میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 34
#فریحہ_چـودھـــری ✍
#قسط_34
"ہو گئ صفائی "جازم نے آدھے گھنٹے بعد کمرے میں جھانک کر پوچھا
"جی" اسنے تابعداری کا مظاہر کیا
وہ پورا دروازہ کھول کر اندر آ گیا
"ہوں" اب وہ گھوم کر ہر شے کا بطور خاص جائزہ لے رہا تھا
"یہ تم نے صفائی کی ہے "اسکے تاثرات میں یکدم ہی سختی آئی تھی ہر شے کو تنقیدی انداز میں گھورتے آخر میں نگاہیں اس پر جما دیں
رخما نے ہڑ بڑا کر اسے دیکھا ہر شے چمکتی دمکتی صاف ستھری تھی تبھی اسکے غصے کی وجہ جاننے سے قاصر رہی
"ڈریسنگ روم میں تو جھانکا بھی نہ ہوگا تم نے ؟؟" نیا اعتراض کا نقطہ اٹھایا گیا
"نہیں میں تو" وہ کہنے ہی والی تھی پر اپنی طرف بڑھتے جازم کو دیکھ کر لب دانتوں تلے دبا گئ
"نہیں نا چلو میں دکھاتا تمہیں"
وہ اسے بازو سے تھامے کھینچتا چلا گیا
☆☆☆☆☆☆☆
عشق کرنے کے آداب ہوا کرتے ہیں
جاگتی آنکھوں کے کچھ خواب ہوا کرتے ہیں
ہر کوئی روکے دکھا دے یہ ضروری تو نہیں
خشک آنکھوں میں بھی سیلاب ہوا کرتے ہیں
کچھ فسانے ہیں جو چہرے پہ لکھے رہتے ہیں
کچھ پس دیدہ خوشاب ہوا کرتے ہیں
کچھ تو جینے کی تمنا میں مرجاتے ہیں
اور کچھ مرنے کو بے تاب ہوا کرتے ہیں
تیرنے والوں پہ موقوف نہیں خالد
ڈوبنے والے بھی پایاب ہوا کرتے ہیں
"بی جان تھک گیا ہوں میں... ان نفرتوں اور عداوتوں کے خاردار رستوں پر چلتے چلتے پیر دکھنے لگے ہیں... اب بس رک جانا چاہتا ہوں کسی آرامدہ جگہ پر ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ کر کچھ دیر سستانا چاہتا ہوں.......... میں جینا چاہتا ہوں بی جان "
جہانگیر نے آنکھیں سختی سے میچ کر سر انکے گھٹنے پر رکھ دیا وہ اسکے نکاح کا سن کر رک نہ پائی تھیں تبھی فورا اسکے پاس پہنچ گئیں جہانگیر بھی تو اتنے عرصے سے انکی ممتا کی ٹھنڈک محسوس نہ کر پایاتھا اب جو غم خوار میسر آیا تو دل کا بوجھ بانٹتا چلا گیا بی جان نے محبت سے اسے بال سنوارے
"تو کس نے روکا ہے جہانگیر ...میرے بچے... میں بھی تمہیں خوش دیکھنا چاہتی ہوں ...بہت خوش... ہر غم سے پاک اور آسودہ... چھوڑو سب لوٹ آو واپس... سب تمہارے منتظر ہیں" ..
"میں بھی کب رکنا چاہتا ہوں اب تو دل پر پڑا بوجھ بھی ہٹ گیا ہے بابا کے قاتل اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں بس اک خاص وقت کا انتظار ہے "
"اور مجھے یقین ہے وہ وقت بہت جلد آۓ گا" بی جان دھیرے سے مسکرائی تھیں ساتھ ہی جھک کراسکی پیشانی چوم لی
"بس میری اک گزارش ہے آپ سے "
"بلا جھجھک کہو" وہ ہمہ تن گوش ہوئی تھیں ایسا بھلا کب تھا کہ جہانگیر کچھ مانگے اور بی جان اسے پورا نہ کریں
"آپ نوائم کو یہاں سے لے جائیں وہ بہت معصوم ہے بی جان... میں چاہتا ہوں واپسی کے بعد اسے پوری شان و شوکت اور سج دھج سے جہانگیر شاہ کے دل کی زینت کو شاہ ولا کی رونق بناوں... وہ میرے دل کی ملکہ ہے اسے اک ملکہ کا مقام ملنا چاہیے "وہ بڑے واضح انداز میں اپنا پیغام ان تک پہنچا گیا تھا بی جان نے دل ہی دل میں اسکی آئندہ زندگی کی ڈھیروں دعائیں کر ڈالیں
☆☆☆☆☆☆☆
"تمہیں شاید معلوم نہیں میں کتنا صفائی پسند ہوں "
جازم نے پاوں میز پر ٹکاتے گردن فخریہ اکڑا کر جملہ پورا کیا یہ الگ بات تھی کہ اسے ہمیشہ اسی صفائی پسند طبیعت کے باعث اپنا پھیلاوہ خود سمیٹنا پڑتا تھا
رخما نے محض سر ہلانے پر اکتفا کیا اور استری شدہ کپڑے اٹھا کر وارڈروب میں سیٹ کرنے لگی جازم پچھلے دو گھنٹے سےاسکے سر پر سواراپنی وارڈروب کی صفائی کروارہاتھا ساتھ ساتھ طنز کے نشتر بھی جاری تھے پر رخما نے نہ بولنے کی گویا قسم کھائی تھی مگراس وقت اسکی برداشت کی حد ختم ہو گئی جب تہہ شدہ اور سلیقے سے رکھے کپڑوں کو جازم نے ایک جھٹکے سے باہر الٹ دیا
وہ اپنی محنت کی بربادی پرگنگ سی اسے دیکھے گئی
"کسی کام کی نہیں ہو تم جاہل گنوار "
وہ محض اسے ٹارچر کرنے کے لیے یہ سب کر رہا تھا
رخما کے تن بدن میں اشتعال کی ایک تیز لہر اٹھی "مت بھولیں یہی جاہل گنوار اب آپکی بیوی ہے جو مستقل آپکی پلے پڑ چکی ہے"
جازم کو اس سے ایسے جواب کی شاید امید نہ تھی تبھی وہ پل بھر کو چونکاتھا دوسرا تاثر جو اسکے چہرے پر ابھرا وہ غصے کا تھا وہ لپک کر اس تک پہنچا
"بڑی زبان چلنے لگی ہے ہوں مت بھولو ابھی میں نے تمہیں ایسا کوئی حق نہیں دیا کہ تم اترانے لگو
میں چاہوں نا تو پل بھر میں تمہیں زمین پر لا سکتاہوں" وہ چہرہ اسکے قریب کرتے پھنکارا تھا رخما پر گھڑوں پانی گر گیا
مارے اہانت کے اسکا چہرہ تپش چھوڑنے لگا تھا "چلو دوبارہ سب سیٹ کرو خبردار جو آواز نکالی"
اسنے ہاتھ سے رخما کو وارڈروب کی جانب دھکیلا تھا ساتھ ہی اگلا حکم جاری کیا "یہ سب دبارہ استری کرو "
وہ کپڑوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کرتا پھر سے صوفے پر براجمان ہوگیا
رخما کی آنکھوں سے سیل رواں ہونے لگا جسے چھپانے کو وہ رخ پھیر گئ
☆☆☆☆☆☆☆
"یہ یہاں کیا کر رہا ہے میں ہر جگہ ڈھونڈ رہی ہوں "حرب دھاڑ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی مغیث کو عون کے ساتھ بیڈ پر سوتے دیکھ کر وہ مشتعل ہو کر چلائی تھی
"آہستہ بیگم آہستہ ...بچہ سو رہا ہے "مغیث نے سرگوشی کے انداز میں اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا حرب نےاسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا "ایسے کیا دیکھ رہی ہو قتل کرنا ہے کیا "
وہ چڑانے سے باز نہ آیا تھا
حرب عون کو اٹھا نے آگی بڑھی" رکو رکو "مغیث لپک کر سانے آیا وہ بمشکل سنبھلی
"میرے پاس ایک پلان ہے "مقصد بات کوطول دینا تھا
"پوچھو گی نہیں کیا "اسے چپ دیھ کر پھر زبان پھسلی
"خود ہی فرما دیں" وہ مزید چڑی تھی
"تم شاید بچپن سے ایسی ہو "مغیث نے متاسفانہ سر ہلایا
"کیسی "
"نک چڑھی"
حرب نے دانت کچکچاۓ ساتھ ہی واپسی کے لیے قدم بڑھا دئیے
"اچھا اچھا سنو " وہ پھر سے راستے میں آیا
"میں سوچ رہا ہوں میں اور تم یعنی کہ میں اور تم "اب کے اسنے میں اور تم پر خصوصا زور دیا
"مسڑ اینڈ مسز مغیث ہنی مون کے لیے نہ چلیں" اسنے بے حد سٹائل سے مسکرا کر اسکی طرف قدرے جھک کر فدا ہونے والے انداز میں بات پوری کی تھی پر اثر الٹا ہوا
حرب نے آستینیں چڑھا لیں
"مسٹر کسی خوش فہمی میں مت رہنا ایسے حربوں سے آپ حرب فیضان کا دل نہیں جیت سکتے "
وہ پیر پٹختی سائیڈ سے نکلنے لگی
"تو پھر کس طرح جیتیں آپ ہی بےبتلا دیجیے "
وہ خوشگوار موڈ میں تھا تبھی بغیر برا مانے مسکراتا رہا
"ضروری نہیں سمجھتی" وہ مزید اترای تھی آخر اتنا تو اسکا حق تھا
"کہاں جا رہی ہو "مغیث نے اسے قدم بڑھاتے دیکھ کر پوچھا
"جہنم میں"
"میں بھی چلوں" وہ کون سا کم تھا
"آپ ہی چلے جائیں "
"بشرطیکہ آپکا ساتھ ہو "
مغیث نے دانت نکوس کر اسے تپایا تھاوہ یرپٹختی اسے پرے دھکیلتی باہر نکل گئ
*#جاری_ہے*

No comments: