Ads Top

میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 30


میـرے_ہـم_نفس_میـرے_ہمنوا

فریحہ_چـودھـری

#میرے_ہم_نفس_میرے_ہـمنوا
#فریحہ_چـودھـــری ✍
#قسط_30
گوہر غوزہ کو لیے فلیٹ میں چلا آیا دو کمروں پر مشتمل یہ ایک خوبصورت سا فلیٹ تھا غوزہ نے حیرانی سے پہلے فلیٹ کو پھر گوہر کو دیکھا وہ اس کی حیرانی بھانپ گیا تھا تبھی دھیمےلہجے میں بتانے لگا
"یوں سمجھیے یہ آپ کا ہی فلیٹ ہے یہ رہی کیز ۔۔۔ یہاں ضرورت کی ہر چیز دستیاب ہے اگر کچھ اور چاہیے ہو تو۔۔۔۔" وہ اسےہدایات دے رہا تھا جب غوزہ نے اس کی بات کاٹی
"آپ مجھے یہاں کیوں لاۓہیں ؟؟"
"کیونکہ آپ میرے بھائیوں جیسے دوست کی بیوی ہیں ۔۔۔۔۔ ہمارے لیے بے حد قابل احترام ہیں آپ میں نہیں چاہتا آ پ دربدر ہوں ۔۔۔۔ یہ فلیٹ جہانگیر کی ملکیت ہے لہذا اس لحاظ سے آپ کا اپنا ہی ہوا ۔۔۔ امید ہے آپ سمجھ گئ ہوں گی چلتا ہوں.... خدا حافظ " وہ اس کا بیگ ٹیبل پر رکھ کر پلٹ گیا غوزہ ابھی تک حیرت کے زیر اثر وہیں کھڑی تھی خلاف توقع کوئی سوال جواب نہ کیا گیا تھا پوری بات میں کہیں طنز کی کاٹ بھی موجود نہ تھی کیوں ؟؟ اگر ذرا سا گوہر کے لفظوں پر دھیان دیتی تو اس کیوں کا مطلب بخوبی جان لیتی
☆☆☆☆☆☆☆
"آپ میرے سوال کا جواب دیں "جازم اٹھ کر گوہر کے سامنے کھڑا ہو ا اور اسے کھوجتی نگاہوں سے دیکھتا سپاٹ لہجے میں کہنے لگا گوہر نے حیرت سے اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا اس کے انداز اور تیور بدلے بدلے سے تھے جواس میں ایک نئ تبدیلی سے روشناس کروا رہے تھے اگر کوئی بھی اسے دیکھ لیتا تو یقیناً چونک جاتا آج کے جازم میں کچھ ماہ پہلے کے جازم کی کوئی جھلک نہ تھی نہ شوخی نہ الہڑپن ۔۔۔۔ مستی اور شرارتوں بھری نگاہوں میں آج صرف خالی پن تھا انداز میں اک ٹھراؤ تھا قدموں سے تھکن لپٹی تھی آنکھوں سے وحشت چھلکتی تھی
"کیا پوچھنا ہے "
"وہ سب جو آپ جانتےہیں اور ہم سے چھپا رہے ہیں "وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہہ رہا تھا ایک لمحے کو تو گوہر گڑبڑا گیا
"کیا مطلب کیا چھپا رہا ہوں "
" یہ آپ جانتے ہیں اور آپ ہی بتائیں گے کیونکہ آج میں حقیقت سنے بغیر یہاں سے نہیں جاؤں گا کون تھا ان کی موت کا ذمہ دار ؟؟کیا وجہ تھی ؟؟کیسے ہوا سب ؟؟ آپ کو سب بتانا ہو گا آپ کو ہم سے حقیقت چھپانے کا کوئی حق نہیں ۔۔۔۔ ہمارا جو رشتہ ہے وہ آپ کا ہرگز نہ تھا تو کس حق سے
"بکواس بند کرواپنی ۔۔۔۔ تم مجھ پر الزام لگا رہے ہو شرم آنی چاہئے تمہیں آج حق جتاتے ہوۓ تب کہاں تھا یہ حق یہ رشتہ ۔۔۔۔۔ جب اس ہی بھائی کی موت پر تم بہت ریلکس تھے تمہاری آنکھوں سے ایک قطرہ نہ ٹپکا تھا تب کہاں تھی تمہاری سوئی ہوئی یہ محبت ۔۔۔۔ اور کون سے رشتے کی بات کر رہے ہو تم ۔۔۔۔ شاید تم بھول رہے ہو"وہ پل بھر کو رکا ٹیبل پر ہاتھ رکھے آگے کو جھکا اور جازم کی سرخ آنکھوں میں جھانک کر مزید گویا ہوا
" وہ تمہارا سگا بھائی نہ تھا "گوہر کے الفاظ اسے کسی چابک کی طرح لگے تھے اس کے چہرے کا رنگ یکدم ہی سفید پڑا مگر گوہر اس سب سے قطعی بے نیاز بولے جا رہا تھا
"آج تمہیں حقیقت معلوم ہوئی تو اس کی محبت میں دوڑے چلے آۓ اس وقت ذرا سی غلط فہمی پر تم نے منہ موڑ لیا تھا اچھا ہوا مر گیا ورنہ ساری زندگی اس کی محبتوں کو حق سمجھ کر ہی وصول کرتے رہتے تم " چند دن پہلے اسی کے منہ سے نکلے الفاظ آج پھر سے دہراے گۓ تھے جازم کا دل ڈوب کر ابھرا وہ ایک نظر جازم پر ڈال کر ٹیبل سے چابیاں اٹھاتا باہر نکل گیا
زرا یاد کر میرے ہم نفس
میرا دل جو تم پہ نثار تھا
وہ زرا زرا سا جو پیار تھا
تیرے شوخ قدموں کی دھول تھی
تیرا بھی دل بے قرار تھا
وہ گھٹی گھٹی سے نو اے دل
میری آہ درد کی ساز تھی
جو پڑی تھی اشکوں سے ٹوٹ کر
کسی بے خدا کی نماز تھی
جسے رو دیازرازرا
میری بے بسی کا فشار تھا
زرا یاد کر زرا یاد کر
☆☆☆☆☆☆☆
مغیث رات سے حرب کو کال کر رہا تھا مگر وہ جان کر انجان بنی رہی اب متواتر سے بجتے فون کو وہ نظرانداز نہ کر پائی تھی
"ہیلو "آواز سے بے زاری صاف ظاہر تھی دوسری طرف مغیث نے کال پک ہونے پر شکر ادا کیا
"کیسی ہو " ملائمت سے پوچھا گیا حرب نے برا سا منہ بنایا
"آپ سے ذیادہ اچھی اور پیاری الحمداللہ "وہ اترائی تھی مغیث دل ہی دل میں کلسا مگر جب بولا لہجہ پہلے سے بھی نرم تھا
"وہ تو آپ ہیں مائی ڈئیر وائف "
"کیوں کال کی ؟" حرب نے بے نیازی دکھانا فرض سمجھا آخر وہ اس سے ناراض تھی اتنا تو حق بنتاتھا
"تم بغیر بتاۓ چلی آئیں ۔۔۔۔ اتنی لاپرواہی عون کا بھی نہ سوچا " عون کے ذکر پر وہ کچھ مدھم پڑی اس میں کوئی شک نہ تھا کہ وہ اس کے ننھے وجود کی عادی ہو چکی تھی
"حوری "مغیث کی آواز ابھری جس میں بےقراری پنہاں تھی
"ہاں "وہ جیسے کسی خیال سے چونکی تبھی اپنے نام کی بگڑی حالت محسوس نہ کر سکی "میں انکل سے اجازت لے کر آئی ہوں " وہ ہٹ دھرمی سے گویا ہوئی مغیث کو خواہ مخواہ غصہ آیا
"اگر تمہیں یاد ہو تو میں تمہارا شوہر ہوں ۔۔۔۔ مجھ سے اجازت تو دور کی بات بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا " مغیث کی بھاری گھمبیردار آواز میں غصے کی جھلک نمایاں تھی حرب کو شرمندگی نے آن لیا واقع اس نے غلطی کی تھی مگر اب وہ غلطی مان کر اسے مزید باتیں کرنے کا موقع نہیں دے سکتی تھی تبھی اس سے ذیادہ غصیلی آواز میں بولی
"میں گئ خود ہوں تو آ بھی جاؤں گی آپ اپنے دماغ کو خواہ مخواہ کی فکروں میں مت الجھائیں ویسے بھی ڈرامہ باز لوگوں سے آپ کا دور رہنا ہی بہتر ہے "اسے گھر چھوڑنے کی اصل وجہ بھی یاد آ گئ تھی دوسری طرف مغیث غیر محسوس طریقے سے مسکرایا نگاہوں میں اس کا تپا تپا سا چہرہ گھوم گیا
" واقع ہی دنیا بڑی ڈرامہ باز ہےمجھ جیسےمعصوم لوگوں کو بآسانی بےوقوف بنا کر اپنی اداؤں کے جال میں یوں الجھاتیں ہیں کہ بیچارہ دل اپنی جگہ کراہ کر رہ جاتا ہے "وہ اپنی ہی دھن میں لگا ہوا تھا حرب نے تڑاخ سے فون بند کر دیامگر کچھ ہی دیر بعد موصول ہونے والے میسیج نے اسے اچھا خاصہ تپا دیا تھا
"میں تمہارے گھر کے لاؤنج میں موجود ہوں دو منٹ ہیں تمہارے پاس فوراً نیچے آؤ "وہ دل ہی دل میں اسے ڈھیروں گالیوں سے نوازتی دروازے کی طرف بڑھ گئ
☆☆☆☆☆☆☆
"مجھے آپ سے بات کرنی ہے " حیات صاحب ہاتھ کی مٹھی کو تھوڑی کے نیچے ٹکاۓ کسی غیرمرئی نقطے پر نظریں جماۓ ہوۓ تھے صبوحی کی آواز پر چونک کر سر اٹھایا
"ہاں آؤ بیٹھو" وہ اسے صوفے کی طرف اشارہ کرتے سیدھے ہوۓ
"آپ نے سکندر کو یہاں سے جانے کا کہا "وہ بیٹھتے ہی بولی
" ہاں میں نے یہی کہا ۔۔۔ "ان کی آنکھوں میں الجھن صاف دکھائی دے رہی تھی وہ شاید مطلب نہ سمجھے تھے
" اگر بابا زندہ ہوتے تو وہ شاید کبھی ایسا نہ چاہتے " وہ کیا اور کیوں کہہ رہی تھی شاید وہ خود بھی نہ جانتی تھی سکندر کی بے قرار آواز اور پھر سے اسکے دربدر ہونے کا سن کر اس کی بے مول محبت گوارا نہ کر سکی تھی کہ محبوب کو دیکھ کر قرار حاصل کرنے کا بھی حق کھو دیتیں
"بابا بالکل ہی ایسا کرتے صبی ۔۔۔۔ تم نہیں جانتی انہیں تم سے کتنی محبت تھی تمہاری خاطر وہ اپنی ساری اولاد کو قربان کر سکتے تھے اور سکندر ۔۔۔ سکندر کی طرف سے ہوئی زیادتی پر کچھ بعید نہ تھا کہ وہ اسے قتل کر ڈالتے ۔۔۔۔ میں تمہارے ساتھ ہوئی زیادتیوں پر اسے اتنی آسانی سے چھوٹ نہیں دے سکتا ۔۔۔ اسے بھگتنا ہو گا جو گناہ اس سے سرزد ہوا اس کا خمیازہ بھگتنا ہو گا" صبوحی کو لگا اس کے سامنے سجاد صاحب بول رہے ہوں ۔۔۔۔وہ یک ٹک ان کا چہرہ دیکھے گئ
" آپ جو مرضی سزادیں بھائی مگراسے کبھی گھر سے مت نکالیں پردیسی مت کریں ۔۔۔ :"
"یہ تم کہہ رہی ہو "انہیں صبوحی کے جواب نے حیرت میں ڈال دیا "صبوحی تم اسے اتنی آسانی سے کیسے معاف کر سکتی ہو "
"کیوں کہ وہ میرے بابا کا سب سے لاڈلہ بیٹا ہے ۔۔۔۔ بابانے مجھ پر اپنی ساری محبتیں نچھاور کر دیں کیا اب میرا فرض نہیں بنتا کہ ان کے لخت جگر کو بھٹکنے سے بچا لوں ۔۔۔۔ میری آپ سے گزارش ہے بھائی ۔۔۔ ایسا ظلم مت کیجۓ گا "وہ اپنی بات کہہ کر پلٹنے لگی تھی جب حیات صاحب کی آواز نے اس کے قدم جکڑ لیے
"ٹھیک ہے صبوحی ۔۔۔۔ میں تمہاری خواہش کا احترام کرتا ہوں مگر تمہیں میری بات ماننا ہو گی تمہیں نوائم کو ایک نارمل لائف گزارنے کی اجازت دینی ہو گی اس بچی کا کوئی قصور نہیں اسے اس گناہ کی سزا مت دو جو اس نے کیا ہی نہیں ۔۔۔۔ بے شک اسے سکندر سےدور کردو مگر آزاد کر دو " وہ نپے تلے الفاظ میں اپنی بات اس تک پہنچا گئے تھے وہ ہرگز نہ چاہتے تھے کہ ان کے کسی عمل یا لفظ سے اسے تکلیف پہنچے مگر انجان تھے انکے الفاظ نے اسکے زخموں کو پھر سے ادھیڑ کر رکھ دیا تھا درد برداشت سے باہر ہوا تو صبوحی کی آنکھوں میں پانی جمع ہونے لگا
"میں اسے آذاد کر دوں گی بھائی صاحب ۔۔۔۔ میں اسے اس کے باپ کے حوالے کر دوں گی ۔۔۔۔ رہائی دے دوں گی ۔۔۔ اگر اسکاباپ اس کی ذمہ داری قبول کرے تو "وہ ہچکیوں کے دوران بمشکل اپنی بات کہہ پائی حیات صاحب کو اس کی اعلی ظرفی نے نظریں جھکانے پر مجبور کر دیاوہ محبتوں سے گندھی لڑکی کیا سے کیا ہو گئ تھی
"مجھے معاف کر دو صبوحی ۔۔۔ میں تمہارا مقدمہ صحیح سے لڑ نہ پایا کاش سکندر یہ سب نہ کرتا "وہ اس کے سر ہر ہاتھ رکھ کر نم لہجےمیں بولے
"آپ مت مانگیں معافی ۔۔۔مجھے آپ سے کوئی گلہ نہیں اس گھر میں آپ واحد فرد ہیں جو میری ضروریات کا خیال رکھتے رہے ہیں ۔۔۔۔ مجھے ماہانہ جیب خرچ دینے کے ساتھ ساتھ ہمت اور حوصلہ دیتے رہے ہیں جنہوں نے اتنابڑا الزام سن کر بھی میرا ساتھ نہ چھوڑا مجھ پر شک نہ کیا بلکہ محبتوں سے مان بڑھایا ۔۔۔۔ مجھے کوئی گلہ شکوہ نہیں آپ سے "دھیرے سے کہتی وہ پلٹی تھی جب سکندر کو دروازے میں ایستادہ دیکھ کر وہیں جم گئ اس کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ سب سن چکا ہے وہ سر جھٹکتی اس کے پاس سے گزر کر کمرے سے نکل گئ
________
حرب مغیث کے ہمراہ گھر آ گئ تھی راستے کے دوران مغیث بلا تکان بولتا رہا پر حرب کے لبوں پر پڑا قفل نہ ٹوٹا اس نے مغیث کو زچ کرنے کا نیا طریقہ نکالا تھا اپنی خاموشی سے اسے تپانا جلانا ۔۔۔۔۔ گاڑی سے اتر کر وہ سیدھی اندر بڑھنے لگی جب کسی کونے سے نکل کر ادینہ سامنے آ گئ
"آ گئیں ملکہ عالیہ سیر سپاٹے کر کے " وہ طنزیہ لہجے میں پھنکاری تھی حرب نے مطمئن انداز میں بازو سینے پر باندھ لیے
"آپ کو مسئلہ ؟؟؟" وہ کھل کرمسکراتی ادینہ کو اندر تک جلا گئ
"اب بھی گوہر کے ساتھ ہی آئی ہو کیا ؟؟؟ ویسے بہت تیز ہو تم ـ ـ ـ مردوں کو قابو کرنے کا فن بہت آتا ہے تمہیں ۔۔۔۔ اس گھر کے سارے مردوں کو ۔۔۔۔
" تم جو مرضی سمجھو میں تم سے الجھنا نہیں چاہتی کیونکہ جس کی جیسی سوچ ہوتی ہے وہ ویسا ہی سوچ سکتا ہے رہی بات مردوں کی تو تم اپنے لیے کوئی اور ڈھونڈ لو یہ جو بہانے بہانے سے مغیث کے گرد مکھی کی طرح چکر کاٹتی پھرتی ہو نا خوب سمجھتی ہوں مگر یاد رکھنا میں ان عورتوں میں سے ہرگز نہیں ہوں جو تم جیسی چلتروں کے ہتھکنڈوں میں آ کر اپنا گھر اجاڑ لوں ۔۔۔۔ مغیث کو مجھ سے کوئی طاقت نہیں چھین سکتی یہ بات اپنے ذہن میں جتنی جلدی بھٹا لو اچھا ہے " وہ اتنے مضبوط لہجے میں کہہ رہی تھی کہ ادینہ کو سانپ سونگھ گیا پیچھے سے آتے مغیث نے اس کی گفتگو کو مسکرا کر سنا تھا اور اس کی آخری بات پر تو جیسے اس کا دل بلیوں اچھلنے لگا ادینہ پیر پٹختی واپس مڑ گئ
"آہم آہم ہمیں کوئی طاقت آپ سے نہیں چھین سکتی ۔۔۔۔ کیابات ہے آپ کی مائی ڈئیر وائف " وہ سر دھننے لگا تھا
"خبردار جو ذیادہ خوش ہوۓ یہ صرف میں نے اس کا دماغ درست کرنے کو کہا تھا " وہ صاف جتا گئ تھی مغیث بغیر برا مانے مسکراتا رہا
"اور اگر میرا دماغ اس کے لیے خراب ہو گیا تو ۔۔۔۔۔ " اس نے شرارتًا اس کی طرف جھک کر پوچھا
"تو .....میں آپ کو زندہ نہیں چھوڑوں گی کان کھول کر سن لیں " وہ اس کا کان پکڑ کر کھینچنے لگی "جب تک آپ میرے نکاح میں ہیں آپ کسی اور کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتے سنا آپ نے " دھمکی دینے کے چکر میں وہ ڈائیلاگ الٹا بول گئ تھی اس کا احساس اسے مغیث کے جاندار قہقے نے دلایا وہ شرمندگی اور کچھ جھنجھلاہٹ کے ملے جلے تاثرات لیے وہاں سے ہٹ گئ
☆☆☆☆☆☆☆
حیات صاحب سکندر سے رخ موڑے کھڑے تھے ان کی بے رخی اسے کچوکے لگا رہی تھی وہ دھندلائی آنکھوں سے ان کے قدموں میں گر گیا حیات صاحب ہڑبڑا کر فوراً پیچھے ہوۓ
"یہ کیا کر رہے ہو تم ؟؟" انہیں اس حرکت کی شاید امید نہ تھی سکندر کی آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب بہہ نکلا
" کیسے بتاؤں آپ کو ۔۔۔ یہ اتنا عرصہ میں نے کیسے گزارا ہے میں نے۔۔۔۔ نہیں رہ پاؤں گا بھائی میں ۔۔۔۔ میں صبوحی کو چاہتا ہوں عشق کرتا ہوں اس سے ۔۔۔۔ یہ بات مجھے تب ہی محسوس ہو گئ تھی جب اس حویلی سے باہر قدم نکلا تھا ۔۔۔۔ پر اپنی انا کے ہاتھوں مجبور تھا واپسی کا سفر بے حد کٹھن تھا اتنے برس خود میں ہمت جمع کرتا رہا اور پھر سب بھلا کر واپس لوٹ آیا صبوحی کی خاطر آپ سب کی خاطر ۔۔۔۔ مجھے یقین تھا صبوحی ناراض ہو گی ۔۔۔۔مگر میں اسے منا لیتا ۔۔۔ کوئی قسم کوئی واسطہ دے کر ۔۔۔ پر پہلے ہی قدم پر جو حقیقت میرے کانوں نے سنی وہ مجھے اپنی ہی نظروں میں گرا گئ ۔۔۔۔ مجھے مار گئ بھائی ۔۔۔ مجھے ختم کر گئ ۔۔۔ میں مر جاؤں گا بھائی اسے کہیں مجھے معاف کر دیں کم از کم کچھ تو سزا کم ہو اسے سمجھائیں "وہ ان کے قدموں میں بیٹھا دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھے زاروقطار رو رہا تھا حیات صاحب کے دل کو کچھ ہوا
"میں اسے کیسے سمجھاؤں ۔۔۔ کوئی ایک دن کی بات تونہیں ہے ۔۔۔ یہ عرصہ تو برسوں ہر محیط ہے بتاؤ کس کس لمحے کا حساب دو گے تم ۔۔۔۔ کیا اس کی جوانی لا سکتے ہو ۔۔۔۔۔ کیا تم اس کی کھوئی ہوئی خوشیوں سے اس کا دامن دوبارہ بھر سکتے ہو۔۔۔۔ اس کے چہرے کی مسکان ڈھونڈ سکتے ہو۔۔۔۔ نہیں کر سکتے نہ ۔۔۔۔ تم تو اس کی اذیتوں اور برداشت کو شمار بھی نہ کر پاؤ گے ۔۔۔۔ بابا جی کے بعد جو کچھ اس کے ساتھ ہوا وہ ہرگز اتنا اچھا نہیں کہ بھلا دیا جاۓ "حیات صاحب جو بولنا شروع ہوۓ تو بولتے چلے گئے وہ اسے بتا رہے تھے اس کا نواب ولا میں مقام ۔۔۔ وقار اور ندرت کی بے رخی ۔۔۔ ماہی کا رویہ ۔۔۔۔ سکندر کی آنکھوں میں بے یقینی کے ساتھ ساتھ غصہ کی سرخی بھی نمایاں تھی اس سب کا ذمہ دار کون تھا بھلا..... وہ خود
"بولو کیا کہو گے اب تم ۔۔۔۔ کیا اب بھی تم چاہتے ہو کہ وہ تمہیں معاف کرے " حیات صاحب اسے خود احتسابی میں الجھا چھوڑ کر پلٹ گئے سکندر وہیں زمین پر نڈھال سا ہو کر ڈھے گیا
☆☆☆☆☆☆☆
"کیا بات ہے گھر میں بہت خاموشی ہے " اگلے دن ناشتے کی میز پر محسوس کی جانے والی خاموشی تھی جسے حرب نے خصوصا نوٹ کیا تبھی کچن میں آتے ہی ریجا سے پوچھنے لگی
"پتہ نہیں اس گھر میں کیا ہو رہا ہے ہر دن ایک نیا شوشہ ۔۔۔۔ چھوڑو تم سکندر انکل سے ملی "
"ہاں بس سرسری سی ملاقات ہوئی تھی "حرب نے لاپرواہی سے کندھے جھٹکے
"سنا ہے تمہارے بابا کے بہت اچھے دوست تھے " ریجا متجسس ہوئی
"ہاں اس دن امی کی زبانی معلوم ہوا ورنہ تو مجھے بالکل علم نہ تھا ۔۔۔ کیا سکندر انکل صبوحی پھوپھو کے ہزبینڈ ہیں "حرب کے پوچھنے پر ریجا نے اثبات میں سر ہلایا
"ہاں ایسا ہی ہے ۔۔۔۔ تم نے نوائم کو دیکھا ؟؟؟ بہت معصوم سی ہے بے حد پیاری " ریجا محبت سے بولی
"نہیں میں نے نہیں دیکھا ۔۔۔ ملواؤ مجھے بھی ۔۔۔ کہاں ہے وہ ۔۔۔۔انکل کے ساتھ آئی ہےکیا ۔۔۔۔ مگر ان کی تو صرف ایک ہی بیٹی ہے ۔۔۔۔ انامتہ " حرب نے سوال پر سوال کرنا شروع کر دیے ریجا ہنس دی
"ارے بے وقوف نوائم ۔۔۔۔ صبوحی پھوپھو کی بیٹی ہے ۔۔۔بس انہوں نے اسے کمرے تک محدود رکھا تھا اس دن انامتہ اسے سکندر انکل سے ملوانے لائی ۔۔۔۔ بہت ہی غصہ
ہوئیں پھوپھو بلکہ انامتہ کو تو ایک لگا بھی دی " وہ رازارانہ انداز میں سرگوشی کر رہی تھی حرب کو شدید حیرت ہوئی
"اووہ ہ " اس نے اوہ کو کافی لمبا کھینچا
"سنا ہے صبوحی پھوپھو اب اسے سکندر انکل کے پاس رہنے کی اجازت دے رہی ہیں دیکھو کیا بنتا ہے ۔۔۔۔ جاؤ تم ذرا یہ چاۓ انکل کو دے آؤ "ریجا نےبات سمیٹ کر ٹرے حرب کو تھمائی
" مگر انکل تو ناشتے کے بعد چاۓنہیں پیتے ۔۔۔ اور کیا وہ آج آفس نہیں گئے "وہ الجھی تھی ریجا نے اس کے سر پر چت لگائی
"اف سکندر انکل کو دے آؤ "
"اوہ اچھا " وہ سر ہلاتی پلٹ گئ
☆☆☆☆☆☆☆
"پتہ نہیں کتنی تیز عورت ہے ۔۔۔۔ جوانی میں حرب کے باپ کو پھانس لیا اور اب سکندر انکل کو پیچھے لگا لیا ہے اف کس قدر شاطر عورت ہے توبہ " وہ کان کو ہاتھ لگاتے تاسف سے سرہلاتی فابی کی کسی بات کا جواب دے رہی تھی مگر آواز اتنی بلند ضرور تھی کہ پیچھے سے آتے گوہر اور انامتہ کے کانوں تک پہنچ سکتی
" ادینہ " گوہر بلند آواز دھاڑا تھا وہ اچھل پڑی گوہر کے چہرے پر نظر پڑتے ہی سمجھ گئ کہ وہ اس کے زہر میں ڈوبے لفظ بخوبی سن چکا ہے گوہر بے حد نرم گو اور صلح جو طبیعت کا مالک تھا دھیمہ دھیمہ بولنے والا محبت سے چور لہجہ سامنے والے کو اپنا دیوانہ کر دیتاتھا نواب ولا کی دیواروں نے کبھی اس کی اونچی آواز نہ سنی تھی مگر آج ۔۔۔۔۔۔ادینہ کو اس کے تیور خطرناک لگے
"سوچ سمجھ کر بولا کرو ۔۔۔۔ کم از کم یہ ہی دیکھ لیا کرو جس کے بارے میں تم بات کر رہی ہو وہ عمر میں تم سے کتنا بڑا ہے " گو کہ گوہر کی آواز اب اونچی نہ تھی مگر ادینہ کو اس کا سرد پھنکارتا لہجہ ہی گونگا کر گیا عقب سے آتی کھنکار دار آواز پر سب کی توجہ بٹ گئ حرب مسکراتے ہوۓ گوہر سے مخاطب تھی
" ارے کہاں جا رہے ہیں آپ دونوں صبح صبح اتنا تیار شیار ہو کر...ہممم " وہ معنی خیزی سے آنکھیں گھما گھما کر دونوں کو دیکھ کر سوال کر رہی تھی انامتہ گڑبڑا گئ جبکہ گوہر پراعتماد طریقے سے ازلی مسکراہٹ لبوں پر سجاۓ حرب کو جواب دے رہا تھا
"انکل نے کہا انامتہ کا ایڈمیشن کروا دوں یونیورسٹی میں ...بس اسی سلسلے میں محترمہ کے ساتھ جا رہا ہوں " گوہر نے انامتہ کی طرف اشارہ کیا
" اوکے گڈ لک جاؤ جاؤ دیر نہ کریں " وہ انہیں گڈ باۓ بول کر سیڑھیاں چڑھ گئ ادینہ دل ہی دل میں جل بھن رہی تھی
" دیکھا ۔۔۔۔ کیسے ہنس ہنس کر بات کر رہا تھا اس چلتر عورت سے ۔۔۔۔اور مجھ پر ۔۔۔اونہہ ۔۔۔ " ان کے نکلتے ہی اس نے فانیان سے اپنا دکھ باٹنا شروع کیا مگر وہ کندھے اچکاتالاپرواہی کا اظہار کرتا باہر کی طرف بڑھ گیا
☆☆☆☆☆☆☆
"انکل آپ کی چاۓ " حرب نے مسکرا کر چاۓ کا کپ ٹیبل پر رکھا وہ کرسی پر بیٹھے سوچ کی گہرائیوں میں گم
تھے جب حرب دستک دے کر اندر داخل ہوئی وہ اسے پہچان نہ پاۓ تھے
"آئم سوری بیٹا ۔۔۔۔ میں تمہیں پہچانتا نہیں ہوں " وہ دھیرے سے رسما مسکرائے حرب ان کے سامنے بے تکلفی سے بیٹھ گئ
"مگر میں تو آپ کو جانتی ہوں نا ۔۔۔۔۔ اور مجھے جاننے کے لیے اتنا ہی کافی ہے میں آپ کے دوست کی اکلوتی بیٹی ہوں " وہ حسب عادت چہک رہی تھی سکندر صاحب کے چہرے پر دکھ کے ساۓ گہرے ہونے لگے
"ارے آپ تو پریشان ہو گئے میرا ایسا ویسا مطلب نہیں تھا میں تو ۔۔۔ " وہ گھبرا کر صفائی دینے کی کوشش میں تھی جب انہوں نے مسکرا کر ہاتھ اٹھا کر نرمی سے اسے روک دیا
"نہیں میں ٹھیک ہوں ۔۔۔ تم آرام سے بیٹھو "وہ اسے کچھ پراسرار لگے تھے
"بالکل اپنے باپ جیسی ہو ۔۔۔۔ وہی محبت بھرا دل وہی پیاری باتیں "انہیں گزرے دنوں کی یاد ستانے لگی تھی جس کا عکس چہرے پر صاف نظر آ رہا تھا مگر حرب کی کمپنی میں وہ بور کیسے ہو سکتے تھےبہت جلد وہ انہیں دکھ کے فیز سے وقتی ہی سہی نکال چکی تھی
☆☆☆☆☆☆☆
"کیوں بلایا تم نے مجھے یہا ں " وہ اردگرد سے نظریں ہٹا کر سامنے بیٹھی اس خوبصورت اور بے حد ماڈرن جدید تراش خراش کے آدھے ادھورے لباس میں ملبوس دوشیزہ کو حقارت سے دیکھتے ہوۓ بولا وہ بالوں کی لٹوں کو اپنی انگلیوں پر لپیٹتی طنزیہ ہنسی اس کی ہنسی میں بھی ایسی جلترنگ تھی کہ کئ لوگوں نے ٹھہر کر یہ منظر دیکھا جازم کو یکدم کراہیت کا احساس ہوا ایک وقت تھا کہ وہ بھی یوں اس کی مسکراہٹ میں کھو جاتا تھا اور آج ۔۔۔ وہ سر جھٹکتا اس کی طرف متوجہ ہواجو بڑے مطمئن انداز میں اس کے صبر کو آزما رہی تھی
"سب سے پہلے کیا سننا چاہو گے مسٹر جازم ایاز شاہ " وہ چونک گیا تھا ٹھہر گیا تھا آنکھوں کی پتلیاں پل بھر کو ساکت ہوئیں تھیں
"ہاہاہا ۔۔۔۔ ارے تمہیں کیا ہوا ابھی تو میں نے کچھ بھی نہیں کہا " وہ پھر سے ہنسی تھی ابھی جانے وہ کتنی دیر یونہی چوہے بلی کا کھیل کھیلتی رہتی پر جازم کی آنکھوں میں اترتی غصے کی سرخی پر اسے سنجیدہ ہونا پڑا
"غوزہ سے مجھے نفرت تھی... کیوں تھی ....وجہ میں خود بھی نہیں جانتی تھی شاید یہ نفرت نہ ہو ....احساس برتری ہو...... اینی وے یہ نفرت اس وقت حد سے بڑھ گئ جب جہانگیر نے میری جگہ اسے فوقیت دی جہانگیر ہاں بالکل وہی جہانگیر.... میری پہلی نظر کی محبت ... تمہارا بھائی... سگا نہ سہی ... "وہ پھر سے ہنسی
"جسے دیکھ کر میرا دل میرا نہ رہا تھا مگر افسوس اس نے مجھے ریجیکٹ کر دیا ....مجھے"اسنے اپنی طرف اشارہ کیا..
." فاریہ زمان کو... جس کی ایک جھلک پر لوگ مرنے مارنے پر تل جاتے تھے ....ویسے بہت معصوم ہو تم بلکہ نہیں.... شایدبے وقوف زیادہ ہو ...میں نے جہانگیر تک پہنچنے کے لیے تمہارا سہارا لیا مجھے لگا تھا میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤں گی مگر وہ تو مجھ سے بھی شاطر نکلا اس نے میری ہی بازی مجھ پر الٹ دی وہ میرے ذریعے میرے بھائیوں تک پہنچ گیا ہمارا کاروبار تباہ وبرباد کر دیا میں توآزاد ہو گئ مگر میرے باپ کا آج تک کچھ پتا نہیں جانے وہ زندہ بھی ہیں یا ۔۔۔۔۔ "وہ ہچکی بھر کر خاموش ہو گئ جازم سیدھا ہوا
" جیسی کرنی ویسی بھرنی " طنز سے بھرپور مسکراہٹ نے فاریہ کے تن بدن میں آگ لگا دی
"ابھی کھیل ختم نہیں ہوا مسٹر ۔۔۔۔ اب تم خمیازہ بھگتو گے ۔۔۔۔تمہارے بھائی نے جو ہمارے ساتھ کیا تم حساب دو گے۔۔۔ زمان شاہ کو بھی تم ہی لاؤ گے اور میرے بھائیوں کو رہائی بھی تمہاری بدولت ملے گی۔۔ سنا تم نے دو دن ۔۔ دودن ہیں تمہارے پا س سوچ سمجھ کر جواب دینا
ورنہ۔۔۔۔ " اس نے بات ادھوری چھوڑ دی
"ورنہ ۔۔۔۔ " اس کی مسکراہٹ سے وہ کوئی معنی نہ اخذ کر پایا تبھی پوچھ بیٹھا مگر اس کے منہ سے نکلے الفاظ نے اسے اپنی جگہ سن کر دیا
"جہاں تک مجھے معلوم ہے ایک عدد بہن بھی ہے تمہاری " وہ اسے حق دق چھوڑ کر اٹھ گئ تھی کتنی ہی دیر وہ بغیر حرکت کیے ساکن بیٹھا گلاس ونڈو کے پار دیکھتا رہا اچانک بے حد اچانک آنکھوں کے سامنے ایک مانوس سا عکس ابھرا تھا اس نے پلکیں جھپک کر بار بار یقین کرنے کی کوشش کی تھی کہ آیا جو اس نے دیکھا وہ حقیقت تھا یا خیال ۔۔۔۔۔ پھر سے جھماکہ یوا تھا وہ برق رفتاری سے اٹھا اور نیچے کی جانب بھاگا بھیڑ میں جگہ بناتے آس و کشمکش میں ڈوبتے دل کو سنبھالتے وہ دوڑے چلا جا رہا تھا پارکنگ تک پہنچتے پہنچتے اس کا سانس پھول چکا تھا اس نےادھر ادھر دیکھا ہر طرف خاموشی تھی جس ساۓ کے پہچھے وہ بھاگا تھاوہ کہیں نہ تھا وہ گھٹنے پر ہاتھ رکھے آنکھیں میچتا زمین پر جھکتا چلا گیا
"شاید میرا وہم تھا بھیا یہاں کیسے ہو سکتے ہیں "
*#جاری_ہے*

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.