Ads Top

Aur Neel Behta Raha By Annyat Ullah Altamish Episode No. 59 ||اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش قسط نمبر 59


Aur Neel Behta Raha
 By
Annyat Ullah Altamish

اور نیل بہتا رہا
از
عنایت اللہ التمش

 Aur Neel Behta Raha  By  Annyat Ullah Altamish  اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش

 #اورنیل_بہتارہا/عنایت اللہ التمش
#قسط_نمبر_59

ایک اطالوی وقائع نگار رونا لیتینی نے تاریخ کی خاک چھان کر اس قسم کے واقعات ذرا تفصیل سے بیان کئے ہیں ، تین بڑے مؤرخوں نے صرف اشارۃً ذکر کیا ہے بہرحال یہ واقعہ اس طرح ہوا کہ سالار زبیر بن الّعوام آٹھ مجاہدین کو ساتھ لے کر سرابیوم کے کھنڈرات میں چلے گئے پولیس کا سب سے بڑا افسر صاحب الاحداث جوزف ساتھ نہیں گیا تھا اس نے سالار زبیر کو دوگائیڈ دے دیے تھے جو ان کھنڈرات سے واقف تھے اور بوقت ضرورت لڑنے کا تجربہ بھی رکھتے تھے ۔ جہاں تک واقفیت کا تعلق تھا ان کھنڈرات کو بے شمار لوگ دیکھ چکے تھے اور مجاہدین نے بھی ان کھنڈروں کی سیر کر لی تھی لیکن ان کے خفیہ گوشوں سے کوئی کوئی واقف ہو گا ۔ ان دونوں آدمیوں سے پوچھا گیا کہ وہ ان کھنڈروں کے اس حصے سے واقف ہیں یا نہیں جہاں عبادت گاہ بنی ہوئی ہے۔
 انہوں نے بتایا کہ وہ اندر تو نہیں گئے نہ ہی کوئی یہ دعوی کر سکتا ہے کہ وہ اس حصے میں بھی گیا ہے لیکن وہ اتنا بتا سکتے ہیں کہ وہ حصہ کہاں سے شروع ہوتا ہے۔
سالار زبیر بن العّوام صرف نڈر اور بے خوف ہی نہیں تھے بلکہ عقل و دانش کے لحاظ سے کوئی کوئی ہی ان کی برابری کا دعویٰ کر سکتا تھا ۔ انہوں نے جوزف کو الگ بیٹھا کر بڑی باریکی سے پوچھ لیا تھا کہ پہلے جو آدمی مارے گئے تھے وہ کس طرح مارے گئے تھے۔ اور کچھ دیگر معلومات بھی لے لی تھی۔ ایک روز پہلے وہ دن کے وقت وہاں چلے گئے اور اس طرح اندر گھومتے پھرتے رہے تھے جیسے کوئی اجنبی سیروسیاحت کے لئے آیا ہو، انہوں نے بالائی منزل میں جاکر بھی اندر کی دنیا دیکھ لی تھی۔
یہ کھنڈر صرف اتنے ہی نہیں تھے کہ ایک چار دیواری کی ہوتی اور اندر دو چار کمرے بنے ہوئے ہوتے، وہ تو کمروں اور راہداریوں کی ایک دنیا تھی جس کے اندر جاکر بھول بھلیوں سے سامنا ہوتا تھا اور یہ ڈر کے آدمی بھٹک جائے گا اور باہر نہیں نکل سکے گا ۔
ایسا کوئی خطرہ نہیں تھا پھر بھی راہداریاں غلام گردشیں یہی تاثر پیدا کرتی تھیں کہ یہاں جو آئے گا وہ باہر نہیں جا سکے گا ۔
جس زمانے میں یہ عمارت صحیح سالم تھی اور یہاں باقاعدہ کھلے عام عبادت ہوتی تھی اس دور میں یہ یقیناً ایک پرشکوہ اور قابل عظمت عمارت تھی، کھنڈرات ہی اس کے حسن و عظمت کو بزبان خاموشی بیان کر رہے تھے ۔
اب تو چھتیں کہیں گری ہوئی اور کہیں جھکی ہوئی تھیں، دیواریں بھی ایسی کے ان پر ہری کائی جم گئی تھیں، اور کچھ دیوار آدھی اور کچھ زیادہ گری پڑی تھیں، اور بعض اس طرح کھڑی تھی کہ انہوں نے چھتوں کو سنبھال رکھا تھا ،ایک ہیبت تھی جسے کمزور دل آدمی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
جالے ایسے گھنے تھے کہ ان پر شک ہوتا تھا کہ یہ جالے نہیں بلکہ کپڑے لٹک رہے ہیں، جو میلے بھی ہیں اور چیتھڑے بھی بن گئے ہیں، ان جالوں میں مرے ہوئے بڑے چمگادڑ پھنسے ہوئے تھے اور ایک جال میں ایک آلو پھنسا ہوا تھا اور جالے میں سے نکل نہ سکا اور وہیں پھڑپھڑاتا مر گیا، کہیں سے ایک دو سانپوں کا نکل آنا حیرتناک نہ تھا۔
ایسی دیواریں بھی تھیں جن پر کائی نہیں جمی تھی ان کا پلستر ابھی تک محفوظ تھا اور اس پر اس دور کے مصوروں نے دیویوں اور دیوتاؤں کی تصویریں بنا رکھی تھیں، یہ تصویریں تیزدھار یا نوکیلے اوزاروں سے کھودی گئی تھیں اور ان میں رنگ بھرے ہوئے تھے، اس لئے یہ صدیوں بعد بھی محفوظ تھیں،
ایک وسیع اور خاصہ کشادہ حال تھا جس کی آدھی سے زیادہ چھت گری ہوئی تھی اور سارا ملبہ فرش پر ڈھیروں کی صورت میں بکھرا ہوا تھا۔
 حال کی ایک دیوار کے ساتھ چبوترا یا سٹیج بنا ہوا تھا اس سٹیج پر اور محفوظ دیواروں پر جو نقش و نگار اور مورتیاں بنی ہوئی تھیں ان سے صاف پتہ چلتا تھا کہ یہ عبادت گاہ تھی۔
اس عبادت گاہ کا ایک دروازہ ایک اور کمرے میں کھلتا تھا ، یہ چھوٹا سا کمرہ تھا جس کی وسعت دمیں تقریباً ایک گز جوڑا گول چبوترا بنا ہوا تھا۔ اس کے اردگرد کچھ ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں جو یقینا انسانی جسم کی تھیں، یہی خیال آتا تھا کہ اس کمرے میں جان کی قربانی دی جاتی ہوگی اور اس کا طریقہ یہ ہوتا ہوگا کہ جسے قربان کرنا ہوتا اسے اس گول چبوترے پر بٹھا کر اس کا سر چبوترے پر رکھ دیتے اور تلوار یا کلہاڑی سے اس کی گردن کاٹ دیتے تھے۔
دو تین جگہوں سے سیڑھیاں اوپر جاتی تھیں سالار زبیر بن الّعوام اوپر بھی گئے تھے ،اوپر تو سنبھل سنبھل کر چلنا پڑتا تھا کیونکہ جگہ جگہ سے چھت گری ہوئی یا جھکی ہوئی تھیں، محفوظ چھتوں پر چلنے سے بھی ڈر آتا تھا کہ یہ گر پڑیں گیں، اوپر بھی رہداریاں تھیں اور چھوٹے بڑے کمرے بھی تھے۔ سالار زبیر یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ پہلے کبھی جو آدمی مارے گئے تھے ان پر تیر کہاں سے چھوڑے گئے تھے، تیر انداز کسی ڈھکی چھپی جگہ ہی چھپے ہوئے ہونگے ۔ زبیر بن الّعوام کو کچھ ممکنہ جگہ نظر آئیں، وہ اتنا جانتے تھے کے تیر اندازوں کو پکڑنے کے لئے ایک دو آدمی قربان کرنے پڑیں گے۔
زبیر وہاں تک چلے گئے جہاں تک عام سیاح نہ جاسکے ہونگے، اس طرح وہ ایک دن پہلے جہاں تک اس کھنڈر کو دیکھ سکتے تھے دیکھا آئے تھے، لیکن انہوں نے وہ دہانہ یا دروازہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی تھی جس کے آگے ابھی تک کی عبادت ہوتی تھی، یہ اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ انھیں کوئی دیکھ رہا ہے وہ اپنے خلاف کوئی شک پیدا نہیں کرنا چاہتے تھے۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
آدھی رات ہونے کو آئی تھی جب سالار زبیر بن العّوام دس آدمیوں کی جماعت کے ساتھ کھنڈرات کے قریب پہنچ چکے تھے، وہ ابھی اس وسیع وعریض میدانی علاقے میں تھے جس کے آگے کچھ چٹانیں آجاتی تھیں اور ان چٹانوں کے درمیان یا ساتھ ہی سرابیوم کے کھنڈرات تھے۔ چاند اس سے کچھ پہلے افق سے خاصا اوپر آ گیا تھا اور چاند تقریباً پورا تھا اس کی چاندنی بڑی ہی شفاف تھی۔
 نظر خاصی دور تک کام کرتی تھی زبیر اپنی جماعت کو آخری بار ضروری ہدایات دیتے جارہے تھے وہ پیدل گئے تھے انہیں دور سے سرپٹ دوڑتے گھوڑے کی ٹاپ سنائی دی جو ابھی مدہم تھی تھوڑی دیر بعد گھوڑا اور اس کا سوار نظر آنے لگے، اگر وہ سوار زیادہ ہوتے تو سالار زبیر اور ان کی جماعت تلوار نکال کر مقابلے کے لیے تیار ہوجاتی لیکن وہ گھوڑا اور اس کا سوار اکیلا تھا قریب پہنچا تو اس نے گھوڑے کی لگام اتنی زور سے کھینچی کے گھوڑے نے چاروں سُم زمین میں گاڑ دیئے اور چند قدم آگے آکر رکا۔
 سوار کود کر اترا اور سالار زبیر کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
 سالار نے پوچھا کہ وہ کون ہے؟ 
میں ایلی کو ڈھونڈنے آیا ہوں۔۔۔ اس نے تیز تیز بولتے ہوئے جواب دیا۔۔۔ پوچھتے ہو میں کون ہوں ۔۔۔میں ایلی کا سب کچھ ہوں اور ایلی میرے لیے سب کچھ ہے، ہم دونوں ایک دوسرے کے بغیر خالی اور کھوکھلے جسم بن جاتے ہیں، مجھے اپنے ساتھ لے چلو ، ایلی اگر ان کھنڈروں میں ہے تو میں اسے یہاں سے نکالنے کے لیے اپنی جان پر کھیل جاؤں گا۔
ایلی اس لڑکی کا نام تھا جسے یہ سب ڈھونڈنے اور اپنے ساتھ لانے کے لیے جارہے تھے۔
 اور یہ گھوڑ سوار ایک نوجوان قبطی عیسائی تھا ۔اس نے بڑے ہی جذباتی لہجے اور انداز میں بتایا کہ ایلی اسے چاہتی تھی اور وہ ایلی کی محبت میں دیوانہ ہو چکا تھا ۔ اسے ایلی کے دادا نے اسی شام بتایا تھا کہ ایلی لاپتہ ہے اور یہ بھی بتایا کہ آج مجاہدین رات سرابیوم کے کھنڈروں میں جارہے ہیں۔
 اس نوجوان کو معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں سے سراغ لگائے کہ ان کھنڈروں میں جانے والے کون ہیں، اور وہ کس وقت روانہ ہو رہے ہیں ،وہ بھاگتا دوڑتا رہا اور کچھ ہی دیر پہلے کسی نے بتایا کہ ایک مسلمان سالار کے ساتھ دس آدمی شہر سے نکلے ہیں اس نوجوان نے اپنے آپ کو یقین دلایا کہ یہ وہی لوگ ہیں جو اس کی محبوبہ ایلی کو ڈھونڈنے جا رہے ہیں۔ اس نے باپ کے گھوڑے پر زین ڈالی اور نکل کھڑا ہوا ، شہر کا صرف ایک دروازہ تھا جس سے رات کو انتہائی مجبوری کے تحت کسی کو باہر جانے دیا جاتا تھا ۔ اس نوجوان نے باہر کی یہ وجہ بتائی کہ اسے اس جماعت کے ساتھ شامل ہونا ہے جو ایک سالار کے ساتھ گئی ہے ۔ سالار کے نام سے اس کے لئے دروازہ کھل گیا اور وہ گھوڑاسرپٹ دوڑاتا سالار زبیر کے پاس جا پہنچا۔
اس نے سالار زبیر کو بتایا کہ ان کی محبت کا ایلی کے دادا کو اچھی طرح علم تھا ۔ دادا ایلی کو کسی اور سے ملنے نہیں دیتا تھا اور ایلی اتنی معصوم فطرت تھی کہ وہ کسی اور کی طرف دیکھتی بھی نہیں تھی، اس نوجوان نے جذبات سے مغلوب ہوکر رومانی سی باتیں شروع کر دیں کہ ان کی ملاقاتیں کیسی ہوتی تھی اور ایلی کس طرح باتیں کرتی تھی ، اس نے یہ بھی بتایا کہ ایلی نے اس کے ساتھ شادی کا وعدہ اس شرط پر کیا تھا کہ وہ اپنے دادا سے الگ نہیں ہوگی بلکہ اس نوجوان کو اس کے گھر میں رہنا پڑے گا۔
سالار زبیر بن العّوام نے اسے کہا کہ جس مہم پر جا رہے ہیں وہ اس کے بس کی بات نہیں، ایسا نہ ہو کہ وہ جذباتی ہوکر کوئی ایسی حرکت کر بیٹھے کہ مہم سر ہوتے ہوتے ناکام ہو جائے اور پوری جماعت ہلاکت میں پڑ جائے، لیکن یہ نوجوان ایسا ضدی نکلا کہ اس نے منتیں شروع کر دیں اور کہا کہ وہ ان کے ساتھ نہ گیا تو یہ ایلی سے اس کی بے وفائی ہوگی ۔ آخر اسے ساتھ لے لیا گیا اور سالار زبیر نے اسے کچھ ہدایت دیں اور کہا کہ وہ ان کے ساتھ رہے اور بالکل الگ نہ ہو۔
جانبازوں کی اس جماعت میں چار مجاہدین کے پاس تلواروں کے علاوہ کمانیں تھیں، اور ایک ایک تیرکش تیروں سے بھری ہوئی بھی تھیں، باقی سب کے پاس تلواریں تھیں اور دو کے پاس تلواروں کے علاوہ برچھیاں بھی تھیں، ان کے پاس چار پانچ مشعلیں بھی تھیں، لیکن انہیں بوقت ضرورت سالار کے کہنے پر جلانا تھا۔
 سالار زبیر کو امید تھی کہ اتنے روشن چاند کی چاندنی گری اور جھکی ہوئی چھتوں اور گری ہوئی دیواروں سے کھنڈر کے اندر جاتی ہوگی اور یہ روشنی کافی ہوگی۔ ان کا ارادہ یہ تھا کہ یہ مہم مشعلوں کی روشنی کے بغیر سر کی جائے ۔
آگے چل پڑے لیکن اس نوجوان کے پاس گھوڑا تھا جسے آگے نہیں لے جانا تھا۔ کچھ آگے جہاں سے چٹانیں شروع ہوتی تھیں وہاں درخت بھی تھے گھوڑا ایک درخت کے ساتھ باندھ دیا گیا اور یہ جماعت آگے چلی گئی۔
 اور جب کھنڈرات میں داخل ہونے لگی تو سالار زبیر رک گئے۔
آخری بات سن لو ۔۔۔سالار زبیر نے کہا۔۔۔ یہ ذہن میں رکھ کر ان کھنڈرات میں داخل ہونا کے انہیں کسی کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں جنہیں ہم نہیں دیکھ سکتے ، یہ بھی سوچ لو کہ ہم میں کچھ ایسے بھی ہونگے جو زندہ واپس نہیں جا سکیں گے، اللہ کا نام لو اور آگے بڑھو۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
کھنڈرات میں داخل ہوئے دونوں گائیڈ آگے آگے تھے ۔ سالار زبیر بن العّوام نے ایک روز پہلے اندر جاکر راستے دیکھ لیے تھے ،گائیڈ انہیں کسی اور طرف لے جارہے تھے ،سالار نے بڑی دھیمی آواز میں کہا کہ اب تیر انداز ایک ایک تیر کمانوں میں ڈالل لیں اور دوسرے اپنی تلوار نکال لیں۔
 چاندنی اندر آ تو رہی تھی لیکن بعض راہداریاں بالکل تاریک تھیں اندر خاموشی طاری تھی اس ہیبت ناک خاموشی کو ایک الّو کی آواز نے توڑا الّو تین بار بولا ایسے بھیانک کھنڈروں میں الو ہی بول سکتا تھا۔
 یہ الو کی آواز ہے۔۔۔ سالار زبیر بن العّوام نے کہا۔۔۔ لیکن یہ کسی انسان کے منہ سے نکلی ہوئی آواز بھی ہو سکتی ہے۔ اس عبادت گاہ کے چوکیدار نے آلو کی طرح بول کر اپنے سوئے ہوئے ساتھیوں کو خبردار کیا ہوگا۔
راہداریوں کے چند ایک موڑ مڑ چکے تو ایک کھلا راستہ آ گیا، اچانک یوں ہوا جیسے بڑی ہی تیز آندھی آ گئی ہو اور اس کے ساتھ ہلکی ہلکی چیخیں سنائی دینے لگی ،گائیڈ فوراً بیٹھ گئے اور باقی سب سے کہا کہ وہ بھی بیٹھ جائیں ۔ ایسا لگتا تھا جیسے ہوا کے تیز جھونکے سر کے اوپر سے گزر رہے ہوں۔ یہ کوے جتنے بڑے بلکہ اس سے بھی بڑے پروں والے چمگادڑ تھے جو چھتوں کے ساتھ الٹے لٹکے رہتے تھے ان کے دنیا میں ذرا سی بھی مداخلت ہو تو یہ اسی طرح سیکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں اڑ جاتے ہیں اور سب کا رخ ایک ہی طرف ہوتا ہے۔
یہ طوفان باہر نکل گیا تو جانبازوں کی یہ جماعت اٹھ کر آگے کو چلی، اس کھنڈر کا صحن تھا ہی نہیں چھتیں ہیں چھپیں تھیں، دو تین کشادہ کمروں اور برآمدوں میں سے گزرے تو ایک گری ہوئی چھت سے چاندنی آرہی تھی اور اندر کا سارا منظر نظر آرہا تھا۔ ایک طرف سیڑھیاں تھیں سالار زبیر نے ان سیڑھیوں کو پہچان لیا اور اپنی جماعت کے اس آدمی کو سیڑھیوں پر چڑھ جانے کو کہا جسے وہ پہلے بتا چکے تھے کہ اوپر جا کر کہاں جانا ہے اور کیا کرنا ہے یہ جانباز مجاہد تیر انداز تھا۔
اسی طرح دو اور سیڑھیوں سے سالار زبیر نے دو جانبازوں کو اوپر بھیج دیا انہیں خبردار کردیا گیا تھا کہ چھتیں کچھ تو گری ہوئی ہیں اور کچھ ویسے ہی جھک گئی ہیں ان سے خبردار رہیں ورنہ نیچے آپ پڑیں گے۔
کبھی تو یوں چیخ نما آواز آتی تھی جیسے چڑیلیں چینخ اٹھی ہوں، قدم گھسیٹنے کی بھی کہیں سے آواز آتی تھی اور یوں لگتا تھا جیسے مرے ہوئے گنہگاروں کی بدروحیں اس ہیبت ناک ویرانے میں گھوم پھر رہی ہوں، لگتا یوں تھا جیسے یہ بد روحیں کسی نہ کسی روپ میں نظر آ جائیں گی لیکن وہاں ملبے کے ڈھیروں کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ آخر جانبازوں کی یہ جماعت اس ہال میں جا پہنچی جہاں ایک دیوار کے ساتھ سٹیج سا چبوترا بنا ہوا تھا، یہ اس ہال کے نصف چوڑائی جتنا لمبا تھا اس کے دونوں طرف اس کے آگے بھی ملبہ پڑا ہوا تھا۔
دونوں گائیڈ آگے چلے گئے اور ملبے کے ایک ڈھیر پر جا چڑھے ان دونوں میں سے ایک کی ہلکی سی چیخ سنائی دی دوسرا دوڑتا ہوا ملبے کے ڈھیر سے نیچے آگیا، کسی طرف سے چاندنی کی کرنیں اندر آ رہی تھی اس کے ساتھ ہی اوپر سے کسی کے گرنے کا دھماکہ سنائی دیا۔ یہ کوئی آدمی ہی ہوسکتا تھا ،چاندنی کی روشنی کافی نہیں تھی
سالار زبیر نے کہا کہ فوراً مشعل جلا لو۔
 مشال والے ایک مجاہد نے مشعل جلا دی۔ پہلے اپنے گائیڈ کو دیکھا جو گرا پڑا تھا ۔
پھر اس کی گردن کی ایک طرف سے تیر داخل ہوا اور دوسری طرف سے تھوڑا سا باہر آ گیا تھا ۔ گائیڈ تڑپ رہا تھا ۔
سالار زبیر نے دیکھا کہ تیر کی سامنے والی نوک باہر نکل آئی ہے تو انہوں نے دوسری طرف کے تیر توڑ دیا اور نوک والی طرف سے پکڑ کر کھینچا اور تیر باہر نکل آیا لیکن گائیڈ کے بچنے کی کوئی امید نہیں تھی، خون کا فوارہ پھوٹ رہا تھا یقینا شہ رگ کٹ گئی تھی۔
ایک جانباز مجاہد نے سالار کے کہے بغیر غیر ہی دوسری مشعل جلا لی اور اس طرف گیا جہاں کسی کے گرنے کی دھمک سنائی دی تھی۔ وہ کوئی آدمی تھا ان کے لئے اجنبی تھا اس کی پیٹ میں تیر اترا ہوا تھا اور اتنا اندر چلا گیا تھا جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ تیر قریب سے چلایا گیا ہے ،یہ آدمی بھی ابھی زندہ تھا اور تڑپ رہا تھا اسے بھی مرنا تھا۔ سالار زبیر نے اپنی تلوار کی نوک اس کے دل کے مقام پر رکھ دی اور پوچھا کہ وہ کون ہے وہ اٹھنے کے قابل نہیں تھا۔
نہیں بتاؤں گا۔۔۔ تیر کھائے ہوئے زخمی نے کہا۔۔۔ تلوار میرے سینے میں اتار دو مجھے تو اب مرنا ہی ہے اپنے دیوتاؤں کو ناراض کرکے نہیں مرنا چاہتا۔
 سالار زبیر سمجھ گئے کہ اس شخص سے کچھ معلوم کرنا ممکن نہیں۔
بات بالکل صاف تھی گائیڈ اس جگہ تک پہنچ گئے تھے جہاں سے راستہ خفیہ عبادت گاہ تک جاتا تھا یہ شخص کسی چھت پر بیٹھا دیکھ رہا تھا اس نے اوپر سے تیر چلایا اور ایک گائیڈ کو نشانہ بنا لیا، اس نے اب دوسرے گائیڈ کو مارنا تھا لیکن زبیر بن العّوام نے پہلے ہی اس کا انتظام کر رکھا تھا انتظام یہ تھا کہ انھوں نے اپنے جانباز اوپر بھیج دیے تھے۔
سالار زبیر نے پہلے سنا تھا کہ دو آدمی جنھیں ہرقل اور بعد میں قسطنطین نے بھیجا تھا اسی طرح تیروں سے مرے تھے ۔ سالار زبیر نے سوچ لیا تھا کہ یہ تیر اوپر سے ہی آتے ہونگے۔ ایک روز پہلے انہوں نے اوپر جا کر دیکھ لیا تھا کہ کس جگہ سے تیر انداز نیچے کسی کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
 انہوں نے ایک ایک جانبازوں کو ان جگہوں سے ذرا دور بھیج دیے تھے ،اور انہیں بتا دیا تھا کہ وہ کیا کریں گے ۔
عبادت گاہ کے آدمی نے اوپر سے تیر چلایا اور ایک گائیڈ کو نشانہ بنا لیا ،اور اوپر بیٹھے ہوئے جانباز نے اس آدمی کو تیر کا نشانہ بنایا اور وہ آدمی تیر کھا کر نیچے جا پڑا۔
اوپر سے ایسی آوازیں آنے لگیں جیسے دو تین آدمی آپس میں لڑ رہے ہوں یہ آوازیں کوئی عجیب نہیں تھیں البتہ یہ ڈر آتا تھا کہ یہ جنات یا چڑیلوں جیسی کوئی مخلوق بھی ہو سکتی ہے ۔اگر ایسا تھا تو جانباز مجاہدین کی موت یقینی تھی، زبیر بن العّوام نے کہا کہ اوپر اپنے آدمیوں کی مدد کو پہنچا جائے لیکن وہ جگہ ایسی تھی جہاں تیز نہیں دوڑا جاسکتا تھا ،اور سیڑھیاں بھی تیزی سے نہیں چڑھی جا سکتی تھیں، پھر اوپر جاکر تیز چلنا اور اپنے ساتھی تک پہنچنا بلکل ہی ممکن نہیں تھا کیونکہ گری اور جھکی ہوئی چھتوں سے گرنا یقینی تھا ان مجاہدین کو جو اوپر بھیجے گئے تھے اللہ کے حوالے کر دیا گیا ۔
سالار زبیر نے دوسرے گائیڈ سے کہا کہ اب اوپر خطرہ کم ہو گیا ہے اور انھیں اس جگہ لے چلے جہاں خفیہ عبادت گاہ میں داخل ہوا جاسکتا ہے۔
گائیڈ ایک بار پھر ملبے کے ڈھیر پر جا چڑھا اور دوسری طرف اتر گیا اتنے میں گری ہوئی چھت میں سے دو آدمی نیچے آ پڑے۔
 جا کر دیکھا تو ایک مجاہد تھا اور دوسرا کوئی اور تھا۔
چھت بہت اونچی تھی۔ دونوں زخمی تھے ان کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں ظاہر تھا کہ انہوں نے لڑتے ہوئے ایک دوسرے کو زخمی کیا تھا۔ اتنی بلندی سے گرے تو دونوں بے ہوش ہوگئے صاف پتہ چلتا رہا تھا کہ دونوں اس بے ہوشی میں ہی اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے۔
گائیڈ نے ذرا دھیمی آواز میں سالار زبیر کو پکارا سالار زبیر فوراً پہنچے اور ملبے کے ڈھیر پر چڑھ کر دوسری طرف اتر گئے۔
 وہ تو دن کو بھی یہاں آئے تھے لیکن اس طرف نہ گئے ان کا خیال تھا کہ یہ ملبہ دیوار تک گیا ہوا ہے اور وہاں ملبے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا ۔ لیکن وہاں دیوار اس طرح ٹوٹی ہوئی تھی یا توڑی گئی تھی جس طرح ڈاکو دیوار میں نقب لگایا کرتے ہیں، یہ شگاف اتنا اونچا اور چوڑا تھا کہ ایک آدمی ذرا جھک کر اس کے اندر جاسکتا تھا ۔ زبیر اس شگاف میں داخل ہونے لگے تو ایک آواز نے ان کے قدم روک دئے 
 یہیں سے واپس چلے جاؤ۔۔۔ شگاف میں سے آواز گونجی۔۔۔۔ آگے بڑھو گے تو تمہاری بادشاہی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گی۔ اور یہی انجام تمہارے خاندان کا ہوگا۔
یہ بھاری اور گرجدار آواز کچھ دیر کھنڈرات میں بھٹکتی رہی اور اس کی گونج آہستہ آہستہ مدہم ہوتی ختم ہوگئی۔
 سالار زبیر نے پیچھے ہٹنے کی بجائے قدم آگے بڑھائے اور جانبازوں سے کہا کہ ان کے پیچھے آئیں۔
 ہرقل کا انجام یاد کرو۔۔۔ آواز پھر گونجی۔۔۔ روم کی سلطنت کی تباہی سے عبرت حاصل کرو۔
زبیر اپنے جانبازو کے ساتھ آگے بڑھتے گئے یہ ایک سرنگ سی تھی جو شکاف سے زیادہ اونچی اور چوڑی تھی، دو تین قدم ہی آگے گئے ہونگے تو آواز پھر بلند ہوئی۔۔۔۔ ہم یہاں سے نہیں اگلے جہان سے بول رہے ہیں ۔۔۔۔پہلے جیسی آواز گرجی۔۔۔ ابھی وقت ہے دو قدم اور آگے بڑھائے تو زندہ واپس نہیں آ سکو گے ۔
سالار زبیر نے اپنے جانبازوں سے کہا کہ وہ سرنگ میں ہی ٹھہریں اور خود واپس آئے اور شگاف میں سے باہر نکلے۔
 اگر تم زندہ رہنا چاہتے ہو تو میرے سامنے آ جاؤ ۔۔۔زبیر بن العّوام نے بلند آواز سے کہا۔۔۔ تم زندہ رہو گے۔ ہماری بادشاہی نہیں ، بادشاہی اللہ کی ہے جسے کوئی انسان تباہ نہیں کرسکتا، ہم گنہگاروں کو اللہ کا راستہ دکھانے آئے ہیں ، عبادت صرف اللہ کی ہی کی جاتی ہے، اگر میرے سامنے خود ہی نہیں آ جاؤ گے تو زندہ نہیں رہ سکو گے۔
سالار زبیر تھوڑی دیر جواب کا انتظار کرتے رہے لیکن انھیں کوئی جواب نہ ملا وہ پھر شگاف کے اندر چلے گئے ایک مجاہد نے جلتی ہوئی مشعل اٹھا رکھی تھی۔
 یہ سرنگ ختم ہوئی تو آگے راستہ بند تھا اور دو راستے نکلتے تھے ایک دائیں اور ایک بائیں کو ، بائیں طرف دیکھا تو یہ بھی سرنگ سی ہی تھی اور کچھ لمبی بھی تھی اس کے اگلے سرے پر جہاں یہ ختم ہوتی تھی ہلکی ہلکی روشنی نظر آرہی تھی سالار زبیر اس طرف مڑ گئے۔
 جانبازوں گھبرانا نہیں۔۔۔ سالار زبیر نے اپنی جماعت سے کہا۔۔۔ اندر کوئی فوج نہیں ہوگی اللہ کو اپنے ساتھ سمجھو ہم کسی کا خزانہ لوٹنے نہیں آئے ، ہم یہاں اللہ کا یہ فرمان پہنچانے آئے ہیں کہ عبادت کے لائق صرف اللہ ہے۔
اس سرنگ سے نکلے تو سامنے ایک کشادہ کمرہ تھا جس کے ایک کونے میں چھوٹا سا فانوس جل رہا تھا۔ کمرے میں چار پانچ اچھی قسم کے پلنگ رکھے تھے ۔کمرے کے وسط میں ایک بوڑھا آدمی جو لمبے چوغے میں ملبوس تھا اور سر پر مصری ٹوپی اور ٹوپی پر رومال پڑا ہوا تھا ،کھڑا اس طرف دیکھ رہا تھا جس طرف سے زبیر اور ان کے جانباز داخل ہوئے تھے۔
 اس کے پیچھے چار پانچ آدمی ہاتھوں میں تلواریں لیے کھڑے تھے۔
یہ شخص بہت ہی بوڑھا لیکن جوانوں کی طرح سیدھا کھڑا تھا اس کے جسم میں ذراسا جھکاؤ نہیں تھا ۔ سالار زبیر بن العّوام نے اپنے جانبازوں کو ابھی سامنے نہیں آنے دیا تھا وہ اکیلے ہی سرنگ سے نکل کر رک گئے تھے۔ یہاں مرنے کے لئے آئے ہو۔۔۔ بوڑھے نے کہا۔۔۔ ہم تمہاری یہ خواہش پوری کر سکتی ہیں ۔ لیکن اس عمر میں مجھے اس گناہ سے بچا لو تو یہ تمہاری بہت بڑی نیکی ہو گی، 
 میں کسی کا خون بہانا بہت بڑا گناہ سمجھتا ہوں۔
کسی کا خون بہانے کا گناہ میں بھی نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔سالار زبیر بن العوام نے کہا۔۔۔ میں سمجھ گیا ہوں کہ تم اس عبادت گاہ کے راہب ہو، میں تمہیں بتانے آیا ہوں کہ صرف اللہ کی عبادت کی جاتی ہے اور تمہاری یہ عبادت محض باطل ہے، یہ بند کرو اور ہمارے ساتھ چلے چلو، تمہیں پورے احترام کے ساتھ رکھا جائے گا۔
اے نادان انسان!،،،، بوڑھے راہب نے کہا۔۔۔ تو ہرقل سے بڑھ کر طاقتور نہیں تو یہاں تک آ گیا ہے ، ہرقل کے آدمی اس راستے کے منہ پر ہی پہنچے تھے کہ تیر ان کے جسموں میں اتر گئے، پھر سلطنت روم جس انجام کو پہنچی وہ تو نے دیکھا ہے، پھر ہرقل کو ہم نے اس دنیا سے ہی اٹھا دیا ، میں تیری جان بخشی کرتا ہوں اور تیری جرات کی تعریف کرتا ہوں کہ تو یہاں تک آگیا، واپس چلا جا ورنہ میرے یہ آدمی تیرے جسم کو کئی حصوں میں کاٹ کر انہیں کھنڈروں میں گم کر دیں گے ۔
لڑکی میرے حوالے کر دو ۔۔۔سالار زبیر نے کہا۔۔۔ پھر اپنے آپ کو بھی میرے حوالے کر دو۔
بوڑھے راہب کو شاید غلط فہمی تھی کے سالار زبیر اکیلے آئے ہیں، اس نے کوئی اور بات نہ کی اپنے پاس کھڑے چار آدمیوں کی طرف دیکھ کر سر سے ہلکا سا اشارہ کیا چاروں آدمی تلواریں سونت کر زبیر بن العوام کی طرف بڑی تیزی سے آئے زبیر ان کے مقابلے کے لئے آگے بڑھے۔
ان چار آدمیوں نے سالار زبیر کو گھیر لیا اور اس وقت اچانک تمام جانباز مجاہدین سرنگ سے نکلے اور ان آدمیوں پر ٹوٹ پڑے ،ان جانبازوں کے ساتھ ایک گائیڈ اور دوسرا وہ نوجوان بھی تھا جو گم شدہ لڑکی کو تلاش کرنے آیا تھا اور اس لڑکی کو دل و جان سے چاہتا تھا ۔
ٹھہر جاؤ!،،،، بوڑھے راہب نے بلند آواز سے کہا۔
اس کی کسی نے نہ سنی اس کے چاروں آدمی مجاہدین کی تلواروں سے کٹ کر گر چکے تھے اور سالار زبیر کی تلوار کی نوک اس راہب کے پہلو کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ زبیر اسے کہہ رہے تھے کہ لڑکی ان کے حوالے کر دو۔ 
راہب حیرت زدگی اور غم زدگی کے کیفیت میں بت بنا کھڑا رہا اس نے جیسے سالار زبیر کی بات سنی ہی نہ تھی ۔
میں یہاں ہوں۔۔۔ ایک لڑکی کی چیخ نما آواز سنائی دی۔
سب نے ادھر دیکھا پندرہ سولہ سال عمر کی بڑی خوبصورت لڑکی ایک دروازے سے نکل رہی تھی، اسے کوئی بھی نہیں پہچانتا تھا، ایلی کی تلاش میں آنے والے نوجوان نے اسے دیکھا تو دوڑ کر اس تک پہنچا اور اسے اپنے بازوؤں میں لے کر اپنے ساتھ بھیج لیا ۔ لڑکی کے بازو بھی اس کے گرد لپٹ گئے گمشدہ لڑکی مل گئی تھی۔
سالار زبیر دو تین جانبازوں کو ساتھ لے کر اس دروازے میں داخل ہوئے جس سے لڑکی باہر آئی تھی دروازے کے کواڑ تھے ہی نہیں دیمک نے کھا لئے ہونگے ،وہ بھی ایک کمرہ تھا جس میں ایک پلنگ کے قریب گائے کا بچھڑا بندھا ہوا تھا، یہ ابھی چھوٹا تھا ، وہ اس قدر دھلا دھلایا تھا کہ اس کے بال مشعلوں کی روشنی میں چمک رہے تھے۔ بڑا ہی پیارا لگتا تھا۔
بات بالکل صاف تھی اس بچھڑے کو اور اس لڑکی ایلی کو ایبس بچھڑے کے نام پر قربان کرنا تھا، جوزف کا شک صحیح نکلا اس کمرے کی تلاشی لینے لگے تو پلنگ کے نیچے سے ایک آدمی چھپا ہوا برآمد ہوا اس نے اپنے ساتھیوں کو لہولہان ہوکر گرتے دیکھ لیا ہو گا اور پلنگ کے نیچے جا چھپا۔
اسے ساتھ لے کر اس کمرے سے نکلے اور اس کمرے میں گئے جہاں اب خون بہہ رہا تھا اور لاشیں پڑی تھیں ان لاشوں سے ذرا ہٹ کر بوڑھا راہب پیٹھ کے بل فرش پر پڑا تھا ایک تلوار اس کے سینے سے ذرا نیچے جسم میں اتری ہوئی تھی، بوڑھا تلوار کو اپنے جسم سے نکالنے کی ذرا سی بھی کوشش نہیں کر رہا تھا۔
 اسے کس نے مارا ہے۔۔۔ زبیر بن العوام نے بڑے غصے میں اپنے جانبازو سے پوچھا۔۔۔ تمہیں کس نے حکم دیا تھا کہ اسے مار ڈالو۔
مجاہدین حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ،آخر ایک مجاہد نے بتایا کہ اس راہب نے اپنے ایک آدمی کی گری ہوئی تلوار اٹھا لی تھی لگتا تھا کہ وہ مجاہدین کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے ،لیکن اس نے تلوار کا دستہ دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر تلوار کی نوک اپنے سینے پر رکھی اور بڑی زور سے دباؤ ڈال کر تلوار اپنے جسم میں اتار لی اس نے خود کشی کی تھی ۔
سالار زبیر بن العوام نے دور سے ہی دیکھ لیا تھا کہ بوڑھا ابھی زندہ ہے وہ دوڑتے پہنچے اور اس کے پیٹ اور سینے کے درمیان اتری ہوئی تلوار نکال لی لیکن اس کا زندہ رہنا ممکن نہیں تھا۔ تلوار پیٹھ تک چلی گئی تھی، جسم کے اس حصے میں تلوار اتر جائے تو یہ زخم موت کا باعث تو ضرور ہی بنتا ہے لیکن مرتے مرتے بعض اوقات ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ سالار زبیر نے راہب کو بٹھا لیا اور پوچھا کہ اس نے خود کشی کیوں کی ہے۔
میں کسی کے ہاتھوں گرفتار نہیں ہونا چاہتا۔۔۔ بوڑھے راہب نے کہا ۔۔۔میری عبادت گاہ نہیں رہی میرا مذہب تم نے پراگندہ کر دیا ہے تو میں اب جی کے کیا کروں گا، میں جانتا ہوں تم مسلمان ہو اور تمہارے مذہب سے بھی کچھ واقفیت حاصل کر لی ہے ، لیکن مجھے یہ نہ کہنا کہ میرا مذہب باطل تھا۔ میں نے نوے برس اس عبادت گاہ میں عبادت کی بھی ہے اور کروائی بھی ہے۔
صرف ایک بات بتا دو۔۔۔سالار زبیر نے پوچھا۔۔۔ کیا میرا یا میری قوم کا ، یا میری قوم کی حکومت کا انجام واقعی برا ہوگا ،کیا ہرقل کو اس لئے شکست پر شکست ہوئی تھی کہ اس نے تمہارے مذہب اور تمہاری عبادت گاہ میں مداخلت کی تھی۔
 ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے۔۔۔ راہب نے درد کی شدت پر قابو پاتے ہوئے کہا۔۔۔ تم ہرقل کی طرح ڈرے نہیں اس لیے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ تمہارا انجام شاید برا نہ ہو ، تم نے اپنے دل میں ایک یقین پختہ کر رکھا ہے اور اس یقین یا عقیدے کے ساتھ تمہاری روحانی وابستگی اور وفاداری ہے ، جس شخص میں یہ خوبی ہوتی ہے وہ کبھی بُرے انجام کو نہیں پہنچتا۔
زبیر بن العوام اس سے کچھ اور ضروری باتیں پوچھنا چاہتے تھے اور راہب مر رہا تھا ،اس لیے انہوں نے یہ پوچھا کہ اس لڑکی کو کیوں اغوا کیا گیا تھا اس نے وہی بات بتائی جو جوزف سپہ سالار عمرو بن عاص کو بتا چکا تھا۔ 
 اس نے یہ بچھڑا ایک دو مہینے پہلے خریدا تھا اور پھر اپنے آدمی شہر میں اپنے مطلب کی لڑکی کو دیکھنے کے لئے بھیجے ،اتفاق سے ان کی نظر ایلی پر پڑی تو اسے کچھ ورغلا کر اور کچھ دھوکہ دے کر باہر لائے اور کوئی دوائی اس کی ناک کے آگے رکھ کر اسے بے ہوش کیا اور اٹھا لائے۔
سالار زبیر نے اس سے پوچھا کہ لڑکی کا وہ قربانی سے پہلے کیا بناتے ہیں ،اور اس کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں،،،،،، 
 راہب نے کہا کہ کسی ایسی غلط بات کو دل میں جگہ نہ دینا کہ لڑکی کو کسی غلط یا بیہودہ مقصد کے لئے رکھا جاتا ہے، انہیں قربانی کے لئے کنواری اور معصوم لڑکی درکار ہوتی ہے جو اس کے چہرے سے ظاہر ہو جاتا ہے، پھر یہاں لڑکی کو اس طرح پاک اور صاف ستھرا رکھا جاتا ہے جیسے یہ آسمان سے اتری ہو،،،،،، بعد میں اس لڑکی نے بھی بتایا تھا کہ اسے کچھ پلاتے تھے جس سے وہ بیدار تو رہتی تھی لیکن اسے یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ وہ قید میں ہے ، رات کو اس کی آنکھ کھل جاتی تب اسے قید کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اسے اتنا زیادہ ڈرا کر رکھا گیا تھا کہ وہ فرار کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی، پھر اسے یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے اور یہاں سے نکل بھاگنے کا راستہ کونسا ہے۔
تھوڑی ہی دیر بعد راہب مرگیا سالار زبیر بن العوام ان سب کی لاشیں وہیں چھوڑ کر اور لڑکی اور بچھڑے کو ساتھ لے کر وہاں سے واپس آگئے، پلنگ کے نیچے سے جو آدمی نکالا گیا تھا اسے بھی قتل کردیا گیا۔
 بالائی منزل میں ایک جانباز مجاہد کا سامنا ایک تیر انداز سے ہو گیا تھا یہ مجاہد زخمی تھا لیکن اس نے تیر انداز کو مار ڈالا تھا، ایک تو تیر سے گرا دیا گیا تھا۔
جانباز مجاہدین کی یہ جماعت رات کے پچھلے پہر واپس بابلیون پہنچی ، فجر کی نماز کے وقت سالار زبیر نے سپہ سالار عمرو بن عاص کو بتایا کہ وہ لڑکی کو ڈھونڈ کر لے آئے ہیں اور پھر انہیں سارا واقعہ سنایا صبح ہوتے ہی لڑکی کے دادا کو بلا کر لڑکی اس کے حوالے کردی گئی۔ اسے یہ بتایا گیا کہ اس کی پوتی کو ڈھونڈ لانے کے لیے دو آدمی قربان کیے گئے ہیں۔ یہ بوڑھا آدمی اس قدر متاثر ہوا کہ ہر کسی کو یہ واقعہ سناتا پھر رہا تھا۔
 شام تک سارے شہر میں یہ واقعہ مشہور ہو گیا اور اگلے روز کئی ایک عیسائی اسلام قبول کرنے کے لئے آ گئے۔ وہ کہتے تھے کہ ایسی قوم پہلی بار دیکھی ہے جس کے یہاں انسانی ہمدردی اور انصاف ہے۔
 سپہ سالار عمرو بن عاص نے حکم دیا کے سرابیوم کے کھنڈرات ویسے ہی رہنے دیے جائیں جیسے ہیں۔ ان کی اہمیت تاریخی نوعیت کی ہے لیکن اس کا عبادت گاہ والا حصہ مسمار کردیا جائے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
ادھر بابلیون میں مجاہدین اسلام فتح و نصرت سے سرشار اپنے قدم جما چکے تھے ،اور اسکندریہ کی طرف پیش قدمی کے لیے جوش و خروش سے تیار ہو رہے تھے، صرف بابلیون کا ہی نہیں بلکہ تمام مفتوحہ علاقوں کا نظم و نسق اور انتظامیہ کا سلسلہ رواں کرچکے تھے، سب سے بڑی کامیابی تو یہ تھی کہ سپہ سالار عمرو بن عاص کے تدبر نے قطبی عیسائیوں کے ذہنوں سے بغاوت کا خیال نکال دیا تھا اور ایسے اقدامات کئے تھے کہ ان کے دل موہ لئے تھے۔ تمام مجاہدین اسلام نے وہاں کے لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک اور رویہ روا رکھا تھا کہ مسلم اور غیر مسلم کے درمیان بیگانگی اور غیرت کا نام و نشان نہیں رہا تھا۔ ابلیس رقص کر رہا تھا ۔ ہرقل مر چکا تھا۔ ایک وہ تھا جسے سلطنت روم کا غم کھاتا رہتا تھا، اور جس نے ساری دنیا کو فتح کرنے کے خواب دیکھے تھے، یا اب اس کا بیٹا قسطنطین تھا جس کا خون ہر وقت کھولتا رہتا تھا اور اس پر غصے کی کیفیت طاری رہنے لگی تھی۔
پیچھے اس کی تفصیل گزر چکی ہے کہ رومی فوج کے جرنیل اور حکومت کے حاکم دو حصوں میں بٹ گئے تھے، کچھ قسطنطین کے حامی اور کچھ اس کی سوتیلی ماں مرتینا کے حامی بن گئے تھے۔
پہلے بتایا جا چکا ہے کہ ملکہ مرتینا اپنے بیٹے ہرقلیوناس کو ہرقل کی جگہ تخت نشین کرانا چاہتی تھی، لیکن تخت و تاج کا صحیح وارث قسطنطین تھا وہ بڑا بھی تھا اور منجھا ہوا جرنیل بھی تھا اور حکومت کے مسائل اور امور کو بھی سمجھتا تھا۔
 اس کے مقابلے میں ملکہ مرتینا کا بیٹا ہرقلیوناس صرف شہزادہ تھا، نہ اس نے کبھی میدان جنگ دیکھا ،نہ کاروبار سلطنت سے آشنا تھا۔ 
ملکہ مرتینا حسین تو تھی ہی، لیکن عیاری اور مکاری کے لحاظ سے جادو گرنی تھی، پتھر دل آدمی کو بھی موم کرکے اپنی مٹھی میں لے لیتی تھی، جرنیل اور حکومت کے حاکم دو حصوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے دشمن بنے جا رہے تھے ان میں کچھ خوشامدی بھی تھے، وہ قسطنطین کو آئے دن کوئی نئی سے نئی خبر سناتے اور ملکہ مرتینا اور اس کے بیٹے ہرقلیوناس کے خلاف بھڑکاتے تھے ،قسطنطین کو مصر کا غم تو کھا ہی رہا تھا لیکن یہ خوشامدی اسے ایسی خبریں سناتے تھے کہ اس کا خون کھول اٹھتا تھا ۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ وہ کسی اندرونی روگ میں مبتلا ہوگیا تھا، اور جسمانی کمزوری محسوس کرنے لگا تھا ،اس سے بڑا روگ اور کیا ہوسکتا تھا کہ اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جنگی طاقت سمجھنے والے شاہی خاندان کو مٹھی بھر عربوں نے جنہیں رومی گنوار بدوّ کہتے تھے شام سے مار بھگایا تھا، اور اب انھیں مصر سے بھی بری طرح بے دخل کیا جا رہا تھا۔
قسطنطین کی حالت تو اب یہ ہوگئی تھی جیسے ڈوبنے والا تنکوں کے سہارے تلاش کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا ہے۔
 پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس کی نظریں بھٹک بھٹک کر ہرقل کے بنائے ہوئے اسقف آعظم قیرس پر جا رہی تھی، ہرقل نے مقوقس کے ساتھ قیرس کو بھی جلا وطن کردیا تھا۔
ہرقل کی موت کے بعد قسطنطین نے ایک ایلچی کو قیرس کی تلاش میں روانہ کیا اور یہ پیغام دیا تھا کہ قیرس کو مصر کی صورتحال بتا کر کہے کہ وہ واپس آجائے۔
 ایلچی نے قیرس کو ڈھونڈ نکالا تھا اور اسے اپنے ساتھ ہی لے آیا تھا ۔قسطنطین نے اس کا استقبال پورے احترام سے کیا اور اسے الگ تنہائی میں بٹھا لیا۔
سب سے پہلے یہ بات سن لیں۔۔۔ قسطنطین نے قیرس سے کہا۔۔۔ میں نے کبھی بھی آپ کو باغیانہ خیالات کا مجرم نہیں سمجھا ۔اصل قصور مقوقس کا تھا لیکن میرے بادشاہ باپ نے اس کے ساتھ آپ کو بھی جلا وطن کردیا۔ مجھے پوری امید ہے کہ سلطنت روم کے مسائل کے ساتھ آپ کو بھی اتنی ہی دلچسپی ہے جتنی مجھے ہے میں آپ کا اسقف اعظم کا رتبہ بحال کرتا ہوں اور اس کے ساتھ ہی آپ کو اپنا مقدس باپ سمجھتا ہوں۔
اس کے بعد قسطنطین نے قیرس کو مصر کی ساری صورتحال بتائی اور پھر بزنطیہ میں جو محلاتی سازشیں اور کدورتیں چل رہی تھیں وہ بھی تفصیل سے سنائی، پھر کہا کہ وہ مصر میں اپنی فوج کو کمک بھیجنا چاہتا ہے لیکن یہاں تو دو دھڑے ہو چلے ہیں جنہوں نے فوج کو تقسیم کرلیا ہے ،اس نے کہا کہ با ظاہر فوج ایک جاں ہے لیکن فوجیوں کے دل آپس میں پھٹ گئے ہیں۔
مجھے صرف ایک بات بتاؤ ۔۔۔قیرس نے پوچھا۔۔۔ میں کیا کرسکتا ہوں اور میرے فرائض کیا ہیں؟ 
بات بالکل مختصر کرونگا۔۔۔ قسطنطین نے کہا۔۔۔ سب سے پہلے تو آپ ملکہ مرتینا سے کہیں کہ وہ تخت کی جانشینی کے مسئلہ کو بھول جائے اور ہمیں مہلت دے کے ہم ان عربوں کو مصر سے نکال دیں، ضرورت یہ ہے کہ یہاں خانہ جنگی کی جو صورتحال بن رہی ہے یہ ختم ہوجائے، پھر میں آپ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کمک مصر بھیجوں گا مجھے اطلاع ملی ہے کہ قبطی عیسائی مسلمانوں کے دوست بنتے جا رہے ہیں اور ان کے ساتھ ہر طرح تعاون کرتے ہیں، مجھے یہ خطرہ نظر آ رہا ہے کہ مصر کے جو علاقے ابھی ہماری سلطنت میں ہیں ان علاقوں میں قبطی ہمارے خلاف بغاوت کر دیں گے۔ آپ کچھ مبلغ ساتھ لے جائیں گے جو قبطیوں کو سلطنت روم کا وفادار بنانے کی کوشش کریں گے۔
آپ کو بھولنا نہیں چاہیے۔۔۔ قیرس نے کہا۔۔۔قبطیوں کے دل میں ہمارے خلاف انتقام کی آگ سلگ رہی ہے، شاہ ہرقل نے جس بے دردی سے انکا قتل عام میرے ہاتھوں کروایا ہے وہ کبھی نہیں بھول سکتے۔
قبطیوں کو ساتھ ملانے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اعلان کردیں کہ شاہ ہرقل نے جو عیسائیت بنائی تھی وہ منسوخ کی جاتی ہے ، اور اصل عیسائیت وہ ہے جو یسوع مسیح سے ہمیں ملی ہے،،،،،،، میں ملکہ مرتینا سے ملوں گا اور اسے قائل کرنے کی پوری کوشش کروں گا کہ وہ تخت و تاج کی وراثت کو ابھی متنازع نہ بنائے اور اپنے آپ کو سلطنت روم کی ملکہ نہ سمجھے۔
 ان دونوں نے طے کیا کہ کل جرنیلوں کا ایک اجلاس بلایا جائے اور یہ مسائل اور یہ صورتحال ان کے آگے رکھی جائے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
قسطنطین کی ملاقات کے بعد قیرس باہر آیا تو شام گہری ہو چکی تھی۔ ملکہ مرتینا اس انتظار میں تھی کہ قیرس باہر آئے تو اسے اپنے جال میں لے لے۔ اس نے اپنا ایک آدمی باہر کھڑا کر رکھا تھا۔ قیرس خود بھی چاہتا تھا کہ وہ ابھی ملکہ مرتینا سے مل لے ۔ اس آدمی نے قیرس کو روک کر آہستہ سے کہا کہ ملکہ بلا رہی ہیں۔ قیرس ملکہ کے پاس چلا گیا
ایسے واقعات کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات لکھنے والے وقائع نگاروں نے لکھا ہے کہ قیرس جب ملکہ مرتینا کے کمرے میں داخل ہوا تو ایسی خوشبو نے اس کا استقبال کیا جو اس نے پہلے کبھی نہیں سونگھی تھی۔ اس پر جو تاثر طاری ہوا اس تاثر سے بھی وہ بیگانہ رہا تھا ۔ اس کے ساتھ ملکہ مرتینا کا کھڑا قد اور دلکش جسم اور پھر اس کے چہرے کا حسن قیرس پر خمار سا طاری کرنے لگا۔
ملکہ مرتینا اپنی عمر سے بہت کم لگتی تھی، اور وہ مردوں کو اپنے طلسم میں گرفتار کرنے کی خصوصی مہارت رکھتی تھی۔ اس نے بڑی بے باکی اور بے حیائی سے قیرس کا استقبال کیا ۔قیرس اپنے وجود میں بڑھاپے میں جوانی کا جوش و خروش محسوس کرنے لگا ۔ملکہ مرتینا نے قیرس کو بٹھایا اور دو نوخیز لڑکیاں دوڑی آئیں جو اپنے لباس میں تھی لیکن برہنہ لگتی تھیں۔ ملکہ مرتینا نے انھیں کہا کہ کھانا لگا دیں۔ لڑکیاں دوڑتی باہر نکل گئیں اور قیرس پر ایسا جادو طاری کر گئیں کہ اس کی نظریں اس دروازے پر لگی رہی جس دروازے سے وہ آئی تھیں اور پھر نکل گئی تھیں۔
ملکہ مرتینا نے جب اپنی عیاری چلائی تو تھوڑی سی دیر میں قیرس بھول ہی گیا کہ وہ مذہبی پیشوا ہے ۔اور شاہ ہرقل نے اسے اسقف اعظم بنایا تھا۔ اس کی تمام انسانی کمزوریاں ابھر آئیں اور اس کی اصل شخصیت پر چھا گئی۔
 کھانا آیا ان حسین و جمیل نوجوان لڑکیوں نے کھانے کے دوران شراب پیش کی تو ملکہ مرتینا نے دیکھا کہ قیرس کی نظریں ان لڑکیوں کے جسم پر چپک گئی ہیں۔
کھانے کے بعد ملکہ مرتینا اصل بات پر آئی، اس نے ایسی کوئی بات نہ کی جس سے یہ ظاہر ہوتا کہ وہ اپنے بیٹے ہرقلیوناس کو تخت روم کا وارث بنانا چاہتی ہے، اس کی باتوں سے سلطنت روم کا غم ٹپک رہا تھا ،اور ان شکستوں اور سلطنت کے سکڑتے چلے جانے کی ذمہ داری ہرقل اور پھر قسطنطین پر عائد کر رہی تھی، اس کی ہر بات قیرس کے دل میں اترتی جا رہی تھی ۔
کچھ ہی دیر بعد قیرس یوں محسوس کرنے لگا جیسے وہ زمین پر نہیں بلکہ بہشت میں پہنچ گیا ہے، جہاں حوریں اس کی خدمت پر مامور ہو گئی ہیں،،،،،،، قیرس ملک امرتینا کا غلام ہو گیا تھا۔
ملکہ مرتینا نے قیرس کے لیے جو کمرہ تیار کروایا تھا وہ ملکہ کے کمرے سے زیادہ دلآویز اور دل نشین تھا ،اس دل آویزی اور دلکشی میں اضافہ اس طرح ہوا کہ ملکہ مرتینا نے رات بھر کے لئے اس کے پاس ان دو لڑکیوں میں سے ایک کو بھیج دیا،،،،،، صبح جن قیرس کی آنکھ کھلی تو اس کے دماغ پر ملکہ مرتینا سوار تھی اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ روم کے تخت وتاج کاوارث ہرقلیوناس ہی ہوگا، لیکن اس نے یہ فیصلہ بھی کرلیا کہ وہ قسطنطین کا وفادار بنا رہے گا اور کمک لے کر مصر جائے گا۔
کچھ دیر بعد ملکہ مرتینا آ گئی، ملکہ نے قیرس کے ساتھ کچھ باتیں کرکے بھانپ لیا کہ یہ شخص اس کی مٹھی میں آ گیا ہے۔ تب اس نے قیرس کے دماغ میں یہ بات ڈال دی کہ وہ کمک لے کر مصر جائے اور جنرل تھیوڈور سے مل کر فوج کو اس طرح لڑائے کہ مسلمانوں کو مصر سے نکال دیا جائے ۔ پھر ملکہ مرتینا وہاں پہنچ جائے اور خودمختاری کا اعلان کردے۔
 قیرس نے اسے یقین دلایا کہ وہ ایسی صورت پیدا ہونے ہی نہیں دے گا۔ بلکہ قسطنطین کے لئے ایسی صورتحال پیدا کر دے گا کہ وہ خود کہے گا کہ ہرقلیوناس کو تخت پر بٹھا دیا جائے۔

#جاری_ہے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.