Ads Top

Aur Neil Behta Raha By Inyat Ullah Altamish Episode No. 62 ||اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش قسط نمبر 62

Aur Neel Behta Raha
 By
Annyat Ullah Altamish

اور نیل بہتا رہا
از
عنایت اللہ التمش
Aur Neel Behta Raha  By  Annyat Ullah Altamish  اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش

 #اورنیل_بہتارہا/عنایت اللہ التمش 
#قسط_نمبر_62

غور فرمائیں یہ سب کیا تھا کیا مسلمانوں نے کوئی جادو کر دیا تھا کہ ہرقل کے خاندان میں اتنا بڑا واقعہ ہو گیا کہ ہرقل اور اس کے جرنیل بیٹے کو ان کے اپنے طبیب نے زہر دے کر مار ڈالا اور پیچھے تخت و تاج کی وراثت کا ایسا تنازعہ اٹھا کے گھر کے افراد ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے اور ان کی نظریں مصر سے ہٹ گئی جہاں مسلمان فتوحات حاصل کرتے جا رہے تھے۔
تاریخ حیرت کا اظہار کرتی ہے کہ اتنے قلیل مجاہدین اسلام نے اتنی بڑی طاقت اس حال تک بلکہ اس بدحالی تک پہنچا کس طرح دیا۔ اس سوال کا جواب قرآن میں ملتا ہے سورۃ الاعراف میں اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے کہ ہر قوم کے لئے مہلت کی ایک مدت مقرر ہے جب کسی قوم کی یہ مدت پوری ہو جاتی ہے تو اس کی تباہی میں ایک سانس برابر بھی دیر نہیں ہوتی۔ اے بنی آدم!،،،، تمہارے پاس تم میں سے ہی رسول آئے اور تمہیں میری آیات سنائیں تو یاد رکھو کہ جو کوئی ان آیات کی نافرمانی سے بچے گا اور اپنی اصلاح کرے گا اسے نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ رنج ۔
اللہ تبارک وتعالی نے یہ بھی فرمایا ہے کہ تم اپنی اصلاح نہیں کرو گے اور میری آیات کی نافرمانی کرتے رہو گے تو تمہاری جگہ وہ قوم آ کر لے لیے گی جو تم سے بہتر ہوگی۔
یہ ہے اصل جواب کے ہر قول اور اس کی اتنی وسیع اور طاقتور سلطنت کو ایسا عبرتناک زوال کیوں آیا ۔ ہرقل نے تو اپنی مقدس کتاب جو آسمان سے اتری تھی اس کی بھی نافرمانی کرکے اپنی ہی عیسائیت رائج کر ڈالی تھی۔
اس وقت وہ بہتر قوم اہل اسلام ہی تھے جو اللہ کی خوشنودی کی خاطر اپنے وطن سے دور جہاد میں جانوں کی قربانیاں دے رہے تھے۔ وہ جو بھی شہر فتح کرتے تھے وہاں انہیں خزانے ملتے اور ایک سے بڑھ کر ایک حسین و جمیل عورتیں ملتی تھیں، لیکن اللہ کے بندے نہ خزانے کی طرف دیکھتے نہ کسی عورت کو آنکھ اٹھا کر دیکھتے تھے ۔ جہاں جاتے وہ اعلان کرتے کہ وہ ان کی عزت و آبرو اور جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے پاس رکھتے ہیں ۔ انہوں نے عملاً یہ وعدے پورے کر دکھائے اور یوں اللہ کی ایک بہتر قوم ایک نافرمان قوم پر غالب آتی چلی جا رہی تھی۔
اب ہم اس داستان کو چند مہینے پیچھے  641 عیسوی کے دنوں میں لے جاتے ہیں۔ یہ وہ دن تھے جب سپہ سالار عمرو بن عاص بابلیون سے اسکندریہ کی طرف اپنے لشکر کے ساتھ روانہ ہوئے تھے۔
انہی دنوں قسطنطین بیمار ہو گیا تھا اور بزنطیہ کے شاہی محل میں محلاتی سازشیں عروج پر پہنچ گئی تھی ۔ اور تفرقہ فوج تک پھیل گیا تھا ۔
عمرو بن عاص کو جاسوسوں کے ذریعے معلوم ہو چکا تھا کہ بزنطیہ کے شاہی محل میں کیا ہو رہا ہے اور ابھی کمک کے آنے کا کوئی امکان نہیں ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ مصر میں رومی فوج تھوڑی تھی۔ مجاہدین اسلام نے اس فوج کو بہت جانی نقصان پہنچایا تھا پھر بھی اس فوج کی نفری مجاہدین کی نسبت تین گنا زیادہ تھی۔
بابلیون فتح کرکے عمرو بن عاص نے امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے نام پیغام لکھوا کر قاصد کو اسی وقت مدینہ روانہ کردیا ۔ مصر تو امیرالمومنین کے ذہن اور اعصاب پر سوار رہتا تھا ،انہیں احساس تھا کہ عمرو بن عاص کے ساتھ لشکر بہت تھوڑا ہے اور ہر لڑائی میں اس کی نفری کم ہوجاتی ہے۔ امیرالمومنین نے اپنے آپ کو اس خوش فہمی میں کبھی مبتلا نہیں کیا تھا کہ مجاہدین نعرہ تکبیر بلند کریں گے اور دشمن بھاگ جائے گا ۔ وہ اپنے خطبوں میں اللہ کا یہ پیغام سب تک پہنچاتے رہتے تھے کہ تمہیں وہی ملے گا جس کی کوشش کرو گے ۔ وہ تو مجاہدین جانوں کی بازی لگاکر کر رہے تھے اور امیرالمومنین کمک اکٹھی کرنے میں لگے رہتے تھے۔
امیرالمومنین کی بے تابی اور بے چینی کا یہ عالم تھا کہ ہر وقت قاصد کے انتظار میں رہتے تھے ،کچھ دن گزر جاتے دور شہر سے نکل کر اس راستے پر چلے جاتے جس راستے سے قاصد آیا کرتے تھے ، انہیں پہلے پیغام مل چکا تھا کہ اب مجاہدین ایک ایسے شہر کو محاصرے میں لے رہے ہیں جس کا دفاع بلاشبہ ناقابل تسخیر ہے اور جس کے اندر بہت بڑی فوج موجود ہے۔
 امیرالمومنین باہر نکل گئے اس روز تو وہ اس قدر بے قرار تھے کہ اپنے آپ پر قابو پانا مشکل ہو رہا تھا انہیں اپنے اندر سے کچھ ایسے اشارے مل رہے تھے جیسے آج قاصد آ ہی جائے گا۔
ٹہلتے ٹہلتے امیرالمومنین خاصا آگے نکل گئے اور دور افق پر انہیں یوں گرد اڑتی نظر آئی جیسے کوئی گھوڑ سوار یا شتر سوار آ رہا ہو۔ امیر المومنین اور تیز چل پڑے کچھ دیر بعد انھوں نے دیکھا کہ اس گرد میں لپٹا ہوا ایک گھوڑسوار آرہا ہے۔ امیرالمومنین کے قدم اور تیزی سے اٹھنے لگے آخر سوار قریب آگیا اور امیر المومنین کو دیکھ کر اس نے گھوڑے کی لگام اتنی زور سے کھینچی کہ گھوڑے نے چاروں پاؤں زمین پر جما دیئے اور چند قدم گھسیٹتا آیا ۔
یا امیرالمومنین!،،،، گھوڑ سوار نے کود کر اترتے ہوئے کہا۔۔۔ بابلیون مبارک ہو۔ سپہ سالار عمرو بن عاص کا پیغام لایا ہوں۔
امیرالمومنین وہیں رکے رہے ہاتھ اوپر اٹھائے اور آسمان کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔۔ یا اللہ تیری ذات باری کا شکر ادا کرتا ہوں۔
 پھر انہوں نے قاصد سے پیغام لیا اور یہ پڑھتے ہوئے واپس چل پڑے قاصد گھوڑے کی لگام پکڑیے ان کے ساتھ ساتھ چلتا آ رہا تھا ۔
امیرالمومنین کے چہرے پر فتح و نصرت اور مسرت کی سرخیاں آ گئی تھیں، شہر میں داخل ہو کر اعلان کرتے آئے پیغام آیا ہے سب مسجد میں آجائیں ۔ مسجد ایک مرکز ہوتا تھا جس میں لوگوں کو اکٹھا کر کے اچھے برے پیغامات سنائے جاتے اور قومی اور ذاتی مسائل حل کیے جاتے تھے ۔ مجلس مشاورت بھی مسجد میں ہی بیٹھ کر امور و معاملات پر بات چیت اور فیصلے کیا کرتی تھی۔
مسجد میں امیرالمومنین نے پیغام پڑھ کر سنایا اور پھر کچھ باتیں قاصد نے زبانی سنائی اور اس کے بعد امیرالمومنین نے پہلی بار یہ کہا کہ عمرو بن عاص کو کمک اتنی شدید اور بہت جلدی ضرورت ہے، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بابلیون کی فتح کوئی آسان کام نہیں تھا اور پھر بابلیون کی اہمیت بتائی اور پھر کہا کہ اب مجاہدین اور ہی زیادہ دشوار صورتحال میں جارہے ہیں ،انہوں نے کہا کہ اسکندریہ کی فتح اسی صورت میں ممکن ہوسکتی ہے کہ عمرو بن عاص کو فوری طور پر کمک پہنچ جائے۔
ابھی مسلمانوں کی باقاعدہ تنخواہ دار فوج نہیں بنی تھی لوگ رضاکارانہ طور پر ایک لشکر تیار کر کے محاذ پر جایا کرتے تھے۔ امیرالمومنین نے کمک کی ضرورت کا ذکر کیا تو ایک لشکر تیار ہونے لگا۔ امیرالمومنین مدینہ سے دور دور رہنے والے لوگوں کو پہلے ہی کمک کے لیے کہے رکھا تھا ۔اور کئی لوگ تیار ہو گئے تھے اور اب امیرالمومنین کے حکم کا انتظار کر رہے تھے۔
امیرالمومنین نے پیغام کا جواب لکھوایا جس میں عمرو بن عاص کو اجازت دی کہ وہ اسکندریہ کی طرف کوچ کر جائیں۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے کچھ ضروری ہدایات بھی لکھوائی ہوگی اور یہ بھی لکھا کہ کمک بہت جلدی پہنچ رہی ہے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص اس وقت بابلیون سے روانہ ہوئے تھے جب انہیں امیرالمومنین کا پیغام مل گیا تھا ۔ مصر کی اصل صورت حال سے عمرو بن عاص ہی بہتر واقف تھے وہ چاہتے تو اپنے طور پر ہی کوچ کر سکتے تھے لیکن ڈسپلن کی پابندی ایسی ہوتی تھی کہ عمرو بن عاص امیرالمومنین کی اجازت آنے سے پہلے ایک قدم بھی نہیں اٹھاتے تھے۔ تاریخ میں یہ واضح نہیں کہ کمک بابلیوں ہی پہنچ گئی تھی یا آگے جا کر راستے میں ملی تھی، یہ بھی واضح نہیں کہ کمک کی نفری کتنی تھی اور اس کے ساتھ جو سالار گئے تھے ان کے نام کیا تھے۔
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ سپہ سالار عمرو بن عاص ہی نہیں بلکہ تمام مجاہدین بابلیون سے اسکندریہ کی طرف کوچ کے لئے بے تاب اور بے صبر ہوئے جارہے تھے۔ مجاہدین کا یہ جذبہ اور جوش و خروش تھا تو قابل تحسین لیکن عمرو بن عاص دور اندیش اور باریک بین تھے ،بابلیوں سے اسکندریہ کو روانگی سے دو تین دن پہلے سالار زبیر بن العوام نے سپہ سالار کے ساتھ ویسے ہی ذکر کیا کہ ہم لوگ خوش قسمت ہیں کہ سارے کا سارا لشکر اس پیش قدمی کا بے تابی اور بے صبری سے انتظار کر رہا ہے۔ سپہ سالار عمرو بن عاص نے کوئی رائے نہ دی نہ کسی اور رد عمل کا اظہار کیا۔ انہوں نے صرف اتنا کہا کہ وہ اگلے روز لشکر سے خطاب کریں گے انہوں نے وقت بھی بتایا جب لشکر کو گھوڑ دوڑ کے میدان میں اکٹھا کرنا تھا۔ اگلے روز لشکر میدان میں آگیا عمرو بن عاص گھوڑے پر سوار آئے اور لشکر کے سامنے جارکے۔
 آئے مجاہدین اسلام!،،،،،، سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنی گرجدار آواز میں کہا ۔۔۔یہ سن کر مجھے بے انتہا خوشی ہوئی ہے کہ تم لوگ آگے بڑھنے اور دشمن پر کاری ضرب لگانے کے لئے مجھ سے زیادہ بے تاب ہو۔ مجاہدین کا جذبہ یہی ہونا چاہیے لیکن میں تمہیں خراج تحسین پیش کرنے کے علاوہ ایک اور بات بھی کہوں گا۔ تمہارا یہ جوش و خروش اور پسپا ہوتے ہوئے دشمن کے تعاقب میں جانے کا عزم قابل تعریف ہی سہی لیکن میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ بیشتر مجاہدین صرف اس لئے آگے بڑھنے کو بےتاب ہیں کہ انہوں نے اپنے آپ کو یقین دلا رکھا ہے کہ انہیں شکست ہو ہی نہیں سکتی ۔ ہمیں اللہ تبارک وتعالی فتوحات سے ہی نوازتے چلا آرہا ہے ۔ یک بعد دیگرے اتنی زیادہ کامیابیوں کا اثر یہی ہوتا ہے جو میں تم میں دیکھ رہا ہوں۔ پے در پے اتنی زیادہ کامیابیاں فاتحین پر ایسا نشہ طاری کر دیا کرتی ہے کہ وہ بے پرواہ اور بے نیاز سے ہو جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بھاگتا ہوا دشمن تو اب کہیں بھی جم کر ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا فتوحات کے نشے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ کسی محاذ پر معمولی سی نوعیت کی شکست ہوجائے تو پھر حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں۔ اور عزم دم توڑ دیتے ہیں ۔ یاد رکھو فتح کے ساتھ شکست بھی موجود ہے جو کسی بھی میدان میں تمہارے حصے میں آ سکتی ہے۔ حقیقت کو نظروں سے اوجھل نہ ہونے دو اگر تمہارا دشمن پسپا ہی ہوتا چلا جا رہا ہے تو بھی اسے کمزور اور حقیر نہ جانو وہ کہیں بھی قدم جماکر تم پر جوابی حملہ کرکے تمہارا دم خم توڑ سکتا ہے۔
میں تمہیں یہی حقیقت دکھانے لگا ہوں یہ
صحیح ہے کہ تم نے رومی فوج پر دہشت طاری کردی ہے پھر بھی حقیقت یہ ہے کہ رومی فوج کی تعداد ہم سے کئی گناہ زیادہ ہے۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ رومی فوج کے جرنیل اپنی اتنی بڑی فوج کو دانشمندی سے لڑا نہیں سکے اس فوج میں کچھ دستے ایسے بھی ہیں جو ابھی تک میدان میں نہیں آئے نہ انہوں نے تمہاری شجاعت دیکھی ہے نہ اپنی شجاعت تمہیں دکھائی ہے ۔ان کے کسی بھی جرنیل نے سوچ لیا کہ اتنی زیادہ فوج کو صحیح طریقے سے لڑایا جائے تو ہم اتنے تھوڑے ہیں کہ ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن جائے گا ۔ یہ بھی یاد رکھو کہ ہمیں کمک تو مل رہی ہے لیکن اتنی نہیں جتنی درکار ہے ۔ ہمارے مقابلے میں رومیوں کے لیے بہت بڑی کمک آ رہی ہے۔ میں اس کوشش میں ہوں کے اس کمک کے پہنچنے تک ہم اسکندریہ پہنچ جائیں۔ لیکن ذہن میں رکھو کہ یہ زمین دشمن کی ہے جس کا وہ عادی اور آشنا ہے۔ ہمارے لیے یہ زمین اجنبی اور ہم اس زمین کے لئے اجنبی ہیں،،،،،،، اس میں کوئی شک نہیں کہ بابلیوں ناقابل تسخیر قلعہ بند شہر تھا لیکن تم نے اسے فتح کرلیا اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ بابلیون میں جو فوج تھی اور اس کے جو جرنیل تھے وہ سب اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے تھے کہ اس شہر کو کوئی دشمن فتح کر ہی نہیں سکتا ۔ یہ تو انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اتنے تھوڑے مسلمان بابلیون پر قبضہ کرلیں گے اس خوش فہمی میں مبتلا ہو کر وہ دفاع سے بے نیاز ہو گئے ۔ ایسے ہی اگر تم نے اپنے آپ کو اس خوش فہمی میں مبتلا رکھا کہ تمہیں کہیں بھی شکست کا سامنا ہو ہی نہیں سکتا تو فوراً اس خوش فہمی سے نکل آؤ۔
ہم جوں جوں آگے بڑھتے جا رہے ہیں ہمارے لیے مشکلات اور دشواریوں میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ۔ اللہ سے فتح ہی کی امید رکھو لیکن شکست کو بھی اپنے سامنے رکھو ہمارا ہدف اسکندریہ ہے لیکن اسکندریہ مصر کا دل ہے رومی جان کی بازی لگا دیں گے اور ہمیں اسکندریہ تک نہیں پہنچنے دیں گے ۔ اللہ سے فتح ہی کی امید رکھو کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ لیکن ہمیں سوچ سمجھ کر اور حقیقت کو اچھی طرح جان کر لڑنا ہے اور اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں لڑنے والوں کو پورا پورا اجر دیا کرتا ہے۔
عمرو بن عاص نے قرآن کی تین آیات سنائیں اور آخر میں پھر کہا کہ اس خوش فہمی سے تمام مجاہدین نکل آئیں کہ وہ جہاں بھی جائیں گے فتح ہی ان کے قدم چومے گی۔ تمھاری فتح ایک اور بھی ہے سپہ سالار عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔۔ تمہیں شاید اپنی اس فتح کا علم نہ ہو تم نے روم کی فوج کو ایسی شرمناک شکست دی ہے کہ بزنطیہ میں ہرقل کے شاہی محل میں پھوٹ پڑ گئی ہے ۔اور وہاں شاہی خاندان کے افراد آپس میں دست و گریباں ہو رہے ہیں ۔اسے بھی اللہ کی مدد سمجھو کہ ہرقل مر گیا ہے۔ میں اپنے اس دشمن کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جس نے سلطنت روم کو دور دور تک پھیلا دیا تھا لیکن اس نے اللہ کو ناراض کیا اور اس کی سزا پالی۔ ہرقل ذاتی طاقت اور جنگی قوت کا دوسرا نام تھا۔ یہ مت سوچو کہ ہرقل نہیں رہا تو روم کی فوج کمزور ہو گئی ہو گی۔ ہرقل اپنے اثرات پیچھے چھوڑ گیا ہے ۔مختصر یہ کہ تمہارے امتحان کا وقت آ رہا ہے فتح اور شکست اللہ پر چھوڑو اور اپنے فرائض کو سامنے رکھو اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
بابلیون کے لوگوں کے ساتھ اور خصوص ان قبطی عیسائیوں کے ساتھ  مجاہدین کا جو حسن سلوک تھا اس کا ثمرہ انہیں اب ملا۔ قبطی عیسائیوں نے رومیوں کے ہاتھوں بہت ہی ظلم اور ستم سہے تھے۔ ہرقل نے تو ان کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا اور اسقف اعظم کو مجرم قرار دے کر بھاگ جانے اور روپوش ہو جانے پر مجبور کر دیا تھا اور اس کی جگہ قیرس کو اسقف اعظم بنا کر کلی اختیارات دے دیے تھے کہ بنیامین سے لوگوں کو ہٹائے اور جو اسے اسقف اعظم مانتا رہے اسے قتل کر دے ۔ یہ تفصیلات پہلے آچکی ہیں یہاں یہ بات سامنے آئی ہے کہ قبطی عیسائیوں کو بجا طور پر خطرہ اور خوف محسوس ہورہا تھا کہ اپنوں نے ان پر ظلم و ستم کیے ہیں تو مسلمانوں سے تو انہیں اس سے بدتر سلوک اور رویے کی توقع رکھنی چاہیے۔ غیر ملکی اور غیر مذہب کے فاتحین سے وہ اچھے سلوک کی توقع رکھی ہی نہیں سکتے تھے، اور اس خطرے کے پیش نظر وہ اپنے مال و اموال اور اپنی نوجوان اور جواں سال عورتوں کو چھپائے پھرتے تھے اور کہیں بھاگ جانے پر اپنے آپ کو تیار رکھتے تھے لیکن مسلمانوں نے انہیں حیران کردیا ۔
مسلمانوں نے ان پر جبر نہیں کیا کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کر لیں مسلمانوں نے کہا کہ جو اسلام قبول نہیں کرتے وہ جزیہ ادا کریں اور اس جزیے کے عوض ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی جائے گی مسلمانوں نے یہ عمل پورا کرکے دکھادیا۔
کچھ ایسے واقعات سنائے جا چکے ہیں کہ عیسائی لڑکیوں کو مجاہدین نے انہیں اغوا کرنے والے رومیوں سے آزاد کرایا اور ان کے ماں باپ کے حوالے کیا، اس کے علاوہ مسلمانوں نے تمام شہریوں کو معزز شہریوں جیسا رتبہ دیا اور انہیں اپنے برابر حقوق دیے، اور ایسا تاثر پیدا ہی نہ ہونے دیا کہ مسلمان بر تر اور اعلٰی قوم ہیں، اور باقی سب غلام ہیں۔ جہاں کہیں کسی کے ساتھ بے انصافی ہوئی سپہ سالار عمرو بن عاص وہاں پہنچے یا کسی اور سالار کو اطلاع مل گئی تو وہ فوراً وہاں گیا اور مظلوم کو انصاف دلاکر ظالم کو پوری سزا دی۔
اس کا نتیجہ یہ تھا کہ بے شمار قبطی عیسائی از خود ہی حلقہ بگوش اسلام ہوگئے اور انہیں وہی حقوق مل گئے جو مسلمانوں کو حاصل تھے۔ مختصر یہ کہ مسلمان وہاں کے لوگوں کے لئے نجات دہندہ بن گئے بلکہ ان کی عزت و آبرو بحال کردی۔قبطی عیسائی اس قدر ممنون اور مشکور ہوئے کہ وہ محسوس کرنے لگے کہ مسلمانوں کے ساتھ پورا پورا تعاون کریں، رومیوں کے خلاف تو ان کے دلوں میں نفرت بیٹھ گئی تھی اور ایسے بھی تھے جو رومیو سے اپنے عزیزوں یا اپنے ہم مذہبوں کے قتل کا انتقام لینا چاہتے تھے۔ یہاں ہم یہ واضح کر دیتے ہیں کہ قبطی عیسائیوں کو لڑنے کے لئے مجاہدین کے لشکر میں شامل نہیں کیا گیا تھا ، یہ عمرو بن عاص کی دوراندیشی تھی تاریخ میں اس کی کوئی وجہ نہیں لکھی گئی وجہ یہی ہو سکتی تھی کہ قبطی آخر غیر مذہب کے لوگ تھے اور وہ رومیوں کے ہم مذہب تھے۔ کسی بھی وقت اور کسی بھی موقع پر وہ اپنی وفاداریاں تبدیل کرسکتے تھے۔ انہیں اس صورت میں ساتھ رکھ لیا جاتا تھا کہ وہ تعاون اور امداد کا وعدہ کرتے تھے۔
اب عمرو بن عاص اسکندریہ کی طرف کوچ کر رہے تھے راستے میں کچھ قلعہ بن قصبے اور شہر آتے تھے اور اس کے علاوہ تھوڑی ہی دور جا کر زمین دشوار گزار ہو جاتی تھی، کیونکہ وہاں سے نیل کے ڈیلٹا کا علاقہ شروع ہوتا تھا ،دریا کئی چھوٹی بڑی شاخوں میں تقسیم ہو گیا تھا جس سے بعض علاقے دلدلی ہوگئے تھے اور بعض کچھ ایسے جنگلاتی تھے کہ ان میں سے گزرنا اور گھوڑوں کو گزارنا بہت ہی مشکل تھا ۔بعض شاخیں قدر چوڑی تھی جنہیں عبور کرنے کے لیے کشتیوں کے پل بنانے پڑتے تھے۔
 عمرو بن عاص نے ایک دو سالاروں اور عقلمند مجاہدین کو کسی اور ہی بھیس میں آگے بھیج کر اس سارے راستے اور ڈیلٹا کے علاقے کا جائزہ لیا تھا ۔اور ان کے پاس پوری رپورٹ آگئی تھی۔
عمرو بن عاص نے اس سروے یا رپورٹ کے مطابق فیصلہ کیا کہ وہ نیل کے بائیں کنارے کے ساتھ ساتھ جائیں گے کیونکہ اس طرف قدرتی رکاوٹیں اور دشواریاں ذرا کم تھیں، لیکن راستے میں دو تین قلعہ بند شہر آتے تھے جو رکاوٹ بن سکتے تھے بلکہ انہیں رکاوٹ بننا ہی تھا۔ عمرو بن عاص کو جاسوسوں نے یہ خبر بھی دے دی تھی کہ مصر میں مقیم رومی فوج کا سپریم کمانڈر جنرل تھیوڈور اسی علاقے میں موجود ہے اور وہ جانتا ہے کہ اب مسلمان اسکندریہ پر چڑھائی کریں گے اور وہ مسلمانوں کو راستے ہی میں روک لے گا۔
عمرو بن عاص کو اللہ کی مدد یوں حاصل ہوئی کہ بابلیون کے کچھ قبطی سردار اور رئیس قسم کے لوگ ان کے دوست بن چکے تھے اور انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ جب بھی مسلمانوں کو ان کی مدد کی ضرورت پڑے گی وہ فوراً مدد کو پہنچیں گے۔ اب مدد کا وقت آگیا تھا لیکن سپہ سالار عمرو بن عاص نے انھیں مدد کے لیے نہ کہا وہ غالباً ان کا احسان لینا نہیں چاہتے تھے قبطی عیسائیوں کے ان سرکردہ افراد کو پتہ چلا کہ مجاہدین کا لشکر اسکندریہ کو کوچ کر رہا ہے تو انہوں نے عمرو بن عاص سے کہا کہ وہ ان کی رہنمائی اور مدد کے بغیر اسکندریہ ت
ک خاصی مشکلات کا سامنا کر کے ہی پہنچیں گے۔ بہتر ہے کہ ان میں سے کچھ افراد کو ساتھ لے لیں جو اس علاقے سے واقف ہیں اور اس علاقے کے قبطی عیسائیوں سے تعاون بھی حاصل کرسکتے ہیں۔
 عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں سے صلح مشورہ کیا تو سالاروں نے کہا کہ ان لوگوں کو ساتھ لے ہی لیا جائے تو بہتر ہے ۔ان قبطی عیسائیوں نے یہاں تک کہا تھا کہ وہ اتنی نفری اپنے ساتھ لے جائیں گے کہ کسی جگہ کشتیوں کا پل بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی وہ بنا دیں گے۔
عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں کا مشورہ قبول کرلیا اور قبطی عیسائیوں کے سرکردہ افراد سے کہا کہ وہ صرف اپنے ان آدمیوں کو ساتھ لے چلیں جن پر انہیں پورا پورا بھروسہ ہے اور وہ کہیں دھوکہ نہیں دیں گے۔ ان سرکردہ افراد نے سپہ سالار کو پورا پورا یقین دلایا اور کہا کہ جہاں کسی پر ذرا سا بھی بے وفائی کا شک ہوا وہ اپنے ہاتھوں اس شخص کو قتل کردیں گے،،،،،، لشکر بابلیون سے نکلا اور اللہ کا نام لے کر سوئے اسکندریہ روانہ ہوا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
مجاہدین کا لشکر دریا کے بائیں کنارے پر جا رہا تھا یہ کنارہ بہت دور تک مسلمانوں کے قبضہ میں تھا۔ ذہن میں رکھیں کہ لشکر کی تعداد کچھ اور کم ہوگئی تھی کیونکہ بابلیون جیسے شہر میں نظم ونسق برقرار رکھنے اور شہر کا سرکاری کاروبار چلانے کے لیے مجاہدین کی خاصی تعداد چھوڑ دی گئی تھی۔
چند میل آگے دریا کے دائیں کنارے پر ایک شہر نقیوس واقع تھا یہ قلعہ بند شہر تھا جس میں رومی فوج کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی یہ شہر دریا کے دوسرے کنارے پر آباد تھا وہاں دریا کا پاٹ اور ہی زیادہ چوڑا ہو جاتا تھا۔ اس شہر کو نظرانداز کیا جاسکتا تھا۔ لشکر تو بائیں کنارے پر چلا جا رہا تھا اور اس کی منزل اسکندریہ تھی کسی سالار نے یہ مشورہ دیا بھی کہ اس شہر کو نہ چھوڑاجائے ۔مشکل مسئلہ یہ درپیش تھا کہ اس شہر پر حملہ کرنے کے لئے دریا عبور کرنا تھا جو کشتیوں کا پل بنا کر ہی کیا جاسکتا تھا۔ لیکن خطرہ یہ تھا کہ رومی تیروں اور پھینکنے والی برچھیوں سے مجاہدین کو دریا میں ہی رکھتے۔
نہیں!،،،،،، عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔۔۔ بے شک یہ شہر دریا کے پار ہے اور ہماری کوچ کے راستے کی رکاوٹ نہیں لیکن اسے ہم نظر انداز کر گئے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم اپنے پیچھے ایک خطرہ چھوڑ چلے ہیں ،جو کسی مشکل مقام پر عقب سے ہم پر پڑے گا ،اور اس صورت میں ہمیں زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا ،اور ہو سکتا ہے ہم پیش قدمی کر ہی نہ سکیں، اس شہر پر حملہ ضروری ہے۔
معلوم نہیں کہ سپہ سالار عمرو بن عاص جانتے تھے یا نہیں کہ رومی زندہ وہ بیدار ہیں اور اس کے کمانڈروں کو معلوم ہے کہ مسلمان اب اسکندریہ کی طرف پیش قدمی کریں گے رومیوں نے اپنی بیداری اور تیاری کا مظاہرہ اس طرح کیا کہ یہ شہر نقیوس ابھی کچھ دور تھا کہ رومی فوج مجاہدین کے لشکر کے مقابلے کو بائیں کنارے پر آگئی جس سے مسلمانوں کا دریا پار کرنے کا مسئلہ ختم ہو گیا یہ ایک مقام تھا جو اس زمانے میں قرنوط کہلاتا تھا۔ نقیوس کے دفاع میں جو جرنیل وہاں موجود تھا اسے اطلاع مل گئی تھی کہ مجاہدین کا لشکر آ رہا ہے اس نے اپنی اچھی خاصی نفری کشتیوں کے ذریعے دریا کے بائیں کنارے پر پہنچا دی کہ یہ دستہ مجاہدین کے لشکر کو روکے یا انہیں کمزور کردیے یہ کاروائی دراصل نقیوس شہر کے دفاع کی کاروائی تھی۔ اس مقام پر رومیوں اور مجاہدین کا تصادم ہوا عمرو بن عاص نے خاص طور پر محسوس کیا کہ رومیوں کا حوصلہ تروتازہ ہے اور ان میں لڑنے کا جذبہ از سر نو پیدا ہو گیا ہے۔
یہاں آمنے سامنے کی لڑائی تھی اور رومی بڑھ چڑھ کر حملے کررہے تھے لشکر چونکہ پیش قدمی کر رہا تھا اس لئے سپہ سالار نے اس کے بائیں پہلو کی حفاظت کے لیے ایک زیادہ نفری کا دستہ بائیں طرف بھیج رکھا تھا جو لشکر کے ساتھ ساتھ پیش قدمی کر رہا تھا لشکر اور اس دستے کے درمیان خاصا فاصلہ تھا عمرو بن عاص نے دیکھا کہ رومی صحیح معنوں میں بہادری سے لڑ رہے ہیں اور ان کے قدم اکھاڑنے میں کچھ مشکل پیش آئے گی۔ سپہ سالار اس کوشش میں تھے کہ لشکر میں جانی نقصان کم سے کم ہو اور زخمی بھی کم ہوں انہوں نے قاصد کو دوڑایا کہ وہ بائیں پہلو والے دستے سے کہے کہ آگے جاکر عقب سے رومیوں پر حملہ کرے۔ وہ زمین نشیب و فراز والی تھی کچھ علاقہ جنگلاتی تھا اور کچھ چٹانی ٹیکریاں وغیرہ بھی تھیں، بائیں پہلو والا دستہ پیغام ملتے ہیں بڑی تیزی سے آگے بڑھا اور اپنے آپ کو رومیوں سے چھپاتے ہوئے آگے گیا اور پیچھے مڑا اور رومیوں کو اس وقت اس دستے کی موجودگی کا علم ہوا جب مجاہدین کے اس دستے نے ان پر شدید ہلہ بول دیا تھا۔ رومی ایسی بری طرح گھیرے میں آگئے کٹ مرنے کے سوا اور کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے وہ بری طرح کٹے اور بعض دریا میں کود گئے لیکن تیرانداز مجاہدین نے انہیں زندہ نہ جانے دیا۔
زخمی رومی جو وہیں رہ گئے تھے ان سے پوچھا گیا کہ نقیوس میں کتنی فوج ہے ۔اور قلعہ کیسا ہے وغیرہ وغیرہ۔ مطلب یہ کہ ان سے ضروری معلومات لے لی گئی پتہ چلا کہ وہاں فوج کی خاصی تعداد موجود ہی نہیں بلکہ لڑنے کے لیے بالکل تیار ہے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے اس لڑائی سے کامیابی سے فارغ ہوکر سالاروں کو حکم دے دیا کہ نقیوس پر حملہ کیا جائے اور دریا کشتیوں کے پل سے پار کریں، چونکہ یہ کنارہ مسلمانوں کے قبضے میں تھا اس لیے ایک تو جگہ جگہ کشتیاں موجود تھیں اور کچھ کشتیاں ساتھ ساتھ چلی آ رہی تھیں، دریا پار کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن قبطی عیسائی کہتے تھے کہ وہ دریا پار کروائیں گے۔
دریا تو پار کیا جاسکتا تھا لیکن خطرہ کچھ اور تھا وہ یہ کہ رومی فوج نقیوس سے نکل کر کنارے پر آ جاتی اور اس کے تیرانداز کشتیوں پر دریا میں ہی مجاہدین پر تیروں کا مینہ برسا دیتی، اور اس طرح بمشکل آدھا لشکر دوسرے کنارے تک پہنچ سکتا ،اس خطرے کی پیش بندی بھی کرنی تھی جو سپہ سالار نے کر دی تھی ،لیکن خطرہ موجود تھا بہرحال خطرہ مول لینا ہی تھا اور عمرو بن عاص خطرہ مول لینے میں ہی شہرت رکھتے تھے۔
اسے بھی ہم اللہ کی مدد کہیں گے کہ نقیوس کے رومی جرنیل کے دفاع میں ایک دفاعی اسکیم آگئی اسے اطلاع مل گئی تھی کہ اس نے جو دستے مجاہدین کو روکنے کے لئے قرنوط بھیجے تھے وہ بری طرح کٹ گئے ہیں اور مسلمان بڑھے چلے آ رہے ہیں جرنیل نے اپنے جونیئر کمانڈروں کو بلایا۔
اب ان مسلمانوں کو روکنا اور زیادہ ضروری ہوگیا ہے۔۔۔۔ جرنیل نے کہا ۔۔۔اگر ہم نے انھیں نہ روکا تو آگے جاکر ان کا لشکر چھوٹے چھوٹے قصبوں اور دیہات کو تہہ تیغ کرتا جائے گا ۔اور لوگ ان کی اطاعت قبول کر لیں گے۔ ہمارے لوگوں کو یہ خبر مل جائے گی کہ ہماری فوج قرنوط میں بہت بری شکست کھا چکی ہے۔آج رات کشتیوں سے دریا پار کیا جائے گا، اور صبح تک ہمارے دستے دوسرے کنارے پر مسلمانوں کے راستے میں تیار موجود ہوں گے۔
بجائے اس کے کہ مجاہدین دریا پار کرتے رومیوں نے دریا پار کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔لیکن رومی فوج  رات ہی رات دریا پار نہ کرسکی اس کی وجہ یہ تھی کہ ان دونوں دریا میں طغیانی تو نہیں تھی لیکن دریا کا جوش و خروش ایسا تھا کہ وہ کشتیوں کو اس رفتار سے آگے بڑھنے ہی نہیں دیتا تھا جس کی توقع رکھی گئی تھی۔ اس طرح رومیوں کے لئے صبح تک بائیں کنارے تک پہنچنا مشکل ہو گیا۔
مجاہدین نے قرنوط سے کچھ آگے رات بھر کے لیے پڑاؤ کیا تھا۔ لیکن فجر کی نماز سے فارغ ہوتے ہی کوچ کر گئے دور سے ہی انہوں نے دیکھا کہ قلعہ نقیوس کے بالمقابل کشتیوں کا ایک بہت بڑا بیڑا دریا پار کر رہا ہے اور کچھ کشتیاں کنارے لگ چکی ہیں اور رومی فوج کود کود کر کنارے پر آ رہے ہیں۔ سپہ سالار سمجھ گئے کہ رومی ایک بار پھر ان کے راستے میں حائل ہو رہے ہیں۔
سپہ سالار نے حملے کا حکم دے دیا اور یہ دیکھ کر کے کشتیوں کی زیادہ تر تعداد ابھی دریا میں ہے تمام تیر اندازوں سے کہا کہ وہ ان کشتیوں پر تیروں کی بوچھاڑہے پھینکیں مجاہدین بڑی ہی تیزی سے پہنچ گئے ۔ پہلے ان رومیوں کو گھیرا جو کشتیوں سے اتر آئے تھے ان کی تعداد بہت تھوڑی تھی وہ واپس کشتیوں کی طرف بھاگنے لگے لیکن مجاہدین ان پر جا ٹوٹے اور بڑی آسانی سے انہیں کاٹ کر رکھ دیا۔ مجاہدین کے جوش اور جذبے کا یہ عالم تھا کہ کچھ رومی دریا میں کود گئے اور مجاہدین ان کے پیچھے کو دے اور پانی میں انہیں جا لیا اور ان کی لاشیں  نیل  اپنے ساتھ لے گیا ۔ تیر اندازوں نے تو ان کشتیوں پر جو ابھی آ رہی تھی تیروں کا موسلا دھار مینہ برسا دیا اب المجاہدین ایسے جوش میں آئے کہ وہ دریا میں کود گئے اور تیر کر ان کشتیوں تک پہنچنے کی کوشش کرنے لگے۔
تاریخ نویس حنا نقیوسی اسی شہر کا رہنے والا تھا۔ تاریخ میں اس کی تحریر آج بھی موجود ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ مسلمانوں کے اس جذبے اور اس جوش وخروش کو دیکھ کر رومی سپاہیوں نے تو گھبرانا تھا ہی خود جرنیل حوصلہ چھوڑ بیٹھا اور اس نے اپنی کشتی کے ملاحوں سے کہا کہ وہ کشتی کا رخ اسکندریہ کی طرف کر دیں یہ تو سب کو معلوم ہی ہے کہ نیل کا رخ اسکندریہ کی طرف ہی تھا۔
بائیں کنارے پر پہنچنے والے رومی تو کٹ گئے اور مجاہدین کشتیوں پر تیر برسانے لگے تو کشتیاں پیچھے کو مڑنے لگیں۔ یا دریا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گئی اور رومیوں کا بری طرح نقصان ہوا رومیوں نے دیکھ لیا کہ ان کا جرنیل وہ بھاگا جا رہا ہے ۔اس کے بھاگنے کی خبر سب تک پہنچ گئی اور رومی نقیوس والے کنارے کی طرف جانے کی بجائے اسکندریہ کی طرف رخ کر گئے۔
 لیکن مجاہدین کے تیروں نے انہیں جانے نہ دیا شاید ہی کوئی رومی ہوگا جس کے جسم میں مجاہدین کا تیر نہ اترا ہوگا۔
تاریخ میں یہ بھی آیا ہے کہ کئی ایک رومی فوجیوں نے کشتیوں میں ہی کھڑے ہو کر ہاتھ اٹھا دیئے اور چلا چلا کر کہنے لگے کہ انہیں کنارے کی طرف آنے دیا جائے وہ ہتھیار ڈال رہے  تھے۔
معلوم نہیں سپہ سالار عمرو بن عاص نے ایسا حکم کیوں دیا کہ ہتھیار ڈالنے والے رومیوں کو قیدی بنانے کی بجائے انہیں قتل کروا دیا۔
سپہ سالار کے حکم سے تمام لشکر کشتیوں پر سوار ہوا کچھ اپنی کشتیاں تھیں اور باقی رومیوں کی کشتیاں پکڑی گئی تھیں ان سے دریا پار کیا گیا اور لشکر نقیوس شہر میں بلا مزاحمت داخل ہو گیا وہاں کوئی فوج نہیں تھی شہریوں نے بتایا کہ ڈیڑھ ایک دستہ شہر میں موجود تھا جو اسکندریہ کی طرف بھاگ گیا ہے ۔
عمرو بن عاص اپنی پیش قدمی کے راستے میں ہر مزاحمت اور ہر رکاوٹ کو کم سے کم کرنے کی کوشش میں تھے ۔انہوں نے اپنے ایک سالار شریک بن سمی کو بلایا اور کہا کہ وہ کم سے کم مجاہدین کو ساتھ لے جائیں اور بھاگنے والے اس رومی دستے کو جہاں کہیں وہ پہنچ چکا ہے ختم کر دیں یا ھانک کر واپس لے آئیں۔ معلوم ہوتا ہے عمرو بن عاص کو یہ پتا نہیں چل سکا تھا کہ اس رومی دستے کی نفری کتنی ہے ان کا خیال یہ ہوگا کہ وہ ڈر کر بھاگ رہی ہیں اس لئے تھوڑے سے مجاہدین کے آگے ہتھیار ڈال دیں گے ۔لیکن کوئی اور ہی صورت پیدا ہو گئی۔
سالار شریک نے مجاہدین کی مختصر سی جماعت کے ساتھ ان رومیوں کو راستے میں ہی جا لیا۔ رومیوں نے پلٹ کر دیکھا کہ یہ تو بہت تھوڑے ہیں انہوں نے اپنے بکھرے ہوئے ساتھیوں کو پکار پکار کر اکٹھا کر لیا اور ان مجاہدین کو گھیرے میں لے لیا۔ تب سالار شریک نے محسوس کیا کہ وہ اس خطرے سے زندہ نہیں نکل سکیں گے۔ قریب ہی ایک اونچا اور خاصہ چوڑا اور لمبا ٹیلا تھا سالار شریک اپنے مجاہدین کے ساتھ اس ٹیلے پر چڑھنے میں کامیاب ہوگئے وہ سب گھوڑ سوار تھے۔
ان کے ساتھ ایک بڑے ہی مشہور شہسوار تھے جن کا نام مالک بن ناعمہ صدفی تھا۔ ان کی شہسواری مسلمہ تھی۔ سالار شریک نے مالک بن ناعمہ سے کہا کہ وہ اپنی جان پر کھیل کر ان رومیوں سے راستہ بناتا نکلے اور سپہ سالار تک پہنچے اور کمک کے ساتھ لے آئے، ورنہ سب مارے جائیں گے۔ اس شہسوار نے ٹیلے سے گھوڑے کو ایڑ لگائی گھوڑا پھسلتا اتر کر کا نیچے آیا۔ رومیوں نے اسے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن یہ شہسوار تلوار گھماتا اور گھوڑے کو دائیں بائیں پوری رفتار پر دوڑاتا نکل گیا ۔اس دوران مجاہدین نے ٹیلے سے تیر برسانے شروع کر دیئے تھے تیرانداز تین چار ہی تھے رومی ٹیلے پر چڑھنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن کچھ ڈرے ڈرے بھی تھے کیونکہ کی ایک ان کے ساتھی تیروں سے گھائل ہو چکے تھے انہوں نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ ایک مجاہد سوار نکل گیا ہے۔ اور ابھی مسلمانوں کا کوئی بڑا دستہ آن پہنچے گا ۔اس خیال سے وہ بھاگ نکلنے کی فکر میں بھی تھے۔
شاہ سوار مالک بن ناعمہ ہوا سے باتیں کرتے اپنے لشکر میں پہنچے اور سپہ سالار کو بتایا کہ اپنے مجاہدین کس طرح گھیرے میں آگئے ہیں۔ سپہ سالار نے ذرا سا بھی وقت ضائع نہ کیا اور کمک کو دوڑا دیا۔
سالار شریک اور ان کے مجاہدین نے بڑی ہی جاں بازی سے رومیوں کا مقابلہ کیا کچھ رومی ٹیلے پر چڑھ گئے تھے انہیں تلواروں اور برچھیوں پر لیا اور اتنی دیر میں کمک پہنچ گئی رومی بھاگ نکلے لیکن کمک نے ان کا تعاقب کیا اور ان میں سے زیادہ تر کو وہی رکھا کسی ایک کو بھی زندہ نہ رہنے دیا ۔زندہ وہی رہے جو چند ایک بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ نیل کے کنارے وہ ٹیلا آج بھی موجود ہے اور وہ سالار شریک کے نام سے موسوم ہے ۔اور آج بھی اس ٹیلے کو کوم شریک کہتے ہیں۔

#جاری_ہے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.