Ads Top

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر52 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi

 by 

Abu Shuja Abu Waqar 


غازی از ابو شجاع ابو وقار
 پیشکش محمد ابراہیم
52 قسط نمبر
 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar 
Presented By Muhammad Ibraheim
 Episode 52
میں نے اندر آ کر اندر سے دروازہ بند کیا وجے فرش پر گرا مجھے پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اس نے اوں آں کر کے کچھ بولنے کی کوشش کی تو میں نے کہا مسٹر وجے کمار آج تم نہیں میں بولو گا اور تم صرف سنو گے تم نے دوست بن کر مجھے جال میں پھانسنا چاہا اور اس میں تم کامیاب بھی ہوگئے تھے اور میں تم پر اعتبار کرنے لگا تھا اگر چنگ وا ہوٹل میں تمہاری اور تمہارے ساتھیوں کی ریکارڈنگ نہ سننے کو ملتی تو مجھے تمہاری اصلیت کا پتہ نہ چلتا اور میں تمہاری دوستی میں ناجانے کہاں تک چلا جاتا یہ سب کچھ میں تمہیں اس لیے بتا رہا ہوں کہ تم نے مجھے دوستی کے پردے میں ٹھیس پہنچائی ہے یہ میرے چینی دوست اور محافظ ہیں چنگ وا اور چینی دوستوں کا بھی تمہیں اس لیے بتایا ہے کہ تم کسی اور کو بتانے کے لیے زندہ نہیں رہو گے لکھنؤ سے تمہارے لاے ہوے دونوں بدمعاش بھی اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں تمہاری دوستی کے بہروپ میں گزارے ہوے چند روز کیوجہ سے میں تمہیں گولی نہیں ماروں گا یہ کہتے ہوئے میں نے ایک چینی دوست سے زہریلی گیس کا سلنڈر لیا ہم نے اپنے ناک رومالوں سے بند کر لیے میں نے سلنڈر بلکل وجے کے نتھنوں سے لگا کر گیس چھوڑ دی چند لمحوں بعد وجے کی آنکھیں ابل کر باہر آ گئیں اس کا جسم پھڑپھڑایا اور بےجان ہو گیا ہم نے اسے اسی حالت میں چھوڑ کر اندرونی کمروں کیطرف گئے ایک الماری سے ہمیں 60 ہزار روپیہ اور بریف کیس ملا جس میں سرکاری کاغذاتِ اور فائلیں تھیں کاغذات کو دیکھتے ہی میں سمجھ گیا کہ یہ دہلی سے وجے کے لیے ہدایات اور رابطے کی فائلیں ہیں میں نے کرنسی چینی دوستوں کو دے دی اور بریف کیس خود اٹھا لیا ہم نے وجے کی آنکھیں بند کیں اس کے منہ سے رومال نکالا اور آہستہ سے دروازہ بند کرتے ہوئے سڑک پر آ گئے گاڑی میں مریم بے چینی سے ہماری منتظر تھی میرے گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے چینی دوستوں کی پرواہ نہ کرتے ہوے میرے سینے کے ساتھ اپنا سر لگا دیا اور اسکی آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات شروع ہو گئی میں نے بڑی مشکل سے اسکا رونا بند کروایا میں نے حملہ آوروں کے دونوں پسٹل چینی دوستوں کر دینے چاہے تو انہوں نے کہا کہ انکے پاس پسٹلز کے علاوہ اور بھی بہت خطرناک قسم کے ہتھیار ہیں اس لیے وہ انہیں رکھ نہیں سکتے وہاں سے ہم چنگوا ہوٹل پہنچے وہاں سے مریم نے اپنی گاڑی لی اور ہم سیدھا شیر پنجاب ہوٹل پہنچ گئے چینی دوست مریم کے ساتھ بیٹھ گئے اور میں نے گاڑی ہوٹل کے ایریا میں داخل کر دی گاڑی بند کر کے چابی نکالی اور سردار کے پاس پہنچ گیا سردار نے دیکھتے ہی کہا اتنی جلدی آ گئے میں نے کہا بس کچھ ناراضگی ہو گئ تو سردار نے کہا کہ لڑکیوں کو کیسے ڈیل کیا جاتا ہے یہ تمہی میں بتاؤں گا میں صبح آنے کا کہہ کر اجازت لی اور باہر سڑک پر پہنچ گیا جہاں مریم اور چینی دوست گاڑی میں میرا انتظار کر رہے تھے
 راستے میں ہم نے چینی دوستوں کو اتارا اور مریم کے اصرار پر ہم انکے گھر چلے گئے میرے لیے مخصوص کیا کمرہ اس میں مجھے مریم نے بٹھایا اور چاے بنا کر لے آئی اور میں نے دوپسٹل مریم کو اس کی اپنی حفاظت کے پیش نظر دے دئیے چاے سے فارغ ہو کر مریم نے مجھے شب بخیر اردو میں کہا تو میں حیران رہ گیا اس نے بتایا کہ مہاجر لڑکی سے اردو سیکھنے کے لیے وہ ٹیوشن لے رہی ہے میں اپنے بیڈ پر لیٹ گیا اور مستقبل کے سپنوں میں کھو گیا اسی حالت میں نا جانے کب نیند نے آ دبوچا اگلے دن دن چڑھے میں اٹھا ناشتہ کیا اور واپس اپنے ہوٹل پہنچا تو محسن کو اپنا منتظر پایا وہ لابی میں بیٹھا ہوا تھا اس نے بتایا کہ وہ گذشتہ رات بھی ملنے آیا اور رات 12 بجے تک بیٹھا رہا میرے نا آنے سے وہ بہت فکر مند تھا اس لیے وہ صبح پھر ہوٹل چلا آیا میں نے اسے گذشتہ رات کے واقعات کے بارے میں کچھ نہ بتایا میں چاہتا تھا کہ گذشتہ رات والی خبریں اس کے ذریعے مجھ تک پہنچیں محسن کو لابی میں چھوڑ کر اپنے روم میں گیا نہایا اور لباس بدل کر نیچے آیا اور اسے لے کر کافی شاپ میں چلا گیا ہمیں وہاں بیٹھے ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ نیپالی پولیس کے دو سب انسپکٹر وہاں آ گئے وہ مجھ سے اور میرے چینی ساتھیوں سے گذشتہ رات ہونے والی فائرنگ کے بارے میں پوچھنا چاہتے تھے ان کو یہ روپوٹ چینی ساتھیوں کے رکشہ ڈرائیور نے دی تھی جو فائرنگ کی آواز سنتے ہی وہاں سے بھاگ گیا تھا میں نے انہیں کہا کہ کوئی فائرنگ وغیرہ نہیں ہوئی میرے رکشہ کے ٹائر کے نیچے پتھر آ گیا تھا جسکیوجہ سے رکشہ الٹ گیا تھا باقی میں کسی چینیوں کو نہیں جانتا جو رکشہ میں میرے پیچھے آ رہے تھے وہ مجھ سے مزید سوال کرنا چاہتے تھے کافی پینے کے دوران ہی میں نے انہی کہا کہ میں نے اپنے سفارت خانے جانا ہے آپ ایک رکشہ ڈرائیور جو ہو سکتا ہے چرس کے نشے میں ہو کے کہنے پر مجھ جیسے شریف شہری پر بلا جواز سوال وجواب نہ کریں میں نے ٹیبل پر ایک ہزار روپے کا نوٹ رکھ کر پوچھا کہ آپ یہ پیسے لے کر اس چیز کو بھول جانا چاہیں گے یا رکشہ ڈرائیور کے بیان پر مجھ سے مزید سوال و جواب کرنا چاہیں گے میں نے بڑے اعتماد سے روپے ٹیبل پر رکھے تھے کیونکہ میں پیر گنج میں پولیس کی حالت دیکھ چکا تھا انہوں نے ایک دوسرے کیطرف دیکھا اور روپے اٹھاے اور مجھے سلیوٹ کر کے چلے گئے میں نے محسن کو کہا کہ وہ مین بازار میں کشمیری شالوں کی دوکان پر جاے اور دوکان کا ٹیلی فون نمبر لے آئے میرا مقصد وہاں وجے کی موت کا رد عمل دیکھنا تھا محسن کو میں قابل اعتماد تو سمجھتا تھا مگر ایک اسمیں خامی تھی کہ کوئی بھی راز کی بات اس کے پیٹ میں نہیں ٹھہرتی تھی اور میری کوشش تھی کہ میں خود کو وجے کے قتل والے واقعہ سے دور رکھوں قتل ہونے کی کوئی نشانی وجے کے جسم پر نہیں تھی اسکی موت ہارٹ فیل ہونے کے سبب بھی ہو سکتی تھی زہریلی گیس عام پوسٹ مارٹم روپوٹ سے ظاہر نہیں ہو سکتی تھی اور کھٹمنڈو میں ایسی کوئی لیبارٹری موجود نہیں تھی جہاں سے اس گیس کا تجزیہ ہو سکے مجھے معلوم تھا کہ بھارتی انٹیلیجنس اپنے اس منجھے ہوئے جاسوس کی موت کو اتنی جلدی ہضم نہی کر سکیں گے ابھی لکھنؤکے دو بدمعاشوں کی لاشیں دریافت کرنا باقی تھیں دشمن کی نظر میں میں تو پہلے سے ہی تھا گو انکو کوئی ثبوت نہ ملا تھا مگر اگر وہ بھارت میں میری موجودگی سے ہونے والے واقعات اور پھر جب سے کھٹمنڈو میں آیا ہوں یہاں پر ارپے درپے ہونے والے واقعات کا تجزیہ کریں تو سیدھا مجھ تک پہنچ سکتے تھے اب حالت یہ تھی کہ میرے ظاہری دشمن کم اور پوشیدہ دشمن زیادہ ہو گئے تھے ڈی ایم آئی نے مجھے زندہ گرفتار کرنے کی جو پابندی عائد کی تھی اسکیوجہ سے میں ابھی تک بچا ہوا تھا ورنہ کہیں سے بھی ایک گولی آتی اور میرا کام تمام کر دیتی وجے نے جو بدمعاش ہائر کیے تھے وہ اپنی حفاظت کے لیے کیے تھے اگر وہ اس مقصد میں کامیاب ہو جاتے تو اس نے اس واقعہ سے لاتعلقی ظاہر کر دینی تھی محسن شام کو لوٹا تو اس نے مجھے دکان کا ٹیلی فون نمبر دیا اور بتایا کہ رات کر وجے کہ اچانک موت واقعہ ہو گئی ہے اور اسکے باڈی کو جہاز کے ذریعے دہلی بھیجا جا رہا ہے وجے کی موت پر یقیناً بھارتی سفارت خانہ بلبلا اٹھا ہو گا اب محسن کو رات کو میری ہوٹل سے غیر حاضری کیوجہ تو سمجھ میں آ گئی تھی مگر اس نے پوچھنے کی ہمت نہیں کی بھارتی سفارت خانہ بدلے میں کوئی بھی قدم اٹھا سکتا تھا میں نے فون پر مریم سے اپنے خدشات کا اظہار کیا تو اس نے کہا کہ وہ آئندہ شام کو ڈائریکٹ چنگ وا ہوٹل نہیں آیا کرے گا بلکہ مختلف راستوں سے ہو کر آے گا اور واپسی پر مریم مجھے خود اپنی گاڑی میں چھوڑنے آیا کرے گی چینی دوست میرے ساتھ ہی ہوا کریں گے مگر مجھے ڈراپ کرنے کے بعد وہ مریم کو بھی اسکے گھر سیفٹی کے ساتھ چھوڑا کریں گے میں نے وقتی طور پر اس پروگرام پر عمل کرنا شروع کر دیا لیکن آئندہ چار پانچ دنوں میں برٹش ہیپیوں کی ایک وین خرید لی جسے وہ پیسے ختم ہونے کیوجہ سے سستے داموں سیل کر رہے تھے ہوٹل کے ایک گارڈ کو میں نے گاڑی کی دیکھ بھال کے لیے مخصوص پیسوں پر ہائر کر لیا اس وین کیوجہ سے میری اور میرے چینی ساتھیوں کی رکشہ کے سفر سے جان چھوٹ گئی اور میرا آنا جانا بھی نسبتاً محفوظ ہو گیا
 آئندہ چند روز بہت پرسکون طریقے سے گزرے. مگر میری چھٹی حس کسی انجانے خطرے کا الارم بجا رہی تھی یہی حال مریم کا بھی تھا وہ بھی بہت بے چینی محسوس کر رہی تھی چینی دوست اب ہر وقت ہم دونوں کے ساتھ رہنے لگے تھے ان کے پاس بہت خطرناک اور چھوٹے چھوٹے ہتھیار تھے جن سے کسی کی نظر میں آے بغیر اپنا کام کیا جا سکتا تھا یو این او کا نمائندہ جو سامان کے ساتھ آیا تھا اس نے مہاجرین کی رہائش کا دورہ کیا تو ان کی یہ حالت زار دیکھ کر اس نے افغان ائیر لائن کا شیڈول تیار کر دیا اور فوری اس شیڈول پر عمل درآمد کرنے کے احکام جاری کر دیئے مہاجرین کو یہ سن کر بہت خوشی ہوئی کہ اب ان کی اس مصیبت سے جلد خلاصی ہو جاے گی گو ائیر لائن شروع ہونے میں ابھی تین ماہ تھے مگر مہاجرین کے لیے یہ پھر بھی ایک پرامید خبر تھی اب انکے چہروں پر بشاشت لوٹ آئی تھی مہاجرین جہاز کی سیٹس حاصل کرنے کے لیے پاکستانی سفارت خانے کے سامنے جمع ہو گئے تھے اور سفارت خانہ والوں کے لیے کمائی کا پھر ذریعہ بن گیا تھا میرے محکمے کے ٹرانسمیٹر آپریٹر نے بتایا کہ اس بار جہاز میں سیٹ حاصل کرنے کی فیس 2ہزار روپے رکھی گئی ہے جو نئے مہاجر آے ہیں انکے پاس تو پیسے ہیں وہ سیٹیں حاصل کر رہے ہیں مگر جو پرانے مہاجر ہیں ان کے پاس جمع پونجی کچھ بھی نہیں ہے انہوں نے سفارت خانے کے سامنے احتجاج اور بھوک ہڑتال کر رکھی تھی اور ایک گروپ نے سفیر کے گھر کے سامنے بھی مگر سفیر نے نیپالی پولیس سے لاٹھی چارج کروا کر انکو منتشر کر دیا ہے مجھے سن کر دکھ تو بہت ہوا مگر کیا کرتا اس خبر کے علاوہ ایک ایسی خبر بھی تھی جس نے مجھے چونکا دیا مایوس مہاجروں کو بھارتی سفارت خانہ انسانی ہمدردی کے جھانسے میں اپنی طرف مائل کر رہا تھا اور انکے کارکن دیوالی کے تہوار کی آڑ میں مہاجروں میں خردونوش چیزوں کے علاوہ پیسے بھی تقسیم کر رہے تھے درجنوں مہاجر روزانہ یہ امداد لینے کے لیے بھارتی سفارت خانے جاتے جہاں پر انکا برین واش بھی کیا جاتا کہ وہ اس نا انصافی کر خلاف پاکستانی سفارت خانے اور بنگلہ دیشی سفارت خانے کو نذر آتش کر دیں تاکہ پوری دنیا تک تمہاری آواز پہنچ سکے یہ سن کر میری پہلی سوچ تو یہ تھی کہ مہاجر ایسا کر دیں تاکہ انٹر نیشنل میڈیا تک یہ خبر پہنچے مگر جب اس کے منفی پہلوؤں پر غور کیا تو بہت برے نتائج سامنے آنے کی توقع تھی سو میں اور تو کچھ نہ کر سکا اس ساری گیم کی روپوٹ لکھ کر پاکستان اپنے محکمے کو بھجوا دی محسن نے اپنے ساتھ نئے شادی شدہ لڑکوں کو بھی ملا لیا تھا یہ سب مل کر بھارتی سفارت خانے جانے والے مہاجروں کی ٹوہ میں رہتے اور ان کے آئندہ پلان کے بارے میں جان کر مجھے آگاہ کرتے ان مہاجروں کا قطعی کوئی ارداہ نہیں تھا کہ وہ دونوں سفارت خانوں کے ساتھ ایسا کریں وہ صرف اپنی مالی ضرورت پوری کرنے کے لیے ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے میں نے محسن اور اس کے ساتھی لڑکوں کے ذریعے مہاجرین میں یہ بات پھیلا دی کہ بھارتی سفارت خانہ کیا چاہتا ہے انکی بات مان کر مہاجر اپنا کتنا نقصان کریں گے اور ساتھ جو لوگ بھارتی سفارت خانے جاتے ہیں ان میں پاکستانی سفارتخانے کے آدمی بھی ہیں جو سب روپوٹ پاکستانی سفارت خانے کو دیتے ہیں اور پاکستانی سفارت خانہ ان لوگوں کی رجسڑیشن کینسل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے اور پھر انکی رجسٹریشن کینسل کر کے انکو دوبارہ بھارت میں دھکیل دیا جاے گا انکی مالی ضرورت کے بارے انہیں کہا گیا کہ جو ضرورت مند ہیں وہ اپنی لسٹ بنا کر مجھ سے انا پورنا ہوٹل میں رابطہ کریں انکی ضرورت پوری کی جائے گی جب نمائندے میرے پاس آے تو میں نے پہلے تو انکی اس بات پر سرزنش کی کہ وہ بھارتی سفارت خانے کیا لینے گئے تھے جبکہ میں نے کہا تھا کہ میں سب کی ضروریات پوری کرتا رہوں گا اس پر وہ بہت نادم ہوئے اور جب انکی ضروریات کا اندازہ لگایا تو وہ 25 ہزار سے بھی کم تھے میں محض یہ واقعات وقت گزاری کے لیے نہیں لکھ رہا. میرا مقصد آپ کو یہ بات بتانا ہے کہ مالی مجبوری انسان کو کس حد تک گرا سکتی ہے میں نے جتنا ان مہاجروں کے اچھے کے بارے میں سوچا اور ان کے لیے اچھا کیا اس کا خمیازہ مجھے بھگتنا پڑا ہوا یہ کہ ایک مہاجر نے اپنی بیوی کے اپینڈکس کے اپریشن کے لیے بھارتی سفارت خانے جا کر 4 ہزار روپیہ حاصل کیا جب مجھے پتہ چلا تو میں نے اسے 4 ہزار دے کر کہا کہ وہ بھارتی سفارت خانے جاے اور ان کے پیسے شکریہ لے ساتھ واپس کر دے وہ چلا گیا اس کے پیچھے میں نے محسن اور لڑکوں کو لگا دیا کہ جونہی یہ بھارتی سفارت خانے سے باہر نکلے اسے گھیر کر واپس میرے پاس لے آنا انہوں نے ایسا ہی کیا جب میرے پاس لایا گیا تو اس نے مجھے پیسے واپس کرتے ہوئے کہا کہ مجھے آپ کے پیسے نہیں چاہیے مجھے بہت دکھ ہوا میں نے اسکی تلاشی لینے کا کہا تو اس کے پاس سے بھارتی سفارت خانے کی مہر لگی پیسوں کہ گدی برآمد ہوئی مجھے بہت غصہ آیا میں نے اسے دو تھپڑ مار دیئے وہ غصے میں چھڑا کر بھاگ گیا میں نے بھی جانے دیا کہ شاید اسے احساس ہو جائے مگر وہ سیدھا بھارتی سفارت خانے گیا ان کے ساتھ گٹ مٹ کی اور دوسرے دن میرے پاس آیا اور میری پاؤں میں بیٹھ کر معافی مانگی میں نے بھی معاف کر دیا کہ شاید اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہو مگر وہ تو میرے پیچھے پڑ گیا میں روم میں ہوتا تو وہ لابی میں بیٹھا رہتا میں نے اسے کہا کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے تو اس نے کہا کہ آپ جیسے محب وطن کے آس پاس رہنے کو دل کرتا ہے میں خاموش ہو گیا چند دن اسی طرح گزر گئے پھر میں ہوٹل والوں سے کہہ کر اسے لابی سے نکلوا دیا تو وہ باہر گارڈن میں بیٹھنے لگا
 میں باہر نکلتا تو اسکی نظریں مجھ پر جمی رہتی مجھے اس کے متعلق کچھ شک ہو گیا میں نے محسن کو اس کے پیچھے لگا دیا مگر وہ بھارتی سفارت خانے کی طرف کبھی نہ گیا گھر جاتا گھر سے ہوٹل کے لان یا پھر سڑک پر کھڑا رہتا میرے اوپر اسکی نظریں رہتیں. میں شام کو چنگوا ہوٹل جاتا تھا اور رات گئے واپس آتا تھا حسب معمول ایک روز رات کو میں اپنی وین میں اپنے چینی ساتھیوں کے ساتھ ہوٹل واپس آ رہا تھا میں نے ہوٹل آنے کے لیے ایک لمبا راستہ اپنا لیا تھا تاکہ بھارتی سفارت خانے کے سامنے سے نہ گزرنا پڑے اس روز رات کو واپسی آتے ہوئے ایک سنسان جگہ جو کہ اس راستے میں آتی تھی وہاں وین کی ہیڈ لائٹس میں دیکھا کہ ایک عورت جو برقعے میں ملبوس تھی بھاگ رہی تھی اور تین ہیپی اس کے پیچھے بھاگ رہے تھے میں نے وین روکی تو عورت ہیلپ ہیلپ کہتے کہتے وین کے بلکل قریب آ گئی بھاگنے سے اس کے بال اسکے چہرے کو ڈھانپے ہوئے تھے وہ ڈری ہوئی تھی مجھے میرے اصلی نام سے پکارتے ہوئے بولی پلیز میجھے بچا لیں یہ جرمن ناڑی پارٹی کے ممبر ہیں یہ وہی اسرائیلی لڑکی تھی جو میرے ہوٹل مجھ سے ملنے آئی تھی صورت حال کو نہ سمجھتے ہوئے میں وین سے اتر آیا اور میرے چینی ساتھی بھی اتر آے یہ صرف چند سیکنڈ میں ہوا اتنی دیر میں اسکا پیچھا کرنے والے مرد بھی قریب پہنچ گئے ان کے ہاتھوں میں خنجر تھے سب سے آگے وہ جرمن تھا جو گورکھ پور سے پیر گنج تک میرا ہمسفر رہا تھا جب میں نے اس سے ان لڑکیوں کا پتہ پوچھا تھا تو اس نے کتیا کا لفظ بول کر بتایا تھا جب وہ میرے قریب آ گئے تو مجھے پہنچانتے ہوے بولا یہی تو وہ یہودی جاسوسہ ہے جسکے متعلق اس دن تم نے پوچھا تھا یہ تمہارے ملک کی بھی دشمن ہے اور ہمارے ملک کی بھی آج یہ اکیلی ہمارے ہتھے چڑھ گئی ہے ہم اسے مار ڈالیں گے اس طرح تمہارے اور ہمارے دشمنوں میں ایک کی کمی ہو جائے گی ہاتھ میں خنجر لیے وہ جرمن میرے اتنے قریب آ چکا تھا کہ میرے پاس ہتھیار نکالنے کا ٹائم نہیں تھا
: میں نے صورت حال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے مسئلہ کو بات چیت سے سلجھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ تم بیشک اسکو مار دینا لیکن ابھی اپنے خنجر پیچھے کر کے اپنی جیبوں میں ڈال لو پہلے میرے ایک سوال کا جواب دو کہ تمہارے ملک نے اسرائیل کو تسلیم بھی کیا ہوا ہے اور آپسمیں گہری دوستی بھی ہے اور تمہاری مالی امداد بھی بہت زیادہ کی ہے تو پھر یہ تمہاری دشمن کیسے ہوئی چرس کا مارا یہ جرمن عام حالات میں میرے ایک گھونسے کی مار تھا مگر اس وقت اپنے ہاتھ میں خنجر لیے یہ مافوقالفطرت بنا ہوا تھا جو ایک ہی وار سے میرا کام تمام کر سکتا تھا اس نے نہ تو خنجر جیب میں ڈالا اور نہ ہی میرے سوال کا جواب دیا میری پشت وین کے ساتھ لگی ہوئی تھی اور اپنے بچاؤ کے لیے میں پیچھے بھی نہیں ہٹ سکتا تھا اور میری کمزور پوزیشن کا اسے بھی احساس ہو چکا تھا ہم تمہیں بھی مار ڈالیں گے تم پر بھی انعام ہے یہ کہتے ہوئے جرمن مجھ پر وار کرنے کے لیے ایک قدم پیچھے ہٹا بس یہی موقع تھا جسے میں ضائع نہیں کر سکتا تھا اگر کر دیتا تو خود موت کے منہ میں چلا جاتا میں نے اس کے پیچھے ہٹتے ہی اس کے نازک اعضاء پر کک ماری اور اس کے ہاتھ سے خنجر گر گیا اور وہ دوھرا ہو کر گر گیا میں نے اسکی کلائی پکڑ کر مڑوڑی اور اس کے پیچھے لگا دی اور وہ سڑک پر گر پڑا ڈی ایم آئی کی حراست سے فرار ہونے کے بعد مجھے زندگی سے پیار سا ہو گیا تھا اس لیے جو بھی مجھے ختم کرنے کی کوشش کرتا تھا اسے میں مار دیتا تھا میری ذہنی کیفیت ہی ایسی ہو گئی تھی میں نے اسکے خنجر والے ہاتھ پر اپنا پاؤں رکھا ہوا تھا میں نے جودھ پوری جوتے پہن رکھے تھے اور دوسرا پاؤں اسکی گردن پر تھا گردن پر دباؤ زیادہ پڑنے کیوجہ سے اسکی گردن پچک چکی تھی میرے حواس بحال ہوے تو دیکھا وہ مر چکا تھا اس جرمن کے دونوں ساتھی غائب تھے میں نے وین کی دوسری جانب دو ہیولے دیکھے تو ادھر گیا پسٹل نکالا اور فائر کرنے لگا مگر میرے چینی ساتھیوں نے نونو کر کے مجھے روک دیا اور مجھے سلنڈر دکھاے کہ ان کا کام تمام ہو چکا ہے ہم نے انکی جیبوں کی تلاشی لی پاسپورٹ اور بٹوے وغیرہ نکال لیے تاکہ آسانی سے انکی شناخت نہ ہو سکے اسرائیلی لڑکی اس وقت ایک خوفزدہ لڑکی دکھائی دے رہی تھی واردات والی جگہ سے جلد از جلد دور ہو جانے کے لیے میں اسرائیلی لڑکی اور چینی ساتھیوں کو جلدی گاڑی میں بیٹھنے کو کہا اور اپنے ہوٹل واپس آ گیا لابی میں بیٹھنے کی بجاے میں انہیں کافی شاپ میں لے گیا اور مریم کو بھی کال کر کے بلا لیا تھوڑی دیر بعد مریم پہنچ گئی وہ حیران تھی کہ تھوڑ ے ٹائم میں ایسی کیا قیامت آ گئی جو مجھے بلا لیا مریم خاموشی سے میرے ساتھ بیٹھ گئی میں نے اسرائیلی لڑکی کو کہا کہ میں تم سے تمہارا نام نہیں پوچھو گا کیونکہ یہ ہمارے اصولوں کے خلاف ہے لیکن آج کے واقعہ کی تفصیل ضرور جاننا چاہوں گا جس کے نتیجے میں ہمارے ہاتھوں سے تین ایسے انسانوں کا خون ہوا تھا جن سے نہ ہماری ذاتی دشمنی تھی اور نہ ملکی میں نے محض انسانیت کے ناطے تمہاری مدد کی ہے کیونکہ تم مدد کے لیے چلا رہی تھی اور اس وقت تم ایک موساد کی جاسوس نہیں تھی ایک کمزور لڑکی تھی جس کے پیچھے تین درندہ صفت لگے ہوئے تھے تمہاری مدد نہ کرنا اس حالت میں میرا مذہب اس بات کی اجازت نہی دیتا تھا میں تمہیں مجبور نہی کر سکتا مگر تم مجھے حقیقت بتا کر مجھے تم اس احساس سے نجات ضرور دلا سکتی ہو کہ تین انسانوں کا قتل ناحق کیا ہے یا صحیح کیا ہے ٹکٹکی باندھے اسرائیلی لڑکی مجھے دیکھ رہی تھی اور میری باتیں سن رہی تھی میں جانتا تھا کہ اس کے اندر دو جذبات کے سمندر آپس میں الجھ رہے ہیں
جاری ہے

Next Episode


No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.