Ads Top

میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 28


میـرے_ہـم_نفس_میـرے_ہمنوا

فریحہ_چـودھـری

#میرے_ہم_نفس_میرے_ہـمنوا
#فریحہ_چـودھـــری ✍
#قسط_28
عشق میں غیرت جذبات نے رونے نہ دیا
ورنہ کیا بات تھی کس بات نے رونے نہ دیا
آپ کہتے تھے کہ رونے سے نہ بدلیں گے نصیب
عمر بھر آپ کی اس بات نے رونے نہ دیا
رونے والوں سے کہو ان کا بھی رونا رو لیں
جن کو مجبورئ حالات نے رونے نہ دیا
تجھ سے مل کر ہمیں رونا تھا بہت رونا تھا
تنگیٔ وقت ملاقات نے رونے نہ دیا
ایک دو روز کا صدمہ ہو تو رو لیں فاکرؔ
ہم کو ہر روز کے صدمات نے رونے نہ دیا
سدرشن فاکر
"جازم کیا کر رہے ہو تم " بی جان نے سرعت سے آگے بڑھ کر اسے پیچھے کھینچا
"چھوڑیں مجھے۔۔۔چھوڑ دیں۔ مر جانے دیں مجھے"وہ بے قابو ہوتا پھنکارا تھا بےحد طیش میں انکے ہاتھ جھٹکتا سرائمگی کی انتہا کو چھوتا وہ انہیں عجیب نظروں سے تکنےلگا بی جان کو اس کی حالت چونکا گئ
"کیا ہوا ہے جازم ۔۔۔ مجھےبتاؤ "وہ ٹھہر سی گئ تھیں
"یہ پوچھیں کیا نہیں ہوا ۔۔۔۔ سب ختم ہو گیا بی جان سب ختم ہو گیا "وہ وہیں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر نڈھال سا بیٹھ گیا گردن اکڑا کر چلتا دوستوں محفلوں کی جان جازم شاہ آج زمین پر بیٹھا بے بسی اور اذیت کی انتہاوں کو چھوتا خود بھی بے یقیں سا تھا جو کچھ اس نے سنا اس حقیقت کو ماننے سے ذہن انکاری تھا دل نفی کررہا تھا شدومد سے
"آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا کہ میں آپ کا سگا بیٹا نہیں ہوں.... بتائیں ..کیوں میری شناخت چھپاۓ رکھی"اسکے لب کپکپا گۓ تھے وہ سوال پر سوال کر رہا تھا جواب مانگ رہا تھا بی جان کواسکے الفاظ پر جھٹکا لگا
"تو تمہیں پتہ چل گیا "وہ گہرا متاسفانہ سانس بھر کر کھڑکی میں جا کھڑی ہوئیں
"میں نے جہانگیر سے وعدہ کیا تھا کہ تم سے یہ حقیقت چھپانے میں اس کا ساتھ دوں گی" چند لمحوں بعد بی جان کی آواز اسے سماعتوں میں اترتی محسوس ہوئی
" ویسے بھی ایسی شناخت کا کیا فائدہ جب بے نشان ہی رہنا ہو ۔۔۔۔۔ کیا فرق پڑتا ہے کہ تم کس کے بیٹے ہو تمہارا اصل کیا ہے ۔۔۔۔تمہیں یہ سوچنا چاہئے کہ تم نے ایک با عزت گھرانے میں پرورش پائی ہے بہترین تعلیم حاصل کی ہے تمہیں زندگی کی ہر آسائش مہیا کی گئ رہی بات رشتوں کی تو مجھ سے کوئی رشتہ نہ سہی مگر میں نے کبھی تمہیں بیٹے سےکم نہیں سمجھا پھر جہانگیر بھی تو تھا وہ تو تمہارا سگا رشتہ تھا ۔۔۔۔ "وہ نرمی اور رسان سے سمجھا کر اس کی تکلیف کم کرنے کی کوشش کررہی تھیں مگر وہ مزید اذیتوں میں گھرنے لگا
"میں کچھ نہیں سوچنا چاہتا بی جان ۔۔کچھ جاننا نہیں چاہتا ۔۔ اس وقت میرے سینے میں آگ لگی ہے جی چاہتا ہے اسی آگ میں جل کر خاک ہو جاوں ختم ہو جاوں"انتہائی بے بسی سے کہتے وہ پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رو دیا بی جان دھیرے سے پلٹی اور اس کے قریب بیٹھ کر محبت سے اس کا سر اپنے ساتھ لگا لیا کندھا پاتے ہی اس کا ضبط بری طرح بکھر گیا
"چپ کر جاؤ جازم ۔۔۔۔ میں سب جانتی ہوں " چند لمحوں بعد اس نے بی جان کو کہتے سنا وہ جھٹکے سے سر اٹھا کر انہیں دیکھنے لگا
"جس دن جہانگیر نے نکاح کیا تھا اس نے مجھے فون کر کے بتایا تھا اس دن وہ کتنا خوش تھا اس کی آواز سے ہی ظاہر تھا مگر اسے خوشی شاید راس نہیں آتی تم نے جب اچانک جانے کی اطلاع دی تو مجھے خوشی ہوئی حیرت بھی.. تم جہانگیر کو سرپرائز دینا چاہتے تھے مگر مجھے یقین تھا کہ تم خود سرپرائز ہو جاؤ گےتمہاری بےرخی اور گھر چھوڑنے کا واقعہ بھی میرے علم میں تھا اور یہ سب جہانگیر نے نہیں ہماری ملازمہ نے اگلے دن فون کر کے بتایاتھا میں بےحد حیران تھی لاکھ سوچنے پر بھی تمہارے رویے کا کوئی سرا میرے ہاتھ نہ آیا تھا تب میں نے جہانگیر سے بات کی تھی اسنے تمہارے الفاظ ہی دہرا کر میرے خدشے کی تصدیق کر دی تم مہرو میں انوالو تھے "وہ پل بھر کو رکیں جازم شرمندگی سے نظریں نہ اٹھا سکا "مجھے حیرت کے ساتھ ساتھ دکھ بھی ہوا تھا کہ محض چھوٹی سی بات پر تم نے جان چھڑکنے والے بھائی کی تڑپتی محبت کو بھی نظرانداز کر دیا یاد ہے جب تم چھوٹےسے تھے کیسے نخرے اٹھاتا تھا وہ تمہارے حالانکہ وہ عمر خود اس کے نخرے کرنے کی تھی تمہاری تکلیف پر تڑپنے والا تمہارے لیے اپنی خوشی برباد کرنے والا جہانگیر جب اپنے حصے کی خوشیوں وصول کرنے کا وقت آیا تو تم برداشت نہ کر سکےمجھے بہت افسوس ہوا تھا جازم بے حد افسوس ۔۔۔ مگر میں خاموش رہی میں جانتی تھی تمہیں میری باتیں میرا سمجھانا برا لگے گا مگر تم اس وقت سمجھو گے جب حقیقت خود آئینے بن کر سامنے آۓ گی "یہ کہہ کر وہ رکی نہیں تھیں جازم کو پاتال کی گہرائیوں میں دھکیل کر وہ کمرے سے نکل گئیں وہ اپنی جگہ سن بیٹھا رہ گیا
☆☆☆☆☆☆☆
سکندر کو ہوش آ گیا تھا ڈاکٹر سے اجازت لے کر حیات صاحب اس سے ملنے آۓ وہ سفید بستر پر آنکھیں موندے لیٹا تھااتنے عرصے بعد اس چہرے کو دیکھ رہے تھے جہاں بہت کچھ بدل گیا تھا وہ وقت سے پہلے بوڑھا ہو گیا تھا کمزوری اور نقاہت نے آنکھوں کے گرد حلقے اور رنگت زرد کر دی تھی انہیں یقین کرنا مشکل ہو رہاتھا کہ یہ وہی سکندر ہے جسے وہ جانتے تھے وہ دھیرے دھیرے چلتے اس تک آۓ
"سکندر "دھیمے لیجے میں سنبھل کر پکارا تھاسکندر نے فورا آنکھیں وا کیں کئ ثانیے خود پر جھکے اپنے بڑےبھائی کو دیکھتے رہے
"سکندر کیسی طبیعت ہے "انہوں نے نرمی سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا وہ بے اختیار ضبط کھو بیٹھا
"بھائی مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئ بھائی ۔۔۔۔ میں بہک گیا تھا سچ جھوٹ میں پہچان نہ کر سکا کیسے معافی مانگوں گا میں کیسے ۔۔۔۔۔اور فیضی ۔۔۔۔ میرا یار کتنا ذلیل کیا میں نے اسے ۔۔۔۔۔ چلا گیا وہ ۔۔۔۔ بھائی وہ چلا گیا "اس کی ہچکی بندھ گئ حیات صاحب اسے خاموش کرواتے ہلکان ہو رہے تھے
"کتنا تڑپا ہو گا وہ ۔۔۔۔ کتنا درد سہا ہو گا اس نے ۔۔۔۔ کتنا بد نصیب ہوں میں دوست کی قدر نہ کر سکا۔۔۔۔ اور اس نےکیسی سزادی ۔۔۔ ہمیشہ کے لیے روٹھ کر چلا گیا ۔۔۔۔ کہاں ڈھونڈوں گا اسے ۔۔۔۔ کہاں سے لاؤں اپنا یار "آنسو تواتر سے اس کا چہرہ بھگو رہے تھے
"چپ کر جاؤ سکندربس کر دو " اسے تسلی دیتے دیتے حیات صاحب کی اپنی آنکھیں نم ہونے لگیں کیسے کہتے کیسے جتاتے اسے کہ وہ اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کا ناقابل تلافی نقصان کر چکا ہے
☆☆☆☆☆☆☆
تمہاری چاہت نے آنسوؤں کے تحفے دئیے
باتوں نے یادوں کے تحفے دیے
اس لیے اندھیروں سے لپٹ کر رو پڑےہم
کیونکہ اجالوں نے بہت سے دھوکے دیے
رات ڈھل چکی تھی یہ اس حویلی میں اس کی آخری رات تھی ملازم دوپہر میں ہی جا چکے تھے وہ خالی خالی نظروں سے دیواروں کو تکے جا رہی تھی ان دیواروں میں اسے کئ چہرے دکھائی دینے لگے کچھ کا عکس واضح تھا اور کچھ وقت کی گرد میں اٹےدھندلا چکے تھے وہ نہیں جانتی تھی اب کہاں جاۓ گی اتنی بڑی دنیا میں کوئی جاۓپناہ تھی بھی یا نہیں
اس کاذہن مختلف سوچوں میں گھرنے لگا اس حویلی کے باہر موت تھی جہانگیرکی موت کوئی معمولی بات نہ تھی اس کے قاتل کی تلاش جاری ہو گی ایسےمیں اس کا گھر سے باہر نکلنا کسی خطرے سے خالی ہرگز نہ تھامگر کوئی چارہ بھی نہ تھا بالفرض جہانگیر زندہ بھی ہوتا تو کیا وہ اسےمعاف کر دیتا ہرگز نہیں ۔۔۔۔ اس کے دماغ نے فورا اس خیال کی نفی کی تھی اس کی خشک ہو چکی آنکھوں میں پھر سے گرم سیال جمنے لگا
☆☆☆☆☆☆☆
وہ عون کے ساتھ ہی بیڈ پر لیٹی اسکی قلقاریوں سے محفوظ ہو رہی تھی وہ بار بار اس کی انگلی کو مٹھی میں دبا کر زور زور سے ہلا کر خوش ہو رہا تھا حرب کا ذہن جازم کی طرف چلا گیا وہ ہرٹ ہوا ہو گا مجھے اس سے بات کرنی چاہئے اس سے پہلے کہ وہ اپنی سوچ کو عملی جامہ پہناتی مغیث دروازہ کھول کر سیٹی بجاتا اندر داخل ہوا
"آپ کو اتنی بھی تمیز نہیں کہ کسی کے کمرے میں بنا اجازت داخل نہیں ہوتے "حرب نے اسے آداب سکھانا ضروری سمجھا
"آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ میرے بیٹے کا کمرہ ہے جب مرضی آؤں " وہ کون سا کم تھا بغیر برا مناۓ بولا حرب ایک گھوری ڈال کر کرسی پر جابیٹھی مغیث اس کی چھوڑی جگہ پر دراز ہوگیا نظریں ہنوز اس ہر تھیں
"تم نے کبھی بتایا نہیں کہ جہانگیر تمہارا سگا بھائی ہے ۔۔۔ بڑے ہی میسنے ہو دونوں بہن بھائی بڑی پلاننگ کرنی پڑی دونوں کو ۔۔۔ اس گھر میں جگہ بنانے کے لیے واؤ آئی رئیلی امپریسڈ "وہ عون کو سینے پر لٹاتے ہوۓ بولا حرب نے مڑ کر اس کا چہرہ دیکھا آیا وہ مزاق تو نہیں کر رہا مگر وہ سنجیدہ تھا
"کیا مطلب ہے اس بات کا ۔۔۔۔ آپ کو یہ سب ڈرامہ لگ رہا یے " اس کی بے تکی بات پر حرب کو غصہ آیا تھا وہ جھٹکےسےاٹھی
"ہاں تو کیا غلط کہہ رہا ہوں "وہ بھی اٹھ کر عین اس کے سامنے آ گیا "کیا یہ سچ نہیں کہ تم نے مجھ سے چھپایا ۔۔۔۔ جہانگیر نے بھی آج تک کہیں تمہارا ذکر تک نہیں کیا کہ تم جیسی مخلوق سےاس کا کوئی تعلق ہے۔۔۔۔۔ صاف صاف ظاہر ہے بڑی چالاکی سے منصوبہ بندی کے تحت "
"بس کرجائیں "حرب بات کاٹ کر چیخی تھی ضبط سے اس کاچہرہ سرخ ہونے لگا
"جب آپ پوری بات سے لاعلم ہیں تو آپ کو کوئی حق نہیں الزام لگانے کا ۔۔۔ اور اگر پھر بھی آپ کو ایسا لگتا ہے تو ٹھیک ہے جو مرضی سمجھیں مجھے ہرگز شوق نہیں آپ کے منہ لگنے کا "وہ پیر پٹختی باہر نکل گئ مغیث نے گہری سانس بھر کر بالوں میں ہاتھ پھیرا یقیناً حرب ناراض ہو چکی تھی وہ اکثر اسے منانے کی کوشش میں مزید ناراض کر دیتا تھا گوہر ہی کی زبانی اسے معلوم ہوا تھا کہ جہانگیر اور حرب سگے بہن بھائی ہیں اور فیضان شاہ جو کہ نہ صرف حرب کے والد تھے بلکہ سکندر کے بہترین دوست تھے اس کے خیال میں حرب سب جانتی تھی اسے حرب پر شدید غصہ آیا تھا جس نے اسے لاعلم رکھا اور اسی غصے میں وہ نہ جانے کیا کیا کہہ گیا تھا اور اب اسکی ناراضگی پر اس کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا
"اف ایک یہ لڑکی ۔۔۔۔ مجال ہے جو آرام سےکچھ برداشت کر لے "
☆☆☆☆☆☆☆
"امی ۔۔۔۔۔"نوائم نے صبوحی کا بازو ہلا کر اسے متوجہ کیا
"آ ۔۔۔۔ہاں " وہ جیسے گہری نیند سے جاگی تھی
"مجھے وہاں جانا ہے " اس نے انگلی سے کھڑکی سے باہر اشارہ کیا جہاں بڑے سے پول کے پاس رنگ برنگے پھولوں کا باغیچہ تھا یہ خواہش کوئی نئ تو نہیں تھی وہ اکثر و بیشتر اظہار بھی کرتی رہتی تھی مگرصبوحی کے ڈپٹنے پر اسے خاموش ہونا پڑتا آج نہ جانے صبوحی کے دل میں کیا آئی اس نے ہامی بھر لی نوائم بری طرح خوش ہوئی تبھی دروازے کی دستک پر صبوحی چونک پڑی عرصہ ہوا اس کے دروازے پر کسی نے دستک نہ دی تھی مگر آج ۔۔۔۔۔ وہ اٹھ کر دروازے تک آئی
"کون ۔۔۔۔۔"جواب ندارد دستک دوبارہ ہوئی مجبوراً
صبوحی کو دروازہ کھولنا پڑا سامنے کھڑے وجود پر نظر پڑتے ہی وہ یکلخت ساکت ہو ئی مقابل کی حالت اس سے بھی عجیب تھی دونوں کے لب خاموش مگر نگاہیں بے یقین تھیں سب سے پہلے صبوحی کو ہوش آیا وہ تیزی سے دروازہ بند کرنے لگی مگر سکندر کی دخل اندازی پر اسے رکنا پڑا
"صبوحی پلیزمیری بات سن لو " وہ دروازے پر ہاتھ رکھے آنکھوں میں التجا لیے ایک بے بس مجرم کی مانند سر جھکاۓ کھڑاتھا مگر صبوحی کو اس پر ترس نہ آیا تھا آتا بھی کیوں اور کیسے... اسکی بربادیوں کا ذمہ دار ...اسکے وجود اور کردار کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے والا ظالم انسان اگر آج دگردوں حالت میں اسکے سامنے تھا تو کیسے وہ سب بھلا کر پھر سے اسے استقبالیہ مسکراہٹ کی جلا بخش دیتی اتنا ظرف اتنا حونصلہ تو نہ تھااس میں ساری تلخیاں زیادتیاں گزرے ہر درد کی مسافتوں کے رنگ پل بھرمیں سمٹ کر اسکی آنکھوں میں آ ٹھہرے
"دروازہ چھوڑیں اور چلے جائیں آپ یہاں سے " وہ اجنبی لہجے میں پھنکاری تھی
"امی "نوائم کی ڈری سہمی سی آواز کمرے میں گونجی جو کہ سکندر کے کانوں تک با آسانی پہنچ گئ تھی وہ تڑپ کر مزید ایک قدم آگے آیا
"صبوحی یہ ۔۔
"جاؤ یہاں سے " وہ اس کی بات درمیان میں کاٹ کر چلائی
"یہ۔۔۔۔ یہ میری بیٹی ہے نا " وہ شاید اسے سن نہ رہا تھا صبوحی کو اس کی بات نے طیش دلا دیا
"نہیں ۔۔۔۔ نہیں ہے یہ تمہاری بیٹی ۔۔۔۔ گناہ یہ ایک گناہ ہے سنا تم نے ۔۔۔۔۔ وہ گناہ جسے تم نے اپنے سر لینے سے انکار کر دیا تھا جانے کس بدنصیب بدکردار کی بیٹی ہے یہ ۔۔۔۔ تم کیا لینے آۓ ہو اب یہاں جاؤ چلے جاؤ ۔۔۔ چلے جاؤ " صبوحی کے الفاظ کسی چابک کی طرح لگے تھے وہ دروازہ اسکے منہ پر بند کر کے پلٹ گئ اسکا وجود مزید پچھتاوؤں میں گھرنے لگا
کاش وہ وقت کو موڑ سکتا کاش وہ ایسا نہ کرتا
کاش اس وقت فیضان سے سچائی معلوم کرنے کی کوشش کی ہوتی
صبوحی برحق تھی آج وہ کس حق سے اسے اپنی بیٹی کہہ رہا تھا اسے یہ سب سننا تھا وہی کاٹنا تھا جو بویا تھا
"میں جارہاہوں سکندر ۔۔۔۔ ایک وقت آۓ گا جب تمہیں میری بے گناہی پر یقین آۓگا مگراس وقت یہ دوست تمہیں کہیں نظر نہیں آۓ گا "اسے بار بار ان الفاظ کی بازگشت سنائی دینے لگی وہ سر ہاتھوں میں تھام کر مرے مرے قدموں سے واپس پلٹ گیا
*#جاری_ہے*

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.