Ads Top

Bhagora By Riaz Aqib Kohler Episode No. 39 ||بھگوڑا مصنف ریاض عاقبکوہلر قسط نمبر 39


Bhagora
By
Riaz Aqib Kohler
بھگوڑا
 مصنف
ریاض عاقب کوہلر

 Bhagora By Riaz Aqib Kohler بھگوڑا  مصنف ریاض عاقب کوہلر

بھگوڑا
قسط نمبر39
آخری 
ریاض عاقب کوہلر
امجد شدت سے میرا منتظر تھا۔ میں نے چودھری کے سامنے اسے تمام تفصیل سے آگاہ کر دیا۔
”فنٹاسٹک۔“ وہ تعریفی لہجے میں بولا۔ ”اس کا مطلب ہے اپنا کام بہت کم باقی رہ گیا ہے چلو اچھا ہوا ڈاکٹر شہلا غریب بھی بے صبری سے میری منتظر ہو گئی۔“”ہاں یار خوش قسمت ہو۔“ میں نے جانتے بوجھتے شہلا کے ذکر کو اجاگرکیا۔ ”چوہدرانی سے شادی کرنا ہر شخص کی قسمت میں نہیں ہوتا اور چوہدرانی بھی وہ جو ڈاکٹر ہو۔“
امجد میرا مزاج آشنا تھا اسے پتا چل گیا کہ میں نے کیوں اس طرح کی بات کی ہے۔اس نے چاہت سے شہلا کی باتیں چھیڑ دیں۔ اس دوران میں نے چودھری کے منہ پر بندھا ہوا کپڑا کھول دیا۔ مگر کچھ کہنے کی بجائے وہ ڈھیٹ بنا امجد کی شہلا کے متعلق گفتگو سنتا رہا۔ میں نے جب دیکھا کہ اپنی بہن کے ذکر پر بھی اسے کوئی غیرت نہیں آرہی تو امجد کو خاموش کراکر اس سے مخاطب ہوا....”چودھری.... میرے خلاف تُو نے جو کرنا تھا بڑی سفا کی سے کیا میرے والدین بیوی بچے بھائیوں بھتیجوں بھتیجیوںبھابیوں تمام کوبے دردی سے نذر آتش کر دیا۔ تمھاری وجہ سے میں دشمن ملک میں در بدر پھرا، اس کی خفیہ ایجنسیوں کے تشدد کا نشانہ بنا، اپنے ملک کی پولیس کے لیے مشق ستم بنا۔ میرے پیارے چچا کی ٹانگیں ٹوٹیں، میری بہن پاگل ہوئی۔ ان سب کے علاوہ مجھے جو ذہنی اذیت برداشت کرنی پڑی، ایسی ذہنی تکلیف جو شاید پتھر کو بھی ریزہ ریزہ کر دے۔ تمھارے یہ تمام جرائم اس بات کے متقاضی تھے کہ میں تمھیں دیکھتے ہی بے دردی سے قتل کر دیتا۔ مگر اس کا نقصان یہ تھا کہ تمھیں پہنچنے والی تکلیف اور اذیت اس تکلیف سے بہت کم ہوتی جو مجھے برداشت کرنی پڑی، کئی راتیں جاگ کر گزارنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ،بھائی جو میرے بازو تھے ان کو مارنے کے جرم میں تمھارے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں ۔ اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے اس کے بدلے تمھاری آنکھیں نکال دوں۔ باپ سے نسبت کے تفخر پر معاشرے میں ہماری ناک اونچی ہوتی ہے اس کے بدلے تمھاری ناک کاٹ دوں۔ بیوی کی زیب وزینت سے ہم تسکین حاصل کرتے ہیں۔ اس کے بدلے تمھارے چہرے کے نقوش بگاڑ دوں۔ اپنے چچا کی ٹانگوں کے بدلے تمھاری ٹانگیں کاٹ دوں۔ ماں ہمیں بولنا سکھاتی ہے اس کا بدلہ تمھاری گندی زبان کاٹ کر لوں اور مجھے ان سب کی جدائی میں جو اذیت اٹھانی پڑی ہے اس کی جزا میں تمھیں زندہ رکھوں اور میرا خیال ہے تُو مجھ سے متفق ہو گا اور فکر نہ کرنا میں نے ڈاکٹر سے بات کرلی ہے وہ یہ تمام کام بڑے سائنٹیفک انداز میں کرے گا۔ اس ضمن میں تمھاری حرام کی کمائی بڑی کار آمد ثابت ہوئی ہے۔“
 میرے پُر سکون لہجے کو سن کر اس کے چہرے پر خوف کے تاثرات نمودار ہوئے چند لمحے تو وہ خوف کی شدت سے بات نہ کر سکا اور جب بولا تو فقط معافی مانگنے اور گڑگڑانے کے کوئی قابل ذکر بات اس نے نہ کی مگر اس کے یہ الفاظ میرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے تھے۔ اس کی بکواس کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم دونوں وہیں بیٹھ کر وہ کھانا کھانے لگے جو میں بازار سے لے آیا تھا۔ اس دوران منتوں اور زاری سے تھک کرچودھری منہ سے مغلظات اُگلنے لگا۔ اس کا مقصد شاید ہمیں غصہ دلانا تھا تاکہ طیش میں آ کر ہم اسے قتل کر دیں۔ مگر اتنے بچے ہم بھی نہیں تھے۔ میں نے کہا۔
”چودھری جتنا بھونک سکتے ہو بھونک لو۔ چند گھنٹے بعد تمھاری یہ گندی زبان کاٹ دی جائے گی۔“
”عمر جان تمھیں تمھاری ماں کا واسطہ.... تمھارے باپ کا....“ مگر اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتا میں نے اس کے منہ پر اپنے پاﺅں کی بھر پور ٹھوکر جڑ دی۔
”اپنی گندی زبان سے ان کے نام مت لو چودھری۔ان کو تو تُو نے اس بڑھاپے میں زندہ آگ میں جلا دیا ہے۔ پتا ہے آگ میں جلنے پر کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ ٹھہر و تمھیں بتلاتا ہوں....ماجے!.... ذرالائیٹر دینا۔“
 امجد نے لائیٹر نکال کر میری جانب بڑھا دیا۔ میں نے لائیٹر جلا کر چودھری کے پاﺅں کے نیچے پکڑ لیا۔ چند سیکنڈ بعد ہی اس کے منہ سے چیخیں نکلنے لگیں اور اس کے ساتھ ہی وہ یوں لرزنے لگا۔ جیسے اسے کرنٹ لگائے جارہے ہوں۔ چمڑا جلنے کی سڑانڈ کمرے میں پھیل گئی اور تکلیف کی شدت سے وہ بے ہوش ہو گیا۔ اسے اسی حالت میں چھوڑ کر ہم دونوں ان ٹوٹی پھوٹی چارپائیوں پر آمنے سامنے بیٹھ کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے لگے۔
حسب ِوعدہ ڈاکٹر اے کے شیروانی نے کلینک کاعقبی دروازہ کھلا رکھاتھا۔ دروازہ اتنا چوڑا تھا کہ ہم گاڑی سمیت اندر گھس گئے۔ گاڑی عقبی صحن میں روک کرہم نیچے اترے بڑا گیٹ بند کر کے میں نے امجد کو چودھری کے بے ہوش بدن کو اٹھانے کا اشارہ کیا اور خود ڈاکٹر کے بتائے گئے راستے پر ہو لیا۔ امجد مجھ سے چند قدم پیچھے تھے۔
ہم آگے پیچھے چلتے آپریشن تھیڑ میں پہنچ گئے۔ نو بجنے میں چند منٹ رہتے تھے۔ میں جان بوجھ کر چند منٹ پہلے پہنچا تھا۔ چودھری کو آپریشن ٹیبل پر لٹا کر ہم ڈاکٹر کا انتظارکرنے لگے۔ ڈاکٹر ٹھیک نو بجے تھیڑ میں داخل ہوا اور دروازہ اندر سے بند کرکے ....
”السلام علیکم۔“ کہتے ہوئے ہماری طرف بڑھا۔”میرا خیال ہے میں وقت پر پہنچا ہوں۔“”بالکل ڈاکٹر صاحب۔“اس نے ہم دونوں سے مصافحہ کیااور ٹیبل پر پڑے چودھری کی طرف بڑھا۔”اچھا یہ ہے مریض۔“ وہ چودھری کے قریب رکھ گیا۔ ”یہ بے ہوش کیوں ہے اور اس کی تو دونوں ٹانگیں صحیح نظر آرہی ہیں۔“”ڈاکٹر صاحب۔“ میرا لہجہ بالکل بدل گیا۔ ”میرے پاس اتنا وقت تو نہیں ہے کہ میں آپ کو اپنی مکمل کہانی سنا سکوں مختصراً اتنا سمجھ لو کہ اس شخص کے ہاتھوں میرے تمام گھر والے زندہ جلے ہیں اور اب میں اسے عبرت کا نمونہ بنانا چاہتا ہوں۔ آپ نے بس اتنا کرنا ہے کہ اس کی دونوں ٹانگیں رانوں سے کاٹ کر علاحدہ کر دو۔ دونوں ہاتھ کندھوں سے تھوڑا نیچے کا ٹ دو۔ ایک آنکھ نکال دو ناک اور زبان کاٹ دو چہرے کے نقوش بگاڑ دو۔ اس کے ساتھ یہ بھی خیال رہے کہ یہ مرنے نہ پائے۔“
میری بات سن کرڈاکٹر کے چہرے پر حیرانی کے ساتھ خوف کے بھی تاثرات ابھرے اور وہ ہکلاتے ہوئے بولا۔”آ.... آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟“
”میں نے وہی کہا ہے جو آپ نے سنا ہے۔“
”مم، مگر میں، میں اےسا.... کیسے کر سکتا ہوں؟“”تم کرو گے ڈاکٹر۔“ امجد خوفناک لہجے میں بولا۔ ”ورنہ ہم یہی سب کچھ تمھارے ساتھ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ البتہ معاوضے کی فکر نہ کرو جتنا پہلے دیاتھا مزید اس سے دگنا ملے گا۔“
وہ تھوک نگل کر بولا۔ ”مم.... مگر.... یہ ظ.... ظ ظلم ہے۔“”تمھیں یہ اس لیے ظلم نظر آرہا ہے کہ تُم نے ہمارے بچوں کے جلے ہوئے بدن نہیں دیکھے ہماری بہنوں کے ناقابل شناخت چہرے نہیں دیکھے۔ ہمارے والدین کے راکھ ہوتی ہڈیاں نہیں دیکھیں۔ اگر تم نے ان سب کا مشاہدہ کیا ہوتا تو کبھی بھی اسے ظلم نہ کہتے۔“
امجد کی بات سن کر اس نے بے چارگی سے میری جانب دیکھا۔ میں گیراکٹ مارک تھرٹین نکال کر اس کا معائنہ کر رہا تھا۔ میرا مقصد اسے خوفزدہ کرنا تھا۔
”اگر میں آپ کو ایسے ڈاکٹر کا ایڈریس دوں جو یہ کام بہ خوبی سرانجام دے۔“”شٹ اَپ۔“ اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے امجد دھاڑا۔ ”شروع ہو جاﺅ ہمارے پاس تمھاری بکواس سننے کے لیے بالکل وقت نہیں۔“امجد کی دھاڑ سن کر وہ کانپ سا گیا تھا۔ کوئی چارہ کار نہ دیکھ کر وہ مرے مرے قدموں سے چودھری کی طرف بڑھا۔ اگلے دو گھنٹوں میں چودھری کی دونوں ٹانگیں اس کے جسم سے علاحدہ ہو چکی تھیں اور پھر آہستہ آہستہ اس کے باقی اعضاءبھی کم ہونے لگے۔جس وقت ڈاکٹر نے اپنا کام ختم کیا اس وقت دن نکل آیا تھا۔ آپریشن ٹیبل پرچودھری کی بجائے ایک عجیب ہیئت کا جسم پڑا تھا۔ آپریشن ختم کر کے ڈاکٹر بے جان سے انداز میں دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا تھا۔ امجد نے جیب میں ہاتھ ڈال کر بڑے نوٹوں کی دو گڈیاں نکال کر اس کی طرف بڑھائیں اور بولا۔”یہ ایک لاکھ روپیہ ہے اور ڈاکٹر صاحب میں اپنے رویے کی معذرت چاہتے ہوئے آپ کو اتنا بتلا دوں کہ یہ شخص انسان نہیں درندہ تھا، اور یہ اس سے بھی زیادہ برے سلوک کا مستحق تھا۔“
ڈاکٹر نے رقم کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا امجد نے وہ گڈیاں زبردستی اس کی جیب میں ڈال دیں اورچودھری کو نہایت احتیاط سے اٹھا کرکہا۔
”چلو جانو۔“ اور میں بھی ڈاکٹر کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے اس کے ساتھ چل پڑا۔چودھری کو اپنے ٹھکانے پر پہنچا کر میں اپنے مقصد کے بندے کی تلاش میں نکلا۔ جو کہیں چھے سات گھنٹوں کی تلاش کے بعد مجھے مل سکا۔”آپ فکر ہی نہ کریں صاحب۔“ میرا مطمح نظر جان کر اس کی آنکھوں میں چمک لہرانے لگی۔ ایسی مشینوں کی دیکھ بھال مجھے خوب آتی ہے۔“
”مشین؟“ میرے لہجے میں حیرانی تھی۔”جی صاحب۔ ہماری اصطلاح میں اسے مشین ہی کہتے ہیں نوٹ چھاپنے والی مشین چار مشینیں میرے پاس پہلے سے موجود ہیں۔ ویسے آپ نے قیمت نہیں بتائی اس کی۔“”بالکل مفت۔“
”نہیں صاحب آپ مذاق کررہے ہیں۔ اتنی قیمتی چیز آپ مفت میرے حوالے کر دیں گے۔“ اس کے لہجے میں حیرانی تھی۔”بلا شک وشبہ۔تم ابھی چلو میرے ساتھ۔“”آپ صحیح کہہ رہے نا؟“ اس کے لہجے میں اب تک بے یقینی تھی۔
”سچ کہہ رہا ہوں بھائی۔ تم آﺅ تو سہی۔ وہ شخص میرا دشمن ہے اور دشمن سے انتقام لینے کا اس سے بہتر طریقہ مجھے نظر نہیں آیا۔“ وہ میرے ساتھ چل پڑا مگر جب تک میں نے چودھری اس کے حوالے نہ کر دیا بے یقینی اس کے اندر ہلکورے لیتی رہی۔”سر مم میں اپنی گاڑی منگوا لوں۔“ چودھری کو دیکھ کر وہ خوشی سے گڑ بڑا سا گیا تھا ۔
”اپنی گاڑی اور بندے بھی منگوالو۔ اس کے علاوہ یہ چابی پکڑو۔“ میں نے اس کی جانب ڈبل کیبن ٹویوٹاکی چابی بڑھائی۔ ”صحن میں جو گاڑی کھڑی ہے یہ ہم علاقہ غیر سے لائے تھے اگر اس کی نیم پلیٹ اور کاغذات وغیرہ بنوالو تو استعمال کر سکتے ہو۔“
”سس۔ ص صاحب آپ مجھ پہ اتنے مہربان کیوں ہو گئے ہیں۔ کہیں میرے خلاف کوئی سازش تو تیار نہیں ہو گئی۔“”تُم ہو ناامریکہ کے صدر کہ تمھارے خلاف ہم سازش کریں گے۔“ امجد ہنسا۔”بے وقوف اس گاڑی کے علاوہ ہم کافی رقم بھی تمھارے حوالے کریں گے اور یہ سب کچھ اس لیے کہ تم اس منحوس کا علاج کرواتے رہنا۔ بس ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ یہ مرنے نہ پائے۔“
”میں بھلا اسے مرنے دے سکتا ہوں ؟“”یہ رقم بھی رکھو۔“ امجد نے اپنی جیب سے چودھری کی حرام کی کمائی کی آخری پونجی نکالی ۔ ”اوراب ہم چلتے ہیں۔“”آخری بات۔“ میں نے کہا۔ ”اسے پشاور سے ڈیرہ اسماعیل خان جانے والے بس اڈے پر پکارکھناہے ۔“”ایسے ہی ہو گا صاحب آپ بے فکر رہیں۔“رقم، گاڑی اور چودھری کو اس بھکاری مافیا کے سرغنہ کے حوالے کر کے ہم اس مکان سے باہر نکل آئے۔ کچھ قارئین تو شاید بھکاری مافیا سے واقف ہوں جنھیں علم نہیں ان حضرات کی معلومات میں اضافے کے لیے لکھتا چلوں کہ پاکستان میں بھیک مانگنے کا کاروبار بہت منظم انداز میں پھیلا ہوا ہے۔ اس کاروبار سے وابستہ افراد کم عمر بچوں کو اغوا کرا کے ان کے مختلف اعضاءکو کاٹ کر یا سائنٹیفک انداز میں ٹیٹرھا میٹرھا کر کے ان سے بھیک منگواتے ہیں۔ آپ لوگوں نے کئی دفعہ فٹ پاتھ پر ایسے اجسام پڑے دیکھے ہوں گے جو از خود حرکت کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ اگر آپ ان پر نظر رکھیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ ان کی نگرانی کرنے والے باقا عدہ وہاں موجود ہوتے ہیں۔ بہ ہر حال یہ ایک لمبا موضوع ہے اور اہل قلم اس پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں اور لکھتے رہیں گے ہماراچونکہ یہ موضوع نہیں ہے اس لیے ہم اصل کہانی کی طرف بڑھتے ہیں۔
وہاں سے ہم سیدھے ایک متوسط طبقے کے ہوٹل میں پہنچنے شام ہو چلی تھی۔ کمرا بک کرا کے ہم نے کھانا کھایا اور کمرے کا دروازہ اندر سے بند کر کے سو گئے۔ ایک بہت بڑا بوجھ ہمارے سروں سے اتر گیا تھا۔ دوسرا ہم کافی دنوں سے بے آرام بھی تھے۔اس لےے اگلے دن سورج چڑھے ہی ہماری آنکھ کھل سکی۔ روزمرہ کے معمولات سے فارغ ہو کر ہم نے ناشتا کمرے میں ہی منگوا لیا۔ چاے پیتے ہوئے امجد مستفسر ہوا۔
”جانو اب کیا ارادہ ہے؟“
” ہمارا مقصد پورا ہو گیا ہے اور اب مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ کیا کروں گھر چلتے ہیں، چچا فاضل سے مشورہ کر کے ہی ہم کچھ طے کر سکیں گے۔“”جانو صاحب !....میرا مطلب ہے شیتل کے بارے کیا سوچا ہے میں تو جاتے ہی امی ابو کو شہلا کے ماموں کے ہاں بھیجنے والا ہوں آگے میری قسمت۔“”شیتل تو ماضی کا ایک سہانا باب ہے۔ اب تو سعدیہ کی طرح اس کے سپنے ہی باقی ہیں۔“”کیا بات کر رہے ہو یار!.... ادھر آتے وقت ہی تو اس کا لکھا ہوا خط تمھیں ملا تھا۔“
”اس بات کو 4ماہ سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے ماجے صاحب !....جو ماضی ہے۔ وہ مجھے ٹوٹ کر چاہتی تھی اس بات کا مجھے روزِ روشن کی طرح یقین ہے ....وہ اب بھی مجھے چاہتی ہے اس بارے وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔“”تُم نے تو اس سے وعدہ کر رکھا تھا کہ چودھری کو اس کے انجام تک پہنچا کر اس سے ملنے کے لیے جاﺅ گے۔“
”میں ضروربالضرور اس سے ملنے کے لیے جاتا اگر وہ ایک عام شکل وصورت کی لڑکی ہوتی مگر وہ حسن کی دولت کے ساتھ دنیاوی دولت سے بھی مال مالا ہے اور ایسی لڑکی کو چاہنے والے ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں مل جائیں گے۔ اب تو شاید وہ ایک لٹے پٹے جانو کو پہچاننے سے ہی انکار کر دے۔“
”اتنا قنوطی بننے کی ضرورت نہیں۔“ امجد نے مجھے سمجھایا۔ ”چاہتیں اتنی آسانی سے دل سے رخصت نہیں ہوا کرتیں۔ اگر وہ تمھیں چاہتی تھی تو کسی کو بھی جیون ساتھی بنانے سے پہلے وہ تمھیں ضرور مطلع کرے گی۔“
”ہو سکتا ہے اس نے خط وغیرہ لکھا ہو مگر ہمیں بھی تو گھر سے رخصت ہوئے کافی عرصہ ہو گیا ہے۔“”ہاں یہ ہو سکتا ہے۔“ امجد نے تائید سر ہلایا۔ ”بہ ہر حال گھرجا کر دیکھ لیں گے اگر کوئی خط آیا ہوا تو ٹھیک ہے ورنہ خود اسے خط لکھ کر معلوم کرلینا۔“”خط تو پتا نہیں اسے کب ملے میرے پاس اس کا فون نمبر موجود ہے۔ فون کر کے اس سے بات چیت ہو سکتی ہے ۔“”ہاں یاد آیا۔ تم نے پہلے بھی ایک مرتبہ اس سے بات کی تھی۔ اس وقت تو اس کا نمبر تمھیں زبانی یاد تھا۔“”اب بھی زبانی یاد ہے۔“”چلو پھر ناشتا کر کے چلتے ہیںاور میرا مشورہ یہی ہے کہ گھر جانے سے پہلے انڈیا کا ایک چکر لگ جائے تو بہتر رہے گا، بعد میں جاتے ہوئے پرابلم ہو گی۔“
اور میں سر ہلا کر رہ گیا۔ ناشتا کرنے کے بعد ہم ہوٹل سے نکل آئے۔ پی سی او پر جا کر ہم کافی دیر اس کا نمبر ملانے کی کوشش کرتے رہے مگر ہمیں اس میں کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ آخر پی سی او والے کی یہ بات سن کر ہم پی سی او سے نکل آئے ۔
” سر یہ نمبر استعمال میں نہیں ہیں۔“”عجیب بات ہے یار گھر اور آفس دونوں نمبر بند مل رہے ہیں۔“
”میرا خیال ہے شیتل نے جان بوجھ کر یہ نمبرتبدیل کرادیے ہیں۔ شاید تمھارے ساتھ بے وفائی کرنے سے پہلے اس نے رابطے والے بکھیڑے کو ختم کر نا ضروری سمجھا ہو۔“
” سو فیصد متفق ہوں۔“ میں نے اس کی تائیدکی ۔
” پھر گھر چلتے ہیں۔“ اس نے مشورہ دیا۔”یونھی کرنا پڑے گا۔“ 
وہاں سے ہم ہوٹل پہنچے اپنا سامان سمیٹا، بقایاجات کی ادائی کی اور بس اڈے کی طرف چل پڑے۔ امجد شہلا کی یادوںمیں ڈوبا ہوا تھا اور گاہے گاہے مجھے بھی اپنی حالت سے آگاہ کر رہاتھا۔ جبکہ میری کیفیت عجیب سی ہو رہی تھی جسے میں فقط بوریت کا نام دے سکتا تھا۔ وہ کام جسے میں نے مقصدِ حیات اور زندگی کا محور سمجھا تھا پایہ تکمیل کو پہنچ گیا تھا اور اس کے بعد زندگی میں کوئی ایسی خواہش باقی نہیں تھی جس کے لیے بے تابی ہوتی، شاید شیتل کی محبت مجھے ایک مرتبہ پھر انڈیا جانے پر مجبور کرتی مگر اس کی طرف سے ٹیلی فون نمبروں کی تبدیلی اس بات کا واضح اعلان تھا کہ وہ مجھے اپنے دل و دماغ سے کھرچ چکی تھی، اس بات سے میری انا ہلکی سی مجروح ہوئی تھی اور دل کے کسی کونے میں مدہم سے غم کا احساس بھی ہو رہا تھا مگر اس سے پہلے میں جتنی چوٹیں کھا چکا تھا اس کے مقابلے میں یہ دکھ کچھ بھی نہیں تھا۔ جس دن سے شیتل نے محبت کا اظہار کیا تھا اسی دن سے مجھے اس کے بچھڑنے کا یقین تھا اور اسی وجہ سے میں نے اس کی یادوں کو اپنی سوچوں کا محور نہیں بنایا تھا۔ شیتل کے کسی کو ساتھی بنانے کے فیصلے سے میں ہلکا سا خفا ہونے کے باوجود مطمئن تھا۔ ان حالات میں اس کا کام بھی یہی بنتا تھا۔ میں نے بھی تو کبھی اس سے امید افزاءبات نہیں کی تھی اور اس کے باوجود شیتل جیسی لڑکی سے یہ گلہ رکھنا کہ وہ میرا انتظار کیوں نہ کر سکی عبث تھا۔ یہ بھی اس کا بڑا پن تھا کہ اس نے اپنا فون نمبر تبدیل کرکے میرا سامنا کرنے سے احتراز برتا تھا، وہ شاید اپنے وعدوں پر شرمندہ تھی۔
 میںویگن میںبھی انھی خیالوں میں ڈوبارہا امجد نے ایک دو دفعہ مجھے مخاطب کیا لیکن میری غائب دماغی محسوس کرتے ہوئے اس نے سیٹ سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں۔ رحمن خیل کے اسٹاپ پر اتر کر ہم آہستہ قدموں رحمن خیل کی طرف چل پڑے۔ پہلوان ہوٹل کے اڈے کی رونق وہی تھی جو برسوں سے چلی آرہی تھی۔”بہت تھکے تھکے لگ رہے ہو۔“”ہاں یار!....بس عجیب سی کیفیت ہو رہی ہے۔“”گھر جا کر یہ ساری بوریت دور ہو جائے گی۔“
”ماجے!.... اب گھر ہماری قسمت میں کہاں۔“”بن جائے گا یار!.... گھر بھی بن جائے گا بس ایک فصل اٹھانے کی دیر ہے۔“ اس نے مجھے تسلی دی ۔
”مکان بلاشبہ بن جائے گا ، میری مراد گھر سے تھی کہ مکان کو ہم گھر نہیں کہہ سکتے۔“” کیا تُم ہمیں اپنا نہیں سمجھتے؟“
”تُم تو پہلے بھی اپنے تھے، جب امی ابو، بھائی اور سعدیہ زندہ تھیں اور تمھارا ایک الگ مقام ہے میرے دل میں کسی کا نعم البدل بننے کی صورت میں تمھیں بھی کھودوں گا۔“
”یہ ساری بوریت اور قنوطی پن تم پر اس لیے طاری ہے کہ ایک تم ایک دم فارغ ہو گئے ہو اور کوئی کام تمھیں سوجھ نہیں رہا ۔دوسرا شیتل سے تمھیں اس کا م کی توقع نہیں تھی جو وہ کر گزری بہ ہر حال فکر مت کرو رضیہ موجود ہے نا اس سے مل کر اپنا غم غلط کر لینا۔“ امجد سنجیدگی سے بات کرتے کرتے مذاق پر اتر آیا۔
”رضیہ تمھیں ہی مبارک ہو میں اس کے بغیر ہی بھلا۔ البتہ مصروفیت والی بات تُم نے خوب کہی۔ میرا تو خیال ہے کل پرسوں سے اپنی حویلی پر کام شروع کرادوں یوں کب تک اسلم بھائی کے گھر ٹکے رہیں گے۔“
” ایسے ہی کرلیں گے مگر ایک مہینے کے اندر اندر یہ کام مکمل کرانا پڑے گا کیونکہ میں شہلا سے مزیددور نہیں رہ سکتا۔“”بلے بھئی بلے....اتنی جلد ی ہے تو خیمہ لگا لیتے ہیں۔“
”خیمہ کیوں؟....وہ تمھاری شیتل جیسی نہیں ہے کہ آنکھ سے اوجھل ہوتے ہی کوئی اور شریک ِسفر ڈھونڈ لیا۔“”اچھا اب بک بک بند کرو وہ سامنے اسلم بھائی نظر آرہا ہے۔“ میں نے اسلم بھائی کو سفید ٹوپی کے ساتھ گھر سے نکلتے دیکھ کر کہا۔ وہ شاید شام کی نماز کے لیے جارہاتھا۔ مگر ہم پر نظر پڑتے ہی وہ تیر کی طرح ہماری طرف بڑھا اور گرم جوشی سے ملا۔”کس وقت پہنچے ہو؟“ 
”ابھی اترے ہیں گاڑی سے اور سیدھے ادھر ہی آگئے۔“”گھر نہیں گئے کیا؟۔“ اس کے لہجے میں حیرانی تھی۔
”گھر؟ .... مگر گھر تو رہنے کے قابل نہیں تھا۔“”رہنے کے قابل کیا وہ بہت ہی اچھے انداز میں تعمیر کر لیا گیا ہے۔ آپ آئیں امی جان اور اپنی بہن سے ملیں پھر چلتے ہیں۔“ مجھے لے کر وہ گھر میں گھس گیا جبکہ امجد بیٹھک میں چلا گیاتھا۔
جمیلہ باجی باورچی خانے میں تھی۔”اکرم کی ماں دیکھو تو کون آیا ہے۔ اسلم نے اونچی آواز میں اسے پکارا اس نے باہر جھانکااور مجھے دیکھتے ہی بھاگ کر آئی اور مجھ سے لپٹ گئی۔ میرے ماتھے اور سر پر بوسے دیتے ہوئے وہ رونے لگی تھی۔ ممانی جان بھی ہماری آواز سن کر اندرونی کمرے سے نکل آئیں۔
”عمر پُتر!....“ وہ ہم دونوں بہن بھائی کے گرد اپنے بازوﺅں کا حلقہ بناتے ہوئے بولی۔”شکر ہے تم آگئے ہو۔ یہ پگلی ہر وقت تمھیں یاد کر کے روتی رہتی تھی۔“
”ہاں ماں جی میں آگیاہوں اور ان شا ءﷲ اب کہیں نہیں جاﺅں گا۔“
”ﷲ کرے ایسا ہی ہو۔“ وہ گلوگیر لہجے میں بولی۔ تھوڑی دیر ہم اس طرح جذباتی کیفیت میں رہے، پھر ممانی جان مجھے لے کرچارپائی پر بیٹھ گئیں اور جمیلہ باجی چاے بنانے لگیں۔ اسلم بھائی گھر سے نکل گیا تھا شاید وہ مغرب کی نماز پڑھنے گیا تھا۔
چاے بننے تک ممان جان مجھ سے سفر کا حال احوال پوچھتی رہی۔ میرے جانے کی غرض و غایت اس سے چھپی ہوئی نہیں تھی۔ میں نے مختصر لفظوں میں اسے چودھری کے انجام سے آگاہ کر دیا تھا۔ جیسے ہی چاے تیار ہو کر آئی میں تھرماس اور ایک کپ امجد کو بیٹھک میں پکڑا آیا اور پھر آکر ممانی اور باجی سے گپ شپ کرنے لگا۔ جمیلہ باجی ﷲ کے فضل و کرم سے بالکل ٹھیک ہو گئی تھی۔ مزید تھوڑی دیر گزرنے کے بعد میں نے جانے کی اجازت چاہی، اسی وقت اسلم بھائی بھی گھر میں داخل ہوا ....”عمر بھائی۔ میں نے گھر میں آپ دونوں کی آمد کا بتلا دیا ہے سب بے چینی سے آپ کا انتظار کررہے ہیں۔“” کیا یہ گھر سے ہو کر نہیں آئے تھے؟“ ممانی حیرانی سے مستفسر ہوئی ۔”نہیں ماں جی۔“ اسلم سعادت مندی سے بولا۔
”پھر تو....“”ہاں ماں جی۔“ اسلم نے جلدی سے قطع کلامی کی۔ ”گھر جا کر اسے معلوم ہو جائے گا، آپ رہنے دیں۔“”کیا معلوم ہو جائے گا۔“ میں حیرانی سے مستفسر ہوا اس کا انداز مجھے بڑا عجیب لگا تھا۔ 
”یہی کہ آپ کا گھر بہت خوب صورت بن گیا ہے۔ تمھیں تو پتا ہے امی جان نے اگر تفصیل بتلانی شروع کر دی تو ساری تفصیلات بتا کر دم لیں گی اور آپ لوگ مزید کئی گھنٹے لیٹ ہو جاﺅ گے۔“میں اس کی وضاحت سے مطمئن تو نہیں ہوا تھا مگر پھر بھی میں نے کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہ کی اور باجی اور ممانی جان سے اجازت لے کر ان کے گھر سے نکل آیا ۔ امجد کو بھی اسلم بھائی نے بیٹھک سے سے بلا لیا اور ہم اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔
 گلی میں داخل ہوتے ہی اپنے گھر کا دروازہ مجھے ٹیوب لائٹ کی روشنی میں چمکتا دمکتا نظر آیا۔ چچا جان نے غالباً پرانے طرز تعمیر کے مطابق حویلی بنائی تھی۔ اسلم بھائی ڈیوڑھی کے دروازے تک ہمارے ساتھ آیا اور وہاں سے واپس لوٹ گیا۔ گیٹ کھول کر ہم اندر داخل ہوئے چچا جان امجد کے امی ابو اور بہنیں تمام ہمارے انتظار میں صحن میں کھڑے تھے۔ مکان وہی تھا مگر مکین بدل گئے تھے،تباہ ہونے کے باوجود مٹی کا مکان دوبارہ اپنی اصلی حالت بلکہ اس سے بھی بہتر حالت میں تعمیر ہو گیا تھا مگر اس کے مکین واپس نہیں آ سکتے تھے۔ میرے اندر عجیب سی بے چینی پھیل گئی تھی اور پھرچچا فاضل کی مہربان بانہوں میں آ کر میری بے چینی کو ذرا سا سکون ملا۔
”پتر !....کیا رہا؟“ اس نے شفقت سے میرے سر پہ ہاتھ پھیرا۔ﷲ نے کامیاب کیا ہے۔“ میں آہستہ سے بولا۔
چچا کے بعد میں امجد کے ابو سر فرازانکل اور آنٹی خدیجہ سے ملا امجد کو اس کی بہنوں نے گھیرا ہوا تھا۔ ملنے ملانے کا سلسلہ ختم ہوتے ہی ہم صحن میں بچھی چارپائیوں پر بیٹھ گئے۔ موسم کافی خوشگوار ہو گیا تھا۔ سردیوں کی آمد آمد تھی۔
خدیجہ آنٹی ہمارے لیے کھاناگرم کرنے کے لیے کچن میں گھس گئیں۔ چچا فاضل مجھے مخاطب ہو ا۔
”پتر !....تم بیٹھو مت اپنے مہمان سے جا کر مل آﺅ۔ بلکہ اسے ادھر ہی لے آو تاکہ وہ بھی تمھارے ساتھ کھانا کھالے۔“
”میرا مہمان؟“ میرے لہجے میں حیرانی تھی۔”ہاں ہاںتمھارا مہمان۔“
”کون ہے ؟“ ”خود جا کر دیکھ لو تمھارے کمرے میں ہو گا۔ کوئی پرانا دوست ہے تمھارا۔“ اور میں بے پناہ تجسس لیے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ اس گھر کا چپہ چپہ میرا دیکھا بھالا تھا۔ چچا فاضل نے پچھلی تعمیر کے مطابق سب کچھ بنوایا تھا۔ وہ درو دیوار جن میں کبھی عدنان کے قہقہے گونجتے تھے ، سعدیہ کی پیار بھری سرگوشیاں سنائی دیتی تھیں، امی ابو کی شفقت اور ڈانٹ بھری نصیحتیں ملتی تھیں۔ بالکل خاموش تھیں۔ چچا فاضل کے سامنے سے ہٹتے ہی ان مانوس درو دیوار نے میرے دل میں عجیب سی رقت بھر دی تھی میں بہ مشکل اپنے آنسوﺅں کو رو کے اپنے کمرے دروازے تک پہنچا۔
یہ وہ دروازہ تو نہیں تھا جس نے میری جانِ حیات سعدیہ کے حیات آفریں ہاتھوں کا لمس چکھا ہوا تھا البتہ بناوٹ اور شکل کے لحاظ سے بالکل اس کے مشابہہ تھا۔ میں ایک لمحے دروازے کے سامنے رک کر اسے محبت بھری نظروں سے دیکھتا رہا۔ پھر آہستہ سے دروازہ کھول کراندر داخل ہوا۔ تمام کمرہ مجھے خالی دکھائی دیا مگر کمرے میں بکھری خوشبو کسی کی موجودی کا پتا دے رہی تھی اور یہ خوشبو میرے لیے انجان نہیں تھی البتہ اس خوشبو کو سونگھ کرجو نام میرے ذہن میں اُبھر رہا تھا وہ حیران کن ضرور تھا۔ میں نے دروازے سے چند قدم آگے بڑھائے۔مجھے شک تھا کہ کمرے میں موجود شخصیت باتھ روم میں چھپی تھی مگر میری یہ غلط فہمی اس وقت دور ہوئی جب مجھے پیٹھ پیچھے قدموں کی آواز آئی میں جھٹکے سے پیچھے مڑا لیکن وہ جو بھی تھا بلکہ تھی وہ بڑی شدت سے میرے ساتھ لپٹ گئی۔
”جان۔“ اس کے منہ سے نکلی مترنم مانوس آواز نے میرے کانوں میں رس گھولا ۔”شیتل تم؟“میں نے اسے زبردستی خود سے علاحدہ کر کے اس کا روشن چمکتا ہوا حسین و جمیل چہرہ دیکھا اورپھر اپنے ساتھ لپٹا لیا۔”ہاں جان میں۔“ وہ عجیب وارفتگی سے بولی۔ ”میں تمھیں بھلا نہ پائی تمھارے بغیر رہ نہ سکی۔ تُم تو کل بھی میرے بنا جی سکتے تھے اور آج بھی تمھیں اس میں کوئی مشکل درپیش نہیں آئے گی۔ مگر میرے لیے یہ ممکن نہیں تھا“ 
میں مجرم ہوں مجھے اقرار ہے جرم محبت کا 
مگر پہلے خطا پر غور کر لو پھر سزا دینا ”شیتل میری جان !.... تم اچھی طرح میری مجبوریوں سے واقف ہو۔ تم سے جدا ہو کرجب میں اپنے گاﺅں پہنچا اور جو کچھ مجھ پہ بیتی وہ میں تمھیں فون پربتا چکا ہوں باقی کی کہانی تمھیں چچا کی زبانی معلوم ہو گئی ہو گی ۔ کیا تمھیں لگتا ہے کہ ان حالات میں مَیں تم سے کسی قسم کا وعدہ وعیدکر سکتا تھا۔“
”میں تو فقط ایک جھوٹی تسلی کی طلب گار تھی۔“اس نے اپنا سر ذرا سا پیچھے کرکے میری آنکھوں میں جھانکا اوردوبارہ اپنا سر میرے سینے پر رکھ دیا۔” آج میں آزادہوںمیراچاند !.... اپنے سارے ضروری کام میں نے نمٹا لیے ہیں آج میں جھوٹ موت نہیں بلکہ سچائی سے ،یہ درخواست کررہا ہوں.... حالات سے لڑتے لڑتے میں ٹوٹ چکا ہوں، بکھر چکا اپنی محبت اور اپنے پیار سے مجھے سمیٹ لو۔“
” اسی لیے تو اپنا وطن چھوڑ کر آئی ہوں اور یہ جو تم بار بار مجھے شیتل کہہ کر پکار رہے ہو تو تمھاری اطلاع کے لیے عرض کردوں کہ اب میرا نام سعدیہ ہے۔“اس کی بات سن کر میرے دل میں جو جذبات اٹھے انھیں لفظوں کا جامہ پہنانا مشکل تھا اور اس کام کے لیے میں نے الفاظ کی بجائے اعضاءکا سہارا لیاتھا۔ 
جانے کتنی دیرہم نے اسی محویت میں گزاری ۔ دروازے پر ہونے والی دستک نے ہمیں ایک دوسرے سے دور ہونے پر مجبور کر دیا۔
دروازہ کھولے بغیر امجد چہکا۔ ”قبلہ اگر تعارف ہو چکا ہو تو چلیں غریب سا بندہ بھوکے پیٹ کھانے پر آپ کا منتظر ہے اور کھانا ایک مرتبہ ٹھنڈا ہو چکا ہے دوسری مرتبہ میں اسے ٹھنڈا نہیں ہونے دوں گا اور نہ تمھارے لیے تیسری مرتبہ گرم کیا جائے گا.... خداحافظ۔“”یہ امجد ہے نا؟“ شیتل نے مسکراتے ہوئے تصدیق چاہی۔”ٹھیک پہچانا۔“ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ ”چلو کھانا کھالیں۔“
کھانا کھانے کے دوران چچا فاضل نے بتایا کہ جیسے ہی ہم بنوں روانہ ہوئے تھے اگلے دن شیتل رحمن خیل پہنچ گئی تھی اور چند دنوں کے اندر ہی اس نے چچا فاضل، چچا سرفراز آنٹی خدیجہ اورامجد کی بہنوں کو اخلاق ،محبت اور خدمت سے اپنا گرویدہ کر لیا تھا۔ وہ کافی رقم ساتھ لائی تھی اور چچا فاضل سے بے پناہ اصرار کر کے اس نے حویلی پر کام شروع کرا دیا تھا ۔ یہ اس کی خواہش تھی کہ حویلی کو پرانے طرز تعمیر پر بنایا جائے۔
کھانے کے بعد تمام لوگ غیر محسوس انداز میں ہمیں اکیلا چھوڑ کر غائب ہو گئے۔ ہم دونوں صحن سے اٹھ کر کمرے میں آ بیٹھے، رات گئے تک ہم باتوں میں مشغول رہے۔ شیتل مجھے میرے جانے کے بعد کے واقعات سنانے لگی۔ میرے انڈیا سے آتے ہی اس نے چوری چھپے اسلام قبول کر لیاتھا۔ اپنے باپ کی موت کے بعد زیادہ دن وہ فیکٹریوں کو نہ سنبھال سکی کہ تجربے کی کمی کے ساتھ اسے شوق بھی نہیں تھا۔ آخر کار دونوں فیکٹریاں اور جائیدادہ بیچ کر اس نے زیادہ تر پیسہ سوئیزر لینڈ کے ایک بینک میں جمع کرایا اور میرے لیے پاکستان آگئی۔ اس سارے کام میں شیش ناگ نے اس کی بہت مدد کی تھی۔ وہ برملا اسے اپنی بہن کہتا تھا اور شیتل کے بہ قول یہ سب کچھ اس نے میرے اس احسان کابدلہ چکانے کے لیے کیا تھا جو میں نے اسے زندہ چھوڑ کر کیا تھا۔
نیند ہماری آنکھوں سے کوسوں دور تھی مگر ہم ساری رات اکیلے کمرے میں اکٹھے نہیں گزار سکتے تھے بزرگوں کی موجودی ہمارے لیے بہت بڑی رکاوٹ تھی اور اس بات سے شیتل اچھی طرح واقف تھی۔ وہ بہ مشکل مجھے خدا حافظ کہہ کر امجد کی بہنوں کے کمرے میں سونے کے لیے چل دی۔
ایک ہفتے کے اندر اندر ہماری شادی ہو گئی۔ اپنی شادی میں مَیں نے بڑی یاد سے رضیہ میر نیاز خان کو بلایا تھا اور اس نے بھی بڑے اہتمام سے شادی میں شرکت کی تھی مگر شیتل کی شکل و صورت دیکھ کر اسے کوئی بات کرنے کی جرا¿ت نہ ہو سکی ۔ البتہ آخری دن مجھے مبارک بار دینے کے بہانے میرے قریب آ کر اس نے فقط اتنا کہا۔
 ”جان!.... مبارک ہو۔ تم اپنے دعوے میں سچے نکلے۔“میری شادی کے ایک ہفتے بعد امجد کی شادی بھی شہلا چودھری سے ہو گئی۔ میں نے اپنی آدھی زمینیں زبردستی امجد کے نام کر دی تھیں۔شیتل بہت اچھی ، فرمانبردار اور محبت کرنے والی بیوی ثابت ہوئی۔ شادی کے ایک سال بعد ہی اس نے مجھے ایک پیارے سے بیٹے کا تحفہ دیا جس کانام اس نے بڑی چاہت سے عدنان رکھاتھا۔
عدنان کی پیدائش کے ایک مہینے بعد امجد اور میں چودھری اکبر کو دیکھنے کے لیے گئے تھے وہ لوہے کی ایک ریڑھی پر چیتھڑوں میں لپٹا ہوا پڑا تھا۔ اس کے زخم ابھی تک مندمل نہیں ہوئے تھے شاید جس بند ے کے حوالے ہم اسے کر کے آئے تھے وہ اس کے زخم ٹھیک ہونے دینا نہیں چاہتا تھا اور اس کی وجہ اس کے علاوہ اور کوئی نہیں تھی کہ اس حالت میں چودھری کو بھیک زیادہ ملتی تھی۔
اس ناگفتہ بہ حالت کے باوجود چودھری نے ہمیں دیکھتے ہی پہچان لیا تھا اس کی آنکھوں میں شناسائی کی چمک ابھری اور اس کے بعد اس کی آنکھوں میں نفرت کے بجائے التجا جھلکنے لگی اس کی آنکھوں کی تحریر پڑھنے میں ہمیں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ اس کی آنکھیں چیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں کہ ”عمر جان! مجھے معاف کر دو۔ میں نے بہت سزا کاٹ لی ہے۔ بہت اذیت برداشت کرلی ہے اب مجھے موت کی بھیک دے دو۔ بس بہت ہو چکا۔ تُم نے مجھ سے سب کچھ چھین لیا اب زندگی بھی لے لو۔ میں تمھارا مجرم تھا تم نے اپنی پسندیدہ سزا سے مجھے ہم کنار کیا اسے میں زیادتی تو نہیں کہتا لیکن اگر زیادتی ہے بھی سہی تب بھی میں تم سے کوئی گلا نہیں کرتا بس مجھے موت کا تحفہ دے دو خدا تمھاری عمر دراز کرے تمھارے بیوی اور بچوں کو تمھاری آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔ اب مجھے معاف کر دو، معاف کر دو۔ معاف کرو۔“
مگر ہم پر اس کی یہ التجائیں اثر نہ کر سکیں۔ اس کے بعد ہم نے ہر چھے ماہ بعد اس کے پاس جانے کا معمول بنا لیا اور پھر وہ ہمارا پانچواں چکر تھا جب میں اس کی خاموش التجاﺅں کو نہ ٹال سکا اور بازار سے مٹھائی خرید کر میں نے اس میں زہر ملایا۔ اس کی ریڑھی کے نزدیک پہنچ کر میں نے اس میں چند سکے ریز گاری پھینکی اور مٹھائی کی ڈلی جیب سے نکال کر اس کے منہ کی طرف بڑھائی۔ ”یہ لے چودھری تمھارے دکھوں کا اختتام کرنے والی مٹھائی ہے۔“چودھری نے شکر گزار نظروں سے میری جانب دیکھا اور مسکراتے ہوئے منہ کھول لیا۔ اڑھائی سالوں میں یہ پہلی مسکراہٹ تھی جو اس کے لبوں پر ابھری تھی۔ چونکہ اس کی سماعت ٹھیک تھی اس لیے میں نے اسے آگاہ کرناضروری سمجھا تھا کہ وہ اپنے آخر وقت سے بے خبر نہ رہے۔ اس کے مٹھائی نگلتے ہی ہم تیزی سے وہاں سے پھوٹ لیے کیونکہ مٹھائی میں بہت زور دار زہر ملا ہوا تھا۔ وہ دن ہوٹل میں گزار کر جب اگلے دن ہم واپسی کے لیے بس اڈے پہنچے تو چودھری والی جگہ پر ایک نابینا فقیر بیٹھا نظر آیا۔ چودھری اپنے اعمال کے ساتھ اپنے خالق حقیقی کے پاس پہنچ گیا تھا۔
چند سالوں بعد ہی امجد اور میں چار چار بچوں کے باپ بن گئے تھے۔
وہ دوپہر کا وقت تھا میں زمینوں کا چکر لگا کر لوٹا۔ ہاتھ منہ دھو کر جیسے ہی میں چارپائی پر بیٹھا سعدیہ نے (شیتل) لسی کا کٹورا، روٹیوں کا چھابہ اور سالن میرے آگے رکھ دیا۔ گھر میں ملازما موجود ہونے کے باوجود وہ میرے تمام کام اپنے ہاتھوں سے کرنا پسند کرتی اتنے سال گزر جانے کے باوجود اس کی محبت میں مجھے کوئی کمی یا ٹھہراﺅ نظر نہیں آیا تھا بلکہ اس کی محبت روز بہ روز بڑھتی جا رہی تھی ۔
”جان !....پتا ہے شہلا باجی اور امجد بھائی نے فصل کٹائی کے بعد مری جانے کا پروگرام بنایا ہوا ہے۔“ میں نے پہلا نوالا ہی منہ میں رکھا تھا کہ وہ آہستہ سے بولی۔”پھر ؟“ میں نوالہ چباتے ہوئے مستفسر ہوا۔
”اگر ہم بھی ان کے ساتھ....؟ “
”نہیں ہم ادھر نہیں جائیں گے۔“ اور پھر اس کی شکوہ کرتی نگاہوں کو دیکھ کربولا۔ ” ہم انڈیا جائیں گے۔ ٹھا کرچا چا، شیش ناگ اور تمھارے دوسرے رشتا داروں کو ملنے۔“
”سچ جان۔“ وہ خوشی سے لرزتی ہوئی مجھ سے لپٹ گئی۔
”ہاں شیتل !....بالکل سچ۔“میں مسکراتے ہوئے بولا ۔ میں اسے سعدیہ سے زیادہ شیتل کہہ کرمخاطب کرتا کیونکہ مجھے معلوم تھا وہ میرے شیتل کہنے پر زیادہ خوشی محسوس کرتی ہے ۔ ”پورا ہفتہ وہاں رہیں گے ۔“اس نے امید بھرے لہجے میں پوچھا ۔میں شرارت سے بولا۔”میرا ارادہ تومہینا رہنے کا ہے ،تم بے شک ہفتے بعد واپس آ جانا ۔“
”جان!....“وہ چیختے ہوئے مجھ سے لپٹی اور میرے کاندھے پرسر رکھتے ہوئے آنکھیں موند لیں۔
(ختم شد)

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.