Ads Top

Aur Neel Behta Raha By Annyat Ullah Altamish Episode No. 60 ||اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش قسط نمبر 60


Aur Neel Behta Raha
 By
Annyat Ullah Altamish

اور نیل بہتا رہا
از
عنایت اللہ التمش

 Aur Neel Behta Raha  By  Annyat Ullah Altamish  اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش

 #اورنیل_بہتارہا/عنایت اللہ التمش
#قسط_نمبر_60

تاریخ اس حقیقت کو کھل کر بیان کرتی ہے کہ قیرس جو مذہبی پیشوا تھا اور جسے فتویٰ دینے کے اختیارات بھی حاصل تھے ذہنی اور جسمانی طور پر ایک عیار اور مفاد پرست ملکہ کا کٹھ پتلی بن گیا۔ ملکہ مارتینا نے اسے یہ بھی کہا تھا کہ مصر میں وہ اسے اپنا وزیراعظم بنائے گی، اسقف اعظم وہ تھا ہی۔ ملکہ مرتینا نے قیرس کی فطری کمزوریوں کو ابھار کر اس کی دکھتی رگ اپنی مٹھی میں لے لی تھی۔ یہ تھے اثرات شراب کے، حسین و جمیل لڑکیوں کے، اور ایک عورت کی زبان کے طلسم کے۔
اسی روز قسطنطین نے جرنیلوں اور انتظامیہ کے حاکموں کا اجلاس بلا رکھا تھا ۔اس میں قیرس کو بھی شامل ہونا تھا تاریخ میں آیا ہے کہ قسطنطین کا انداز ہرقل جیسا شاہانہ نہیں تھا اجلاس میں شامل ہونے والے آگئے تو قسطنطین کچھ ڈرا ڈرا سا نظر آتا تھا ،حالانکہ اس کا انداز اور رویہ کچھ اور ہوا کرتا تھا بہرحال اس کے انداز میں شہنشاہیت کا تاثر نہیں بلکہ تدبر تھا اور اس نے ہمیشہ تدبر ہی سے کام لیا تھا۔
اجلاس میں تمام جرنیل اور شہری حکام حاضر تھے ان میں قسطنطین کے حامی اور اس کے خلاف ملکہ مرتینا کے حامی بھی موجود تھے۔ قسطنطین نے بات مصر کی شکست سے شروع کی اس نے سب سے پہلے یہ الفاظ کہے کہ باہر کے دشمن کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے لیکن اپنے اندر کے دشمن سے اپنی قوم غیرت اور ملک کو بچانا مشکل ہو جاتا ہے ،اندر کا دشمن باہر کے دشمن سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔
میں دلی دکھ کے ساتھ یہ بات زبان پر لاتا ہوں۔۔۔ قسطنطین نے کہا۔۔۔ ہم دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئے ہیں اس تقسیم کو روکا جا سکتا ہے لیکن انتہائی خطرناک صورتحال یہ پیدا ہو گئی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے ہیں ، اس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے، ہم کمک نہیں بھیج سکے اس کا فائدہ عرب کے ان بدوؤں کو پہنچا جنہوں نے آدھا مصر لے لیا ہے۔ اصل تنازع تخت و تاج کی وراثت کا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس تنازع کو ابھی الگ رکھ دیں اور سلطنت کا کھویا ہوا وقار بحال کریں۔
 آپ کی حیثیت ایک جرنیل کی ہے ۔۔۔ملکہ مرتینا کے ایک حامی جرنیل نے کہا ۔۔۔تخت کی وراثت کا کوئی تنازع نہیں ملکہ مرتینا کو ہم روم کی ملکہ تسلیم کرچکے ہیں۔
اس بات پر قسطنطین کے حامی جرنیل بیک وقت بولنے لگے اور ملکہ مرتینا کے حامیوں نے اٹھ کر ہنگامہ بپا کردیا قسطنطین اور قیرس نے بڑی مشکل سے اسے زبانی کلامی ہنگامے پرقابو پایا۔ اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ کسی بھی وقت خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے ۔ قسطنطین کے چہرے کا رنگ پیلا پڑ گیا تھا اس کا سر ڈولنے لگا جیسے اسے غشی آ رہی ہو، اس کے جسم میں قوت مدافعت بہت ہی کم ہو چکی تھی ۔قیرس اس کی حمایت میں بولنے لگا۔
شاہ ہرقل مقوقس کو ذلیل اور رسوا کرکے جلاوطن کردیا تھا۔۔۔ مقوقس نے کہا ۔۔۔۔جلاوطن صرف اس لئے کیا تھا کہ اس کی باتوں اور حرکتوں سے بغاوت کی بو آتی تھی۔ لیکن میں صاف کہتا ہوں کہ تم سب باغی ہوں تم اتنے اونچے رتبے کے جرنیل اور حاکم ہو اور تم نے خانہ جنگی تک نوبت پہنچا دی ہے۔ یہ شاہی فرمان کے خلاف بغاوت نہیں تو اور کیا ہے،،،،،،، قسطنطین نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یہ روم کا بادشاہ ہے اس نے کہا ہے کہ اس تنازع کو ابھی الگ رکھ دیں مگر تم ایک دوسرے کے اس حد تک دشمن بن گئے ہو کے عقل کی ایک بات کو بھی نہیں سمجھ رہے۔ تمہاری غیرت کہاں گئی کہ عرب کے مسلمان تم سے شام چھین چکے ہیں اور مصر چھین رہے ہیں اور تم آپس میں لڑ رہے ہوں لڑتےرھو۔
 ایک دن مسلمان یہاں بھی آ جائیں گے اور تم سب ان کے قیدی ہو گے ۔
سب پر خاموشی طاری ہوگئی اور قیرس نے سب پر نگاہیں دوڑائیں اور کچھ دیر خاموش رہا۔
میں نہ قسطنطین کی حمایت میں بول رہا ہوں، اور نہ ملکہ مرتینا کے حق میں۔ قیرس نے ذرا وقفے کے بعد کہا ۔۔۔ہمیں شاہی خاندان کی نہیں بلکہ روم کی عزت و آبرو عزیز ہونی چاہیے، روم کا تخت و تاج ہم سب کا ہے اور یہ ہمارے قومی وقار کی بڑی مقدس علامت ہے۔ سب سے پہلے کمک کی بات کریں جو مصر بہت جلدی چلی جانی چاہیے دلوں سے ذاتی کدورتیں نکال دو ۔
ملکہ مرتینا کا سب سے بڑا حامی تو قیرس خود تھا ۔ لیکن آدمی جہاندیدہ اور دوراندیش تھا بات بچ بچ کر کر رہا تھا کوئی بھی اس کی نیت پر شک نہیں کر رہا تھا۔ وہ ابھی بول ہی رہا تھا کہ دربان اندر آیا اور سیدھا قسطنطین کے پاس گیا اس کے کان میں کچھ کہا تو قسطنطین نے سر ہلا کر کوئی اشارہ کیا دربان باہر نکل گیا اور ایک اور آدمی اندر آیا وہ سیدھا قسطنطین کے پاس گیا اور اس کے ہاتھ میں کچھ دیا یہ کوئی اہم آدمی ہی ہو سکتا تھا ورنہ اس طرح کے اجلاس میں کسی کو اندر آنے کی اجازت اور جرات نہیں ہوتی تھی۔ یہ جو آدمی اندر آیا تھا قاصد تھا جو مصر سے جنرل تھیوڈور کا پیغام لایا تھا ۔قسطنطین پیغام پڑھنے لگا تو اس کا رنگ جو پہلے ہی پیلا پڑ گیا تھا لاش کی مانند ہو گیا اور پیٹھ پیچھے لگائی جیسے نڈھال ہوگیا ہو ۔ حاضرین سمجھ گئے کہ یہ پیغام ہے اور کوئی اچھی خبر نہیں آئی۔
تم لوگ آپس میں لڑتے رہو ۔۔۔قسطنطین نے ایسی آواز میں کہا جو بے جان سی تھی اور اس میں ہلکا سا لرزہ بھی تھا۔۔۔ عرب کے بدوؤں نے بابلیون اور اس کے گرد ونواح کا علاقہ اور جزیرہ روضہ فتح کرلیا ہے ،جنرل تھیوڈور اور جنرل جارج مسلمانوں کے ساتھ سمجھوتہ کر کے اپنی ساری فوج نکال لائے ہیں۔ کیا تم اب بھی کمک نہیں بھیجو گے؟ 
 مؤرخ لکھتے ہیں کہ پہلی بار کچھ دیر کے لیے تمام جرنیل اوردیگرحکام متفق ہوئے اور مصر کو کمک بھیجنے کا فیصلہ ہوا قسطنطین کا یہ مشورہ بھی قبول کرلیا گیا کہ قیرس اس کمک کے ساتھ جائے گا۔
بابلیون کی فتح کا پیغام قسطنطین تک کچھ دیر سے پہنچا تھا وجہ یہ تھی کہ ایک تو فاصلہ بہت ہی زیادہ تھا اور آگے بحیرہ روم تھا اس کے آگے بزنطیہ تک پھر خشکی تھی ،لیکن جرنیل تھیوڈور نے پیغام بھیجا ہی تاخیر سے تھا اسے توقع تھی کہ مصر سے ہی کمک مل جائے گی اور بابلیون پر فوج کشی کرکے وہ شہر مسلمانوں سے واپس لے لے گا اور اس کے بعد بزنطیہ پیغام بھیجے گا لیکن اسے کمک نہ مل سکی کیونکہ مجاہدین اسلام نے کمک کے تمام راستے بند کر رکھے تھے ۔ کمک کو کسی اور راستے سے آنا تھا اور اس کے لیے خاصا وقت درکار تھا۔ بہرحال جنرل تھیوڈور نے پیغام بھیج دیا بابلیون کی شکست دراصل جنرل تھیوڈور کی شکست تھی جس پر وہ پردہ ڈالے رکھنا چاہتا تھا لیکن یہ ممکن نہ تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اجلاس میں شریک تمام جرنیلوں اور حاکموں پر سناٹا طاری ہو گیا لیکن فوراً ہی سب کی نظریں قسطنطین کی طرف ہو گئی کیونکہ وہ ایسا نڈھال ہو گیا تھا کہ اس کا سر ایک طرف ڈھولک گیا تھا، اور شاید غشی میں چلا گیا تھا ۔
قیرس اور دو جرنیلوں نے اسے جاکر دیکھا وہ بے ہوش تو نہیں تھا لیکن اس کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔
اسے اندر ہی اندر ایک غم روگ بن کر کھا رہا تھا۔ بابلیون کی شکست کی خبر آخری تنکا ثابت ہوئی یہ کوئی معمولی صدمہ نہیں تھا ۔
قسطنطین کو سہارا دے کر اٹھایا گیا کسی نے دربان سے کہا کہ طبیب کو فوراً ساتھ لے آئے۔ قسطنطین کو اس کے سونے والے کمرے میں لے جاکر لیٹا دیا گیا ۔ 
قرآن کا ہر ایک فرمان ہرقل اور اس کے شاہی خاندان پر پورا اتر رہا تھا۔ ایک آیت میں اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں یہ اندیشہ ہے ہی نہیں کہ وہ کبھی ان پر بھی برے دن آئیں گے ، ان لوگوں کے اعمال سے نظر ہٹا لو اللہ خود ایک گروہ بھیج کر ان کو ان کے اعمال کا بدلہ دے گا۔
دین اسلام کے اس دشمن خاندان نے خصوصا ہرقل نے مصر میں فرعونیت رائج کردی تھی اس نے عیسائیت کے نام پر اپنا مذہب بنا کر نافذ کردیا تھا اور اسے قتل وغارت کے ذریعے لوگوں سے منوایا تھا ۔
مجاہدین اسلام کو یہ خاندان عرب کے گنوار اوربدو کہتا تھا۔ ہرقل نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اس کے خاندان پر برے دن بھی آئینگے۔ اللہ اس کے اعمال دیکھ رہا تھا اور اب اس کی ذات باری نے ایمان والوں کا ایک گروہ بھیج دیا تھا جو اس خاندان کو اعمال بد کا بدلہ دے رہا تھا۔
ملکہ مرتینا کو پتہ چلا کہ قسطنطین کو اس بری حالت میں اجلاس سے لائے ہیں تو وہ اٹھ دوڑی اور قسطنطین کے کمرے میں جاکر پلنگ پر بیٹھی اور دو تین بار اس کا منہ چوم کر ایسی وارفتگی اور جذباتیت کا اظہار کیا جیسے وہ اس کی سگی ماں ہوں۔
اے خدا!،،،،،،، مرتینا نے ہاتھ جوڑ کر آسمان کی طرف کیے اور منہ اوپر کرکے روتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ میرے بیٹے کو صحت عطا کر دے میری جان لے لے، میرے بیٹے کو اچھا بھلا کر دے ،میں اسے گھوڑے کی پیٹھ پر دیکھو ،اور اس کے چہرے پر جوانی کی چمک دیکھو۔
طبیب آ گیا اور اس نے مرتینا کو وہاں سے اٹھا دیا۔
 قسطنطین کی نبض دیکھی پھر اس نے جو معائنہ کرنا تھا کیا اور دوائی تجویز کرنے لگا یہ وہی طبیب تھا جو مرتینا کے ایما پر ہرقل کو علاج کے پردے میں زہریلی دوائی دیتا رہا تھا۔
کان کھول کر سن لو طبیب!،،،،،مرتینا نے جذباتی اور کچھ غصیلی آواز میں طبیب سے کہا۔۔۔ میرے بیٹے کو فوراً صحتیاب کرو ورنہ میں تمہیں جلاد کے حوالے کردوں گی۔ زندہ رہنے کے لئے چھوڑ نہیں دو گی اس وقت مجھے اس بیٹے کی زندگی چاہیے ۔
کمرے میں جو چند ایک افراد موجود تھے وہ مرتینا کی یہ وارفتگی دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہے تھے ،اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ جا رہے تھے، وہ تو قسطنطین کی دشمن تھی اور چاہتی ہی یہی تھی کہ قسطنطین کو موت اٹھالے اور اس کا بیٹا ہرقلیوناس تخت پر جلوہ افروز ہو۔
طبیب نے اپنا تھیلا کھولا اور ایک دو دوائیاں نکال کر جس طرح قسطنطین کو دینی تھی اس طرح دی اور کچھ دوائیاں وہیں چھوڑی کہ وقفے وقفے سے مریض کو دینی ہے ۔
وہ جانے کے لیے اٹھا قسطنطین کو تسلی دی کہ وہ جلدی سنبھل جائے گا اور باہر نکل گیا ۔اس کے نکل جانے کے فوراً بعد مرتینا یہ کہتی ہوئی باہر نکل گئی کہ میں اس طبیب کو ایک بار پھر خبردار کردو کے توجہ سے علاج کرے ورنہ میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گی۔
طبیب آہستہ آہستہ جا رھا تھا اور بار بار پیچھے مڑ مڑ کر دیکھ رہا تھا جیسے اسے توقع تھی کہ مرتینا اس کے پیچھے آئے گی مرتینا اسے نظر آگئی۔ طبیب نے اسے دیکھا تو مرتینا نے آنکھوں سے کچھ اشارہ کیا اور طبیب اس طرف مڑ گیا جس طرف مرتینا کا شہانہ کمرہ تھا ۔ پہلے طبیب اس کمرے میں داخل ہوا پھر مرتینا کمرے میں گئی اور دروازہ اندر سے بند کر دیا۔
کیا دے کر آئے ہو۔۔۔ مرتینا نے طبیب سے پوچھا ۔۔۔کیا یہ جلدی صحت یاب ہوجائے گا،،،،،،،،، 
نہیں،،،،،، طبیب نے ہونٹوں پر تبسم لا کر کہا اور دائیں بائیں سر ہلا کر کہا۔۔۔ جگر بری طرح متاثر معلوم ہوتا ہے بڑی ہی محنت سے ٹھیک ہو سکتا ہے لیکن امید کچھ زیادہ نہیں۔ مرتینا کو اپنے بازوؤں میں لے کر اور اپنا ایک گال مرتینا کے منہ سے لگا کر پوچھا تم بتاؤ تم کیا چاہتی ہو؟
کیا تم خود نہیں جانتے ۔۔۔مرتینا نے کہا ۔۔۔میں وہی چاہتی ہوں جو ہرقل کی بیماری میں چاہا تھا، اس کا بھی وہی علاج کرو اسے جلدی اس کے باپ کے پاس پہنچا دو اگلے جہان میں باپ اسے تخت پر بٹھائے گا ۔
آج تو میں نے ٹھیک دوائی دی ہے۔۔۔ طبیب نے کہا۔۔۔ کل سے اسکا وہی علاج شروع کردوں گا جو اس کے باپ کا کیا تھا ۔
لیکن جلدی ۔۔۔مرتینا نے کہا ۔
اتنی جلدی بھی نہیں کہ ہم پکڑے جائیں۔۔۔ طبیب نے کہا ۔۔۔کچھ دن گزرنے دو اگر جلدی کی تو شک پیدا ہوسکتا ہے ،تمہاری خواہش پوری کر دوں گا لیکن ذرا سنبھل کر یہ کام کرنے دو۔
ملکہ مرتینا نے اسے سونے کے دو تکڑے دیے۔ یہ تو کافی نہیں طبیب نے ہاتھ میں لیے ہوئے سونے کے دونوں ٹکڑوں کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔تم جانتی ہو میرا اور کیا انعام ہے ؟
وہ بھی مل جائے گا ۔۔۔۔مرتینا نے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ لا کر کہا۔۔۔ رات کو پہلے سے زیادہ خوبصورت انعام بھیج دوں گی۔
چند مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ طبیب سات آٹھ دن قسطنطین کا اعلاج کرتا رہا خود آکر اسے دوائیاں اور ہدایات دیتا رہا اور ساتھ ہی یہ تسلیاں بھی کے وہ جلدی صحت یاب ہوجائے گا علاج کا تو نام ہی تھا یہ طبیب قسطنطین کے جسم سے آہستہ آہستہ جان نکال رہا تھا ۔ایک روز طبیب نے دوائیاں دیں تو مرتینا بھی وہاں موجود تھی اور ہر روز کی طرح طبیب کو قتل کروا دینے کی دھمکیاں دے رہی تھی طبیب یوں دبکا ہوا مرعوبیت کی حالت میں سرجھکائے ہوئے تھا جیسے وہ خوفزدگی کی حالت میں ہوں۔
میں شاید صحت یاب نہ ہوسکوں۔۔۔۔ قسطنطین نے نحیف آواز میں کہا۔۔۔ میرا روگ جسمانی نہیں میرے دل نے جو زخم کھائے ہیں ان کا کوئی علاج نہیں ۔
مرتینا اس کے اوپر جیسے گر ہی پڑی ہو غم سے نڈھال اور بے حد جذباتی ہوکر قسطنطین کا منہ چومنے لگی۔
یوں نہ کہو بیٹا!،،،،، مرتینا نے آنکھوں میں آنسو لا کر کہا ۔۔۔میرا جگر اس طرح نہ کاٹو میں تمہارے لئے اپنی جان دے دوں گی۔
 طبیب قسطنطین کو یقین دلارہا تھا کہ وہ بالکل صحیح طور پر صحت یاب ہوجائے گا اور اپنے دل پر مایوسی کا بوجھ نہ ڈالے۔
قسطنطین کے لیے اگر کوئی دلی اور روحانی طور پر غمگین تھا تو وہ اس کا جواں سال بیٹا کونستانس تھا، وہ جانتا تھا کہ اس کا باپ غم میں گھل رہا ہے اور یہ غم اسے لے ہی بیٹھے گا ۔ 
ہرقل نے جس طرح قسطنطین کو تعلیم و تربیت دی تھی اسی طرح قسطنطین نے کونستانس کو تعلیم بھی دلائی اور فن حرب و ضرب کا ماہر بھی بنایا اور سلطنت کے نشیب و فراز سمجھنے کے بھی قابل بنا دیا تھا۔
 یہ بھی ایک غم تھا جو قسطنطین کو کھا رہا تھا تخت و تاج کا صحیح وارث کونستانس ہی ہوسکتا تھا لیکن مرتینا ایک چٹان بن کر راستے میں آ گئی تھی۔
 اس کا شہزادہ اور آوارہ بیٹا ہرقلیوناس تخت تو دور کی بات ہے شاہی محل میں رہنے کے قابل بھی نہیں تھا۔
باپ کی بیماری کی وجہ سے کونستانس میریا سے نہیں مل سکا تھا ۔
 میریا شاہی حرم کی لڑکی تھی لیکن اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ قسطنطین کسی تشویشناک مرض میں مبتلا ہے، اسے معلوم ہو ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ بادشاہ کی بیماری کی خبر باہر نکلنے ہی نہیں دی جاتی تھی یہ بادشاہوں کا رواج تھا۔
ایک روز شاہی حرم کی ایک ادھیڑ عمر ملازمہ کونستانس کے پاس آئی اور سرگوشی میں میریا کا یہ پیغام دیا کہ آج رات اسی وقت اور اسی جگہ آ جائے ایک دوسرے کو دیکھیں بہت دن گزر گئے ہیں ۔
کونستانس نے اس ملازمہ کو کچھ انعام دے کر کہا کہ میریا کو بتا دے کہ میں آ جاؤں گا۔
رات کونستانس شاہی باغ کے اس گوشے میں چلا گیا جہاں وہ اور میریا بہت دیر ایک دوسرے میں گم رہتے تھے ،ان کی محبت روحوں میں اتری ہوئی تھی ۔
کونستانس کو دیکھ کر میریا اس طرح اس کے ساتھ چپک گئی جیسے ماں کو اس کا گمشدہ بچہ مل گیا ہو۔
میریا نے محسوس کیا کہ کونستانس کچھ پریشان اور مایوس سالگتا ہے۔ اس سے الگ ہو کر پوچھا کہ وہ اس کے پاس آ کر اداس اور مایوس کیوں ہو گیا ہے؟ 
کونسٹانس نے بتایا کہ اس کا باپ بیمار پڑا ہے اور روز بروز اس کی حالت بہتر ہونے کی بجائے بگڑتی جا رہی ہے۔
 میریا نے بے تابی سے ایک ہی بار کی سوال پوچھ لیے، بیماری کیا ہے؟ کب سے ہے وغیرہ، اور آخر میں پوچھا کہ علاج کس کا ہو رہا ہے؟ 
 اسی طبیب کا۔۔۔ کونستانس نے جواب دیا۔۔۔ اسے تم جانتی ہو جس نے میرے دادا ہرقل کا علاج کیا تھا۔
نہیں ،،،،نہیں،،،، میریا نے تڑپ کر اور کونتانس کے کندھے جھنجھوڑ کر کہا ۔۔۔اس طبیب کو فوراً ہٹا دو اور دوسرے کسی طبیب کا علاج کراؤ، تم نے پہلے میری بات پر یقین نہیں کیا تھا اور ٹال گئے تھے یہ طبیب جب شاہی ہرقل کا علاج کر رہا تھا تو میں نے تمہیں بتایا تھا کہ وہ شاہ ہرقل کو غلط دوائیاں دے رہا ہے، اور شاید یہ دوائیاں زہریلی بھی ہیں، میں آج بھی یقین سے کہتی ہوں کہ شاہ ہرقل کو اس طبیب نے زہریلی دوائیں دے کر مار ڈالا تھا ، اب وہ تمہارے باپ کو بھی ایسی ہی دوائیاں سے مار ڈالے گا ،یہ ملکہ مرتینا کی سازش ہے تمہارے باپ کو مروا کر وہ اپنے بیٹے کو تخت پر بیٹھائے گی، تمہارا باپ ہی تو اس کے راستے کی آخری رکاوٹ ہے۔ کونستانس اب بھی میریا کی اس بات پر دھیان نہیں دے رہا تھا لیکن میریا کے دل میں کونستانس کی جو محبت تھی اس نے اس کی زبان سے ایسی باتیں کہلواۓ اور ایسی بے تابی کا اظہار کروایا کہ کونستانس مان گیا۔
اگلی صبح کونستانس نے اپنے باپ قسطنطین سے کہا کہ وہ اس طبیب کو بدلنا چاہتا ہے ،اس نے باپ کو کوئی اور بات نہ بتائی، میریا کا شک بلکہ یقین اپنے باپ کے کانوں تک پہنچنے ہی نہ دیا ،اس نے غالبا سوچا ہوگا کہ یہ میریا کا صرف وہم یا شک ہی ہوسکتا ہے۔ اگر قسطنطین نہ مانا تو پھر اسے بتایا جائے گا کہ کونستانس کس کی بنا پر طبیب کو بدل رہا ہے ۔
قسطنطین اپنی صحت سے مایوس ہو چکا تھا اس نے بیٹے کو اجازت دے دی کہ وہ طبیب کو بدل دیے شاید دوسرا طبیب بہتر ثابت ہو۔
کونستانس اسی وقت خود گیا اور دوسرے شاہی طبیب کو لے آیا۔
 اور پہلے طبیب کو پیغام بھیجا کہ وہ اب علاج کے لیے نہ آیا کرے۔
 نئے طبیب نے دو یا تین روز دوائیاں دیں لیکن قسطنطین سنبھل نہ سکا ذرا سا بھی آفاقہ نہ ہوا بلکہ مرض بڑھتا ہی گیا۔
ایک روز کونستانس نے نئے طبیب سے پوچھا کہ صحت یابی کی کچھ توقع ہے بھی یا نہیں؟ 
طبیب نے کہا کہ وہ اپنی تشخیص کسی کو بتانا نہیں چاہتا تھا لیکن اب بتا دینا ہی بہتر سمجھتا ہے ،اس نے کہا کہ یہ حالت کسی زہر سے یا غلطی سے کوئی زھریلی چیز کھا لینے سے ہی ہوتی ہے، طبیب کے اس تشخیص سے کونتانس کو میریا کی باتیں صحیح معلوم ہونے لگی۔ طبیب نے کہا کہ وہ پوری کوشش کر رہا ہے کہ اس زہر کا اثر زائل ہوجائے۔ 
طبیب بھی اپنا پورا تجربہ استعمال کرتا اور دوائیاں دیتا رہا اور کبھی پورا پورا دن قسطنطین کے کمرے میں موجود رہا مگر ایک روز قسطنطین کی حالت ایسی بگڑی کے نزع کا عالم طاری ہوگیا اور وہ مر گیا۔
کسی بھی مؤرخ نے اس کی موت کی صحیح تاریخ نہیں لکھی صرف یہ لکھا ہے کہ قسطنطین اپنے باپ ہرقل کی موت کے پورے ایک سو دن بعد مارا تھا۔
ان حالات میں جب روم کی فوج پھر محاذ سے پسپا ہوتی چلی آرہی تھی۔ اور علاقوں پر علاقے مسلمانوں کے قبضے میں آتے جارہے تھے۔ قسطنطین کی موت اہل روم کے لیے دوسرا بڑا صدمہ تھا وہ ابھی ہرقل کی موت کے صدمے سے سنبھل نہ پائے تھے ۔
قسطنطین اپنے شاہی خاندان کا کوئی عام سا فرد نہ تھا ،محل کے اندر کی سازشیں اور سیاست جو کچھ بھی تھی لوگ بہرحال قسطنطین کو ہرقل کا صحیح جانشین اور اسی کے پائے کا جرنیل سمجھتے تھے۔ اس کی موت کی خبر بڑی تیزی سے پھیلتی ہی گئی تمام جرنیل اور شہری انتظامیہ کے بڑے بڑے حاکم اور کچھ بزرگ دانشور اطلاع ملتے ہی پہنچ گئے۔
 ان میں ہرقل کا بنایا ہوا اسقف اعظم قیرس بھی تھا۔
قسطنطین کے خون کے رشتے تو غمگین تھے ہی اور سب سے زیادہ غم اس کے بیٹے کونستانس کو تھا۔ لیکن ملکہ مرتینا غم اور اندوہ کی ایسی تصویر بنی پھرتی تھی جیسے اس کا اپنا سگا بیٹا مر گیا ہو۔
 یوں لگتا تھا جیسے اس کے لیے بولنا بھی دشوار ہوگیا ہو ،وہ غموں سے بوجھل انداز میں حکم دیتی پھر رہی تھی جیسے سلطنت روم کی ملکہ بن گئی ہو۔
قسطنطین کا بیٹا کون تانس چپ چاپ الگ بیٹھا تھا اس کے چہرے پر غم کا تاثر تو نمایاں تھا ہی لیکن اس تاثر میں کچھ جھلک اور بھی تھی ۔ جوقہر اور غضب کی تھی، اور پتہ چلتا تھا کہ یہ جواں سال شہزادہ غصے اور اپنے قہر پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہے۔
 ہر جرنیل اور بڑا حاکم یا کوئی بڑی شخصیت والا عالم اور دانشور وہاں موجود تھا رواج کے مطابق وہ سب ایک قطار میں قسطنطین کی لاش کے قریب سے آہستہ آہستہ گزرتے جا رہے تھے اور ان میں سے ہر کوئی کوئی نہ کوئی جملہ کہتا تھا۔
آجا روم کا اسکندراعظم دنیا سے اٹھ گیا ہے۔
 سلطنت روم ایک جابر جرنیل سے محروم ہوگئی ہے ۔
روم کے دشمنوں کے لیے قسطنطین ایک دہشت کا نام تھا۔
 قسطنطین نہیں مر سکتا اس کی روح سلطنت روم کے دشمنوں کو برباد کر دے گی ۔
قسطنطین کونستانس کے روپ میں زندہ رہے گا۔
ایک عظیم جرنیل اس وقت اٹھ گیا ہے جب روم کو اس کی شدید ضرورت تھی۔
ملکہ مرتینا غم زدگی کے عالم میں ادھر ادھر گھوم پھر رہی تھی، اس کے کندھے کچھ اس انداز سے آگے کو جھکائے تھے جیسے وہ بڑی مشکل سے اس صدمے کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہو ۔ اس نے دیکھا کہ جرنیل اور دیگر بڑے لوگ کچھ نہ کچھ کہہ رہے ہیں تو وہ قسطنطین کی لاش پر جا کھڑی ہوئی اور دونوں ہاتھ ذرا اوپر کو پھیلا دیے اور آسمان کی طرف دیکھا۔
اے خدا!،،،،،، مرتینا نے کہا۔۔۔ میرے ایکلوتے بیٹے ہرقلیوناس کی جان لے لیتا قسطنطین کو زندہ رہنے دیتا، میں اپنے بیٹے کا غم پی جاتی، مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا۔
تم جھوٹی اور عیار عورت ہو۔۔۔ کونستانس کانپتی ہوئی آواز بلند آواز میں بولا۔۔۔
مرتینا میرے باپ کو تم نے زہر دے کر مروایا ہے، میرے دادا شاہ ہرقل کو بھی تم نے زہر دلواکر مروایا تھا، تمہاری آنکھوں میں مگرمچھ کے آنسو ہیں۔
 مرتینا کے اوپر کو اٹھے ہوئے ہاتھ نیچے گرپڑے اور اس پر خاموشی طاری ہو گئی۔
وہاں جتنے لوگ موجود تھے ان پر سناٹا طاری ہوگیا۔ کونستانس نے جو الزام لگایا تھا وہ کوئی معمولی سا الزام نہ تھا ،کچھ کہا نہیں جا سکتا تھا کہ اس سناٹے میں سے کیسا طوفان اٹھے گا۔ قیرس اٹھا اور تیزی سے آگے بڑھ کر کونستانس کو اپنے بازوؤں میں لیا اور اسے گلے لگا لیا۔
میرے عزیز بیٹے!،،،، قیرس نے کونستانس سے کہا ۔۔۔تم ناقابل برداشت صدمے کی حالت میں ہو، برداشت سے کام لو ایسی بے معنی باتیں منہ سے نہ نکالو۔
 میں جو کچھ بھی کہہ رہا ہوں ہوش وحواس میں کہہ رہا ہوں۔۔۔ کونستانس نے ایک جھٹکے سے قیرس کے بازوؤں سے نکل کر کہا۔۔۔ اس مکار عورت نے میرے دادا اور میرے باپ کو زہر نہیں دیا اس نے سلطنت روم کی رگوں میں زہر ڈالا ہے۔

#جاری_ہے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.