Ads Top

میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 29


میـرے_ہـم_نفس_میـرے_ہمنوا

فریحہ_چـودھـری

#میرے_ہم_نفس_میرے_ہـمنوا
#فریحہ_چـودھـــری ✍
#قسط_29
"اف کیا مصیبت ہے "مغیث کی جھنجھلائی ہوئی آواز کمرے میں گونجی عون کے رونے میں مزید شدت آ گئ وہ اسے اٹھا کر زور زور سے ہلانے لگا جوں جوں وہ ہلاتا جا رہا تھا عون کی آواز بلند ہوتی جا رہی تھی اسے بچہ سنبھالنے کاکوئی تجربہ تو نہ تھا حرب نے تب سے دوبارہ کمرے میں جھانک کر نہ دیکھا مغیث کو مزید کوفت ہوئی
"چپ کر جا کہاں سے لاؤں تمہاری اماں کو "وہ اسے بہلانے کو بولا تھا مگر اپنے ہی الفاظ پر چونک گیا
"تو کیا میں اسے قبول کر چکا ہوں "اس نے خود سے پوچھا اور حیران رہ گیا دل و دماغ کی گواہی حرب کے حق میں آئی تھی وہ اپنے خیالوں میں اس قدر گم تھا کہ کب ادینہ اندر داخل ہوئی اسے پتہ ہی نہ چلاچونکا تو تب جب ادینہ نے روتے ہوۓ عون کو اس کے ہاتھوں سے لے لیا
"ارے تم ۔۔۔۔تم کب آئی "وہ حیرت سے پوچھنے لگا
"ابھی ۔۔۔ جب تم کسی سوچ میں مکمل کھوۓ ہوۓ تھے "وہ عون کو پیار کرتے ہوۓ بولی
"ہاں وہ بس ۔۔۔۔۔۔ چھوڑو ۔۔۔۔ کوئی کام تھا "وہ اب اسے تو نہیں بتا سکتاتھا کیاسوچ رہا تھا
"نہیں تو ۔۔۔۔ میں گزر رہی تھی عون کے رونے کی آواز سن کر چلی آئی ۔۔۔ خیریت ہے"
"ہاں بس ۔۔۔۔۔ حوری نہیں تھی نا تو اسے مس کر رہا تھا "اس کے لہجے میں محسوس کی جانے والی محبت کی آمیزش تھی ادینہ اندر ہی اندر جل کر راکھ ہو گئ
"ہاں میں بھی کہوں اتنے عرصے میں کافی مانوس ہو گیا ۔۔۔۔۔۔ مگر اسے تو شاید کوئی فرق نہیں پڑتا اس سے ۔۔۔۔ تبھی ساتھ لیے بغیر چلی گئ " اپنی طرف سے اس نے چنگھاڑی پھینکی تھی
"کہاں چلی گئ " مغیث نے حیرت سےآنکھیں پھیلا کر پوچھا
"ارے تمہیں نہیں معلوم ۔۔۔۔ ابھی تو گئ ہے گوہر کےساتھ ۔۔۔۔ جانےکہاں " مغیث سمجھ گیا یقیناً اس کی باتوں کو ذیادہ سیریس لیا گیاتھا مگراس طرح بغیر بتاۓ جانا اسے غصہ دلا گیا اس کے ماتھے پر پڑے بلوں کو دیکھ کر ادینہ دل ہی دل میں خوش ہونےلگی
☆☆☆☆☆☆☆
"مجھے ایاز کے گھر کا ایڈریس چاہئے " حرب اور گوہر لاونج میں موجود تھے بی جان انکی خاطر تواضع کے لیے اٹھ کر کچن کی جانب چلی آئیں تھیں تبھی جازم کے کہے گۓ الفاظ نے دونوں کودنگ کر دیا حرب تواس کی حالت دیکھ کر ہی پریشان ہو اٹھی تھی کہاں ہسنے ہسانے والا ہس مکھ سا جیزی اور کہاں بے ترتیب حلیے اور اجڑی بکھری حالت میں اس کے سامنے بیٹھا جازم ۔۔۔۔ وہ سمجھ نہ پائی تھی کہ جازم اتنا شدید ری ایکشن کس لیے دے رہا ہے اور اب ایڈریس کا مطالبہ
"کیوں ؟؟؟" حرب کے سوال پر اس کا چہرہ مزید سرخ ہوا
"دیکھنا چاہتا ہوں ۔۔۔ ملنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔ آخر میرا باپ ہے وہ " وہ خشک لہجے میں بولا تھا ساتھ ہی لب سختی سے بھینچ لیے
"جازم "حرب تڑپ اٹھی
"پلیز کوئی بھی مجھ روکنے کی کوشش مت کرے۔۔ کیونکہ میں.... نہیں رکوں گا " سردمہری سے کہتا وہ اٹھ گیا تھا حرب اس کے پیچھے لپکی
" جازم رکوسنو " وہ اس کےپیچھے کمرے تک آئی وہ رخ موڑے... بغیر اسے دیکھے سامنے پینٹنگ کے سامنے جا کھڑا ہوا
"کیوں کر رہےہو ایسا ؟؟؟کیا تم چھوڑ جاؤ گے ہمیں ۔۔۔۔ کیا تم واقع چلے جاؤ گے " حرب کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اس کا خدشہ مچل کر زبان پر آ گیا جازم نے آنکھیں میچ لیں
"بولو نا " وہ جواب پر مصر تھی
"آپ جانتی ہیں غوزہ کون ہے ؟؟" اسنے جواب کی بجاۓ سوال کر ڈالا تھا
"کون ہے ؟؟"
"غوزہ ۔۔۔۔ غوزہ مہر ۔۔۔ شاید آپ نے اس کا نام صحیح سے پڑھا نہیں تھا اس کی بک پر یہ نام میں نے پڑھا تھا مگر نظرانداز کر دیا کیونکہ یہ قابل غور بات نہ تھی جب بی جان کو چھوڑ کر پاکستان آیا تو ملازمہ کے منہ سے مہرو کا نام سن کر چونک گیا میری اطلاع کے مطابق بھیا نے فاریہ کی کزن غوزہ سے شادی کی تھی جب بھیا کے ساتھ ایک ہی ڈائننگ ٹیبل پر ناشتہ کرتی لڑکی کو دیکھا تو مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا اور اب آپ کی ماں کے منہ سے غوزہ مہر کا نام سن کر مجھے حقیقت بخوبی سمجھ آ گئ وہی غوزہ مہرجو آپ کی اکلوتی دوست تھی وہی آپ کے بابا کے قاتل کی بیٹی ہے وہی بھیا کی بچپن کی منگیتر اور اب ان کی بیوی ہے "جوں جوں وہ بولتا جا رہا تھا حرب کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی جا رہی تھیں وہ خاموش ہوا تو حرب کے سن ہوتے حواس واپس لوٹے
"غوزہ کی بھیا سے شادی ۔۔۔۔ناممکن ۔۔۔ بھیا نے مجھے کیوں بے خبر رکھا " وہ وہیں گم صم سی صوفے سے بیٹھ گئ جازم نے بغیر جواب دئیے اگلا سوال کر ڈالا
"کیا ہمیں ان سے ملنا چاہئے ؟؟"
"ہر گز نہیں ۔۔۔وہ قاتل کی بیٹی ہے ۔۔۔۔ میرے بابا کو مارا اس کے باپ نے ۔۔۔ تمہاری ماں کو ماردیا ۔۔۔۔ اور تم کہہ رہے ہو کہ اس سے ملیں ۔۔۔اور جازم تم بھول گۓ اسے ۔۔۔ تم تو۔۔۔۔ "وہ جانے کیا کہنے چلی تھی جازم سرعت سے پلٹ کر اس کی بات کاٹ گیا
"بھابھی ہیں ہماری وہ ۔۔۔۔ قابل احترام ہیں ہمارے لیے ۔۔۔۔ ویسے بھی اس قتل میں ان کا کوئی قصور نہ تھا "وہ اتنی مضبوطی سے بولا کہ حرب مزید کچھ پل بولنے کی ہمت ہی نہ کر سکی
"رہی میری بات۔۔۔۔ تو وہ میری کچی عمر کی نادانی تھی جسے میں بھول چکا ہوں اب وہ صرف میرے لیے قابل عزت ہیں "
"لیکن اب توبھیا نہیں رہے "وہ اسے جانچ رہی تھی جسے سمجھ کر جازم کچھ پل ہل نہ سکا
"نہیں ۔۔۔۔۔ ہر گز نہیں ۔۔۔۔۔ بھیا زندہ ہیں ۔۔۔۔ وہ نہیں جا سکتے میرا دل کہتا ہے وہ زندہ ہیں " اس کی آنکھوں میں وحشت اتری تھی اس نے بے حد طیش میں آ کر پینٹنگ اتار کر زمین پر دے ماری کانچ زمین پر ادھر ادھر بکھر گیا
"اگر ایسا نہیں بھی ہے تو ۔۔۔ بھی یہ ناممکن ہے آپی ۔۔۔ دوبارہ کبھی مت کہیے گا " یہ کہہ کر وہ رکا نہیں تھا اس کے جواب پر حرب کے تپتے جلتے دل کو کچھ تسلی ہوئی
☆☆☆☆☆☆☆
نواب ولامیں سب ناشتے کی میز پر جمع تھے حیات صاحب سکندر کا ہاتھ تھام کر میز تک لاۓ
" کیسے ہیں اب آپ " ماہی نے خوشامدی لہجےمیں پوچھا
"ٹھیک ہوں " وہ مدھم سا جواب دے کر کرسی پر ٹک گیا باربار بھٹک کر اس کی نگاہیں میز پر موجود نفوس پر جاتیں پھر نامراد لوٹ آتیں جس وجود کو اس کی نگاہیں تلاش کر رہی تھیں وہ وہاں موجود نہ تھا وہ اندر ہی اندر پریشان ہوا " شاید میری وجہ سے "اس کا ملال بڑھنے لگا تبھی ماہی کی تیزآواز پراسکاارتکازٹوٹا
"صبوحی کہاں ہے ۔۔۔ اسے کہو چاۓ لاۓ " ماہی کا لہجہ تحکمانہ تھا اس کا منہ حیرت سے کھل گیا حیات صاحب نے چور نظروں سے سکندر کے الجھے تاثرات کو دیکھا تھا
"بابا "عقب سے آتی آواز پر سب نے چونک کر تعاقب میں دیکھا جہاں انامتہ کے ساتھ ایک لڑکی کھڑی تھی جسے دیکھ کر ندرت اور ماہی کے چہرے پر ناگواری در آئی سکندر نشست چھوڑ کر کھڑا ہو گیا
"بابا دیکھیں تو کس کو لائی ہوں میں " روشن چہرے کے ساتھ وہ جوش سے کہتی کھل کر مسکرائی ساتھ ہی نوائم کا ہاتھ تھام کر سکندر کے مقابل لے آئی نوائم معصومیت سے بڑی بڑی آنکھیں کھول کر سب کو باری باری دیکھ رہی تھی انامتہ نے تعارف کا تکلف کرنا ضروری سمجھا
"بابا یہ نوائم ہے میری بہن " اس نے گویا دھماکہ کیا تھا سب کے منہ کھل گئے ندرت اور ماہی سکندر کا ری ایکشن دیکھنے کو بے چین تھیں جو یک ٹک نوائم کو تکے جا رہا تھا انہیں یقین تھا کہ سکندر نوائم کو دھتکار دے گا اپنی نفرت کا اظہار سرعام کرنے سے بھی باز نہ آۓ گا مگر ہنوز سکندر کو جما دیکھ کر انکی پریشانی اور بےقراری بڑھنے لگی کچھ توقف کے بعد جو الفاظ سکندر کے منہ سے ادا ہوۓ وہ ان پر آسمان بن کر گرے باقی سب کا ردعمل بھی ان دونوں سے مختلف نہ تھا
"میری بیٹی ۔۔۔۔ میری گڑیا "وہ اسے سینے سے لگاۓ زاروقطار رونے لگا ابھی سب پہلے جھٹکے سے ہی نہ سنبھلے تھے جب صبوحی دندناتی ہوئی وہاں پہنچ گئ
"نوائم " وہ اتنی زور سے چلائی تھی کہ نوائم ڈر کر سکندر سے الگ ہوتی سہمی نظروں سے ماں کو تکنے لگی جو غیض و غضب کا طوفان بنی ہوئی تھی
"کیوں آئی ہو تم یہاں "وہ قدم اس کی طرف بڑھاتے ہوۓ بولی کچھ بعید نہ تھا کہ وہ اسے دھنک کر رکھ دیتی مگر انامتہ کی مداخلت پر انہیں رکنا پڑا
"مما ۔۔۔۔ میں "
"نہیں ہوں میں تمہاری مما " وہ سختی سے اسے درمیان میں ہی ٹوک گئیں مارے اہانت کے انامتہ کے گال دہکنے لگے
"آنٹی نوائم کو میں بابا سے ملانے ۔۔۔۔ "ابھی اس کی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی شدید غصے میں صبوحی کا ہاتھ اٹھا اور اس کے گال پر جم گیا انامتہ صدمے سے گنگ ہو گئ
"ہمت کیسے ہوئی تمہاری ۔۔۔۔ کان کھول کر سن لو میری بات تم باپ بیٹی اور اسے ذہن نشین بھی کرلو۔۔۔ میں اسے اسی تاریک کمرے میں دفنا تو سکتی ہوں مگر اس کے وجود سے تمہارے باپ کے سینے میں ٹھنڈک پڑنے کی اجازت ہرگز نہ دوں گی ۔۔۔۔۔ کم از کم میری زندگی میں تو یہ ممکن نہیں "ان کی آنکھوں سے نفرت کے شعلے لپک رہے تھے اور الفاظ اس سے ذیادہ زہر خند تھے انامتہ کی نم آنکھوں اور سکندر کی سفید پڑتی رنگت کو نظرانداز کرتی سب کو حیران پریشان چھوڑ کر نوائم کا ہاتھ تھا م کر وہاں سے چلی گئ حیات صاحب نے آگے بڑھ کر سختی سے سکندر کابازو تھام کر اپنی طرف متوجہ کیا
☆☆☆☆☆☆☆
دستک پر حمیرا ہاتھ صاف کرتی دروازے تک آئی ایک خوش شکل اور خوش پوشاک نوجوان دروازے میں ایستادہ تھا
"آپ کون " حمیرا نے سرتاپیر دیکھ کر پوچھا وہ چند لمحے لب بھینچے خاموشی سے حمیرا کا چہرہ دیکھتا رہا یہ عورت اس کے باپ کے گناہوں میں برابر کی شریک تھی مگر وہ اسے کچھ کہہ نہیں سکتا تھا وجہ صاف تھی حمیرا جہانگیر کی ماں تھی اور جہانگیر۔۔۔۔ اس کی نظریں خود بخود احترام سے جھک گئیں
"جازم "آواز اتنی مدھم تھی کہ بمشکل حمیرا کے کانوں تک پہنچ پائی خلاف توقع اس کا ردعمل کچھ خاص نہ تھا شاید حرب کی زبانی انہیں حقیقت معلوم ہو چکی تھی وہ خاموشی سے دروازے سے ہٹ گئیں یہ ایک چھوٹا سا گھر تھا کچن کے نام پر کچا کمرہ آگے صحن اور ایک مکان۔۔۔۔ وہ اسے کمرے میں ہی لے آئیں جہاں دو چارپائییاں بچھی تھیں جس میں سے ایک پر ایک کمزور بوڑھا شخص کھانس کھانس کر بے حال ہو رہا تھا یقیناً وہ ایاز شاہ تھا زلیخا گھر پر نہ تھی حمیرا نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا مگر وہ بیٹھنے تو نہ آیا تھا
"ایاز " اسے ہنوز کھڑا دیکھ کر حمیرا نے ایاز کو پکارا وہ سرخ آنکھیں کھول کر دیکھنے لگا ایک اجنبی شخص کو کمرے میں دیکھ کر اسے حیرت ہوئی جازم کی نگاہیں خود پر دیکھ کر اسے پوچھنا پڑا
"کون ہے یہ " وہ اسے پہچان نہ پایا تھا پہچانتا بھی کیسے عرصہ ہوا اس وجود کو بھلاۓ ہوۓ
"یہ جازم ہے تمہارا اور تہمی کابیٹا" حمیرا نے تعارف پورا کیا ایاز فوراً کھڑا ہو گیا
"جھوٹ ۔۔۔ جھوٹ بولتی ہو تم " وہ جانے کیوں چیخنے لگا تھا جازم کی آنکھوں میں سرخی اترنے لگی " ایسا کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔۔ وہ تو مر گیا تھا ۔۔۔ اپنی ماں کے ساتھ ہی مر گیا تھا ۔۔۔۔ یہ کون ہے جسے میرا بیٹا بنا رہی ہو ۔۔۔۔ پہلے تیرا بیٹا زندہ ہوا پھر میرا ۔۔۔۔۔ خوب سمجھتا ہوں تیرے ڈرامے " وہ حمیرا پر برس رہا تھا وہ خاموشی سے سر جھکاۓ لب کاٹتی رہی
" پتہ نہیں کس کا گند اٹھا کر لے آئی ۔۔۔۔۔ "
"بسسسس ۔۔۔۔ "جازم نے ہاتھ اٹھا کر تیزی سے اس کی بات کاٹی ایاز کو خاموش ہونا پڑا
"خاموش ہوجا ۔۔۔۔۔ایسا نہ ہو کہ میں یہ ذرا سا لحاظ بھی بھلا دوں جو اس رشتے کے قواعد پر مجبور ہو کر برداشت کر رہا ہوں اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں منہ میں زبان نہیں رکھتا ۔۔۔۔ تو نے میری ماں کے ساتھ کیا کیا ۔۔۔۔ تو نے دوستی کے نام پر کیا کیا ۔۔۔۔۔ تو نے میرے وجود سے کتنے فوائد حاصل کرنا چاہے میں سب جان گیا ہوں ا۔۔۔ ایک ایک لفظ یہاں ۔۔۔۔ یہاں " اس نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا " یہاں اترا ہے اور آج یہیں دفن بھی کر کے جاؤں گا "وہ مضبوطی سے کہتا مٹھیاں بھینچ گیا اسکی آنکھیں لہو چھلکانے لگی تھیں تیز تیز چلتے تنفس پر قابو پاتے اسنے ایازکی طرف دیکھا ۔
__________________
"جانتے ہو کس نے بچایا مجھے موت کے ہاتھوں سے ۔۔۔۔ کس نے اپنی آغوش میں پناہ دی ۔۔۔ کس نے اس قابل بنایا کہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاؤں ۔۔۔۔ جانتے ہو کس کی احسان مند ہے میری زندگی ۔۔۔۔ میری ایک ایک سانس ۔۔۔۔ اسی کی جس کے باپ کو تم نے اپنی لالچی فطرت کے ہاتھوں کنویں میں دھکیلنا چاہا ۔۔۔ ہاں اسی نے ۔۔۔ فیضان شاہ کے بیٹے نے ۔۔۔۔ جہانگیر شاہ نے "وہ ایک کےبعد ایک راز افشاں کررہا تھا ایاز حیرت کے جھٹکے سے سنبھلا
"اچھا "اس نے اچھا کو کافی لمبا کھینچا " میرے بیٹے کو اتنا عرصہ مجھ سے دور رکھا ۔۔۔۔ اور تو اور مجھ سے بد ظن بھی کر دیا اور اس مقام پر لے آیا کہ وہ آج میرے سامنے کھڑا ہے ۔۔۔۔ خبیث بے غیرت انسان ۔۔۔۔ مل جاۓ مجھے ۔۔۔۔ یہ کمینے کا ۔۔۔۔۔ " اس سے پہلے کہ وہ مزید زہر اگلتا جازم نے بے حد مشتعل ہو کر اس کا گریبان تھام لیا اسکی حرکت پر ایاز کچھ لمحے ہلنے کے قابل نہ رہا
"آخری بار ۔۔۔۔ یہ صرف پہلی اور آخری بارتھا ایاز صاحب ۔۔۔۔ دوبارہ میں برداشت نہیں کروں گا "وہ تڑپ ہی تو گیا تھا سینے میں آگ بھڑکی تھی بیٹے کے ہاتھ باپ کے گریبان پر تھے یہ مکافات عمل تھا ایاز کی بے یقین نگاہوں رینگتی ہوئیں اسکے ہاتھوں سے چہرے تک کا سفر کر رہی تھیں حمیرا کے چہرے پر پھیلا تمسخر اسے اپنی پشت پر محسوس ہو رہا تھا ۔۔
"بھول جاؤں گا کہ میں کس کے سامنے کھڑا ہوں میں ہراس بات کو فراموش کر دوں گا کہ میرا تم سےکیا رشتہ ہے ۔۔۔۔ میں کس کا خون ہوں۔۔۔۔۔خون اپنا اثر ضرور دکھاتا ہے۔۔۔فرق صرف اتنا ہے کہ میری پرورش اچھے ہاتھوں میں ہوئی ایک بدکردار اور جواری کے ہاتھوں نہیں " وہ چیخ رہا تھا مگر آگ کم ہونےمیں نہ آ رہی تھی " میں دیکھنے آیا تھا کیسا ہے وہ شخص جو کہنے کو میرا باپ ہے "وہ بغیر موقع دیے بول رہا تھا یہ پہلا موقع تھا کہ ایاز خاموش کھڑا تھا کیونکہ مقابل کوئی اور نہیں اس کا بیٹا تھا دل کی بھڑاس نکال کر وہ وہاں رکا نہیں تھا ایاز نے اس کے سامنےہاتھ جوڑے پاؤں پکڑے محبت سے سختی سے ہر حربہ آزما لیا مگر اسکی نہ ہاں میں نہ بدلی تھی
☆☆☆☆☆☆☆
"کیامعاملہ ہے یہ سکندر " سکندر صاحب کے درشتی سے استفار پر اسے بتانا پڑا تھا سب افراد کی موجودگی میں وہ اس راز سے پردہ اٹھا رہا تھا جسے سننے کی تاب کسی میں نہ تھی وقار کا چہرہ دہکنے لگا تھا کچھ بعید نہ تھا کہ وہ اس کا حشر بگاڑ دیتا جس کی وجہ سے وہ اتنے سالوں اپنی معصوم بہن پر ظلم ڈھاتا رہا
"جانتے ہو کیا کہہ رہے ہو" حیات صاحب گرجے تھے سکندر نے آنکھیں میچ لیں "جانتے ہو کیا کیا ہے تم ؟؟ تمہاری وجہ سےایک معصوم لڑکی کی زندگی برباد ہو گئ
"جانتا ہوں "وہ مجرموں کی طرح سر جھکاۓ اقرار کرنے لگا "انتقام میں اندھا ہو گیا تھا میں ۔۔۔۔ فیضی اور صبوحی کی ایک دوسرے میں ۔۔۔۔ " وہ اپنی صفائی میں بول رہا تھا کہ حیات صاحب نے ہاتھ اٹھا کر خاموش کروا دیا
"خاموش ہو جاؤ ۔۔۔ مجھے مت بتاؤ کیا ہوا تھا اور کیوں ہوا تھا اس سب کے بعد تمہارے یہاں رہنے کا کوئی جواز نہیں ۔۔۔۔ جہاں سے آۓ ہو واپس چلے جاؤ ۔۔۔ کبھی نہ آنے کے لیے ۔۔۔ نواب ولاکے دروازے تم پر ہمیشہ ہمیشہ لے لیے بند ہیں چلے جاو سکندر ... میں تمہاری شکل دیکھنا نہیں چاہتا "وہ منصف بے رحم جج کی مانند حکم سنارہے تھے سکندر کے چہرے پر اترتی شرمندگی اور اذیت بھی انہیں اس فیصلے سے باز نہ رکھ سکی
☆☆☆☆☆☆☆
وہ گھر سے نکل کر پیدل ہی سڑک پر چلنے لگا اذیت ہی اذیت تھی جو اس کے رگ و پے میں اترتی جا رہی تھی وہ گاڑی ساتھ نہ لایا تھا آج وہ ایک بے حد عام انسان کی طرح اس گھر کے دروازے تک سفر کر کے پہنچا تھا جس پر پہنچ کر بھی اس کے دل میں کوئی جذبہ کوئی کھیچاؤ محسوس نہ ہوا تھا دل بالکل خالی تھا اسے چہرے پر گیلے پن کا احساس ہوا نظر اٹھا کر آسمان پر دیکھا جسے کالی گھٹاوں نے ڈھانپ رکھا تھا وہ یونہی بغیر پلک جھپکے برستے بادلوں کو تکنے لگا اسے یاد تھا جہانگیر کو بارش بہت پسند تھی لیکن دیکھنے کی حدتک وہ گھنٹوں برستے مینہ کو دیکھا کرتا تھا جبکہ جازم کو بارش میں نہانا لطف دیتا تھا مگر آج اسے بارش بے حد بری لگ رہی تھی اسے بھیگنا لطف اندوز نہ کر رہاتھا
"جازم مت نہایا کرو بارش میں " اسے جہانگیر کی محبت بھری تنبیہہ یاد آئی تھی اس کی آنکھیں بھیگنے لگی کتنی محبت کتنی خوشیاں ملی تھیں اسے مگر وہ ناشکرا نکلا اس کے دل میں ایک پھانس سی تھی جسے چاہ کر بھی وہ نکال نہیں پا رہا تھا یکدم ہی ایک خیال بجلی کی تیزی سے اس کے دماغ میں کوندا بقول گوہر جہانگیر کی موت ایک حادثہ تھی مگر کیسے ؟؟؟ وہ ذہن کے گھوڑے دوراتا باتوں باتوں میں مزید الجھتا چلا جا رہا تھا
‏_کبھی اشک میں_
کبھی لہجے میں رواں ہوتا ہے!!!!
درد ہوتا ہے مگر..….
بے زباں ہوتا ہے..! ☆☆☆☆☆☆☆
اس نے رکشے سے اتر کر کرایہ ادا کیا اور چادر بیگ سنبھالتی آگے بڑھنے لگی جب ہلکی ہلکی بوندیں ٹپکنا شروع ہوئیں وہ گھبرا گئ یہ روڈ سے کچھ دور جگہ تھی جہاں سواری ملنا ممکن نہ تھا اپنی ضروری چیزیں سمیٹ کر وہ حویلی چھوڑ آئی تھی یہاں شہر سے دور اس کی پرانی دوست کا گھر تھا اس سے بات کر کے کچھ دن رہنے کی اجازت پاتے ہی وہ نکل پڑی تھی مگر اب بے وقت بارش وہ جھنجھلا گئ ایک گھنے درخت کو دیکھ کر اسے کچھ سکون ہوا وہ بارش سے بچتی بچاتی درخت کے نیچے آٹھہری تھی ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ سفید رنگ کی چمکتی مرسڈیز اسے اپنی اوڑھ آتی دکھائی دی پہلے تو وہ حیران ہوئی مگر اگلا احساس جو دل میں ابھرا وہ ڈر کا تھا یقیناً اس کا پیچھا کیا جا رہا تھا اس کا دل سوکھے پتے کی مانند کانپنے لگا کار عین اس کے سامنے آ رکی اندر سے نکلنے والے شخص کو دیکھ کر اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا یہ شخص اسے ہرگز نہ بھولا تھا گوہر آہستہ آہستہ چلتا اس کے قریب آ گیا
"السلام علیکم بھابھی " یہ دوسرا جھٹکا تھا اتنا نرم اور
با ادب لہجہ اسے سکتہ میں ڈال گیا
"آئیے میرے ساتھ چلیے میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں " اس نے رسان سے کہہ کر بیگ غوزہ کے ہاتھ سے لے لیا غوزہ بغیر سوچے سمجھےکسی ربوٹ کی طرح اس کے پیچھے چلنے لگی
☆☆☆☆☆☆☆
سکندر آج پھر صبوحی کے درپر آیا تھا دستک کی زوردار آواز پر بھی صبوحی نے ان سنا کر دیا
"صبوحی میں جانتا ہوں تم یہاں ہو۔۔۔ ایک بار میری بات سن لو ۔۔۔۔ پلیز صبوحی ۔۔۔۔ میں جانتا ہوں میں گنہگار ہوں ۔۔۔۔ مجرم ہوں مگر ایک موقع تودو۔۔۔۔۔۔میں تمہارے قدموں میں گر کر معافی مانگ لوں گا ۔۔۔ صرف ایک بار صبوحی ۔۔۔۔ دروازہ کھول دو " وہ گڑگڑا کر منتیں کر رہا تھا صبوحی غیر محسوس انداز میں دروازے کی طرف بڑھی
"جو ہوا غلط فہمی کی بنیاد پر ہوا ۔۔۔۔ مانتا ہوں میں غلط تھا مجھے اعتماد کرنا چاہئے تھا تمہارے اور فیضان کا مجرم ہوں ۔۔۔ فیضان تو چلا گیا بغیر منانے کا موقع دیے ۔۔۔۔۔ مگر تم تو موقع دو ۔۔۔ صبوحی تمہیں بابا کی قسم صرف ایک بار مجھے معاف کر دو " صبوحی کی آنکھوں نے برسنا شروع کر دیا وہ بند دروازے سے سر ٹکا کر پھوٹ پھوٹ کر رودی اس کی ہچکیوں کی آواز سکندر تک بخوبی پہنچ رہی تھی اسکا ملال بڑھنے لگا تھا چندلمحے دونوں طرف خاموشی چھائی رہی پھر سکندر کی بھیگی آواز نے اسے سن کر دیا
"تم صحیح ہو صبوحی اتنا سب کرنے کے بعدشاید میں معافی کے قابل نہیں رہا ۔۔۔ حیات بھائی نے صحیح سزا سنائی ہے مجھے اس حویلی سے ۔۔۔۔ تم سے ۔۔۔۔ نوائم سے دور چلے جانا چاہئے یہاں میری کوئی جگہ نہیں ہےمعافی کے سب در مجھ پر بند ہیں لیکن جانے سے پہلے ایک گزارش کرنا چاہوں گا ایک بار ۔۔۔۔ صرف ایک بار ۔۔۔ مجھے نوائم سے ملنے دو ۔۔۔ اس کی معصوم صورت کو جی بھر کے دیکھنے دو میرا وعدہ ہے تم سے میں یہاں سے بہت دور چلا جاؤں گا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے... کبھی نہ آنے کے لیے " بات پوری ہوئی تو پھر سے خاموشی چھا گئ دور ہوتے قدموں کی چاپ نے صبوحی کو جھنجھور ڈالا وہ سرعت سے دروازہ کھول کر باہر نکلی
وہ اک لڑکی
جانتےہو تم ؟
وہی ، جو بے توجہی کے سبب
ہمیشہ بے اصول رہتی تھی
وہ اک لڑکی جانتے ہو تم ؟
وہ جسے نیند بہت پیاری تھی
وہ جو ایک خواب کے اثر میں تھی
وہ جو لا علم رہی منزل سے
وہی جو عمر بھر سفر میں تھی
جس نے خوشبو کی تمنا کی تھی ،
اور روندھے گلاب پائے تھے
جس نے اپنی ہی نیکیوں کے سبب ،
رفتہ رفتہ عذاب پائے تھے
وہ جس کا دین ، بس محبت تھا
وہ جس کا ایمان وفائیں تھیں
*#جاری_ہے*

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.