Ads Top

میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 27


میـرے_ہـم_نفس_میـرے_ہمنوا

فریحہ_چـودھـری


#میرے_ہم_نفس_میرے_ہـمنوا
#فریحہ_چـودھـــری ✍
#قسط_27
حرب تیز تیز سیڑھیاں اتر کر نیچے آٸی تو سامنے کا منظر دیکھ کر اس کے پاٶں سے زمین نکل گٸ اس کی ماں صبوحی کے قدموں میں بیٹھی زاروقطار رو رہی تھی اور صبوحی ۔۔۔۔ وہ کسی بے جان مورت کی مانند ساکت نگاہوں سے حمیرا کا چہرہ تکے جا رہی تھیں دروازے کے قریب ہی گوہر اور جازم موجود تھے جو الجھی نظروں سے باری باری سب کو دیکھ رہے تھے وہ تیزی سے آگے بڑھی
"اٹھو حمیرا اوپر بیٹھو " سمعیہ بیگم نے حمیرا کابازو تھاما
"نہیں بھابھی ۔۔۔۔ مجھے اتنی عزت مت دیں ۔۔۔۔ میں مجرم ہوں ۔۔۔ قاتل ہوں اپنے بچوں کی خوشیوں کی ۔۔۔ صبوحی کی گنہگار ہوں... قصوروار ہوں میں "وہ ہاتھ چھڑا کر پھر سے صبوحی کی طرف پلٹی
"میں جانتی ہوں صبوحی ۔۔۔ تم سے معافی مانگنے کے بھی لاٸق نہیں ہوں میں ۔۔۔۔ میں معافی مانگوں گی بھی نہیں ۔۔۔۔ میں صرف حقیقت بتانے آٸی ہوں ۔۔۔۔ فیضان کی بے گناہی کا ثبوت بن کر آٸی ہوں " وہ آنسو صاف کرتی اٹھ کھڑی ہوٸیں اور پھر وہ سب بتاتی چلی گٸ تھیں وہ اس جان لیوا سچ سے پردہ اٹھا رہی تھیں جو ایک قیامت بن کر سب کے دلوں پر برس رہا تھا جازم بے یقینی سے چند قدم آگے بڑھا
"مجھے لگا جوجو اور جازم بھی اسی آگ میں جل گٸے ہوں گے جس میں فیضان اور تہمی مگر میں غلط تھی خدا جسے زندہ رکھنا چاہتا ہو اسے کیسے کوٸی موت دے سکتاہے جہانگیر کو صحیح سلامت دیکھ کر مجھے حیرت کےساتھ ساتھ بے حد خوشی ہوٸی تھی ایاز نے اپنے بیٹے کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی تھی مگر تھک ہار کر بیٹھ گیا وہ جازم کے ذریعے تہمی کا حصہ لینا چاہتا تھا مگر شہاب اس سے بھی شاطر کھلاڑی نکلا شاید اس نے جازم کو بھی ۔۔۔۔۔ "وہ بات ادھوری چھوڑ کر لب سختی سے بھینچ گٸیں جازم کے لیے حقیقت پر یقین کرنا قیامت لگ رہا تھا اسے اپنے قدموں پر کھڑا رہنامحال لگنے لگا اسکی حالت یوں تھی جیسے کاٹو بدن تو لہو نہیں ہرکوٸی سکتے میں تھا مگر ان سے چند قدم کے فاصلے پر ایک ایسا شخص بھی موجودتھا جس کا وجود ذلزلوں کی زد میں تھا اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار نمودار ہونے شروع ہوۓ اس سے پہلے کہ وہ زمین بوس ہوتا انامتہ جو سیڑھیوں پر کھڑی ساری گفتگو سن رہی تھی تیزی سے ان کی طرف بڑھی
"بابا " اس کی آواز پر سب بے اختیار پلٹے سکندر کو اپنے عین پیچھے موجود پاکر سب کو جھٹکا لگا تھا اسکے تاثرات بتاتے تھے کہ وہ سب سن چکا ہے وہ دل پر ہاتھ رکھے زمین پر بیٹھتا چلا گیا تھا
☆☆☆☆☆☆☆
"میرا خیال ہے تم ٹھیک ہو اب "گوہر نے گاڑی اس کے گھر کے سامنے روکتے ہوۓ پوچھا کوٸی جواب نا پاکر اس نے چہرے کا رخ جازم کی طرف موڑاجو بے جان سا بیٹھا خالی نظروں سے سامنے دیکھ رہا تھا
"جازم " گوہرنے اس کا کندھا ہلایا
" ہاں "وہ جیسے گہرے خیال سے چونکا تھا
"یہ سب جو تم نے سناایک ماضی کا تلخ واقعہ تھا لہذا تم بھی اسے بھلانے کی کوشش کرو "گوہر نے مناسب الفاظ میں اسے تسلی دی جازم نے عجیب نظروں سے اسے دیکھا
"بھول جاٶں ۔۔۔۔ کیسے بھول جاٶں ۔۔۔۔کیسے بھول جاٶں ۔۔۔۔ آج ۔۔۔۔ آ۔۔۔۔ج۔۔۔۔ ہی ۔۔۔۔ تو ۔۔۔ مجھے اپنی حقیقت معلوم ہوٸی ہے "لفظ ٹوٹ پھوٹ کر نکل رہے تھے آنکھوں سے سیل رواں ہونے لگا جسے بے دردی سے پونجھتے وہ گاڑی سے اتر کر اندر کی طرف بڑھا ااس کی اندرونی حالت ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی یہ اس کے لڑکھڑاتے قدموں سے واضح تھا
☆☆☆☆☆☆☆
سکندر آٸی سی یو میں تھا وہ اچانک نواب ولاپہنچا تھا اپنے آنے کی اطلاع اس نے سواۓ وقار کے کسی کو نہ دی تھی مگر پہلے ہی قدم پر جو جان لیوا حقیقت اس کی سماعتوں میں اتری تھی وہ اس کا کمزور دل سہہ نہ سکا تھا صبوحی کے لیے بھی یہ شاک کم نہ تھا مگر خود کو سنبھال گٸ تھی فیضان کی دردناک موت نے اسے اندر تک دکھی کیا تھا بار بار اس کامخلص ۔۔۔ مسکراتا چہرہ جب جب آنکھوں کے سامنےگھومتا بے اختیار ہی آنسو گالوں کو بھگونے لگتےماہی بیگم کی تیز آواز پر وہ آنسو پونجھتی لاٶنج میں چلی آٸی
"سب کہاں ہیں " حسب معمول صبوحی کو دیکھ کر ان کے ماتھے کی تیوری چڑھی تھی
"میں نہیں جانتی " وہ دھیرے سے کہتی سر جھکا گٸی
"ایسا کیسے ہو سکتا ہے تم نہ جانتی ہو تم تو ہر معاملے کی سن گن لینے کی کوشش میں ہوتی ہو " ماہی تنفر سے بول رہی تھیں حرب جو کیچن کی طرف آرہی تھی ان کے انداز پر چونک گٸ
"اور یہ تمہاری آنکھیں کیوں سرخ ہو رہی ہیں" اب کےان کی نظروں کارخ صبوحی کے چہرے کی طرف تھا
" ایسے ہی " صبوحی نظریں چرا گٸی
" کس کی یاد میں آنسو بہا رہی ہو تم ۔۔۔ ہوں ۔۔۔ کتنی عمر ہو گٸ ہے تمہاری جوان بچی کی ماں ہو شرم ابھی تک نہیں آٸی تمہیں "وہ غصے سے کہتی آگے بڑھی اور صبوحی کے بال پکڑ لیے
" یہ کیا کر رہی ہیں آپ " حرب سے مزید برداشت نہ ہوا تو سامنے آگٸ
"خاموش رہو تم ۔۔۔۔ ہمارے معاملے سے دوررہو " ماہی کو اس کی داخلت بری طرح گھلی تھی تبھی غصے سے جھڑک ڈالا
"یہ آپ کا نہیں اس گھر کا معاملہ ہے چھوڑیں انہیں" وہ ان کے ہاتھ جھٹکتی صبوحی کا بازو تھام کر کچن میں چلی آٸی
"آپ کیوں برداشت کرتی ہیں ان کی باتیں " وہ محبت سے آنسو صاف کرتے ہوۓ کہہ رہی تھی صبوحی کو وہ بالکل فیضان جیسی لگی کسی کے درد پر تڑپ اٹھنے والی محبتوں سے گندھی لڑکی
"چھوڑو یہ سب تم بتاٶ حمیرا چلی گٸ" صبوحی نے اس کا دھیان بٹایا
"جی "وہ شرمندہ سی ہونے لگی آج جو حقیقت اس نے اپنی ماں کی زبانی سنی تھی اس نے صبوحی کا مقام اس کے دل میں اونچا کردیا تھا
"آپ کو ان سے نفرت محسوس ہورہی ہو گی نا "حرب نے ڈرتے ڈرتے پوچھا چند لمحے سوچنے کےبعد صبوحی دھیرے سے مسکراٸیں نکھری نکھری سی شفاف مسکراہٹ حونصلہ بڑھاتی ہوٸی جو دل کو چھو جاۓ حرب دل ہی دل میں معترف ہوٸی
"نہیں ایسا کچھ محسوس نہیں ہوا ۔۔۔ اس سب میں حمیرا کا قصور تھا مگر مجھے اس سے کوٸی گلہ نہیں "
"تو پھر آپ کو کس سے گلہ ہے " اس نے مزید پوچھا صبوحی محض نفی میں سر ہلا کر خاموش ہو گٸ وہ چاہ کر بھی سکندر کا نام لبوں تک نہ لا سکی تھی
"یہ مت سوچنا کہ تم حمیرا کی بیٹی ہو تمہیں اس گھر میں مقام نہ مل پاۓ گا بلکہ یہ سوچنا کہ تم فیضان کی بیٹی ہو جس کی بے گناہی کے گواہ اس حویلی کے درودیواربھی ہیں"وہ بڑے رسان سے اسے سمجھا رہی تھیں حرب یک ٹک ان کا چہرہ دیکھے گٸ
☆☆☆☆☆☆☆
رخصت ہوا تو بات میری مان کر گیا
جو اس کے پاس تھا وہ مجھے دان کر گیا
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گٸ
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
وہ مرے مرے قدموں سے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آیا چندلمحےدروازے کے پاس ہی رک کر کمرے کا جاٸزہ لینے لگا کچھ بھی تونیا نہ تھا یہ بستر یہ درودیوار سب اسکے اپنے تھے مگر پھر بھی اس جگہ سے اجنبیت چھلکنے لگی تھی جانے کس احساس کے تحت چہرے پر آنسوٶں کی لکیریں بننے لگیں اسے یاد نہیں پڑتا تھا کہ ہوش سنبھالنے کے بعد اسے کبھی رونا پڑا ہو کبھی ایسا موقع نہ آیا تھاکہ اس کی آنکھ سے ایک آنسو کا قطرہ بہنے کی نوبت آٸی ہو ۔۔۔۔ سب کچھ بن مانگے ملا تھا پر آساٸش زندگی نے اسے اتنا نخریلا بنا دیا تھا کہ محض ایک خواہش پوری نہ ہونے پر اس نے جہانگیر سے رابطہ قطع کر لیا اس کی عمر بھر کی محبتوں کو بھلا دیا وہ اتنا نافہم تھا کہ اس شخص کو اپنا بدترین دشمن مان لیا جو تپتی دھوپ میں اسکے لیے سایہ دار شجر کی مانند تھاجس نے ہاتھ پکڑ کر چلنا سکھایا تھا جس نے زندگی جینا سکھایا تھا محض دل لگی کی خاطراس نے سب وہ احسان بھلا دٸیے تھے جن کو اپنا حق سمجھ کر وصول کرتا رہا تھا وہ احسان فراموش تھا ایک بدکردار اور احسان فراموش کا بیٹا بھی اس جیسا ہی تھا اس کے خون میں موجود دغابازی کی ملاوٹ کوجہانگیر کی بہترین تربیت بھی نہ مٹا پاٸی اسی سوچ کے ابھرنے پر اس نے بے حد طیش میں ہاتھ کا مکا دیوار پر دے مارا آج ساری حقیقت کھل گٸ تھی جسے جان کروہ اپنی ہی نظروں میں گر گیا تھا یہ احساس ہی سوہان روح تھا کہ جہانگیر اس کا سگا بھاٸی نہ تھا مگر سگوں سےبڑھ کر چاہا تھا اس کا باپ اس کی ماں کی خوشیوں کا قاتل تھا غوزہ مہر اس کی ماں کے قاتل کی بیٹی تھی اور جہانگیر کے بچپن کی منگ تھی ۔۔۔۔۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ جہانگیر نے محض اپنے باپ کی خواہش کی تکمیل کےلیےشادی کی تھی ۔۔۔ ایک ایک واقع اس کی اس کی نظروں کے سامنے گھوم رہا تھا جہانگیر کا اس کے پیچھے لپکنا اس کے فلیٹ پر پہنچ کر نم آنکھوں سے اسے منانے کی کوش کرنا ۔۔۔۔ یہ سب اسے چیخ چیخ کر رونے پر مجبور کر گیا تھا بالوں کو مٹھیوں میں جکڑے ٹوٹے پھوٹے انداز میں وہ زمین پر بیٹھتا چلا گیا وہ آج اس شخص کے لیے بلک رہا تھا جسکے ہاتھ اسنے بے رحمی سے یہ کہتے ہو ۓ جھٹک ڈالے تھے کہ اسکا اس پر کوٸی حق نہیں
" بھیا ۔۔۔۔۔ بھیا لوٹ آٸیں بھیا ۔۔۔۔۔میں آپ کے بغیر کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ مجھے آپ کی ضرورت ہے ۔۔۔۔ بھیا پلیز آ جاٸیں ۔۔۔۔۔ ایک بار آ جاٸیں " وہ بلک بلک کر روتا دیوار سےسر ٹکرانے لگا تبھی بی جان دروازہ کھول کر اندر آٸیں سامنے کے منظر نے انہیں ٹھٹھرا کر رکھ دیا
☆☆☆☆☆☆☆
"بی بی جی یہ خط بڑے صاحب نے آپ کے لیے دیا تھا "
ملازمہ نے گم صم بیٹھی غوزہ کو مخاطب کیامسلسل گریہ و زاری سےاس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں سانولی رنگت مزید گہری ہونے لگی تھی وہ چونک کر ملازمہ کے ہاتھ میں پکڑے کاغذ کو دیکھنے لگی
"کس کو دیا تھا انہوں نے " وہ بے چین ہو اٹھی تھی تبھی تیزی سے خط پکڑ کر پوچھنے لگی
"کرمو کو ۔۔۔ کہا تھا کہ آپ تک پہنچا دیں مگر اسی روز دل کا دورہ پڑ گیا اور آپ خود ہی آ گٸیں "ملازمہ تفصیل بتا رہی تھی مگر اسے خط کی طرف متوجہ پا کر باہر نکل گٸ اس نے جلدی جلدی خط پڑھنا شروع کیا اس کی نظریں جوں جوں خط کی سطروں پر پڑ رہی تھیں اس کے چہرے کی رنگت متغیر ہونے لگی
" جب تک تمہیں یہ خط ملے گا شاید میں دنیا میں نہ رہوں میں نہیں چاہتا کہ اس حقیقت کےبعد تمہاری نفرت کا سامنا کروں جو کچھ میں کہنے جارہا ہوں وہ ایسی حقیقت ہےجو آج تک خود سے بھی چھپاتا آیا ہوں ۔۔۔ ہما تہمی اور فیضان کو میں نےاپنی لالچی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک مضبوط پلاننگ کے تحت موت کےگھاٹ اتاردیا شاہ پور کے سردار ہونے کی حیثیت سے بہت سے لوگ اس حقیت سے واقف ہونے کے باوجود مجھ سے سوال کی جرات نہ کر سکے فیضی سے حسد نے مجھ سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لی تھی انسانیت نام کی شےشاید مجھ میں مفقود ہوچکی تھی تبھی بغیر سوچے سمجھے میں نےاپنی کامیابی کے لیے یہ جال بنا اور کامیاب بھی ہو گیا مگر آج مجھے احساس ہوا تب جب میں نے جہانگیر کو زندہ سلامت اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا وہ ہوبہو فیضان لگا مگر فرق صرف اتنا تھا کہ فیضان کی آنکھوں میں نرمی اور محبت ہوتی تھی جبکہ اس کی آنکھوں میں نفرت اور انتقام کے شعلے تھے وہ چاہتا تو مجھے مار سکتا تھا ختم کر کے اپنا بدلہ لے سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا اس نے مجھے آذاد کر دیا جانتی ہو کیوں ۔۔۔۔۔ کیوں کہ اس کے باپ کو مجھ سے محبت تھی اس کے الفاظ راتوں کو مجھے چین نہیں لینے دیتے وہ سچ کہہ رہا تھا مجھے مارنے سے بہتر ہے وہ مجھے زندگی کی سزا دے اور یہ سزا مجھے موت سے بھی بدتر لگ رہی ہے
تہمی اور فیضان کا حصہ میں نے ان کے نام کر دیا ہے یہ میری وصیت ہے جس کی ایک کاپی میں نے اس خط کے ساتھ بھی اٹیچ کر دی ہے آخری بات جہانگیر کی قدر کرنا اس شخص سے ذیادہ کوٸی تمہیں عزت اور محبت نہ دے سکے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہارا بد نصیب باپ شہاب "
خط متواتر بہتے آنسوٶں سے تر ہو چکا تھا وہ کتنے ہی لمحے بے یقینی سے خط کو دیکھے گٸ اس کے حواس برف ہو گۓ ایسا کیسے یو سکتا تھا اتنا بڑاجھوٹ اتنا بڑا دھوکہ ۔۔۔۔۔ اس کا باپ قاتل تھا یہ سوچ ہی سوہان روح تھی جس باپ کو اس کے دل میں ایک اونچا مقام حاصل تھا آج کیسے ایک پل میں بکھر گیا تھا اس کاباپ نہ صرف اس کی ماں کا بلکہ اس کی محبت کا بھی قاتل تھا اور بجاۓ جہانگیر کی بے گناہی پر یقین کرنے کے وہ اسے انتقام کی بھینت چڑھا آٸی تھی
"یہ آپ نے کیا کیا "سکتہ ٹوٹا تو وہ حواسوں میں واپس آٸی "آپ نے اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی قاتل بنا دیا ۔۔۔۔۔ ایک قاتل کی بیٹی بھی قاتل اور خونی نکلی "وہ ہاتھوں میں چہرہ چھپاۓ بلک پڑی
*#جاری_ہے*

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.