Ads Top

Aur Neil Behta Raha By Inyat Ullah Altamish Episode No. 63 ||اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش قسط نمبر 63

Aur Neel Behta Raha
 By
Annyat Ullah Altamish

اور نیل بہتا رہا
از
عنایت اللہ التمش
Aur Neel Behta Raha  By  Annyat Ullah Altamish  اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش

 #اورنیل_بہتارہا/عنایت اللہ التمش 
#قسط_نمبر_63

#بحری جہاز جو بزنطیہ سے کمک لائے تھے اسکندریہ کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوئے ۔ اتنی زیادہ نفری کی کمک اور ان کے گھوڑے جب جہازوں سے اتر رہے تھے تو یہ خبر دیکھتے ہی دیکھتے سارے شہر میں پھیل گئی کے بزنطیہ سے کمک آگئی ہے اور کمک اسقف اعظم قیرس لایا ہے۔
اسکندریہ مصر کا دارالحکومت اور بہت ہی بڑا شہر تھا یہ بالکل سمندر کے اوپر آباد تھا ۔ اس شہر کی آبادی پہلے ہی خاصی زیادہ تھی لیکن اب آبادی دگنی سے بھی کچھ زیادہ ہوگئی تھی۔ آبادی میں اتنی اضافے کی وجہ یہ تھی کہ ان شہروں کے بہت سے لوگ جن شہروں پر مجاہدین اسلام کا قبضہ ہوگیا تھا بھاگ کر اسکندریہ جا پہنچے تھے، ان میں اکثریت تاجروں اور دیگر دولت مند لوگوں کی تھی وہ بھی بھاگ کر اسکندریہ جا پہنچے تھے جن کے گھروں میں جوان بہو بیٹیاں تھیں۔ ان میں بعض ایسے تھے جنہوں نے مسلمانوں کو ابھی دیکھا نہیں تھا انہیں اتنا ہی پتہ چلا کہ مسلمان آرہے ہیں تو وہ اسکندریہ کو بھاگ اٹھے۔ وہ روکے رہتے اور مسلمانوں کا حسن سلوک دیکھتے تو بھاگنے کا نام ہی نہ لیتے۔
یہ لوگ اپنے آپ کو پناہ گزین کہتے تھے ان میں بھگوڑے فوجی بھی تھے انہوں نے اسکندریہ کے شہریوں میں دہشت پھیلا دی۔ فوجی یہ تو ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے کہ وہ بزدل ہیں اور بھاگ آئے ہیں۔ پناہ گزین شہری اور بھگوڑے فوجی اسکندریہ کے لوگوں کو اس قسم کی باتیں سناتے تھے کہ مسلمان دراصل انسان نہیں بلکہ یہ جنات ہیں جو انسان کے روپ میں آ گئے ہیں۔
یہ تو عام شہری اور فوج کے سپاہی تھے ان میں جو کچھ عقل و دانش رکھتے تھے اور جن کی حیثیت کچھ اونچی تھی وہ بھی دہشت ہی پھیلا رہے تھے، وہ کہتے یہ تھے کہ نہ جانے مسلمانوں کے پاس وہ کونسا جذبہ یا کیسا جادو ہے کہ کوئی فوج کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو ان کے مقابلے میں ٹھہر ہی نہیں سکتی۔ وہ یہ بھی سناتے تھے کہ تقریباً ہر لڑائی میں اور ہر محاذ میں رومی فوج مسلمانوں کے مقابلے میں پانچ گناہ زیادہ تھی لیکن ان تھوڑے سے مسلمانوں نے نہ جانے کیسا جادو پھونکا کے آدھی فوج کٹ گئی اور باقی بھاگ نکلی۔ مسلمانوں کا نام سنتے ہی بھاگ جانے والے لوگ اور اسکندریہ کے باشندے یہ تو کسی سے پوچھتے ہی نہیں تھے کہ مسلمان مفتوحہ جگہ کے لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ وہ پوچھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ فاتحین مفتوحہ لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ ان کے گھروں میں لوٹ مار کرتے اور ان کی جوان عورتوں کو اٹھا لے جاتے اور ان کے لئے وحشی بن جاتے ہیں۔ رومی فوج بھی ایسی ہی تھی لوگوں نے فرض کر لیا تھا بلکہ انھیں یقین تھا کہ مسلمان فاتحین بھی ایسے ہی وحشی اور درندے ہیں۔ اسکندریہ کے لوگوں نے جب یہ سنا کہ مسلمان شہر اور قصبے فتح کرتے بڑی تیزی سے اسکندریہ کی طرف بڑھے آرہے ہیں تو پناہ گزینوں نے اوربھگوڑے فوجیوں نے جو خوف و ہراس پھیلایا تھا اس میں اضافہ ہو گیا لوگ سوچنے لگے کہ وہ بھاگ کر کہاں جائیں گے آگے سمندر تھا۔
شہر کی اس ابتر کیفیت میں جب لوگوں نے سنا کہ قیرس بزنطیہ سے بہت بڑی کمک لایا ہے تو لوگ اس کے استقبال کے لئے یا اپنے حوصلوں میں جان ڈالنے کے لیے بندرگاہ کی طرف اٹھ دوڑے وہ قیرس کو نجات دہندہ فرشتہ سمجھنے لگے تھے جو آسمانوں سے اترا تھا ۔ لوگ اس سے پہلے بھی کچھ خوفزدہ ہی تھے کیونکہ انہیں یہ بتایا گیا تھا کہ بزنطیہ سے کوئی کمک نہیں آئے گی، اگر مصر کے اور خصوصا اسکندریہ کے حالات نارمل ہوتے تو قیرس کا استقبال ایسا پرجوش نہ ہوتا صرف وہی لوگ اس کا استقبال کرتے جنہوں نے ہرقل کی عیسائیت قبول کر لی تھی اور قیرس کواسقف اعظم مانتے تھے۔
قبطی عیسائی تو قیرس کو اپنا دشمن سمجھتے تھے اور کئی ایک قبطیوں کے دلوں میں قیرس کے خلاف انتقام کا جذبہ پایا جاتا تھا ۔ پہلے یہ بیان ہو چکا ہے کہ قیرس نے کس طرح قبطیوں کا قتل عام کیا اور کیسے جور و ستم سے ہرقل کی عیسائیت منوانے کے جتن کئے تھے۔ لیکن قبطی عیسائی بھی اس خیال سے قیرس کے استقبال کو چلے گئے کہ ان کی دشمنی قیرس کے ساتھ ہے، مصر اور عیسائیت کے ساتھ نہیں، وہ ایسی صورتحال کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہو سکتے تھے کہ مصر سے عیسائیت کی بادشاہی ختم ہوجائے اور اسلام کی حکمرانی آجائے۔ یہ لوگ عیسائیت کو آزاد رکھنا چاہتے تھے ۔ یہ قبطی بندرگاہ پر گئے تو وہ قیرس کا نہیں بلکہ کمک یعنی رومی فوج کا استقبال کرنا چاہتے تھے، اور اس فوج کا انہوں نے حوصلہ بڑھانا تھا کہ وہ مسلمانوں کو مصر سے نکالے۔
قیرس فوراً ہی جہاز سے نہ اترا وہیں بیٹھا رہا اور شاید وہ کچھ سوچ رہا تھا اگر سوچ ہی رہا تھا تو اس کی سوچ یہی ہو سکتی تھی کہ نہ جانے مصر کے لوگ اس کا استقبال کس طرح کریں گے ،اس کے اپنے اعمال اس کے سامنے آ رہے تھے,,,,,,,, اسکندریہ کی فوج کے ایک جرنیل نے اسے یوں سوچوں سے بیدار کیا اسے دیکھتے ہی قیرس اٹھ کھڑا ہوا اور اسے بڑے پیار سے اپنے بازوؤں میں لے لیا ۔ بندرگاہ پر لوگوں کا بہت بڑا ہجوم اکٹھا ہو گیا تھا لوگ شور و غل باپا کر رہے تھے اور کچھ لوگ کمک کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔  یہ شور و غل قیرس کے کانوں تک پہنچ رہا تھا اور یہ بڑھتا ہی جا رہا تھا کیونکہ ہجوم میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا ۔
یہ شور و غل کیسا ہے۔۔۔ قیرس نے جرنیل سے پوچھا ۔۔۔کیا لوگ میرے استقبال کو آئے ہیں؟ 
 ہاں اسقف آعظم!،،،،،،، جرنیل نے پُرمسرت لہجے میں کہا۔۔۔ لوگ آپ کے اور کمک کے استقبال کو آئے ہیں، اور آپ کو دیکھنے کے لئے بے تاب ہوئے جا رہے ہیں۔
قیرس نے اطمینان اور سکون محسوس کیا۔ جیسے اس کے کندھوں سے یا اس کے ضمیر سے بہت بڑا بوجھ اتار دیا گیا ہو ۔ 
قیرس نے کہا کہ وہ لوگوں سے خطاب کرنا چاہتا ہے وہ جب جہاز کے عرشے پر لوگوں کو نظر آیا تو لوگوں نے نعروں کے دھماکے کرنے شروع کردیے۔ قیرس نے اپنے بازو اوپر کرکے ہلائے اور پھر وہ جہاز سے اترنے لگا ہجوم تو جیسے اس پر ٹوٹ پڑنا چاہتا تھا جرنیل نے نیچے اکر فوجیوں سے کہا کہ وہ لوگوں کو پیچھے رکھیں ۔
کچھ دیر بعد قیرس جہاز سے اتر کر ایک اونچی جگہ کھڑا بازو اوپر کرکے لوگوں کو خاموش رہنے کو کہہ رہا تھا۔ یہ اونچی جگہ لکڑیوں کے باکس اوپر نیچے رکھ کر قیرس کے لئے بنائی گئی تھی۔
مصر کے غیرت مند لوگوں!،،،،، قیرس نے بڑی ہی بلند آواز سے کہا۔۔۔۔ اب تک جو ہو گیا وہ ہو گیا تازہ دم فوج آ گئی ہے مجھے افسوس ہے کہ مصر میں جو ہماری فوج تھی اس نے سوائے پسپائی کے کچھ نہ کیا ،اس کا یہ مطلب نہیں کہ سلطنت روم کی ساری کی ساری فوج ایسی ہی ہے میں تازہ دم فوج لے کر آیا ہوں,,,,,,, وہ ہر قول مر گیا ہے جس نے عیسیٰ مسیح کی عیسائیت میں اپنے مفادات کے لئے ملاوٹ کی اور جن لوگوں نے اس کی یہ عیسائیت قبول نہ کی انہیں میرے ہاتھوں مروایا۔ عوام مجھے لوگوں کا قاتل کہتے ہیں۔ مجھے لوگوں کی کوئی پروا نہیں خدا دیکھ رہا ہے اور وہی جانتا ہے کہ اصل مجرم کون تھا۔ اگر تم لوگ مجھے ہی مجرم سمجھتے ہو تو آج میں تم سے اور ان مقتولین کی روحوں سے معافی مانگتا ہوں جنہیں عیسائیت کے نام پر قتل کر دیا گیا تھا ،لیکن میں معافی مانگنے پر بات ختم نہیں کروں گا میں گناہوں کا کفارہ ادا کروں گا وہ اس طرح کے مصر میں کوئی ایک بھی مسلمان زندہ نہیں رہے گا، اس وقت تک ہم جس شکست سے دوچار ہو چکے ہیں اسے فتح میں بدل کر دم لوں گا ۔
اب جو لوگوں نے نعرے لگائے اور داد و تحسین کا شور و غل باپا کیا اس سے کانوں کے پردے پھٹتے جاتے تھے۔
 قیرس کو خاصی دیر خاموش رہنا پڑا آخر اس نے ہاتھ اوپر کئے تو ہجوم آہستہ آہستہ خاموش ہونے لگا۔
تمہارے اس جوش اور جذبے نے میرا حوصلہ اور زیادہ مضبوط کردیا ہے۔۔۔ قیرس نے کہا۔۔۔ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ میں اکیلا نہیں قوم کا بچہ بچہ میرے ساتھ ہے ،رومیوں کے متعلق کوئی بھی وہم تمہارے دلوں میں ہے تو وہ نکال دو۔
مصر تمہارا وطن ہے ،رومی تمہارے بادشاہ بھی نہیں، اور آقا بھی نہیں ،ہمارا مذہب ایک ہے، اور یہ ملک تمہارا ہے ۔
ہرقل کا بیٹا قسطنطین بھی مر گیا اور جرنیل کے بیٹے کونستانس کو اور ملکہ مرتینا کے بیٹے ہرقلیوناس کو حکومت دے آئے ہیں، ان دونوں کو پابند کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنا کوئی حکم نہیں چلائیں گے، مجھے اب یہ مشکل پیش نہیں آئیگی کہ ہر حکم بزنطیہ سے لوں ۔ میں نے کئی اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں ۔ بڑی شرم کی بات ہے کہ اتنے کم مسلمان اتنی دور سے آکر مصر پر قابض ہو گئے ہیں اور ہماری فوج بھاگی بھاگی پھر رہی ہے ۔میں اس وقت بہت جلدی میں ہوں ابھی ابھی مصری کی سرزمین پر قدم رکھا ہے
یہاں کی صورتحال دیکھ لو پھر اپنی کاروائیاں شروع کروں گا اور تم سب سے یہ کہوں گا کہ قبطی فوج میں شامل ہو جائیں، اور جو فوج میں شامل نہ ہو وہ فوج کو پورا پورا تعاون دیں,,,,,,,,,,, اب میں ایک انتہائی ضروری بات کرنے لگا ہوں مسلمانوں کے متعلق یہ مشہور ہوگیا ہے کہ وہ جس شہر کو فتح کرتے ہیں اس شہر کے لوگوں کے ساتھ انتہائی اچھا رویہ اختیار کرلیتے ہیں نہ وہ لوٹ مار کرتے ہیں نہ کسی خوبصورت عورت کی طرف توجہ دیتے ہیں ،جو لوگ ان کا مذہب قبول کرلیتے ہیں ان لوگوں کو وہ اپنے برابر کے حقوق دیتے ہیں ،اور جو ان کا مذہب قبول نہ کرے ان پر جزیہ عائد کر دیتے ہیں اور اس جزیے کے عوض لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی پوری پوری حفاظت کرتے ہیں ، مسلمانوں کی یہی خوبی دیکھ کر کئی جگہوں پر لوگوں نے ان کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اور بعض نے ان کا مذہب قبول کر لیا۔ میں تمہیں ان مسلمانوں کی اصلی ذہنیت بتاتا ہوں، یہ جب پورے ملک کو فتح کر لیں گے پھر دیکھنا ان کا رویہ کیا ہو گا، یہ فرعون سے بھی بدتر ہونگے اور یہاں کے باشندوں کو اپنا غلام بنا لیں گے اور بلا اجرت بیگار لیتے رہیں گے۔
تاریخ گواہی دیتی ہے کہ قیرس نے یہ خطاب بڑی تیزی سے کیا تھا کیونکہ وہ بہت جلدی میں تھا ۔ جس جرنیل نے جہاز پر جا کر اس کا استقبال کیا اور جہاز سے اتارا تھا اس سے اس نے پوچھا تھا کہ جرنیل تھیوڈور کہاں ہے؟ وہ تھیوڈور سے ملنے کے لیے بے تاب تھا ۔ اس جرنیل نے غالباً یہ سوچ کر بات گول کر دی کہ قیرس کو مصر کی تازہ صورتحال کا کچھ پتہ نہیں۔ جہاز سے اتر کر اور خطاب سے پہلے اس نے ان جرنیلوں سے جو اس کے استقبال کے لئے کھڑے تھے پوچھا کہ جرنیل تھیوڈور کیوں نہیں آیا ،انہوں نے بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا تھا۔
جرنیل تھیوڈور سے ملنے کے لیے بے تابی کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ یہ جرنیل مصر میں مقیم تمام تر فوج کا سپریم کمانڈر تھا ، دوسری وجہ یہ تھی کہ مرتینا نے اسے کہا تھا کہ جنرل تھیوڈور لوگوں میں بہت مقبول اور ہردلعزیز ہے اسے ہر قیمت پر اپنی نظر میں اور اپنے ہاتھ میں رکھنا ہے۔ مرتینا کو یہ خطرہ نظر آرہا تھا کہ جرنیل پھر مصر میں کامیاب ہو گیا تو وہ ہرقل کے پوتے کونستانس کو اپنا بادشاہ سمجھ لے گا، اور اس کا حامی بن جائے گا۔ قیرس اسے فوراً ملنا چاہتا تھا لیکن تھیوڈور اس کے استقبال کے لیے بھی نہیں آیا تھا۔
اسکندریہ کے جرنیل قیرس کو شاہی محل میں لے گئے یہ ہرقل کا شاہی محل تھا ، پھر مقوقس نے اس محل میں رہائش اختیار کی تھی، اب قیرس کو اس محل میں رہنا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
قیرس کو تو جیسے کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں تھا محل میں جاتے ہی اس نے بڑے غصے سے کہا کہ جنرل تھیوڈور یہاں کے افواج کا کمانڈر ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو مصر کا فرمانروا سمجھ بیٹھا ہے۔ کیا اسے معلوم نہیں تھا کہ میں اتنی زیادہ فوج لے کر آرہا ہوں، اور اس نے پوچھا اور خود ہی جواب دیا ،اسے معلوم تھا بزنطیہ سے روانہ ہونے سے پہلے میں نے قاصد بھیج دیا تھا، اسے بندرگاہ پر موجود ہونا چاہیے تھا۔
قیرس کو بزنطیہ سے چلے بہت دن گزر گئے تھے پہلے خشکی کا لمبا سفر تھا اس کے بعد اس سے کچھ زیادہ لمبا سفر بہری تھا، بحرہ روم کی پوری چوڑائی عبور کرنی تھی مگر راستے میں ہلکا سا طوفان آگیا،  جس کا رخ مصر کی بجائے کسی اور ہی طرف تھا یہ طوفانی ہوائیں بادبانوں سے ٹکرا کر تمام جہازوں کو اپنے رخ پر ہی لے گئی تھیں، جہازران جہازوں پر قابو نہ پا سکے لیکن طوفان جلدی نرم پڑ گیا اور جہازوں کو بڑی دور سے واپس لائے اور اسکندریہ کا رخ کیا۔ خشکی کے راستے بھی اسکندریہ تک پہنچا جاسکتا تھا لیکن یہ سفر بڑا ہی لمبا تھا اتنے زیادہ دنوں میں مصر کی صورتحال میں انقلابی تبدیلیاں آچکی تھیں۔ قیرس تو صرف اتنا سن کر آیا تھا کہ مسلمانوں نے بابلیون جیسا مستحکم شہر بھی لے لیا ہے، لیکن ابھی تک اسے یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ مسلمان بابلیون سے اسکندریہ تک کا آدھا فاصلہ فتح پر فتح حاصل کرتے طے کر آئے ہیں، اور اب خطرہ اسکندریہ تک پہنچنے والا ہے۔
قیرس تو اس قدر جلدی میں تھا کہ خود ہی تیز تیز بولتا جا رہا تھا اور کسی اور کو بولنے کی مہلت دیتا ہی نہیں تھا، ایک سوال کرتا اور اس کے جواب کا انتظار کرتا ہی نہیں تھا۔
 اسے مرتینا کا یہ شک ہی معلوم ہونے لگا کہ تھیوڈور فوج میں اور ملک کے لوگوں میں بڑا ہی مقبول اور ہردلعزیز ہے اور وہ جیسی من مانی کرنا چاہے کرسکتا ہے، اور کر گزرے گا،،،،،، قیرس نے ایک بار پھر کہا کہ کوئی اسے بتا سکتا ہے کہ تھیوڈور کہاں ہے اور اس  کے استقبال کو کیوں نہیں آیا؟ 
معلوم ہوتا ہے وہ بابلیون کے شکست پر شرم سار ہے ۔۔۔۔قیرس نے اپنے پہلے سوال کے جواب کا انتظار کیے بغیر کہا۔۔۔ اتنے بڑے اور ایسے نامور جرنیل کا اتنے تھوڑے اور نہایت معمولی قسم کے حملہ آوروں کے آگے ہتھیار ڈالنا واقعی بڑی شرمساری کی بات ہے، لیکن میں تھیوڈور سے باز پرس نہیں کروں گا اسے بلاؤ میرے سامنے لاؤ ہم اب نئے سرے سے مسلمانوں کے مقابلے میں آئیں گے اور ان کا نام و نشان مٹا دینگے۔
 وہاں جو جرنیل موجود تھے انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ان کے ماتھے پر شکنیں آ گئی تھیں جیسے انہیں قیرس کا یہ انداز اچھا نہیں لگ رہا تھا، وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں انہوں نے طے کر لیا کہ قیرس کو بتا دیا جائے کہ تھیوڈور کہا پھنسا ہوا ہے اور اس پر کیسی مصیبت آن پڑی ہے۔
اسقف اعظم!،،،،،، ان جرنیلوں میں سے جو عمر میں سب سے بڑا تھا بولا ۔۔۔۔ہمیں بولنے کا موقع دیں کہ آپ جب بزنطیہ سے چلے تھے اس وقت سے اب تک مصر کی صورتحال کیا سے کیا ہو گئی ہے ،سب سے پہلے میں یہ کہنے کی جرات کروں گا کہ آپ مذہب کے پیشوا ہیں لیکن مصر کی جو صورت حال ہے اس کا تعلق فوج کے پیشواؤں کے ساتھ ہے۔ اس لئے فوج کے پیشواؤں کی سنیں اور پھر انہیں بتائیں کہ آپ کیا منصوبہ لے کر آئے ہیں۔
 اسی لیے تو میں پوچھ رہا ہوں کہ وہ میرے سامنے آئے تو سہی ۔
وہ آپ کے سامنے اتنی جلدی نہیں آسکتا ۔۔۔اس سینیئر جنرل نے کہا۔۔۔ تھیوڈو اسکندریہ میں نہیں بلکہ کریون میں ہے ۔
وہاں کیا کر رہا ہے۔۔۔ قیرس نے پوچھا۔
نقیوس اور قرنوط اور دوسری جگہوں سے بھاگی ہوئی فوج کو اکٹھا کررہا ہے۔۔۔ جرنیل نے جواب دیا۔۔۔ عربوں کا یہ چھوٹا سا لشکر بابلیون اور اردگرد کے وسیع و عریض علاقے پر اپنا قبضہ مستحکم کرکے پیش قدمی کر آیا ہے اور اس نے نقیوش جیسا قلعہ بند شہر بھی لے لیا ہے ، چھوٹی چھوٹی جگہوں پر ہماری فوج لڑے بغیر بھاگ آئی ہے ، یا بھاگ نکلنے کے لئے لڑکر کٹ مری اور کچھ بھاگ آئی ۔ان علاقوں کے لوگ اور فوجی اسکندریہ پہنچ گئے ہیں، اور ابھی تک چلے آ رہے ہیں۔ جنرل تھیوڈور کریون میں اپنا محاذ مستحکم کر رہا ہے تاکہ عربوں کو وہیں روک لے، اور انہیں پسپا کرنے کی کوشش کرے، ورنہ وہ سیدھے اسکندریہ پر آئیں گے۔
تو کیا اسے کمک بھیجی جائے۔۔۔قیرس نے پوچھا ۔۔۔اور خود ہی کہا۔۔۔ لیکن میں یہ کمک کسی اور استعمال کے لیے لایا ہوں اگر اس طرح تھوڑی تھوڑی کمک مختلف جگہوں پر بھیجنے لگے تو اس سے ہم کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے گے ۔
تھیوڈور کو کچھ نہ کچھ کمک بھیج دی جائے۔۔۔ بوڑھے جرنیل نے کہا ۔۔۔ہو سکتا ہے اسی سے تھیوڈور اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے، اگر نہ ہو سکا تو ہم اس کمک کو اسکندریہ کے دفاع کے لئے یہاں سے کچھ دور صف آرا کر کے عربوں کو روک لیں گے۔
 قیرس نے اسی وقت حکم دیا کہ دو دستے کریون بھیج دیے جائیں۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
قیرس اپنے ساتھ مبلغوں کا ایک بہت بڑا گروہ لایا تھا اس گروہ کو اس نے بزنطیہ میں ہی ہدایت دے دی تھی کہ مصر میں جاکر وہ کیا کریں گے ،اس گروہ میں تین بڑے پادری تھے جو قیرس کے ہمراز و معتمد  تھے، اب شاہی محل میں پہنچ کر اس نے وہ صورتحال سنی جو کوئی اچھی نہیں تھی اور جنرل تھیوڈور اس میں پھنس گیا تھا، اس نے اسی وقت ایک کانفرنس منعقد کر ڈالی اس میں ایک تو فوج کے جرنیل تھے دوسرے یہ تین بڑے پادری تھے ۔ جاسوسی کے نظام کے دو سربراہ تھے اور انتظامیہ کے تین چار حاکم بھی اس کانفرنس میں بلائے گئے۔
 قیرس نے دروازے بند کروا لیے کیونکہ وہ ساری کارروائی اور بات چیت رازداری میں کرنا چاہتا تھا۔
تاریخ کسی کی رازداری کو راز میں نہیں رہنے دیتی کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد کمروں کے اندر کی ہوئی باتیں کسی نہ کسی ذریعے تاریخ کے دامن میں آ پڑتی ہیں۔
 قیرس کی اس کانفرنس کو بھی تاریخ بے نقاب کرتی ہے اور بعد کے واقعات نے ان باتوں کی تصدیق کر دی تھی۔
میرے بھائیوں !،،،،،،قیرس نے کہا۔۔۔ اس حقیقت کو تسلیم کر لو کہ ہماری فوج مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی، اور بزدلوں کی طرح مصر ان کے حوالے کر دیا ہے۔ میں نے آپ کو اس لئے اکٹھا کیا ہے کہ سوچیں کہ ہم ان عربوں کو اپنے ملک سے کس طرح نکال سکتے ہیں؟،،،،،،،، میں تجویز پیش کرتا ہوں کہ آپ اپنے مشورے دیں پھر ہم ایک منصوبہ تیار کر لیں گے اور اس کے مطابق فوری کارروائی کریں گے، میری تجویز یہ ہے کہ اپنے صرف فوجی محاذ کو ہی مضبوط کر لینا کافی نہیں ، ہمارا محاذ ہر جگہ مضبوط تھا لیکن ہماری فوج کسی بھی محاذ پر جم نہیں سکی، میں حیران ہوں کہ مسلمانوں نے بابلیون کس طرح لے لیا ہے ،ہم اب اس پر بحث نہیں کریں گے میں کہتا ہوں کہ ہمیں دوسرے محاذ بھی کھولنے پڑے گے جو زیر زمین ہوں گے ہم مسلمانوں کو دھوکہ دے کر شکست دے سکتے ہیں، لڑیں گے تو ہم فوجی محاذ پر لیکن زمین دوز محاذ کو زیادہ مضبوط رکھیں گے۔ آپ لوگ اس پر غور کریں کہ ہم کیا کریں۔
 جاسوسی اور تخریب کاری کے لیے خوبصورت لڑکیاں بھیجی جائیں۔۔۔۔ ایک جرنیل نے کہا۔۔۔ آپ سب جانتے ہیں کہ ایک خوبصورت اور نوجوان لڑکی کیا کچھ کر سکتی ہے۔
لیکن یہاں ہمیں جاسوسی کی ضرورت ہی نہیں۔۔۔ قیرس نے کہا ۔۔۔جاسوسی اس دشمن کی کی جاتی ہے جس کے متعلق معلوم ہی نہ ہو کہ اس کی اگلی چال کیا ہوگی، اور وہ کدھر کا رخ کرے گا ،عربوں کے اس لشکر کے متعلق ہم سب جانتے ہیں کہ اسکندریہ کی طرف بڑھ رہا ہے اور وہ اسکندریہ کو محاصرے میں لے گا ،ان عربوں کی کوئی بات ہم سے چھپی ہوئی نہیں ، میرا خیال ہے کہ آپ لوگ اپنے کچھ فوجی آگے بھیجا ہی کرتے ہیں جو قبل از وقت آکر اطلاع دے دیتے ہیں کہ دشمن کا رخ کس طرف ہے اور اس کی پیش قدمی کی رفتار کیا ہے ۔ 
مجھے آپ سے اتفاق ہے اسقف اعظم !،،،،،ایک اور جرنیل بولا۔۔۔ لڑکیوں کو ہی استعمال کرنا ہے تو کسی اور طریقے سے استعمال کرو میرا مشورہ ہے کہ مسلمانوں کے سپہ سالار کو قتل کروا دیا جائے، اسے باہر کہیں قتل کرنا ممکن نہیں، آسان اور فوری طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ہماری کوئی لڑکی ایک مظلوم اور آفت زدہ لڑکی کے روپ میں سپہ سالار کے ہاں پناہ لینے جائے اور ایسی استادی کرے کہ کچھ دن سپہ سالار کے ساتھ رہے اور موقع پیدا کرکے اسے کھانے میں زہر دے دے ۔
سپہ سالار کو قتل کردینے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔۔۔  قیرس نے کہا۔۔۔ کوئی دوسرا سالار اس کی جگہ لے لے گا ، یہ بادشاہوں میں ہوتا ہے بادشاہ میدان جنگ میں مارا جائے تو فوج کا حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے اور فوج بھاگ اٹھتی ہے ،کوئی جرنیل مارا جائے یا بھاگ نکلے تو پوری فوج پسپا ہوجاتی ہے، مسلمانوں کے ہاں کوئی بادشاہ ہوتا ہی نہیں میں نے ان لوگوں کو قریب سے دیکھا ہے اور ان کے کردار کا جائزہ لیا ہے، مسلمان اپنے حکمران اور اپنے سپہ سالار کے حکم سے نہیں بلکہ اپنے خدا کے حکم سے لڑتے ہیں جسے وہ اللہ کہتے ہیں ،ان میں ڈسپلن اتنا زیادہ ہے کہ اپنے سالاروں کا حکم مانتے ہیں اور خود سر اور سرکش نہیں ہوتے، ان کے کسی لشکر کے سارے سالار مارے جائیں لشکر کا جذبہ اور زیادہ بڑھ جاتا ہے اور وہ آپس میں اتفاق کر کے کسی کو بھی اپنا سالار بنا لیتے ہیں تاکہ مرکزیت قائم رہے، وجہ وہی ہے جو میں بتا چکا ہوں کہ یہ مسلمان اپنے خدا کے آگے جواب دہ ہوتے ہیں، انھیں کمزور کرنے کی کوئی ترکیب سوچیں۔
 یہ بھی ذہن میں رکھیں۔۔۔ کوئی اور جرنیل بولا ۔۔۔مسلمانوں کے سالاروں سے لے کر نیچے سپاہیوں تک کا کردار ایسا ہے کہ کسی حسین اور چالاک لڑکیوں سے انہیں پھانسا نہیں جاسکتا، نہ ان کی توجہ اپنے عزم اور مقصد سے ہٹائی جا سکتی ہے، یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے مصر کے کتنے ہی شہر فتح کیے ہیں، ہمیں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں نے کسی کبھی کسی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا بلکہ مفتوحہ لوگوں کی لڑکیوں کی عزت کی حفاظت کی ہے۔
میرے دماغ میں ایک تجویز آئی ہے اس پر غور کریں ،آپ جانتے ہیں کہ ہزار ہا مصری بدوّ مسلمانوں کے لشکر میں شامل ہو گئے تھے اور وہ پوری دیانتداری سے مسلمانوں کی جنگ لڑ رہے ہیں ،ان میں سے بعض نے اسلام قبول کر لیا ہے، اور اکثریت ان کی ہے جنہوں نے عیسائیت نہیں چھوڑی اور اسلام قبول نہیں کیا ، لڑکیوں کے ذریعے یا انہیں دولت کا لالچ دے کر اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ بدوّ مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ کر اپنے گھروں کو واپس چلے آئیں، اس سے مسلمانوں کو ایک نقصان یہ ہوگا کہ ان کی بےشمار نفری کم ہو جائے گی اور دوسرا نقصان یہ ہے کہ ان بدوؤں کی دیکھا دیکھی جو اور بدو لشکر میں شامل ہوتے رہے ہیں یہ سلسلہ رک جائے گا۔ اس کام کے لئے بدوؤں کے سرداروں کو اپنے ہاتھ میں لیا جائے ،ان بدوّ سرداروں کو اپنے شیشے میں اتارنے کے لیے لڑکیاں کام آسکتی ہیں، اور ان سرداروں کو زروجواہرات کا لالچ دیا جاسکتا ہے۔
اس مشورے پر غور کیا جا سکتا ہے۔۔۔ معمر جرنیل نے کہا۔۔۔ اگر بدوّ کو اپنے جال میں لایا جائے تو مسلمانوں کو کمزور کرنے کا ایک طریقہ اور بھی اختیار کیا جا سکتا ہے، وہ یہ کہ ہزاروں بدو مسلمانوں کے ساتھ ہی رہیں لیکن جہاں موقع ملے انہیں دھوکہ دیں اور ان کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیں، مسلمان اس لڑائی کو اپنے مذہب کی لڑائی سمجھتے ہیں اور اسے جہاد کہتے ہیں اور جہاد کو ہر مسلمان اپنا فرض سمجھتا ہے ،ہمارے سامنے بدو ہی رہ جاتے ہیں جنہیں ہم مسلمانوں کے خلاف استعمال کرسکتے ہیں۔
آپ لوگ میرا مطلب سمجھ گئے ہیں۔۔۔ قیرس نے کہا۔۔۔ میں پھر کہتا ہوں کہ جس دشمن کا آپ آمنے سامنے آکر مقابلہ نہیں کر سکتے اس پر زمین کے نیچے سے وار کریں، یا ان میں ایسے آدمی داخل کر دیں جو انہیں دوستی اور محبت کا دھوکہ دے کر ان کی پیٹھ پر وار کریں۔
 قیرس ان تین بڑے پادریوں سے مخاطب ہوا جو اس اجلاس میں موجود تھے۔۔۔ یہ کام آپ تینوں کر سکتے ہیں اپنے مبلغوں سے کہیں کہ وہ کسی نہ کسی بہروپ میں ان بدوؤں سے رابطہ قائم کریں اور انہیں اپنے راستے پر لائیں، کچھ مبلغ اس علاقوں میں چلے جائیں جن میں بدوّ آباد  ہیں، ان کے سرداروں کو اپنے اثر میں لیں۔
 ہم سمجھ گئے ہیں اسقف اعظم !،،،،ایک پادری نے کہا۔۔۔ یہ مذہب کا معاملہ ہے اسے ہم اور ہمارے مبلغ اچھی طرح سمجھتے ہیں وہ اس تبلیغ کریں گے کہ،،،،،،، 
صرف تبلیغ ہی کافی نہیں۔۔۔  قیرس نے اس پادری کی بات کاٹتے ہوئے کہا ۔۔۔مذہب کا جال بھی پھینکیں، اور بڑی خوبصورت لڑکیاں اپنے ساتھ لے جائیں جنہوں نے اپنے اوپر مذہب کا پردہ ڈال رکھا ہے لیکن درپردہ وہ سرداروں پر اپنے حسن و جوانی کا طلسم طاری کریں، اور انہیں اپنے جال میں لے لیں ،اگر آپ کہیں کے مذہب اس فریب کاری کی اجازت نہیں دیتا تو میں نہیں مانو گا، اپنے مقصد کو دیکھیں اگر آپ مذہب کی ہی دائرے میں گھومتے پھرتے رہے تو یہ دائرہ تنگ ہوتا جائے گا، اور مصر میں اسلام کا دائرہ پھر اثر وسیع ہوتا چلا جائے گا ۔ اپنے مذہب کے فروغ کے لئے ایسی حرکت کرنے سے نہ ڈریں جو مذہب کے منافی ہیں، کیوں نہ ہوں ہمیں عیسائیت کے تحفظ کے لئے اسلام کو نقصان پہنچانا ہے۔
 اگر اس مقصد کے لیے آپ کو کوئی گناہ کرنا پڑتا ہے تو کر گزریں۔
وہاں انتظامیہ کے دو تین حاکم موجود تھے ان میں جاسوسی کے شعبے کے سربراہ بھی تھے وہ اس قسم کی فریب کاریوں میں خصوصی مہارت رکھتے تھے ان کے ماتحت کام کرنے والے لوگ ان سے بھی زیادہ ہوشیار اور استاد تھے، یہ رومیوں کی شہنشاہی تھی تاریخ ایسی کہانیاں سناتی ہے کہ بادشاہ کس طرح لڑکیوں اور دولت کو استعمال کیا کرتے تھے، اسکندریہ کے اس محل میں جو حرم تھا اس میں ایک سے بڑھ کر ایک حسین ہوشیار لڑکی موجود تھی۔
یہ ایک جھلک ہے اس کانفرنس کی کارروائی اور گفت و شنید کی ،مجاہدین اسلام کے لئے بڑے ہی پرکشش پھندے اور ہم رنگ زمین دام تیار کیے گئے۔ ادھر مجاہدین اللہ کے حکم سے اللہ پر ہی بھروسہ کیے اسکندریہ کی طرف بڑھے آرہے تھے، انہوں نے کبھی ایسے ہتھکنڈے اور فریب نہیں سوچے تھے جو کبیرہ گناہوں کے زمرے میں آتے ہیں ۔ مجاہدین کے اس لشکر کے ساتھ عورتیں بھی تھیں اور ان میں شارینا اور روزی اور اس جیسی چند ایک بڑی حسین لڑکیاں تھیں جو رومی یا مصر تھیں، اور انہوں نے اسلام قبول کر کے ان مجاہدین کے ساتھ شادیاں کرلیں جو ان کے دلوں میں اتر گئے تھے، وہ اپنی خدمات پیش کرتی تھی کہ انہیں اجازت دی جائے تو وہ رومی جرنیلوں کو گمراہ کر دیں، لیکن اسلام میں رہ کر کوئی سپہ سالار انہیں ایسی اجازت نہیں دے سکتا تھا۔
مجاہدین کے پاس صرف جاسوسی کا ایک شعبہ تھا جس کے مجاہدین آگے جاکر ہر بہروپ دھار لیتے اور دشمن کے علاقے میں فریب کاریپ اور اداکاری سے کام لیتے اور اپنے سپہ سالار کے لیے نہایت اہم خبر لے آتے تھے جو سپہ سالار کے کام آتی تھی ان جاسوس مجاہدین نے اپنے لشکر کو خوفناک خطروں سے بچایا تھا۔
اس کانفرنس میں جرنیلوں اور دیگر شرکاء کو آخری منصوبہ تیار کر کے احکام اور ہدایات دیں اور پھر کانفرنس برخاست ہوئی ۔
قیرس نے پھر جنرل تھیوڈور کے متعلق باتیں شروع کردیں اور اس بے تابی کا اظہار کیا کہ وہ جنرل تھیوڈور سے بہت جلدی ملنا چاہتا ہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=*
یہ تاریخ کی ورق گردانی کرکے دیکھیں کہ جس وقت یہ کانفرنس چل رہی تھی اس وقت جنرل تھیوڈور کہاں تھا اور اس سے پہلے اور بعد اس پر کیا گزری تھی۔
یاد کریں کہ شریک بن سمّی نے ایک ٹیلے پر محصور ہوکر رومیوں کا ایسا مقابلہ کیا کہ رومی دل چھوڑ بیٹھے اور مجاہدین نے انہیں بری طرح تلواروں اور برچھیوں پر لیا ،ان میں وہی زندہ رہے جو بھاگ نکلے تھے، اس معرکے کے فوراً بعد سپہ سالار عمرو بن عاص سالار شریک سے آن ملے اور پیش قدمی جاری رکھی۔
اپنے جاسوس بہت آگے چلے گئے تھے اور وہ باقاعدہ خبریں دے رہے تھے کہ اس وقت رومی کہاں کہاں ہیں، اورکس کیفیت میں ہیں، اور ان کے ارادے کیا ہیں۔
سپہ سالار عمرو بن عاص آگے جا رہے تھے کہ اپنا ایک جاسوس مجاہد آگیا اس نے یہ رپورٹ دی کہ چھ میل دور آگے ایک مقام پر بھاگے ہوئے رومی فوجی اکٹھے ہو رہے ہیں اور وہ مجاہدین کا مقابلہ کریں گے، اس مقام کا نام سلطیس تھا۔ یہ کوئی مشہور اور اہم مقام نہیں تھا اس لیے وہاں قلعہ بندی تھی ہی نہیں۔ جاسوس نے بتایا کہ ان رومیوں کی نفری کتنی ہے اور یہ بھی بتایا کہ وہاں کوئی قلعہ نہیں اور رومی کھلے میدان میں لڑیں گے ۔
بھاگے ہوئے رومی کبھی یوں نہیں روکے۔۔۔ سپہ سالار عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ حیران ہوں کہ یہ صرف روکے ہی نہیں بلکہ مقابلے کے لیے تیار ہیں، اس کی ضرور کوئی وجہ ہوگی، ہوسکتا ہے انھیں بتایا گیا ہو کہ کمک آ رہی ہے اور مزید پسپائی روک دیں۔
اس وقت عمرو بن عاص کے ساتھ دو تین سالار تھے وہ بھی حیران ہوئے کہ بھاگنے والے رومی مقابلے میں کس طرح کھڑے ہو گئے ہیں۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ انہیں دھمکیاں دے کر روکا گیا ہے اور بکھرے ہوئے رومیوں کو یہاں اکٹھا ہونے پر مجبور کیا گیا ہے ۔
اس وقت جنرل تھیوڈور کریون میں تھا وہ دفاعی لحاظ سے ایک مضبوط قلعہ بند شہر تھا اسے مسلسل اطلاعات مل رہی تھیں کہ آگے سے رومی فوج بھاگے ہوئے قلعے میں آرہے ہیں ،اس فوج کے دستوں کو جنرل تھیوڈور نے ہی مختلف مقامات پر پھیلا دیا تھا کہ وہ مجاہدین کی پیش قدمی کے آگے رکاوٹ بنے رہیں ،اور اس لشکر کو کمزور کرتے کرتے اس قابل رہنے ہی نہ دیں کہ یہ اسکندریہ تک پہنچ سکے۔ لیکن یہ دستے کسی بھی مقام پر مجاہدین کے آگے نہ ٹھہر سکے اور پسپا ہی ہوتے چلے گئے۔ پسپائی کوئی معیوب لفظ نہیں بعض اوقات کوئی فوج کسی جنگی چال کے تحت پیچھے ہٹ آتی ہے اور پھر نئی تنظیم اور ترتیب کے مطابق جوابی حملہ کرتی ہے۔ لیکن رومی پسپا نہیں ہو رہے تھے بلکہ ڈری ہوئی بھیڑ بکریوں کی طرح بھاگے جا رہے تھے۔ رومی تو ایک جنگجو قوم تھی جس کی شجاعت اور بے جگری کے کارناموں سے تاریخ بھری پڑی ہے ،لیکن مجاہدین اسلام کے اس قلیل تعداد لشکر کے آگے رومی اپنی روایات کو بھول گئے ،اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ یہ باطل پہلی بار حق کے مقابلے میں آیا تھا۔
جنرل تھیوڈور نے پہلے یہ سوچا تھا کہ وہ اپنی پوری فوج کو اپنی قیادت میں لے کر آگے بڑھے اور مجاہدین سے ایک فیصلہ کن معرکہ لڑے، لیکن اس نے جب بھاگ بھاگ کر آنے والے فوجیوں کی ذہنی کیفیت دیکھی تو اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ کریون میں ہی رہے اور اس قلعہ بند شہر کو مجاہدین کے راستے میں رکاوٹ بنائے، ایک تو یہ فوجی بھاگ آئے تھے اور دوسرے وہ جو مجاہدین کی تلواروں اور برچھیوں سے دنیا سے اٹھا دیئے تھے، ان کی لاشیں گوشت خور پرندے اور درندے کھا گئے تھے اور ان کی ہڈیاں مصر کی زمین میں بکھر گئی تھیں،،،،،،،،،، قرآن کا ایک ایک فرمان پورا ہو رہا تھا مجاہدین کو جیسے اللہ کی یہ آواز سنائی دے رہی تھی۔ کہ اکثر ایسا ہوا ہے کہ چھوٹی سی جماعت بہت بڑی فوج پر غالب آئی ہے بشرطیکہ تم ایمان والے ہو۔
جنرل تھیوڈور ابھی بابلیون کی شکست کے صدمے سے نہیں سنبھلا تھا کہ اسے پسپائی کی خبر ملنے لگیں اور پھر اس نے دیکھا کہ کچھ فوجی اور کچھ لوگ بھاگے ہوئے کریون پہنچ رہے ہیں ،تھیوڈور کو امید تھی کہ بزنطیہ سے کمک آجائے گی لیکن بابلیون میں ہی اس نے محسوس کر لیا تھا کہ کمک نہیں آئے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل تھیوڈور اپنی فوج میں اور لوگوں میں ہر دلعزیز تھا، اسے یہ بھی پتہ چل چکا کے بزنطیہ میں شاہی خاندان میں تخت و تاج کی وراثت پر رسہ کشی ہورہی ہے اور وہاں کسی کو یہ خیال نہیں کہ مصر کو بچانا ہے ،تھیوڈور نے کریون میں اپنے دو تین جرنیلوں کو بلایا۔
ہم کس کی لڑائی لڑ رہے ہیں ؟،،،،،،تھیوڈور نے اکھڑے ہوئے سے لہجے میں کہا ۔۔۔ہرقل کے شاہی خاندان کی یا سلطنت روم کے وقار کی ؟،،،،،،شاہی محل میں جو معرکہ آرائی ہو رہی ہے وہ تم سن چکے ہو انہوں نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا ہے اور جب مصر ہاتھ سے نکل جائے گا تو اس کی سزا ہمیں ملے گی۔ مقوقس اچھا تھا یا برا یہ الگ بحث ہے لیکن ہرقل نے اسے ذلیل و خوار کر کے ملک بدر کردیا۔ ہرقل خود کمک لے کر مصر میں کیوں نہیں آیا اپنے بیٹے قسطنطین کو کیوں نہیں بھیجا؟،،،،، غور کرو کہ ہم جان کی بازی لگا کر ان عربوں کو مصر سے نکال دیتے ہیں تو مصر کا مالک کون ہوگا؟،،،،،، ہرقل اور اس کا خاندان۔ 
میں اب تمہیں اپنے دل کی بات بتاتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ تم میرا ساتھ دو گے، میں اس فیصلے پر پہنچا ہوں کہ اب ہم جم کر لڑیں گے اور مسلمانوں کو شکست دیں گے، اور پھر ہم مصر میں خودمختاری کا اعلان کر دیں گے۔ ظاہر ہے بزنطیہ سے فوج آئے گی اور ہم سے ہتھیار ڈلوانے کی کوشش کرے گی یہ خانہ جنگی ہو گی لیکن میں اس کے لئے تیار ہوں کیا تم میرا ساتھ دو گے؟،،
دونوں جرنیلوں نے کہا کہ اب وہ اپنے آپ کو تھیوڈور کے ہی ماتحت سمجھیں گے، اور موت تک اس کا ساتھ دیں گے، ان جرنیلوں کو معلوم ہو چکا تھا کہ مرتینا سلطنت روم کی ملکہ بننے کے جتن کر رہی ہے، اور اگر وہ خود ملکہ نہ بن سکی تو اپنے بیٹے کو ہرقل کے تخت پر بٹھائے گی، ان جرنیلوں نے کہا کہ وہ ایسے بادشاہوں کے غلام نہیں رہنا چاہتے نہ اپنے آپ کو اب ان کے حکم کا پابند رکھیں گے۔ البتہ جرنیلوں نے تھیوڈور سے یہ بات ضرور پوچھیں کہ کمک کے آنے کی جو اطلاع آئی ہے اس کا کیا کیا جائے۔
ہاں یہ سوچنے والا مسئلہ ہے۔۔۔۔ جنرل تھیوڈور نے کہا۔۔۔۔ اگر قیرس کمک  لے کر آ گیا تو وہ سب سے پہلے مجھے بلائے گا، حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس پر بھی اعتماد نہیں ، وہ ہے تو اسقف آعظم لیکن کردار کے لحاظ سے بہت ہی گھٹیا آدمی ہے ،میں اس کی نیت بھانپ لونگا اگر مجھے اس کی نیت پر کچھ شبہ ہوا تو میں اس سے کمک کی کمان خود لے کر اسے ایک طرف کردوں گا۔
جرنیلوں نے پھر بھی مشورہ دیا کہ اب ہم یہ لڑائی اپنی ذاتی لڑائی سمجھ کر لڑیں گے اور قیرس کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں، ہم بنزطیہ کے احکام کی بھی پرواہ نہیں کریں گے، جنرل تھیوڈور کو یہ مشورہ اچھا لگا اس نے اسی وقت دفاعی پلان بنانا شروع کردیا، وہ کہتا تھا کہ پہلے اپنے دفاع میں لڑیں گے اور مسلمانوں کو تھکا کر جوابی حملہ کریں گے۔ اس پلان کے تحت اس نے یہ فیصلہ کیا کہ جو دستے کریون میں ہیں انہیں وہیں رہنے دیا جائے۔ اور وہ خود بھی کریون میں ہی رہیں، اس کا دراصل ارادہ یہ تھا کہ ہر طرف بکھری ہوئی فوج کو اس قلعہ بند شہر میں اکٹھا کرے لیکن کچھ اس نے اور کچھ جرنیلوں نے سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ جو دستے کریون سے دور دور مقیم ہے انہیں وہیں رہنے دیا جائے تاکہ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں آئیں اور انھیں کمزور کرنے کی کوشش کریں۔ مطلب یہ تھا کہ جب مسلمان کریون کو محاصرے میں لے تو وہ کمزور حالت میں ہوں۔ ادھر اسکندریہ میں مجاہدین اسلام کے خلاف بڑی ہی زہرناک ،خوفناک اور زمین دوز کارروائیوں کے پلان بن گئے تھے اور ایسی تخریب کاری کی ابتدا ہوگئی تھی جس کا پتہ تباہی اور بربادی کے بعد ہی چل سکتا ہے۔ ادھر کریون میں رومی جرنیلوں نے نئے عزم اور نئے جذبے سے ایسا پلان بنا لیا تھا جو مجاہدین کے لئے ناقابل تسخیر رکاوٹ بن سکتا تھا۔

#جاری_ہے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.