پر لگائے ہوئے تمام الزامات کی تردید کی اور کہا کہ آصف علی ایک پرامن شہری ہے. دونوں ممالک کے خوشگوار تعلقات کیوجہ سے ہمارے سفیر نے مجھے دو روز کے اندر نیپالی وزارت خارجہ کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا تاکہ وہ خود میرے متعلق چھان بین کر سکے. واپسی پر ہمارے سفیر نے ایک بڑے اور پاکستان کے ہمدرد ملک کے سفیر سے رابطہ کیا. اور آج مجھے کھٹمنڈو سے بحفاظت نکالنے کے انتظامات کیے. میرا ون وےپاسپورٹ اور رائل نیپال ائیر لائنز کا ٹکٹ جو سفیر کی ٹیبل پر پڑے تھے. انہوں نے وہ میرے حوالے کیے. پاسپورٹ پر میرا نام ریاست علی لکھا ہوا تھا. ملٹری اٹاچی بھی اتنی دیر تک وہی پہنچ گے. ٹھیک تین بجے دوست ملک کی سیاہ شیشوں والی سفارتی گاڑی ہمارے سفارت خانے میں پہنچ گئی. مجھے بتایا گیا کہ دوست ملک کے سفارت خانے کے ذریعے مجھے امیگریشن اور سامان چیک کیے بغیر جہاز میں سوار کروا دیا جائے گا. میں نے یہ سن کر اپنا ائر بیگ بجائے سفارت خانے کی ڈاک میں بھیجنے کے اپنے ساتھ لے جانا مناسب سمجھا. سفیر صاحب ملٹری اٹاچی اور ٹرانسمیٹر آپریٹر کے گلے مل کر میں سفارت خانے سے باہر آ گیا. محسن اور تینوں چینی دوستوں کو گلے مل کر چینی دوستوں کو پانچ پانچ ہزار والے تین لفافے زبردستی تھما کر میں کالے شیشوں والی گاڑی میں بیٹھ گیا. گاڑی میں ڈرائیور کے ساتھ اسی سفارت خانے کا اور میرے ساتھ ہمارے سفارت خانے کا ایک ایک رکن بیٹھا ہوا تھا. سفارت خانے کی گاڑی جونہی باہر نکلی. بھارتی سفارت خانے کی ایک گاڑی ذرا فاصلے پر کھڑی دکھائی دی. اور اس گاڑی میں بیٹھے میجر باسو کو میں نے فوراً پہچان لیا. میجر باسو کی گاڑی نے کچھ دیر ہمارا تعاقب کیا. اور جب ہم ائیر پورٹ کی سڑک پر پہنچے تو وہ پیچھے مڑ کر فوراً غائب ہو گئی.
ہم ائیر پورٹ پر پہنچے تو ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے شخص نے میرا پاسپورٹ اور ٹکٹ لیا انہی کی ایک گاڑی وہاں پہلے سے ہی موجود تھی. اس میں بیٹھے دو آدمیوں نے میرے دونوں سوٹ کیس اٹھاے پندرہ منٹ کے اندر وہ شخص میرا بورڈنگ کارڈ اور سامان کا بیگج کارڈ لے کر آ گیا. اسی دوران. میں نے دیکھا کہ میجر باسو پھر ائیر پورٹ پر آ گیا تھا. وہ ہمارا پیچھا کرتے ہوئے واپس اس لیے مڑ گیا تھا کہ اپنے سفیر کو میری روانگی کا بتاے اور مجھے روکنے کا بندوبست کرے. چار بجنے سے ٹھیک 10 منٹ پہلے ہماری گاڑی ائیر پورٹ پر کھڑے جہاز کے قریب پہنچی. مسافروں کے لیے لگائی گئی سیڑھیاں ہٹائی جا چکی تھیں. میں کاک پٹ کی سیڑھی کے ذریعے جہاز میں داخل ہوا. گاڑی کے پاس ہی کھڑے رائل نیپال ائیر لائنز کے ملازم نے بورڈنگ پاس کا ایک حصہ الگ کیا اور مجھے دے دیا. جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے میں نے تینوں دوستوں کو الوداعی ہاتھ ہلاے میجر باسو بھی آگ برساتی آنکھوں کے ساتھ کچھ دور کھڑا میری طرف دیکھ رہا تھا. میں نے اسکی طرف بھی دیکھتے ہوئے زور زور سے ہاتھ ہلا کر باے باے کہا اور ایک ہوائی بوسہ بھی اچھال دیا. فلائٹ نے ٹھیک چار بجے رن وے پر دوڑنا شروع کر دیا. میں کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا جہاز فضا میں بلند ہو گیا اسکی منزل بنکاک تھی. اور مجھے بنکاک سے پاکستانی سفارت خانے سے کراچی کا ٹکٹ لینا تھا. تقریباً 7 گھنٹے کی پرواز کے بعد ہمارا جہاز بنکاک کے ائیر پورٹ پر اترا. رات میں نے نیکا ڈورا ہوٹل میں بسر کی. اگلے روز پاکستانی سفارت خانے گیا. انہیں میری آمد کی اطلاع پہلے ہی مل چکی تھی. دو روز بعد مجھے پی آئی اے کی فلائٹ کا کنفرمڈ ون سائیڈ ٹکٹ دیا گیا. کراچی پہنچا تو سیڑھیوں کے ساتھ ہی میرے محکمے کا ایک افسر اور چند جوان کھڑے تھے. انکی معیت نما حراست میں ہم اگلے روز لاہور پہنچے. جہاں مجھے سی ایم ایچ میں ایڈمٹ کر دیا گیا. جہاں علاج کے ساتھ ساتھ بڑے شریفانہ انداز میں اور دوستانہ ماحول میں دہلی بمبئی اور کھٹمنڈو سے بھیجی گئی روپوٹس کی روشی میں انٹیروگیشن کی گئی. انیسویں روز مجھے آل اوکے کا مژدہ سنا کر گلے لگا لیا گیا. اسی روز ہم بصیر پور کے لیے روانہ ہو گئے. جہاں سیف ہاؤس کے ایک سیل میں وہ غدار کورئیر قید تھا. جس نے مجھے ڈی ایم آئی کے ہاتھ پکڑوایا تھا. مجھے زندہ سلامت دیکھ کر وہ خوف سے کانپنے لگا. سیل سے کافی دور نہر کے کنارے پر اسے ہماری طرف پشت کر کے کھڑا کر دیا گیا اور مجھے ایک ریوالور دے کر کہا گیا کہ ساری گولیاں اس کے جسم میں داخل کر دو. میں نے ریوالور ہاتھ میں پکڑا اور اسکی طرف سیدھا کیا مگر مجھ سے فائر نہ ہو سکا. حالانکہ میں انتقام اور غصے کی شدت میں تھا مگر پھر بھی مجھ سے گولی نہ چل سکی اور میرا ریوالور والا ہاتھ نیچے جھک گیا. میں اپنے ساتھی افسر سے کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ ہمارے ساتھ آے دو مسلحہ جوانوں کو افسر نے اشارہ کیا اور ان دونوں نے اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی وہ غدار وہی ڈھیر ہو گیا اس کے بعد اسکی لاش نہر میں بہا دی گئی. اگلے روز ہم اسلام آباد پہنچے. جہاں مجھے کلاس اے سرٹیفکیٹ اور انعام سے نوازا گیا. اور تین ماہ کی رخصت دی گئی. میں جتنے ہتھیار گیس سلنڈر زہریلی سوئیاں ساتھ لایا تھا وہ گورنمنٹ پراپرٹی کہہ کر مجھ سے لے لی گئیں. اسلام آباد سے ہی میں نے اپنے گھر اپنے آمد کی تار بھیج دی تھی. گھر پہنچا تو والدہ نے گلے لگاے رکھا. وہ میرا سر ماتھا چہرہ ایسے چوم رہی تھی جیسے ماں اپنے شیر خوار بچے کا چومتی ہے. میرا بیٹا شجاع جس نےمیری روانگی کے وقت پہلی بار مجھے ابو کہہ کر پکارا تھا اب سکول جانے لگ گیا تھا. میری بیوی نے میرے متعلق سب کچھ جاننے کے باوجود مجھ سے اتنا عرصہ دور رہنے کے شکوے اور پھر خانگی جھگڑوں اور اپنی معصومیت اور بے گناہی کی داستانیں سنانا شروع کر دیں. حالانکہ کہ میری والدہ نے ایک لفظ بھی اس کے بارے میں نہیں کہا تھا. دس بارہ روز میں ہی میں اس ماحول سے گھبرا کر راولپنڈی چلا گیا. اور اپنے کالج دور کے دوستوں کے ساتھ اپنا غم غلط کرنے کی کوشش کرنے لگا. تین ماہ کی رخصت کے بعد میں نے اپنے دفتر حاضری دی. تو مجھے راولپنڈی اور لاہور میں ایسے مشن سونپے گئے. جیسے کسی ایم اے کے سٹوڈنٹ کو پرائمری کلاس میں بٹھا دیا گیا ہو. اور میں نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا. اور بڑی مشکل سے تین ماہ کی جدوجہد کے بعد مجھے میڈیکل گراؤنڈ پر ریلیز دے دی گئی. ایک سال تک ملک سے باہر جانے پر مجھ پر پابندی رہی. اس عرصے میں میں نے پشاور میں ایک دوست کے ساتھ چین آف ہوٹلز اینڈ ریسٹورنٹ جنرل مینجر کے طور پر کام کیا. اسی دوران مجھے ایک مخلص دوست کے بے حد مشکل اور ناممکن کام کو سر انجام دینے کے لیے پھر تھائی لینڈ ملائشیا برما آسام اور بنگلہ دیش کے پہاڑی سلسلے پر جانا پڑا. یہ انتہائی مشکل اور پرکھٹن داستان جانباز کے عنوان سے عنقریب قارئین کی نظر کی جاے گی. باہر جانے پر پابندی ختم ہوئی تو میں نے پاسپورٹ بنوایا. اور بزنس ویزا پر سعودی عرب چلا گیا. جہاں سات سال سے زیادہ دلہ افکوکمپنی میں بطور ائیر پورٹ ایڈمنسٹریٹر میں مختلف ہوائی اڈوں مثلاً قصیم ینبع الوجھاعر خمیس مشیط پر ملازمت کی. وہاں سے جی اکتا گیا تو میں سنگاپور چلا گیا. جہاں تقریباً 8 برس ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں بطور اوور سیز سیلز ڈائرکٹر کام کیا اس دوران مجھے آسٹریلیا سے لے کر آدھے یورپ جنوب مشرقی ایشیا اور مڈل ایسٹ کے سارے ممالک جانے کا موقع ملا. خانگی کینسر جب لا علاج ہو گیا تو 89ء میں میری اپنی بیوی سے قانونی طور پر شرعی علیحدگی ہو گئی. بھارت سے واپسی کے بعد میرا دوسرا بیٹا وقار پیدا ہوا. 94ء میں میری والدہ انتقال کر گئیں. والدہ کو والد کی قبر کے ساتھ دفن کر دیا. بیٹوں کی ذمہ داری چونکہ مجھ پر تھی. لہٰذا میں سنگاپور سے بار بار پاکستان آنے لگ گیا. اور پھر ایسی لمبی چھٹی لی کہ آج تک واپس نہیں گیا

آئی ایس آئی ایجنٹ سید سلیم عباس نے 1974 میں بھارتی خفیہ فضائی فوجی اڈا جہازوں ہتھیاروں سمیت تباہ کیا۔

بھارتیوں کی آنکھیں کھلنے تک سلیم عباس وہاں سے بھاگ چکے تھے. بھارتیوں نے Most Wanted Person کا اشتہار دیا جس میں بھارتی برگیڈئیر کی بیوی کےساتھ انکی تصویر لگائی۔مارخور عباس ایک مہینے تک دشمن ایجنسی کی قید میں بھی رہے اور وہاں دو بندے ٹپکا کر وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے. آپ نے مشن کے دوران دشمن کے بے شمار بندے ٹپکائے ۔۔۔آپ کا تعلق داود ابراھیم، حاجی مستان اور بہت سے انڈین جنرل کرنلوں سے تھا۔ناسی تعلق کی وجہ سے آپ بہت اندر کی خبریں پاکستان بھیجتے رہے ۔۔۔آپ نے دشمن کو ایسی ایسی ضربیں لگائیں کے دشمن آج تک اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔۔۔
آپ جب انڈیا میں موسٹ وانٹڈ یعنی اشتہاری قرار پائے تو آپ کو نیپال جانے کو کہا گیا۔ نیپال میں بھی دشمن آپ کے پیچھے رہا اور نیپال میں بھی آپ کی جنگ جاری رہی۔ وہاں پر بھی آپ نے 25 انڈین مردار کیے۔ آخر انڈیا نے نیپال کو کہا کے یہ بندا ہمیں دے دیں۔۔۔
پاکستانی سفارتکار کو طلب کیا نیپال گورنمنٹ نے اور کہا کے یہ بندا دہشت گرد ہے اس کو ہمارے حوالے کرو۔
بس پھر دو چینی اور پاکستانی سفارتخانوں نے مل کر سر کو پاکستان بھیجا۔ یہاں تک کے جہاز تک انڈین آرمی نے پیچھا کیا۔۔۔
سید سلیم عباس شاہ غازی کی زندگی کا خلاصہ 
"سید سلیم عبّاس شاہ غازی" نے 1970 میں "انٹر سروسز انٹیلیجنس" جوائن کی اور انڈیا کو تباہ و برباد کرنے اور اپنے وطن کے خاطر جاسوسی کی بہترین تربیت حاصل کی اور ٹریننگ مکمّل ہوتے ہی بھارت کی جانب اپنے محکمہ کی اجازت سے اپنے ساتھ 4 اور ساتھیوں کے ساتھ روانہ ہوئے۔۔۔
بھارت میں قیام اور اپنے مشن کو خفیہ طور پہ مکمّل کرنے کے لئے جعلی پاسپورٹ بنوایا اور شناخت میں نام ونود چوپڑا رکھوایا اور ایک چاۓ کی پتّی کی فیکٹری کے مالک کی حیثیت سے انڈیا میں قیام کیا، رات کے پچھلے پہر میں انڈین بارڈر پار کر کے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں قیام کیا۔۔۔
"سید سلیم عباس شاہ" اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بھارت کے شہر دہلی میں قیام کر چکا ہوں اور اپنے پہلے احکامات کی ڈیلیوری کے ملتے ہی اپنے مشن کی طرف روانہ ہو چکا ہوں، سلیم صاحب کی بہادری اور تیز دماغ کی کیا مثال دیں سلیم صاحب نے اپنے ادارے کو پہلے ہی مشن میں وہ خفیہ معلومات دیں جو اگر سلیم صاحب جیسے بہادر مارخور نے نہ حاصل کی ہوتی تو آدھے پاکستان پر بھارت کا قبضہ ہو جاتا۔ ساتھ ہی سلیم صاحب نے پاکستان کا نقشہ جس میں بھارت پاکستان کے مختلف علاقوں کو قبضہ میں لینے کی تیاری میں تھا۔۔۔
مذکورہ خفیہ معلومات اپنے ادارے تک پہنچائیں یہاں تک کہ بھارت کے استعمال میں لائے جانے والے ٹینک بھی شامل تھے جن میں بھارت ناکام رہا اور ان سب معلومات کی ایک فائل تیار کر کے اپنے ادارے تک پہنچائی اور ساتھ ہی انڈیا کے ایک گاؤں گورکھ میں انڈین ہوائی اڈّا بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تباہ کیا جو سلیم صاحب نے بطور تحفہ اپنے ادارے کو پیش کیا۔۔۔
دہلی میں مسلسل اپنے مشنز کامیابی سے مکمّل کرتے ھوۓ جب ایک روز سلیم صاحب اپنے نئے احکامات کی ڈیلیوری کے لیے روانہ ہوئے تو ایک اپنے ہی ہم وطن کی غداری سے D.M.I کی حراست میں آگئے D.M.I انڈیا کی directorate military intelligence ہے اپنے ہی ہم وطن کی غداری کی وجہ سے 1 ماہ 6 دن 3rd ڈگری ٹارچر سہنے کے بعد دماغ کی ہڈی اور پاؤں کی ہڈی کے ٹوٹنے کے باوجود D.M.I کے 2 گارڈز کو 5 سیکنڈ میں ہلاک کر کے 9 ft لمبی تیز دھار والی دیوار کو پار کر کے وہاں سے فرار ہوئے۔۔۔
اس دوران سلیم صاحب کی ٹانگ تیز دھار تار سے زخمی ہو گئی تھی اور ان کی ٹانگ پہ گولی بھی لگی اور جان کی پرواہ کئے بغیر وہ D.M.I کی حراست سے فرار ھوۓ اور ساتھیوں کے مل کے اپنے خون کے داغ صاف کروائے اور اپنے محکمہ کو اپنے فرار کی اور غدار کی غداری کی اطلاح بھی دی۔۔۔
انڈین ایجنسی کی حراست سے فرار کے بعد بمبئ قیام کیا سلیم صاحب نے اپنے محکمہ کے آرڈرز کے مطابق اور وہاں کے مشہور ڈان حاجی مستان کی مدد سے علاج اور رہائش کا بھی مسلہ حل ہوا بمبئ میں انڈین ایجنسی سے زیادہ حاجی مستان کا نام تھا اور وہ مسلمانوں کا حامی تھا۔ اسی دوران سلیم صاحب نے 4 C.B.I کے آفیسرز کو بھی جہنم واصل کیا جو سلیم صاحب کے ادارے کے آفیسرز بن کے سلیم صاحب کو حراست میں لینے آئے تھے، سلیم صاحب نے جو مشنز سر انجام دیئے ان سے وہ پورے بھارت میں وانٹڈ تھے۔۔۔
اپنے محکمہ سے نئی ہدایات موصول ہوئی جس میں 3 اعلی تربیت یافتہ D.M.I کے ایجنٹس تھے جو نیپال سے مسلمان کے روپ میں پاکستان آ رہے تھے. اور پاکستان جاسوس کے طور پہ بھیجے جارہے تھے جن میں 2 خاتون اور 1 مرد شامل تھے اور یہ 3 نیپال میں پاکستانی سفارت خانہ سے پاکستان جانے کی تیاری میں تھے اور پاکستان جانے والے مہاجروں کے بیس میں ان 3 ایجنٹس کے ساتھ 10 اور جاسوس بھی موجود تھے۔۔۔
بمبئ کے قیام کے دوران سلیم صاحب کے محکمہ نے چین کے خفیہ ادارے کے 2 چینی ایجنٹس بھی سلیم صاحب کے ساتھ بھیجے۔ اور اگلے روز ہی نیپال میں پاکستانی سفارت خانے پہنچے۔ سلیم صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا کہ "جب میں پاکستانی سفارت خانے داخل ہوا اور میری نظر اپنے وطن کے سبز پرچم پہ پڑی تو میں وہیں رک گیا اور جس شخص نے D.M.I کی حراست میں 1 ماہ 6 دن 3rd ڈگری ٹارچر سہنے کہ بعد بھی ایک آنسو بھی آنکھوں میں نہ لایا اس کے اپنے پرچم پہ نظر پڑتے ہی ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔۔۔
اور کہا کے میں مسلسل 30 منٹ تک اپنے وطن کے جھنڈے کو دیکھ کر روتا رہا اور میرا سیدھا ہاتھ مسلسل جھنڈے کو سلامی دیتا رہا" نیپال میں اپنے سفارت خانے میں قیام کے بعد سفارت خانہ کے افسر سے ملاقات کی اور اپنا مقصد بیان کیا اور اپنے چینی دوستوں کے ہمراہ پہلے مہاجروں کے بیس میں چھپے ان 10 ایجنٹس کو ہلاک کیا اور ان 3 ایجنٹس کی تلاش شروع کی اسی دوران سلیم صاحب ایک ہوٹل میں مریم نام کی مسّلم چینی لڑکی سے بھی ملے جنہوں نے سلیم صاحب کا بھرپور ساتھ دیا اور دورانِ دوستی جب مریم اردو زبان کے اچھے خاصے الفاظ سیکھ گئی تو سلیم صاحب نے مریم کی ٹیچر سے ملنے کا فیصلہ کیا اور خود کو ذہنی طور پر تیار کیا ان ایجنٹس کو ہلاک کرنے کے لئے اور جب سلیم صاحب مریم کی ٹیچر سے ملے تو چند لڑکی سے سوال جواب کئے اور تھوڑی گفتگو کے بعد جب لڑکی اپنے پرس کی طرف جانے لگی تو سلیم صاحب نے اسے مضبوطی سے پکڑا تو مریم سے کہا کے اپنے چینی ساتھیوں کو بلاؤ۔ سلیم صاحب کتاب میں لکھتے ھیں کہ لڑکی کی طاقت اس قدر تھی کہ وہ ہم 3 مردوں کے پکڑ میں نہیں آ رہی تھی۔ اس نے اپنے کراٹے کے وار سے ایک چینی دوست کو اس قدر ضرب دی کے وہ 30 منٹ تک بے ہوش رہا۔۔۔
بھارتی جاسوسہ کا اصلی روپ تب سامنے آیا جب سلیم صاحب کے ذہنی بنائے گئے چند سوالات کے جوابات اس نے ہاں میں دئے، لڑکی کو حراست میں لے کر اسے ذہنی ٹارچر کے بعد جب اس کے چہرے اور بال پہ سلیم صاحب نے نقصان کی بات کی اور اس کے بال کاٹنے اور چہرہ تیزاب سے جلانے کا کہا تو لڑکی نے اپنے 2 ساتھیوں کا پتہ بتا دیا اور فوراً سلیم صاحب بھارتی جاسوسہ کو پستول کے دستے سے سر پہ ضرب پہنچا کر بے ہوش کرکے اگلے مشن کی طرف روانہ ہوئے ایک جاسوس کو ہلاک کرنے کے بعد جب تیسرے کی جانب روانہ ہوئے سلیم صاحب اس کمپاؤنڈ میں پہنچے تو سیڑیوں سے اوپر چڑ رہے تھے کہ سامنے سے ایک بزرگ اترتا دکھائی دیاحقیقت میں وہ بھارتی جاسوس تھا اور بیس بدل کے وہاں سے روانہ ہو رہا تھا "سلیم صاحب کہتے ہیں مجھے بلکل بھی شک نہ پڑتا اگر وہ جاسوس ہمیں دیکھ کے بھاگتا نہیں" سلیم صاحب نے جب دیکھا کے ایک بزرگ پوری جان سے تیز بھاگ رہا ہے تو بغیر وقت ضائع کئے اس کے پیچھے بھاگے اور چینی دوستوں کے ہمراہ جو گیس تھی جس کے منہ پہ پڑتے ہی بندہ 5 سیکنڈ میں سانس لینا بند کردیتا اس سے اس جاسوس کو بھی ہلاک کیا۔۔۔
اور بتاتا چلوں کے اسی گیس کی مدد سے 10 بھارتی جاسوسوں کو مارخور سلیم صاحب نے ہلاک کیا۔ اور اپنی وین میں لاش ڈال کے بھارتی جاسوسہ اور ان کے ایک اور جاسوس کے ساتھ ان کے ماسٹر مائنڈ کی بھی لاش ڈالی وین میں اور دور جنگل میں ان کی لاشوں کو جلا کے اپنا مشن کامیابی سے پورا کیا، "سلیم صاحب نے لکھا کہ اگر یہ 3 جاسوس پاکستان داخل ہو جاتے تو ہمارے وطن کا بہت بھاری نقصان ہوتا کیوں کہ ان تینوں کے پاس سے جو سامان اور منصوبے نکلے ان سے صاف ظاہر ہوتا تھا" سلیم صاحب نے اپنے مشن پورے اور سارے منصوبے اور ملنے والے جاسوسی پر مشتمل مشنز کے کاغذات اپنے ادارے کو بھیجے اور اپنے باقی کے مشنز کامیابی سے پورے کرکے 3 سال بعد اپنے وطن واپس آئے۔۔۔
ان 3 D.M.I کے تربیت یافتہ جاسوسوں کی موت کا یقین انڈین گورنمنٹ اور انڈین ایجنسیز کو نہ ھو سکا کہ ان کے انتہائی تربیت یافتہ جاسوس آخر اچانک کہاں چلے گئے آسمان نگل گیا یا زمین کھا گئی۔
یہ ہیں ہمارے عظیم مارخور سلیم عباس جن کے نام سے آج بھی انڈین ایجنسیز کانپتی ہے۔ سلیم عبّاس شاہ غازی کو آج بھی ہمارے خفیہ ادارے یاد کرتے ہیں اور آپ کی تیز دماغ اور بہادری کی داد دیتے ہیں۔ ہاں میں ہوں پاکستان کی دفاع کی آخری لکیر، ہاں میں ہوں آئی ایس آئی۔❤❤

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.