Ads Top

Aur Neil Behta Raha By Inyat Ullah Altamish Episode No. 64 ||اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش قسط نمبر 64

Aur Neel Behta Raha
 By
Annyat Ullah Altamish

اور نیل بہتا رہا
از
عنایت اللہ التمش
Aur Neel Behta Raha  By  Annyat Ullah Altamish  اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش

 #اورنیل_بہتارہا/عنایت اللہ التمش
#قسط_نمبر_64

سپہ سالار عمرو بن عاص ان دونوں محاذوں سے جو ان کے خلاف بن گئے تھے بالکل بے خبر تھے۔ لشکر کی نفری اور کم ہوگئی تھی تاریخ میں واضح طور پر پتہ نہیں چلتا کہ اس وقت مجاہدین کی نفری کتنی تھی، نہ یہ پتہ چلتا ہے کہ انہیں مدینہ سے مزید کمک ملی تھی یا نہیں ،تین مؤرخوں نے جن میں ایک غیر مسلم تھا لکھا ہے کہ یہ نہیں مانا جاسکتا کہ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اتنی لڑائیوں کے بعد مصر کمک نہ بھیجی ہو، امیر المومنین کی بے تابیوں کا مصر کے محاذ کے ساتھ دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ زیادہ وقت مصر کی ہیں باتیں کرتے تھے اور اکثر اس راستے پر دور تک چلے جاتے تھے جس راستے سے قاصد آیا کرتے تھے، انہیں ہر وقت مصر کے محاذ کی اور مجاہدین کی پریشانی اور تشویش لاحق رہتی تھی، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انھوں نے کمک نہ بھیجی ہو۔
مصری تاریخ داں اور عالم محمد حسنین ہیکل نے متعدد مؤرخوں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ یہ معلوم کرنا ممکن نہیں کہ مدینہ سے مصر کو کتنی بار اور کتنی کمک گئی تھی لیکن یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ جب مجاہدین اسکندریہ کی طرف بڑھ رہے تھے اس وقت ان کی نفری بارہ ہزار سے زیادہ اور پندرہ ہزار سے کم تھی، یہ بھی واضح ہے کہ رومی فوج مجاہدین کے لشکر کی نسبت پانچ یا چھ گنا زیادہ تھی ۔رومی فوج کو قلعے کی آڑ اور پناہ میسر تھی، رومی اپنے ملک میں تھے۔ اور ان کے مقابلے میں مجاہدین بڑی دور سے آئے اور سوائے اللہ کی ذات کے انھیں پناہ اور پشت پناہی دینے والا کوئی نہ تھا۔
ایک مؤرخ نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ عرب کہ یہ مسلمان یقینا خودکشی کی طرف بڑھ رہے تھے ،سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ اتنی کم نفری کا لشکر اتنی بڑی فوج کو شکست دے سکے گا ؟،،،،،،،،اس سے پہلے ان مجاہدین نے ہر محاذ پر رومیوں کو شکست دی تھی لیکن اب ان کے راستے میں چٹان کھڑی ہوگئی تھی اصل خطرہ تو یہ تھا کہ سپہ سالار عمرو بن عاص بے خبر تھے۔
پھر ایک خطرہ اور بھی تھا وہ یہ کہ مجاہدین مسلسل بڑھتے چلے آ رہے تھے اور ہر لڑائی کا درمیانی وقفہ وہ پیش قدمی کی حالت میں رہتے تھے ،وہاں تو گھوڑے بھی تھک کر آہستہ چلنے لگے تھے مجاہدین تو انسان تھے جذبے اپنی جگہ انسانی جسم کی برداشت کی ایک حد ہوتی ہے ،تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ مجاہدین ادھر حد سے آگے نکل گئے تھے لیکن ان کا جوش و خروش پہلے دن جیسا تھا جس دن وہ مصر میں داخل ہوئے تھے۔ عمرو بن عاص نے اپنے لشکر کی اس جسمانی کیفیت سے بے خبر نہیں تھے پھر بھی وہ خطرے پر خطرہ مول لیتے چلے جارہے تھے۔ مبصرین لکھتے ہیں کہ عمرو بن عاص مصر کی فتح کے لیے دیوانگی کی حد تک پہنچے ہوئے تھے۔ انہوں نے بڑی مشکل سے امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو راضی کیا تھا کہ انھیں مصر پر فوج کشی کی اجازت دیں۔ امیرالمومنین نے اجازت تو دے دی تھی لیکن کئی ایک صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اس کے خلاف تھے جس میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل تھے ،وہ بزرگ صحابی تھے جن کی کوئی بات حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ٹالتےنہیں تھے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ دلیل پیش کی تھی کہ عمرو بن عاص، خالد بن ولید سے زیادہ خطرہ مول لینے والے سپہ سالار ہیں اور یہ کسی بھی وقت پورے لشکر کو یقینی ہلاکت میں ڈال دیں گے اور انہیں بروقت کمک نہیں پہنچائی جا سکے گی۔
امیر المومنین نے اس دلیل کو صحیح جانتے ہوئے بھی عمرو بن عاص کو مصر پر فوج کشی کی اجازت دے دی تھی، حقیقت یہ تھی کہ امیرالمومنین اجازت دے کر بھی سوچ میں پڑگئے تھے کہ ان کا یہ فیصلہ صحیح ہے یا نہیں اور جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے امیرالمومنین نے ایک قاصد عمرو بن عاص کے پیچھے اس پیغام کے ساتھ دوڑا دیا تھا کہ اگر وہ مصر کی سرحد میں داخل نہیں ہوئے تو واپس آجائیں، لیکن عمرو بن عاص نے ایک استادی کھیلی اور مصر کی سرحد میں داخل ہو کر یہ پیغام کھول کر پڑھا اور پیش قدمی جاری رکھی تھی۔
اب جب وہ آدھے سے زیادہ مصر فتح کرتے ہوئے اسکندریہ کی طرف بڑھ رہے تھے تو ایسے خطرے سامنے آگئے تھے جو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کی مخالفت کی تائید کرتے تھے۔ یوں نظر آتا تھا جیسے عمرو بن عاص فتوحات کے نشے سے سرشار اندھا دھن خطروں میں چلے آ رہے ہیں اور اب وہ اپنی شکست کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=*
سپہ سالار عمرو بن عاص کو ایک جاسوس مجاہد نے آگے سے آکر یہ اطلاع دی کہ رومیوں کی جو فو جی بھاگ گئے تھے وہ چھ میل دور سلطیس کے قریب اکٹھے ہوگئے ہیں، اور ان کے ساتھ اس علاقے کا ایک بڑی نفری والا دستہ بھی موجود ہے۔ جاسوس نے بتایا کہ اس نے ان فوجیوں کو بڑے غور سے دیکھا ہے اور پھر معلوم بھی کیا کہ یہ رومی مجاہدین کے انتظار میں ہیں اور جم کر لڑنے کا عہد کر چکے ہیں۔
عمرو بن عاص سیدھے چلے جارہے تھے، اور جس جگہ کی نشاندہی جاسوس مجاہد نے کی تھی وہ کسی اور سمت تھی ،عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں سے مشورہ کئے بغیر اپنے گھوڑے کی باگیں اس طرف موڑ دیں اور بازو اوپر کر کے لشکر کو اشارہ کیا کہ ان کے پیچھے آئے۔
 سپہ سالار لڑنے کے ارادے سے اس طرف ہولئے تھے انہوں نے جاسوس سے پوچھ لیا تھا کہ فوجیوں کی نفری کتنی ہے۔ نفری مجاہدین سے تقریبا دوگنی تھی ۔
سلطیس کی طرف رخ کرکے اور کچھ دور جاکر عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں کو بلایا، سالار آئے تو عمرو بن عاص نے روک کر نہیں بلکہ چلتے چلتے انہیں بتایا کہ وہ کدھر جا رہے ہیں اور کیا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ انہوں نے سالاروں کو وہ ترتیب بتائی جس میں مجاہدین کے لشکر کو دشمن کے قریب جاکر ہو جانا تھا ۔ سپہ سالار نے تمام ضروری ہدایات دیں اور یہ بھی بتایا کہ دشمن کھلے میدان میں لڑے گا اور دور دور تک کوئی قلعہ نہیں جس میں جاکر دشمن پناہ لے گا اور ہمیں للکارے گا۔
لشکر کے نامور سالار زبیر بن العوام نے عمرو بن عاص سے پوچھا کہ وہاں کی زمین کے خدوخال کیسے ہے ،یہ علاقہ عمرو بن عاص نے پہلے نہیں دیکھا تھا وہ اتنا ہی جانتے تھے کہ یہ نیل کا ڈیلٹا علاقہ ہے اور نیل کی شاخوں میں بٹ جاتا ہے ۔عمرو بن عاص نے سالار زبیر بن العوام کو بتایا کہ آگے دلدل بھی ہو سکتی ہے، جنگل بھی ہو سکتا ہے، اور کھلا میدان بھی ہو سکتا ہے، لیکن سالار زبیر صحیح خدوخال معلوم کرنا چاہتے تھے انھوں نے اس جاسوس مجاہد کو اپنے پاس بلایا جو یہ خبر لایا تھا اور اب لشکر کے ساتھ جا رہا تھا۔
زبیر بن العوام نے اس جاسوس مجاہد سے پوچھا کہ رومی فوج جہاں لڑنے کے لیے تیار کھڑی ہے اس کے اردگرد کا علاقہ کیسا ہے۔ جاسوس مجاہد نے انھیں بڑی اچھی طرح سمجھا دیا اس نے یہ بھی بتایا کہ ایک طرف زمین نیچے چلی جاتی ہے جہاں کچھ دلدل سے ہیں ،اور کچھ درخت بھی ہیں ،اور نیچے جا کر زمین خاصی پھیل جاتی ہے۔ سالار زبیر نے سپہ سالار کو بتایا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ سپہ سالار نے انہیں اجازت دے دی اور پیش قدمی جاری رکھی بلکہ رفتار اور تیز کردی چھے میل کا فاصلہ گھوڑوں نے اور پیادوں نے بڑی جلدی طے کر لیا اور انہیں رومی فوج نظر آنے لگی۔ رومی فوج کو اس کے جاسوس نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ مسلمان آ رہے ہیں اور ان کی تعداد کتنی ہے۔ سپہ سالار عمرو بن عاص نے جب رومی فوج کو دور سے دیکھا تو انھیں اندازہ ہو گیا کہ اس فوج کی نفری ان کے لشکر سے دگنی ہے اور یہ رومی فوج تمام کی تمام گھوڑ سوار ہے۔
عمرو بن عاص نے اپنا گھوڑا راستے سے الگ کیا اور رک گئے، لشکر ان کے سامنے سے گزرتا جا رہا تھا عمرو بن عاص دایاں بازو اوپر کئے ہلا رہے تھے ،اور بلند آواز سے کہ رہے تھے ۔تم اس آزمائش میں سے بھی سرخرو گزر جاؤگے ،،،،،،اللہ نے تمہیں فراموش نہیں کیا ،،،،،،،تمہارے جسم تھکے ہوئے ہیں روحیں تروتازہ ہیں،،،،، تم اس آزمائش میں بھی سرخرو گزر جاؤ گے،،،،،، وہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد یہی کہتے رہے اور لشکر ان کے سامنے سے گزر گیا تب انہوں نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور گھوڑا دوڑاتے لشکر کے آگے چلے گئے۔
رومی فوج پہلے ہی ترتیب میں تیار تھی مجاہدین کے لشکر کو دیکھ کر رومیوں کے کمانڈر نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور دستوں کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
 وہ دیکھو تمہارا دشمن آ رہا ہے۔۔۔۔ رومی کمانڈر نے بڑی ہی بلند آواز سے کہا ۔۔۔۔اس دشمن کی تعداد دیکھو ،عرب کے یہ بدوّ تھک کر شیل ہو چکے ہیں ،عہد کر لو کہ ان کے ٹکڑے اڑا دو گے ،اپنے آپ کو ان میں شامل نہ کر لینا جو بھاگ نکلے ہیں، اپنی آنے والی نسلوں کے لیے اپنا نام ایسا اونچا کرو کہ ہمیشہ زندہ رہے۔
 رومی کمانڈر نے ایسے ہی کچھ اور جوشیلے الفاظ کہے کہ ان دستوں میں جوش و خروش نظر آنے لگا۔
مجاہدین کا لشکر قریب پہنچا تو سالاروں نے اپنے آپ ہی اپنے اپنے دستے الگ کئے اور لشکر ایک مشین کی طرح چلتے چلتے لڑائی کی ترتیب میں آگیا ،لڑائیوں کے دستور کے مطابق ہوتا یوں تھا کہ دونوں طرف فوجیں ایک دوسرے کے قریب آ کر ایک دوسرے پر حملہ کرتی اور لڑائی لڑی جاتی تھی، لیکن مجاہدین کا لشکر ابھی ترتیب میں آیا ہی تھا اور کچھ دور تھا کہ تمام تر رومی فوج نے گھوڑوں کو ایڑ لگا دی، پرچھیاں اور تلواریں آگے کر لیں اور شدید ہلہ بول دیا، وہ تو گھوڑوں اور انسانوں کا ایک بڑا ھی تند و تیز طوفان تھا جو لگتا تھا درخت راستے میں آئیں گے تو جڑوں سے اکھڑ جائیں گے ،گھوڑوں کے نیچے زمین ہل رہی تھی زمین و آسمان دم بخود تھے کہ یہ ہلہ مجاہدین کا لشکر برداشت کر سکے گا یا نہیں۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے رومیوں کا یہ ہلہ دیکھا تو اپنے دستوں کو اور زیادہ دائیں بائیں پھیلا دیا ،انہیں ایسی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد سپہ سالار کو کوئی نہ کوئی حکم اور ہدایت بھیجتے یہ مسلمانوں کا اپنا طریقہ تھا کہ اتنے بڑے دشمن کا مقابلہ کس طرح کیا جاتا ہے ،معرکے کے لئے جو ابھی شروع ہوا تھا سپہ سالار نے راستے میں سالاروں کو بتا دیا تھا کہ کن حالات میں کیا پینترے بدلنے ہیں۔
اب دیکھا کہ رومی فوج بند توڑ کر آنے والے سیلاب کی طرح یا بڑی ہی تیز طوفان کی طرح آرہی ہے تو یوں لگتا تھا جیسے اتنے ہزار گھوڑے مجاہدین کے اس چھوٹے سے لشکر کو روندتے چلے جائیں گے۔ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ سپہ سالار عمرو بن عاص کے ہونٹوں پر تبسم آ گیا انہوں نے اپنے سالاروں کی طرف دیکھ کر جو ان سے دور دور تھے ہاتھ اوپر کر کے کچھ اشارے کیے، پہلو والے دستے اور زیادہ پھیل گئے اور درمیان میں جو دستے تھے وہ رومیوں کے مقابلے کو آگے بڑھے ۔
رومی چیختے چلاتے آرہے تھے مجاہدین کے لشکر سے صرف ایک نعرہ تکبیر بلند ہوا جس کے جواب میں پورے لشکر نے اتنی زور سے اللہ اکبر کہا کہ آسمان بھی لرز گیا ہوگا ۔
وہ قبل از شہادت کا جوش اور ولولہ تھا۔ 
مجاہدین کے وہ دستے جو دشمن کے مقابلے کو آگے بڑھے تھے وہ دشمن سے ٹکرا گئے وہ اتنے تھوڑے تھے کہ اتنے زیادہ رومیوں میں غائب ہی ہو جاتے لیکن ان کا انداز یہ تھا کہ لڑ رہے تھے اور آہستہ آہستہ پیچھے بھی ہٹ رہے تھے، ادھر دائیں اور بائیں پہلو پر جو مجاہدین کے دستے تھے وہ اپنے سالاروں کے حکم کے مطابق اس طرح دائیں بائیں پھیل گئے کہ رومیوں پر آمنے سامنے کی بجائے پہلوؤں سے حملہ کریں۔
عمرو بن عاص نے محفوظہ (ریزور) کے دو دستے پیچھے روکے ہوئے تھے انھیں خاص صورتحال میں آگے بڑھنا تھا مطلب یہ کہ عمرو بن عاص اتنے کثیر دشمن کے مقابلے میں بھی دماغ کو حاضر اور دل کو ٹھنڈا رکھ کر سوچ رہے تھے اور ان کے انداز میں گھبراہٹ کا اشارہ بھی نہیں ملتا تھا۔
مجاہدین رومیوں کے پہلوؤں میں جانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن رومی اس کے مطابق پھیلتے جا رہے تھے، ادھر آمنے سامنے والے دستے پیچھے ہٹتے آرہے تھے اور اس کے مطابق رومی بھی یہ سمجھ کر کہ مجاہدین ہلنے کی تاب نہ لاکر پسپا ہو رہے ہیں آگے ہی آگے آتے گئے۔ سپہ سالار کی کوشش یہ تھی کہ رومیوں کی ترتیب کو درہم برہم کر دیں، لیکن رومیوں کی تعداد اتنی زیادہ تھیں کہ وہ اپنی تعداد کے زور پر مجاہدین کو کچل اور مسل دینا چاہتے تھے اور انہیں توقع بھی یہی تھی کہ وہ اس چال میں کامیاب ہو جائیں گے آج کی فوجی زبان میں اسے بلڈوز کرنا کہتے ہیں۔
یہ ایک خونریز معرکہ تھا لیکن مجاہدین اپنے آپ کو بچا بھی رہے تھے کیونکہ انکے سالاروں کو معلوم تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے ۔ظاہری صورت یہ تھی کہ رومی مجاہدین پر غالب آ گئے تھے اور مجاہدین کی کوئی چال کامیاب نہیں ہونے دے رہے تھے۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ مجاہدین ان کے پہلوؤں پر آنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ بھی دیکھا گیا کہ اس رومی فوج میں دوسری جگہوں سے بھاگے ہوئے فوجی بھی تھے لیکن اس معرکے میں ان کے جوش اور جذبے میں کوئی اور ہی تازگی پیدا ہو گئی تھی وہ واقعی یہ عہد کر چکے تھے کہ مجاہدین اسلام کو اسی میدان میں کاٹ پھیکیں گے۔
صور ایسی پیدا ہو گئی تھی جو مجاہدین کے لئے انتہائی خطرناک تھی، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنی کی یہ بات صحیح معلوم ہونے لگی تھی کہ عمرو بن عاص کسی بھی وقت پورے لشکر کو ہلاکت میں ڈال دیں گے ،اب نظریں ہیں آنے لگا تھا کہ عمرو بن عاص نے لشکر کو یقینی ہلاکت میں ڈال دیا ہے۔ لیکن ان کے چہرے سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہ متفکر تو ضرور ہے پریشان نہیں، بلکہ ان کے چہرے پر اطمینان کی بھی جھلک تھی ،اور اتنے ٹھنڈے مجاز میں رہے کہ انہوں نے محفوظ کے دستوں کو پیچھے ہی رہنے دیا۔ ایسی صورتحال میں اکثر کمانڈر محفوظہ دستوں کو بھی لڑائی میں جھونک دیا کرتے ہیں۔
عمرو بن عاص نے گھوڑا دوڑا دیا اور ایک موزوں مقام پر گھوڑا روک کر دا بائیں بازو اوپر کیا اور ہاتھ سے کوئی اشارہ دیا جس طرف اشارہ کیا تھا ادھر سے سیکڑوں گھوڑے دوڑنے کا ہنگامہ سنائی دیا، لیکن ادھر معرکے کا ہنگامہ اتنا شدید تھا کہ کسی نے سنا ہی نہیں کہ یہ گھوڑے کس کے ہیں اچانک رومیوں کے عقب سے ان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ رومیوں کی پیٹھوں میں تلواریں اور برچھیاں اترنے لگی اور وہ یہ دیکھے بغیر کے پیچھے کون آگیا ہے گھوڑوں سے گرنے تڑپنے اور مرنے لگے ،گھوڑے انہیں روندنے لگے، رومیوں کے لشکر میں کھلبلی مچ گئی ان کا ہلہ اور اس کی شدت یکلخت کم ہو گئی، اور وہ پیچھے دیکھنے لگے۔
 وہ سالار زبیر بن العوام تھے جنہوں نے ڈیڑھ دو ہزار مجاہد سے رومیوں پر سے حملہ کیا تھا لشکر جب اس میدان جنگ کی طرف آ رہا تھا تو سالار زبیر نے جاسوس مجاہد سے پوچھا تھا کہ وہاں کی زمین کے خدوخال کیا ہیں، انہیں جب بتایا گیا کہ ایک پہلو پر جا کر زمین نیچے چلی جاتی ہے تو زبیر بن العوام 
نے سپہ سالار سے اجازت لی تھی کہ ایک چال چلنا چاہتے ہیں
ان کی چال یہ تھی کہ میدان جنگ سے دور ہی تھے کہ انہوں نے ڈیڑھ دو ہزار مجاہدین کو ساتھ لیا اور دور کا چکر کاٹ کر اس جگہ جا پہنچے جہاں زمین زیادہ نیچے کو چلی گئی تھی وہاں انہوں نے اپنے مجاہدین کو چھپا لیا تھا اور یہ سارا دستہ گھوڑ سوار تھا۔
زبیر بن العوام کہیں اونچی جگہ کھڑے لڑائی کا منظر دیکھ رہے تھے انہوں نے جب دیکھا کہ رومی مجاہدین پر غالب آ گئے ہیں اور کوئی چال چلنے کی مہلت نہیں دے رہے تو انہوں نے اپنے دستے کو حملے کا حکم دیا وہ پہلے پورے دستے کو بتا چکے تھے کہ کیا کرنا ہے، سپہ سالار نے حملے کا اشارہ بھی دے دیا تھا یہ دستہ سالار زبیر کی قیادت میں کچھ دور جاکر اس نیچی جگہ سے باہر نکلا اور رومیوں کے پیچھے جا کر پھیل گیا رومیوں کو لڑائی کے ہنگامے میں پتہ ہی نہ چل سکا۔
یہ خالد بن ولید کی چال تھی جو انہوں نے دو تین مرتبہ لڑائیوں میں چلی اور کثیر تعداد دشمن کو کاٹ پھینکا تھا ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ عمرو بن عاص خالد بن ولید کی چالیں چلتے اور انہیں اپنا استاد مانتے تھے ۔احباب اور ساتھیوں کی محفل میں ان چاروں کی باتیں ہوتیں تو عمرو بن عاص خالد بن ولید اور ابو عبیدہ کے حوالے دیا کرتے تھے۔
جنگی چالوں کے معاملے میں رومی جرنیل بھی کچھ کم نہ تھے اور کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے ہم پلہ تھے، خود ہرقل جنگی چالوں کا ماہر تسلیم کیا جاتا تھا ،اور اس کا جرنیل اطربون تو اس فن میں خصوصی طور پر ماہر تسلیم کیا جاتا تھا ۔اسے دوسری قومیں جنگ کی دہشت سمجھتی تھی لیکن وہی ہرقل شام جیسا وسیع و عریض ملک مجاہدین اسلام کے قدموں میں رکھ کر اس طرح بھاگا اور مصر میں اسکا نامور جرنیل اطربون مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا ۔
وجہ یہ تھی کہ مسلمان اللہ اور قرآن کے حکم سے لڑتے تھے اور ہرقل اپنی ذات کو ہی سب کچھ سمجھتا تھا ۔ مجاہدین اسلام کو اللہ نے ایمان کی قوت عطا فرمائی تھی جس سے رومی مرعوب تھے۔
رومیوں پر عقب سے سالار زبیر بن العوام نے ہلہ بولا تو وہ پیچھے کو متوجہ ہوئے اور کٹنے لگے اور عین اس وقت سپہ سالار عمرو بن عاص نے محفوظہ کے دستوں کو حملہ کرنے کا حکم دے دیا اب رومی تعداد میں خواہ دوگنے بھی تھے نرغے میں آگئے اور ان پر آگے سے بھی اور پیچھے سے بھی ایسا حملہ ہوا کہ وہ سکڑ گئے، اور ان کے لیے کوئی چال چلنا تو دور کی بات ہے ہتھیار چلانا بھی دشوار ہو گیا اس کے ساتھ ہی مجاہدین نے ان پر پہلوؤں سے بھی حملہ کردیا رومی گر گر کر اپنے ہی گھوڑوں کے قدموں تلے روندے جانے لگے، اب وہ بھاگ نکلنے کے راستے دیکھنے لگے ان کے عہد و پیمان ٹوٹ گئے ان کے کمانڈر کا پرچم گر پڑا اور کمانڈر کا کچھ پتا نہ چلا وہ کہاں غائب ہو گیا ہے۔
رومی بھاگتے بھی تو کہاں جاتے دور دور تک کوئی قلعہ نہ تھا جہاں جا کر پناہ لیتے۔
 بہرحال وہ اب جان بچانے کے لیے لڑ رہے تھے اور جس رومی کو بھاگ نکلنے کا موقع ملتا وہ فورا بھاگ اٹھتا۔ مجاہدین کی کمزوری یہ تھی کہ ان کی تعداد بہت تھوڑی تھی رومیوں کو مجاہدین کی اس کمزوری نے خاصا فائدہ پہنچایا اور کچھ رومی بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ۔ ان کا رخ کریون کی طرف تھا جو مستحکم قلعہ بند شہر تھا اور یہ شہر وہاں سے خاصا دور تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
کریون میں جنرل تھیوڈور نئے عزم اور تازہ ولولے کے ساتھ اس فوج کی ٹریننگ میں مصروف تھا جو اس نے قلعے میں اکٹھی کر رکھی تھی۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اب وہ اپنے آپ کو مختار کل سمجھنے لگا تھا اور اس کے ساتھ جو جرنیل تھے انہوں نے اپنی وفاداریاں پیش کردی تھیں۔ اطربون کے بعد جنرل تھیوڈور ہی ایک قابل جرنیل رہ گیا تھا،اور اس کے بعد جنرل جارج تھا۔ تھیوڈور میں اتنی اہلیت اور اتنا تجربہ تھا کہ وہ مختار کل کہلانے کا پورا پورا حق رکھتا تھا۔
اس نے اپنے جرنیلوں سے کہا تھا کہ جو دستہ کریون سے دور دور مسلمانوں کے ساتھ راستے میں مورچہ بند ہیں انہیں وہیں رہنے دیا جائے تا کہ وہ مسلمانوں کے راستے کی رکاوٹ بنے رہے اور انھیں کمزور کرتے رہیں، ایک روز وہ اپنی فوج کو خود ٹریننگ دے رہا تھا کہ اسے اطلاع ملی کہ ایک لڑائی سے کچھ رومی سپاہی بھاگ کر آئے ہیں اس نے اسی وقت ان سپاہیوں کو بلایا، پہلے تو اس نے یہ دیکھا کہ ان سپاہیوں کے چہروں پر شکست صاف نظر آ رہی تھی اور وہ ٹھیک طرح بول بھی نہیں سکتے تھے۔ تھیوڈور نے گرج کر انہیں ڈانٹا اور کہا کہ وہ اتنے بزدل نہ بنیں کہ اپنے قلعے میں آکر بھی ان کے منہ سے بات نہیں نکل رہی۔
 کاٹ دیا۔۔۔ آخر ایک سپاہی نے لرزتی کانپتی آواز میں کہا۔۔۔ سب کو کاٹ دیا ۔
ٹھیک طرح بولو ۔۔۔تھیوڈور نے غصیلی آواز میں پوچھا ۔۔۔کس نے کس کو کاٹ دیا۔
ان سپاہیوں نے اسے بتایا کہ کہاں لڑائی ہوئی ہے اور کیا ہوا ہے ،اتنے میں جنرل تھیوڈور کو پھر اطلاع ملی کہ کچھ اور سپاہی آئے ہیں جن میں کچھ زخمی بھی ہیں ،اب جنرل تھیوڈور نے یہ ضرورت نہ سمجھی کہ ان سپاہیوں کو بھی اپنے پاس بلاتا اس کے بعد اسے یہی خبر ملتی رہی کہ کچھ اور فوجی آئے ہیں اس طرح شام تک اور رات کو بھی سلطیس کے معرکے سے بھاگے ہوئے رومی کریون میں آتے رہے۔ اگلی صبح تک کریون کی فوج میں ایسی کھسر پھسر شروع ہو گئی تھی جس میں ڈر اور خوف کی جھلک نمایاں تھیں۔ حسب معمول اور حسب عادت بھگوڑے فوجیوں نے مسلمانوں کی بہادری کے قصے مبالغہ آرائی سے سنائیں تاکہ لوگ ان بھگوڑے رومیوں کو بزدل نہ سمجھیں، ان کی یہ باتیں لوگوں تک بھی پہنچی اور شہر پر خوف و ہراس طاری ہونے لگا ۔ لوگوں نے پہلے ہی سن رکھا تھا کہ مسلمان اگر خود جنات نہیں تو ان میں جنات والی پراسرار طاقت ضرور موجود ہے اس سے پہلے دوسری جگہوں سے بھاگے ہوئے کچھ لوگ کریون پہنچے تھے اور انہوں نے بھی یہاں کے لوگوں کو ایسی ہی ڈراونی باتیں سنائی تھیں۔
جنرل تھیوڈور اور اس کے جرنیلوں کو پتہ چلا کہ فوج اور لوگوں پر یہ کیفیت طاری ہوگئی ہے تو ان کے لیے اچھا خاصا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ وہ فوج اور لوگوں کا جذبہ مضبوط کرنے کی کوشش میں تھے لیکن مسئلہ وہیں رہا جہاں پہلے تھا۔ تھیوڈور اور دوسرے جرنیل بھی جانتے تھے کہ ان کی فوج میں اور لوگوں میں بھی یہی کمزوری پیدا ہو گئی ہے کہ انہوں نے اپنے دلوں پر مسلمانوں کا خوف طاری کر لیا ہے یہ خوف رفع کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا ۔جنرل تھیوڈور ایک ہی بات پر زور دیتا تھا کہ ان مسلمانوں کو ایک بار شکست دی جائے اور ان کی لاشیں اور ان کے قیدی اپنے لوگوں کو دکھائے جائیں اور کہا جائے کہ یہ دیکھو ان مسلمانوں کو جن سے تم بلاوجہ ڈرتے رہے ہو۔
ہرقل نے بھی ایسی بہت باتیں سوچی تھی اور ان پر عمل بھی کیا تھا لیکن کچھ اثر نہیں ہوا تھا ۔اب جرنیل بھی وہی ہر ترکیبیں لڑا رہے تھے، لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ مسلمان اللہ کے حکم سے لڑتے ہیں اور اللہ نے اپنا فرمان قرآن میں ان الفاظ میں وحی کے ذریعے ان مومنین تک پہنچایا ہے کہ جب مسلمانوں کو لوگوں نے بتایا کہ کفار نے تمہارے مقابلے میں بہت بڑا لشکر اکٹھا کر لیا ہے اس لیے ان سے ڈرو ،تو ہوا یہ کہ مسلمان ڈرنے کی بجائے اپنے ایمان پر اور زیادہ قائم ہو گئے اور ان کا ایمان مستحکم ہو گیا اور انہوں نے کہا کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور وہی بہترین سازگار ہے۔
سورہ عمران کی اس آیت میں اللہ نے اہل ایمان کو یہ مژدہ سنایا ہے کہ ،کفار تمہارے خلاف کتنا ہی بڑا لشکر اکٹھا کر لیں اگر تم اپنے ایمان پر قائم رہے تو تم اپنے آپ میں قلیل تعداد ہونے کے باوجود کوئی کمزوری نہیں پاؤ گے، اور اللہ تمہارا مددگار اور سازگار ہو گا ، یہ تھی وہ قوت جسے رومی نہیں سمجھ رہے تھے مختصر بات یہ کہ کفار کو شمسیر پر بھروسہ تھا اور اہل ایمان کو اپنے ایمان پر تکیہ تھا اور وہ شمشیر کو بعد کا درجہ دیتے تھے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
جنرل تھیوڈور اور اس کے ساتھی جرنیل بہت پریشان تھے کہ اپنی فوج اور لوگوں کے دلوں سے مسلمانوں کا خوف کس طرح نکالا جائے۔ اتنے میں انہیں آسمان سے ایک مدد مل گئی۔ وہ اس طرح کے اسکندریہ سے کچھ دستے کمک لے کر آ گئے یہ قیرس نے بھیجے تھے۔ یہ بزنطیہ سے آئے ہوئے تازہ دم دستے تھے اور ابھی یہ مجاہدین اسلام کے مقابلے میں نہیں آئے تھے۔
اس کمک کے ساتھ چند ایک مبلغ بھی تھے جنہیں قیرس بزنطیہ سے ساتھ لایا تھا۔
 معلوم ہوا کہ ایسے کئی ایک مبلغ اردگرد کی بستیوں میں پھیلا دیے گئے ہیں جو لوگوں کو مذہب کی طرف اور مسلمانوں کو شکست دینے کی طرف مائل کر رہے ہیں ۔ کریون میں جو مبلغ آئے انہوں نے آتے ہی لوگوں سے ملنا شروع کردیا، تھیوڈور نے انہیں بتا دیا تھا کہ ان لوگوں پر مسلمانوں کا خوف غالب آگیا ہے یہ خوف رفع کرنا ہے۔
یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ مجاہدین کا لشکر اس لڑائی کے فوراً بعد وہاں سے چل پڑتا، اپنے شہیدوں کی تجہیز و تکفین کرنی تھی اور زخمیوں کی مرہم پٹی بھی لازمی تھی، اور انہیں کچھ دنوں کی مہلت دینی تھی کہ ان کے زخم بہتر ہو جائیں لشکر کو کچھ آرام بھی دینا تھا رومیوں کے گھوڑے اور ان کے ہتھیار بھی اکٹھے کرنے تھے، اور ایسے بے شمار ہی کام تھے جو کر کے وہاں سے کوچ کرنا تھا۔
 مجاہدین کی جو مستورات لشکر کے ساتھ تھیں انھیں دور پیچھے چھوڑ دیا گیا تھا تاکہ میدان جنگ کی زد میں نہ آئیں، انہیں آگے بلا لیا گیا تاکہ وہ زخمیوں کی مرہم پٹی وغیرہ کے سلسلے میں اپنا کام کریں ۔
عمرو بن عاص جلدی میں تھے تاکہ دشمن کو کہیں سنبھلنے اور تیاری کرنے کا موقع نہ مل سکے، پھر بھی کم و بیش ایک مہینہ گزر گیا اور اس ایک مہینے میں کریون میں اور اردگرد کے دور دور تک کے علاقے میں ایک تبدیلی رونما ہوگئی جو مجاہدین کے لیے اچھی نہیں تھی۔
یہ تبدیلی وہ مبلغ لائے تھے جنہیں قیرس نے بزنطیہ سے اپنے ساتھ لایا تھا۔ ان مبلغوں کے متعلق تاریخ میں کوئی زیادہ تفصیلات نہیں ملتی لیکن ان کی کارکردگی اور پروپیگنڈے کے جو اثرات سامنے آئے ان سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنے مذہب کی تبلیغ تو کی ہی تھی لیکن لوگوں کو مسلمانوں کے مقابلے میں لانے کے لیے کچھ اور ہی پروپیگنڈہ کیا تھا ،اور ایسے طریقے استعمال کیے تھے کہ لوگ ان سے متاثر ہوگئے، کریون کے اردگرد کی آبادیوں اور چھوٹی بڑی بستیوں میں یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ مسلمانوں کے خلاف کریون میں فیصلہ کن جنگ ہو گی اور اس میں ہر عیسائی کا شامل ہونا مذہبی فریضہ ہے۔
ان مبلغوں نے اور تھیوڈور کے آدمیوں نے بھی اردگرد کے علاقے میں مسلمانوں کے خلاف اچھی خاصی نفرت پیدا کر دی، پروپیگنڈا کچھ اس قسم کا ہوا کہ مسلمان لوٹ مار کے لیے آ رہے ہیں، اور عورتوں کے معاملے میں وہ وحشی ہیں، اور بچوں کو قتل کرنا ایک کھیل سمجھتے ہیں، لوگوں سے یہ بھی کہا گیا کہ مسلمان سب سے پہلے بستیوں پر ٹوٹ پڑیں گے، اور انہیں اجاڑ کر رکھ دیں گے، اور اس کے بعد قلعے کو محاصرے میں لے لیں گے۔ اس پروپیگنڈے کا جس پر مذہب کا رنگ چڑھا ہوا تھا یہ اثر ہوا کہ اردگرد کی بستیوں کے وہ لوگ جو ابھی جوانی کی عمر میں یا لڑنے کی عمر میں تھے کریون شہر میں اکٹھے ہونے لگے اور وہ جرنیل تھیوڈور کو اپنی خدمات اس طرح پیش کرتے تھے کہ انہیں فوج میں شامل کر لیا جائے ، وہ لوگ جو لڑنے کے قابل نہیں تھے اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنے جرنیلوں کو ہر طرح کے تعاون اور امداد کا یقین دلارہے تھے ، مختصر یہ کہ لوگوں میں بیداری پیدا ہوگئی تھی اور انہوں نے اپنے دلوں سے مسلمانوں کا خوف جھٹک ڈالا تھا۔ بعض مؤرخوں نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ لوگ اس قدر خوفزدہ تھے کہ وہ اکٹھے ہو گئے اور انھیں بتایا گیا کہ اس خوف سے نجات کا یہی ایک ذریعہ ہے کہ اکٹھے ہوکر اپنی فوج کا بازو مضبوط کریں۔
قبطی عیسائیوں کی اچھی خاصی تعداد مجاہدین کے لشکر کے ساتھ تھیں، پہلے بتایا جا چکا ہے کہ یہ قبطی لڑنے کے لیے نہیں بلکہ امدادی کاموں کے لیے لشکر کے ساتھ تھے ،مثلاً کسی گہرے اور چوڑے نالے پر پل بنانا ہوتا تو یہ قبطی بناتے تھے، یا راستے میں کوئی اور رکاوٹ آ جاتی تو وہ اس رکاوٹ کو ہٹاتے تھے، ان کاموں کے لئے وہ لشکر سے خاصہ آگے آگے جاتے تھے مصری بدوّ بھی لشکر میں شامل تھے اور وہ باقاعدہ لڑائی میں شریک ہوتے تھے اور لڑنے کے علاوہ رسد اکٹھی کرنے کا کام انہوں نے اپنے ذمے لے رکھا تھا ،ان کے ساتھ مسلمانوں کا سلوک برتاؤ بہت ہی اچھا تھا ،مال غنیمت میں سے انہیں پورا پورا حصہ ملتا تھا ، مسلمانوں کے اس کردار سے وہ اس قدر مطمئن تھے کہ اپنے گھروں کو کبھی واپس جانے کی بات ہی نہیں کرتے تھے۔
مسلمانوں کا جاسوسی کا نظام ہمیشہ بڑا ہی کارآمد رہا ہے ،حالانکہ انہوں نے عیسائیوں اور یہودیوں کی طرح کبھی لڑکیوں کو استعمال نہیں کیا تھا ۔ جاسوس مجاہدین ہر بھیس بدل لیتے اور اپنی اصلیت کو چھپا لیتے کبھی تو وہ اپنے آپ کو یقینی موت یا گرفتاری کے خطرے میں ڈال لیا کرتے تھے ۔
عمرو بن عاص نے اپنے جاسوس آگے بھیج رہے تھے اب جاسوسوں نے سپہ سالار عمرو بن عاص کو پوری رپورٹ دی تھی کہ بستیوں میں اسکندریہ سے کچھ ایسے لوگ آئے ہیں جو یہاں کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف اکسا رہے ہیں، اور انہیں بے بنیاد باتیں بتا رہے ہیں، لوگوں کا جو ردعمل تھا جاسوس نے وہ بھی بتایا اور پھر سپہ سالار کو یہ اطلاع بھی مل گئی کہ یہ لوگ بھی کریون میں اکٹھے ہو رہے ہیں ،اور مجاہدین کے خلاف بڑا ہی مضبوط محاذ بن رہا ہے۔
 عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں کو بلا کر اس صورت حال سے آگا ہ کر دیا تھا، ان کا دھیان قبطی عیسائیوں اور مصری بدوؤں کی طرف چلا گیا تھا جو مجاہدین کے لشکر کے ساتھ تھے ۔سپہ سالار نے سالاروں کو اس خطرے سے خبردار کردیا اور یہ ہدایت جاری کی کہ نظر رکھی جائے کہ باہر کا کوئی شخص مرد یا عورت ان قبطیوں اور بدوؤں کے پاس نہ آئے، اور ان کا رابطہ باہر کے کسی شخص کے ساتھ نہ ہو ،اس کے ساتھ ہی یہ خیال بھی رکھا جائے کہ ان بدوؤں اور قبطیوں کے ساتھ اپنا سلوک پہلے سے زیادہ اچھا کر لیا جائے۔
اپنی مستورات کو بھی بتا دیا جائے۔۔۔ سپہ سالار نے کہا۔۔۔ انہیں بتا دیں کہ قبطیوں اور بدوؤں کی جو عورتیں ان کے ساتھ ہیں ان کے ساتھ اور زیادہ پیار اور شفقت سے پیش آئیں، اور نظر رکھیں کہ باہر کی کوئی عورت ان کے پاس نہ آئے، اگر کوئی عورت آتی ہے تو اسے منع کرنے کی بجائے اس کے ساتھ عیسائی کی حیثیت سے بات کریں، اور بھید لیں کہ وہ کون ہے اور کیوں آئی ہے،،،،،مجھے اسکندریہ سے خبر مل چکی ہے کہ قیرس مبلغوں کی ایک فوج اپنے ساتھ لایا ہے یہ مبلغ ہر طرف پھیل گئے ہیں اور لوگوں کو اپنے زیر اثر کر رہے ہیں ، ہم نے اس سے زیادہ بڑے خطروں کا مقابلہ کیا ہے، اور اللہ نے ہمیں کامرانی عطا کی ہے ،اگر کریون میں بستیوں کے لوگ فوج کے ساتھ جا ملے ہیں تو اس سے ہمیں ڈرنا نہیں چاہیے یہ ایک بے لگام ہجوم ہے جس کا احساس رومی جرنیلوں کو شاید نہیں ہوا ہم انھیں بکھیر دیں گے۔
ادھر قلعے میں جرنیل تھیوڈور بڑے ہی پرمسرت اور فاتحانہ لہجے میں اپنے جرنیلوں کے ساتھ مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کا پلان بنا رہا تھا ،اسے خوش ہونا ہی چاہیے تھا، کمک کے آجانےسے اور پھر لوگوں کو فوج میں شامل ہونے سے اس کے پاس بے انداز نفری اکٹھی ہوگئی تھی، اسے وہ اتنی بڑی طاقت سمجھتا تھا جس سے ٹکرا کر مجاہدین پاش پاش ہوجائیں گے۔
ان عربوں کی تعداد دیکھو ۔۔۔تھیوڈور نے ایسے لہجے میں کہا جس میں غرور اور تکبر کی جھلک تھی۔۔۔ سلطیس کی لڑائی میں انہوں نے ہماری فوج کو شکست دی ہے اور بہت ہی جانی نقصان پہنچایا ہے، لیکن ان کی اپنی تعداد جو پہلے ہی کم تھی اور کم ہوگئی ہے، اب ہم اتنی زیادہ فوج سے انھیں قتل اور مسل کر رکھ دیں گے، انہیں مہلت دو کے یہ شہر کا محاصرہ کر لیں، تم اندازہ کر سکتے ہو کہ یہ جب محاصرہ کر لیں گے تو بکھر جائیں گے کیونکہ محاصرے کے لیے ان کی نفری بہت ہی تھوڑی ہے ان کا محاصرہ کچے دھاگے جیسا ہوگا ، ہم ان پر دستے باہر بھیج کر حملے کرتے رہیں گے اور ان کی تعداد اتنی تھوڑی رہ جائے گی کہ یہ بھاگ نکلیں گے یا ہتھیار ڈال دیں گے۔
یہ بات ذہن میں رکھو کہ مسلمانوں کو ایسا کمزور بھی نہ سمجھنا جیسا میں نے کہا ہے۔ یہ صحرائی سانپ ہیں جو لمبائی میں بہت چھوٹے ہوتے ہیں لیکن ڈس لیں تو آدمی چند سانسیں لے کر مرجاتا ہے۔ مسلمانوں کے اس لشکر کے متعلق اپنے آپ کو کسی دھوکے اور فریب میں نہ رکھنا، انھوں نے ملک شام میں ہرقل کو ایسی ہی تھوڑی تعداد میں شکست دی ہے، اور مصر میں آکر انہوں نے ہمارے جرنیل کو بھی مار ڈالے ہیں، جن میں اطربون خاص طور پر شامل تھا ،یہ سوچ لو کہ عربوں کو کریون میں ہی شکست دینی ہے اگر ہم ناکام رہے تو ارد گرد کے علاقے کے جو لوگ ہمارے ساتھ آن ملے ہیں وہ ہمارے دشمن ہو جائیں گے، اور مسلمان یہاں سے سیدھے اسکندریہ جا پہنچیں گے اور وہاں تک کے لوگ ان سے مرعوب اور خوفزدہ ہو جائیں گے ۔
پھر یہی لوگ ان کا ساتھ دیں گے، عہد کر لو کہ انہیں یہی کریون میں ہی ختم کرنا ہے۔
تاریخ میں آیا ہے کہ جرنیل تھیوڈور نے آخر میں جو الفاظ کہے تھے وہ یہ تھے۔۔۔ حملہ آوروں اور اسکندریہ کی دیوار کے درمیان ہم خود دیوار بن کر کھڑے ہو جائیں گے۔
کریون کا قلعہ اور شہر پناہ بہت ہی مضبوط اور چوڑی تھی اس کے ارد گرد کوئی خندق نہیں کھودی گئی تھی لیکن ایک چوڑا نالہ دیوار کے قریب سے گزرتا تھا یہ دراصل ایک گہری اور قدرتی نہر تھی یا اسے نیل کی ایک شاخ کہ لیں۔ اس کا نام ثعبان تھا ۔ قلعے کا صدر دروازہ نالے کی طرف تھا اس طرح یہ نالہ قلعے کی دفاع کا کام کرتا تھا۔

#جاری_ہے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.