میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 35
#فریحہ_چـودھـــری ✍
#قسط_35
"پھوپھو ۔۔۔ ارےپھوپھو کہاں ہیں آپ " گوہر نے لاؤنج میں قدم رکھتے ہی تیز آواز میں چلانا شروع کیا
" ہاں بھئ یہاں ہوں میں " ندرت نے میٹھے لہجے میں جواب دیا
"ارے نہیں ۔۔۔ میں صبوحی پھوپھو کا پوچھ رہا ہوں " وہ کھسیا کر وضاحت دینے لگا کچھ بعید نہ تھا کہ ندرت اس جواب پر اسے جھڑک دیتی مگر صد شکر کہ صبوحی کی آمد پر ان کی توپوں کا رخ دوسری طرف ہو گیا
"کیا بات ہے گوہر " لہجے میں یاسیت تھی
" ایسے نہیں پھوپھو ۔۔۔ اتنی اچھی خبرہے ۔۔۔ اب ایسے موڈ کے ساتھ سنیں گی" گوہر نے بازو ان کے کندھے پر پھیلاتے محبت سے کہا ندرت نے ناگواری سے پہلو بدلا
"نوائم کا پتہ چلا کچھ " ان کے چہرے پر بےساختہ جگنو کی روشنی پھیلی تھی
" جی ہاں ۔۔۔۔ اب آپ بے فکر ہو جائیں ۔۔۔ وہ بالکل ٹھیک ہے اور محفوظ بھی " گوہر نے جوش میں انہیں جواب دیا ۔۔۔ندرت اور ماہی کے ساتھ ساتھ سیڑھیاں اترتے سکندر اور حرب بھی چونک گئے
"کیا؟ سچ کہہ رہے ہو ؟؟ کہاں ہے وہ ؟؟؟ مجھے لے چلو اس کے پاس ۔۔۔ابھی لے چلو " وہ خوشی و دکھ کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ ضدی لہجے میں بولیں
" آپ بے فکر ہو جائیں ایک دو دن میں وہ ہمارے پاس ہو گی "
" واہ بھئ واہ۔۔۔ چار دن سے غائب لڑکی بالکل محفوظ بھی ہواور ٹھیک بھی کیسی باتیں کرتے ہو لڑکے "ندرت فوراً فارم میں آئی تھی
" نجانے کون سا گل کھلا کر آرہی ہے میں تو کہتی ہوں اسے اس گھر سے باہر ہی رکھو ...بیاہ دو کسی سے ۔۔۔گھر میں اس منحوس کا قدم نہ جانے کیسی آفت لے آۓ " ماہی کون سا کم پیچھے رہنے والی تھی صبوحی کا رنگ یکدم سفید پڑا
"اس سب کے لیے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ وہ انشاء اللہ اپنے سسرال کے ساتھ ہی یہاں آۓ گی " گوہر نے بم پھوڑا تھا صبوحی نے آنکھیں پھاڑ کر گوہر کو دیکھا
"میں ٹھیک کہہ رہا ہوں پھوپھو ۔۔ وہ میرا دوست تھا نا جہانگیر ...فیضان انکل کا بیٹا ۔۔۔ وہ پیچھلے چار دن سے اسی کے پاس تھی اور ان سب سوالوں سے بچنے کے لیے ہی تو میں نے ان دونوں کا نکاح کروایا ہے " گوہر نے نرمی سے ان کے ہاتھ دباتے تفصیل گوش گزار کی
" کیا ۔۔۔ کیا کہا آپ نے ۔۔ پھر سے کہیں " حرب بجلی کی سی تیزی سے گوہر کے سامنے آئی وہ گڑبڑا گیا
"آپ نے کہا بھیا زندہ ہیں ۔۔ آپ نے یہی کہا نا ۔۔۔ بولیں نا گوہر بھائی مجھے بتائیں "وہ بغیر کسی کا خیال کیے اس کا بازو پکڑے سوال پر سوال کر رہی تھی ہر کوئی شاک میں تھا جو بندہ چند ماہ پہلے مر چکا ہو اس کے یوں اچانک زندہ ہونے کی خبر دھماکہ سے کم نہ تھی گوہر کو خود پر بے اختیار غصہ آیا جلد بازی میں وہ کیا سے کیا کر بیٹھا تھا اس کا احساس اسے اب ہوا
☆☆☆☆☆☆☆
"یہ لڑکی کون ہے "ڈائننگ ٹیبل پر بی جان کے ساتھ نوائم کو موجود پاکر وہ چونک گیا تبھی کرسی گھسیٹتے سوال کر بیٹھا
"یہ بہت خاص اور اہم ہے " بی جان نے نرمی سے مسکراتے جواب دیا ساتھ ہی توجہ سالن کا ڈونگہ لاتی رخما کی جانب کر لی
"بھئ تم کن کاموں میں الجھی ہو نئی نویلی دلہن ہو مانا کہ ہم تمہارا اس طرح چاؤ نہ کرسکے مگر اب اس کا مطلب یہ نہیں کہ جاکر کچن میں کھڑی ہو جاؤ " بی جان کواس کا یوں کام کرنا ہرگز پسند نہ آیا تھا
" وہ بی جان ۔۔۔ " اس نے کوئی مناسب بہانہ ڈھونڈنا چاہا نظریں جھکی ہونے کےباوجود اسے جازم کی سخت نگاہیں خود پر محسوس ہورہی تھیں
"چلو آؤ بیٹھو " بی جان نے اسے ہاتھ کے اشارے سے جازم کے ساتھ والی کرسی ہر بیٹھنے کو کہا وہ جھجھکتی ہوئی اس کے ساتھ بیٹھ گئ
"کام کرنے دیں اسے عادت پڑے گی ورنہ آپ تو جانتی ہیں ایسی لڑکیوں کو سر پر چڑھا لو تو بعد میں بہت مشکل ہوتی ہے "جازم نے سالن اپنی پلیٹ میں نکالتے ناگواری سے تبصرہ کیا بی جان نے حیرت سے ہاتھ روک کر اسے دیکھا
"یہ کس انداز میں بات کی تم نے جازم " وہ اپنی حیرانی پر قابو نہ رکھ پائی تھیں جازم سے جواب نہ پا کر وہ مزید کہنے لگیں
"اپنے بارے میں کیا خیال ہے ۔۔۔۔ "
"آپ مجھے کم از کم اس کے ساتھ مت ملائیں "وہ غصے میں آ گیا تھا تبھی آواز پر قابو نہ رہا جس کا احساس بی جان کی تنبیہی نگاہ نے دلایا
"میں کل سے آفس جوائن کر رہا ہوں ۔۔۔ آپ کی سب شکایتیں دور کر دوں گا ۔۔۔ اور تم " دھیمے دھیمے لہجے میں کہتے آخر میں نگاہ رخما کی جانب کی وہ فوراً متوجہ ہوئی
"چاۓ میرے کمرے میں لے کر آؤ "
"اسے کھانا تو کھانے دو ...بی بی بنادے گی چاۓ " بی جان نے پھر سے مداخلت کی ان کی یہ حمایت جازم کو بے حد کھلی تھی وہ کرسی کو ٹھوکر مارتا تن فن کرتا باہر نکل گیا
"ہاۓ اتنا غصہ ۔۔۔ آپ سے لڑائی ہوئی ہے کیا "نوائم نے تب سے کھلے منہ پر ہاتھ رکھ کر بے یقینی سے رخما سے پوچھا وہ نظریں چرا گئ
"پتہ نہیں کیا ہو گیا اس لڑکے کو " بی جان گہرا سانس بھر کر رہ گئیں
☆☆☆☆☆☆☆
"گوہر۔۔۔۔ تم نے ہم سب سے جھوٹ بولا ۔۔۔ تم جانتے بھی ہو کسی کے لیے کتنا جان لیوا ہو سکتا تھا یہ " حیات صاحب اب اس کی کلاس لے رہے تھے
"میری بات تو سنیں ۔۔۔ میں سب بتاتا ہوں آپ کو " وہ پھر سے صفائی دینےلگا
"وہ سب چھوڑو تم مجھے نوائم سے ملوا دو میری تسلی ہو جاۓ گی ذراسکون آ جاۓ" صبوحی پھر سے اس کے سامنے آئیں
"میں آپ کو ابھی نہیں لے کے جاسکتا ۔۔۔ پلیز سمجھیں وہ جہانگیر کے گھر پر ہے مگر وہاں پر ابھی کوئی نہیں جانتا جہانگیر کے بارے میں " اس نے بار بار کی دہرائی بات پھر سے کہی وہ چپ چاپ آنسو پیتی صوفے پر جا بیٹھیں
"اس کا ہم پر احسان ہے اس نے ہماری عزت کو خاک ہونے سے بچا لیا ۔۔۔بے شک وہ فیضان ہی کا بیٹا ہے " سکندر نے پہلی بار لب کشائی کی آنکھوں کو بار بار پونجھتے وہ ٹوٹے ہوۓ لہجے میں کہہ ہرہے تھے
"ارے کیسا احسان سچ کہوں گی اپنے گناہ پر پردہ ڈالنے کو کر لیا نکاح ...دو دن نہ چلے گی یہ شادی کون کرتا ہے گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی سے شادی " ندرت نے حسب عادت زیر اگلا تھا اپنے الفاظ کی سنگینی کا شاید انہیں اندازہ نہ تھا وہاں موجود ہر شخص کو سانپ سونگھ گیا 
"آپ فکر میں کیوں ہلکان ہو رہی ہیں پھوپھو ۔۔۔۔ ابھی دنیا اچھے لوگوں سے خالی نہیں ..آپ اپنے بیٹے کی فکر کریں اس دنیا میں روز نئے نئے حادثات ہوتے ہیں خدانخواستہ اسے کچھ ہوگیا تو " یہ تھا مغیث ...بلا کا منہ پھٹ... ندرت کو پتنگے لگ گئے
" تمہارے منہ میں خاک.. وہ کیوں مرے... مریں اس کے دشمن "وہ باقاعدہ لڑنے کو تیار اٹھ کھڑی ہوئیں
" میں نے تو اپنا خدشہ ظاہر کیا ہے اب اگروہ درست ہو جاۓ تو میراکیا قصور " اس نے لاپرواہی سے کندھے جھٹکے گوہر نے بات بڑھتی دیکھ اس کا بازو تھام کر باہر کی طرف کھینچنا ....جانتا تھا مغیث صبوحی کا مقدمہ لڑنے سے باز نہ آۓ گا اور ندرت بیٹے کے خلاف ایک لفظ نہ سنیں گی 
☆☆☆☆☆☆☆
"چاۓ نہیں بنی ابھی تک کام چور " جازم کی تیز اور سخت آواز پر وہ فوراً پلٹی
"بن گئ ہے " اس نے فوراً کپ اس کی طرف بڑھایا جازم نے کپ اس کے ہاتھ سے لے کر وہیں چھوڑ دیا وہ اچھل کر پیچھے ہوئی گرم گرم چاۓ کے کچھ چھینٹے اس کے پاؤں ہر بھی گرے تھے ابھی وہ کچھ سمجھنے کی کوشش میں ہی تھی کہ جازم نے اگلا حکم صادر کیا
" اسے صاف کرو دیکھ نہیں رہی کتنا گندا ہو رہا ہے " وہ وہیں ہر جم کر کھڑا تھا رخما نے فوراً اس کے حکم کی تعمیل کی
"ادھر دیکھو میری طرف "جازم کی آواز پر اس نے سر اٹھایا تو وہ ہاتھ میں موبائل لیے اس کی تصویر بنانے میں مصروف تھا وہ لمحے کے ہزارویں حصے میں اس کی چالاکی سمجھ گئ
"اب یہ تصویر تمہاری بہن کو بھیجوں گا دیکھتے ہیں کتنا پیار ہے تم سے تب تو ضرور آگ لگے گی نا " وہ آنکھ دبا کر مسکرایا ساتھ ہی دوبارہ چاۓ بنانے کا حکم دیتا باہر نکل گیا 
☆☆☆☆☆☆☆
"اتنی دیر ۔۔۔۔ باہر میری بہن خصوصا تم سے ملنے آئی ہے اور محترمہ کی تیاریاں ہی ختم نہیں ہو رہی" اسے لپ سٹک لگاتے دیکھ کر جازم نے طنز کیا تھا رخما نے گردن موڑ کر اسے دیکھا
"بی جان نے کہا ہے کہ اچھا سا تیار ہو کر سامنے آؤں تاکہ برا تاثر نہ پڑے "
"ہونہہ ۔۔۔۔ اچھا سا تیارہو کر " اس نے منہ بگاڑ کر اس کی نقل اتاری تھی ساتھ ہی ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی چیزوں کو لاپرواہی سے سائیڈ پر کرتے اپنی جگہ بنانے لگا
" وہ سمجھ رہی ہیں میک اپ سے چہرے کی سیاہی چھپ جاۓ گی تو یہ ان کی غلط فہمی ہے " اس نے رخما کے گہرے سانولے رنگ پر چوٹ کی تھی توہین کے شدید احساس سے اس کی آنکھیں بھر آئیں جازم اب اس کے عین سامنے ڈریسنگ ٹیبل پر بیٹھ گیا پانیوں سے بھری آنکھیں دیکھ کر قہقہ لگانے لگا
"ارے تم تو رونےلگیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاہاہاہاہا ۔۔۔۔۔ کون سا کوئی غلط بات کہی میں نے ۔۔۔۔ ویسےآپس کی بات ہے مجھے بالکل اندازہ نہ تھا کہ فاریہ جیسی لڑکی کی بہن ایسی ہو گی کہاں وہ اور کہاں تم "وہ کھلے عام اس کا مذاق اڑانے لگا رُخما بے بسی کی تصویر بنی پلک جھپکاۓ بنا اس کا چہرہ دیکھتی رہی لائیٹ بلو جینز اور رائل بلو شرٹ جسکے اوپری دو بٹن لاپرواہی سے کھلے تھی ماتھے پر پڑے سلکی بال اور نیلی آنکھیں جو سامنے والے کو اپنا دیوانہ کرنے کی صلاحیت میں مالا مال تھیں
"کتنا خوبصورت ہے یہ شخص اور دل کتنا سیاہ ہے " اسے دیکھ کر دل نے بےاختیار سرگوشی کی تھی وہ شیشے میں اپنا اور جازم کا موازنہ کرنے لگی ۔۔۔۔ ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے وہ.... اس کا اور جازم کا کوئی جوڑ نہ تھا مگر پھر فاریہ کی جگہ اسےکیوں اس جرم کی بھینت چڑھا دیا جو اس نے کیا ہی نہیں تھا ۔۔۔ فاریہ کو لے آتا ۔۔۔ کم سےکم ساتھ کھڑے اچھے تو لگتے ۔۔۔ وہ یہ سب صرف سوچ رہی تھی کہہ کچھ نہ سکی جازم کے جھنجھوڑنے پر چونک کر متوجہ ہوئی جو کہہ رہا تھا
"تمہیں سچ بتاؤں مجھےتو کالے رنگ سے سخت چڑ ہے ۔۔۔ میں تو شرٹ بھی بلیک نہیں پہنتا اور تو اور کمرے میں کوئی کالے رنگ کی چیز بھی میری برداشت سے باہر ہے لیکن دیکھو میں اتنے دنوں سے کالی چڑیل کو اپنے اس خوبصورت سے کمرے میں برداشت کر رہا ہوں۔۔۔سوچو کتنا عظیم ہوں " وہ اسے سلگا رہا تھا چڑا رہا تھا رخما کی برداشت جواب دے گئ وہ برش ٹیبل پر پٹختی غصے سے باہر کی جانب بڑھی جازم کے چھت پھاڑ قہقے نے دروازے تک اس کا پیچھا کیا
"اف کیسی لڑکی ہے ۔۔ جواب بھی نہیں دیتی " وہ بڑبڑایا تھا پھر خود بھی اٹھ کر اس کے پیچھے چل پڑا
☆☆☆☆☆☆☆
"بی جان آپ سب جانتی تھیں آپ نے بھی مجھے بے خبر رکھا " حرب کی ناراضگی بھری آواز پر جازم ٹھٹھک کر باہر ہی رک گیا
"کیسی بچوں جیسی باتیں کر رہی ہو حرب بات کو سمجھو ۔۔۔۔ یہ سب ہماری مجبوری تھی ۔۔۔۔ اسے اس گھر سے ہم سب سے بلکہ اس ملک سے دور رکھنا ۔۔۔۔ یہ سب اس کی آئندہ زندگی کےلیے ضروری تھا "وہ محبت سے اس کے بال سلجھاتی منانے کی کوشش کر رہی تھیں
"ویسےکون کون شامل تھا اس پلین میں " وہ ہنوز ناراض تھی بی جان نے گہرا سانس لیا
"میں اور گوہر "
"واٹ ۔۔۔۔جازم کو بھی بے خبر رکھا ۔۔۔ آپ جانتی ہیں وہ کتنا غصہ ہو گا " وہ حیرت سے چلا اٹھی تھی
"آہستہ "بی جان کے ٹوکنے پر اس نے زبان دانتوں تلے دبا لی
"ویسے یہ جازم کہاں ہے اس نے شادی کرلی اور کسی کو بتانا بھی ضروری نہ سمجھا ۔۔۔ غیروں کی طرح اطلاع کر دی " وہ پھر سے شکوے شکایتوں پر اتری
"فنکشن کریں گے تو سب کو انوائیٹ کریں گے "
"اور یہ فنکشن کب ہو گا "
"میں تو سوچ رہی ہوں تھوڑا انتظار کر لیں ان کے ساتھ ہی جہانگیر اور نوائم کا بھی ولیمہ منعقدکر لیں گے " انہوں نے اپنی دل کی بات کہی حرب نے زور و شور سے ان کے فیصلے کی تائید کی تھی اس سے بے خبر کہ باہر کھڑے جازم کے چہرے پرکیسے تکلیف دہ تاثرات نے جنم لیا تھا
☆☆☆☆☆☆☆
"جازم نہیں آیا آپ لوگوں کے ساتھ " حیات صاحب نے مسکرا کر پوچھا
" پتہ نہیں کہاں نکل گیا ہے ۔۔۔۔ میں نے سوچا انتظار کرنے سے بہتر ہے جلد از جلد امانت لوٹا دوں " بی جان بھی رسان سے گویا ہوئیں وہ حرب کے ساتھ ہی واپسی پر نوائم کو چھوڑنے چلی آئیں تھیں
"کیوں نہیں ۔۔۔ اب تو ویسے بھی آنا جانا لگا رہےگا دوہری رشہ داری جو ہوئی " سمعیہ بیگم نے بھی گفتگو میں حصہ لیا تھا بی جان مسکرا کر گم صم بیٹھی صبوحی کو دیکھنے لگیں جو نوائم کو ساتھ لپٹاۓ ہوۓ تھیں
" اب آپ بالکل بے فکر ہو جائیں صبوحی ۔۔۔۔ یہ ہماری امانت ہے ۔۔۔ جسے ہم بہت جلد لے جائیں گے " انہوں نے روایتی الفاظ کا استعمال کیا صبوحی بے اختیار چونکیں
"ضرور۔۔۔۔میں تو خود اس وقت کے انتظار میں ہوں ۔۔۔کہ کب بیٹی اپنے گھر کی ہو ۔۔۔اور مجھے سکون سے موت نصیب ہو " دکھ تکلیف یاسیت کرب کے نہ جانے وہ کون سے مقام پر تھیں بے اختیار ہی لفظ پھسل پڑے بی جان نے ٹھٹھک کر انہیں دیکھا
"صبوحی میرا خیال ہے تمہیں آرام کرنا چاہئے آؤ تمہیں چھوڑ دوں " سمعیہ بیگم فوراً اس تک آئیں تھیں مگر صبوحی کی نظریں ہنوز بی جان پر تھیں
"میری بچی نے بہت دکھ دیکھے ہیں ۔۔۔اسے مزید کسی تکلیف میں مت ڈالنا ۔۔۔ یہ آپ کی بیٹی نہ سہی مگر بیٹی جیسی سمجھیے گا " وہ بے اختیار پھپھک کر روپڑی تھیں بیٹی کو دیکھنے کو دل نے چین تھا مگر اب اس کے مستقبل کے وسوسے مار رہے تھے ندرت اور ماہی کے ارادے بھی ٹھیک نہیں تھے جو الفاظ صبوحی کا سینہ چھلنی کر دیتے تھے وہ کہیں ان کی بیٹی کا مستقبل تاریک نہ کر دیں یہی خوف کا احساس انہیں بی جان کے سامنے زبان کھولنے پر مجبور کر گیا بی جان اٹھ کر ان کے پاس آ بیٹھیں
"آپ کیوں خوفزدہ ہیں ۔۔۔۔۔ یہ میری بہو ہے ۔۔۔۔ میرے گھر کا چاند ۔۔۔ میرے بیٹے کی پسند ہے کیسے ممکن ہے کہ اسے وہ چاہ نہ ملے جو اس کا حق ہے آپ بالکل بے فکر ہو جائیں ہر خوف اور خدشہ دل سے نکال دیں ۔۔۔۔ آپ کی بیٹی پر کوئی حرف نہ آۓ گا ۔۔۔۔ میں حالات سے آگاہ ہوں " انہوں نے واقعات کی آگاہی سے صبوحی کو لاعلم نہ رکھا تھا اور صبوحی اس عورت کے ظرف پر حیران تھی جو اپنے منہ بولے بیٹے کی پسند کو ہر حال میں قبول کرنے کو تیار تھیں
*#جاری_ہے*

No comments: