Ads Top

ناول؛ جنت کے پتے از-- نمرہ احمد قسط 4


جنت کے پتے 
از

 نمرہ احمد



ناول؛ جنت کے پتے   
از-- نمرہ احمد
قسط 4
وہ معزرت خواہانہ مسکراتی ہوئ گیٹ کی جانب بڑھ گئی۔ باہر آ کر اس نے بے اختیار آنکھوں کے بھیگے ٗگوشے صاف کیے اور ایک نظر ان کو پلٹ کر دیکھا، پھر سر جھٹک کر آگے بڑھ گئی۔ 
       ان کے گھر کے ساتھ خالی پلاٹ میں شامیانے لگا کر مہندی کا فنکشن ارینج کیا گیا تھا۔ مہندیاں دونوں گھروں کی الگ الگ تھیں۔
        گیندے کے پھولوں اور موتیے کی لڑیوں سے ہر کونا سجا تھا۔ تقریب سیگریگیٹڈ تھی۔ مرد الگ، عورتیں الگ۔ ہاں عورتوں کی طرف خاندان کے مردوں کا آنا جانا لگا تھا۔مریم بھی سلور کامدار لہنگے میں ادھر  ادھر گھوم رہی تھی۔ وہاں ڈی جے ، مووی والے اور ریفریشمنٹ سرو کرتے باہر کے مرد تھے  مگر آج تو شادی  کا ایک  فنکشن تھا، پھر سر ڈھکنے کی پابندی کیسے ہوتی؟ شادیوں پہ تو  خیر ہوتی ہے نا۔
       ”حیا! ڈانس شروع کریں؟” ارم اپنا لہنگا سنبھالتی ہوئی اس کے پاس آئ۔
        ”ہاں! ٹھیک ہے ،تم گانا لگواؤ اور٠٠٠٠٠٠٠٠ یہ کون ہے؟“ سامنے والی کرسیوں کی قطار کے ساتھ کھڑی ایک لڑکی کرسی پہ بیٹھی خاتوں سے جھک کر مل رہی تھی۔ اس نے سیاہ عبایا اور اوپر اسٹول لے رکھی تھی۔ عجیب بات تھی کہ اس لڑکی نے انگلیوں سے نقاب تھام رکھا تھا۔
         ”کون”؟ ارم نے پلٹ کردیکھا، پھر گہری سانس لے کر مڑی ۔ ”یہ ایلین ہیں”۔
        ”کون؟” حیا نے حیرت سے کہا۔
         ”ایلین، ارے  شہلا بھابھی ہیں یہ۔ پوری  دنیا  سے الگ ان کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہوتی ہے۔ بس توجہ کھینچنے کے لیے فنکشنز پر بھی عبایا، نقاب میں ملتی ہیں۔ اب پوچھو، بھلا عورتوں کے فنکشن میں کس سے پردہ کر رہی ہیں؟”
        ”ہاں، واقعی، عجیب ہیں یہ بھی!” اس نے شانے اچکائے۔ وہ ان کے ایک سیکنڈ  کزن کی وائف تھیں اور سال بھر پہلے ہی شادی ہوئی تھی۔
        ڈی جے نےگانا سیٹ کر دیا۔
        انہوں نے مووی والے کو ڈانس کی مووی بنانے سے منع کر دیا اور پھر اپنا مہارت سے تیار کردہ رقص شروع کیا۔ ایک سنہری پری لگ رہی تھی تو دوسری چاندی کی۔ جب پاؤں دکھ گئے اور خوب تالیاں بجیں تو وہاں ہنستے ہوئے کرسیوں کی طرف آئیں۔
      
       "السلام علیکم شہلابھابھی!" وہ لڑکی بھی اسی میز پر موجود تھی۔ ارم نے فوراً سلام کیا، حیا نے بھی پیروی کی۔
       ”وعلیکم السلام٫ کیسی ہو تم دونوں؟“ وہ مسکرا کر خوش دلی سے ملی۔ ایک ہاتھ کی دو انگلیوں سے اس نے ابھی تک سیاہ نقاب تھام رکھا تھا۔
بالکل ٹھیک٫ شہلا بھابھی! نقاب اتار دیں٫ ادھر کن ہے؟“
شہلا نے جواباً مسکرا کر سر ہلایا، مگر نقاب اسی طرح پکڑے رکھا۔
” ما شاءاللہ تم دونوں بہت پیاری لگ رہی ہو“۔
وہ بات کرتے کرتے ذرا سی ترچھی ہوگئ۔ حیا نے حیرت سےدیکھا۔ شاید اس طرف مووی والا فلم بنا رہا تھا،  اسی لیے۔
عجیب عورت ہے، اتنی بھی کیا بے اعتباری، ہماری فیملی مووی ہے، ہم کون سا باہر کسی کو دکھائیں گے۔حیا بڑبڑائ۔
پھر وہ جلد ہی وہاں سے اٹھ گئ۔ اماں جانے کدھر تھیں۔ کس سے پوچھے سبین پھوپھو آئی ہیں ی نہیں۔ کافی دیر اسی شش و پنچ میں مبتلا رہی، پھر گھر چلی آئی اور ٹی وی لاؤنج میں فون کے ساتھ رکھی ڈائری اٹھائی۔ تھکن کی وجہ سے دھم سے صوفے پر گری ۔ ار سبین پھوپھو کا نمبر تلاش کرنے لی۔ اس نے کبھی ان کو یوں فون نہیں کیا تھا، مگر آج دل کے ہاتھوں ہار گئی تھی۔ ترکی کا وہ نمبر مل ہی گیا۔ اس نے ریسیور اٹھایا اور نمبر ڈائل کیا۔ گھنٹی جانے لگی تھی۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ پانچویں گھنٹی پر فون اٹھا لیا گیا۔
ہیلو“۔
بھاری مردانہ آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔ 
********
”ہیلو“۔ بھاری مردانہ آواز اس سے ٹکرائی۔
”اسلام علیکم“۔ اس نے خشک لبوں پر زبان پھیری۔
جواباً وہ کسی انجان زبان میں کچھ بولا۔
”میں پاکستان سے بات کر رہی ہوں“، گڑبڑا کر انگریزی میں بتانے لگی۔
پاکستان سے کون؟ اب کے وہ انگریزی میں پوچھ رہا تھا۔
اس کی آنکھوں میں پانی بھرنے لگا۔
میں سبین سکندر کی بھتیجی ہوں۔ پلیز ان کو فون دے دیں۔
وہ تو جواہر گئی ہیں، کوئی میسج ہے تو بتا دیں۔ وہ مصروف سے انداز میں کہہ رہا تھا۔ اب یہ جواہر کیا تھا، اسے کچھ اندازہ نہ تھا۔
وہ۔۔۔۔۔ وہ سبین پھوپھو نے پاکستان نہیں آنا کیا داور بھائی کی شادی پر؟
نہیں وہ بزی ہیں۔ شاید وہ فون رکھنے ہی لگا تھا کہ وہ کہہ اٹھی۔
آپ۔۔۔۔۔۔ آپ کون؟
ان کا بیٹا۔۔۔۔۔۔۔ جہاں! کھٹ سے فون رکھ دیا گیا۔
اس نے بھیگی آنکھوں سے ریسیور کو دیکھا اور پھر زور سے کریڈل پہ پٹخا۔ آنسو صاف کیے اور اٹھ کر باہر آئی تو گیٹ کی طرف سے ظفر چلا آ رہاتھا۔ اس کے ہاتھ میں سفید ادھ کھلے گلابوں کا بکے تھا۔
وہ بے اختیار ٹھٹکی کر رکی، پھر لہنگا سنبھالتی، زینے اتر آئی۔
یہ کیا ہے ظفر؟
اوہ تسی اتھے ہو؟ یہ کوریئر والے نے دیا ہے تہاڈے لیے۔ ظفر نے گلدستہ اور ایک بند لفافہ اس کی طرف بڑھایا۔ وہ پچھلے سات سال سے تایا فرقان کا ملازم تھا۔ 
ٹھیک ہیے تم جاؤ۔اس نے بوکے کو بازو اور سینے کے درمیان پکڑا اور دونوں ہاتھوں سے بند لفافہ کھولنےلگی۔
حسب معمول اس میں سفید سادہ کاغذ تھا، جس کے بالکل درمیان میں اردو میں ایک شطر کھی تھی۔
”اس لڑکی کے نام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کبھی کسی ان چاہے رشتے کے بننے کے خوف سے روتی ہے تو کبھی کسی بن چکے ان چاہے رشتے کے ٹوٹنے کے خوف سے“۔
وہ سن رہ گئی پھر گبھرا کر ادھر ادھر دیکھا۔
گیٹ کھلا تھا۔ مہندی والی جگہ سے بہت سے لوگ آ جا رہے تھے۔ ایسے میں کیا کوئی ادھر تھا جو بغور مشاہدہ کر رہا تھا؟
اس نے لفافے کو پلٹا۔ کوریئر کی مہر ایک روز قبل کی تھی۔
ابھی دس منٹ قبل وہ جہان کے ساتھ پہلی دفعہ بات کرکے روئی تھی۔
بن چکا ان چاہا رشتہ۔
اور گھنٹہ بھر پہلے ولید اور اس کے والدین سے ملی تھی۔
پان چاہے رشتے کے بننے کے خوف۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کون تھا جو اتنا با خبرتھا؟ ایک دن قبل ہی اسے کیسے علم ہواکہ وہ آج دو دفعہ روئے گی؟
وہ خوف زدہ سی کھڑی بار بار وہ تحریر پڑھے جا رہی تھی۔
              
جاری ھے

2 comments:

  1. Episode 5 kidr hai "jannat k patty" ki ?

    ReplyDelete
    Replies
    1. https://freedailyurdupdfnovels.blogspot.com/2019/06/JannatkayPattayE05.html

      Delete

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.