Ads Top

میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 25


میـرے_ہـم_نفس_میـرے_ہمنوا

فریحہ_چـودھـری

 #میرے_ہم_نفس_میرے_ہـمنوا
#فریحہ_چـودھـــری ✍
#قسط_25
شہاب بھاٸی۔۔۔۔ میری بات سن لیں ۔۔۔۔ آپ کو غلط فہمی ہوٸی ہے میرے بھیا ایسے نہیں ہیں"تہمی گڑگڑا رہی تھی مگر شہاب کو کوٸی فرق نہ پڑا وہ ٹانگ پر ٹانگ جماۓ بڑے کروفر سےگردن اکڑاے بیٹھا تھا امینہ نے بھی اسے دیکھ کر منہ پھیر لیا وہ شہاب کے قدموں میں بیٹھ گٸ
"آپ کو خدا کا واسطہ ہے انہیں چھوڑ دیں ۔۔۔ رحم کریں بھاٸی ۔۔۔ میں آپ کے پاٶں کو ۔۔۔۔ "وہ اس کے پیروں کو ہاتھ لگانے لگی شہاب جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا
"بند کرو یہ ڈرامہ "وہ غصے سے چلایا تہمی کی زبان کو بریک لگا
"جاٶ فاٸل لےکر آٶ " شہاب نے داٸیں طرف کھڑے ملازم کی طرف اشارہ کیا وہ خاموشی سے پلٹ گیا ملازمین کو سختی سے زبان بند رکھنے کا حکم ملا تھا وہ مجبور تھے شہاب رحیم شاہ کی جگہ تھاوہ چاہ کر بھی اس کے فیصلے کے خلاف سر نہ اٹھا سکتے تھے
"یہ پکڑو فاٸل ۔۔۔۔ اگر چاہتی ہو کہ تمہارے بھاٸی کی جان بخشی کی جاۓ تو اس پر ساٸن کر دو ورنہ " شہاب نے فاٸل اس کے منہ پر مارتے ہوۓ دھمکی آمیز اندازمیں انگلی اٹھا کر سفاکی سے کہا
"میں کر دوں گی ساٸن "وہ منمناٸی
"ابھی کرو "شہاب نے پنسل اس کی طرف اچھالی اس نے کانپتے ہاتھوں سے فاٸل کھول اس سے پہلےکہ وہ ساٸن کرتی ملازم کے منہ سے نکلنے والے الفاظ نے اسے اندر تک ہلا کر رکھ دیا
صاحب قید خانے میں آگ لگ گٸ ہے "خبر تھی یا دھماکہ وہ جھٹکے سے اٹھی
"ایسا نہیں ہو سکتا ۔۔۔ میرےبھیا ہیں وہاں ۔۔۔۔ نکالو وہاں سےانہیں..... مدد کرو ان کی... بچاٶ انہیں "وہ وحشت کے عالم میں ملازم کو دھکے دینےلگی اسے ٹس سے مس نہ ہوتا دیکھ کروہ ننگے پیر ہی باہر کودوڑی شہاب کے چہرےپر شیطانی مسکراہٹ آ گٸ سب کچھ اس کے پلان کے مطابق تھا
★★★★★
"کھولو دروازہ کھولو ۔۔۔۔ آگ لگی ہےمیرے بھاٸی جل جاٸیں گے رحم کرو وہ مر جاٸیں گے "وہ زاروقطار روتے ہوۓ قید خانے کے ملازم سے درخواست کر رہی تھی وہ بے بسی کی تصویر بنا کھڑا تھا کہ اسے ایسا کرنے کا حکم نہ تھا
"کھولو دو دروازہ "شہاب کی آواز پر ملازمین نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا دروازہ کھول دیا گیا تہمی بغیر سوچے سمجھے تہہ خانے کی طرف دوڑی
"بند کر دو "اس کے اندر جاتے ہی شہاب نے نیا حکم دیا ملازم نے آنکھیں پھا ڑ کر دیکھا
"سنا نہیں بند کر دو ۔۔۔ جب تک ہم نہ کہیں کھلنا نہیں چاہٸیے "اس کے اس سفاک حکم پر جہاں ملازمین کی آنکھیں نم ہوٸی تھیں وہیں اس کے عین پیچھے کھڑے جوجو کے دل میں نفرت اور انتقام کا جذبہ زوروشور سے امڈ کر آیا تھا اس سےپہلے کہ وہ آگے بڑھتا ایک ادھیڑعمر ملازم نے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس کی آواز کو وہیں دبا دیا
★★★★★
"بھاگ جاٸیں چھوٹے صاحب یہاں سے ۔۔۔ دور چلے جاٸیں یہ جگہ آپکے لیے ٹھیک نہیں ہے یہ آپ کو بھی مار دیں گے جس طرح آپ کے بابا اور چھوٹی بی بی کو مارا"وہ رحیم شاہ کا وفادار ملازم تھا تبھی جوجو کو چھپا کر اپنے کواٹر میں لے آیا تھا
"میں اپنے بابا کا بدلہ لیےبغیر نہیں جاٶں گا "اس کی آنکھوں سے شرارے پھوٹ رہے تھے شاہوں کا خون جوش مار رہا تھا اپنے باپ کی اتنی بے درد موت وہ بھی سگے تایا کے ہاتھوں .... اس سب نے اسے نڈر کر دیا تھا
"ابھی آپ کم عمر ہیں اس کے لیے آپ کو طاقت چاہیۓ جوجو بیٹا ۔۔۔۔ اپنےبابا کا بدلہ لینے کے لیے آپ کو زندہ رہنا ہے اور زندگی کے لیے آپ کو یہ حویلی چھوڑنی ہوگی ۔۔۔۔ "وہ اسے نٸ راہ دکھا رہا تھا
"لیکن میں کہاں جاٶں گا" وہ مایوسی سے بولا ملازم کی آنکھیں بھیگنےلگیں
"میں آج رات آپ کو اپنے کسی رشتہ دار کی طرف چھوڑ آٶں گا تب تک آپ یہییں رہیں "
"اور جازم "اسے جازم کا خیال آیا
"ان کو بھی "
★★★★★
اور پھر رات کی تاریکی میں وہ یہ حویلی چھوڑ گیا تھا حویلی سے نکلتے ہوۓ اسے اپنےبابا کی شدت سے یاد آٸی بار بار اس کی آنکھیں بھیگتیں جب جب فیضان کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آتا اسکے انتقام کا جنون مزید پختہ ہو جاتا ۔۔۔ وہ ایک چھوٹے سے گھر میں آگٸے تھے کچہ نیم پختہ مکان تھا جس میں درجنوں لوگ رہاٸش پذیر تھے اسے گھٹن ہونے لگتی کھانا بھی نہ ملنے کے برابر تھا جازم بھی بھیڑ اور گرمی سے گھبرا کر دن رات روتا رہتا وہ سارا دن اسے کندھے سے لگاۓ رکھتا وہ عورت جسے سب اماں کہتے تھے ایک چالاک اور تیز طرار عورت تھی جازم کا رونا اسے قطعی برداشت نہ ہوتا تھا تبھی جازم کے رونے کے ساتھ ہی اسے بھی صلواتیں طعنے شروع ہو جاتے تھےاور پھر وہ مزدوری پر جانے لگا تھا۔سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہونے والا جہانگیر شاہ آج زندگی کے لیے خود لڑرہاتھا۔۔ اتنے بڑےگھرانے کا چشم و چراغ آج دو وقت کی روٹی کے لیے مارامارا پھر رہا تھا وقت گزرنے لگا تھا زمانے کی ٹھوکروں سے اس کا ذہن بھی پختہ ہونے لگا اور پھر وہ وقت بھی جلد آ گیا جب اسے یہ چارگز کا مکان بھی چھوڑنا پڑا
★★★★
"ارے کیا مصیبت ہے تجھے ہاں ۔۔۔ اس جونک کو اپنے ساتھ ہی لگاۓ رکھے گا کیا "عورت جسکا نام حمیدہ تھا نے جوجو کو دو ہتھر مارے ساتھ ہی زبان بھی فراٹے بھرنے لگی تھی
"آپ کچھ بھی کہہ لیں مگر میں جازم کو کبھی نہیں جانے دوں گا " وہ بھی ضد پر آ گیا تھا حمیدہ کا پارہ مزید ہاٸی ہوا اس چھوٹے سے بچے کی وجہ سے اتنی بڑی رقم ہاتھ سے نکلتی دکھاٸی دے رہی تھی وہ جازم کو پچاس ہزار کے عوض ایک بے اولاد جوڑ ے کو دینے کو تیار تھی مگر جہانگیر مان کر نہ دے رہا تھا
"تو ٹھیک ہے پھر ۔۔۔۔ اگر تجھے اس گھر میں رہنا ہے تو میری بات ماننا ہو گی ورنہ " وہ خاموش ہو گٸ تھی مگر جہانگیر اسکی چھوڑی بات کا مطلب سمجھ گیا تھا اس نے پہلے اس ادھیڑ عمر عورت کو دیکھا پھر اس گھر کو
"یہ چھت مجھے جازم سے ذیادہ عزیز نہیں " آواز دل سے آٸی تھی اور اسے دل کی ماننی پڑی تھی
★★★★★
"صبوحی کیسی ہے نواب صاحب " ڈاکٹر فوزیہ نے مسکرا کر سجاد صاحب سے پوچھا وہ آج ایک شادی میں شرکت کے لیے آۓ تھے جہاں ان کی ملاقات ڈاکٹر فوزیہ سے ہوٸی
"پہلے سے بہت بہتر ہے "انہوں نے رسان سے کہا
"دیٹس گریٹ ۔۔۔ شادی ہوگٸ کیا اس کی "انہوں نے مزید سوال کیا
"جی ہاں ۔۔۔ کچھ ماہ قبل ہوٸی ۔۔۔۔ سکندر سے " وہ جلد از جلد بات ختم کرنا چاہتے تھے مگر وہ جانے کیا کیا پوچھنا چاہتی تھیں
"تو میرا اندازہ ٹھیک تھا "وہ فخریہ مسکراٸی سجاد صاحب چونکے
"کون سا اندازہ "
"بھٸ میں تو تب ہی سمجھ گٸ تھی جب سکندر صبوحی کو ہسپتال لے کر آیا تھا اس کی پریشانی دیکھ کر مجھے کچھ کچھ اندازہ تو ہو گیا تھا مگر۔۔۔۔ "وہ اپنی دھن میں ہی بول رہی تھی مگر سجاد صاحب تو پہلی بات پر اٹکے ہوۓتھے
"سکندر صبوحی کو ۔۔۔
"جی ہاں ۔۔۔۔ کیا آپکو نہیں معلوم ۔۔۔ سکندر ہی صبوحی کو لے کر آیا تھا پھر وہ جانے کہاں غاٸب ہوا مجوراً مجھے نواب ولا کال کرنی پڑی غالباً آپ کے بڑے بیٹے سے بات ہوٸی تھی " وہ واقعے کی تفصیل بتا رہی تھی اور سجاد صاحب کے لیے وہاں ٹھہرنا مشکل ہو رہا تھا
★★★★★
وہ اس رات جازم کو لے کر وہاں سے نکل آیا تھا وہ نہیں جانتا تھا کہ اب اسے کہاں جانا ہے وہ سنسان سڑک پر تنہا چلتے ہوۓ دل ہی دل میں خوفزدہ بھی تھامگر خود کو حوصلہ دیتا آگے بڑھتا چلاجا رہا تھا تبھی اسے اپنے پیچھے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سناٸی دیں اس کا دل پسلیوں میں دھڑکنے لگا اس نے بغیر پیچھے دیکھے جازم کو مضبوطی سے تھاما اور اندھا دھند بھاگنا شروع کر دیا وہ بلند آواز رو رہا تھا بھاگتے بھاگتے وہ دورنکل آیا تھا کتے بہت پیچھے رہ گٸے تھے سڑک کے عین وسط میں کھڑا لمبے لمبے سانس لیتا چاروں طرف نظریں گھما کر دیکھ رہا تھا عین اسی لمحے ایک تیز رفتارگاڑی اسے اپنی طرف آتی دکھاٸی دی اس کی تیز ہیڈ لاٸٹس آنکھیں چبتی ہوٸی محسوس ہوٸی مگر اس نے وہاں سے ہٹنے کی کوٸی کوشش نہ کی
★★★★★
"حیات ۔۔۔ کہاں ہے حیات" سجادصاحب نے بلند آواز میں پوچھا
"کمرے میں ہو گا " ماریہ بیگم کو انہونی کا احساس ہوا سجاد صاحب کا چہرہ غصے کی تپش سے سرخ ہو رہا تھا وہ پریشان ہوٸیں
"جی بابا آپ نے بلایا " حیات فوراً نیچے آیا
"اتنی بڑی بات چھپاٸی تم نے ۔۔۔۔ کیوں " وہ دھاڑے تھے
"کون سی بات بابا "
"صبوحی کو ہاسپٹل کون لے کر آیا تھا حیات "
"بولو "اسے ہنوز خاموش دیکھ کر ان کے اشتعال میں مزید اضافہ ہوا
"سکندر "وہ بے حد دھیمے لہجے میں بولا تھا کہ سجاد صاحب بمشکل سن پاۓ "لیکن بابا یقین کریں میرا ایسا کوٸی مقصد نہیں تھا مجھے لگا کہ یہ کوٸی اتنی اہم بات نہیں "
"کیسے اہم بات نہیں ۔۔۔۔ اگر وہ اسے لایا تھا تو یقیناً اس کا اس سب سے کوٸی نا کوٸی تعلق تو تھا " وہ بہت دور کی سوچ رہے تھے
"اگر ایسا ہوتا تو وہ صبوحی کو چھوڑ کر نہ جاتا ۔۔۔ وہ یہ سب نہ کرتا جو اس نے کیا "حیات کی بات نے ان کی سوچوں کو نیا موڑ دیا
"رابطہ کرو سکندر سے اسے کہو کہ میں بات کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔ اور صبوحی کو میرے کمرے میں بھیجو " وہ سختی سے کہتے کمرے میں چلے گٸے حیات گہری سانس بھر کر رہ گیا
★★★★★
"بیٹا آپ کون ہیں اور وہاں سڑک پر کیا کر رہے تھے "اس نے آنکھیں کھولی تو ایک عورت کو خود پر جھکے پایا وہ نرمی سے استفار کر رہی تھی
"میں ۔۔۔۔ پتہ نہیں " وہ رونے لگا تھا
"ارے بھٸ یہ کیا بات ہوٸی ۔۔۔ آپ تو اتنے پیارے بچے ہیں ۔۔۔ بالکل شہزادےکی طرح ۔۔۔۔ اور شہزادے تو بالکل نہیں روتے... وہ تو بہت بہادر ہوتے ہیں "وہ مسکراٸی تھی وہ خاموش ہو کر انہیں دیکھنے لگا
"آپ کون ہیں "
"میں عاٸشہ ہوں ۔۔۔۔ میں ہی تمہیں ہاسپٹل لے کر آٸی ہوں ۔۔۔ تم میری گاڑی کے سامنے آ گٸے تھے شکر ہے ذیادہ چوٹیں نہیں آٸیں ۔۔۔ لیکن میں حیران ہوں تم رات کے اس پہر سنسان سڑک پر کیا کر رہے تھے " وہ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر پیار سے کہنے لگیں ان کی شخصیت میں ایک وقار تھا ٹھہراٶ تھا آواز میں نرماہٹ تھی
"جازم ۔۔۔۔ جازم ۔۔۔ کہاں ہے ۔۔۔۔ وہ میرے ساتھ تھا "وہ بے قراری سے کہتے اٹھنے لگا
"لیٹے رہو ۔۔۔۔ " انہوں نے کندھے پر دباٶ ڈال کر اٹھنے سے روکا
"اینڈ ڈونٹ وری لٹل پرنس ۔۔۔۔ وہ گھر پر ہے اور وہاں بالکل محفوظ ہے ۔۔۔ تم مجھے اپنے گھر کا ایڈریس یا فون نمبر دو تاکہ میں تمہارے پیرنٹس کو کال کروں "
"میراکوٸی گھر نہیں ہے " وہ پھر سے مایوسی میں گھرنے لگا
"ایسا کیسے ہو سکتا ہے " وہ حیران ہوٸی اس سے پہلے کہ مزید سوال کرتی نرس کے آنے پر خاموش ہونا پڑا مگر نظریں جوجو پر ہی تھیں
★★★★★
"جی آپ نے بلایا "صبوحی نے سلام کرنے کے بعد پوچھا
"ہاں آٶ بیٹھو " وہ خلاف معمول بے حد سنجیدہ تھے وہ خاموشی سے سامنے پڑے صوفے پر براجمان ہو گٸ
"کیسی طبیعت ہے تمہاری "
"ٹھیک ہوں "مدھم سا جواب آیا
"ہوں "وہ کسی گہری سوچ میں گم ہو گٸے
"حیات نے مجھے بتایا کہ تم فیضان سے ملی ہو " صبوحی نے نظریں اٹھاٸیں وہ اسے ہی دیکھ رہے تھے
"جی "
"کس کی اجازت سے " لہجہ میں ٹھہراوتھا مگر نرمی مفقود تھی۔۔۔ صبوحی نے حیرت سے ان کا یہ انداز دیکھا یہ شاید پہلی بار تھا کہ وہ اس سے یوں بات کر رہے تھے
"تم جانتی بھی ہو کہ "
"جی ہاں میں جانتی ہوں ۔۔۔۔۔ آپکو اپنے بیٹے کی زبان پر بہت یقین ہے۔۔۔۔ لیکن مجھے خود پر یقین ہے اورجو میں نے کیا وہ سوچ سمجھ کر کیا "وہ بھی پھٹ پڑی تھی
"یہ کس انداز میں بات کر رہی ہو صبوحی " سجاد صاحب کو اس کا انداز ناگوار گزرا تبھی ٹوک گٸے
"کیا چاہتے ہیں آپ ..آپ کا بیٹا میرے دامن میں کانٹے بھرجاۓ اور تب بھیمیرے منہ سے پھول ہی جھڑیں وہ میرے کردار پر کیچڑ اچھالے ۔۔۔ مجھے رسوا کرے برباد کرے اور میرا انداز پھر بھی نہ بدلٕے ...مجھ سے نکاح کرے اور ہمیشہ کےلیے چھوڑ جاۓ میں تب بھی خاموش رہوں کیسے بتاٸیے کیسے "
"کیا مطلب ہے "وہ ٹھٹھکے تھے
"مطلب اسی سے پوچھیں ۔۔۔ پکڑیں اس کاگریبان اورمانگیں اس سے حساب ۔۔۔ میری تذلیل کا ۔۔۔ میرے لہولہو ہوۓ وجود کا "آنسوٶں کا گولہ اس کے گلے میں پھنس گیا وہ سرعت سے باہر کو لپکی وہ کچھ نہ کہہ کر بھی سب کہہ گٸ تھی سجاد صاحب کو سر چکراتا ہوا محسوس ہوا
"بابا "تبھی حیات کمرے میں داخل ہوا "آپ ٹھیک ہیں "وہ باپ کی طرف لپکا
"ہاں میں ٹھیک ہوں "انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے روکا
"بات ہوٸی سکندر سے فون کیا تم نے " ماتھے سے پسینہ پونجھتے وہ بمشکل بولے
"جی مگر وہ گھر پر نہیں تھا "وہ نظریں چرا گیا
"کیا چھپا رہے ہو حیات " وہ دور کی نظر رکھتے تھے
"بابا وہ۔۔۔۔
"جھوٹ مت بولنا "
"وہ شادی کر چکا ہے"حیات نے بغیر انہیں دیکھے جواب دیا تھا سجاد صاحب کا چہرہ سفید پڑ گیاوہ سینے پر ہاتھ رکھےزمین پر گرتے چلے گٸے تھے
_____________
عاٸشہ ایک مشہور بزنس مین غضنفر علی کی بیوی تھی دونوں کی پسند کی شادی تھی شادی کےدس سال بعد بھی وہ اولاد کی نعمت سے محروم ہی رہے مگر قدرت سے مایوس نہ ہوۓ
دونوں ایک دوسرے کی سنگت میں خوش تھے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ایک کار حادثے میں غضنفر علی اس جہاں سے کوچ کر گٸے عاٸشہ اکیلی رہ گٸ ۔۔۔۔۔۔ ان کی والدہ حیات تھیں بھاٸی اور بہن کا بھی سہارا تھا ان کے بھرپور اصرار پر بھی وہ دوسری شادی کے لیےراضی نہ ہوٸیں خود کو مصروف رکھنے کے لیے وہ بزنس سنبھالنے لگیں اس دن ڈنر پارٹی سے واپسی پر دیر ہو گٸ تھی جب انہیں سڑک پر ایک ڈرا سہما بچہ نظر آیا ۔۔۔۔ انہیں یقین تھا کہ کار کو آتا دیکھ کر وہ پیچھے ہو جاۓ گا مگر اسے ٹس سے مس نہ ہوتا دیکھ کرانہوں نے بریک پر پاٶں رکھا مگر دیر ہو چکی تھی وہ باوجود کوشش کے بھی اسے زخمی ہونے سے نہ بچا سکیں وہ اسے لے کر ہاسپٹل پہنچیں تھیں معمولی چوٹیں تھیں جازم معجزاتی طور پر بالکل صحیح سلامت تھا حفاظت کی خاطر اسے ملازمہ کے ہمراہ گھر بھجوا دیا عاٸشہ کو یہ معصوم سا بچہ بے حد اچھا لگا تھا وہ اس سے اس کی فیملی کے بارے میں پوچھنا چاہتی تھیں مگر جو جواب اس نے دیا وہ اسے الجھا گیا تھا وہ ڈسچارج کروا کر اسے گھر لے آٸی تھیں جوجو جس والہانہ انداز میں جازم کی طرف بڑھا وہ بے اختیار پوچھ بیٹھیں
"یہ تمہارا بھاٸی ہے " وہ لمحہ بھر کو خاموش ہوا
"جی یہ میرا بھاٸی ہے "اس کا لہجہ اتنا مضبوط تھا کہ شک کی کوٸی گنجاٸش ہی باقی نہ بچی تھی
★★★★★
سجادصاحب یہ صدمہ برداشت نہ کرپاۓ تھے جس دن نواب ولا میں ان کاجنازہ اٹھا اسی دن صبوحی کے ہاں نواٸم نے جنم لیا کسی کو اس سے سروکار نہ تھا اسے آخری دفعہ اپنے باپ کا چہرہ دیکھنے کی بھی اجازت نہ ملی تھی وہ دل ہی دل میں اپنی بدتمیزی ہر پشیمان تھی اس سب میں سجاد صاحب کا کیا قصور تھا وہ خود کو جتنا کوستی کم تھا وقت کے ساتھ ساتھ اس کی حیثیت ایک ملازمہ سی ہو گٸ حیات صاحب چاہ کر بھی کچھ نہ کر سکے صبوحی نے بھی اپنی یہ حیثیت قبول کر لی تھی ندرت امریکہ شفٹ ہو گٸ ماہی اور وقار اسے دیکھ کر رخ پھیر لیتے ماریہ بیگم بھی شوہر کی جداٸی ذیادہ دیر برداشت نہ کر پاٸیں اور ایک شام چپ چاپ یہ دنیا چھوڑ گٸیں اب اس کے دو ہی ہمدرد رہے تھے حیات اور سمعیہ
مگر وہ خود کو سنبھال چکی تھی اس نے سمجھوتہ کرنا سیکھ لیا تھا اسے کسی شے کی چاہ نہ تھی نواٸم کو اس نے ایک کمرے تک محدود رکھا تھا وہ نہ چاہتی تھی کہ جو طعنے اس کے مقدر بنے وہ اس کی بیٹی سنے جو تذلیل اسکے حصے میں آٸی وہ اس کی بیٹی بھی سہے اسے شدت سے انتظار تھا کہ کب فیضان آکر اپنا عہد پورا کرے اور اسے اطمنیان نصیب ہو
وہ سکندر کو سوچنا نہیں چاہتی تھی وہ اسکی ہر یاد کو دل سے کھرچ کر پھینک دینا چاہتی تھی شاید وہ ایسا کر بھی لیتی مگر جو زخم اسکے نام سے جڑ کر اسکے وجود میں گڑ چکے تھے کیا کرتی وہ ان کا .... جب جب بدکرداری کا طعنہ اسکے منہ پر لگتاجب جب اسے دیکھ کر منہ موڑا جاتا وہ تڑپ اٹھتی ...زخموں سے لہو پھر سے رسنے لگتا اور اسے لہولہان کر جاتا اسکا دل شدت سے چاہتا کہ وہ سکندر کا گریبان پکڑ کر اس سے اپنا قصور تو پوچھے ... اپنے ساتھ ہوۓ اس ظلم کی وجہ پوچھ سکے اور وہ منتظر تھی اس دن کی بڑی شدت سے .... وہ اسے بھولی نہ تھی .... بھلا ہی نہ سکتی تھی ایسے لوگ بھلا یادداشت سے کب نکلتے ہیں جو خود اپنے ہاتھوں سے نفرتوں کے بیج بو دیں .... ہاں اسے نفرت تھی شدید نفرت .... اسی شخص سے .... جو کبھی اسکے روح میں خوشبو بن کر بساکرتا تھا
عہدِ نارسائی میں، خوابِ زندگی لے کر
دور تک بھٹکتے تھے
جانتے تو تم بھی تھے
راکھ راکھ ہو کر بھی، خاک خاک ہو کر بھی
ہاتھ کچھ نہیں آتا
خواب کی مسافت ہے، ہاتھ خالی رہتے ہیں
مانتے تو تم بھی تھے
اور باوجود اس کے نیند کو لٹا کر بھی
چین کو گنوا کر بھی
ہر شبِ عبادت میں، زار زار اکھیوں کے
اشک رکھ ہتھیلی میں
ہچکیوں کے پھندے میں، میرا نام لے لے کر
مجھ کو اپنے مولا سے
مانگتے تو تم بھی تھے
عشق کے عقیدے میں، فہم کیا؟ فراست کیا؟
کارِ عقل کیا معنی؟
عشق کے مخالف گر لاکھ ہی دلیلیں ہوں
جس قدر حوالے ہوں، مستند نہیں ہوتے
مانتے تو تم بھی تھے
اور ساری دنیا سے، پھر چھڑا کے دامن کو
میری ذات میں آ کر، خود کو سونپ دینے کا
سوچتے تو تم بھی تھے!
اب کی بات چھوڑو تم
اب میں کچھ نہیں کہتی
کچھ نہیں کہوں گی میں
اب فقط سہوں گی میں
اب تو چپ رہوں گی میں
کچھ گلہ نہیں تم سے
یاد بس دلایا ہے
اس طرح سے ہوتا تھا
عہدِ نارسائی میں
اب میں کچھ نہیں کہتی
★★★★★
جہانگیر نے عاٸشہ کو اپنی آپ بیتی سنا دی تھی وہ فطری طور پر رحم دل عورت تھی اسے جہانگیرپر بے تحاشہ پیار آیا
"آج سے تم میرے بیٹے ہو ۔۔۔ بھول جاٶ سب ۔۔۔ بس اب تم میرے پاس رہو گے شاید خدا نے مجھے اسی لیے اولاد نہیں دی تھی مگر مجھے کیا پتا تھاکہ مجھے اتنا پیارا بیٹا مل جاۓ گا "وہ اس کا ماتھا چوم کر خوشی سے بولیں
"اور جازم "اسے جازم کی فکر تھی
"آف کورس وہ بھی ہمارے پاس رہے گاتمہارا بھاٸی ہے نا" جوجو اس عرصے میں پہلی بار مسکرایا تھا یہ واحد چیز تھی جو اس نے عاٸشہ سے چھپاٸی تھی اور وہ اسے تاعمر چھپانا چاہتا تھا ۔۔۔ وہ اب جہانگیر بن گیا تھا جوجو سے جہانگیر کا یہ سفربے حد کٹھن اور خاردار تھا
★★★★★
سکندر نے اپنی کولیگ سے شادی کر لی تھی وہ اپنی زندگی میں آسودہ اورمطمٸن تھا اس کے ہاں دو جڑواں بچیوں نے جنم لیا جہاں اسے خوشی ملی تھی وہاں غم بھی ساتھ آیا تھا اس کی بیوی پیداٸش کے عمل کے دوران چل بسی تھی فاطمہ شکل وصورت کے علاوہ عادتوں میں بھی باپ پر تھی خودسر ضدی گھمنڈی جبکہ انامتہ اس کے برعکس تھی صابر وشاکر اور خوش اخلاق ۔۔۔۔۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سکندر کو صبوحی کی یاد آنے لگی تھی اسے کبھی کبھی پچھتاواہونے لگتااسے محسوس ہوتاکہ وہ قصوروار ہے
مگر نواب ولا کے مکینوں سے اس کا رابطہ مکمل طور پر قطع تھا
اسے ماں باپ کی وفات کی خبر ملی تھی مگر وہ جانہ سکا یا شاید جانا ہی نہیں چاہتا تھا اور اب وہ عمر کے اس حصے میں آ گیا تھا جہاں اپنوں کی خواہش زور پکڑنے لگتی ہے تب وہ خود کو اکیلا محسوس کرنے لگتا ۔۔۔ انامتہ اس کا درد سنتی تھی محسوس کرتی تھی مگر کچھ بھی کرنے سےقاصر تھی
فاطمہ کی دوستیاں ہر حد پھلانگنے لگی تھیں وہ نشے کی عادی بنتی جا رہی تھی اور یہی نشہ اس کی جان لینے کا سبب بنا تھا یہ صبوحی کی بددعاٶں کا ہی اثر تھا ۔۔۔۔ اس نے اسی خوف سےانامتہ کو پاکستان بھجوا دیا وہ جانتا تھا کہ وہ لوگ اسے کبھی نہ دھتکاریں گے اس نے انامتہ کو صبوحی سے ملنے کا بصداصرار کہا تھا
"تم وہاں جاٶ تو صبوحی سےضرور ملنا اور اپنی بہن سے بھی "
"کیا میری بہن بھی ہے "
"پتہ نہیں بہن ہے یا بھاٸی میں تو یہ بھی نہیں جانتا.... مگر میرا دل کہتا ہے کہ .... "وہ بات ادھوری چھوڑ گیا تھا اس کی آنکھیں بھیگنے لگیں کیا کچھ نہ یاد آیا تھا اسے ۔۔۔۔۔ وہ خود نواب ولا لوٹنا چاہتا تھا جو بڑے کروفر سے کہہ کر آیا تھا کہ میں ہمیشہ ہمیشہ کےلیے جارہا ہوں کبھی نا لوٹنے کے لیےاور آج خود ہی اس گھر میں قدم رکھنے کو تڑپ رہا تھا
★★★★★
قید خانے میں تیل چھڑک کر آگ لگاٸی گٸ تھی یہ ایک حادثہ قطعی نہ تھا بلکہ سوچی سمجھی سازش تھی شہاب کا منصوبہ بڑی کامیابی سے مکمل ہوا تھا اس نے نہ صرف اپنا مقصد پورا کیا تھا بلکہ پورے علاقے کی ہمدردیاں بھی حاصل کی تھیں فیضی اور ہماکی بدکرداری کا قصہ سرعام تھا لوگ توبہ توبہ کرتے کانوں کو ہاتھ لگاتے اس سب میں وہ تہمی کو یکسر فراموش کر جاتے
شہاب نے حمیرا کو ڈھونڈنے کی جان توڑ کوشش کی تھی مگر کوٸی سراغ نہ مل سکا غوزہ کے دماغ میں بھی اس نے وہی بات بھر دی تھی جو سارے گاٶں کی زبان پر تھی غوزہ اپنی ماں کا پرتو تھی وہی سانولی صورت اور صابر و شاکر ۔۔۔۔ شہاب نے اس دوران ہماکی کزن سے بیاہ کر لیا جو کہ پہلے سے شادی شدہ تھی مگر شوہر ایک حادثے میں مارا گیا تھا
حمیرا اور ایاز بھی شادی کر چکے تھے انہیں فیضان کی موت کی خبر ملی تھی شہاب کا وفادار ملازم ایاز کو بھی جانتا تھا اسی کے توسط سے ساری بات ان تک پنچی جس کے مطابق جازم بھی اس آگ میں جل کر مارا گیا تھا حمیرا کو فیضان سے ذیادہ ہما کا دکھ ہوا تھا کتنے ہی دن وہ اسی غم میں پڑی رہی مگر وقت سب سے بڑا مرہم ہوتا ہے اسے بھی صبر آ ہی گیا ان کی ایک بیٹی ہوچکی تھی زلیخا ۔۔۔ اس دوران ایاز نے اپنے رنگ دکھانا شروع کر دٸیے پہلے پہل تو بات صرف لفظی طنز و طعنوں تک تھی مگر آہستہ آہستہ ایاز ہر حد سے بڑھنے لگا وہ اپنی ساری دولت جوۓ میں لگا چکا تھا حتی کہ گھر بھی چھن گیا حمیرا کو قدم قدم پر فیضان کی یاد آتی جب ایاز اسے پیٹتا اسے فیضان کی نرم خوٸی شدت سے یاد آتی اسے اپنا ہر گناہ یاد آنے لگتا ہر جگہ فیضان کی صورت نظر آتی۔۔۔ اکثر اوقات وہ راتوں کو چھپ کر روتی حرب اب بڑی ہو گٸ تھی وہ محسوس کر سکتی تھی حمیرا کواب جوجو کی یاد ستانے لگی تھی وہ اسے دیکھنا چاہتی تھی ملنا چاہتی تھی مگر کسی سے کہہ نہ سکتی تھی پر شاید خدا نے اس کی سن لی تھی وہ خود چلا آیا تھا ہوبہو باپ جیسا تھا اسے دیکھ کر اس کی ممتا سسکی تھی تڑپی تھی وہ اسے گلے لگانے کوبے قرار ہوٸی تھی مگر جہانگیر نے اسے ایسا کوٸی حق نہ دیا تھا وہ کتنے ہی دن بستر سے لگی رہی تھی اپنے اندر نواب ولا جانے کی ہمت کرتی رہی کیسے جاتی وہ وہاں جہاں پہلی بار فیضان اس کے ہم قدم تھا کیسے کرتی وہ صبوحی کا سامنا ۔۔۔ کیسے بتاتی سکندر کو وہ جان لیوا حقیقت ۔۔۔ وہ جانا نہیں چاہتی تھی مگر اسے جانا تھا ہر حال میں ۔۔۔ ہر قیمت پر ۔۔۔ اور اب یہ وقت آ گیا تھا ۔۔۔۔ وہ بےخبر تھی جس بیٹے کو دیکھنے کےلیے اس کی ممتا بے چین تھی وہ اس سے منہ موڑتا ہوا بہت دور چلا گیا تھا ..
*#جاری_ہے*

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.