Ads Top

ناول؛ جنت کے پتے از-- نمرہ احمد قسط 1


جنت کے پتے 
از

 نمرہ احمد



ناول؛ جنت کے پتے   
از-- نمرہ احمد
قسط 1


لیپ ٹاپ تکیے پر رکھا ہوا تھا، وہ سامنے کوہنیوں کے بل اوندھی لیتی ہوئی تھی. اسکرین کی روشنی اسکے چہرے کو چمکا رہی تھی. وہ تھوڑی تلے ہتھیلی رکھے دوسرے ہاتھ کی ایک انگلی لیپ ٹاپ کے ٹچ پیڈ پر پھیر رہی تھی. لمبے سیدھے سیاہ بال پر پڑے تھے. اسکی آنکھیں بھی ویسی ہی تھیں.سیاہ بڑی بڑی آنکھیں کے چاندنی جیسی چمک تھی. اور چہرہ ملائی کا بنا لگتا تھا، سفید، صاف اور چکنا سا. وہ اسی مگن انداز میں سکرین پر نظریں مرکوز کے ٹچ پیڈ پر انگلی پھیر رہی تھی. ایک کلک کے بعد کوئی صفہ کھلا تو اسکی متحرک انگلی روک گئی. سکرین پر جمی آنکھوں میں ذرا تفکر ابھرا اور پھر بے چینی اسنے جلدی جلدی دو تین بٹن دباتے. لوڈنگ............................... اگلے صفحے کے لوڈ ہونے کے انتظار کرتے ہوے اسی مضطرب انداز میں اسنے انگلی سے چہرے کی دائیں طرف سے پھسلتی لٹیں پیچھے کیں. چند سیکنڈ میں صفحہ لوڈ ہوگیا. وہ بے چین ہو کر چہرہ سکرین کے قریب لائی تو اسکے بالوں کی چند
لٹیں پھسل کر پھر چہرے کے سامنے آگئیں. جیسے جیسے وہ پڑھتی گئی اسکی آنکھیں حیرت سے پھیلتی گئیں. لب ذرا سے کھل گئے. اور پورا وجود بے یقینی این ڈوب گیا. ڈھیر سارے لمحے لگے تھے اسکو خود کو یقین دلانے میں جو وہ پڑھ رہی تھی. بلکل سچ ہے اور جیسے ہی اسکے ذھن نے یقین کی دھرتی کو چھوا، وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی. اسکا فون سائیڈ ٹیبل پر رکھا تھا. اسنے ہاتھ بڑھا کر سیل اٹھایا اور جلدی جلدی کوئی نمبر ڈائیل کیا. رات کی مقدس خاموشی میں بٹنوں کی آواز نے ذرا ارتعاش پیدا کیا. اسنے فون کان سے لگایا دوسری طرف بیل جا رہی تھی. "ہیلو ذرا!" شاید رابطہ مل گیا تھا. تب ہی وہ بےحد شوخی سے چہکی. کسی ہو؟ سو تو نہیں گئی تھی؟ دوسری طرف اسکی دوست کچھ کہ رہی تھی. وہ لمحے بھر کو سننےکے لئے رکی، اور پھر ہنس پڑی. "ساری باتیں چھوڑو میرے پاس جو بڑی خبر ہے وہ سنو! اسنے عادتا اپنے بالوں کی لٹ کو انگلی پر لپٹتے ہوے کہا. " تم یقین نہیں کرو گی میں جانتی ہوں"
"ارے نہیں یار دلاور بھائی کی شادی کے بارے میں نہیں ہے." دوسری طرف ذرا نے کچھ کہا تو اسنے فورا تردید کی. "بلکے تم ایسا کرو گیسس کرو میں تمہیں کیا بتانے والی ہوں"؟ اسنے ایک ہاتھ سے لیپ ٹاپ سائیڈ پر کیا اور تکیہ نکال کر بیڈ کروائن سے ٹیک لگا کر کہا. پھر اسنے ٹیک لگا کر پاؤں سیدھے کر لئے. ساتھ ساتھ وہ زارا کے اندازوں کی تردید بھی کے جا رہی تھی. "نہیں! بلکل نہیں" "ایسا تو بلکل بھی نہیں" "ارے میری شادی بھی نہیں ہو رہی" "جی نہیں! ارم کی بھی نہیں ہو رہی" "سیریسلی زارا ! تمہاری سوچ بس یہی تک ہے. اب کان کھول کر سنو تم، وہ آرمدیوس ایکسچینج پروگرام. یاد
ہے جسکے لئے ہم نے apply کیا تھا. can you believe it zara? ؟ یورپین یونین نے مجھے سکالر شپ کے لئے سلیکٹ کیا ہے. دوسری جانب زارا اتنی زور سے چیخی کے موبائل کا سپیکر بینڈ ہونے کے باوجود بھی اسکو چیخ پورے کمرے میں گونجی تھی. "بلکل سچ کہ رہی ہوں زارا! ابھی پندرہ منٹس پہلے مجھے یونیورسٹی کی میل ملی ہے. اور ساتھ ہی پرے لیپ ٹاپ کا رخ اپنی طرف موڑ کر دوبارہ غور سے سکرین کو دیکھا. "حہاں پندرہ منٹ پہلے ہی سلیکشن میل آئی ہے. تم بھی فورا چیک کرو تم نے بھی apply کیا تھا تمہیں بھی میل آئی ہوگی. وہ فون ایک ہاتھ میں پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے لیپ ٹاپ آف کر رہی تھی.
لیپ ٹاپ کی سکرین پر اندھیرا ہوا تو اسنے ہاتھ پڑھا کر سکرین کو بند کیا اور سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا. حہاں میں نے سبانجی کو نیٹ پر دیکھا ہے. بہت ہی خوبصورت یونیورسٹی ہے. مگر...... وہ تھوڑی دیر کو خاموش ہوگئی. دوسری طرف سے استفسار پر وہ پھر سے بولی تھی. بس ایک چھوٹا سا مسلۂ ہے ہم اپنی فیملیز کو اسکے بارے میں نہیں بتائیں گے. دھیمی آواز میں بولتے ہوے اسنے بند دروازے کو دیکھا. دراصل سانجی می لڑکیوں کے ہیڈ سکارف پر پابندی ہے. ادھر سر ڈھکنا منع ہے. گھر والوں کو بتا کر متفکر کرنے کے بجے اس بات کو گول کر جانا. ویسے بھی ہم دونوں ہی سکارف نہیں لیتیں. اس پل کھڑکی
کے بہار کچھ کھڑکا تھا. وہ چونک کر دیکھنے لگی. قد آدم کھڑکیوں کے آگے بھاری پردے گرے ہوے تھے. البتہ پیچھے جالیاں کھلی ہوئی تھیں. شاید اسکا وہم تھا وہ سر جھٹک کر فون کی طرف متوجہ ہوگئی. "ابا نے مجھے کبی سکارف لینے یا سر ڈھکنے پر مجبور نہیں کیا!تھنک گاڈ" ہاں ارم گھر کے باہر سکارف لیتی ہے اسکے ابو، تیا،ور فرقان کچھ سخت ہیں نہ. پھر وہ بیڈ سے ٹیک لگاتے ہوے نیم دراز ہو کر بتانے لگی. "پرمشن کا تو کوئی مسلۂ نہیں ہے. ابا اسپین جانے کی اجازت نہ دیتے مگر ترکی میں سبین کی پھوپھو رہتیں ہیں تو وہ مان گئے تھے. ویسے بھی انہیں اپنی بیٹی پر پورا بھروسہ ہے.
پھر وہ چند لمحے اپنی دوست کی باتیں سنتی رہی. زارا خاموش ہوئی تو اسنے پھر نفی میں سر ہلایا. "کل نہیں! داور بھائی کی مہندی کل ہے تم آرہی ہوں نہ"؟ 'اور ہان میں اور ارم لہنگا پہن رہے ہیں" "سارے کزنز بہت excited ہیں خاندان کی پہلی شادی ہے نہ" " اوکے! اب تم جا کر میل چیک کرو، میں بھی سوتی ہوں رات بہت ہوگئی ہے. الوادعی کلمات بولنے پی بعد اسنے فون تکیہ پر اچھال دیا. پھر جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی. باہر لاؤنج خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا. حیا نے آہستہ سے اپنے کمرے کا دروازہ بند کیا. ننگے پاؤں چلتے لاؤنج سے کچن میں آئی. سیاہ قمیض اور کھلے ٹراوزر
میں اسکا قد اور بھی دراز لگ رہا تھا. کچن میں اندھیرا پھیلا ہوا تھا. وہ دروازے پر رکی اور ہاتھ بڑھا کر کچن کی لائٹ جلائی.سری بتیاں جل گئیں. اسنے اگے بڑھ کر فرج کا دروازہ کھولا اور پانی کی بوتل نکلنے کو جھکی. جھکنے سے بال پھسل کر سامنے آگے. حیا نے نرمی سے انکو پیچھے ہٹایا اور پانی کی بوتل لے کر سیدھی ہوئی. کونٹر پر رکھے ریک سے گلاس اٹھایا اور پانی گلاس میں انڈیلنے لگی. اسکی نگاہ کونٹر پر رکھی سفید چیز پر پڑی. وہ جیسے چونک اٹھی بوتل وہی رکھ کر آگے آئی. وہ سفید آدھ کھلے گلابوں کا بکے تھا. ساتھ ایک سفید لفافہ بھی تھا
********
حیا نے گلدستہ اٹھایا اور دھرے سے پاس لا کر آنکھیں موندھے اسکو سونگھا. دلفریب تازگی بھری مہک اس میں اتر گئی. پھول بلکل تازہ تھے جسی ابھی توڑے ہوں، جانے کون یہاں رکھ گیا. اسنے بند لفافہ اٹھیا اور پلٹ کر دیکھا. اسکے پتے والی جگہ پر "حیا سلمان "لکھا ہوا تھا. بھیجنے والی کا کوئی پتا نہیں لکھا تھا بس کوریور کی ٹکٹ لگی ہوئی تھی. اور ٹکٹ پر ایک روز قبل کی تاریخ لکھی ہوئی تھی. اسکو تو کبھی کسی نے یوں پھول نہیں بھیجے، یہ کیا معامله تھا. الجھتے ہوے حیا نے لفافہ چاک کیا. اس این ایک موٹا کاغذ تھا. اسنے دو انگلیاں دال کر کاغذ باہر نکالا. سفید کاغذ بلکل صاف تھا نہ کوئی لکیر نہ ڈیزائن. بس
اسکے وسط میں ٣ لفظ لکھے ہوے تھے. "welcome to Sabanci" " وہ سناتے میں رہ گئی. یہ کیا مذک تھا؟ بھلا خط بھیجنے والی کو کیا معلوم کے میں سانجی جا رہی ہوں. خط پر تو ایک روز قبل کی تاریخ لکھی ہوئی تھی. جب کے قبولیت کی میل تو ابھی پندرہ منٹ پہلے ملی. تو پھول بھیجنے والی کو ایک دن پہلے کیسے پتا چل گئی. اگر زارا کو اسنے خود نہ بتایا ہوتا تو وہ یہی سمجھتی کے یہ اسکی حرکت ہے. یہ خط سبانجی یونیورسٹی کی طرف سے بھی نہیں آسکتا تھا. کیوں کے اس پر لوکل کوریور کی موہر لگی ہوئی تھی. پھر کسنے بھیجا ہے یہ؟ وہ پانی کا گلاس وہی سلیب پر رکھ کر بکے اتھاہ کر سوچتی ہوئی اپنے کمرے میں کھلی گئی.
اسنے لاک میں چابی گھمائی ہی تھی کے گیٹ کے پار سے زارا آتی دکھائی دی. وہ دروازہ کھول کر مسکراتی ہوئی سیدھی ہوئی. "حیا مجھے تو کوئی میل نہیں ملی." زارا آدھ کھلے گیٹ کو دھکیل کر اندر قدم رکھا. اسکے چہرے پر اداسی تھی. "کوئی بات نہیں ایک دو دن میں آجاتے گی، فکر مت کرو." ہم نے ایک ساتھ ہی apply کیا تھا مجھے آگیا ہے تو تمہیں بھی آجاے گی. "مگر سکولر شپ کوارڈینیٹر کے آفس کے باہر تھی اس میں بھی میرا نام نہیں ہے". "اور میرا"؟ "صرف تمہارا ہے ہمرے ڈیپارٹمنٹ میں سے اور اینورومنٹل سائنسز کی ایک لڑکی خدیجہ کا ہے". مجھے لگتا ہے میرا سلیکشن ہی نہیں ہوا. "اوہ " اسے واقع افسوس ہوا تھا
اسکی زارا سے اب بات ہو رہی تھی. "خیر! تم کہی رہیں تھی"؟ زارا چہرے پر بشاشت لاتے ہوے بولی. "ہاں مارکیٹ ارم کے ساتھ، کل داور بھی کی مہندی کا فنکشن ہے نہ اور لحنگے کے ساتھ کی ہائی ہیلز گم ہوگئیں ہیں. شاید کام والی اٹھا کر لے گئی ہے. اب نیے جوتے خریدنے پڑیں گے. تم چلو گی ساتھ.؟ وہ گاڑی کوہنی ٹیکاتے ہوے کہا. وہ ہلکی آسمانی لمبی قمیض اور تنگ چوری دار پاجامے میں ملبوس تھی. قمیض کا دامن ٹخنوں سے ذرا اپر تھا. ہم رنگ دوپٹہ گلے میں تھا اور بل کمر پر کھلے تھے. "ہاں ! چلو جلدی نکلتے ہیں. زارا فورن تیار ہوگئی اور فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی. "ارم کو بھی لینا ہے" حیا نے بیٹھ کر کہا.
" ویسے تمہارے سخت سے تایا ارم کو تمہارے ساتھ جانے کی اجازت دے دیتے ہیں"؟ ارم ان دونوں سے جونیئر تھی اور اسکا ڈیپارٹمنٹ بھی دوسرا تھا. سو زارا سے اسکی زیادہ ملاقات نہیں تھی. "انکی سختی صرف سکارف تک ہے. ایسے ویسے نہیں ہیں وہ" وہ کار باہر گیٹ پر لے آئی. ارم کا گھر زارا کے ہمساے میں تھا. دونوں گھروں کے درمیان کی دیوار میں آنے جانے کا رستہ تھا. لیکن سے جب بھی ارم کو پک کرنا ہوتا تو وہ اسکے گیٹ پر ہارن کیا کرتی تھی. اب بھی زور سے ہارن کیا تو چند لمحوں میں ارم باہر اگئی. کاسنی لمبی قمیض اور ٹراؤزر اور ہم رنگ دوپٹے سینے پر پھیلاے اور چہرے پر کاسنی سکارف
لپیٹے وہ تقریبآ بھاگتی ہوئی پچھلی سیٹ کے دروازے پر آئی. "ہیلو حیا ! ہیلو زارا ! وہ چہکتی ہوئی کہ کر بیٹھی اور دروازہ بند کیا. حیا کے ساتھ اووٹنگ کے پروگرام پر وہ یوں ہی خوش ہوا کرتی تھی. "کسی ہو ارم ! تم سے تو اب ملاقات ہی نہیں ہوتی". اسنے رخ موڑ کر اسکو دیکھا. "آپ کا ڈیپارٹمنٹ دور پڑتا ہے، تب ہی اور ہاں، حیا بتا رہی تھی کے آپ لوگوں کا ترکی میں سلیکشن ہوگئی ہے. "میں سلیکٹ نہیں ہوئی، ہی ہوگئی ہے، خیر ! اسی میں کوئی بہتری ہوگی. تم نے apply نہیں کیا تھا؟" "ابّا اجازت دیتے تب نہ"؟ اسنے اداس ہوکر کہا. "ویسے پرنٹس کو اتنا سخت نہیں ہونا چاہیے" زارا نے کہا.
حیا نے تادیبی نظروں سے زارا کو دیکھا کے پہلے احساس کمتری میں مبتلا ارم مزید اداس نہ ہو جاتے. "ابا بھی پتا نہیں اتنے سخت کیوں ہیں؟ گرمی میں سکارف لینا اتنا آسان تو نہیں ہے. اور پھر کل مہندی کے لہنگے کی بھی آدھی آستیں رکھنے نہیں دیں. حیا کی بھی تو آدھی آستیں ہیں. مگر ابّا ذرا بھی سلمان چچا جیسے نہیں ہیں. "ارم! تمہیں آج کیا لینا ہے؟ میں نے تو جوتے لینے ہیں. اسنے کوفت چھپاتے ہوے بات کو بدلہ. ارم ہر وقت یہی رونا روتی رہتی تھی. "چوریاں لینی ہیں! مگر پوری آستیں کی بلاؤز کے ساتھ چوڑیاں اچھی کہاں لگیں گی"
*جاری ھے*

1 comment:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.