میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 24
#فریحہ_چـودھـــری ✍
#قسط_24
فیضان جازم کو لے آیا تھا تہمی کی خوشی کا کو ٸی ٹھکانہ نہ تھا وہ والہانہ انداز میں اسے چومنے لگی
"کیسے ڈھونڈا بھاٸی آپ نے اسے "تہمی نے یکدم سر اٹھا کر پوچھا فیضان گہری سانس بھر کر صوفے پر جا بیٹھا
"یہ مت پوچھو تہمی بس اتنا جان لو کہ اس بدکردار شخص سے تمہارا اب کوٸی رشتہ نہیں ...."
"لیکن بھاٸی ..."اسنے کچھ کہنا چاہا مگر فیضان نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا
"نہیں تہمی کچھ مت کہنا اس کی اصلیت سامنے آ گٸ ہے اوراب میں تمہیں اس جہنم میں نہیں جھونک سکتا بہتر یہی ہے کہ اسے بھول جاٶ ....."اس نے گویا بات ہی ختم کر دی ۔۔۔۔بات اگر صرف کردار کی ہوتی تو وہ کسی فیصلے پر پہنچنے سے پہلے ضرور سوچتا مگر وہ ایک نیچ اور لالچی فطرت کا شخص تھا جسکے نزدیک کسی کی کوٸی اہمیت نہیں
ایاز اپنے فارم ہاٶس پر تھا جب فیضان بذات خود وہاں گیا تھا ایاز نے اس شرط پر جازم اس کے حوالے کرنے کا کہاکہ وہ تہمی کے حصے کی ساری جاٸیداد اس کے نام کر دے فیضان محض اسے دیکھ کر رہ گیا اور آج جب وہ دوبارہ وہاں پہنچا تو ایاز موجود نہ تھا تبھی ملازمہ کو ساتھ ملا کروہ جازم کو وہاں سے نکالنے میں کامیاب ہو گیا اب وہ حمیرا کے بارے میں سوچ رہا تھا یہ تو بہرحال طے تھا کہ اب حمیرا کی جگہ اس کی زندگی میں کہیں نہ تھی
__________________
"یہ آپ نے کیا کیا سجاد "ماریہ بیگم کے سوال پر سجاد صاحب نے آنکھوں سے بازو ہٹا کر اسے دیکھا
"کہا کہناچاہ رہی ہیں آپ "وہ سمجھ نہ سکے
"آپ نے یہ گھر اوراپنا حصہ صبوحی کےنام کر دیا ...کیوں ؟؟؟
چلیں سکندر نہ سہی مگر حیات تو ہمارے ساتھ ہی ہے آپ کے بعد سب کچھ اسے ہی سنبھالنا ہے وہ اس سب کا ذیادہ حقدار تھا "ان کا لہجہ بتا رہا تھا کہ انہیں یہ سب ناگوار گزرا ہے سجادصاحب تلخی سے مسکرا دٸیے
"تم نہیں سمجھو گی ماریہ ۔۔۔۔ مگر میں نے بہت سوچ کر ایسا کیا... آنے والا وقت ثابت کر ے گا کہ میرا فیصلہ صحیح تھا یا غلط " وہ مزید کچھ کہنا نہ چاہتے تھے تبھی کروٹ بدل گۓ اور زندگی میں پہلی بار ماریہ بیگم کو صبوحی سے نفرت محسوس ہوٸی جس نے ان کے لاڈلے بیٹے کو نہ صرف ان سے دور کر دیا تھا بلکہ جائز حق سے بھی محروم کر دیا تھا
¤¤¤¤¤¤¤¤¤
حمیرا نے اپنا کمرہ الگ کر لیا تھا فیضان سے اس کا اب تک سامنانہ ہوا تھا وہ ابھی کمرے میں آیا ہی تھا کہ حمیرا بھی وہیں چلی آٸی اسے دیکھ کر فیضان کے ماتھے پر بل پڑ گۓ مگر لب خاموش ہی رہے حمیرا کو اپنی یہ توہین بے حد محسوس ہوٸی تھی تبھی چٹخ کر بولی
"کیا فیصلہ کیا ہے میرے بارے میں " سوال پر جگ سے پانی گلاس میں انڈیلتا اسکا ہاتھ ایک لمحے کو ٹھٹھکا تھا
"بہت جلد معلوم ہو جاۓ گا "وہ مختصر سا جواب دے کر رخ پھیر گیا حمیرا بھڑک اٹھی
"تم سمجھتے کیاہو خود کو بولو "
"آواز نیچی رکھو " جواباًفیضان بھی دھاڑ کر بولا حمیرا نے رک کر اس کا یہ انداز دیکھا
"مجھے قطعًا نہیں پسند کہ کوٸی مجھ پر چلاۓ "لہجہ خالص جاگیردارانہ تھا حمیرا طنزیہ ہنسی
"اوہ اچھا ۔۔۔ تو تمہیں غصہ بھی آتا ہے میں تو سمجھی تھی کہ شاید غیرت عزت نام کی چیز سے تم واقف ہی نہیں "اس نے اس کے گزشتہ دھیمے نرم لہجے پر چوٹ کی فیضان کا ہاتھ اٹھتا اٹھتا رہ گیا اس نے بمشکل خود کو کچھ سخت سست کہنے سے روکا
"چلی جاٶ یہاں سے دفعہ ہو جاٶ "وہ پھنکارا تھا
"جا رہی ہوں اس کمرے سے تو کیا اس گھر سے بھی چلی جاٶں گی ویسے بھی مجھے یہ قید نما زندگی بالکل نہیں پسند ۔۔۔ لیکن یاد رکھنا اکیلی نہیں جاٶں گی اپنے بچوں کو ساتھ لے کر جاٶں گی "
"ہرگز نہیں ۔۔۔ ہرگز نہیں میرے بچوں پرتمہارا سایہ پڑے یہ میں ہرگز برداشت نہیں کروں گا تم اکیلی جاٶ گی اگر تم نے ان کی طرف دیکھا بھی توتمہیں جان سے مار دوں گا میں"اس کی آنکھوں سے شرارےپھوٹ رہے تھے ایک پل کو تو حمیرا کو خوف محسوس ہوا مگر اگلےہی لمحے وہ خود کو مضبوط کر چکی تھی
"میں تمہیں ایسا کر کے دکھاٶں گی "یہ کہہ کر وہ رکی نہیں تھی فیضان نے بے حد طیش میں آ کر گلاس دیوار پر دے مارا
¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤
حیات نے فیضان کو اپنے آفس بلوایا تھا اور خلاف توقع وہ چلا آیا تھا حیات حیران ہونے کے ساتھ ساتھ مزید الجھ گۓ اسکے چہرے پر ڈھونڈنے سے بھی کوٸی سخت تاثر نہ مل سکا تھا
"مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے "وہ فوراً سے پیشتر اصل موضوع کی طرف آۓ
"جی "وہ سمجھ گیا تھا کہ ضرور کوٸی خاص بات ہے حیات نے تفصیل بیان کرنا شروع کیا جوں جوں وہ بولتے جا رہے تھے اس کے چہرے کا رنگ بدلتا جا رہا تھا آخری بات پر اسے جھٹکا لگااتنا سب ہو گیا اور اسے خبر بھی نہ ہو سکی
"اب بتاٶ تم اس میں کتنا سچ اور کتنا جھوٹ ہے"
"آپ یقین کریں حیات بھاٸی ایسا کچھ نہیں ہے میں نہیں جانتا یہ سب کون کر رہا ہے ہمارے درمیان کون اختلافات کی وجہ بنا ہے سکندر کا گزشتہ رویہ بھی میری سمجھ سے باہر ہے لیکن میں ہر طرح کی قسم اٹھانے کو تیار ہوں میں اس سب میں بے قصور ہوں ۔۔۔ صبوحی میری بہن جیسی ہے بلکہ میری بہن ہی ہے بالکل تہمی جیسی ہے میرے لیے ۔۔۔۔ میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا اور سکندر کیا اسے مجھ اتنا بھی یقین نہیں تھا ۔۔۔"بولتے بولتے اس کا گلہ رندھ گیا ۔۔۔۔ حیات صاحب نے اس کا کندھا تھپتھپایا
"ہوں ۔۔۔تو پھر یہ معلوم کرنا ہو گا کہ صبوحی کو اغوا کس نے کیا تھا تب ہی یہ گتھی سلجھ سکتی ہے "وہ کچھ سوچ کر بولے
"آپ صبوحی سے پوچھیں وہ تو جانتی ہو گی "
"وہ یہ بتا سکتی تو کب کا یہ معاملہ ختم ہو جاتا ۔۔۔اس کا علاج چل رہا ہے یقین ہے بہت جلد وہ اپنے حواسوں میں لوٹ آۓ گی "
"میں اس سے ملناچاہتا ہوں "اس کے لہجےمیں کچھ تھا حیات نے بغور اس کا چہرہ دیکھا کسی قسم کی کوٸی فریبی مکاری انہیں نظر نہ آٸی تھی تبھی ہامی بھر بیٹھے
"ہوں ٹھیک ہے جیسے ہی اس کی کنڈیشن بہتر ہوتی ہے میں تمہیں بتاٶں گا" جواب لے کر وہ خاموشی سےوہاں سے نکل آیا تھا مگر ذہن اب بھی ان کی باتوں میں الجھا ہوا تھا
¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤
فیضان کو حمیرا کے ارادوں نے خوفزدہ کردیا تھا وہ سب کچھ کھو سکتا تھامگر اپنی اولاد سے دوری اس کے لیے ناقابل قبول تھی تبھی بے حد سوچ سمجھ کر اس نے یہ ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا اسی مقصد کے تحت وہ شہاب کے پاس آیا
"کہاں جاٶ گے "شہاب نے اشتعال کو دل میں دباتے ہوۓ پوچھا اس کی بات نے شہاب کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی
"کہیں بھی ۔۔۔مگر اب مزید یہاں نہیں رک سکتا ۔۔۔ پلیز بھاٸی میری مجبوری سمجھیں " اذیت ۔۔۔ دکھ ۔۔۔۔ تکلیف اس کے چہرےپرکیا کیا رقم نہ تھا مگر شہاب کو اس سےکوٸی سروکار نہ تھا اس کے لیے کچھ اہم تھا تو وہ دولت تھی فیضان اور تہمی کا حصہ دینےکا مطلب تھا آدھی جائیداد سے ہاتھ دھوبیٹھنا
"ہم مممممم ٹھیک ہے مجھے کچھ وقت دو میں وکیل سے بات کروں گا "شہاب نے بہانا گھڑا جو فیضان کو مطمٸن کرنے کو کافی تھا
¤¤¤¤¤¤¤¤¤
"بابا یہ کون ہیں ؟؟" جوجو نے سامنے دیوار پر لٹکتی تصویر کی طرف اشارہ کیا وہ آج فیضان کے ساتھ شہر کی حویلی آیا تھا فیضان تھک گیا تھا اسے سکون کی تلاش تھی تبھی وہ یہاں چلا آیا یہاں اس حویلی میں اس کی ماں کی یادیں تھیں باپ کی خوشبو تھی
"یہ تمہاری دادو ہیں "وہ نم آنکھوں سے مسکرایا
"اوہ ۔۔۔مطلب دادو۔۔۔ میری دو دادو ہیں واؤ میں مہرو کو بتاؤں گا " وہ بے طرح خوش ہوا تھا فیضان بغیر جواب دئیے آگے بڑھ گیا ہر شے کو سفید کپڑوں سے ڈھکا گیا تھا وہ ایک کمرےکا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا پورا کمرہ اندھیرا میں ڈوبا ہوا تھا لائٹ آن ہونے کے ساتھ ہی اس کے ذہن میں بہت سی یادیں تازہ ہونے لگیں کمرے کے وسط میں سامنے ہی پیانو پڑا تھا اسے یاد تھا رحیم شاہ نے اس کے موسیقی کے شوق کو دیکھتے ہوۓ یہ پیانو اسے گفٹ کیا تھا وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا اس تک آیا ہاتھ پھیر کر کچھ محسوس کرنا چاہا ایک جگہ اسکا ہاتھ رک گیا یہ وائٹ کی تھی وہ بے اختیار ہی دھن چھیڑ بیٹھا
میرے ہم نفس میرے ہم نوا
مجھے دوست بن کر دغا نہ دے
مــــیرے داغِ دل ســـے ہـــے روشنــــی
اســــی روشنــــی ســے ہــے زنـــــدگی
مجــــھے ڈد ہـے اے میــرے چــارہ گــر
یــہ چـــراغ تــو ہــی بـــجھــــا نـــہ دے
مجـھے اے چھوڑ دے میـــرے حال پـــر
تـــــیرا کیــــا بھـــروسہ ہــے چــارہ گــــر
یــــہ تیــــری نــــوازشِ مختصــــــــر
مـــــیــــــرا درد اور بـــــڑھا نـــــہ دے
مــــیرے ہــــم نــــفس میــــرے ہمنــــــوا
مجـــــھے دوســــت بــن کردغـــا نـــہ دے
مجـــھے دوست بـــن کر دغـــا نــــہ د
ذہن میں ہر طرح کی یادیں گردش کر رہی تھیں سکندر کے ساتھ گزرےلمحات ۔۔۔ ماں باپ کا پر شفقت انداز۔۔۔۔ حمیرا کی سنگت میں گزرے دن ۔۔ ایک ایک لمحہ کسی فلم کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے آ رہا تھا اس کے لب ہل رہے تھے دکھ لفظوں سے ٹپک رہا تھا جو اس کے پیچھے کھڑے جوجو کے دل میں اتر رہا تھا مگر وہ بے خبر تھا کہ اسکے یہ الفاظ اس کے بیٹے کے معصوم ذہن پر کیا اثر ڈال رہے تھے
¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤
شہاب بے چینی سے ادھر سےادھر اٹہل رہا تھا ذہن بہت تیزی سے کام کر رہا تھا فیضان اور تہمی کے ساتھ اب اسے ایاز کو بھی رستےسے ہٹانا تھا ایاز کی دغابازی اس کی نظروں میں آ چکی تھی وہ اس کے ارادے بخوبی جان گیا تھا مگر فی الحال چپ تھا کچھ سوچ کر اسکی آنکھیں چمک اٹھیں ۔۔۔ وہ ایک تیر سے دو شکار کرنے والا تھا تاکہ دولت بھی مل جاتی اور حمیرا بھی
¤¤¤¤¤¤¤¤
"جوجو مجھے آپکوکچھ بتانا ہے بیٹا "فیضان نے اسے پیار سے دیکھتے ہوۓ کہا
"جی بابا " وہ خوش ہوتا ان کے ساتھ سیڑھیوں پر بیٹھ گیا
"لیکن آپ کو مجھ سے دو وعدے کرنا ہیں جوجو پکے والے وعدے " وہ اسکے سامنے اپنی چوڑی پیشانی پھیلاتے ہوئے بھولا۔
"اور آپ کو پتہ ہے نا پکا والا وعدہ وہ ہوتا ہے جو کبھی نہیں ٹوٹتا کسی بھی حال میں نہیں "
"جی بابا " اس نے تابعداری سے سر ہلاتے ہوئے اپنا ننھا ہاتھ ان کی ہتھیلی ہر رکھ دیا وہ اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر کافی دیر سوچتے رہے جیسے لفظوں کو ترتیب دے رہے ہوں اور پھر مسکرا کر اسکی طرف دیکھنے لگے
"آپ تو میرے بہت بہادر بیٹے ہیں نا "
"جی بابا "وہ معصومیت سے بولا
"آپ وعدہ کریں جوجو آپ جازم کا بہت خیال رکھیں گے اسے کبھی نہیں بتائیں گے کہ وہ ـ ـ ـ ـ " وہ رکے
"جوجو جازم اب ہمارے ساتھ ہی رہے گا ۔۔۔ وہ آپ کا بھائی ہے بیٹا ہمیشہ اسے اپنا بھائی سمجھنا اسے کبھی مت بتانا کہ وہ جازم ایاز ہے ۔۔۔ جازم فیضان نہیں "
"لیکن بابا وہ تو تہمی پھوپھو کا بیٹا ہے "اس نے معصومیت سے سوال داغا
"تہمی ہمیشہ تو ہمارے ساتھ نہیں رہے گی نا ۔۔۔ لیکن جازم ہمارے ساتھ رہے گا "وہ اسے اپنے ارادے بتا رہا تھا جوجو نے سمجھداری سے سر ہلایا
"ٹھیک ہے بابا میں کبھی نہیں بتاؤں گا "اس نے وعدہ کر لیا تھا ایسا وعدہ جسے آخری سانس تک نبھانا تھا
"اور ہاں دوسری بات کبھی کسی کو دھوکہ مت دینا خصوصا ان لوگوں کوجو آپ سےمخلص ہوں ۔۔۔ دھوکہ بہت تکلیف دیتا ہےبیٹا "وہ اب نصیحت کر رہا تھا بے حد نرمی و محبت سے جینے کے گر سکھا رہا تھا زندگی کا درس دے رہا تھا جانےاسکے دل میں کون سا ڈر تھا اور جوجو اپنے باپ کے چہرے پر نظریں جماۓ یہ سوچنے میں مصروف تھا کہ اس کے بابا اسے یہ سب کیوں بتا رہے ہیں کیا وہ کہیں جا رہے ہیں "یہ سوچ محض دماغی تھی
______________
ہر کشتی کا کوٸی کنارا نہیں ہوتا
جسے ہم کرتے ہیں پیار بس وہ ہمارا نہیں ہوتا
روتا ہوگا ساگر بھی کسی کے پیار میں
ورنہ سمندر کا پانی اتنا کھارانہیں ہوتا
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صبوحی کی حالت کچھ بہتر ہونے لگی تھی وہ بولنے لگی تھی مگر اس کے مکمل صحت یاب ہونے تک سجاد صاحب اس سے کسی قسم کی کوئی پرانی با ت نہ کرنا چاہتے تھے وہ منتظر تھے کہ صبوحی خود بتاۓ
ماریہ بیگم اس سے بات کرنا پسند نہ کرتی تھیں باقی سب کے رویے دیکھ کر وہ کمرےمیں بند ہو کر رہ گٸ پرانی تلخ یادیں اس کا یچھا نہ چھورتی تھیں اپنے اندر ہونے والی تبدیلی سے بھی وہ بخوبی واقف ہو چکی تھی تبھی فیضان چلا آیا ۔۔۔۔ سب کسی شادی میں شرکت کے لیے گھر سے باہر تھے اسی لیے حیات نے ملاقات کی اجازت دی۔۔۔ صبوحی اسےدیکھ کر نظریں جھکا گٸ جو بھی ہوا بہرحال اسے فیضان سے کوٸی گلہ نہ تھا
"میں سب جان گیا ہوں" کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعدفیضان کی آواز آٸی "صبوحی میں نہیں جانتا ایسا کیوں ہوا مگر ۔۔۔
"مگر میں جانتی ہوں "صبوحی بات درمیان میں کاٹ کر بولی لہجہ سرد جبکہ نظریں زمین پر تھیں فیضان نے چونک کر اس کا سپاٹ چہرہ دیکھا
"کو۔۔۔کون ہے وہ "
"سکندر "جواب بالکل غیر متوقع تھا فیضان کو جھٹکا لگا صبوحی نے نظریں اٹھا کر فیضان کی بے یقین آنکھوں میں جھانکا
"ہاں سکندر اس نے مجھے اغواکیا اسنے میرے شفاف کردار کو داغ دار کیا ۔۔۔ اس نے میری نسوانیت کی توہین کی ہے۔۔۔ وہ ذمہ دار ہے میری بربادی کا قاتل ہے میری خوشیوں کا "
"ایسا کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ کبھی اس بچے کو ۔۔۔ "فیضان بولتے بولتے رک گیا صبوحی کے بدلتے تاثرات نے اسے خاموش ہونے پر مجبور کر دیا
"آٸم سوری مجھے شاید یہ نہیں کہنا چاہٸے تھا "وہ شرمندہ سا بولا صبوحی نے سختی سے لب بھینچ لیے چند لمحے یونہی گزر گٸے جب اچانک صبوحی اٹھی اور سٹڈی ٹیبل تک گٸ پلٹی تو ہاتھ میں ایک کاغذ اور پنسل تھی
"ٹھیک کہا آپ نے ۔۔۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ اس بچے کو اپنا نام دیتا مگر اس نے یہ گناہ آپ پر تھونپ دیا "صبوحی نے بے رحمی سے گویا خود کی ہی نفی کی تھی وہ دنگ رہ گیا
"میں یہ راز کبھی آشکار نہیں کروں گی یہ بات میرے اور آپ کے درمیان رہے گی "وہ مزید بولی
"مگر کیوں " فیضان الجھا وہ اس کے سامنے صوفے پر براجمان ہو گٸ
"کیوں کہ کوٸی اعتبار نہیں کرے گا بابا کو بہت محبت ہے مجھ سے مگر وہ کبھی نہیں مانیں گے وہ بھی یہی سوال کریں گے جو کچھ دیر قبل آپ نے کیا "اس کے چہرے کا رنگ یکدم سے بدلا ساتھ ہی انداز بھی بدل گیا تھا جسے فیضان کوٸی نام نہ دے سکا
"اور میں ۔۔۔۔ میں کیا جواب دوں گی کوٸی جواب نہیں ہے میرے پاس ہر ایک کے سامنے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے روتی تڑپتی رہوں گی مگر کوٸی یقین نہیں کرے گا مجھے انتظارکرنا ہے اس وقت کا جب وہ ظالم شخص خود آۓ گا اور اپنے منہ سے اپنے جرم کا اعتراف کرے گا تب میں سرخرو ہو جاوں گی"وہ بولتے بولتے سانس لینے کو رکی
"میں جاٶں گا سکندر کے پاس۔۔۔۔ میں اسے سب بتاٶں گا مجھے یقین ہے وہ ضرور آۓ گا "فیضان نے پر یقین لہجےمیں کہہ رہا تھا صبوحی تمسخرانہ ہنسنے لگی
"وہ نہیں آۓ گا۔۔۔ وہ کبھی نہیں آۓ گا ۔۔۔ جب تک اسے خود احساس نہ ہوا ۔۔۔۔ وہ کبھی نہیں آۓ گا ۔۔۔ میں دعا کرتی ہوں خدا اسے بیٹی دے اور اس کی بیٹی بھی وہی سب برداشت کرے جو اس نے میرے ساتھ کیا ۔۔۔ تب تب وہ تڑپے گا بالکل اسی طرح جس طرح میں تڑپی ہوں پھر... وہ آۓ گا ۔۔۔۔۔ تب ...اسے اس خون کی کشش محسوس ہو گی جس کے وجود سے آج وہ انکاری ہے ۔۔۔۔ مگر میں چاہتی ہوں تب وہ وجوداسے نظر نہ آ ۓ وہ اسے ڈھونڈنے کے لیے دربدرکی خاک چھانتا پھرے بھٹکتا پھرے مگر سکون نصیب نہ ہو وعدہ کریں آپ ۔۔۔ آپ وعدہ کریں آپ اسے لے جاٸیں گے ۔۔۔ آپ اسے نواب ولا کی دہلیز پر کبھی آنے نہ دیں گے
وعدہ کریں آپ مجھ سے"وہ وحشت کے عالم میں ایک ہی بات بارباردہرا رہی تھی فیضان کو اس کی ذہنی حالت پر شک ہوا اس کا سر بے اختیارہی اثبات میں ہل گیا جسے دیکھ کر صبوحی کے چہرے پرسکون اتر آیا اس نے بغیر کوٸی لمحہ ضاٸع کیے نوٹ پیڈ اس کی طرف بڑھایا وہ سمجھ گیا تھا اس نے تسلی کی خاطر ایک کی بجاۓ دو تحریریں لکھی تھیں
"یہ میری امانت ہے جسے بہت جلد لینے آٶں گا ۔۔۔۔۔ فیضان "
اس کے بعد وہ وہاں رکا نہیں تھا صبوحی کی حالت نے اسے اندر تک دکھی کیا تھااسے یقین کرنا مشکل ہورہا تھا کہ یہ وہی صبوحی ہے جسےوہ جانتا تھا دل ہی دل میں سکندرکو ڈھونڈنے کا عہد کرتا واپسی کے لیے روانہ ہو گیا مگر کون جانتا تھا کہ اس وعدہ کو وفا ہونا ہی نہ تھا
★★★★★
شام ڈھل چکی تھی وہ کمرےمیں بیٹھا زندگی کے اتار چڑھاٶ کے بارے میں سوچ رہا تھا تبھی دروازہ ناک ہونے پر سیدھا ہوا ہما کو اندرآتا دیکھ کر اسے حیرت ہوٸی جسے چھپاتا خوش اخلاقی سے حال احوال پوچھنے لگا
"مجھے ایک ضروری بات کرنی ہے "ہما نے اصل بات کی طرف آنا ضروری سمجھا
"جی "
"میں حمیرا کے بارے میں بات کرنے آٸی ہوں وہ دوست کی طرف گٸ ہے تبھی موقع مل سکا "
"میں سن رہا ہوں "حمیرا کے ذکرپراس کے چہرے پر ناگواری در آٸی لہجہ خودبخود تلخ ہو گیا
"وہ ناسمجھ ہے میں جانتی ہوں کہ اس سے انجانے میں بہت سی غلطیاں ہو جاتی ہیں آپ درگزر کر دیا کریں "وہ رسان سے کہہ رہی تھی فیضان نے سر جھٹکا
"انجانے میں کی گٸ غلطیاں قابل معافی ہوتی ہیں بھابھی مگر جو غلطیاں جان بوجھ کر کی جاٸیں وہ غلطی نہیں گناہ ہوتا ہے اور گناہ کی سزا ضرور ملتی ہے ۔۔۔۔۔ آپ جانتی ہیں وہ ایسا کیوں کر رہی ہے "اس کے سوالیہ اندازپر ہمانے نفی میں سر ہلایا
"وہ ایاز سے شادی کرنا چاہتی ہے "وہ بمشکل یہ تلخ حقیقت کہہ پایا تھا ہما نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا
عین اسی لمحے دھاڑ سے دروازہ کھلا اور شہاب سرخ چہرہ لیے ملازموں کے ہمراہ اندر داخل ہوا ساتھ ہی ہانپتی کانپتی امینہ بھی تھی فیضان اورہما نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا شہاب نے آگے بڑھ کر ہما کو گردن سے دبوچ لیا
"بے حیا عورت تجھے شرم نہ آٸی میرے ہی ناک لے نیچٕے اتنا بڑا ڈرامہ کرتی رہی "وہ غیض و غضب کی تصویر بنا ہوا تھا منہ سے الفاظ کی بجاۓ شعلے نکل رہے تھے
"بھاٸی "فیضان نےکچھ کہنا چاہا مگر منہ پرلگنے والے تھپڑ نے کھلے لبوں کو خاموش کروا دیا آنکھوں میں حیرانی در آٸی
"خاموش.... تم دونوں مجرم ہو تم دونوں سزاوار ہو مجھ کو دھوکہ دینے کی قیمت چکاٶ گے تم دونوں.... لے جاٶ دونوں کو اور ہمارےمخصوص قید خانے میں ڈال دو"وہ منصف بنا بے رحمی سے حکم سناتا ان کی آہوں سسکیوں پکاروں کو نظراندازکرتا اپنے پلان کی کامیابی پر اندر ہی اندر خوش ہو رہا تھا
★★★★★
حمیرا ایازکےساتھ رات گیۓ حویلی لوٹی تھی اسی لیے اس واقعے سے لاعلم تھی وہ دبے پاٶں کمرےمیں داخل ہوٸی جہاں حرب اور جوجو سو رہے تھے چند لمحے جوجو کے معصوم صورت کو دیکھتی رہی وہ اسے چھوڑ کر جانا نہیں چاہتی تھی مگر وہ اس کی خاطر قربانی بھی نہیں دے سکتی تھی اس نے ہاتھ بڑھا کر حرب کو اٹھا لیا وہ دروازے سے چند قدم دور ہی تھی جب جوجو کی آواز آٸی
"مما کہاں جا رہی ہیں آپ "وہ گھبرا گٸ
"آ ۔۔۔۔ کہیں نہیں تم سو جاٶ "
"مگر آپ گڑیا کوکہاں لےکر جارہی ہیں "وہ مطمٸن نہ ہوا تھا
"جہنم میں "وہ تڑخ کر بولی
"مما پلیز آپ میرے پاس سو جاٸیں "جوجو نے آگے بڑھ کر حمیرا کا ہاتھ تھام لیا وہ گڑبڑا گٸ
"جوجو مجھے تنگ مت کرو تم چھوٹے بچے نہیں ہو کہ تمہیں ساتھ سلایا جاۓ "اس نے غصے سے جوجو کے ہاتھ جھٹکے وہ سہم گیا "جاٶ سو جاٶ آرام سے"وہ آگے بڑھنےلگی مگر اسے رکنا پڑا جوجو اس کاآنچل تھام چکا تھا
"مما پلیز "اس کی آنکھوں میں نمی اتر آٸی مگر حمیرا کا دل پھر بھی نہ پگھلا "بابا بھی نہیں ہیں روم میں ۔۔۔۔ آپ تو مت جاٸیں "حمیرا نے اسے دھکا دے کر ساٸیڈ پر کیا اور خود کمرے سے نکل گٸ وہ وہیں بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا
★★★★★
"پلیز شہاب بھاٸی۔۔۔۔ میری بات سن لیں ۔۔۔۔ آپ کو غلط فہمی ہوٸی ہے میرے بھیا ایسے نہیں ہیں"تہمی گڑگڑا رہی تھی مگر شہاب کو کوٸی فرق نہ پڑا وہ ٹانگ پر ٹانگ جماۓ بڑے کروفر سےگردن اکڑاے بیٹھا تھا امینہ نے بھی اسے دیکھ کر منہ پھیر لیا وہ شہاب کے قدموں میں بیٹھ گٸ
"آپ کو خدا کا واسطہ ہے انہیں چھوڑ دیں ۔۔۔ رحم کریں بھاٸی ۔۔۔ میں آپ کے پاٶں کو ۔۔۔۔ "وہ اس کے پیروں کو ہاتھ لگانے لگی شہاب جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا
"بند کرو یہ ڈرامہ "وہ غصے سے چلایا تہمی کی زبان کو بریک لگا
"جاٶ فاٸل لےکر آٶ " شہاب نے داٸیں طرف کھڑے ملازم کی طرف اشارہ کیا وہ خاموشی سے پلٹ گیا ملازمین کو سختی سے زبان بند رکھنے کا حکم ملا تھا وہ مجبور تھے شہاب رحیم شاہ کی جگہ تھاوہ چاہ کر بھی اس کے فیصلے کے خلاف سر نہ اٹھا سکتے تھے
"یہ پکڑو فاٸل ۔۔۔۔ اگر چاہتی ہو کہ تمہارے بھاٸی کی جان بخشی کی جاۓ تو اس پر ساٸن کر دو ورنہ " شہاب نے فاٸل اس کے منہ پر مارتے ہوۓ دھمکی آمیز اندازمیں انگلی اٹھا کر سفاکی سے کہا
"میں کر دوں گی ساٸن "وہ منمناٸی
"ابھی کرو "شہاب نے پنسل اس کی طرف اچھالی اس نے کانپتے ہاتھوں سے فاٸل کھول اس سے پہلےکہ وہ ساٸن کرتی ملازم کے منہ سے نکلنے والے الفاظ نے اسے اندر تک ہلا کر رکھ دیا
*#جاری_ہے*

No comments: