میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 32
#فریحہ_چـودھـــری ✍
#قسط_32
زمان شاہ کے چاربچے تھے دو بیٹیاں رخما زمان اور فاریہ زمان... دو عدد سپوت مراد اور شمشاد زمان....
زمان شاہ ٹھیکیداری کرتے تھے مگر اس سب کے ساتھ ساتھ انہوں نے دونمبر کاموں میں بھی ہاتھ ڈال رکھا تھا باپ کے بعد بیٹے بھی اس راہ پر چل نکلے ماردھاڑ.. غنڈہ گردی غریبوں کی املاک پر قبضہ وغیرہ یہ سب انکے پسندیدہ مشغلے تھے
فاریہ زمان ان کی بے حد شوخ اور نخریلی بہن تھی بالکل آج کے ماحول میں ڈھلی ہوئی آزادانہ عادات و اطوار کی مالک ۔۔۔۔ رخما زمان ان سب سے چھوٹی اور مختلف تھی جس کی وجہ شاید گھریلو ماحول سے دوری تھی وہ بچپن سے ہی ہاسٹل میں مقیم تھی گھر بھر کی لاڈلی بھائیوں کی جان مگر اس سب کے باوجود اس میں ضد ہٹ دھرمی اور بے حیائی جیسے جراثیم ناپید تھے زمان شاہ نے جان بوجھ کر اسے گھر سے دور رکھنے کی کوشش کی تھی بہت کم لوگوں اس کے بارے میں آگاہ تھے مگر جازم کو فاریہ کی زبانی اس کے بارے میں علم تھا تبھی اس نے فاریہ سے بدلہ لینے کی خاطر رخما پر تب ہاتھ ڈالا جب وہ ہاسٹل سے اپنے گھر ڈرائیور کے ساتھ جا رہی تھی ڈرائیور کو ساتھ ملانا کوئی مشکل کام نہ تھا اور وہ اس میں کامیاب بھی ہو گیا تھا سب پلان کے مطابق تھا شمشاد یہ سن کر بلبلا اٹھا تھا کہ اس کی بہن دن دھاڑے اغواء ہو گئ کب اور کس نے ۔۔۔ اس سب کی جان کاری کے لیےوہ زخمی سانپ کی طرح پھنکارتا پھر رہا تھا کچھ بعید نہ تھا کہ وہ اپنی عزت پر ہاتھ ڈالنے والے کا سر تن سے جدا کر دیتا
☆☆☆☆☆☆☆
رخما کو دو دن ہو گۓ تھے اس کمرے میں بند پڑے ۔۔ بھوکی پیاسی نڈھال سی وہ اس سادہ مگر سلیقے سے سجے صاف ستھرے کمرے کی دیواروں کو تکتی اپنی غلطیوں کو شمار کرنے میں مصروف تھی جن کی سزا وہ آج اس صورت میں بھگت رہی تھی ہر پہلو پر نظر ڈالنے کے باوجود بھی کوئی سرا ہاتھ نہ آیا تھا وہ جازم کو جانتی نہ تھی مگر فاریہ کی برتھ ڈے پاڑٹی میں جازم کی موجودگی اور اب جازم کابار بار فاریہ کا نام لینا اسے بہت کچھ سمجھا گیا تھا یقیناً فاریہ کی ہی کسی غلطی کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑ رہاتھا نازوں پلی لاڈ دلاری دو دن سے نیم تاریک کمرے میں بند بھوکی پیاسی رخما زمان آج بے بسی کی انتہا پر تھی وہ رو رو کر تھک چکی تھی مگر سب بےسود تھا جازم اسے یہاں چھوڑ کر دوبارہ نہ آیا تھا اگر وہ اسے یہاں چھوڑ کر بھول گیا تو ۔۔۔۔۔۔یہ سوچ کر اس کا دل سوکھے پتے کی مانند لرزنےلگا
☆☆☆☆☆☆☆
"آئم سوری صبوحی ۔۔۔۔ میں اسے ڈھونڈ نہ سکا " سکندر شرمندگی سے نظریں جھکاۓ صبوحی کے سامنے کھڑا تھا انداز ایسا تھا جیسے اس سب کا قصوروار وہ خود ہو صبوحی کی بے تاثر نگاہیں اس کے چہرے پر جم گئیں
"نہیں کر سکے نا حفاظت اس کی ۔۔۔۔۔ محض ایک دن ۔۔۔ صرف ایک دن میں ہی میری برسوں کی ریاضت گنوادی "وہ ٹھہر ٹھہر کر بولتی سکندر کو پاتال کی گہرائیوں میں دھکیل گئ
"کیسے باپ ہو تم ۔۔۔۔۔ جو اپنی ہی بیٹی کی حفاظت نہ کر سکا ۔۔۔۔ یہ مکافات عمل ہے مسٹر سکندر درانی جو تم نے کل میرے ساتھ کیا تھا وہ آج تمہاری ہی بیٹی ۔۔۔
"نہیں " سکندر تڑپ اٹھا تھا اس کاری وار ہر بلبلا اٹھا تھا آنسو پیتی لب کاٹتی صبوحی نے گردن نفی میں ہلائی
"مگر اس سب میں میری نوائم کا کیا قصور تھا ۔۔۔ وہ تو بے حد معصوم تھی بلکہ کلیوں جیسی نازک شفاف اور پاک ۔۔۔۔ خدا نے تمہاری سزا کے لیے اسے ہی کیوں چنا ۔۔۔۔ تمہاری بیٹی کو کیوں نہ منتخب کیا ۔۔۔ "بولتے بولتے وہ یکدم چیخ پڑی تھی سکندر نے لب سختی سے بھینچ لیے بے شک اس کی آخری بات نے سکندر کے وجود میں گہرے شگاف ڈالے تھے
"انامتہ کا بھی کوئی قصور نہیں ہے صبوحی تم اسے بیچ میں مت لاؤ "وہ خود کو کہنے سے باز نہ رکھ پایا تھا صبوحی کی آنکھوں میں یکدم وحشت اتری اسنے سرعت سے اٹھ کر اسکا گریبان تھام لیا سکندر کو اس کی حرکت نے پل بھر کے لیے ساکت کر دیا تھا
"کیوں نہ لاؤں بیچ میں ۔۔۔ کتنی تکلیف ہوئی نا کتنا درد اٹھا کتنا تڑپے ۔۔۔ میں بھی کسی کی بیٹی تھی ۔۔۔بہن تھی ۔۔۔۔ پھر میرے ساتھ کیوں ۔۔۔۔ مجھے کس جرم کی سزا ملی ۔۔۔ بولو ۔۔۔ سکندر جواب دو ۔۔۔۔ کیا قصور تھا میرا "وہ اسے سختی سے جھنجھوڑتے جواب مانگ رہی تھی سوال پر سوال کرتے اپنا قصور پوچھ رہی تھی حساب مانگ رہی تھی سکندر دنگ سا اسے دیکھے گیا اسنے شعوری طور پر بھی اس کے ہاتھ ہٹانے کی کوئی کوشش نہ کی تھی
"اپنی بیٹی کا ذکر آیا تو تمہاری محبت نے جوش مارا ۔۔۔ میری نوائم کا کوئی گناہ تو بتاؤ جو وہ اتنا عرصہ اپنے باپ کی شکل تو کیا وجود سے بھی نا آشنا رہی۔۔۔۔ ماں کی ممتا کو بھی محسوس نہ کر سکی ۔۔۔۔ اس دنیا سے چھپی ایک کونے میں اپنے گنہگار وجود کو چھپاۓ دبکی رہی ۔۔۔ وہ اپنی زندگی کے لیے خود سے لڑتی رہی ہے۔۔۔۔۔ سزا ملی ہے اسے اس گناہ کی... جس کے مفہوم سے بھی وہ آگاہ نہیں "وہ ہانپتی کانپتی واپس بیڈ پر جا بیٹھی
" کس کس کا حساب دو گے سکندر ۔۔۔ کس کس درد کا مداوا کرو گے۔۔۔۔۔ تم تھک جاؤ گے سکندر ۔۔ہار جاؤ گے۔۔ "وہ زور زور سے نفی میں سر ہلاتی واپس ڈھے گئیں
اتنا ٹوٹی ہوں کہ چھونے سے بکھر جاؤں گی
اب اگر اور دعا دو گے تو مر جاؤں گی
لے کے میرا پتا وقت رائیگاں نہ کرو
میں تو بنجارن ہوں کیا جانے کہاں جاؤں گی
اس طرف دھند ہے، جگنو ہے نہ چراغ کوئی
کون پہچانے گا بستی میں اگر جاؤں گی
زندگی میں بھی مسافر ہوں تیری کشتی کی
تو جہاں مجھ سے کہے گا میں اتر جاؤں گی
پھول رہ جائیں گے گلدانوں میں یادوں کی نذر
میں تو خوشبو ہوں فضاؤں میں بکھر جاؤں گی۔۔۔
☆☆☆☆☆☆☆
وہ گہری نیند میں تھا جب اسے نسوانی تیز چیخ سنائی دی وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا ادھر ادھر ہاتھ مار کر لیمپ روشن کیا کچھ حواس بحال ہوۓ تو اس نے ماحول کو سمجھنے کی کوشش کی یکدم ذہن میں جھماکہ ہوا وہ کمبل پڑے ہٹاتا سرعت سے بیڈ سے اترا ساتھ والے کمرے کی دہلیز پر پہنچ کررک گیا دروازہ ادھ کھلا تھا جس سے کمرے کا منظر کچھ واضح تھا نوائم کا وجود کمبل میں دبکا ہوا تھا جس میں سے گھٹی گھٹی سسکیاں اس کے کانوں میں بخوبی پہنچ رہی تھی
"صاحب جی ۔۔۔۔ انہیں پتا نہیں کیا ہو گیا " نو عمر ملازمہ نے ڈرتے ڈرتے جہانگیر کو دیکھ کر بتایا وہ سر ہلاتا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا
"تم کہاں تھیں ؟؟"
"میں جی واش روم میں " جہانگیر دھیرے دھیرے چلتا بیڈ کے قریب آگیا
"نوائم ۔۔۔۔ "بڑی نرمی تھی اس کی پکار میں.... نوائم نے کمبل کے نیچے سے منہ نکال کر اسے دیکھا جہانگیر کو دیکھتے ہی وہ سرعت سے کمبل سے باہر نکلی
"کیا ہوا ؟؟تم ٹھیک ہونا ؟؟؟" وہ استفار کر رہا تھا
"م ۔۔۔۔میں ڈر گئ تھی "وہ ہچکیوں کے دوران بمشکل بول پائی تھی جسم پر کپکپی طاری تھی جبکہ ماتھے پر پسینے کی بوندیں چمک رہی تھیں
" یہ بھی نہیں تھی یہاں " اس نے ملازمہ کی طرف اشارہ کیا
"میں اکیلی تھی ۔۔۔۔ " وہ مزید گویا ہوئی جہانگیر گہرا سانس بھر کر اس عجوبے کو دیکھتا بیڈ کے کنارے ٹک گیا
"وہ یہیں تھی باتھ روم میں "
"مجھے امی کے پاس جانا ہے" فرمائش سامنے آ گئ جس میں ضد کا عنصر واضح تھا جہانگیر چونک گیا
" ابھی تورات ہے میں تمہیں صبح چھوڑ آؤں گا چلو شاباش تم سونے کی کوشش کرو "جہانگیر نے اسے محبت سے پچکارا
" نہیں ۔۔۔ یہ رات کو چلی جاتی ہے" وہ زور زور سے سر نفی میں ہلاتی اسے نئ الجھن میں ڈال گئ تھی جہانگیر کے ماتھے پر شکنیں نمودار ہوئیں دو دن سے وہ نئ کشمکش میں گرفتار تھا دل و دماغ کی جنگ میں وہ بری طرح پھنس چکا تھا دل بے ایمانی پر مصر تھا جبکہ دماغ عقل کی ڈورتھما دیتا تھا دو دن بے سکونی میں گزارنے کے بعد آج وہ بمشکل سو پایا تھا کہ محترمہ نے اس کی نیند میں ناصرف خلل ڈال دیا بلکہ اب زچ کرنے کی بھی جی جان سے کوشش کر رہی تھی اور جہانگیر ...بھلا اس میں اتنا ضبط کہاں تھا تبھی ہر لحاظ بلاۓ طاق رکھتا چٹخ گیا
"اب کیا فوج بلاؤں تمہاری نگرانی کے لیے"
"نہیں آپ میرے پاس سو جائیں "فٹ سےجواب حاضر تھا اتنی سنگین صورتحال کے باوجود ملازمہ کی کھی کھی نے اسے اچھا خاصہ جھنجھلا کر رکھ دیا اوپر سے محبوب کی مسکین صورت اور معصومیت بھری خواہش ۔۔۔۔ مگر جہانگیر ایسی بے خودی کا ہرگز قائل نہ تھا تبھی دل کو جھڑک کر نوائم کو گھوری سے نوازا نوائم نے آنکھوں کو اوپر نیچے گھمایا یہ مخصوص انداز تھا اس کے سوچنے کا
"بیڈ چھوٹا نہیں ہے میں اور امی تو اس سے بھی چھوٹے بیڈ پر سو جاتے تھے "اس نے اپنی عقل کے مطابق بڑا عقل مندانہ جواب دیا تھا جہانگیر کا جی ماتھا پیٹنے کو چاہا شاید وہ ایسا کر بھی لیتا مگر اس کی اگلی بات نے اس کی سوچوں کا رخ پھر سے موڑ دیا
" یہاں سو جائیں " اس نے بیڈ کے نیچے کارپٹ کی طرف اشارہ کیا
"تم مجھے غصہ دلا رہی ہو "جہانگیر نے ماتھے پر شکنیں لاتے نیا حربہ آزمایا تھا جو کارگر ثابت ہوا وہ منہ بسورتی واپس لیٹ گئ
"سب ہی مجھے ڈانٹتے ہیں " کمبل کے نیچے سے ہلکی آواز میں سنائی دیتی سرگوشی جہانگیر کے دل میں تیر کی طرح گڑھ گئ وہ سر جھٹکتا دھیرے سے مسکرا دیا
ﺯﻟﻒ ﺭﯾﺸﻢ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭼﮩﺮﮦ ﺍُﺟﺎﻟﻮﮞ ﺟﯿﺴﺎ
ﻭﮦ ﺗﻮ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯﺗﺮﻭﺗﺎﺯﮦ ﮔﻼﺑﻮﮞ ﺟﯿﺴﺎ..
__________
رُخما کی آنکھ کھلی تو وہ فرش کی بجاۓ بیڈ پر لیٹی تھی کمرے کی فضا میں سگریٹ اور الکحل کی مہک کا احساس غالب تھا وہ کچھ دیر ساکن پڑی رہی دھیرے دھیرے حواس بحال ہوۓ تو وہ سرعت سے اٹھ بیٹھی نگاہ اپنے سامنے صوفے پر بیٹھے جازم سے جا ٹکرائی اس کے شکستہ اعصاب کو جھٹکا لگا تھا وہ تیزی سے اس کی طرف لپکی
"کیوں لاۓ ہو تم مجھے یہاں ۔۔۔۔ پلیز اب تو بتادؤ مجھے " وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپاۓ پھپھک کر رو دی مگر جازم سپاٹ چہرہ لیے اسے دیکھتا اس کی آہوں اور سسکیوں کو نظرانداز کرتا اپنے شغل میں مصروف رہا
"چلو کھانا کھاؤ... اس کے بعد حلیہ سنوارو پھر کچھ حساب کتاب پورا کرنا ہے تم سے" اسنے کھانے کی ٹرے رُخما کی جانب کھسکائی وہ سہم کر اسے دیکھتی نفی میں سر ہلانے لگی
" کیانہیں... ہاں کیا نہیں ...تم مجھے انکار کرو گی حشر بگاڑدوں گا میں تمہارا" وہ ایک دم طیش میں آیا تھا اسکا بازو پکڑ کر جھٹکا دیتے اتنی زور سے دھاڑا کہ دیوریں لرز گئیں وہ دبک سی گئ ایسےلب و لہجے کی وہ کب عادی تھی بھلا
"مجھے جانے دو پلیز" وہ پھر سے گڑگڑائی تھی
"کیوں جانے دوں؟؟ اس لیے تو نہیں لایا... بے فکر رہو یہ محبت کا معاملہ ہرگز نہیں... تمہاری بہن سے بدلہ لہنے کے لیے تم سے بہتر اور کوئی مہرہ ہو ہی نہیں سکتا"
وہ اسکے بال مٹھی میں جکڑے سرد آواز میں پھنکارا تھا
"کھانا کھاؤ" جازم بلند آواز گرجا
"مجھے بھوک نہیں ہے " وہ حواس باختہ ہوگئ
"تمہیں سنتا نہیں ہے" مسلسل نہ نہ کی تکرار نے اسے تاؤ دلا دیا تبھی خطرناک ارادوں سے اسکی جانب بڑھاپھر ٹھٹھک کر رک گیا
" سوری سوری ۔۔۔۔ مجھے تم سے شاید ابھی یوں بات نہیں کرنی چاہئے ۔۔۔۔ ابھی تو تم میرے بہت کام کی چیز ہو ۔۔۔۔ میری موجودگی شاید تمہیں خوفزدہ کر رہی ہے ۔۔۔میں چلتا ہوں واپسی پر بات ہوتی ہےتم سے ۔۔۔۔ چلو شاباش کھانا کھاؤ ۔۔۔ ہری اپ "وہ بے حد نرمی سے کہتا اس کے گال چھوتا باہر کی جانب بڑھ گیا رُخما اس کی پشت پر نظر ڈالتی پھر سے چہرہ ہاتھوں میں چھپاۓ سسک پڑی
☆☆☆☆☆☆☆
"سنو " وہ فیڈر بنا کر کچن سے نکلی تو مغیث کی پکار پر ٹھٹھک کر رک گئ
" سنائیے " اسی کے لہجے میں جواب دیتی وہ مطمئن دکھائی دے رہی تھی مغیث دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا اس کے روبرو آ گیا
"کب تک چلے گا یہ سب " مغیث کا انداز اور سوال دونوں عجیب تھے حرب چونکی
"کیا کب تک چلے گا ؟؟؟ "
"میرا خیال ہے اب ہمیں پرانی باتیں بھلا کر آئندہ زندگی کی طرف دیکھنا چاہئے "مغیث نے بڑے رسان سے اپنے دل کی بات کو اس تک پہنچایا تھا
"یہ اتنا آسان نہیں ہے " حرب چٹخ گئ
"میں نہیں جانتی آپ نے یہ سب کیوں کیا میرے ساتھ آپ کی کوئی جنموں کی دشمنی تو نہ تھی آپ کا شروع والا رویہ ہرگز بھلاۓ جانے کے قابل نہیں " حرب کو سب کچھ ٹھیک موقع پر یاد آ رہا تھا اب بھلا اتنا اچھا موقع وہ کیسے گنوا دیتی مغیث کے چہرے پر تاریک سا سایہ لہرا گیا
"کیسے مل سکتی ہے معافی "مغیث نے صلح جو انداز اپنایا حرب دل ہی دل میں مسکرائی مگر چہرے پر مزید بےزاری طاری کر لی
"ہمممم ۔۔ یہ سوچنا پڑے گا "وہ اسے سلگا رہی تھی مگر خلاف معمول مغیث نارمل تھا حرب کو حیرت نے آن لیا
"یہ اتناسیدھا کیسے ہو گیا "وہ بڑبڑائی تھی
" تو پھر سوچ لو ۔۔۔۔ میں ہر طرح کا ازالہ کرنے کو تیارہوں ۔۔ مگر دھیان رہے میں اب مزید انتظار کی سولی پر نہیں لٹک سکتا ۔۔۔۔ مجھے تمہارا جواب چاہئے وہ بھی اثبات میں"وہ سنجیدہ تھا ۔۔۔۔ بے حد سنجیدہ ۔۔۔۔ ضد ہٹ دھرمی اور متانت سے کہتا وہ پلٹ گیا حرب نے یونقوں کی طرح کھلے منہ پر ہاتھ رکھا
" ہاۓ اسے کیا ہوا "
☆☆☆☆☆☆☆
وہ سو کر اٹھی تو بیڈ پر پڑے قیمتی اور نفاست سے سجے لباس نے نوائم کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی
"یہ کس کا ہے " نوائم نے نوعمر ملازمہ کا بازو سختی سے کھینچ کر اپنی جانب کیا
"آپ کا" بلیک کلر کامدار فراک جس کے گلے اور دامن پر سلور نگینوں کا کام تھا
"صاحب آپ کے لیے لاۓ ہیں پہن کر تیار ہو جائیں اور نیچے آ جائیں "وہ مسکرا کر ذو معنی سے کہتے پلٹ گئ نوائم نے خوشی خوشی سوٹ اٹھا لیا
☆☆☆☆☆☆☆
رُخما جازم کے جانے کے بعد کتنی ہی دیر تک روتی رہی تھی روتے روتے جانے کب اس کی آنکھ لگ گئ اسے خبر ہی نہ ہوئی اب اٹھی تو دن چڑھ رہا تھا اس نے کھڑکی کے پردے سرکا کر باہر کانظارہ کیا ملگجا اندھیرا چار سو پھیلا ہوا تھا چڑیوں کی چہچہاہٹ اور گھاس ہر پڑتی شبنم ذہن کو تروتازگی بخشتی تھی مگر وہ پھر بھی آسودہ نہ ہو سکی دودن سے بھوکے پیاسے رہنے کے سبب اس کی ہمت جواب دے گئ تھی اس نے ضد اور ہٹ دھرمی کو پس پشت ڈال کر معدے کو سیر کرنے کا سوچا اور رات کے کھانے کی ٹرے سامنے کر لی معدہ میں کچھ اترا تو ذہن کچھ سوچنے کے قابل ہوا کمرے کا جائزہ لینے پر محسوس ہوا کہ یہ وہ جگہ نہ تھی جہاں وہ دو دن سے موجود تھی سامنے ہی اس کی بکس اور بیگ موجود تھا اس کے ذہن نے برق رفتاری سے کام کیا وہ سرعت سے اٹھ کر اپنےبیگ کی طرف لپکی گھپ اندھیرے میں آس کا جگنو ٹمٹمایا تھ اسے آذادی کا کوئی سرا ہاتھ لگا تھا مگر موبائل کی عدم موجوگی نے اس کی ساری امیدوں اور خوش فہمیوں پر پانی پھیر دیا جازم نے سب کچھ بڑی پلاننگ سے کیا تھا وہ نڈھال سی دوبارہ بیڈ پر بیٹھ گئ تبھی دروازہ کھلا اور کوئی اندر داخل ہوا ساتھ ہی بیڈ پر کچھ گرنے کی آواز آئی
"اٹھو اور اسے پہن لو "جازم کی کرخت آواز اسے رخ موڑنے پر مجبور کر گئ سامنے ہی ڈیپ ریڈ کلر کا چمکتا لہنگا اس کی آنکھوں کو خیرہ کر ریا تھا وہ دھک سے رہ گئ اب یہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا تھا متوقع صورت حال کے خوف سے ہی اس کا دل سوکھے پتے کی مانند لرزنے لگا
"کیوں " اپنے دل کو سنبھالتے بڑی ہمت سے سوال کیا تھا
" سوال جواب سے سخت چڑ ہے جو کہا ہے وہ کرو "وہ غرایا تھا رُخما کے بہتے آنسوؤں میں روانی آ گئ
"کیوں کر رہے ہو ایسا ۔۔۔۔ کیا بگاڑا ہے میں نے تمہارا " بے بسی کی انتہا پر پہنچ کر وہ چیخ پڑی تھی جازم استہزائیہ ہنسنے لگا
" تمہاری بہن نے جو کچھ میرے ساتھ کیا ہے اتنی آسانی سے تو معاف نہیں کروں گا ایسی مات دوں گا ساری عمر یاد رکھے گی ۔۔۔بہت پیار کرتی ہے نا تم سے ۔۔۔ درد تمہیں ہو گا تڑپے گی وہ ..تب سکون آۓ گا مجھے " وہ اس کی طرف لپکا اورساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر اس کے بال جکڑ لیے "مجھے یہاں چوٹ لگائی اس نے ۔۔۔۔ یہاں "اس کی آنکھوں میں دیکھ کر اس نے اپنے دل کی طرف اشارہ کیا
"مجھے استعمال کیا اس نے بے وقوف بنایا ۔۔۔میری سب سے قیمتی چیز چھین لی اس نے ۔۔۔۔ بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیا اس بھائی سے جس سے کبھی میں نے اونچی آواز میں بات نہ کی تھی تمہاری بہن کی وجہ سے محض اس کی وجہ سے میں نے اپنے بھائی سے منہ موڑ لیا اس سے نفرت کرنے لگا "وہ جھٹکے سے اسے چھوڑتا پیچھے ہوا دیکھتے ہی دیکھتے اس کے چہرے کے تاثرات خوفناک ہو گئے تھے ہونٹ بھینچ گئے ابرو تن گئے اور چہرہ جیسے تانبے کا ہو گیا
"اس سب کا بدلہ تم چکاؤ گی ۔۔۔۔ یہ جو آگ میرے سینے میں لگی ہے اسے تم بجھاؤ گی تم یہاں سے کہیں نہیں جا سکتی مر کر بھی نہیں " وہ گرج کر کہتا اسے سن کر گیا وہ اتنی زورسے دھاڑ رہا تھا کہ کمرے کی دیواریں لرزنے لگیں اس دیوانگی کے عالم میں اس نے کمرے کی ایک ایک چیز اٹھا کر خود ہر پھینکنی شروع کر دی رُخما سہم کر پیچھے کو کھسکی اسے جازم کی ذہنی حالت سے خوف آنے لگا تھا چند منٹوں کے کھیل کے بعداپنی اتھل پتھل سانسوں کو سنبھالتا ٹیبل تک پہنچا اور پانی کا جگ اپنے سر پر انڈیل دیا وہ خود کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہا تھا ایک لمبا سانس کھینچتے ہوۓ وہ اس کی طرف پلٹا اور اسے بازو سے کھینچ کر اپنی جانب گھسیٹ لیا
"اب تمہاری قسمت میں میرا دل بہلانا ہی لکھا ہے نہ میں تمہیں چھوڑوں گا نہ اپناوں گا میرے لیے تمہاری حیثیت بس ایک کیپ کی سی ہوگی۔۔۔ " اتنی نفرت تحقیر تھی اس کے الفاظ میں کہ وہ تھرا گئ ایسی ذلت و سبکی پر اس کی رگیں تن گئیں تھیں اسے لگا جیسے اسے کسی نے ابلتے ہوۓ آتش فشاں میں دھکیل دیا ہو وہ اس کی ساکن صدمے سے پتھرائی ہوئی آنکھوں میں دیکھتا طنز کے تیر چلانے میں مصروف تھا جب اپنے حواسوں کو یکجا کر تے بڑی ہمت سے رُخما نے جازم کا ہاتھ تھام لیا
" بہت محبت ہے نا اپنے بھائی سے " سوال بے حد عجیب تھا بہتی آنکھوں کو پونجھتی آنکھوں میں الجھن لیے اس سے پوچھ رہی تھی جازم نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا "اگر میں کہوں اس بھائی کے صدقے مجھ سے نکاح کر لو تو ۔۔۔ اگر اتنی محبت ہے تو اس محبت کا ثبوت دے دو....مجھ سے نکاح کرلو خدا کا واسطہ ہے مجھے گنہگار ہونے سے بچا لو " وہ پھپھک کر روتی اسے مخمصے میں ڈال گئ تھی اس کے ہاتھ کی گرفت خود بخود ڈھیلی پڑ گئ وہ جھٹکے سے اسے چھوڑتا بے ساختہ پیچھے ہوا چند لمحے لگے تھے فیصلہ کرنے میں بس چند لمحے وہ ایک آخری نگاہ اس کے وجود پر ڈالتا بے جان قدموں سے باہر کی جانب بڑھ گیا
☆☆☆☆☆☆☆
گوہر اپنے آفس میں تھا جب اسے انجان نمبر سے کال موصول ہوئی اس نے بغیر غور کیے کال اٹینڈ کر لی دوسری سمت سے آتی آواز سن کر وہ اچھل پڑا
"جہانگیر ۔۔۔ یہ تم ہو " وہ حیران زیادہ تھا یا خوش جہانگیر اندازہ نہ کر سکا
"ہاں میں بات کر رہا ہوں "جہانگیر کے جواب پر اس نے فون کان سے ہٹا کر نمبر دیکھا جو کہ اسکی پاکستان میں موجودگی ظاہر کر رہا تھا وہ یکدم کرسی سے اٹھا
"تم پاکستان کب آۓ ؟"اب کے انداز میں حیرت کے ساتھ ساتھ تشویش بھی تھی
"کچھ ہی دن پہلے " دوسری جانب مکمل اطمينان تھا
"مگر کیوں ۔۔۔ کیا تم جانتے نہیں ۔۔۔ "
"پلیز لیکچر دینے مت لگ جانا ۔۔۔ وہ سنو جو میں کہہ رہاہوں ۔۔۔ فوراً یہاں آؤ میرے پاس تم لوگوں کی ایک امانت ہے "
"امانت ۔۔۔ کون سی امانت "وہ ٹھٹھکا تھا
"آ کر دیکھ لو " کہہ کر کال کاٹ دی گئ گوہر جھنجھلا اٹھا ایک تو یہ شخص ہر وقت ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتا ہے ۔۔۔۔ مجال ہے جو کسی کی مان لے ۔۔۔۔ کیا شاہی فطرت پائی ہے محترم نے ۔۔۔ حکم دیا اور بس "گوہر اپنے سامنے بکھرا پھیلاوا سمیٹتا منہ ہی منہ میں بڑبڑاۓ چلا جا رہا تھا
☆☆☆☆☆☆☆
جہانگیر نے سیڑھیاں اترتی نوائم کو دیکھ کر کال کاٹ دی تھی وہ اس کے لاۓ ہوۓ لباس میں بلاشبہ بلا کی حسین لگ رہی تھی وہ سہج سہج کر قدم اٹھاتی اس تک آئی جہانگیر نے فی الفورنگاہوں کا زاویہ بدلا
"میں آ گئ ہوں " اس نے اپنی آمد سے مطلع کیا جہانگیر بڑے خوبصورت انداز میں ہنس دیا
" ارے یہ کیا "نوائم کی نظر سامنے دیوار پر لگی بڑی سی سکرین پر پڑی جہاں کارٹون فلم چل رہی تھی
"ہاۓ یہ کون ہے " وہ ایک ہی جست میں وہاں تک پہنچی اور اب آنکھیں کھولے ادھر ادھر بھاگتے کارٹونز کو دیکھ رہی تھی
یہ یہاں اندر کیسے پھنس گئے " اب وہ عقل لڑا رہی تھی مگر سب بے سود تھا تھک ہار کر وہ واپس جہانگیر کی طرف پلٹ آئی جو انگلی کو مگ کے کناروں پر پھیرتا نظریں نوائم پر جماۓ ہوۓ تھا
"بتائیں نا "وہ دھپ سے اس کے برابر بیٹھتی اس سے پوچھنے لگی وہ بے خیال سا تھا تبھی چونک گیا
"کیا ؟؟؟"
"وہ کون ہے "
"کارٹونز ہیں "
"آپکے کیا لگتے ہیں "
"کچھ بھی نہیں "
"کیوں "
"بس نہیں تو نہیں "
"کیوں نہیں "
"آر یو میڈ " جہانگیر کو پھر سے اس کی ذہنی حالت پر شبہ ہونے لگا تھا کوئی اتنا بے وقوف بھی ہو سکتا ہے ؟؟ کہیں وہ اسے بے وقوف تو نہیں بنا رہی ؟؟ جہانگیر کو یہ سوچ ہی آگ بگولہ کر گئ
"آپ کون ہیں "اس نے نیا موضوع چھیڑا
"بڑی جلدی یاد آ گیا یہ پوچھنے کا " وہ تلخی سے گویا ہوا
"آپ پرنس ہیں نا " مرضی کا جواب اخذ کیا گیا
"واٹ ؟؟"وہ اچھل پڑا
"امی کہتی تھیں میرا ایک پرنس بھی ہے وہ آ پ ہی ہیں نا " وہ اس کے تاثرات سے بے خبر بولے چلے جا رہی تھی جہانگیر جھنجھلا اٹھا
"تم مجھے پاگل کرو گی "
"نہیں تو نا سہی " نوائم نے سیڑھیاں چڑھتے جہانگیر کی پشت دیکھ لاپرواہی سے ہاتھ جھٹکےاور توجہ کارٹونز کی جانب کر لی
*#جاری_ہے*
No comments: