Ads Top

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر57 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi

 by 

Abu Shuja Abu Waqar 


غازی از ابو شجاع ابو وقار
 پیشکش محمد ابراہیم
57قسط نمبر
 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar 
Presented By Muhammad Ibraheim
 Episode 57
میں نے مریم سے پوچھا کہ اسکا رنگ اور قد کاٹھ کیسا ہے میرے اس سوال کو مریم نے کچھ اور ہی طرح سے سمجھا اور الٹا مجھ سے سوال کرنے لگی کہ تم یہ سب کیوں پوچھ رہے ہو تمہیں اس لڑکی سے کیا دلچسپی ہے میں نے بڑی مشکل سے اسے سمجھایا میں نے کہا کہ مجھے اس لڑکی سے جسے میں نے دیکھا تک نہیں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے صرف ایک شک سا ہے جسے میں دور کرنا چاہتا ہوں میری طرف سے پوری طرح مطمئن ہونے کے بعد مریم نے بتایا کہ اسکا رنگ صاف اور قد نارمل ہے نارمل سےتمہاری مراد یہاں کی بہاری عورتوں جیسا ہے؟ مریم نے کہا کہ نہیں ان سے تو خاصہ لمبا ہے پندرہ روز پہلے ہی میں نے اس سے ٹیوشن لینا شروع کی ہے وہ خود ہمارے ریسٹورنٹ میں ملازمت کی تلاش کے لیے آئی تھی انگریزی بھی وہ بہت اچھی بولتی ہے بڑے دکھ جھیل کر گذشتہ ماہ ہی وہ اپنی ماں کے ساتھ کھٹمنڈو پہنچی ہے اسکی ماں اس کے ہمراہ دو مرتبہ ہمارے گھر آئی تھی وہ بھی قد آور صاف رنگ کی ہے دونوں ماں بیٹی بہت اچھی ہیں اور دونوں ہی اردو انگریزی بہت اچھی بولتیں ہیں
مگر تم کیوں انکے بارے میں اتنی تفصیل سے پوچھ رہے ہو مریم کے دل میں پھر شکوک نے سر ابھارا میں نے مریم کو سمجھایا کہ ایک گتھلی بڑے دنوں سے سلجھانے کی کوشش کر رہا ہوں مگر اس کا سر پیر ہاتھ نہیں آ رہا. ممکن ہے یہ میرا محض وہم ہو کل جب تم اس سے ٹیوشن لینے جاؤ گی تو میں بھی وہاں پہنچ جاؤں گا تم اس سے میرا تعارف اپنے منگیتر کہہ کر کروانا اس طرح تم بھی مطمئن ہو جاؤ گی میرے ارادے بلکل نیک ہیں میں اس سے بس چند بے ضرر سوال پوچھوں گا اس دوران تم بلکل خاموش رہنا اور اپنا ٹیپ ریکارڈ اپنے ساتھ لے جانا اور اسے اسی کمرے میں ایسی جگہ چھپا دینا جہاں سے وہ دیکھ نہ سکے اور میں جونہی وہاں پہنچوں تم ٹیپ ریکارڈ چلا دینا
مریم نے کہا لیکن وہ تو پورا برقعہ پہنتی ہے اور پردہ کرتی ہے تمہارے سامنے وہ کیسے آے گی
میں نے کہا. دیکھو مریم جیسے کہ میں نے پہلے کہا کہ ہو سکتا ہے میرا وہم ہو. لیکن دوسری صورت میں وہ ایک بہت ہی تجربہ کار بھارتی جاسوسی ادارے کی ایک اہم رکن بھی ہو سکتی ہے مجھے اس گینگ کہ اطلاع کئ روز پہلے پاکستان سے موصول ہو چکی ہے محسن اور اس کے ساتھی بے سود سارا دن کھٹمنڈو کی خاک چھانتے رہتے ہیں اور میرا دماغ انکے متعلق سوچ سوچ کر پک چکا ہے اگر محض یہ میرا شک ہی نکلا اور درست نہ ہوا تو تمہارے ہی سامنے میں اس لڑکی سے اسکی بے پردگی ہونے پر معافی مانگ لوں گا اور اگر وہ جاسوس نکلی تو پھر بے پردگی کا سوال ہی پیدا نہی ہوتا کیونکہ وہ مسلم نہی ہندو ہے میری دوسری بات بھی غور سے سن لو آئندہ نہ تو اس کے ہاتھ سے کوئی چیز کھانا پینا اور نہ ہی اسکے ساتھ کہیں باہر جانا. اس کے علاوہ بھی میں نے مریم مزید ہدایات دیں اور کہا کہ یہ وہی مشن ہے جس کی بات چند روز پہلے میں نے تمہارے ساتھ ڈسکس کی تھی اور تم نے اس مشن میں حصہ لینے کا کہا تھا یہ سن کر وہ ریڈ الرٹ ہو گئی. اسے ہدایات دے کر میں واپس ہوٹل کیطرف چل پڑا اور سوچنے لگا کہ اگر یہی میرا مطلوبہ گینگ نکلا تو یہ چراغ تلے اندھیرے والی بات ہو گی کہ وہ تو مریم کے گھر تک پہنچ چکے ہیں اور میں کھٹمنڈو میں ہر اینٹ پتھر اٹھا اٹھا کر دیکھ رہا ہوں. رات سونے سے پہلے ہی میں نے اس مشن کو پورا کرنے کے لیے حتمی شکل دے دی تھی چونکہ یہاں معاملہ ایک لڑکی کا تھا اور محض اپنے شک کی بنا پر اسکی اصلیت جاننے کی کوشش کرنی تھی اس انٹیروگیشن کے بعد اس سے ملنا بھی ناممکن دکھائی دے رہا تھا کیونکہ دونوں عورتوں نے میری پوچھ گیچھ کی بنا پر مریم کو ٹیوشن دینا بھی بند کر دینی تھی اس لیے میں نے کوئک ایکشن لینے کا فیصلہ کر لیا اگر وہ اپنی اصلیت اگل دے تو ٹھیک ورنہ مجھے دوبارہ یہ موقع ملنا ناممکن تو نہیں لیکن دشوار بہت ہو جانا تھا اگلی صبح میں اپنے چینی ساتھیوں کے ہمراہ بازار گیا اور وہاں سے ایک قینچی ایک تھری زیرو کی بال کاٹنے والی مشین اور ایک داڑھی بنانے والا استرا اور درمیانے سائز کی دو خالی شیشے کی بوتلیں خریدیں بوتل میں سادہ پانی بھر لیا. اپنے پلان کے مطابق میں اپنی پوری تیاری کے ساتھ مریم کے گھر کیطرف روانہ ہو گیامیں نے چینی دوستوں کو سمجھایا کہ وہ دروازے کے باہر کھڑے رہیں اور سیٹی کی آواز سنتے ہی ڈرائنگ روم میں آ جائیں پھر جو کچھ میں سمجھا سکوں یا مریم تم کو بولے ویسے تیزی سے عمل کرنا ہے میں بغیر اطلاع کے مریم کے ڈرائنگ روم میں داخل ہو گیا مریم اپنی ٹیوٹر سے اردو سیکھ رہی تھی رومن رسمالخط میں وہ اردو کے فقرے لکھتی ساتھ انگریزی بھی لکھتی اور اس طرح وہ مریم کے اردو تلفظ کو ٹھیک کر رہی تھی اس سے پہلے کہ وہ میری آمد محسوس کرتی میں سر پر جا کھڑا ہوا مجھے وہ یوں اچانک اپنے اتنے قریب دیکھ کر وہ گھبرا گئی اور دوپٹے سے اپنے چہرے کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولی کہ میں پردہ دار ہوں میں نے بڑے دھیمے لہجے میں کہا کہ دیکھو اب تمہارا پردہ تو رہا نہیں کیونکہ میں نے تمہیں دیکھ لیا ہے میں تم سے بہت متاثر ہوں کہ تم سے مریم نے اتنی جلدی اردو سیکھنے اور اسلامی کلچر سیکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے میں تو اس بات پر حیران ہوں کہ تم مہاجر ہو کر لکھنؤ کی اتنی اچھی اردو کیسے سیکھ اور بول لیتی ہو.اور پھر وہاں کا اسلامی کلچر کیسے سیکھا؟ لڑکی نے بھر پور نظروں سے مجھے تولنے کی کوشش کی کہ میں کتنے پانی میں ہوں.اور بولی میرے والدین دہلی میں پھاٹک حبش خان میں رہتے تھے پارٹیشن کے وقت دہلی میں فساد شروع ہوے تو میرے والدین نے پاکستان ہجرت کرنے کا سوچا میری والدہ کی ایک بہت گہری سہیلی نے انہیں مشورہ دیا کہ بجاے مغربی پاکستان کے ہم مشرقی پاکستان کو ہجرت کر جائیں میری والدہ کی سہیلی کا نام آمنہ تھا اور انکی شادی چٹاگانگ میں تعینات چٹاگانگ کے ایک پورٹ افسر سے ہوئی تھی جو خود بھی علی گڑھ کے رہنے والے تھے میرے والدین ہجرت کر کے چٹاگانگ میں آ بسے اور والد صاحب نے وہی آمنہ آنٹی کے شوہر ایس ایم معروف کی مدد سے پورٹ پر مزدوروں کے ٹھیکے وغیرہ لینے شروع کر دیئے معروف صاحب کا عہدہ بڑھتا گیا اوروہ چٹاگانگ پورٹ کے جنرل مینجر بن گئے اس دوران آمنہ آنٹی کی دونوں چھوٹی بہنیں رضیہ آپا اور افسرا آپا بھی وہی آ گئیں تھیں جہاں انکی شادیاں بھی دہلی کے مہاجر بجلی گھر کے ایک اعلی افسر اور مرچنٹ نیوی کے ایک افسر سے ہو گئیں میں چٹا گانگ میں پیدا ہوئی اور وہی بی اے کیا میرے والد کا چٹاگانگ میں انتقال ہو گیا تھا اور میں اور میری والدہ تنہا رہ گئیں لیکن معروف اور آمنہ آنٹی کی فیملیز نے اس حد تک ہماری مدد کی کہ ہمیں ذرا بھی مالی مشکلات محسوس نہ ہوئی 71ء کے اوائل میں جب مشرقی پاکستان میں فساد پھوٹ پڑے تو ہم نے معروف انکل کے گھر میں پناہ لی معروف انکل ایک سرکاری افسر تھے اس لیے انہوں نے اپنا اور رضیہ آپا کے شوہر کا تبادلہ مغربی پاکستان کروا لیا افسرا باجی شادی کے بعد ہی مغربی پاکستان جا چکی تھی ہم ماں بیٹی نے سوچا کہ ہم دہلی چلے جائیں جہاں پر دودھیال اور ننھیال تھے اب تک تو ہم دہلی میں رہے اور کب تک خوف و ہراس کی زندگی بسر کرتے ہم نے پاکستان آنا چاہا تو معلوم ہوا کہ جب تک کھٹمنڈو سفارت خانے میں رجسٹریشن نہیں ہوگی پاکستان نہیں جا سکیں گے اس لیے ہم ماں بیٹی یہاں آ گئے مالی طور پر ہم مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے میری والدہ اور والد کے رشتہ داروں نے چلتے وقت خاصے پیسے دیئے یہاں پر ایک کشمیری فیملی نے ہمیں رہنے کے لیے اپنا ایک کمرہ دیا ہے مہاجروں کی فری ہوائی سفر کی حالت دیکھ کر ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنی ٹکٹ خرید کر تھائی ائیر یا رائل نیپال ائیر لائنز کی ٹکٹس خرید کر اس میں جائیں گے اور جب تک ہمارے پاس اتنے پیسے جمع نہیں ہو جاتے ہم نیپال میں ہی رہیں گے ہماری ابھی تک پاکستانی سفارت خانے میں رجسٹریشن نہیں ہوئی کشمیری سربراہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ بہت جلد ہماری رجسٹریشن کروا کر ہمیں ون وے پاکستانی پاسپورٹ دلوا دیں گے اور پھر ہم پاکستان چلے جائیں گے یہاں بیکار رہنے کی بجاے میں نے سوچا کچھ کام ہی کر لیا جائے اسی کوشش میں اس ریسٹورنٹ میں آئی اور مریم کو ٹیوشن پڑھانے لگ گئی.
: اسے حسن اتفاق ہی کہا جا سکتا تھا کہ اوائل زندگی میں اپنی پہلی ملازمت کے دوران چٹاگانگ میں معروف فیملی سے نہ صرف میں اچھی طرح واقف تھا بلکہ انکے گھر میں ایک فیملی ممبر کی حثیت بھی اختیار کر چکا تھا اس وقت معروف صاحب چٹاگانگ پورٹ کے ڈپٹی مینجر تھے انکی بیگم کا نام آمنہ تھا اور انکی منجھلی سالی چٹاگانگ میں ہی ایک الیکٹرک انجنئیر سے بیاہی ہوئی تھی اور چھوٹی سالی افسرا بھی ان کے ساتھ رہتی تھی ان دونوں اسکی شادی نہیں ہوئی تھی اتنے بھرپور ریفرنس اور جنہیں میں ذاتی طور پر جانتا تھا کے بعد مجھے اس لڑکی پر کسی قسم کے شک و شبہے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی تھی میں نے اس لڑکی کو اپنے ذہن سے کلئر کر دیا تھا مجھے افسوس ہو رہا تھا کہ میں نے ایک پردہ دار لڑکی کو بے پردہ کیا ہے اور اس سے بے جا سوال پوچھے. ماحول کی تلخی ختم کرنے کے لیے میں نے مریم کو سب کے لیے کافی لینے بھیج دیا. مریم چاےُ بنانے چلی گئی تو میں نے اس یتیم لڑکی کے خوف کو دور کرنے کے لیے میں نے اس سے پوچھا کہ معروف فیملی میں تمہارے بقول افسرا ہی غیر شادی شدہ تھی اور اگرچہ عمر میں تم اس سے چھوٹی تھی اور وہی تمہارے زیادہ قریب رہی ہو گی لڑکی نے بتایا جی ہاں افسرا باجی مُجھے بہت پیار کرتی تھی تو تم نے وہی سکول جوائن کیا ہو گا جس میں افسرا پڑھتی ہو گی. اس نے کہا جی ہاں وہ نویں کلاس میں تھی اور اسی نے مجھے سکول داخل کروایا تھا لڑکی نے پر اعتمادی سے جواب دیا تم نے بتایا کہ افسرا جس سکول میں پڑھتی تھی اسی سکول میں اس نے تمہی بھی داخل کروایا تھا وہ تمہارے بہت قریب بھی تھی اور تم سے بہت پیار بھی کرتی تھی یہ تو بتاؤ کہ افسرا میں ایسی کون سی بات تھی جو اسے دوسروں سے نمایاں کرتی تھی لڑکی میرا یہ سوال سن کر گھبرا گئی اور کہنے لگی کہ آپ مجھ سے یہ سوال کیوں پوچھ رہے ہیں میں نے کہا کہ محض وقت گزاری کے لیے اتفاق سے میں بھی معروف فیملی کو بڑی اچھی طرح جانتا ہوں تم نے انکے متعلق بلکل صحیح بتایا ہے اب میں تمہی بتاتا ہوں کہ افسرا نے سکول سپورٹس میں حصہ لینے کے لیے اپنے بال بہت چھوٹے کروا دئیے تھے بلکل مردانہ سٹائل کیوں تمہیں یاد ہے. ہاں بلکہ معروف صاحب نے اس حرکت پر افسرا باجی کو بہت ڈانٹا بھی تھا لڑکی نے جواب دیا اور ساتھ ہی میز پر رکھے اپنے لیڈیز بیگ کیطرف بڑھی.
میں اسکی ایک ایک حرکت دیکھ رہا تھا اس سے پہلے کہ وہ اپنا بیگ اٹھاتی میں نے اسے پیچھے دھکا دے کر اسکا بیگ خود اٹھا لیا. اور ساتھ ہی میں نے سیٹی بجائی دونوں چینی دوست بھاگتے ہوئے ڈرائنگ روم میں آ گئے اسی دوران مریم بھی کافی کی ٹرے اٹھائے کمرے میں داخل ہو چکی تھی میں نے مریم کو کہا کہ ان سے کہو کہ اس لڑکی کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیں مریم میں سوال جواب کی عادت نہیں تھی وہ پہلے کام کرتی پھر سوال کرتی. اس نے فوراً چینی دوستوں کو میرا پیغام دے دیا دونوں چینی آگے بڑے تو اس لڑکی نے کراٹے کا ایسا بھر پور وار کیا کہ ایک چینی بے ہوش ہو گیا اب ایک طرف میں تھا اور دوسری طرف دوسرا چینی اور درمیان میں لڑکی کھڑی تھی اور کراٹے کے پینترے بدل بدل کر ہم دونوں کو اپنے وار کے نیچے لانے کی کوشش میں تھی مجھے اسکا بیگ کھولنے کا ابھی تک موقع نہیں ملا تھا. میں گھومتی ہوئی لڑکی کی ٹانگ کے وار سے بچنا چاہتا تھا جونہی اس کا رخ اور دھیان چینی کیطرف ہوا میں لڑکی کیطرف بڑھا وہ مجھ سے غافل نہیں تھی اس نے مجھے ہٹ کرنے کے لیے اپنی سیدھی ٹانگ اٹھائی جسے میں نے اپنے جسم سے لگنے سے پے ہی اسکی پنڈلی سے پکڑ لیا یہاں میرا لمبا قد اور لمبے بازو کام آے ورنہ اسکی ضرب اتنی شدید تھی کہ چینی دوست ابھی تک بے ہوش پڑا ہوا تھا میں نے اسکی ٹانگ پکڑی ہی تھی کہ چینی نے اسے پیچھے سے بازوؤں سے پکڑ لیا وہ بس ہو کر قالین پر گر گئی مگر ہم دونوں کی گرفت اس پر ہلکی پڑ رہی تھی اور وہ مچجلی کیطرح تڑپتی ہوئی خود کو آزاد کرانے کی کوشش کر رہی تھی میں نے مریم کو رسی اور کپڑا لانے کے لیے کہا تاکہ اسے باندھ دوں ہم نے اسکے ہاتھ پیچھے باندھے دئیے ٹانگیں بھی باندھ دیں اور منہ میں کپڑا ٹھونس دیا چینی دوست اپنی ساتھی کو ہوش میں لانے کی تدبیر کرنے لگا مریم میرے قریب آ گئی میں نے لڑکی کا پرس چیک کیا تو اس میں سے میک اپ کا سامان نیپالی کرنسی اور ایک 25 بور کا لوڈ پسٹل نکلا ڈی ایم آئی نے مکمل ٹریننگ کے بعد اور ایک بھرپور چینج نہ ہونے والی کور اسٹوری کے ساتھ اس لڑکی اور اس کے ساتھیوں جن کا ذکر بعد میں آے گا کو پاکستان بھجنے کا منصوبہ بنایا تھا میں بھی اسکی کور سٹوری سے بلکل مطمئن ہو گیا تھا بعد کے سوال تو محض پوسٹ سکرپٹ کے پوچھے تھے جنکا جواب دینے میں وہ مار کھا گئی معروف کی سالی افسرا کے بال اتنے لمبے تھے کہ اسکی پنڈلیوں کو چھوتے تھے اس کے بال اتنے لمبے اور گھنے تھے کہ وہ اپنے بال خود نہیں دھو سکتی تھی بلکہ بالوں کو دھونے کے لیے دو بنگالی ملازمائیں رکھی ہوئی تھیں جو اس کے بال دھوتی تھیں وہ کبھی بھی چٹاگانگ نہیں پڑھی بلکہ دہلی سے ایف اے کر کے چٹاگانگ گئی تھی اور اسی وقت بھی اسکے بال اتنے لمبے اور گھنے تھے اور وہ اپنے اس عجوبہ بالوں کو کٹوانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی یہ تو محض اتفاق تھا کہ میں بذات خود معروف فیملی کو بہت اچھی طرح جانتا تھا ورنہ اتنی مکمل کور سٹوری کے ساتھ بھارتی جاسوسوں کا یہ گروپ پاکستان جانے والا تھا جہاں پر کوئی ان پر شک نہیں کر سکتا تھا میرے پاس وقت بہت کم تھا اور اس لڑکی سے کچھ اگلوانا بھی تھا اس کے پرس سے پسٹل کا نکلنا اگر شک میں تھوڑی بہت گنجائش بھی تھی وہ اس کے جاسوس کے متعلق ثابت ہو چکی تھی چینی دوست جو اب ہوش میں آ چکا تھا مگر اپنا سر پکڑ کر ناجانے کیا اناپ شناپ بک رہا تھا میں نے دوسرے چینی دوست سے بازار سے خریدا ہوا سامان لے کر لڑکی کے سامنے ٹیبل پر رکھ دیا اور اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ تمہاری بد قسمتی ہے کہ تم اپنی گیم شروع کرنے سے پہلے ہی پکڑی گئی ہو اور خوش قسمتی یہ کہ تمہیں پکڑنے والا ایک مسلمان ہے تمہارے اور تمہاری نقلی ماں اور نقلی باپ مرد جس نے تمہارے نقلی باپ کا کردار ادا کرنا تھا تم تینوں کے متعلق تمہاری بھارت سے روانگی سے قبل ہی پاکستان کو اطلاع مل چکی تھی اور وہ اطلاع بذریعہ ڈاک مجھے بھی موصول ہو چکی ہے مریم کو جب تم نے پڑھانا شروع کیا تھا اس سے پہلے ہم تمہاری اور تمہارے ساتھیوں کی نگرانی کر رہے تھے اور یہ تصاویر دیکھو یہ تمہارے گروپ لیڈر کی ہیں تم جوان بھی ہو اور خوبصورت بھی ہو اور اگر ہماری جگہ کوئی غیر مسلم ہوتے تو سب سے پہلے وہ تمہاری جوانی اور خوبصورتی سے کھیلتے اور پھر تم سے پوچھ گیچھ کرتے تمہیں اس سے کوئی فرق نہ پڑتا. کیونکہ تمہیں بھارت سے اس کے لیے بھی تیار کر کے بھیجا گیا ہے لیکن یہ ہمارے مذہبی اصولوں کے خلاف ہے لیکن ایک جاسوس کا ہم جو حشر کرتے ہیں اس کے متعلق تم ناواقف ہو ورنہ کبھی بھی تم پاکستان کے خلاف جاسوسی کرنے کا سوچتی بھی نہیں اگرچہ ہم تمہارے متعلق سب کچھ جانتے ہیں لیکن یہ سب تمہاری زبانی سننا چاہتے ہیں
: اگر تم تعاون نہیں کرو گی تو سب سے پہلے تمہاری زبان کھلوانے کے لیے ہمارا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ پہلے ہم تمہارے بال کاٹیں گے. پھر تمہارے سر پر مشین چلا کر گنجا کر دیں گے اگر پھر بھی تم نے سچ نہ بتایا تو ہم تمہارے ناک کان کاٹ دیں گے اور پھر ان شیشوں سے بھرے تیزاب سے تمہارے چہرے کو اتنا بھیانک بنا دیں گے کہ تم کبھی آئینہ دیکھنے کی ہمت نہیں کر سکو گی اگر پھر بھی تم نے کچھ نہ بتایا تو ہم ہار مان کر تمہیں زندہ چھوڑ دیں گے لیکن چھوڑنے سے پہلے یہ میرے چینی ساتھی تمہارے ہاتھ پاؤں کی ہڈیاں توڑ دیں گے تاکہ تم آئندہ کسی پر اپنے مارشل آرٹ کو نہ آزما سکو. میں نے اسے یہ تمام باتیں نفسیاتی طور پر توڑنے اور مزاحمت نہ کرنے کے لیے کی تھیں. عورت کے لیے سب سے زیادہ قیمتی چیز اس کا حسن ہوتا ہے اور سواے پاکباز عورتوں کے اس قماش باز عورتیں خوبصورت دکھائی دینے اور اپنے حسن کو برقرار رکھنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہیں میں نے مریم کے ذریعے چینی ساتھیوں کو کہا کہ اس لڑکی کے ہاتھ پاؤں دوبارہ کس کر اچھی طرح باندھ دیں تاکہ جب ہم اپنا کام شروع کریں یہ حرکت نہ کر سکے میں نے یہ بات بھی اسے نفسیاتی طور پر توڑنے کے لیے کہی تھی تاکہ وہ دوسرے عزائم کو صحیح سمجھ کر مدافعت چھوڑ دے چینی دوستوں نے دوبارہ اس کے ہاتھ پاؤں کس کر باندھ دیئے اور میرے اشارے پر اسے بازوؤں سے پکڑ کر بٹھا دیا. میں نے قینچی اٹھائی اور 6انچ کے قریب اس کے بال کاٹ کر اس کے سامنے پھینک دیئے لڑکی کے منہ میں کپڑا ٹھونسا ہوا تھا وہ بول تو نہ سکی مگر غوں غاں کرنے لگی میں نے مزید تین چار انچ اس کے بال کاٹے اور وہ بھی اس کے سامنے پھنیک دیئے لڑکی کی غوں غوں مزید بڑھ گئی اب میں نے مشین اٹھائی جو اس لڑکی کے سامنے میز پر پڑی تھی میں نے مریم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے اسے اپنے بالوں سے محبت نہیں ہے کیوں نہ مشین سے اسکے سر کو بالوں سے آزاد کر دیا جائے میرے ہاتھ میں مشین دیکھ کر لڑکی کی خوف سے آنکھیں پھیل گئیں. اس نے زور سے اپنا سر ہلانا شروع کر دیا میں نے پوچھا کیا وہ بولنا چاہتی ہے اس نے سر ہلا کر ہاں میں جواب دیا. میں نے استرا اٹھایا اور مریم سے کہا کہ وہ چینی دوستوں کو کہے کہ اگر اس نے سچ نہ بولا تو استرے سے اس کا ایک کان کاٹ دیں. یہ کہہ کر میں نے لڑکی کے منہ سے کپڑا نکال دیا اور اسکی جو خوف سے حالت ہو رہی تھی وہ ناقابل بیان ہے منہ سے کپڑا نکلتے ہی وہ لرزتی ہوئی آواز میں بولی. مجھ پر رحم کریں. میں آپکو سب کچھ سچ سچ بتا دوں گی. لیکن بھگوان کے لیے مجھ پر ظلم نہ کریں. اسکے بھگوان کہنے سے اس بات کی تصدیق تو ہو گئی کہ وہ غیر مسلم ہے. میں نے کہا کہ یہ تو اب تم پر منحصر ہے کہ سب کچھ سچ بتا کر اپنے آپکو بچا لو ورنہ میں پھر اگلا قدم اٹھاؤں گا. میں نے لڑکی کو کہا کہ اب بولو لیکن دھیمی آواز سے اور یہ یاد رکھنا میں تمہارے متعلق سب کچھ جانتا ہوں. جونہی تم نے غلط بیانی سے کام لیا میرے ایک اشارے پر تمہارا ایک کان کاٹ کر تمہارے سامنے پڑے ہوئے بالوں کے ساتھ رکھ دیا جائے گا.
لڑکی نے بولنا شروع کیا کہ وہ دہلی کی رہنے والی ہے اور بنگلہ دیش کبھی بھی نہیں گئی. سکول کے زمانے سے ہی مجھے مسلمانوں سے نفرت تھی کیونکہ آوارہ قسم کے لڑکے سکول کے سامنے آتے اور مجھ پر اور میری سہیلیوں پر آوازیں کستے تھے میں نے پوچھا کہ تمہیں کیسے معلوم تھا کہ یہ تنگ کرنے والے لڑکے مسلمان ہی ہیں. لڑکی بولی کہ وہ مسلمانوں کے نام سے ایک دوسرے کو مخاطب کرتے تھے. ہم نے جب ہیڈ مسٹریس سے اس بات کی شکایت کی. تو انہوں نے شیو سینا والوں کو بتایا. اور اس تنظیم کا ایک مارشل آرٹ کا ماہر ہمیں تربیت دینے کے لیے اور غنڈوں سے مقابلہ کرنے اور اپنے آپکو بچانے کے لیے ہمیں تربیت دینے کے لیے ہمارے سکول آنے لگا. میں نے 6 سال مارشل آرٹ کی تربیت سکول اور کالج میں حاصل کی. جس سے مجھے میں خاصی خود اعتمادی پیدا ہو گئی. اور میں نے اس دوران کئی آوارہ اور غنڈوں لڑکوں کی ایسی پٹائی کی کہ وہ دوبارہ کبھی کہیں نظر نہ آئے. اور میں ذہنی طور پر شیو سینا اور آریا ویدک کو اپنا سر پرست سمجھنے لگی. میں کالج میں پڑھ رہی تھی کہ اسی دوران میں شیو سینا کی میٹنگز میں باقاعدہ جانا شروع ہو گئی. اور جلد ہی اس تنظیم کی باقاعدہ ممبر بن گئ میرے شوق اور جذبے کو دیکھتے ہوئے مجھے شیو سینا کے اس مخصوص گروپ میں شامل کر لیا گیا. جسکی میٹنگز میں ہمیں اسلحہ چلانے اور جاسوسی کی تربیت دی جانے لگی میرے پتا کا دہانت ہو چکا تھا اور میری ماتا ایک آرٹ سکول میں ٹیچر تھی ابتدائی تربیت کے بعد ہمیں دہلی کے قریب ایک فوجی کیمپ میں ایڈوانس تربیت کے لیے جانا پڑا. جس میں فوجی ہمیں اسلحہ چلانے اور جاسوسی کرنے کے داؤ پیچ سکھانے لگے. تربیت کے مخصوص کمروں میں ایسے چارٹ لگے ہوئے تھے جن پر بھارت برما افغانستان مشرقی اور مغربی پاکستان کے نقشے بنے ہوئے تھے بھارت کو چھوڑ کر باقی ملکوں کے نقشوں پر سرخ لکیریں لگی ہوئی تھیں. ہمیں بتایا جاتا تھا کہ ماضی میں یہ سب ملک بھارت کا ہی حصہ تھے اور مہاراجہ اشوک کی حکومت برما سے لے کر افغانستان کے آخری کونے تک تھی. اب ہمیں یہ سب علاقے اکھنڈ بھارت میں شامل کرنے ہیں. اسی دوران تربیت دینے والے ایک کیپٹن سے میرے تعلقات آخری حدوں سے بھی آگے بڑھ گئے.
 میں نے جب کیپٹن کو شادی کرنے پر زور دیا تو ایک دن اسکے کرنل نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا اور کہا کہ جسمانی لذت سے بھی بڑھ کر ایک لذت اپنی جنم بھومی کو غاصبوں کے قبضے سے اسے آزاد کرانا ہے. اس سے تمہی اپنے من کی اور پرکھوں کی آتما کو شانتی ملے گی. ہم تمہیں اسی مقصد کے لیے پاکستان بھیجیں گے. اور وہاں سے واپسی پر اس کیپٹن سے تمہاری شادی کروانے کی ذمہ داری میں لیتا ہوں. مشن کی تکمیل کے لیے تمہیں اپنے دماغ کے ساتھ اپنے شریر (جسم) کو بھینٹ کرنا ہو گا. لیکن وطن کی سیوا کی خاطر تم اپنے جسم کی بھینٹ دینے کے باوجُود تم ہمارے لیے پوتر اور ستی ساوتری رہو گی. اگر تمہیں یہ منظور ہے تو ہم تمہاری والدہ کو کہیں گے کہ ہم تمہیں اعلی تعلیم کے لئے برطانیہ بھیج رہے ہیں. لڑکی سانس لینے کے لیے رکی اور ایک گلاس پانی مانگا.پانی پی کر اس نے سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں نے یہ بات مان لی. تو مجھے ایک برس مزید تربیت اور پاکستان کے متعلق کتابوں فلموں سائیڈوں اور لیکچروں سے اس قدر جان کاری دی گئ کہ اب میں بھارت کی نسبت پاکستان کو زیادہ بہتر جانتی ہوں دو ماہ پہلے مجھے ایک ادھیر عمر مرد اور عورت سے ملوایا گیا. پاکستان میں ایک گروپ کی صورت میں کام کرنے کے لیے آ نہوں نے میرے ماتا پتا بن کر رہنا تھا کھٹمنڈو میں ہم اکھٹے آئے ہیں. میں اپنی ماتا کے ساتھ ایک کشمیری فیملی کے گھر میں رہتی ہوں اور پتا ایک الگ فلیٹ میں رہتے ہیں کھٹمنڈو میں مجھے اپنی عملی کارکردگی دکھانے کے لیے مریم تک رسائی حاصل کرنا تھی. میرے ماتا اور پتا کو بھی آپ سے الگ الگ ملنے کا کام سونپا گیا تھا. یہاں ہمارے ذمے یہ کام ہے ہم کسی بھی طرح آپکو یا مریم کو اعتماد میں لے کر بھارتی سفارت خانے کے اندر لے جانا تھا اگر میں آج پکڑی نہ جاتی تو دو تین روز تک میں مریم کے ساتھ اسکی گاڑی میں ان دونوں بھارتی سفارت خانوں کے سامنے سے گزرتے ہوئے گن پوائنٹ پر یا پھر اسکو بے ہوش کر کے بھارتی سفارت خانے کے اندر لے جاتی میں سائیکل سے لے کر ٹرک چلانے تک مہارت رکھتی ہوں. میرے گروپ کو بھارت سے آنے سے پہلے آپ دونوں کے متعلق مکمل بریف کیا گیا تھا. یہ دونوں سفارت خانے ہماری پشت پر ہیں اور یہاں ہماری رہنمائی بھی کرتے ہیں.
قارئین جتنا وقت آپ نے اس بھارتی جاسوسہ کے بیان کو پڑھنے میں لگایا ہے اتنا ہی ٹائم یا اس سے تھوڑا اس نے بیان دینے میں لگایا تھا. میں تفصیلاً اس کے بیان کو صرف اس لیے لکھ رہا ہوں کہ بھارت اور کھٹمنڈو میں قیام کے دوران پہلی بار میں نے پوری تربیت یافتہ بھارتی جاسوسوں کے گرو کر پکڑا تھا. جو انتہائی خطرناک عزائم لے کر پاکستان جانے والا تھا اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھنے والے اب پہلے سے بھی زیادہ اس مقصد کے لیے کوششاں ہیں. اور ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے دانشور اور سیاسی لیڈر ہی ہمیں بھارت کے ساتھ پینگیں بڑھانے اور بھارت کو موسٹ فیورٹ قوم سمجھنے کے لیے ترغیب دے رہے ہیں. لعنت ہے ایسی سوچ رکھنے والے دانشوروں سیاسی لیڈروں اور ان لوگوں پر جو ان کے ہم خیال ہیں. ہمارے اپنے ہی حکمران بنگلہ دیش جاکر مکتی باہنی کے جہنم رسیدوں کی یادگار پر پھول چڑھاتے ہیں اور اس پر ندامت کا اظہار کرتے ہیں. کہ ہم نے مشرقی پاکستان جو 16 دسمبر 71ء تک پاکستان کا مشرقی بازو تھا. پاکستان کے دشمنوں اور غداروں کی سازش کو کچلنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا تھا. 
جاری ہے

Next Episode


No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.