Ads Top

Bhagora By Riaz Aqib Kohler Episode No. 38 ||بھگوڑا مصنف ریاض عاقبکوہلر قسط نمبر 38

Bhagora By Riaz Aqib Kohler بھگوڑا  مصنف ریاض عاقب کوہلر
Bhagora
By
Riaz Aqib Kohler
بھگوڑا
 مصنف
ریاض عاقب کوہلر



بھگوڑا
قسط نمبر38
ریاض عاقب کوہلر
”یہاں تک تو ڈن ہو گیا اب آگے کیا کرنا ہے؟“ امجد چارپائی کے نیچے لیٹتے ہی پوچھا۔”ماجے اس کتے کے ساتھ جتنے بندے موجود ہیں یہ رحمن خیل کے ہیں اور میرے گھر کو جلانے میں یہ بھی برابر کے شریک ہیں ۔چودھری کو گرفتار کرنے کے بعد ان میں سے ایک بھی نہیں بچنا چاہےے“ ۔
”میرخیال ہے ایک ادھ ہی پہرہ دیتا ہو گاباقی سو جاتے ہوں گے، کیونکہ چودھری کو یہاں کسی سے خطرہ نہیں ہے ۔“” کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی ....ہو سکتا ہے تمام سو جاتے ہوں یہ بھی ممکن ہے تین چار آدمی بیک وقت جاگتے ہوں۔“” ایک دفعہ چودھری پر قابو پالیں پھر دیکھا جائے گا۔“ امجد نے کہا اور ہم دونوں نے خاموشی سادھ لی۔ وقت تھم سا گیا تھا۔ سکینڈوں والی سوائی کی حرکت بھی اتنی سُست ہو گئی تھی گویا کوئی چیز اسے حرکت سے روک رہی ہو۔ میرا دماغ اس وقت عجیب و غریب خیالات کی آما جگاہ بنا ہواتھا۔ وہ وقت قریب آگیا تھا جس کا میں کافی عرصے سے منتظر تھا اپنے پیاروں کی صورتیںمیری میری نگاہوں میں گھومنے لگیں، سعدیہ ، عدنان، امی ابو، حاکم ، احمد، محمد جان، بھابی بھتیجے تمام کے ہنستے مسکراتے چہرے میری آنکھوںمیں پانی بھرتے گئے میں ان میں کسی کو بھی چودھری کے ظلم سے نہیں بچا سکا تھا، لیکن چودھری کو عبرت ناک انجام سے دو چار کر کے میں اپنے دکھتے ہوئے زخموں پر مرہم رکھ سکتا تھا۔
ہمیں اس بیڈ کے نیچے بہت سا وقت گزارنا پڑا وہ رات میری زندگی کی طویل ترین رات تھی اور پھر خدا خدا کر کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں چودھری کے کمرے سے باہر ہمیںبہت سے بندوں کی ملی جلی آوازیں سنائی دیں ہم نے بے ساختہ چھو کرایک دوسرے کے جاگنے کو یقینی بنایا۔دروازہ کھلا اور چودھری کی منحوس آواز میرے کانوں میں پڑی۔”شادی خان ....کرم شاہ کو بولو جرنیٹر جلدی آن کرے۔“”جی چودھری صاحب۔“ ایک دوسرے بندے کی آواز آئی مگر اس کے جانے سے پہلے جرنیٹر سٹارٹ ہونے کی ہلکی سی گڑگڑاہٹ سنائی دی اور کمرے میں ٹیوب لائیٹ کی دودھیا روشنی پھیل گئی۔ چارپائی کے نیچے سے مجھے چودھری کے جوتے نظر آرہے تھے۔ وہ آہستہ قدموں سے چلتا ہوا آیا اور چارپائی پر بیٹھ گیا۔
”تم لوگ آرام کرو صبح جنگل خیل مال لے کر جانا ہے۔ شادی خان ۔ کرم شاہ اور میر علی تینوں صبح سویرے نکل جانا۔ مجھے جگانے کی ضرورت نہیں۔“
”کتنا مال لے جائیں؟“ شادی خان مستفسر ہوا۔”ان کی ڈیمانڈ کتنی تھی؟“”دس کلو۔“”15کلو لے جانا۔ شاید زیادہ ضرورت پڑ جائے۔“
”ٹھیک ہے چودھری صاحب۔“ اس مرتبہ بھی شادی خان بولا شاید وہ کوئی منشی ٹائپ چیز تھا۔ ”اور کچھ؟“”نہیں شکریہ۔ آپ لوگ آرام کریں۔“ اور تمام بندے سلام کہتے ہوئے چودھری کے کمرے سے نکل گئے۔
ان کے جانے کے بعد چند لمحے چودھری اپنی جگہ پر بیٹھا رہااور پھر اٹھ کر کمرے کا درازہ اندر سے بند کرکے باتھ روم میں گھس گیا۔ اس دوران ہم چپ چاپ خاموشی سے لیٹے رہے۔ یوں بھی اس قسم کی سچوئیشن میں ہم بغیر بولے ایک دوسرے کے ارادے کو سمجھ لیتے تھے۔ باتھ روم سے باہر آ کر وہ بیڈ کے نزدیک آیا اور جھک کر کوئی چیز اٹھانے لگا اور پھر ہلکی سے کھنکھناہٹ سن کر میں نے اندازہ لگایاکہ وہ چابیاں تھیں۔ چابیاں اٹھا کر وہ مڑا اس کے قدم مجھے بیڈ کی پائنتی کی طرف بڑھتے نظر آئے میں نے بیڈ کے نیچے سے سر نکال کر دیکھا وہ دیوار کے ساتھ لٹکی ایک بڑی سی تصویر کو اتارکر نیچے رکھ رہا تھا۔ تصویر کے پیچھے ایک سیف کا دروازہ نظر آرہا تھا۔ اسی طرح کا سیف میں نے بکنگ کلرک کے گھر بھی دیکھا تھاجو بعد میں میرے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ میں چارپائی کے نیچے سے نکل آیا، امجد نے بھی میری تقلید کی تھی، چودھری سیف کا دروازہ کھول کر اس میں منہمک تھا۔
”چودھری!“ میں نے آہستہ سے پکارا۔
وہ بدک کر پیچھے مڑا۔ ”ت ....تت.... تم.... تم.... عم.... عمر۔“اس آنکھیں حیرت و خوف کے ملے جلے تاثرات سے پھیل گئیں تھیں ۔”بڑی تیز یادداشت ہے چودھری....میں تو سمجھ رہا تھا تُومجھے بھول گیا ہوگا؟“اس نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے چور نظروں سے دروازے کی جانب دیکھا مگر اس کے دیکھنے سے پہلے امجد آہستہ قدموں سے دروازے کی طرف چل پڑا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اس نے کیا کرنا تھا۔
”عمر جان۔ مم میں تمھارے ساتھ سس سودا کرنا چاہتا ہوں۔ یہ پیسے لے لو۔“ اس نے سیف کی طرف اشارہ کیا۔ ”اس کے علاوہ میرے اکاﺅنٹ میں کافی رقم موجود ہے۔ تمام تمھارے حوالے کر دوں گا۔“
”چودھری رقم تو نہیں البتہ دوسری شرط پر سودا ہو سکتا ہے۔“
”کک.... کون سی۔“وہ ہکلایا۔” مجھے تمھاری تمام شرائط منظور ہیں۔“
”بڑی آسان سی شرط ہے.... میرے گھر والے واپس کرو۔“
”عمر جان کک کوئی مم.... ممکن شرط بتلاﺅ۔“”بتا دوں گا۔“ میں سرد لہجے میں بولا اور دوسرے لمحے میرا بایاں مکہ پوری قوت سے اس کی کنپٹی پہ لگا وہ اچھل کر سیف کے دروازے سے ٹکراتے ہوئے نیچے گر پڑا۔ اس کے منہ سے ایک بلند کراہ خارج ہوئی تھی مگر اس کے بعد وہ بے حس و حرکت ہو گیا۔
”ماجے !....اسے باندھنے کے لےے کوئی رسی دیکھو ۔“ میں اس کے متعلق کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔ حالانکہ مجھے امید تھی کہ وہ گھنٹے دو گھنٹے کے لیے بے ہوش ہو گیا تھا۔
”سلنگ سے باندھ لیتے ہیں۔“ وہ اپنی کلاش کوف سے سلنگ نکالنے لگا۔
”نہیں بستر کی چادر سے پٹیاں پھاڑ لو۔“ اور وہ سر ہلاتا ہوا بیڈ کی طرف بڑھ گیا۔ بیڈ کی چادر سے اس نے خنجر کی مدد سے دو پٹیاں لمبائی کے رخ پھاڑیں اور ان سے چودھری کے ہاتھ پاﺅں مضبوطی سے باندھ دیئے۔”اس کے منہ پر بھی پٹی باندھ دو۔“ میں نے چادر سے مزید ایک پٹی پھاڑ کر امجد کی جانب بڑھائی ، اس نے سر ہلاتے ہوئے پٹی لے کر اس کے منہ پر باندھ دی۔
” تم اس کا خیال رکھو۔ میں ذرا باہر والے سور ماﺅں سے نمٹ لوں۔“
”نہیں....“اس نے نفی میں سرہلایا۔ ” یہ ادھر محفوظ ہے دونوں چلتے ہیں۔ تمھارا اکیلا جانا مناسب نہیں۔ البتہ اسے بیڈ کے نیچے چھپا دیتے ہیں۔“
 اس نے چودھری کو بیڈ کے نیچے گھسیٹر دیا۔ایک لمحے کے لیے سوچ کر میں اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کمرے کے بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ کنڈی کھول کر میں نے احتیاط سے باہر جھانکا ، کوئی بھی نظر نہ آیا دوسرے کمرے کو عبور کر کے ہم گیلری میں آگئے گیلری خالی پڑی تھی اور اس میں ایک ٹیوب لائیٹ جل رہی تھی۔ برآمدے والا دروازہ اور کھڑکیاں بند تھیں اس لیے ہمارے باہر سے دیکھے جانے کا خطرہ موجود نہیں تھا البتہ گیلری کے ساتھ موجود کمروں سے کوئی باہر جھانکتا تو ہم آسانی سے نظر آجاتے۔
”پہلے کمرے یا باہر ۔“ امجد دھیمی آواز میں مستفسر ہوا ۔
”تم کمرے سنبھالو.... میں باہر جاتا ہوں۔“ ”اس سے بہتر یہ ہو گا کہ تم برآمدے کے دروازے کے ساتھ چھپ کر مجھے پروٹیکشن مہیا کرو اور میں کوشش کرتاہوں کہ بغیر شور شرابے کے انھیں مردار کردوں، لیکن اس کے برعکس ہونے کی صورت میں تم اندر باہر دونوں سائیڈ وں کو با آسانی کور کر لو گے۔“
مجھے اس کی تجویرمناسب لگی اور میں اثبات میں سرہلاتے ہوئے برآمدے کے دروازے کی جانب بڑھ گیا۔
دروازے کے ساتھ میں اس طرح چھپ کر کھڑا ہو گیا کہ اندر باہر دونوں طرف نظر ڈال سکوں، امجد نے میری پوزیشن دیکھ کر اطمینان بھرے انداز میں سر ہلایا اور دبے قدموں نزدیکی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ دروازے پر آہستہ سے دباﺅ ڈال کر اس نے میری جانب دروازے کے بند ہونے کا اشارہ کیا اور دستک دینے کی اجازت مانگی۔
میں اثبات میں سر ہلانے ہی والا تھا کہ بجلی کی سی سرعت سے ایک سوچ میرے دماغ میں ابھری اور میں نے اشارے سے اسے روک کر اس کی جانب قدم بڑھائے۔ وہ بھی میری طرف چل پڑا۔” کیا بات ہے؟“ 
” اندر سے کچھ پوچھاگیا تو تمھارے لیے پشتو میں جواب دینا مشکل ہو گا اس لیے تم میری جگہ چلے جاﺅ اوریہ کام مجھ پہ چھوڑ دو۔“
امجد سر ہلاتا ہوا برآمدے والے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔اس کے پوزیشن میں ہوتے ہی میں نے دروازے کو ہلکے سے کھٹکھٹا یا۔
”سہ چل دے ھلکہ؟“(کیا بات ہے لڑکے)کمرے میں موجود آدمی نے چارپائی سے اٹھنے کی زحمت گوارہ نہیں کی تھی(پشتو میں ھلک لڑکے کو کہتے ہیں مگر اکثر لوگ اسے بطور تکیہ کلام بھی استعمال کرتے ہیں اور ایسے آدمی بعض دفعہ تو اپنے سے بڑی عمر والے کو بھی لڑکا کہہ دیتے ہیں۔ اس وقت بھی کمرے میں موجودآدمی نے اسی معنی میں مجھے لڑکا کہا تھا)
”ور خوکو لاﺅ کہ“(دروازہ تو کھولو) میں نے اپنی آواز پہلوان کی طرح بھاری اور کرخت بنانے کی کوشش کی لیکن اس میں مجھے کوئی خاص کامیابی نہ ہوئی ،خوش قسمتی سے اندرموجود آدمی بغیر میری آواز پر توجہ دیئے کسی اورکو مخاطب ہوا۔
”ھلکہ نور تاج ور کولاﺅ کہ“(اولڑکے نور تاج اٹھو دروازہ کھولو)
”اس کا مطلب ہے کمرے میں کم از کم دو آدمی تو لازماً موجود ہیں۔“ میرے دماغ میں سوچ ابھری مگر مزید کچھ سوچنے سے پہلے دروازے کے اندرونی جانب پاﺅں کی آہٹ ابھری اور میں ہمہ تن گوش دروازے کی جانب متوجہ ہو گیا۔ کنڈی کھلنے کی آواز سنتے ہی میں دروازے کے سامنے سے ہٹ گیا تاکہ دروازہ کھلتے ہی اس کی نظر مجھ پہ نہ پڑے اور میری تدبیر کارگررہی دروازہ کھولنے والے کو جب کوئی سامنے نظر نہ آیا تو وہ بڑبڑاتے ہوئے باہر نکلا میںاس کے استقبال کے لیے تیار تھا ، کلاشن کوف میں نے دیوار کے ساتھ کھڑی کر دی تھی کیونکہ میں چاہتا تھا کہ حتی الوسع فائر کی نوبت نہ آئے۔
وہ قریباً میرا ہم عمر ہی تھا مجھے دیکھ کر اس کا منہ حیرت سے کھلا مگر چیل کی طرح اس پر جھپٹتے ہوئے میں نے ایک ہاتھ اس کے منہ پر اس طرح رکھا کہ آواز اس کے گلے ہی میں گھٹ گئی۔ دوسرا بازو اس کے گلے میں ڈالتے ہوئے میں نے بھر پور جھٹکا دیا اور کھٹک کی آواز سے اس کا منکا ٹوٹ گیاتھا۔ اس کے تڑپتے جسم کو آہستہ سے زمین پر لٹا کر میں تیزی سے کمرے میں گھس گیا اندر ہلکی پاور کا بلب روشن تھا۔ اس روشنی میں ایک بندہ ہلکی چادر اوڑھے چارپائی پر لیٹا نظر آیا دوسری چارپائی خالی پڑی تھی ،اس پر سونے والا ہمیشہ کے لیے سو گیا تھا۔

میں نے سونے والے کی چادر کھینچ کر اتاری۔”کک....کیا.... ہے۔“وہ گڑبڑاتے ہوئے اٹھ بیٹھا۔”بات یہ ہے مسٹر کہ عمر جان گنڈہ پور ولد ہاشم جان گنڈہ پور اپنا بدلہ لینے پہنچ گیا ہے۔“ اسے سفرِ آخرت پرروانہ کرنے سے پہلے میں نے اسے اپنا تعارف کرانا ضروری سمجھا۔”عم....مر....تت تم.... مم میں.... یہاں“ اس سے کوئی بات نہ بن پڑی۔ مگر میرے پاس اس سے ڈائیلاگ بازی کا وقت نہیں تھا اور اس کی گردن توڑتے ہوئے اسے بھی میں نے ساتھی کے پاس پہنچا دیا۔ گیلری میں پڑے بندے کو اندر گھسیٹ کر میں دروازے کو بند کر کے باہر نکل آیا۔
دیوار کے ساتھ کھڑی کلاشن کوف اٹھا کر میں نے امجد کو دوانگلیاں کھڑی کر کے بتلا دیا کہ کمرے میں صرف دوآدمی تھے۔ اگلا دروازہ مجھے کھلا ہوا ملا۔کواڑ کو آہستہ سے دھکیلتے ہوئے میں نے اندر جھانکا مگر اندر گھپ اندھیرا تھا۔ جیب سے پنسل ٹارچ نکال کر جلائی ۔اس کی باریک روشنی میں مجھے کمرہ خالی نظر آیا۔اس کے بعد والا کمرہ بھی مجھے خالی ملا اس کمرے کے اندر دو مزید اندرونی کمرے بنے ہوئے تھے۔ اندرونی کمرے میں چارپائیوں پربستر تو بچھے ہوئے تھے مگر سونے والا کوئی نہیں تھا۔ اب گیلری کی اس لائن میں آخری کمرہ رہ گیا تھا۔ البتہ مخالف سمت کے کمرے میں اب تک نہیں دیکھ سکا تھا۔
آخری کمرے میں جھانکنے پر بھی مجھے خالی کمرہ ہی نظر آیا البتہ اس کمرے کے ساتھ موجود اندرونی کمرے میں مجھے بند دروازے کی درزوں سے روشنی نکلتی ہوئی نظر آئی۔ میں دبے قدموں اس جانب بڑھ گیا۔ دروازے کی کھلی درزوں سے جھانکنے پر اندر چار آدمی تاش کے پتے پکڑے خاموشی سے اس میں منہک نظر آئے۔ ان کے انداز سے مجھے پتا چل گیا کہ وہ جوا کھیل رہے ہیں۔ ورنہ گپ شپ کی گیم میں ان کے درمیان ہلڑ بازی مچی ہوتی۔
میں نے دروازے پر آہستہ سے دباﺅ ڈالا اور یہ محسوس کرتے ہی کہ دروازہ کھلا ہے میں ایک جھٹکے سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔ اس خاموش ماحول میں دروازہ کھلنے کی آواز کسی دھماکے سے کم نہ تھی۔ چاروں نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا۔
”کون ہو تم؟“ سوال پوچھنے والے کی آواز سے میں پہچان گیا۔ وہ شادی خان تھا۔ ”نہیں پہچانا۔“
”تم عمر جان ہو نا؟“ اس مرتبہ کرم شاہ پہلوان بولا۔”صحیح پہچانا.... میں ہی وہ بدنصیب عمر جان ہوں جسے تم لوگوں کے ظلم نے کہیں کا نہ رکھا۔“”مم مگرہم نے کیا کیا ہے۔ تمھاری دشمنی تو چودھری صاحب کے ساتھ تھی ہم تو اس کے ملازم ہیں۔“ میرے لہجے میں ابلتے ہوئے غم و غصے کی شدت نے پہلوان کو لرزا دیا تھا۔
”افسوس صرف اس بات کا ہے کہ میرے پاس تمھیں تڑپا تڑپا کر مارنے کا وقت نہیں ہے۔ خیر تمھاری قسمت۔“یہ کہتے ہی میں نے سیفٹی لیور کو برسٹ پر سیٹ کرکے ٹریگر پریس کر دیا۔ ”تڑڑڑ“ کی آواز میں ان کی کرب ناک چیخیں گونجیں اور وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگے۔ میں چند لمحے وہیں پر کھڑا ان کے تڑپنے کا نظارا کرتا رہا۔ انھیں مارتے ہوئے مجھے عجیب سی تسکین محسوس ہوئی تھی۔ یوں لگا جسے کسی سختی سے مطالبہ کرنے والے قرض خواہ کو میں نے اس کے قرض کی ادائی کر دی ہو۔ میری محویت فائرنگ کی آواز سے ٹوٹی۔میں جلدی سے باہر نکلا میرے اندازے کے مطابق فائر کرنے والا امجد تھا۔ باہر نکلنے پر اس کی تصدیق بھی ہو گئی۔
”جانو صاحب دو تھے۔“ میں جیسے ہی اس کے قریب پہنچا وہ آہستہ سے بولا۔
”چھے کو میں نے بھی جہنم کا ٹکٹ پکڑا دیا ہے۔“ ”میرا خیال ہے یہ اتنے ہی تھے مگر احتیاطاً میں صحن میں چکر لگا آتا ہوں تم بقایا کمرے دیکھ لو۔“ امجد نے مشورہ دیا اور میں سر ہلاتے ہوئے اندر کی جانب بڑھ گیا جبکہ امجدکا رخ صحن کی طرف تھا۔تھوڑی دیر بعدہم دونوں چودھری کے بیڈ روم میں اکٹھے ہو گئے تھے امجد کا خیال درست نکلا کہ چودھری کے علاوہ اس گھر میں کوئی نہیں بچا تھا۔
”اب اس کا کیا کرنا ہے۔“ امجد نے چودھری کو چارپائی کے نیچے سے گھسیٹا” اسے ساتھ لے کرجانا ہے۔ میں اسے آسان موت کے حوالے نہیں کرنا چاہتا۔ اس نے میری ذات کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی ناممکن ہے۔ میں بھی اسے ایسا ہی نقصان پہنچانا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں یہ زندہ رہے مگر اس کی زندگی موت سے بدتر ہو۔ یہ موت مانگے مگر موت نہ ملے اور اس کی زندگی کی خوشیاں اور راحتیں میں چھین لوں اور یہ جیتی جاگتی حسرت بن جائے یہ....۔“ میں شاید کچھ اور بھی کہتا مگر امجد نے میری بات کاٹی....
”ٹھیک ہے جانو.... اب چلو کیونکہ یہاں رکنامناسب نہیں ہے۔ یہ نہ ہو فائرنگ کی آواز اس کے کسی ہمدرد کو اس جانب متوجہ کر دے اور ہمارے لیے خواہ مخواہ ایک لاحاصل مشغلہ شروع ہو جائے۔“
”ٹھیک ہے چلو۔“ میں نے اس کی تائید کی۔”اس رقم کا کیا کریں۔“ امجد نے سیف کے کھلے دروازے سے جھلکتی رقم کی طرف میری توجہ دلائی۔”یہ بھی ساتھ لے چلتے ہیں.... راستے میں کام آئے گی۔“
اور امجد نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے ایک تکیے کا کور اتار کر اس میں وہ ساری دولت بھر لی۔ اس کے علاوہ سونے کی کچھ اینٹیں بھی وہاں پڑی تھیں وہ سمیٹ کر امجد نے اسی تھیلے میں ڈال دیں۔
”یہ پکڑو میں اسے سنبھالتا ہوں۔“ اس نے تھیلا میری جانب بڑھایا۔
 امجدنے چودھری کے سر کے بالوں سے پکڑا اور گھسیٹتے ہوئے باہر کے جانب چل پڑا۔ اس کی اس حرکت سے چودھری کے خلاف اس کے دل میں موجود نفرت کا اظہار ہو رہا تھا۔
چودھری نے ہوش میں آ کر غوں غاں شروع کر دی مگر منہ پر پٹی بندھے ہونے کی وجہ سے وہ کوئی بات نہ کر سکا۔ ہم دونوں بھی اس کی تکلیف پر توجہ دیئے بغیرچلتے رہے بلکہ ہمارا تو مقصد ہی اسے اذیت دینا تھا۔صحن کے ایک کونے میں چھپر نما گیراج بنا ہوا تھا جس میں تین گاڑیاں کھڑی تھیں۔ایک ڈبل کیبن کی عقبی نشستوں کے درمیان چودھری کو پٹخ کے امجد خود بھی پیچھے ہی بیٹھ گیا تھا۔ میں نے سٹیرنگ سنبھالی اور گاڑی آگے بڑھا دی۔ گیٹ پرپہنچ کر میں نے گاڑی روکی امجد نے گیٹ کھولا اور ہم ایک مرتبہ پھر چل پڑے ۔”جانان خان سے ملو گے؟“
”ہاں۔“ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ ”اس نے ہماری مدد کی ہے اس کا شکریہ ادا کر نا ہے۔ اس کے علاوہ راستے کے بارے میں بھی اس سے معلومات لینا ہیں، جس راستے سے ہم چل کر آئے ہیں اس راستے سے اس منحوس کو ساتھ لے جانا مشکل ہو گا، اس ڈھائی من کی لاش کو کون کندھوں پر اٹھائے گا۔ جبکہ افغانستان کے راستے سے ہم لاعلم ہیں البتہ جانان کو ضرور اس راستے کے بارے معلوم ہو گا۔“
”چلے گا تو خیر یہ اپنے پاﺅں پر۔ البتہ تم افغانستان والے رستے کو بہتر سمجھتے ہو تو یونھی سہی۔“
ہم جس وقت جانان خان کی حویلی میں پہنچے وہ جاگ رہا تھا کیونکہ اطلاع دینے والے ملازم کے ساتھ ہی وہ باہر آگیا تھا اب وہ جاگنا ہماری وجہ سے تھا یا لزا کی قربت نے اسے سونے نہیں دیا تھا اس بات سے میں لاعلم تھا۔
”آپ لوگ اندرکیوں نہیں آرہے اور کیا بنا آپ کے کام کا؟“ وہ ایک ہی سانس میں دو سوال کر گیا۔”ملک صاحب ہم کامیاب ہوئے ہیں اور اس وقت ہم سفر کی تیاری میں ہیں ادھر رکنا ہم موزوںنہیں سمجھتے۔ آ پ کے پاس آنے کا مقصد ایک تو آپ کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ آپ کے تعاون سے ہمیں اپنے مقصد میں کامیابی ہوئی ہے۔ دوسرا ہمیں افغانستان کے راستے سے چودھری کو اپنے ساتھ لے جانا ہے اور راستے کے بارے آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔“
”آپ لوگ اندر تو چلیں نا؟کچھ چاے پانی ہو جائے۔ صبح چلے جانا ابھی تو یوں بھی صبح ہونے میں دو تین گھنٹے ہی باقی ہیں۔“”شکریہ ملک صاحب۔ مگر ہم اندرجانے سے معذرت کریں گے۔“ جیسے آپ کی مرضی....اور راستا اتنا مشکل نہیں ہے آپ لوگ جنگل خیل سے سیدھا آگے نکلو گے تو....۔“ جانا ن خان نے راستے کے بارے میں مختصر الفاظ میں کافی کار آمد باتیں بتلا دیں۔ آخر میں بولا۔ ”عمر جان !....اگر رقم یا کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو بلا جھجک مجھے کہہ سکتے ہو؟“
”بہت مہربانی ملک صاحب اب اجازت۔ یار زندہ صحبت باقی۔“ میں نے معانقے کے لیے بازو پھیلا دیئے، اس سے مل کرہم گاڑی میں بیٹھے اور الوداعی انداز میں ہاتھ ہلاتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوئے۔ تیز رفتاری سے سفر کرتے ہوئے ہم بہ مشکل صبح کی اذانوں کے وقت جنگل خیل پہنچ گئے۔ گاڑی کا رخ عبدالمجید کے گھرکی طرف موڑتے ہوئے میں نے کہا۔
”میرا خیال ہے آج کا دن سعدیہ کے ہاں گزاریں۔ ایک تو کچھ آرام کرلیں گے کہ آگے ہمیں بہت لمبا سفر در پیش ہو گا اس کے علاوہ دونوں سے الوداعی ملاقات بھی ہو جائے گی۔“
 امجد نے فقط سرہلانے پر اکتفا کیاتھا۔دوسری دستک ہی پرعبدا لمجیدنے دروازہ کھول دیا۔ ہمیں دیکھتے ہی اس کے خوابیدہ چہرے پر خوشی کی چمک لہرائی جو اس بات کا مظہر تھی کہ وہ ہمیں دل سے پسند کرتا تھا۔ ہم دونوں سے مل کر اس نے گاڑی کے لیے مکمل دروازہ کھول دیا۔ گاڑی صحن میں روک کر ہم نے چودھری کو گھسیٹ کر باہر نکالا اور ایک خالی کمرے میں منتقل کر کے باہر سے دروازہ بند کر دیا۔ ہماری باتوں کی آواز سے سعدیہ بھی جاگ گئی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی وہ بے ساختہ مجھ سے لپٹ گئی۔
” بھیا !....بڑی دیر لگا دی۔“
”ہاں بہنا!....“ میں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ ”مگر تمھاری دعا سے کامیاب ہوئے ہیں۔“”شکر ہے ﷲ کا۔“ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
”اچھا تم فٹا فٹ تگڑا سا ناشتا تیار کرو تاکہ ہم کھاپی کر آرام کرنے کے لیے لیٹیں۔ سخت تھکے ہوئے ہیں۔“
”ابھی لو بھائی۔“ وہ سرعت سے باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی۔
تھوڑی دیر بعد ہی ایک پُر تکلف ناشتے سے فارغ ہو کر ہم دونوں آرام کے لیے لیٹ گئے تھے مگر اس سے پہلے مجید کو چودھری کا خیال رکھنے کی تاکید کرنا نہیں بھولے تھے۔
”بھیا!.... آپ لوگ کچھ دن رک نہیں سکتا۔“ سعدیہ کی اردو سننے لائق تھی۔ امجد مزاحیہ لہجے میں بولا۔”نہیں بہن ہم نہیں رک سکتا۔ خوچہ امارا ادھر بوہت کام ہے۔“
”کچ دن تو رک سکتا ہے نا۔ پِر چلاجانا۔“ سعدیہ ملتجی لہجے میں بولی۔”نئیں کچ دن بی نئیں رک سکتا۔“ امجد اسی کے انداز میں بولا۔
”دیکھو سعدیہ !بات یہ ہے کہ اگر ہم چند رک جائیں تو کیا ہوگا۔ کل نہیں تو پرسوں ہمیں لازماً جانا پڑے گا۔ تو ان چند دنوں کا کیا فائدہ۔ بچھڑنا جب مقدر میں ہو تو پھر کل کیا اور پرسوں کیا۔“
میری بات سن کر اس نے خاموشی سے سرجھکا لیا۔ مجھے پتا چل گیا کہ خاموش رہ کر وہ اپنی خفگی کا اظہار کر رہی تھی۔ میں اسے خوش کرنے کی خاطر عبدالمجید سے بولا۔
”مجید خان یوں کرو سعدیہ کو ابھی ابھی اپنے ماں باپ سے ملوانے لے جاﺅ اور کوشش کرنا کہ واپسی پر انھیں اپنے ساتھ ہی لے آﺅ۔“
”کک کیا مطلب ہے“ وہ جیسے گہری حیرانی سے بولی۔ ”مم میں کیسے امی ابو سے مل سکتی ہوں دشمنوں کے کانوں میں ذرا سی بھی بھنک پڑ گئی تو میرے ساتھ مجید بھی جان سے جائے گا۔“
”ہم نے جاناں خان سے صلح کرلی ہے۔ وہی ہیبت خان اور باسمت خان کا وارث ہے۔ تم بے فکر ہو کر جاﺅ۔ اب وہ تمھیں کچھ نہیں کہے گا۔“”سچ بھیا؟“ وہ بے ساختہ مجھ سے لپٹ گئی ۔”بالکل سچ.... اور تمھارا گھر تو یہاں سے نزدیک ہی ہے نا؟“
”ہاں.... پیدل گھنٹا ، پون گھنٹا لگ جائے گا۔“”چلو پھر تم دونوں نکلو....اور شام تک واپس پہنچنے کی کوشش کرنا کیونکہ ہم آج یہاں سے شام کا کھانا کھا کر نکل چلیں گے۔“
”جی اچھا۔“ کہہ کر وہ شاکی نظروں سے میری جانب دیکھتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔اس کے اور مجید خان کے گھر سے نکلتے ہی میں امجد سے بولا۔ ”چل بھئی ماجے چودھری کا انٹرویوکر لیں۔“”اسی مقصد کے لیے تُم نے انھیں کہیں بھیجا ہے۔“ امجد مسکرا کر بولا۔”ہاں....“ میں اثبات میں سرہلاتے ہوئے بولا۔ ”مگر کہیں اور نہیں ان کے اپنے گھر۔“
”اچھا کیا یار!.... کچھ اس کی دل بستگی کا سامان بھی ہو جائے گا۔“ امجد بولا اور اٹھ کر بیرونی دروازے کی کنڈی اندر سے لگا دی۔
ہم دونوں چودھری کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے، اسے ہوش آچکا تھا۔ ”اسے کھولو امجد!“ میرے لہجے میں بلا کی سنجیدگی تھی۔امجد نے آگے بڑھ کر اسے کھول دیا۔ وہ دونوں کلائیوں کو مسلتے ہوئے اٹھ بیٹھا۔
”سناﺅ چودھری!.... کیا حال ہے۔“ میں موڑھا لے کر اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ مگر وہ خاموش رہا۔ میں نے موڑھے پر بیٹھے بیٹھے اپنی داہنی ٹانگ اس کے ماتھے پر رسید کی اس کا سر ایک دھماکے سے زمین سے ٹکرایا کمرے کا فرش کچا ہونے کی وجہ سے اسے زیادہ چوٹ نہ آئی اور وہ کراہتا ہوا اٹھ بیٹھا۔”میں نے کچھ پوچھا ہے چودھری۔“”عمرجان تم اچھا نہیں کررہے۔“ یہ الفاظ اس کے منہ میں تھے کہ میں اس پر چیل کی طرح جھپٹا اور لاتوں گھونسوں سے اس کی تواضع کرنے لگا۔
”میں اچھا نہیں کر رہا ہوں سو¿ر کی اولاد.... گندے ،غلیظ....“ میرے منہ سے مغلظات کا لاوا ابل پڑا۔ چودھری زمین پر لڑھکنیاں لگا کر میری ٹھوکروں سے بچنے کی کوشش کرتا رہا جوابی کارروائی کی کوشش اس نے نہیں کی تھی ۔ سر پر لگنے والی ایک ضرب سے وہ دینا و مافیہا سے بے خبر ہو گیا اس کی آنکھیں بند ہوتے ہی امجد نے مجھے بازو سے پکڑ کر پیچھے گھسیٹ لیا۔
”بس کر جانو وہ بے ہوش ہو چکا ہے۔“میں چڑھی ہوئی سانسوں سے پیچھے ہٹ آیا۔ ”اسے دوبارہ باندھ دو ماجے کیونکہ یہ جتنی دیر میرے سامنے رہے گا میراخود پر قابو نہیں رہے گا۔“ میں کمرے سے نکل آیا۔
امجد بھی چند منٹ بعد میرے پاس پہنچ گیا۔”جانوتُم نے اس کے لیے حتمی طور پر کیا سوچا ہے؟“
اورمیں اسے اپنے پروگرام کے بارے بتانے لگا۔ میری بات ختم ہوتے ہی اس کی آنکھوں میں چمک سی لہرائی ....”میں تم سے سو فیصد متفق ہوں۔“
اس کے بعد میں نے اسے راستے کے بارے جانان خان سے حاصل ہونے والی معلومات سے آگاہ کیا اور ہم راستے کے بارے لائحہ عمل طے کر نے لگے۔ ہم کافی دیر وہیں بیٹھے رہے یہاں تک کہ سورج کی روشنی پیلی ہوئی اور پھر آہستہ آہستہ سورج غائب ہو گیا۔ اندھیرا چھانے سے پہلے مجید خان اور سعد یہ واپس پہنچ گئے۔ سعدیہ کے چہرے پر ہویداتاثرات اس کی بے پایاں خوشی کو ظاہر کررہے تھے۔”والدین کو ساتھ کیوں نہیں لائے ہو؟“”وہ کل آئیں گے....کیونکہ انھوںسامان وغیرہ سمیٹنا تھا۔“”تم بھی آج کی رات ان کے پاس ٹھہرجاتیں۔“
’آج آپ نے یہاں سے جانا ہے نا....وہ تو ان شاءﷲ اب ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔“
”اچھا اب تم کھانا پکا لو تاکہ ہم کھائیں اور نکلیں۔“اور وہ ”جی اچھا“ کہتے ہوئے کچن کی جگہ کی طرف بڑھ گئی۔اس کے جاتے ہی مجید خان آہستہ سے بولا۔ ”عمر جان بھائی سعدیہ کے والدین کو ہم نے یہ بتایا ہے کہ ہم شادی کر چکے ہیں۔“
”کوئی بات نہیں۔“ میں اسے تسلی دی۔ ”تم بس دن گنتے رہو جیسے ہی 4مہینے اور 10دن پورے ہوں چپکے سے دو گواہوں کی موجودی میں اس سے نکاح پڑھا لینا۔“امجد نے کہا۔”جانو.... چودھری کی کمائی سے کچھ رقم انھیں بھی دے دو، نئی زندگی شروع کرنے میں مدد ملے گی غریبوں کو۔“”جاو¿ رقم کا تھیلا لے آو¿، آدھی رقم انھی کو دے دیتے ہیں....ہم نے اتنی ساری رقم کا کیا کرنا ہے؟“
” عمر بھائی اس سے پہلے بھی آپ نے کافی رقم سعدیہ کو دی تھی جو اس نے میرے حوالے کر دی ہے اس کے علاوہ کچھ سونا بھی آپ یہاں چھوڑ گئے تھے۔ اتنا کچھ کافی ہے نا۔“ عبدالمجید احتجاجی لہجے میں بولا۔
”مجید خان یہ رقم ہم نے اپنے دشمن سے وصول کی ہے۔ اس لیے کہ اس نے ہمیں بہت زیادہ نقصان پہنچایا تھا۔ جانی بھی اور مالی بھی۔ بدلہ لینے کا حق ہم رکھتے ہیں تم چونکہ نئی زندگی شروع کر رہے ہو اور ہماری منہ بولی بہن کے شوہر بھی ہو توہمارا حق بنتا ہے کہ حتی الوسع تمھاری مدد کریں اور اس کے بعد اگر کبھی تنگی یا مالی مشکل محسوس کرو تو بے جھجک ہمارے پاس رحمن خیل آجانا۔ عمر جان گنڈہ پور کا نام کسی کے سامنے بھی لو گے وہ تمھیں مجھ تک پہنچا دے گا۔“
”آپ سے ملنے تو ان شا ءﷲ ہم ضرور آئیں گے۔“اس کے لہجے میں ایک عزم تھا۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔”خودا گرنہ بھی آنا چاہو ہماری بہن کو ضرور بھیج دینا۔“
”اس کے بغیر تو اب میں ادھورا ہوں۔“ عبدالمجید نے جھینپے ہوئے کہا۔ اسی وقت امجد بھی رقم کا تھیلا لے آیا میں نے اس میں سے آدھی رقم اور سونے کی تمام اینٹیں عبدالمجید کے حوالے کر دیں۔
”ات ....اتنی زیادہ رقم۔ عم عمر جان بھائی۔“ وہ ہکلا یا۔”ہاں مجید خان.... بھائی اس سے بھی زیادہ بہنوں کے لیے کرتے ہیں۔“ ”اب جاﺅ اس رقم کو کہیں سنبھال کررکھ لو۔“
امجد نے پوچھا۔”کس وقت نکلیںگے؟“ ”بس کھانا کھاتے ہی نکلتے ہیں۔“ 
کھانا کھانے کے بعد ہم نے چودھری کو گاڑی کی پچھلی نشستوں کے درمیان فرش پر لٹا کر اوپر سے کمبل ڈال کر اسے چھپا دیا۔ ہمارے کھانا کھانے کے دوران مجید نے چودھری کو بھی کھانا کھلا دیا تھا۔ ایک جذباتی مکالمے کے بعد ہم ان سے الوداع ہو کر نکل آئے سعدیہ بڑی مشکل سے ہم سے جدا ہوئی تھی وہ باری باری ہم دونوںسے لپٹ کر بڑی شدت سے روئی تھی اتنے مختصر ساتھ کے بعد اتنی جذباتیت کی وجہ ہمارے وہ احسان تھے جو ہم نے اس کی ذات پر کئے تھے، اس کے علاوہ اس کا حقیقی بھائی بھی کوئی نہیں تھا جس کی وجہ سے ہماری جدائی اسے بہت شاق گزری تھی۔
”جانو!.... کمینے تُو جہاں سے بھی رخصت ہوتا ہے اپنے پیچھے رونے والے چھوڑ جاتا ہے۔“ امجد اپنی آنکھوں کے نم کونے خشک کرتے ہوئے بولا۔”میری قسمت ہی ایسی ہے ورنہ میں کب یوں چاہتا ہوں۔“ اس چھوٹے سے مکالمے کے بعد گاڑی میں خاموشی چھائی رہی۔ ہم نے ایک پٹرول پمپ پر رک کر گاڑی کی ٹینکی فل کرائی اور تیل کا ایک کین فل کرا کے گاڑی کے پیچھے رکھ دیا تاکہ راستے میں ایندھن کی پرابلم نہ بنے۔ جنگل خیل بازار سے دو تین دن کا راشن اور پانی وغیرہ بھی میں نے گاڑی میں لوڈ کر لیا تھا۔ چودھری کی تلاش میں گھومتے ہوئے بھی ہم نے افغانستان کی سرحد عبور کر چکے تھے مگر اس وقت ہم بائی روڈ نہیں گئے تھے۔ جنگل خیل سے نکلتے ہی امجد بولا۔
”جانو!.... میں سو رہا ہوں تھک جانا تو مجھے اٹھا دینا۔“ میں نے اثبات میں سرہلا دیا اس نے ایک کمبل تہہ کر کے سر کے نیچے رکھا اور پچھلی نشست پر لیٹ گیا۔ جبکہ میں جانان خان اور عبدالمجید سے حاصل کی گئی معلومات کی روشنی میں اپنے راستے پر گامزن رہا اور پھر اگلے دودن ہم انھی دشوار گزار راستوں پر باری باری ڈرائیونگ کرتے ہوئے محو سفر رہے۔راستے میں دو تین دفعہ چند گھنٹوں کے لیے رک کر ہم اپنی معمول کی ضروریات بھی پوری کرتے رہے۔ تیسرے دن شام کو ہم خرلاچی کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے اس وقت اس چیک پوسٹ پر اتنی چیکنگ نہیں ہوتی تھی یوں بھی ڈیوٹی پر موجود محافظوں کو بخشش دیتے وقت ہم نے کنجوسی نہیں دکھائی تھی۔ انھوں نے ہمیں کوئی بڑا سمگلر سمجھا تھا۔ خرلاچی سے ہم پاڑہ چنار بائی پاس کرتے ہوئے ٹل اور پھر وہاں سے کوہاٹ پہنچے۔ کوہاٹ میں رات گزار کر اگلی صبح ہم نے پشاور کا رخ کیا۔ راستے میں ایک دو جگہ پولیس نے ہمیں روکا مگر کرنسی نوٹوں کی سوندھی خوشبو نے انھیں بولنے کے قابل نہ چھوڑا۔ چودھری کی اپنی دولت اس کے خلاف استعمال ہو رہی تھی۔ حرام کی دولت کا اتنا عبرت ناک انجام اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی میری نظر سے نہیں گزرا۔
پشاور شہر میں داخل ہونے کے بجائے ہم نے اس کے مضافات میں گھوم پھر کر نسبتاً ایک ویران سی عمارت تلاش کر لی جو عام آبادی سے ہٹ کر بنی ہوئی تھی۔ عمارت کے بیرونی دروازے پر لٹکا زنگ آلود تالا چیخ چیخ کر اس بات کا اعلان کر رہا تھا کہ عرصہ دراز سے کوئی اس عمارت میں داخل نہیں ہوا تھا۔ عمارت میں اندرونی کمروں کو بھی تالے لگے ہوئے تھے۔ ایک کمرے کا تالا توڑ کر ہم اندر داخل ہوئے ۔ کمرہ سامان سے عاری تھا۔ باقی کمروں کے تالے بھی باری باری کھول کر دیکھنے پر ہمیں دو تین ٹوٹی پھوٹی چارپائیوں اور ایک دو لوہے کے بکسوں کے اور کوئی قابل ذکر چیز نظر نہ آئی۔ دو چار پائیوں کو جھاڑ کر ہم نے بیٹھنے کے قابل بنایا، چودھری کو گاڑی سے نکال کر گرد آلود فرش پر پھینکا۔ کمرے کے دروازے کو اندر سے کنڈی کر دیا ۔
”اس خنزیر کی بندشیں ڈھیلی کر دو یہ نہ ہو اسی طرح بندھے بندھے ہی جہنم رسید ہو جائے۔“ 
امجد سر ہلاتے ہوئے آگے بڑھا اور اسے کھول دیا۔ بندشیں کھل جانے کے چند لمحے بعد تک وہ بے حس و حرکت پڑا رہا اور پھر کراہتا ہوا اٹھ بیٹھا۔ اس کی کلائیوں اور پنڈلیوں پر رسی کے نشانات واضح نظر آرہے تھے۔ اپنی کلائیوں اور پنڈلیوں کو مسلنے کے بعد وہ مجھے مخاطب ہوا۔
 ”عمر جان تم مجھے قتل کیوں نہیں کر دیتے؟ اس طرح ذلیل و خوار کرکے کیا حاصل کرنا چاہتے ہو؟“
”بڑی جلدی اکتا گئے چودھری۔“ میرے ہونٹوں پر زہریلی مسکراہٹ ابھری ۔ ”ابھی تو شروعات ہے چند دن بعد تم موت کی آرزو کرو گے مگر موت تمھارے قریب نہیں پھٹکے گی۔ میں تمھیں اس قابل بھی نہیں چھوڑوں گا کہ تم خود کشی کر سکو۔تمھارا کیا خیال ہے گنڈا پور سے دشمنی پالنا اتنا آسان ہے اور یاد ہے نا میں نے تھانے میں تمھیں کہا تھا مجھے قتل کر دو ورنہ بعد میں پچھتاﺅگے مگر تم اس وقت اپنی طاقت اور چوہدراہٹ کے زعم میں تھے اور ظلم پر ظلم کرتے گئے۔ یہ بھول گئے کہ بدلہ بھی لیا جا سکتا ہے اور اب وہ وقت آگیا ہے کہ میں تمھارے ہر ظلم کا گن گن کر بدلہ لوں۔“
”تت تم کیا کرنا چاہتے ہو۔“ وہ خوفزدہ لہجے میں بولا۔
”چودھری.... اصولاً تو مجھے تمھارے گھر والوں کو تمھاری آنکھوں کے سامنے آگ میں زندہ جلادینا چاہئے تھا تاکہ تمھیں بھی پتا چلتا کہ اپنوں کو تکلیف میں دیکھ کر کیا محسوس ہوتا ہے مگر افسوس کہ اس دنیا میں ایسا کوئی نہیں ہے جو تمھیں عزیز ہو۔ تمھاری مثال تو اس سانپ کی سی ہے جو بھوکا ہو کر اپنے بچوں کو کھا جاتا ہے ۔ اپنے والد اور بھائی کا قاتل تُو خود ہے۔ اپنی ماں بہن کو دھوکا دینے والا ان کے دکھ پر کیسے کڑھ سکتا ہے۔ تم جیسے خود غرض اس دنیا میں صرف اپنی ذات کے لیے زندہ رہنا جانتے ہیں اور تمھارے جیسے شخص کو تکلیف دینے کا آسان طریقہ یہی ہے کہ تمھیں ذاتی طور پر اذیت دی جائے اور یہی میں کروں گا۔“یہ کہتے ہی میں اس ٹوٹی پھوٹی چارپائی سے اٹھ کر اس کی طرف بڑھا اور اسے زدو کوب کرنے کا دل پسند مشغلہ شروع کر دیا۔ اس مرتبہ امجد نے بھی میرا ساتھ دیا۔ چند لمحے وہ ہمارے درمیان فٹ بال بنا رہا اور اس کے بعد بے ہوش ہو کر تمام تکالیف سے عارضی طور پر آزاد ہو گیا۔ ہم دونوں چارپائی پر آ کر بیٹھ گئے۔
”ڈاکٹر کی تلاش میں کس وقت نکلو گے؟“ امجد چارپائی پر بیٹھتے ہی مستفسر ہوا۔
”بس جا رہا ہوں.... تم اس کا خیال رکھنا۔ بلکہ بہتر تو یہی ہے کہ اسے ایک مرتبہ پھر باندھ دو۔“امجد اثبات میں سرہلاتے ہوئے اس کی جانب بڑھ گیا جبکہ میرا رخ بیرونی دروازے کی طرف تھا۔
”ایکسکیوزمی سر۔“ میں میڈیکل سٹور کے کیش کاﺅنٹر پر بیٹھے ہوئے ادھیڑ عمر شخص کو مخاطب ہوا۔
”جی فرمائیں۔“ وہ میری جانب متوجہ ہو گیا۔”سر میں یہاں پر اجنبی ہوں کیا آپ پشاور کے کسی ماہر سرجیکل سپیشلسٹ تک میری رہنمائی کر سکتے ہیں۔“”پشاور میں تو کئی ماہر سرجن موجود ہیں۔ مہنگے سستے۔ سرکاری، غیر سرکاری آپ کو کس قسم کا سپیشلسٹ درکار ہے۔“”غیر سرکاری جس کے پاس اپنا ذاتی آپریشن تھیٹر موجود ہو۔“
”ڈاکٹر کرم الدین خان اور ڈاکٹر اے کے شیروانی دونوں کے ذاتی کلینک میں آپریشن تھیڑ کی سہولت موجود ہے مگر یہ خیال رکھنا کہ ان کی فیس اور بل ادا کرنابڑا دل گردے کا کام ہے ۔ اس لیے عموماً غریب آدمی تو کیا متوسط طبقہ کے لوگ بھی ان کے کلینک کا رخ کرنے سے گھبرتے ہیں۔“ اس نے کافی تفصیلی جواب دیا۔
قارئین کی اطلاع کے لیے عرض کرتا چلوں کہ دونوں ڈاکٹروں کے فرضی نام تحریر کیے گئے ہیں کیونکہ دونوں ڈاکٹر حیات ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کہانی میں کچھ مواقع پرمشہور افراد کے فرضی نام تحریر کیے گئے۔ یوں بھی ناموں کی اس تبدیلی سے کہانی کے پلاٹ یا واقعات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔”تھینک یو سر۔“ میں اس کا شکر یہ اداکیا۔ ”اگر زحمت نہ ہو تو ان دونوں کا ایڈریس لکھ دیں۔“اور اس نے سر ہلاتے ہوئے ایک کاغذ پردونوں ڈاکٹرز کا پتا لکھ کر میری جانب بڑھا دیا۔ میں اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے سٹور سے نکل آیا۔ اس جگہ سے چونکہ ڈاکٹر کرم الدین خان کا کلینک نزدیک تھا اس لیے میں وہاں پہنچا مگر استقبالیہ سے پتا چلا کہ ڈاکٹر صاحب عارضی طور پر شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ ٹیکسی میں بیٹھ کر میں ڈاکٹر اے کے شیروانی کے کلینک میں پہنچا۔
”سر ڈاکٹر! صاحب تو اس وقت آپریشن میں مصروف ہیں۔ آپ ویٹنگ روم میں انتظار فرمائیں جیسے ہی فارغ ہوتے ہیں میں آپ کو اطلاع کر دوں گی۔“استقبالیہ پر بیٹھی لیڈی مو¿دبانہ لہجے میں بولی اور میں سر ہلاتے ہوئے ویٹنگ روم کی طرف بڑھ گیا۔
 مجھے زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا جلد ہی ڈاکٹر صاحب فارغ ہو گئے استقبالیہ کی طرف سے مطلع ہونے پر میں ڈاکٹر کے کمرے کی طر ف بڑھ گیا۔”اسلام علیکم!“
”وعلیکم السلام.... بیٹھیں۔“اس نے سامنے پڑی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔میں ”شکریہ “کہتے ہوئے بیٹھ گیا۔”فرمائیں؟“ ”ڈاکٹر صاحب.... بات ذرا راز داری کی ہے اس لیے براہ مہربانی اگر آپ کا م نہ کرنا چاہیں تو اسے اپنے تک ہی محدود رکھئے گا؟“
”مسٹر.... ڈاکٹر نام ہی راز داری کا ہے.... تم کھل کر بتاﺅ کیا مسئلہ ہے۔“
”سر!....میں دشمن دار آدمی ہوں، پچھلے دنوں میں میرا ایک آدمی گولی لگنے سے زخمی ہوا ہے۔ ہماری لاپر وائی اور علاج میں سستی کی وجہ سے زخم کافی بگڑ گیا ہے۔ اب ہو سکتا ہے کہ اس کی ٹانگ ہی کاٹنی پڑے جائے۔ بہ ہر حال یہ توآپ کا مسئلہ ہے کہ آپ اس کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ البتہ ہم اس کا علاج اس طرح راز داری سے کرانا چاہتے ہیں کہ کسی کو خبر نہ۔ کسی سے میری مراد پولیس وغیرہ سے ہے۔ باقی رہی فیس کی بات تو اس کی آپ فکر نہ کریں وہ ہم منہ مانگی ادا کریں گے۔“
 چند لمحے وہ خاموشی سے میرے چہرے کو تکتا رہا۔ اس کے سپاٹ چہرے سے میں کوئی اندازہ نہ لگا سکاکہ وہ کیا سوچ رہا ہے۔ اس کی خاموشی زیادہ دیربرقرار نہ رہی....
”تمھیں کس نے بتایا ہے کہ میں غیر قانونی کام کرتا ہوں؟“
”کسی نے بھی نہیں۔“ میں نفی میں سرہلایا۔ ”آپ سے پہلے میں ڈاکٹر کرم الدین خان کے کلینک پر گیا تھا مگر وہ عارضی طور پر شہر سے باہر گیا ہو ا ہے اس لیے میں آپ کے پاس آگیا اور آپ کے انکار کرنے کی صورت میں کسی اور ڈاکٹر کے پاس چلا جاﺅں گا۔ یہ کوئی زور زبردستی کی بات تو ہے نہیں نا؟“”60 ہزار لگیں گے؟“
”70ہزار دوں گا۔50ہزار پیشگی اور 20ہزار بعد میں لیکن کام میری مرضی کا ہو گا اور آپ کے علاوہ کسی کو بھی پتا نہیں چلے گا۔“
”منظور ہے۔“ اس کی آنکھوں میں خوشی کی چمک لہرائی۔ 70ہزار اتنی معمولی رقم نہیں تھی۔ بے شک وہ کوئی غریب آدمی نہیں تھا مگر دولت ایک ایسی چیز ہے جس میں اضافہ ہر دینا دار کی خواہش ہوتی ہے۔ ”البتہ کام کے دوران مجھے اسسٹنٹ کی ضرورت پڑے گی اور وہ قابل اعتماد آدمی ہے۔“
”نہیں.... آپ کے علاوہ کوئی نہیں۔ اسسٹنٹ کی جگہ میں آپ کے ساتھ رہوں گا۔“”مگر.... “ اس نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور پھر بولا۔ ” ٹھیک ہے۔“میں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر بڑے نوٹوں کی گڈی نکال کر اس کے سامنے میز پررکھ دی۔
”یہ 50ہزار ہیں.... باقی کام کی تکمیل کے بعد۔“”مریض کس وقت لاﺅ گے۔“ پیسے دراز میں رکھتے ہوئے وہ مستفسر ہوا ۔”جو وقت آپ مناسب سمجھیں۔“”رات کو کیسا رہے گا؟“
”صحیح ہے ....کیا مریض کو ادھر لانا پڑے گا؟“
”ہاں....“ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ ”اس کلینک کے پیچھے والا گیٹ آپ کے لیے کھلا ہو گا۔ وہاں سے اندر داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ پر ایک لوہے کا دروازہ ہے وہ بھی آپ کو کھلا ملے گا اور اسے کھولتے ہی آپ کو سیڑھیاں اترنی پڑیں گی، سیڑھیوں کے اختتام پر آپریشن تھیڑ کا دروازہ ہے۔ میں رات کو نو بجے پہنچ جاﺅں گا۔“”کیا کلینک رات کو بند ہو جاتا ہے؟“”نہیں.... لیکن اس کا آپ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ آپ یوں بھی عقبی سمت سے آئیں گے ۔“
”او کے ڈاکٹر صاحب پھر رات کو ملاقات ہو گئی۔“ میں نے اٹھ کر اس سے الوداعی مصافحہ کیا۔
”اس رقم کی رسید؟“ وہ بھی میرے ساتھ کھڑا ہو گیا۔
 ”مرد کی زبان سے بڑی کوئی رسید نہیں ہوتی۔“ میں نے کہااوروہ سرہلا کر رہ گیا۔
جاری ہے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.