Ads Top

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر54 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi

 by 

Abu Shuja Abu Waqar 


غازی از ابو شجاع ابو وقار
 پیشکش محمد ابراہیم
54 قسط نمبر
 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar 
Presented By Muhammad Ibraheim
 Episode 54
دونوں چینی ساتھیوں نے اس کو اس طرح دونوں طرف سے تھام رکھا تھا جیسے کوئی نشئ فل نشے کہ حالت میں ہو اور اسے لایا جا رہا ہو اسکو وین میں پچھلی سیٹ پر بٹھا کر دونوں سائیڈوں پر بیٹھ گئے میں نے گیٹ کو تالا لگایا اور گاڑی سیدھی سفارت خانے لے گیا وہاں جا کر ایک سائیڈ پر وین کھڑی کی اور چپ چاپ ٹرانسمیٹر آپریٹر کو چابی دے کر اپنی وین میں واپس آ کر بیٹھ گیا لاش کو ٹھکانے لگانے کے لیے رات کے اندھیرے کی ضرورت تھی ہم نے سارا دن وین میں بیٹھ کر بلا مقصد شہر کے کبھی ایک طرف کبھی دوسری طرف ایسے ہی گھومتے رہے دن کو لنچ میں بھی بس بسکٹ پر گزارا کیا جونہی رات کا اندھیرا پھیلا تو میں وین بھارتی سفارت خانے کے عقب میں لے گیا سفارت خانے کے اندر ہی بھارتی سفارتی افسران کے فلیٹ تھے آمدورفت کے لیے ایک چھوٹا گیٹ تھا تھی تو یہ خطرناک اور جنونی بات لیکن میں نے چھپ کر چل سوچل کے مطابق اور اب کھلے عام میدان میں آنے کا فیصلہ کر لیا تھا سڑک پر آنے جانے والوں سے ہوشیار اور نظر بچا کر میرے ساتھیوں نے لاش کو وین سے اتارا اور بند گیٹ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ جانے کیطرح لاش کو بٹھا کر آ گئے وین پر چکر لگا کر ہم مخالف سمت سے انا پورنا ہوٹل کے احاطہ میں داخل ہو گئے ریسپشن سے معلوم ہوا کہ بہت سے مہاجر بعد دوپہر مجھے ملنے کو آے تھے اور شام تک انتظار کے بعد واپس چلے گئے مریم نے بھی کئی بار فون کیا تھا چینی ساتھیوں کے لیے کمرہ تو میں نے پہلے سے ہی لے رکھا تھا میں نے انہیں وہی رکنے کے لیے کہا لیکن وہ واپس جانا چاہتے تھے بھوک اور تھکن سے میرا بھی برا حال ہو رہا تھا کمرے میں جا کر میں نے مریم کو فون کیا اور کہا کہ اگر آج کی روداد سننی ہو تو کھانے کے لیے تیار ہو جاؤ چینی تمہیں لے کر ہوٹل آ جائیں گے واپسی پر میں تمہی چھوڑ آؤں گا آدھے گھنٹے بعد مریم پہنچ گئی اس دوران میں گرم پانی سے نہا کر تازہ دم ہو چکا تھا کھانا کھاتے ہوئے میں نے مریم کو صبح سے لے کر اب تک کے تمام واقعات سنا دیئے اسکا رد عمل عین اس کے خذبات کے مطابق تھا کہنے لگی کہ مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمہارا یہ زندگی اور موت کا کھیل کبھی ختم نہ ہو گا اور جو میں نے پرسکون زندگی کےخواب دیکھیں ہیں وہ کبھی پورے نہ ہوں گے میں نے مریم کو دلاسا دیا اور کہا کہ یہ کھیل میں اپنی خوشی نہیں کھیل رہا میرے ساتھ کھیلا جا رہا ہے تو میں جواباً ایسا کر رہا ہوں سب نے ایک دن چلے جانا ہے یہاں کسی نے نہیں رہنا بہرحال میں کوشش کروں گا کہ ہم جلد اس کھیل سے کہیں دور چلے جائیں مریم کو واپس ہوٹل چھوڑ کر میں اپنے ہوٹل میں واپس آ گیا نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی میں سوچ رہا تھا کہ میں کھٹمنڈو میں دن بدن اس دلدل میں پھنستا جا رہا ہوں مجھے جو مشن دیا گیا تھا وہ پلانٹیڈ مہاجروں کے متعلق معلومات کا تھا لیکن اگر کوئی جاسوس مل جاتا تو سفارت خانے یا پھر اپنے محکمے کو اطلاع دینی تھی لیکن میں غیر دانستہ طور پر ان میں انوالو ہو گیا تھا کہ مجھے اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے میں اس حد تک آگے جا چکا ہوں کہ چاروں طرف دشمن میری زندگی کے درپے ہیں حالت یہ ہو رہی تھی کہ ایک طرف پاک بھارت دوستی کے لیے کوشش کی جارہی تھی اور ہمارے حکومتی سطح پر بھارت کے ساتھ پینگیں بڑھا رہے تھے اور دوسری طرف میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا اور میرے جیسے کئ محب وطن دشمن سے لڑ رہے تھے ہزاروں قربانیاں دے کر وطن کی عظمت کو بچایا تھا اور یہ حکمران بھارت کے ہاتھوں ذلیل ہو کر پھر ان کے تلوے چاٹنا چاہتے تھے
پاکستان سے جو اخبار سفارت خانے آتے تھے ان میں ملکی حالات کو بہت احسن طریقے سے پیش کیا جاتا تھا کیونکہ وہ سب حکومت کے ہاتھوں بکے ہوئے تھے اصلی پاکستان کی صورتحال برٹش اخبارات سے پتہ چلتی یقین جانیے ان اخبارات کو پڑھ کر دل کرتا تھا کہ کسی تیسرے ملک میں جا کر سیٹل ہو جاؤں پاکستانی سفارت خانہ بس مجھے پاکستان جانے تک کی اجازت دے سکتا تھا یا پھر نیپال میں رہنے کی اگر میں اپنی مرضی سے پاکستان چلا جاتا تو میرا محکمہ بلااجازت پاکستان آنے پر مجھ سے باز پرس کرتا. نیپال میں میری حالت قیدیوں سے بھی بدتر تھی قیدیوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندگی کا تحفظ تو حاصلِ ہوتا ہے مجھے تو وہ بھی نہیں تھا اوپر سے اکیلا اتنے بڑے دشمن سے لڑ رہا تھا جس نے کھٹمنڈو میں بھی میرے لیے قدم قدم پر کانٹے بچھا رکھے تھے
 مجھے اپنا انجام صاف نظر آ رہا تھا کسی روز دشمن کی گولی آے گی اور میرا کام تمام ہو جائے گا اور میری لاش لاوارثوں کیطرح کہیں دفن کر دیا جاے گا
آئندہ چند روز میں نے بھارتی سفارت خانے کے ریایکشن کے بارے میں گزار دیئے لیکن اس طرف صرف خاموشی تھی میں نے میجر باسو کو تحفہ دے کر چیلنج کیا تھا میں چاہتا تھا کہ وہ میرے سامنے آ جاۓ اور اپنا سارا زور مجھے زیر کرنے میں لگا دے اس طرح اس کے ایجنٹ میری نظر میں آ جائیں گے جنہیں میں چن چن کر ہلاک کر سکوں گا یا ان کے ہاتھوں مارا جاؤں گا اس طرح کچھ نہ کچھ تو فیصلہ ہو جاے گا اسکے سوا میرے پاس کوئی راستہ نہ تھا میں اس راہ پر اتنا آگے نکل چکا تھا کہ اب واپسی ناممکن تھی انہی دنوں پاکستانی سفارت خانے نے 23 مارچ کو منانے کے لیے ایک تقریب کا انعقاد کیا مجھے بھی دعوتی کارڈ دیا گیا اس میں نیپالی وزیر اعلی اور اسرائیل کے علاوہ تمام سفارت کاروں کو مدعو کیا گیا تھا میرے لیے کسی سرکاری تقریب میں شامل ہونے کا یہ پہلا موقعہ تھا اچکن وغیرہ تو میرے پاس تھی نہیں اس لیے میں نے ایک ایوننگ سوٹ پہن لیا تقریب میں رسمی کلمات کے بعد مدعوئین کو مشروب پیش کیے گئے سارے مہمان اپنے ہم مرتبہ لوگوں کے ساتھ کھڑے تھے نیپالی کمانڈر انچیف اور سفارتی فوجی عہدے دار ڈنر جیکٹس پہنے کندھوں پر اپنے چمکتے براس اور سینوں پر سرمنی تمغے لگاے اپنی محفل جماے کھڑے تھے میں ایک عراقی سفارت کار سے محو گفتگو تھا کہ کرنل کے اسٹار لگاے ایک فوجی میرے قریب آیا اور کرنل انند اور انڈین ملٹری اٹاچی کہہ کر اپنا تعارف کرایا جواب میں میں نے آصف علی رہفیوجی کہا کرنل انند کو میں نے پہلے بھی کئ بار دیکھا تھا لیکن تعارف آج پہلی بار ہوا تھا کرنل نشے میں چور تھا اس نے کہا
مسٹر آصف تم پاکستان کا سرمایہ ہو
میں نے جواب دینا چاہا تو اس نے کہا
کہ میجر باسو تمہارے تحفے سے خوش نہیں ہوے
میں نے کہا کہ غالباً آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے میں نے میجر باسو کو کوئی تحفہ نہیں بھیجا میں نے اس شرابی کرنل سے پیچھا چھڑانے کے انداز میں کہا
اس نے کہا نہی نہی ہم بھارتی کبھی دھوکا نہیں کھاتے 67ء میں ہم نے تمہارے ملک کے مشرق اور مغرب میں دو آدمی چنے ان پر محنت کی تو انہوں نے ہماری توقع سے بڑھ کر ہماری خواہشات پوری کیں مسٹر ہم کبھی مغالطے کا شکار نہیں ہوےکرنل آنند کو میں ایسا جواب دے سکتا تھا کہ اس کا سارا نشہ ہرن ہو جاتا لیکن یہ پاکستان کی تقریب تھی اور میں بدمزگی پیدا نہیں کرنا چاہتا تھا میں نے کرنل سے ہاتھ ملاتے ہوے کہا کہ میں مان لیتا ہوں کہ میجر باسو کو تحفہ میں نے بھیجا ہے جو اسے پسند نہی آیا لیکن اگلی بار میں تمہیں تحفہ بھیجو گا اور مجھے یقین کہ وہ تمہیں بہت پسند آے گا یہ کہہ کر میں تقریب سے چلا آیا.
 مدہوش کرنل پھٹی پھٹی نگاہوں سے مجھے دیکھ اور سن رہا تھا ان بذدل ہندوؤں نے چالاکی سے پاکستان کو دولخت تو کر دیا تھا مگر کسی سچی بات کا سامنا کرنا ان کے بس کا روگ نہیں تھا
پاکستانی تقریب میں کرنل آنند سے ملے 5 دن گزرے تھے کہ میں سہپہر کو کافی شاپ میں اکیلا بیٹھا تھا میرے سے 3 ٹیبل کے فاصلے پر میرے چینی دوست بیٹھے تھے کہ اچانک کس نے مجھے میرے اصلی نام سے پکارا اپنا اصل نام سن کر میں چونک گیا لیکن کوئی ردعمل ظاہر کیے بغیر کافی پینے میں مشغول رہا جب دوبارہ نام پکارا گیا تو بھی میں نے کوئی دھیان نہ دیا تو چند لمہوں بعد مجھے اپنے کندھے پر کسی کے ہاتھ کا دباؤ محسوس ہوا میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ کرنل آنند تھا میں اخلاقاً اسے اٹھ کر ملا چند رسمی کلمات کے بعد میں نے اسے اپنے ساتھ بیٹھنے کی دعوت دی تو اس نے کہا تم میرے ٹیبل پر آ جاؤ کیوں کہ وہاں اس کے دو ساتھی بیٹھے ہوئے تھے میں نے جواب دیا کہ اس کے ساتھیوں کے لیے میری ٹیبل کی 5 کرسیاں حاضر ہیں آنند نے یہ کہتے ہوئے کہ تم بہت ضدی ہو اشارے سے اپنے ساتھیوں کو اپنی طرف بلایا تو وہ بھی میرے ٹیبل پر آ گئے میں نے ان کو ویلکم کہا تو کرنل آنند نے ان کا تعارف کروایا کہ یہ میجر باسو ہیں سیکنڈ ملٹری اٹاچی اور یہ کیپٹن مان ہیں تھرڈ ملٹری اٹاچی ہیں اور یہ مسٹر میرا اصلی نام کے ساتھ پھر آئی ایم سوری مسٹر آصف علی میں نے ان کے لیے کافی منگوائی میجر باسو بنگالی اور شکل سے ہی متعصب لگتا تھا کیپٹن مان جوان اور مونا سکھ تھا ہم خاموشی سے کافی پینے لگے بڑا عجیب منظر تھا کہ ایک دوسرے کے جانی دشمن ایک ہی ٹیبل پر بیٹھے اس انتظار میں تھے کہ گفتگو کوئی دوسرا شروع کرے اس خاموشی کو آخر کار میجر باسو نے توڑا میرا اصلی نام لیتے ہوئے وہ بولا تم کیا سمجھتے ہو اس طرح کی حرکت جس طرح تم نے لاش کے ساتھ چٹ لگا کی ہے ہمیں خوفزدہ کرو دو گے میں نے جواب دیا سب سے پہلے میجر باسو میرا اصلی نام آصف علی ہے اور میں کسی دوسرے نام سے پکارے جانے کو پسند نہیں کرتا دوسری بات یہ کہ جو لاش کے ساتھ چٹ لگی ہوئی تھی وہ یہ کہ میں تحفہ دینے والوں کو واپسی تحفہ لازمی دیتا ہوں تم نے ایک تحفہ میری نگرانی کے لیے بھیجا تھا اپنے اصول کے مطابق میں تمہارا تحفہ تمہیں لوٹا دیا لوٹانے کے عمل میں صرف یہی فرق تھا کہ اسکی سانس بند تھی
میجر باسو نے کہا تم نے ہمیں بہت انڈر اسٹیمیٹ کیا ہے ہم جب چاہیں تمہیں ختم کر سکتے ہیں
میں نے کہا کہ تم نے میرے منہ کی بات چھین لی حقیقت یہ ہے کہ تم نے مجھے بہت پہلے انڈر اسٹیمیٹ کیا ہے میں چاہوں تو تمہی ابھی یہاں بیٹھے بیٹھے ختم کر سکتا ہوں میجر باسو نے بے یقینی کی کیفیت میں میرے چینی ساتھیوں کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تم ہمیں ان دو تین چینیوں کے ساتھ مل کر ہمیں ختم کرو گے میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ میجر میں تو سمجھتا تھا کہ بنگالی دماغ بہت تیز اور شاطر ہوتے ہیں لیکن اب مجھے اس خیال پر نظر ثانی کرنی پڑے گی اور یہ چینی تو محض نمائشی طور پر تمہارے سامنے ہیں مجھے یقین ہے کہ بھارت میں میرے قیام ڈی ایم آئی میں میری گرفتاری اور اور وہاں میری کارروائیوں کے متعلق تو تم اچھی طرح جانتے ہو گےکھٹمنڈو میں تو سب کچھ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے اور گورکھ پور کا ہوائی اڈہ کیا میں اکیلے تباہ کر سکتا تھا میں تو ڈی ایم آئی کے سیل میں تھا پھر ڈی ایم آئی ہیڈ کوارٹر کی بیرونی دیوار کس نے اڑائی اور وہ دو گارڈ جو میں نے ہلاک کیے کس نے ان کے ہاتھ پکڑے ان کے منہ بند کیے تاکہ انکی آواز نہ نکل سکے کن کے ساتھ میری ٹائمنگ سیٹ تھی جنکی گاڑیاں مجھے لینے کے لیے بیرونی دیوار کے ساتھ کھڑی تھیں میری تو ٹانگ بھی زخمی تھی کس نے مجھے سہارا دے کر دیوار پر چڑھایا میں فرار کے بعد کہاں روپوش رہا کھٹمنڈو میں وہ کون تھے جنہوں نے مکتی باہنی والوں کو تلاش کیا اور مرگھٹ پہنچایا میجر باسو تم تو کچھ بھی نہیں جانتے تمہارے ہی آدمی ڈی ایم آئی میں تمہارے ہی آدمی نیول اور ائیر فورس ہیڈ کوارٹر میں ہمارے پے رول پر ہیں تمہارے سفارت خانے کی کوئی بات ہم سے پوشیدہ نہی تم چاہو تو میں تمہیں تمہارے فیملی ممبرو کے نام عمریں اور ان کے متعلق سب کچھ بتا سکتا ہوں کہو تو تمہارے ڈرائنگ روم کے فرنیچر کی تفصیل بھی تمہیں بتا دوں مجھے یہ بھی معلوم ہے تم کہاں کے رہنے والے ہو تمہارے والدین کا کیا نام ہے میں تمہارے جس ایجنٹ کو تمہیں تحفے کے طور پر واپس کیا ہے اس کے متعلق مجھے خواب نہیں آیا تھا تمہارے ہی سفارت خانے میں تمہارے 3 آدمی ہماری پے رول پر ہیں جو ہمیں پل پل کی خبریں دیتے ہیں میں تو ایک معمولی کارکن ہوں اور یہ چینی میرے محافظ ہیں اور صرف ہم ہی تمہارے سامنے ہیں ہم تو ان ڈیمی ہوائی جہازوں کیطرح ہیں جو جنگ کے دوران دشمن کو دھوکا دینے کے لیے ہوائی اڈے پر کھڑے کیے جاتے ہیں یہاں مجھے اور میرے چینی ساتھیوں کو ہلاک کرنا تمہارے بس کی بات نہیں اس وقت بھی کم از کم 20 آنکھیں تمہیں دیکھ رہی ہیں اور میرے اشاروں کینتظر ہیں بھارت اور کھٹمنڈو میں ہماری جڑیں بہت پھیلی ہوئی ہیں 65ء کی جنگ میں آمنے سامنے کی اور رات کو اچانک حملہ کر کے تم لوگوں نے دیکھ لیا کہ 17 روز میں تمہاری فوجیں بارڈر سے صرف 14 میل کا فاصلہ بھی طے کرنے میں ناکام رہیں تھیں حالانکہ کہ فوجی اور اسلحہ کی تمہارے واپس وافر مقدار تھی تمہارے کمانڈر انچیف چوہدری کی لاہور جم خانہ میں چھوٹا پیگ پینے کی حسرت دل میں رہ گئی اس جنگ میں تم پاکستان سے اتنے خوفزدہ تھے کہ تم لوگوں نے اپنا دارالحکومت دہلی سے الہ آباد منتقل کر لیا تھا یو این او میں تمہارا نمائندہ بار بار یہی دھائی دے رہا تھا کہ ہم ابھی جنگ بندی کرنا چاہتے ہیں معاہدہ تاشقند میں ہمارے صدر ایوب کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے تمہارے وزیراعظم لال بہدر شاستری کو دل کا دورہ پڑ گیا تھا 65ء کی جنگ کے بعد تمہاری وزیراعظم اندرا گاندھی نے اپنا ایک وفد اسپین بھیجا کہ وہاں سے پرانی کتابیں کھنگال کر لاؤ اور معلوم کرو کے مسلمانوں کے زوال کے اسباب کیا کیا ہیں اس کے بعد تم لوگوں نے اپنی حکمت عملی بدلی اور مشرقی اور مغربی پاکستان میں غدار ڈھونڈے جو پیسے اور اقتدار کے لالچ میں آ گئے اور تمہارا ساتھ دینے کے لیے تیار ہو گئے 71ء میں جب ہم خانہ جنگی ختم کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو تمہاری حکومت نے موقع غنیمت جانتے ہوئے مشرقی پاکستان پر حملہ کر کے پاکستان کو دولخت کر دیا یہ ہماری جنگی نہیں سیاسی شکست تھی جس میں غداران وطن نے تمہارا بھر پور ساتھ دیا ہماری صفوں میں میر صادق اور جعفر جیسے غدار ہمیشہ سے موجود رہے ہیں جنکی وجہ سے ہمیں ہزیمت اٹھانی پڑی
 ہم تو میدانوں صحراوں پہاڑوں دریاؤں سمندروں میں لڑنے والے تھے لیکن تمہارے محکمہ جاسوسی نے نا صرف غداروں سے رابطہ کیا بلکہ یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی شکل میں جاسوس بھیجے جنہوں نے طلباء کے ناپختہ ذہنوں کو برین واش کر کے غداری پر اکسایا اور اب ہم نے بھی تمہارا طریقہ اپنا لیا ہے سارے بھارت میں پھیلے ہوئے ہمارے جاسوس اپنا کام نہایت خوش اسلوبی سے سر انجام دے رہے ہیں بھارتی مسلمان ذہنی اور دلی طور پر ہمارے ساتھ ہیں وہ تمہاری آبادی کا پانچواں حصہ ہیں انہیں نہ تو تم جیلوں میں ڈال سکتے ہو اور نہ ختم کر سکتے ہو ہم جو بھی کام کرتے ہیں دل و جان سے کرتے ہیں مجھے دیکھو میں نے ساڑھے تین سال کا عرصہ بھارت میں گزارا اور درجنوں مشن کامیابی سے سر انجام دئیے ڈی ایم آئی والے ایک میرے ہی ہم وطن کی غداری کیوجہ سے گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئے تو مجھ سے ایک لفظ تک نہ اگلوا سکے الٹا ان کے دو گارڈ مارے گئے کھٹمنڈو میں تم میری کارکردگی سے واقف ہو 20 سے زیادہ مکتی باہنی والے ہم نے ہلاک کیے یہاں تم پر ہماری پہلی ضرب ہے تم نے کیا کر لیا ہماری ٹیم یہاں پر بہت منظم اور مضبوط ہے یہ سب باتیں میں نے تمہیں اس لیے بتائیں کہ تم کسی مغالطے کا شکار نہ ہو جانا اور بھول کر بھی کوئی ایسا قدم اٹھانے کی کوشش نہ کرنا جس کا خمیازہ تمہیں بہت زیادہ قیمت دے کر چکانا پڑے ہندو ہو یا مسلم یا کوئی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا ہو اس کو ہلاک کرنے کا دکھ ہمیں ہوتا ہے لیکن تم لوگوں نے ان ہلاکتوں کو ہماری مجبوری بنا دیا ہے تم یہاں اپنی جاسوسی کی کاروائی سے باز آ جاؤ ہم بھی تمہی تحفے بھیجنا بند کر دیں گے
اپنے چینی دوستوں کیطرف اشارہ کرتے ہوئے میں نے کہا کہ انکے متعلق مجھ سے زیادہ تم لوگ جانتے ہو 62ء کی جھڑپ میں تم لوگ ان سے خوفزدہ ہو کر محاذ چھوڑ کر اس طرح بھاگے تھے کہ تری پورہ سے اپنی سرکاری فائلیں اور خزانہ تک نہ اٹھا سکے اور نہ ہی انہیں نظر آتش کر سکے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ تمہارے سامنے صرف یہ دو ہی ہیں لیکن ان کے سینکڑوں ہم وطن اور ہزاروں نیپالی یہاں پر ہمارے دست و بازو ہیں
 قارئین ان سفارتی نمائندوں کے سامنے میں غلط بیانی سے اس لیے کام لیا تاکہ یہ خوفزدہ ہو جائیں اور انہیں چاروں طرف ہمارے جاسوس ہی نظر آئیں اور بھارت میں ڈی ایم آئی میں بھی انہیں ہر بندہ پاکستانی جاسوس ہی نظر آے انہیں یقیناً میری باتوں کا یقین آ گیا تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جب تک میں بھارت میں رہا وہاں آے دن کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہو جاتا جب سے نیپال آیا ہوں تو ان کے بیس سے اوپر جاسوس اور غدار قتل ہو چکے ہیں جب میں نے اپنی بات ختم کی تو وہ منہ کھولے مجھے بٹر بٹر دیکھ رہے تھے خوف ان کے چہروں سے عیاں تھا اور میں اس سے لطف اندوز ہو رہا تھا بھارت اور کھٹمنڈو میں مجھے پہلا ایسا موقع ملا تھا کہ میں بھارتی افسران سے آزاد ماحول میں بیٹھ کر آزادی سے گفتگو کرتے ہوئے انکو انکا اصلی چہرہ دکھا سکوں اور اس موقع پر میں نے اپنا سارا زور بیان لگا دیا تھا میری یہ کوشش. اس حد تک کامیاب رہی کہ جب کیپٹن مان نے ایک دو بار مجھے ٹوکنے کی کوشش کی تو میں نے کیپٹن کیا تمہاری اکیڈمی اس قدر نا اہل اور ناقص ہے جس نے تمہیں یہ نہیں بتایا کہ جب دو سئنرز بات کر رہے ہوں تو بیچ میں جوئنر نہیں بولا کرتے میرا جواب سن کر کیپٹن مان کو ایسی چپ لگ گئی کہ جب تک وہ بیٹھے رہے وہ ایک لفظ بھی نہ بولا اور جاتے وقت گڈ باے کہا وہ سب خاموش بیٹھے ہوے سہمے ہوے تھے آخر اس خاموشی کو کرنل آنند نے توڑا اور کہا کہ مسٹر آصف آج ہمیں پہلی مرتبہ معلوم ہوا ہے کہ گورکھ پور کے ہوائی اڈے کو تباہ کرنے میں تمہارا بھی ہاتھ ہے اس بہادری پر میں تمہی سلیوٹ کرتا ہوں غیر ارادی طور پر آج ہماری پہلی میٹنگ میں ہی کشیدگی پیدا ہوگئی جس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں رخصت ہونے سے پہلے میں آپ سے اپنی دلی بات کا اظہار ضرور کروں گا کہ میں آپ سے ایک بار نہیں باربار ملنا چاہوں گا میں آپکو یقین دلاتا ہوں کہ ہماری آئندہ کی ملاقاتیں دوستانہ ماحول میں ہوں گی میجر باسو ابھی تک ہم پنجابیوں کی یگانگت اور وسعت قلب کو نہیں سمجھ سکا جس طرح کہ بارڈر لائن بادلوں کو آنے جانے سے نہیں روک سکتی اسی طرح ہم پنجابیوں کی محبت کو تقسیم نہیں کر سکتی یہ کہہ کر کرنل آنند اٹھ کھڑا ہوا باقی دونوں بھی اٹھ کھڑے ہوئے سب نے مجھ سے گرمجوشی سے ہاتھ ملایا اور رخصت ہوئے انکے ہاتھوں میں محبت کی گرمی نہیں تھی بلکہ بدلے اور نفرت کی تپش صاف محسوس ہو رہی تھی واپسی جاتے ہوئے وہ کافی شاپ اور لابی میں ایسے اوپر دیکھ رہے تھے جیسے ابھی ان پر گولیاں چلنی شروع ہو جائیں گی کرنل آنند فوجی تھا مگر سفارت خانے کے ماحول نے اسے سیاست سکھا دی تھی جس میں جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا اگلے روز میں نے اس ملاقات کی مفصل روپوٹ لکھی اور اسکی کاپیاں کروا لیں ایک کاپی سفیر کو دی اور دوسری پر اس سے وصولی کے دستخط کروا لیے اصل اپنے محکمے کو بھجنے کے لیے اور ایک اپنی فائل میں رکھنے کے لیے مجھے سفیر پر کبھی اعتماد نہیں ہوا کیونکہ وہ ایک سیاسی اور جھوٹا انسان تھا کھٹمنڈو کا موسم اب تیزی سے بدل رہا تھا تکلیف دہ سردی اب خنکی میں بدل چکی تھی میں نے اپنی ہوٹل انتظامیہ کے ذریعے اپنے کمرے کی دونوں ونڈوں پر مضبوط لوہے کی جالی لگوا لی اسکی اصل وجہ اپنے کمرے کو دستی بم کے حملے سے محفوظ کرنا تھی مہاجروں کے لیے افغان ائیر کا حتمی شیڈول بھی آ گیا تھا پہلا جہاز 10 اپریل کو اور پھر ہر ہفتے میں دو فلائٹس جانا شیڈول میں شامل تھا پہلی پرواز پر جانے والے مہاجرین خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے پاکستانی سفارت خانے میں بھی گہما گہمی بہت بڑھ چکی تھی مہاجروں نے میرے پاس بھی ٹولیوں میں آنا شروع کر دیا تھا وہ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ میں اپنے اثرورسوخ سے سفارت خانے کی لسٹ میں ردوبدل کروا سکتا تھا میں نے انہیں صاف بتا دیا کہ میرے سفارشی مہاجروں کو تو ہو سکتا ہے آخری فلائٹ میں بھی جگہ نہ دی جائے ان مہاجروں میں ایسے بھی تھے جو مہینوں نہیں برسوں سے یہاں مقیم تھے جب وہ آے تو انکی تعداد چار تھی اب چار کے چھے ہو چکے تھے اپنی غفلت اور سفارت خانے کی لاپرواہی سے وہ نومولود بچوں کی رجسٹریشن نہ کروا سکے تھے اور سفارت خانے نے اس چیز کو بنیاد بنا کر انہیں یہی پر روک رکھا تھا بعض مہاجروں کو کھٹمنڈو کی پرامن زندگی اتنی پسند آئی کہ انہوں نے مستقل یہی قیام کا فیصلہ کر لیا تھا کہ جتنی دیر تک نیپال حکومت نے انہیں مجبور نہ کرے گی وہ پاکستان نہیں جائیں گے میں نے محسن کے ذریعے بزرگ شاعر کے بارے میں پوچھا کہ اگر وہ جانا چاہیں تو پہلی دو تین فلائٹس میں ان کے جانے کا انتظام ہو سکتا ہے محسن نے تو صاف انکار کر دیا اور بزرگ شاعر نے کہا کہ بیگم امید سے ہے تو بچے کی پیدائش کے بعد ہی وہ جا سکیں گے پاکستان نہ جانے کی ان دونوں کی وجہ کہ وہاں پر انہیں اندھیرا ہی اندھیرا نظر آ رہا تھا یہاں کم از کم وہ میرے پاس تو آ جا سکتے تھے میں نے انکی ضروریات کا خیال کرتے ہوئے 10 اور 10 ہزار روپے انکی طرف سے مریم کے والد کے پاس جمع کروا دیئے اور انہیں کہا کہ جب وہ پاکستان جانا چاہیں ان سے روپے لے سکتے ہیں یہ انتظام میں نے اس لیے کیا تھا کہ میرا خود کچھ پتہ نہ تھا کہ مجھے اچانک پاکستان پہنچنے کا حکم مل جائے یا پھر دشمن کی اندھی گولیوں کا نشانہ بن جاؤں حاجی مستان اور یوسف پٹیل سے بھی ہر دس پندرہ روز کے بعد فون پر بات ہو جاتی تھی میں پاکستان جانے والی ڈاک میں اپنے گھر والوں کے لیے خط ضرور بھیجتا تھا اور اسی ذریعے سے مجھے جواب بھی مل جاتا تھا جسکا کچھ حصہ سیاہی سے مٹا ہوا ہوتا تھا مہاجروں کی دیکھا دیکھی میں نے اپنے خط رجسٹریشن کے ذریعے بھیجنے شروع کیے مگر انکے کوئی جواب نہ آے ایک دن خلاف معمول محسن نے مجھے آ کر کہا کہ غیر ملکیوں کے تمام خط بڑے ڈاکخانے میں ایک میز پر رکھ دیئے جاتے ہیں جہاں سے سب آ کر اپنے اپنے خط لے جاتے ہیں رجسٹرڈ خط بھی ڈاکخانے کے ایک کلرک کے پاس ہوتے ہیں جو رجسٹریشن کارڈ یا پاسپورٹ دکھا کر حاصلِ کیے جاتے ہیں آج جب وہ اپنا رجسٹرڈ خط لینے گیا تو اس نے آصف علی کے نام کے چار خط اس کے پاس دیکھے ہیں یہی بتانے کے لیے وہ آیا تھا میں فوری تیار ہو کر محسن کے ساتھ ڈاکخانے پہنچا اور چاروں بھاری برکم خط وصول کیے
جاری ہے

Next Episode

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.