Ads Top

Aur Neil Behta Raha By Inyat Ullah Altamish Episode No. 65 ||اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش قسط نمبر 65

Aur Neel Behta Raha
 By
Annyat Ullah Altamish

اور نیل بہتا رہا
از
عنایت اللہ التمش
Aur Neel Behta Raha  By  Annyat Ullah Altamish  اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش

 #اورنیل_بہتارہا/عنایت اللہ التمش
#قسط_نمبر_65

مجاہدین کا لشکر جب کوچ کر کے کریون کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ رومی فوج قلعے کے باہر ان کے استقبال کو تیار کھڑی تھی۔ جاسوس مجاہدین نے عمرو بن عاص کو بتایا تھا کہ رومیوں کی جتنی تعداد باہر کھڑی ہے اتنی ہی قلعے کے اندر ہے ۔ عمرو بن عاص نے کچھ اور آگے جاکر اپنے لشکر کو لڑائی کی ترتیب میں کرلیا اب مجاہدین کے لشکر کی تعداد اور ہی کم ہو گئی تھی کیونکہ مجاہدین شہید بھی ہوئے تھے اور کچھ ایسے شدید زخمی ہوئے کہ لڑائی کے قابل نہیں تھے اس کے علاوہ کچھ نفری کو مفتوحہ مقامات کے انتظامات اور امن و امان برقرار رکھنے کے لئے پیچھے چھوڑ آئے تھے۔
یہاں بھی حملے میں رومیوں نے پہل کی ان کے حملے کا انداز وہی تھا جو سلطیس کے معرکے میں بیان ہوچکا ھے۔ عمرو بن عاص نے اپنا دماغ حاضر رکھا اور اپنے انداز سے حملے کے مقابلے کے لئے دستے بڑھائے انہوں نے محفوظہ کے دستے پیچھے رکھے ہوئے تھے جنہیں انتہائی خطرناک صورتحال میں استعمال کرنا تھا، رومیوں کا حملہ اس قدر زیادہ طاقتور اور اتنا شدید کے عمروبن عاص کی جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ اپنے پورے لشکر کو آگے کر دیتا ۔لیکن عمرو بن عاص کی یہی خوبی تھی کہ وہ یقینی ہلاکت کو اپنے سامنے دیکھ کر بھی دماغ کو حاضر رکھتے تھے اور اطمینان اور تحمل سے سوچ کر چال چلتے تھے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنے لشکر کو خاص طور پر یہ ہدایت دے رکھی تھی کہ دشمن کے ہجوم کے اندر جانے سے بچیں ورنہ وہ گھیرے میں آ کر مارے جائیں گے ،دوسری ہدایت یہ کہ اپنے آپ کو تنظیم میں رکھ کر دائیں بائیں بکھرتے رہے تاکہ دشمن کا ہجوم بھی بکھر جائے ۔ لیکن رومیوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ سپہ سالار کی کسی ہدایت پر عمل کرنا ممکن نظر نہیں آتا تھا۔ تمام سالار سپاہیوں کی طرح لڑ رہے تھے لیکن انہوں نے نظر اپنے دستوں پر رکھی ہوئی تھی کہ وہ تنظیم سے بکھر نہ جائیں، دراصل یہ معرکہ اس نوعیت کا تھا کہ ہر مجاہد اپنی اپنی لڑائی لڑ رہا تھا ۔ایک مؤرخ نے لکھا ہے کہ ہر مجاہد یہ سوچ کر لڑ رہا تھا کہ اس کا سارا لشکر شہید ہو چکا ہے اور رومیوں کو شکست دینا صرف اس کی ذمہ داری ہے۔
سالار زبیر بن العوام حیران کن حد تک دلیر انسان تھے ان کی نظر رومیوں کے پرچم پر تھی جو رومی فوج کے پیچھے تھا ،زبیر اس کوشش میں تھے کہ دو تین مجاہدین کے ساتھ پرچم تک پہنچ جائیں اور پرچم برادر کو گرا کر پرچم غائب کردیں، یہ اس زمانے کا دستور تھا کہ پرچم گر پڑتا تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا تھا کہ ان کا بادشاہ یا جو کوئی بھی کمانڈر ہے وہ مارا گیا ہے پوری فوج میں بددلی پیدا ہوجاتی اور فوج پسپا ہونے لگتی تھی ۔سالار زبیر لڑتے ہوئے دشمن کے پیچھے جانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے تھے لیکن رومیوں کا دباؤ اتنا زیادہ تھا کہ سالار زبیر کو مجبورا پیچھے آنا پڑتا تھا ۔گھوڑوں اور پیادوں کی اڑائی ہوئی گرد کے پیچھے سورج اپنا سفر طے کرتا افق تک جا پہنچا اور سورج غروب ھو گیا تو اندھیرا چھانے لگا۔ اس تاریکی نے اس خونریز معرکے کو روک دیا رومی قلعے میں چلے گئے اور مجاہدین پیچھے ہٹ آئے۔
رات سیاہ کالی ہوگئی تو قلعے کا دروازہ کھلا اور بے شمار مشعلیں باہر آئیں، ادھر مجاہدین کی طرف سے بھی مشعلوں کا ایک جلوس میدان جنگ کی طرف چلا یہ مشعل مجاہدین کی مستورات نے اٹھا رکھی تھی اور یہ مستورات زخمی مجاہدین کو پانی پلانے اور انہیں اٹھا کر اور سہارا دے کر پیچھے لانے کے لئے جارہی تھیں ۔قلعے سے جو مشعلیں نکلیں تھیں وہ زیادہ تر آدمیوں کے ہاتھوں میں تھیں اور ان میں عورتیں بھی تھیں یہ عورتیں زخمیوں کو اٹھانے نہیں آئیں تھیں بلکہ اپنے عزیزوں کو ڈھونڈنے آئیں تھیں، پتہ چلا کہ جو فوج باہر لڑی تھی اس میں شہر کے جوان آدمی بھی شامل تھے فوج جب اندر گئی تو کئی شہری واپس نہیں جاسکے تھے اب ان کی مائیں بہنیں وغیرہ انہیں لاشوں اور زخمیوں میں ڈھونڈنے آئی تھیں ،ان میں اکثر اونچی آواز میں رو رہی تھیں، ادھر مسلمان خواتین پر کوئی ماتمی کیفیت طاری نہیں تھی انہیں ہر زخمی کو سنبھالنا تھا ہر زخمی ان کا بھائی بھی تھا بیٹا بھی، ایسا ہرگز نہیں ہوتا تھا کہ یہ عورت پہلے اپنے عزیزوں کو تلاش کرتیں، اس موقع پر ایک واقعہ ہوگیا ایسے واقعات عام طور پر نہیں ہوا کرتے تھے، ہوا یہ کہ تین چار مسلمان خواتین لاشوں اور زخمیوں میں اپنے مجاہدین کو ڈھونڈ رہی تھیں ان میں سے ایک خاتون ذرا الگ ہو گئی اور اسے ایک زخمی مجاہد نظر آیا اس نے مشعل کی روشنی میں دیکھا کہ وہ زندہ تھا اور اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کے کپڑے خون سے لال ہو گئے تھے اور نہ جانے اسے کہاں کہاں زخم آئے تھے ،وہاں تو لاشوں پر لاشیں پڑی تھی اور ایسا بھی ہوا کہ کوئی زخمی چار پانچ لاشوں کے نیچے پڑا کچھ دیر زندہ رہا اور اتنے زیادہ وزن سے مرگیا۔ اس زخمی مجاہد کے بالکل قریب چار پانچ رومیوں کی لاشیں پڑی تھی مسلمان خاتون اپنے زخمی مجاہد کو سہارا دے کر اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی، مجاہد نے اس سے پانی مانگا ، ہر عورت کے پاس پانی کا چھوٹا سا مشکیزہ تھا یہ خاتون اسے پانی پیلانے لگی تو بالکل قریب ہی ایک مصری عورت جھکی جھکی آئی ایک لاش کو دیکھنے لگی اس نے چیختے چلاتے ہوئے کہا یہ ہے میرا بیٹا ،لیکن اس کا بیٹا مر چکا تھا ،اس نے ادھر دیکھا کہ ایک مسلمان خاتون ایک زخمی مجاہد کو مشکیزے سے پانی پلا رہی ہے ،مصری عورت نے وہاں سے ایک تلوار اٹھا لی، وہاں برچھیوں اور تلواروں کی کوئی کمی نہیں تھی، ادھر مسلمان خاتون زخمی مجاہد کو بٹھائے اسے پانی پلا رہی تھی اور اس کی توجہ کسی اور طرف تھی ہی نہیں اس کی ایک ہی خواہش اور کوشش تھی کہ اس زخمی مجاہد کو زندہ رکھنا ہے، اچانک مصری عورت دوڑ کر تلوار اس مجاہد کے پہلو میں برچھی کی طرح گونپ دی۔
اسی نے میرے بیٹے کو قتل کیا ہے،،،،،، اس مصری عورت نے چلاتے ہوئے کہا ۔۔۔اور تلوار کھینچ کر ایک بار پھر مجاہد کے پہلو میں اتار دی اور بولی یہی میرے بیٹے کا قاتل ہے۔
مجاہد کا سر ایک طرف ڈھلک گیا اسے تو ایک خاتون زندہ رکھنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اس مصری عورت نے اس کی کوشش کامیاب نہ ہونے دی اور مجاہد نے اس خاتون کی گود میں جان دے دی ۔یہ خاتون اٹھ کھڑی ہوئی اس نے مشکیزہ پھینک دیا اس کے ایک ہاتھ میں جلتی ہوئی مشعال تھی اس نے مصری عورت کے منہ کے ساتھ لگادی، مصری عورت چیخنے چلانے لگی اس کا منہ جل گیا تھا اب مسلمان خاتون نے مشعال اس کے کپڑوں کے ساتھ لگا دی اور اس کے کپڑے جل اٹھے اب تو وہ ناچ کود اور چیخ چلا رہی تھی ۔
کچھ رومی سپاہی اور غالباً شہر کے ایک دو آدمی دوڑے آئے، مسلمان خاتون نے کہا کہ اس نے ایک زخمی مجاہد کو تلوار سے مار ڈالا ہے ۔
رومیوں نے تلواریں نکال لیں۔
وہاں زیادہ تر مسلمان مستورات تھیں ان سب نے تلواریں اور برچھیاں اٹھالیں اور رومی مردوں کو للکار کر کہا کہ وہ اپنے مردوں کو نہیں بلائیں گے اور سب کو کاٹ پھینکے گی۔ ادھر سے وہ مجاہدین آگئے جو لاشوں اور زخمیوں کو ہی ڈھونڈتے پھر رہے تھے، مصری عورت نے جلتے ہوئے کپڑوں نے اسے جلا ڈالا اور وہ ابھی تک چیخ رہی تھی اور اس کے اپنے آدمی اس کے قریب نہیں جارہے تھے۔ مجاہدین دوڑے آئے تو رومی اور مصری وہاں سے کھسکنے لگے ایک مسلمان عورت نے بلند آواز سے اپنے مجاہدین سے کہا کہ وہ چلے جائیں ان آدمیوں کے لئے وہ خود ہی کافی ہیں۔ مجاہدین کو دیکھ کر رومی شش و پنج میں پڑ گئے ،ان کی اور مسلمان خواتین آپہنچیں کسی کے ہاتھ میں تلوار اور کسی کے ہاتھ میں برچھی تھی ، یہ ایک دہشت تھی جو رومیوں پر پہلے ہی طاری تھی اس دہشت نے رومیوں کو اور دوسرے آدمیوں کو جو قلعے سے باہر آئے تھے وہاں سے کھسک جانے پر مجبور کر دیا اور خون خرابہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔
تقریبا تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اس روز کی لڑائی میں رومیوں کا پلہ بھاری رہا یہ اس لحاظ سے کہ جانی نقصان مجاہدین کا زیادہ ہوا اور وہ کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکے۔
وہ تو اس قلعہ بند شہر کو محاصرے میں لینے آئے تھے لیکن وہاں محاصرہ ممکن نظر نہیں آتا تھا ۔
جرنیل تھیوڈور اپنا یہ عہد پورا کر رہا تھا کہ وہ عرب کے ان قلیل تعداد مسلمانوں کے آگے دیوار کھڑی کر دے گا اور انہیں اس قابل نہیں چھوڑے گا کہ وہ اسکندریہ کی طرف پیش قدمی کریں۔
 محمد حسنین ہیکل نے کچھ مؤرخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ رومی فوج میں پہلی بار دیکھا گیا کہ فوجیوں نے ذاتی شجاعت کے کارنامے کر دکھائے صاف پتہ چلتا تھا کہ رومیوں نے مسلمانوں کی وہ دہشت جھٹک ڈالی ہے جو ان پر ہر وقت طاری رہتی تھی۔
تاریخ میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ سپہ سالار عمرو بن عاص نے صاف الفاظ میں تسلیم کیا کہ وہ شجاعت جس کی بدولت رومی فوج کی دھاک بیٹھی رہتی تھی وہ انہوں نے رومیوں میں پہلی بار دیکھی ہے ۔سپہ سالار نے اپنے سالاروں اور ان کے ماتحتوں کو بلا کر کہا کہ اب ہمارا مقابلہ اصل رومیوں کے ساتھ ہے اور اب ہمیں اس سے زیادہ شجاعت کی ضرورت ہے ۔مجاہدین اسلام کے ہاں شجاعت کی تو کمی نہیں تھی اور ان کے حوصلے میں بھی کمی نہیں آئی تھی لیکن پہلی بار دیکھنے میں آیا کہ رومی اپنی جنگ جوئی کی ان روایات کو زندہ رکھ رہے تھے جن کی بدولت وہ دنیا بھر کی بہت بڑی طاقت مانے جاتے تھے، اور تاریخ میں انہوں نے نام پیدا کیا تھا۔
اگر صرف میدان جنگ ہوتا تو مجاہدین اتنی قلیل تعداد میں ہوتے ہوئے بھی فتح کی توقع رکھ سکتے تھے لیکن ان کے خلاف دوسرے محاذ بھی کھل رہے تھے ۔
سپہ سالار عمرو بن عاص زیرزمین محاذوں سے بے خبر تو نہیں تھے لیکن پوری طرح باخبر بھی نہیں تھے ۔ان کا جاسوسی کا نظام انہیں صحیح رپورٹ دے رہا تھا لیکن رومیوں کی سرگرمیاں اس قدر پس پردہ تھی کہ ان کی سو فیصد صحیح رپورٹ نہیں ملتی تھی۔ سب سے بڑا خطرہ جو سپہ سالار اور دیگر سالار محسوس کر رہے تھے وہ رسد کے متعلق تھا ۔ رومیوں کا تو وہ اپنا ملک تھا اس لئے انہیں رسد کی کوئی کمی نہیں تھی۔ مسلمانوں کے لئے تو وہ زمین بھی دشمن تھی رسد اور خوراک وغیرہ کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ رک سکتی تھی۔
پہلے یہ بیان ہو چکا ہے کہ رسد کی فراہمی مصری بدوؤں نے اپنے ذمے لے رکھی تھی اور انہوں نے کبھی بھی رسد میں کمی نہیں آنے دی تھی۔ اب انھیں کہنے کی ضرورت پڑتی ہی نہیں تھی کہ رسد کا بندوبست کریں وہ خود خیال رکھتے تھے اور اس میں کمی نہیں آنے دیتے تھے۔
ان بدوؤں کی زیادہ تعداد ایسی تھی جو لشکر میں شامل ہو گئی تھی اور باقاعدہ لڑتی تھی۔ رسد کی فراہمی کے لئے بدوؤں کی دو تین جماعت بنا دی گئی تھی اور ان کے ذمے یہی کام تھا ،ان کے مختلف قبیلوں کے سردار بھی ان کے ساتھ تھے ان سرداروں میں سے دوچار کو رسد کے کام کی نگرانی اور فراہمی پر لگا دیا گیا تھا۔
بدو اردگرد کے دیہات میں جاکر اناج مویشی اور دیگر اشیاء حاصل کرتے تھے ان کا طریقہ لوٹ مار جیسا نہیں تھا کسی بھی گاؤں جاکر لوگوں سے کہتے تھے کہ وہ خود ہی اناج باہر نکال دیں اور اپنے مویشی بھی دے دیں، پھر ان دیہاتوں کو یقین دلایا جاتا تھا کہ مسلمانوں کا لشکر کسی گاؤں میں لوٹ مار کرنے نہیں آئے گا، اور جب مسلمان فتح مکمل کرلیں گے تو اس رسد کی اصل قیمت سے زیادہ قیمت ادا کریں گے۔
لوگ جانتے تھے کہ انہوں نے رس دینے سے انکار کردیا تو یہ حملہ کرکے زبردستی اناج وغیرہ لے جائیں گے، اور اگر وہ گھروں میں داخل ہوئے تو پھر انہیں کسی اور نازیبا حرکت سے بھی نہیں روکا جاسکے گا ،وہ رسد فراہم کر دیتے تھے، اور اپنے وہ مویشی بھی دے دیتے تھے جو ان کی ضرورت سے کچھ زیادہ تھے، ان سے زیادہ تر بھیڑ بکریاں لی جاتی تھی ان مویشیوں اور بھیڑ بکریوں کا گوشت لشکر کو کھلایا جاتا تھا۔
ان بدوؤں ان کے سرداروں اور رسد کا ذکر اس لیے آیا ہے کہ ان سے ایک ایسا زمین دوز محاز سامنے آتا ہے جو رومیوں نے مجاہدین کے خلاف قائم کیا تھا اور اس پر سرگرم ہوگئے تھے، مختلف تاریخوں میں اس ایک واقعے کی کچھ واضح اور کچھ ڈھکی چھپی سی کڑیاں ملتی ہیں،،،،،، بدوؤں کی جو جماعت رسد فراہم کرتی تھی ان میں سے ایک جماعت کا سربراہ کسی بدو قبیلے کا سردار اسطافت تھا اسکی عمر جوانی کی آخری دنوں تک پہنچ گئی تھی، اور وہ بڑا ہی خوبرو آدمی تھا چہرے پر شباب تھا وہ دراز قد آدمی تھا اور جسم متناسب اور پرکشش۔
جب کریون کی لڑائی شروع ہوئی تو مجاہدین کے لشکر میں رسد کی کچھ کمی محسوس ہوئی رسد اکٹھی کرنے والے بدو دیہاتی علاقے میں چلے گئے کریون سے تین ساڑھے تین میل دور ایک بڑا گاؤں تھا اسطافت اپنی جماعت کو جس میں پچاس کے قریب بدو تھے اس گاؤں میں لے گیا اپنے دستور اور انداز کے مطابق اسطافت نے گاؤں میں جا کر گاؤں کے بڑوں کو بلایا اور انہیں بتایا کہ اناج اور مویشیوں کی ضرورت ہے اور وہ یہ چیزیں خود ہی گاؤں کے باہر رکھ دیں، اس تاثر کو اور اس کی جماعت کو اب تک اچھا خاصا تجربہ ہو چکا تھا اس نے بڑوں کو قائل کر لیا کہ وہ اپنے آپ ہی رسد دے دیں بڑوں نے سارے گاؤں کو اکٹھا کیا اور انہیں بتایا کہ رسد دینی ہی پڑے گی ورنہ مسلمان آ کر زبردستی اناج وغیرہ لے جائیں گے، مختصر یہ کہ لوگ سد دینے کے لئے گھوڑا گاڑیاں اور اونٹ ساتھ تھے سارا سامان ان پر لادا جانے لگا۔
بدؤوں کا سردار اسطافت نگرانی کر رہا تھا گاؤں کا ایک بزرگ صورت معمر آدمی آہستہ آہستہ چلتا اسطافت کے پاس آ رکا اور بڑے تپاک سے اس کے ساتھ ہاتھ ملایا ، یہ بوڑھا آدمی لباس چہرے مہرے اور انداز سے اس گاؤں کا کوئی سرکردہ فرد معلوم ہوتا تھا اس نے اسطافت کے ساتھ دوستانہ بے تکلفی سے باتیں شروع کر دیں اس کا لب و لہجہ مشفقانہ تھا ،اس نے قدرے اطمینان کا اظہار کیا کہ اس کا گاؤں مسلمانوں کو رسد دے رہا ہے، اس کے جواب میں اسطافت نے بھی دوستانہ بے تکلفی کا اظہار کیا اور اس بزرگ کے ساتھ احترام سے بات کی۔
تم تو بہت ہی خوبرو جوان ہو۔۔۔ بزرگ نے کہا۔۔۔ تم سا خوبرو جوان کبھی کبھی نظر آتا ہے تجھے دیکھ کر کنواریوں کے دل دھک دھک کرنے لگتے ہیں۔ 
اپنی تعریف سن کر آپ سے باہر ہو جانا انسان کی ایسی کمزوری ہے جو انسانیت کی ابتدا ہی سے ساتھ ساتھ چلی آرہی ہے۔
 اسطافت محض ایک سردار تھا اس کی عقل اور شخصیت میں اتنی پختگی نہیں تھی کہ وہ اس بوڑھے کی زبان سے اپنی تعریف سن کر متاثر نہ ہوتا یہ بوڑھا کوئی جہاندیدہ آدمی تھا اس نے اسطافت کی کچھ اور ہی تعریفیں کر ڈالی اور اس کو برتری کے احساس میں مبتلا کر دیا۔
 تم ان لوگوں کے سردار معلوم ہوتے ہو۔۔۔ بزرگ نے کہا۔۔۔ یہ تو سب کچھ گاڑیوں اور اونٹوں پر لادکر لے جا رہے ہیں شام ہونے کو ہے کیا تم میری یہ خواہش پوری نہیں کر سکو گے کہ آج شام کا کھانا میرے ساتھ کھاؤ؟ اسطافت نے اس کی دعوت بخوشی قبول کرلی ،اس کا کام رسد فراہم کرنا تھا جو اس نے کر دی تھی، اور رسد جا رہی تھی، اب لشکر میں اس کی ضرورت نہیں تھی وہ لڑنے لڑانے کی ذمہ داریوں سے آزاد تھا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
اسطافت جب اس بوڑھے کے گھر میں داخل ہوا تو اسے صحیح اندازہ ہوا کہ یہ تو بڑی ہی اونچی حیثیت کا آدمی ہے، اسے جس کمرے میں بٹھایا گیا اس کمرے کی شان شاہانہ تھی فرش پر دری اور دری پر نرم وگداز گدا بچھا ہوا تھا، اسطافت کو اس گدے پر بٹھایا گیا پیچھے گول تکیہ رکھے ہوئے تھے۔
 بزرگ نے اسطافت سے کہا کہ وہ مسلمان نہ ہوتا تو اسے اس علاقے کی بہترین شراب پیش کی جاتی ۔
میں عیسائی ہوں میرے محترم میزبان!،،،،،، اسطافت نے کہا۔۔۔ میں نے اسلام قبول نہیں کیا ہم نے شاہ ہرقلل کی بادشاہی کے مقابلے میں مسلمانوں کو بہت اچھا پایا اس لئے ان کے ساتھ ہو گئے ہمیں مال غنیمت کا پورا حصہ ملتا ہے اور مسلمان ہمیں اپنے بھائیوں جیسا رکھتے ہیں۔
اس کی بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ اس بزرگ کی عمر کا ایک اور بزرگ آدمی آ گیا۔ میزبان یہ کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا کہ یہ ہمارے نئے پادری ہیں اور کچھ ہی دن پہلے بزنطیہ سے آئے ہیں، یہ تعارف سنتے ہی اسطافت بھی اٹھا اور پادری سے بڑے احترام سے ملا۔ میزبان نے پادری کو بتایا کہ اسطافت عیسائی ہے اور اس نے اسلام قبول نہیں کیا۔ پادری نے ایسی باتیں شروع کردی جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ یہ اس کی خوش قسمتی ہے کہ اسے اسطافت جیسا خوبرو جوان مل گیا ہے، جو اپنے مذہب پر بھی قائم ہے ،ایسی کچھ باتیں میزبان بزرگ نے بھی کی اور اسطافت اپنے آپ کو بہت ہی اونچے درجے کا آدمی سمجھنے لگا ۔ اتنے میں ایک نوخیز لڑکی ایک ٹرے اٹھائے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی، ٹرے میں ایک خوشنما صراحی تھی اور اس کے ساتھ تین پیالے تھے لڑکی بہت ہی حسین اور نوجوان تھی وہ جب کمرے میں داخل ہوئی تو اسطافت کو دیکھ کر ٹھٹھک گئی اور اس کا آگے بڑھا ہوا قدم پیچھے ہٹ گیا جیسے وہ اسطافت کو دیکھ کر حیرت زدہ ہوگئی ہو۔
 آجاؤ کرسٹی تم تو گھبرا گئی۔۔۔۔ میزبان بزرگ نے پیار سے کہا۔۔۔ یہ اپنے ہی آدمی ہیں، اپنے قبیلے کے سردار ہیں ، ہیں تو مسلمانوں کے ساتھ لیکن بڑے پکے عیسائی ہیں۔
کرسٹی نے اچٹتی ہوئی ایک نگاہ اسطافت پر ڈالی اور آگے بڑھ کر ٹرے میزبان بزرگ کے آگے رکھ دی وہ اب اسطافت سے نظر ملانے سے گھبرا اور شرما رہی تھی، اس نے سر جھکائے ہوئے صراحی میں سے تھوڑی تھوڑی شراب تینوں پیالوں میں ڈالی اور بچوں کی طرح تیزی سے اٹھی اور دوڑتی ہوئی کمرے سے نکل گئ۔
 میری یہ بیٹی بہت شرمیلی ہے۔۔۔ میزبان بزرگ نے کہا۔۔۔۔ گھر سے باہر تو کسی غیر آدمی کے ساتھ بات بھی نہیں کرتی۔
اتنے میں دو ملازم آئے اور انہوں نے ان کے آگے کھانا رکھنا شروع کر دیا ۔اسطافت کھانے کو دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہا تھا یہ تو شاہی دستر خوان تھا کھانا چنا جا چکا تو یہ تینوں کھانا کھانے لگے ۔میزبان بزرگ اور پادری کچھ نہ کچھ بول رہے تھے لیکن اسطافت کی نگاھیں بار بار اس دروازے کی طرف اٹھتی اور وہیں رک جاتی تھی، جس دروازے سے کرسٹی اندر آئی اور دوڑتی باہر چلی گئی تھی۔ اس کی نظریں ایک بار پھر کھانے سے اٹھ کر دروازے پر چلی گئی دروازے کے ساتھ ہی دوسری دیوار میں کھڑکی تھی۔ کھڑکی کا ایک کواڑ ذرا سا کھلا ہوا تھا ۔اسطافت نے دیکھا کہ اسے کرسٹی کا آدھے سے کچھ کم چہرہ نظر آ رہا ہے، ایک آنکھ اور ایک طرف کا آدھا گال، اور آدھے ہونٹ دکھائی دے رہے تھے، یہ ہونٹ ہلکی سی مسکراہٹ سے کھلے ہوئے تھے، چہرہ نئے چاند کی طرح نظر آتا تھا، کوئی شک نہ رہ گیا کہ کرسٹی اسطافت کو دیکھ رہی تھی اور اس کے ہونٹوں پر جو مسکراہٹ تھی وہ صاف بتاتی تھی کہ جس طرح اسطافت کرسٹی کو ایک بار پھر دیکھنے کو بے تاب تھا اسی طرح کرسٹی بھی اسطافت کو اچھی طرح دیکھنے کو بے تاب تھی ۔ اتنی حسین اور پرکشش لڑکی کے آدھے چہرے کو دیکھ کر اسطافت بے کل اور بے قرار ہوگیا ۔ وہ اس معصوم اور حسین چہرے کو اور کرسٹی کے سروقامت سراپا کو اپنے سامنے اور قریب دیکھنے کو تڑپنے لگا، کچھ دیر بعد یہ ذرا سا چہرہ بھی وہاں سے ہٹ گیا جیسے نئے چاند کو گھٹا نے نگل لیا ہو۔ میں اپنی بیٹی کو چھپا چھپا کر رکھتا ہوں۔۔۔۔ میزبان بزرگ نے کہا۔
 کیوں؟،،،،اسطافت نے پوچھا۔۔۔ کس کی طرف سے آپ کو خطرہ ہے مجھے بتائیں میں اسے دنیا کے تختے سے اٹھا دوں گا۔
مسلمانوں کے ڈر سے۔۔۔ بزرگ نے جواب دیا۔۔۔ کرسٹی پر کسی مسلمان کی نظر پڑ گئی تو پھر میری یہ بیٹی مجھے باقی عمر نظر نہیں آئے گی، سنا ہے مسلمان سپاہی کرسٹی جیسی کسی لڑکی کو دیکھتے ہیں تو اسے اٹھا کر لے جاتے ہیں اور اپنے کسی سالار کو بطور تحفہ پیش کرتے ہیں۔
آپ نے غلط سنا ہے محترم بزرگ!،،،،، اسطافت نے کہا۔۔۔ مسلمانوں کے مذہب میں بھی ایسی اجازت نہیں، اور مسلمانوں کا ذاتی اخلاق بھی ایسا ہے کہ وہ کسی لڑکی کی طرف دیکھتے ہی نہیں، میں اس وقت سے ان کے ساتھ ہوں جب انہوں نے فرما شہر فتح کیا تھا، میں نے کبھی کسی سالار کے ساتھ کوئی لڑکی نہیں دیکھی نہ ہی کسی مسلمان سپاہی کو کہیں سے لڑکی لاتے اور کسی سالار کو پیش کرتے دیکھا ہے۔
میزبان بزرگ اور پادری ہنس پڑے ان کی اس ہلکی سی ہنسی میں طنز تھا۔
 تم نہیں جانتے ہمارے معزز مہمان !،،،،پادری نے کہا ۔۔۔تمہارے دل میں مسلمانوں کا احترام بھی ہے اور ان کی محبت بھی،،،،،، یہ کوئی بری بات نہیں ہم صرف یہ سوچ کر تمہارے ساتھ یہ قصہ چھیڑ بیٹھے ہیں کہ تم عیسائی ہو اور اب تک بہت سی عیسائی لڑکیاں مسلمانوں کے قبضے میں جا چکی ہیں۔ تمہیں کسی سالار کے پاس کوئی عیسائی لڑکی اس لیے نظر نہیں آئی کہ یہ کرسٹی جیسی معصوم لڑکیوں کو مدینہ بھیج دیتے ہیں۔ تم مصری بدوّ گھر سے دور ہوں اور کچھ عرصے سے گھروں کو نہیں گئے جب کبھی واپس جاؤ گے تو تمہیں پتہ چلے گا کہ تمہاری کتنی لڑکیاں مدینہ پہنچ چکی ہے۔
میں اتنا ضرور مانتا ہوں ۔۔۔میزبان بزرگ بولا۔۔۔ کہ مسلمان دوسری فاتح قوموں جیسے نہیں۔ دوسرے فاتحین تو کوئی شہر فتح کرتے ہیں وہاں کی عورتوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔لیکن مسلمان ایسا نہیں کرتے وہ مفتوحین کی عزت و آبرو اور جان و مال کے محافظ بن جاتی ہیں لیکن درپردہ کسی حسین دوشیزہ کو دیکھ کر اٹھوا لیتے ہیں۔
مسلمان پہلے اپنے اچھے اخلاق کا اثر ڈالتے ہیں۔۔۔ پادری نے کہا۔۔۔ جب ان کا قبضہ مکمل ہو جاتا ہے تو مفتوحہ لوگوں کو اپنا غلام بنا لیتے ہیں ۔میں ملک شام میں دیکھ آیا ہوں، وھاں کے عیسائی رومیوں کو اور ہرقل کو اب یاد کرتے ہیں، جن عیسائیوں نے مسلمانوں کی مدد کی تھی اب جاکر ان کی حالت زار دیکھو جو مسلمانوں نے کر دی ہے۔
 اسطافت حیرت زدگی کے عالم میں ان دونوں معزز بوڑھوں کے چہروں پر نظر گاڑے ہوئے تھا ،اس نے مسلمانوں کے کردار کا ایک ہی روپ دیکھا تھا اور اسے یقین تھا کہ مسلمانوں کے کردار کا اصلی روپ یہی ہے، اس نے کبھی کوئی قابل اعتراض حرکت نہیں دیکھی تھی۔ اس کے چہرے پر حیرت کے جو تاثرات تھے ان میں پریشانی اور تذبذب کی جھلک تھی، وہ مسلمانوں کے کردار کے خلاف کوئی بات ماننے پر اپنے آپ کو آمادہ نہیں کرنا چاہتا تھا ۔لیکن اپنے پادری اور میزبان کو بھی نہیں جھٹلا سکتا تھا ۔ان دونوں کے بولنے کا انداز ایسا تھا جس میں سچائی کی جھلک پوری طرح نمایاں تھی، دونوں بوڑھے باری باری مجاہدین اسلام کے خلاف زہر اگلتے رہے۔
مجھے یہ بتائیں میں کیا کر سکتا ہوں۔۔۔ اسطافت نے ایسے لہجے میں کہا جیسے وہ یہ بات کہنا نہیں چاہتا تھا کہنے لگا۔۔۔ کیا میں مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ دوں۔
تم ان کا ساتھ چھوڑ دو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔۔۔پادری نے کہا۔۔۔ اگر تمہارے دل میں عیسائیت کا احترام اور عیسائیوں کی محبت ہے تو تم بہت کچھ کرسکتے ہو، یہ سوچ لو کہ مسلمانوں نے اگر اسکندریہ بھی فتح کرلیا اور پورا مصر ان کے ہاتھ آگیا تو پھر شام کی طرح اس ملک میں بھی کوئی ایک بھی گرجا کھڑا نہیں رہے گا ،پادریوں کو قتل کر دیا جائے گا، تم اپنے پورے قبیلے سے کہو گے کہ وہ مسلمانوں کے لشکر سے نکل جائیں گے، لیکن یہ بھی کافی نہیں، تمہارے ساتھ دوسرے قبیلوں کے سردار بھی ہیں ۔ انہیں یہ ساری باتیں بتاؤ اور انہیں آمادہ کہ وہ اپنے قبیلوں کو یہاں سے واپس اپنے گھروں میں لے جائیں پھر انہیں یہ بتائیں کہ تمہارے لیے صرف رومی اچھے ہمدرد اور مخلص ہیں ۔
میں یہ بھی کافی نہیں سمجھتا۔۔۔ میزبان بوڑھے نے کہا ۔۔۔یہ لوگ مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ ہی رہیں اور ان کی لڑائی لڑنے کے بجائے انہیں دھوکہ دیں اور انہیں نقصان پہنچائیں ۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے؟۔۔۔ اسطافت نے پوچھا۔
میں یہ بھی بتاتا ہوں کہ تمہارے قبیلے کیا کریں گے۔۔۔ میزبان نے کہا ۔۔۔مسلمان کسی شہر کو محاصرے میں لیے ہوئے ہوں یا رومیوں کے ساتھ کہیں کھلے میدان میں لڑائی ہورہی ہو تو بدوّ مسلمانوں کی پیٹھ پر وار کریں اور ان میں سے کسی کو زندہ نہ رہنے دیں، اگر میری یہ تجویز اچھی لگے تو کل سے ہی اپنے سرداروں کو اس کے لیے تیار کرنا شروع کردو، تم دیکھو گے کہ مسلمان کریون کو فتح کئے بغیر اس شہر کی دیواروں کے باہر ہی مردے پڑے ہونگے یا اپنی عورتوں کو بھی یہیں چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔
 صرف تمہارے بدو ہی نہیں یہاں تو بےشمار قبطی عیسائی بھی مسلمانوں کی مدد کررہے ہیں ،یہ بہت بڑا گناہ ہے جو خدا بخشے گا نہیں اور عیسائیوں کو عبرتناک سزا ملے گی۔
میرے محترم بزرگ !،،،،اسطافت نے کہا۔۔۔ آپ غالبا بھول گئے ہیں کہ یہاں کے قبطی مسلمانوں کی مدد کو کیوں آگے آگئے ہیں ، کیا آپ قبطیوں کا قتل عام بھول گئے ہیں، جو شاہ ہرقل اور اسقف اعظم قیرس نے کیا تھا، اصل اسقف اعظم بنیامین ہے جو آج تک جلا وطنی کی زندگی گزار رہا ہے، ہم بدوؤں کو تو رومی فوج اپنا زرخرید غلام سمجھتی ہے۔
مصر میں انقلاب آرہا ہے۔۔۔ پادری نے کہا ۔۔۔شاہ ہرقل مر چکا ہے اس کا بیٹا قسطنطین بھی مر گیا ہے، قیرس خود کمک لایا ہے۔ میں اسکندریہ سے آرہا ہوں قیرس نے لوگوں کے ایک بہت ہی بڑے مجمعے سے خطاب کیا ہے۔ اور قبطی عیسائیوں سے معافی مانگی ہے، اور اس نے اعلان کیا ہے کہ اب مصر میں عیسائیت کا راج ہوگا اور اس پر بزنطیہ کے شاہی خاندان کا کوئی حکم نہیں چلے گا۔ ہم بہت سے پادری بزنطیہ سے آئے ہیں ،اور یہاں کے عیسائیوں کو یہی بات بتا رہے ہیں کہ اب ہرقل کی فرعونیت اور اس کی بنائی ہوئی عیسائیت مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔
اسطافت کے چہرے پر شش و پنج کے تاثرات کچھ زیادہ نمایاں ہو گئے، اس کے پاس تو جیسے کوئی اور سوال یا شک کیا کوئی اور بات ہی نہیں تھی، اس دوران اس نے تین چار بار کھڑکی کی طرف دیکھا جس کا ایک کواڑ ذرا سا کھلا ہوا تھا ،اسے کرسٹی کا چہرہ پھر نظر آیا اور اب اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پہلے سے زیادہ تھی، یہ مسکراہٹ اسطافت کو ایک پیغام دے رہی تھی، وہ آخر بدو تھا ،سردار بھی تھا، اس کا ذہن علم و فضل سے خالی تھا، اس نے دوسری بار کرسٹی کو دیکھا تو اس کا سارا دھیان اور دلچسپیاں اسکے چہرے پر مرکوز ہوگئی۔
وہ کھانا کھا چکے تھے اور ملازم برتن اٹھا کر لے گئے تھے اور باہر رات تاریک ہوگئی تھی۔ میزبان بزرگ نے اسطافت سے کہا کہ اس کی دلی خواہش ہے کہ وہ رات اس کا مہمان بنے۔ اسطافت کا کام رسد فراہم کرنا تھا جو اس نے کر دی تھی۔ وہ رات کے لیے وہاں رک سکتا تھا اور رک گیا۔ وہ اس امید پر رکا تھا کہ کرسٹی کا چہرہ اور سراپا اسے ایک دو بار شاید پھر دکھائی دے گا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
ان دونوں بوڑھوں نے اسطافت کو ایسا اعزاز اور احترام دیا جیسے وہ شاہی خاندان کا فرد ہو، انہوں نے اس مصری بدوّ کو اسی مکان میں الگ کمرہ نہ دیا بلکہ ایک مکان میں اس کے سونے کا انتظام کیا ،اسے اس مکان میں لے گئے جہاں وہ مکان خاصہ خوبصورت صاف ستھرا اور ہر طرح سے آراستہ تھا ۔موسم ایسا تھا کہ اس کے لیے پلنگ صحن میں بچھایا گیا۔
اسے اس مکان میں چھوڑ کر دونوں بوڑھے شب بخیر کہیں آئے ۔
کچھ دیر بعد ایک ادھیڑ عمر ملازمہ آئی اسے کہا کہ وہ کسی بھی چیز کی کمی محسوس کرتا ہو تو بتا دے۔
 اسطافت نے اس ملازمہ کے ساتھ بڑی شفقت سے باتیں کی۔ ملازمہ نے ایسا انداز اختیار کرلیا جیسے وہ اس کی خدمت میں فخر محسوس کر رہی ہو، وہ ذہنی طور پر خاصی ہوشیار بلکہ چالاک معلوم ہوتی تھی۔
اگر آپ برا نہ مانے تو ایک بات کہوں۔۔۔۔ ملازمہ نے کہا۔
 جو دل میں آتا ہے وہ ضرور کہو۔۔۔ اسطافت نے اپنے مخصوص زندہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئےکہا۔۔۔ بات بری ہوئی تو بھی برا نہیں مانو گا۔
آپ نے شاید اپنے میزبان کی نوخیز بیٹی کی ایک جھلک دیکھی ہوگی۔۔۔ ملازمہ نے رازدارانہ لہجے میں کہا۔۔۔ وہ آپ کے آگے شراب رکھنے گئی تھی، وہ اس وقت سے بے چین ہے اور تھوڑی سی دیر کے لئے آپ کے پاس بیٹھنا چاہتی ہے، کیا آپ اسے یہاں آنے کی اجازت دے سکتی ہیں ۔
کیا وہ فوراً آنا چاہتی ہے۔۔۔ اسطافت نے پوچھا۔
نہیں آقا!،،،،،،، ملازمہ نے جواب دیا۔۔۔ وہ تنہائی کی ملاقات چاہتی ہے، اور اس وقت آئے گی جب سب سو جائیں گے ،میں آپ کو صحیح بات بتا دیتی ہوں وہ تو آپ پر مر مٹی ہے، اسے آنے کی اجازت دے دیں ورنہ بہت مایوس ہو گی۔
میں جانتا ہوں اس لڑکی کا نام کرسٹی ہے ۔۔۔اسطافت نے کہا ۔۔۔اور پوچھا کیا تمہارے آقا کی کوئی اور بھی بیٹی ہے۔
کرسٹی دراصل میرے آقا کی سگی بیٹی نہیں۔۔۔ ملازمہ نے کہا ۔۔۔یہ تو ملک شام کی رہنے والی ہے یہاں پر اس طرح پہنچی تھی کہ شام میں جب جنگ جاری تھی تو کرسٹی کا باپ اور بھائی جو اس سے چھوٹے تھے مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے، کرسٹی پہلے ہی بھاگ کر گرجے میں جا چکی تھی، اس کی ماں کی عمر تقریبا چالیس سال تھی اور وہ اپنی اس بیٹی سے زیادہ خوبصورت تھی ایک مسلمان اسے لے اڑا،،،،،،،، کرسٹی کو اس گرجے کے پادری نے اپنی پناہ میں لے لیا اور جب روم کی فوج وہاں سے پسپا ہوئی تو وہ پادری بھی فوج کے ساتھ وہاں سے نکل آیا، کرسٹی اس کے ساتھ تھی فوج نے پادری اور کرسٹی کو اپنے ساتھ رکھا اور کچھ عرصے بعد یہ دونوں مصر آپہنچے وہ پادری کرسٹی کو کسی اچھے گھر کے حوالے کرنا چاہتا تھا، میرے آقا کو پتہ چلا اس نے کرسٹی کو گرجا میں جا کر دیکھا اور اسے لڑکی ایسی معصوم لگی کہ اسے اپنے ساتھ گھر لے آیا اور سگی بیٹی بنا لیا ۔ اب آقا اسکی شادی کرنا چاہتا ہے لیکن لڑکی نے کہہ دیا ہے اسے جو آدمی اچھا لگے گا اس کے ساتھ شادی کرے گی،،،،،،،،، 
 یہ تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہمارے ہاں نہ لڑکی پر پابندی ہوتی ہے نہ لڑکے پر ،ہماری ہر شادی اپنی پسند اور محبت کی شادی ہوتی ہے ۔کرسٹی کو کئی نوجوانوں کی محبت کے پیغام ملے اور کئی نوجوانوں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی لیکن کرسٹی نا جانے کس قسم کے آدمی کو پسند کرے گی ،وہ کہتی ہے کہ ضروری نہیں کہ وہ کسی ہم عمر کے ساتھ شادی کرے گی، وہ تو کسی ادھیڑ عمر آدمی کو بھی پسند کر لے گی بشرطیکہ وہ آدمی اس کے معیار پر پورا اترتا ہو، میں تو اسے عجیب لڑکی کہوں گی ہو سکتا ہے اسے آپ ہی اچھے لگے ہوں ۔
اسطافت کو تو یوں لگا جیسے اس کے وجود میں ہوا بھر گئی ہو اور وہ فضاء میں اڑ رہا ہو۔ اس نے ملازمہ سے کہا کہ وہ کرسٹی سے کہہ دے کہ وہ اس کے انتظار میں جاگتا رہے گا ۔
ملازمہ چلی گئی۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
اسطافت دن بھر کا تھکا ہوا تھا اس پر غنودگی طاری ہو رہی تھی، لیکن کرسٹی کا انتظار اسے سونے نہیں دے رہا تھا ،کبھی وہ خوشی سے پھولا نہ سماتا کہ اتنی حسین اور نوخیز لڑکی اس کے پاس آ رہی ہے ،اور کبھی اسے یوں محسوس ہونے لگتا جیسے اسکے ساتھ کوئی دھوکہ ہو رہا ہے یا وہ خواب دیکھ رہا ہے۔ اسے اپنے متعلق معلوم تھا کہ وہ خوبرو آدمی ہے ،وہ تھا تو بدو لیکن اس کا رنگ کالا یا سانولا نہیں بلکہ بڑا صاف اور کھلا ہوا رنگ تھا، اگر وہ سیاہ رو ہوتا تو پھر اس کا یہ شک بجا ہوتا کہ اس کے ساتھ کوئی دھوکہ ہو رہا ہے، اور اتنی حسین و جمیل لڑکی اس کے پاس نہیں آ سکتی۔
چاندنی بڑی صاف اور سفید تھی اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے چاند ایک مقام پر رک گیا ہے اور رات آگے بڑھ ہی نہیں رہی، وہ انتظار کی اذیت برداشت کرتا رہا اور آخر دروازہ بڑی آہستہ سے کھلا اسطافت کا انگ انگ بیدار ہو گیا۔
کرسٹی اس طرح دروازے کے اندر آئے جیسے ہوا کا ہلکا سا جھونکا آیا ہو۔ اسطافت نے چاہا کہ وہ دوڑ کر کرسٹی کو بازوؤں میں سمیٹ لے اور اسے اٹھا کر وہاں سے بھاگ جائے اور اپنے خیمے میں جا دم لے، اس نے بڑی مشکل سے اپنے آپ پر قابو پایا ۔کرسٹی آہستہ آہستہ چلی آرہی تھی۔
 وہ جب اسطافت کے قریب پہنچی تو اسطافت نے اسے پلنگ پر بٹھا لیا اور اس نے بازو لمبا کیا کہ کرسٹی کو بازو میں لے کر اپنے قریب کر لے، لیکن کرسٹی پیچھے کو سرک گئی۔ 
کیوں ؟،،،،، اسطافت نے کہا۔۔۔ خطرہ مول لے کر آئی ہو، اور شرم و حجاب کا یہ عالم۔
پہلے کچھ باتیں کرنی ہے ۔۔۔کرسٹی نے سنجیدہ سے لہجے میں کہا ۔۔۔میں وقتی سکون اور لذت کے لئے نہیں آئی، ساری عمر کے ساتھی کی تلاش میں آئی ہوں، آپ کو دیکھ کر میرے دل سے آواز اٹھی ہے کہ یہ ہے وہ شخص جس کے انتظار میں گھڑیاں گن رہی ہو ،میں تو ہمیشہ کے لئے آپ کے پاس آنا چاہتی ہوں۔
لیکن یہ سوچ لو کرسٹی!،،،،، اسطافت نے کہا۔۔۔ میری ایک بیوی اور دو بچے ہیں۔
کیا ایسے آدمیوں کی کمی ہے جنہوں نے چار چار پانچ پانچ اور بعض نے اس سے زیادہ بیویاں رکھی ہوئی ہیں، میں تو آپ کی داشتہ بننے کے لئے بھی تیار ہوں، اور آپکی بیوی کی لونڈی بن جاؤں گی ،لیکن میری ایک شرط ہے۔
 میں تمہاری ہر شرط پوری کروں گا ۔۔۔اسطافت نے کہا ۔۔۔ایک نہیں تم سو شرطیں زبان پر لاؤں میں جان پر کھیل کر ہر شرط پوری کروں گا۔
اسطافت نے بھولے سے بھی نہ سوچا کہ وہ چالیس سال سے کچھ زیادہ عمر کا آدمی اور دور دراز صحرا میں رہنے والا پسماندہ بدو اتنی حسین اور نوخیز لڑکی جو اس پر مر مٹی ہے اور اپنی شرط صرف اس کے آگے رکھ رہی ہے یہ کوئی دھوکہ اور فریب ہی نہ ہو۔ اسطافت پر پہلے شراب کا نشہ طاری تھا، اس میں کرسٹی کا نشہ شامل ہوگیا اور اسطافت خواب و خیال کی بڑی ہی حسین وادی میں جا نکلا ۔کرسٹی نے اپنے متعلق وہی بات بتانی شروع کردیں جو ملازمہ پہلے سنا گئی تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ ملازمہ نے سپاٹ سے لہجے میں بات مختصر کرکے سنائی تھی۔
 اور کرسٹی کا انداز جذباتی تھا اور وہ تفصیلات سنا رہی تھی اس کی آواز جذبات کی شدت سے بھر جاتی تھی، اس دوران اسطافت نے اس کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لینا چاہا لیکن کرسٹی نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا۔
مجھے میرا باپ واپس نہیں مل سکتا۔۔۔ کرسٹی نے ساری بات سنا کر کہا۔۔۔ مجھے بھائی واپس نہیں مل سکتا ،اور مجھے وہ پیاری ماں بھی واپس نہیں مل سکتی جسے مسلمان زبردستی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ لیکن مجھے پوری امید ہے وہ شخص ضرور ملے گا جو ان سب کا انتقام لے گا، میرا جلتا ہوا سینہ ٹھنڈا کردے گا ،میں اپنے حسن اور اپنے اس جسم کی لطافت اس شخص کی گود میں ڈال دوں گی خواہ وہ کوئی کالا کلوٹا اور بھدا بدصورت ہی کیوں نہ ہو ،یہ تو اتفاق کی بات ہے کہ آپ جیسا خوبرو اور طاقتور انسان مجھے مل گیا ہے اور میرے دل نے اسے قبول کرلیا ہے۔
 صرف ایک بات بتا دو کرسٹی !،،،،،اسطافت نے پوچھا۔۔۔ کیا تمہاری شرط یہ ہے کہ میں پہلے تمہارے ماں باپ اور بھائیوں کا انتقام لوں اور اس کے بعد تم میرے ساتھ شادی کرو گی۔
ہاں!،،،،، کرسٹی نے جواب دیا ۔۔۔۔میری شرطیں یہی ہے اگر آپ تھوڑے سے عرصے میں میری یہ شرط پوری نہ کرسکے تو میں اپنی محبت قربان کر دوں گی اور پھر کبھی آپ کی صورت بھی نہیں دیکھوں گی، میں آپ کو یہ بتادوں کہ آپ میری پہلی اور آخری محبت ہیں ایسی محبت مرا نہیں کرتی جو اچانک کسی کو صرف ایک نظر دیکھنے سے دل پر قابض ہو جاتی ہے۔
اسطافت کی جزباتی حالت کچھ اس طرح ہوگئی تھی کہ وہ کرسٹی کی باتیں اتنے زیادہ دھیان سے نہیں سن رہا تھا جتنے دھیان سے اس کے چہرے اور سراپا کو دیکھ رہا تھا، چاندنی سیدھی کرسٹی کے چہرے پر پڑ رہی تھی، اس چاندنی میں کرسٹی کی آنکھوں کی چمک میں ایسا طلسم تھا جس نے اسطافت کو بحال کردیا تھا ،وہ تو بڑی مشکل سے اپنے آپ کو قابو میں رکھے ہوئے تھا، کرسٹی کی طرف سے ذرا سا اشارہ بھی ملتا تو اسطافتٰ اسے اپنے بازوؤں میں سمیٹ لیتا اور کہتا کہ باقی عمر وہ کرسٹی کو اپنے سینے سے لگائے گزار دے گا ،آخر وہ بے تاب ہوگیا۔
کرسٹی !،،،،،اسطافت نے التجا کے لہجے میں کہا ۔۔۔تم میرے وجود میں جو آگ لگا دی ہے یہ مجھے راکھ کر دے گی ،اگر شادی پہلے ہو جائے تو مجھے نیا حوصلہ اور تروتازہ ولولہ ملے گا ،پھر دیکھنا میں کیا کرتا ہوں۔
 نہیں!،،،،،، کرسٹی نے سر زور زور سے ہلاتے ہوئے کہا۔۔۔ میں شادی کی زنجیر میں جکڑی گئیں تو پھر رہائی مشکل ہوجائے گی، میں مرد کی فطرت سے واقف ہوں پہلے میری شرط پوری کریں۔
اسطافت کی حالت اب اس پیاسے انسان جیسی ہو گئی تھی جو پیاس سے مارا جا رہا ہو۔اور پانی اس کے سامنے پڑا ہوں لیکن پی نہ سکتا ہو، کبھی تو کرسٹی اسے سراب کی طرح نظر آتی تھی جس تک پہنچنے کے لئے صحرا نورد چلتے ہی جاتے ہیں اور آخر گر پڑتے ہیں اور ریت ان کی زندگی کی نمی چوس لیتی ہے،،،،،، اچانک اسے خیال آگیا اور وہ بیدار ہو گیا۔
ایک بات تو تم نے بتائی ہی نہیں۔۔۔ اسطافت نے کہا ۔۔۔میں تمہارے ماں باپ اور بھائیوں کا انتقام لونگا کس طرح ،کس سے انتقام لوں گا؟
آپ اپنے قبیلے کے سردار ہیں۔۔۔کرسٹی نے پراعتماد لہجے میں کہا ۔۔۔اپنے قبیلے کے لوگوں سے کہیں کہ وہ مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ کر اپنے گھروں کو چلے جائیں، آپ کے ساتھ دوسرے قبیلوں کے سردار بھی ہوں گے انہیں بھی کہیں کہ اپنے قبیلے کے آدمیوں کو یہاں سے غائب کرنا شروع کر دیں اور وہ آہستہ آہستہ مسلمان کے لشکر سے نکلتے جائیں،،،،، یہ کام ایسا ہے جو ذرا آہستہ آہستہ ہوگا ،ایک کام آپ فوراً کر سکتے ہیں ،وہ یہ کہ اس لشکر کے سپہ سالار کو قتل کردیں۔
سپہ سالار کا قتل ممکن نہیں۔۔۔ اسطافت نے کہا۔۔۔ وہ اس لئے کہ سپہ سالار کو اس کے محافظ اپنے حصار میں لیے رکھتے ہیں ،وہ رات جس خیمے میں سوتا ہے اس خیمے کے اردگرد محافظ موجود اور بیدار رہتے ہیں۔
 میں دوسرے سالاروں کو قتل کر سکتا ہوں، تم ایک سپہ سالار کی بات کرتی ہوں میں اتنے سارے سالاروں کو مار دوں گا اور مرا ونگا، ایسے طریقے سے کہ پکڑا نہیں جاؤں گا۔ سالاروں کا قتل اس لئے آسان ہے کہ وہ لڑائی کے دوران ہر طرف بھاگتے دوڑتے رہتے ہیں اور کسی بھی گھمسان کے معرکے میں انہیں قتل کیا جاسکتا ہے ۔اگر دو تین سالار قتل ہو گئے تو مسلمان بہت کمزور ہو جائیں گے اور میں دوسرا کام یہ کروں گا کہ اپنے قبیلے کے آدمیوں کو وہاں سے نکالوں گا اور واپس بھیجنا شروع کردوں گا۔
یہی کام کر دیں ۔۔۔کرسٹی نے کہا ۔۔۔میں یہ دیکھنا چاہتی ہوں کہ کریون کے اردگرد کی زمین مسلمانوں کا قبرستان بن جائے، اور ان کی عورتیں رومی فوج کے قبضے میں چلی جائیں،،،،،، ضروری بات یہ ہے کہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ میں یہاں آپ کے پاس آئی تھی۔
کرسٹی اٹھ کھڑی ہوئی اور دروازے کی طرف چل پڑی، اسطافت کو یوں لگا جیسے اس کا دل اس کے سینے سے نکل کر کرسٹی کے قدموں میں جا پڑا ہو، کرسٹی دروازے تک پہنچ کر پیچھے کو مڑی ۔ میں انتظار کروں گی۔۔۔کرسٹی نے کہا۔۔۔ اور دروازے میں سے نکل گئی۔
اسطافت کی نظریں دروازے پر لگی رہیں، اسے تو جیسے احساس ہی نہیں ہوا تھا کہ یہ نوخیز کلی اتنی دیر اس کے پاس بیٹھی رہی ہے، وہ تو یوں آئی اور گئی ،جیسے بجلی چمک کر پھر اندھیرا کر گئی ہو ، یہ ایک احساس تھا جو اسطافت کو بے حال کر گیا ۔
وہ کرسٹی کی شرط پوری کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔

#جاری_ہے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.