Bhagora By Riaz Aqib Kohler Episode No. 34 ||بھگوڑا مصنف ریاض عاقبکوہلر قسط نمبر 34
Bhagora
By
Riaz Aqib Kohler
بھگوڑا
مصنف
ریاض عاقب کوہلر
بھگوڑا
قسط نمبر34
ریاض عاقب کوہلر
امجد نے بھی سامنے سے آنے والی گاڑی کو دیکھ لیا تھا اور اس سے پہلے کہ وہ کوئی مشورہ دیتا سعدیہ بولی۔”یہ تو مسافر بردار گاڑی ہے۔“ اس کے پلے غالبا صرف خطرے کا لفظ پڑا تھا اور اس نے ہماری پریشانی بھانپ لی تھی۔”مسافر بردار گاڑی؟“ میں حیرت انگیز شرمندگی سے بولا ۔”ہاں۔“ ڈابیر اور جنگل خیل کے درمیان لوگوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے اور آمدورفت کا بڑا ذریعہ یہی گاڑیاں ہیں۔“میں نے سر ہلاتے ہوئے گاڑی آگے بڑھا دی اور اس کے ساتھ امجد کو بھی صورت حال سے آگاہ کرنے لگا جس نے گن کاک کر کے سیفٹی لیور فائر کی پوزیشن پر سیٹ کر لیا تھا۔”تمھارا کام بھی بس ٹینشن پیدا کرنا ہے۔“ اس نے سیفٹی لیور کو دوبارہ سیف پر کرلیا، گن البتہ اس نے کاک رہنے دی تھی۔
اس مسافر بردار گاڑی کے علاوہ ہمیں راستے میں چند اور گاڑیاں بھی ملیں۔ مزید ڈیڑھ دو گھنٹے کی ڈرائیونگ کے بعد ہم جنگل خیل کی حدود میں داخل ہو گئے تھے۔
میں نے سعدیہ سے پوچھا۔”دوسرا جنگل خیل کس سمت میں واقع ہے؟“
”دوسرا جنگل خیل؟“ اس کے لہجے میں حیرانی تھی۔”ہاں دوسرا جنگل خیل ،میں نے سنا ہے کہ اس علاقے میں جنگل خیل نام کے دو گاﺅں ہیں۔“”ہو سکتا ہے.... مگر میں اس بارے لاعلم ہوں۔“”تمھارا گھر کس طرف ہے؟“”میرا گھر پیچھے رہ گیا ہے۔“ وہ اطمینان بھرے لہجے میں بولی۔”تُم نے بتایا نہیں؟“
”کیا فائدہ.... میں نے کون سا وہاں اترنا تھا۔“”کیوں؟“”وہاں اترنے کا مطلب تھا خود کو اور اپنے والدین کو درد ناک موت کے حوالے کرنا۔“ میں نے اور امجد نے پہلے سے مشورہ کیا ہوا تھا کہ اسے اس کے گھر کی بجائے کسی اور محفوظ مقام تک پہنچائیں گے اور جو بات ہمارے ذہنوں میں آئی تھی وہی سعدیہ کے دماغ میں بھی موجود تھی۔
”اب ہم آپ کہ کہاں اتار دیں۔“ میں نے اس کی رائے جاننا چاہی۔
”اگر میری زندگی عزیز ہے تو مجھے اپنے ساتھ ہی رکھو۔“ ”دماغ جگہ پر ہے۔“ میں حیرانی سے بولا۔ ”ہم یہاں اپنے دشمن کی تلاش میں آئے ہیں تمھیں کہاں سنبھالتے پھریں گے۔ ویسے بھی تمھاری وجہ سے ہم ڈابیر والوں کی نظر میں آسکتے ہیں اور اس پردیس میں ہم پورے گاﺅں کے ساتھ دشمنی نہیں مول سکتے۔ بہتر یہی ہے کہ تم ہم سے علاحدہ ہو جاﺅ۔ تم یوں بھی عورت ہو کسی چار دیواری میں چھپ کر رہ سکتی ہو اور برقع پہن کر آزادانہ گھوم پھر بھی سکتی ہو۔“
”یہ جنگل خیل ہے جناب....یہاں اکیلی عورت بالکل محفوظ نہیں اور میرا تو ماں باپ کے سوا اس دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں جسے اپنا کہہ سکوں اور بدقسمتی سے ماں باپ کے پاس جانا بھی میرے لیے ممکن نہیں رہا۔ ان کے علاوہ اس جہاں میں آپ دونوں کی ذات ایسی ہے جس پر میں اعتماد کر سکتی ہوں اور ایسا کرنے میں میں حق بجانب ہوں کہ جو مرد رات کے اندھیرے اورغار کی تنہائی میں ایک جوان عورت کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھتے ان جیسا بااعتماد اور کون ہو سکتا ہے۔“باقاعدہ عمارتی علاقہ شروع ہونے سے پہلے میں نے گاڑی درختوں کے گھنے جھند کی طرف موڑی اور سعدیہ کو کہا۔
”سعدیہ بی بی! .... میں معافی چاہتا ہوں کہ ہم تمھیں اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے البتہ اتنی رقم دے سکتے ہیں کہ تم یہاں سے کسی پرامن پسند علاقے تک چلی جاﺅ۔ شکل و صورت ﷲ تعالیٰ نے اچھی دی ہے دوسرے علاقے میں جا کر کوئی بھی شریف آدمی تمھیں قبول کرنے میں تامل نہیں کرے گا۔“”اپنے بارے کیا خیال ہے۔ آپ بھی تو شریف انسان ہیں۔“ وہ بے باکی سے بولی اور میں حیرت سے اس کی جانب تکتا رہ گیا۔ مگر اس نے مجھ سے نظریں چرانے کی کوشش نہیں کی تھی ۔”یہ کیا بحث تم لوگوں نے شروع کی ہوئی ہے۔ گاڑی سے تو باہر نکل آﺅ۔“ امجد جو میرے گاڑی روکنے پر باہر نکل گیا تھا مجھے مخاطب ہو ا۔”اسے کچھ مت بتانا۔“ سعدیہ جلدی سے بولی۔
”تمھیں کیا پتا یہ کیا پوچھ رہا ہے۔“ میں حیرانی بولا۔وہ ہنسی ۔”گزار ے لائق اردو میں بھی سمجھ لیتی ہوں۔“ ”وہ کیسے؟“
”سکول تو جنگل خیل میں نہیں ہے البتہ ایک امام مسجد اور اس کی بیوی نے اپنا ذاتی مدرسہ بنایا ہوا ہے جس میں امام صاحب لڑکوں کو قرآن اور مذہبی کتابوں کا درس دیتے ہیں جبکہ اس کی اہلیہ چھوٹی بچیوں اور لڑکیوں کو زیور تعلیم سے آراستا کرتی ہے۔ میں بھی انھی سے پانچ چھے سال تک پڑھتی رہی ہوں۔“
” اس کا مطلب ہے تم شروع سے ہمارے درمیان ہونے والی گفتگو کو سمجھتی آرہی ہو۔“”ہاں.... جو بات چیت آپ اردو میں کرتے تھے وہ آسانی سے سمجھ لیتی تھی۔ البتہ کبھی کبھی دوسری زبان بولنا شروع کر دیتے تھے تو میرے پلے کچھ نہیں پڑتا تھا۔“”جانو صاحب۔ میں عرض کر رہا ہوں باہر تشریف لے آئیں ۔
ع اور بھی غم میں زمانے میں محبت کے سوااس کی بات پر سعدیہ کا چہرہ شرم سے گلنار ہو گیا تھا۔
”گدھے اسے اردو مکمل سمجھ میں آتی ہے۔“ میں نے گاڑی سے باہر آتے ہوئے اسے جھڑکا۔”مم مگر تُم نے پہلے نہیںبتایا ....اور اگر ایسی بات تھی تو تمھیں آپس میں اردو بولنا چاہیے تھی تاکہ مجھے بھی سمجھ آتی رہتی۔“”مجھے بھی اس بات کا ابھی پتا چلا ہے۔“ ”بھائی.... اصل میں ہم پورا بول نہیں سکتانا۔“ سعدیہ نے امجد کے سامنے صفائی پیش کی۔ ”البتہ سمجھ لیتا ہے۔“”ہن آرام ای۔“وہ میری طرف دیکھ کر طنزیہ لہجے میں بولا اور میں فقط مسکرا دیا۔
”یہاں سے اب پیدل چلیں گے۔“ میں نے ان دونوں کو آگاہ کیا۔ ”کیونکہ اس گاڑی کی وجہ سے ہم پھنس سکتے ہیں۔“”تے اینداکے کریسوں“(تواس کا کیا کریں گے) اس کا اشارہ واضح طور پر سعدیہ کی طرف تھا اور اس کے اردو سمجھ لینے کے خیال سے اس نے سرائیکی میں بات کی تھی۔
”اے کمبل ہیے بھرا، اے نی جان چھوڑن لگا۔“ (یہ کمبل ہے بھائی یہ جان چھوڑنے والا نہیںہے)
”اسی مارے آدھا ہم جو ہر کھڈ چ انگل نہ ڈتی کر۔“(اسی لیے کہتا تھا کہ ہر سوراخ میں انگلی مت دیا کرو) اور میں نے صفائی پیش کرنے کی بجائے خاموش رہنا پسند کیا۔ جھنڈ سے نکل کر ہم جنگل خیل کی سمت بڑھ گئے۔ سعدیہ نے ایک بار پھر ایسے گھونگھٹ نکال لیا تھا کہ اس کا چہرہ بالکل نظرنہیں آرہا تھا۔
”اب کیا ارادہ ہے۔ کوئی لائحہ عمل سوچا ہے یا ویسے ہی جھک مارنے چل پڑے ہو۔“”لائحہ عمل تو یہ ہے کہ سب سے پہلے رہائش کا بندوبست کریں گے تاکہ آرام سے چودھری کی تلاش کا آغاز کیا جا سکے۔“
”رہائش کے لیے ہوٹل تو ملنے سے رہے اور بالفرض کوئی ہوٹل مل بھی جائے تب اس میں ہم سعدیہ کو تو ہمراہ نہیں رکھ سکیں گے۔“” یہ تو ہے ۔“ میں تائید میں سر ہلایا۔ ”یہاں پر سرائے سسٹم رائج ہے ایک بڑے سے ہال میں تمام مسافروں کو چارپائی بستر وغیرہ مل جاتا ہے اور تمام وہیں پڑے رہتے ہیں۔“
”عورتیں بھی تو مسافر ہوتی ہوںگی اور اس علاقے میں تو پردے کا رواج بھی ہے۔“سعدیہ جو ہمارے پیچھے پیچھے آرہی تھی ہماری غلط فہمی دور کرتے ہوئے بولی۔”پردے کی پابندی صرف مقامی خواتین ہی کرتی ہیں۔ افغانستان سے سیر و سیاحت کے لیے آنے والی خواتین عموماً بہت واہیات لباس میں نظر آتی ہیں(قارئین کی معلومات کے لیے درج کرتاچلوں کہ اس وقت افغانستان پر روس کا تسلط تھا) اور جہاں تک تعلق ہے رہائش کا تو اس کے لیے چھوٹے چھوٹے کوارٹروں سے لے کر بڑے بڑے مکان تک دستیاب ہیں۔ بات صرف پیسے کی ہے کہ آپ کی جیب کتنی اجازت دیتی ہے۔“
”اچھا....“ میں حیرانی بولا۔ ”اس کا مطلب ہے رہائش کی یہاں کوئی پرابلم نہیں ہے۔“
”بالکل ہی نہیں ۔“ سعدیہ نے اثبات میں سر ہلایا۔”یاروہ کون سی باتیں ہیں جو مجھ سے پوشیدہ رکھنے کے لیے آپ کو پشتو میں بات کرنا پڑ رہی ہے۔“ امجد ہماری پشتو سے تنگ آ گیا تھا۔”گدھے تمھیں پتا ہے کہ یہ اردو صحیح طور پر نہیں بول سکتی۔ پھر بکواس کرنے کا فائدہ؟“”تو آپ ساتھ ساتھ مجھے بتاتے رہا کریں نا؟ میں ہونّقوں کی طرح تمھارے چہروں کو تکتا رہتا ہوں۔“”اچھا سنو....۔“ میں نے اس کے سامنے سعدیہ سے سنی معلومات دہرا دی۔”ویسے کڑی سانوں گائیڈ تے بڑا اچھا کر رہی ہے۔“ وہ تعریفی لہجے میں بولا۔”لازمی بات ہے اس علاقے کی رہائشی ہے اسے یہ بنیادی معلومات پتا نہیں ہوں گی تو کس کو ہوں گی۔“اس دوران ہم جنگل خیل کی وادی میں داخل ہو گئے تھے۔ پہاڑوں کے درمیان کافی وسیع قطعہ زمین تھا جس میں ہر جانب سبزہ ہی سبزہ نظر آرہاتھا۔ عمارتی سلسلے میں زیادہ تر مکانات پختہ اینٹوں اورپتھروں سے تعمیر کے گئے تھے البتہ خال خال کچی مٹی کے بلاکوں کے بنے ہوئے مکان بھی نظر آرہے تھے۔ راستے میں کافی خواتین ہمیں مردوں کے ساتھ ٹہلتی نظر آئیں تمام کا لباس ناکافی اور واہیات قسم کا تھا۔ سعدیہ کے کہنے کے مطابق ان میں بڑی تعداد ازبک اور تاجک خواتین کی تھی۔(ازبکستان اور تاجکستان روس کی ریاستیں تھیں جو بعد میں روس کے ٹوٹنے پر علاحدہ مملکتیں بن گئیں تھیں۔) اس کے علاوہ دوسرے علاقوں کے بھی کافی لوگ وہاں گھومتے نظر آرہے تھے۔ جنگل خیل رقبے کے لحاظ اتنا وسیع نہیں تھا جتنا کہ وہاں آبادی کی کثرت تھی۔
سعدیہ کے کہنے پر ہم ایک ہوٹل میں داخل ہو گئے استقبالیہ پر ایک جوان العمرشخص براجمان تھا۔
پہلے موجود دو گاہکوں کو نمٹانے کے بعداس نے ہماری طرف متوجہ ہوکر شستہ اردو میں پوچھا....
”جی....آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟“
”ہمیں چند دنوں کے لیے دو کمروں کا کوارٹر چاہیے تھا۔“”500روپیہ ایڈوانس جمع کرادیں 100روپیہ کوارٹر کا یومیہ کرایہ ہے، پانچ دنوں سے زیادہ رہنے کی صورت میں پانچوں دن آپ کو مزید ایڈوانس جمع کرانا ہوگا۔“”یہ لو ہزار روپیہ۔“ میں نے سو سو کے دس نوٹ اس کے جانب بڑھائے ۔ ”باقی حساب دسویں دن کریں گے۔“”پلیز نام پتا لکھادیں۔“ اس نے رجسٹر کھولا....”لکھو عبدﷲ ولد عبدالرحمن سکنہ ٹھٹھہ اور یہ عبدالرحمن ولد عبدﷲ سکنہ جلال پور جٹان۔“ اس نے مسکراتے ہوئے دونوں نام درج کر لیے اسے معلوم تھا کہ میں نے دونوں نام فرضی بتلائے تھے مگر یہ ایک رسمی خانہ پُری تھی جس کی وجہ سے اس نے اصرار نہیں کیا تھا۔”خاتون بھی آپ کے ساتھ ہیں نا؟“ اس نے پیچھے کھڑی سعدیہ کی طرف اشارہ کیا۔
”ہاں لیکن آج کے لیے۔“ میں معنی خیز انداز میں آنکھ دبا ئی۔”سر اگر کوئی کمی پاﺅ تو ہمیں بھی خدمت کا موقع دینا۔“ خوش اخلاق چہرے کے پیچھے اس کی مکروہ صورت جھلکی۔ ”ہمارے پاس روس افغانستان، پاکستان کے مختلف شہروں اور مقامی ہر عمر اور ہر نسل کا مال وافر مقدار میں دستیاب ہے۔ ریٹ بھی بہت مناسب ہیں۔“”شکریہ.... اگرضرورت پڑی تو ضرور آپ کی پیش کش سے فائدہ اٹھائیں گے؟“”بالکل جی.... آپ کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔“ اس نے اپنی پشت پر لٹکے چابی بکس سے رنگ میں بند چند چابیاں ہمارے جانب بڑھا دیں۔ ”یہ آپ کے کوارٹر کی چابیاں ہیں۔“” کوارٹر تک رہنمائی کے لیے....۔“”ہاں سر یہ تو لازمی ہے۔“اس نے قطع کلامی کی ۔ ”بس آپ دو منٹ انتظار کریں بلکہ بیٹھیں.... اصل میں کوارٹروں کو ہینڈل کرنے والے دونوں آدمی مہمانوں کو پہنچانے کے لیے گئے ہوئے ہیں جیسے ہی ان میں سے کوئی آتا ہے۔ بلکہ وہ آگیا ہے.... منظور ان صاحبان کو سات نمبر کوارٹر میں چھوڑ آﺅ۔“ ایک ادھیڑ عمر آدمی کو ہوٹل میں داخل ہوتے دیکھ کر اس نے ہانک لگائی۔
اور منظور نامی شخص ۔ ”آئیں جی“ کہہ کر ہمیں ساتھ لیے ہوٹل سے نکل آیا ہوٹل سے سو، ڈیڑھ سو گز کے فاصلے پر چھوٹے چھوٹے مکان ایک سیدھی لائن میں تعمیر کیے گئے تھے منظور ہمیں ایک مکان میں لے گیا۔
”یہ ہے جی آپ کا7نمبرکوارٹر۔“
”شکریہ۔“ میں نے 10روپے کا نوٹ بطور ٹپ اسے پکڑایا اور وہ سلام کر کے چلتا بنا۔ کوارٹر کا دروازہ کھول کر ہم تینوں اندر داخل ہوگئے۔ وہ کوارٹر دو کمروں ایک باتھ روم اور ایک کچن پرمشتمل تھا۔ چھوٹاسا صاف ستھرا صحن۔ صحن میں کچن کی دیوار کے ساتھ خشک لکڑیاں ترتیب سے پڑی تھیں جو لازمی کچن میں جلانے کے کام آتی ہوں گی۔ کچن کو کھول کر دیکھا تو اس میں کھانا پکانے کے برتن اور تھوڑا بہت مصالہ رکھا ہواتھا۔
”ماجے یہ چابیاں رکھو میں ذرا بازار سے کچھ پکانے کے لیے لے آﺅں، ہوٹل میں کھانا کھانے سے بہتر ہے ہم خود کچھ پکالیا کریں۔“امجد نے سر ہلاتے ہوئے چابیاں میرے ہاتھ لے لیں۔بازار تک جانے کے لیے مجھے اس ہوٹل سے گزر کرجانا پڑا جس سے ہم نے کوارٹر کرائے پر لیا تھا۔ میں ہوٹل کے سامنے سے گزر رہا تھا کہ تین ڈبل کیبن ٹویوٹا”زن“ سے میرے پاس سے گزر گئیں ان کے اندر بیٹھے ہوئے بندوں کو دیکھتے ہی میں چونک پڑا۔ وہ باسمت خان کے آدمی تھے۔ وہ بڑی جلدی ہمارے پیچھے پہنچ گئے تھے اتنی جلدی ان کی آمد کی توقع کم از کم میرے گمان میں بھی نہیں تھی اچانک ایک خیال بجلی کی سی سرعت سے میری دماغ میں در آیا اور اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مجھے ایک بار پھر ہوٹل میں گھسنا پڑا، خوش قسمتی سے بکنگ والا شخص اس وقت تنہا تھا۔
”السلام علیکم۔“ اس کے قریب پہنچا۔
”وعلیکم السلام۔ سناﺅ عبداﷲ بھائی کیا ضرورت پیش آگئی ہے۔ کہیں اس گنوار لڑکی نے تو مزہ کر کرہ نہیں کر دیا۔“ اس نے مکروہ انداز میں اپنی آنکھ میچی ۔
”نہیں جناب.... اصل میں ایک اور مسئلہ تھا۔“”حکم کرو.... ہمارے ہوتے ہوئے مسئلہ کیسے باقی رہ سکتا ہے۔“ وہ چاپلو سی سے بولا۔ میں اس کے سامنے کاونٹر پر جھک گیا۔ ”ہم نے کوارٹرکب کرائے پر لیا تھا؟“”یہی کوئی گھنٹا بھر پہلے۔“ ”نہیں....“ میں نے سو کا نوٹ اس کی طرف بڑھایا۔ ”ہم نے پرسوں کو ارٹر کرائے پر لیا تھا اور ہمارے ساتھ کوئی عورت بھی نہیں تھی۔“”اوہ سوری....“ اس نے نوٹ جھپٹ کر جیب میں ڈالا۔ ”واقعی آپ لوگ تو پرسوں صبح آئے تھے، میں رجسٹر بھی ٹھیک کرلوں، یہ تو حقیقتاً بہت بڑی غلطی ہے۔“ اس نے میرے سامنے رجسٹر کھولا اور 15کو 13تاریخ سے بدل کر رجسٹر بند کر دیا۔”شکریہ“ میں اس سے ہاتھ ملا کر واپسی کے لیے مڑا۔
”ایکسکیو زی سر۔“ اس نے مجھے آواز دی۔”جی؟“ میں نے رک کر پوچھا۔”سر آپ نے دس دنوں کا ایڈوانس جمع کرایا تھا اور رجسٹر کے مطابق آپ کا عرصہ پرسوں سے شروع ہے۔ اس لیے اب آپ آٹھ دن مزید کو ارٹر استعمال کر سکتے ہیں۔ کیونکہ....“
”میں سمجھ گیا یار.... وضاحت کی ضرورت نہیں۔“ میں نے اس کی بات مکمل نہیں ہونے دی تھی۔”تھینک یو سر۔“ وہ مطمئن ہوگیا اور میں سر ہلاتے ہوئے ہوٹل کے بیرونی دروازے کے جانب چل دیا۔ یہ احتیاطی تدبیر ڈابیر والوں کو دیکھتے ہی میرے ذہن میں آئی تھی اور میں بغیر کسی تاخیر کے اس پر عمل کر گزرا تھا۔ میرا اندازہ تھا کہ جنگل خیل میں سرسری سا چکر لگاتے ہی انھوں نے ہوٹلوں وغیرہ کی چیکنگ شروع کر دینی تھی، اور بازار سے ضروری سامان کی خریداری کے بعد جب میں واپس آرہا تھا تو میں نے ان کی ایک گاڑی ہوٹل کے دروازے پر کھڑی دیکھی، میری بروقت احتیاط کا م آگئی تھی ، لیکن اس کے باوجود میرے دل میں بکنگ کرنے والے آدمی کے جانب ایک ہلکا ساخدشہ موجود تھا جس کا تدارک میرے بس سے باہر تھا۔
میری سہولت کی خاطر امجد نے دروازے کی اندر سے کنڈی نہیں لگائی تھی۔ سامان کچن میں رکھ کر میں اس کمرے کی طرف بڑھ گیا جہاں سے باتوں کی آواز آرہی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی وہ دونوں خاموش ہو گئے۔”چل بھئی ماجے!.... بہت دنوں سے تمھارے ہاتھ کا بنا ہوا لذیذ کھانا نہیں کھایا، ذرا اپنی قابلیت کے جوہر دکھاﺅ تاکہ سعدیہ کو پتا چلے کہ تُو بھی کوئی سلیقے کا کام کر سکتا ہے۔“”ملک صاحب پہلی بات تو یہ ہے کہ یہاں کھانا پکانے کا مشورہ آپ نے دیا تھا اس لیے یہ زحمت بھی آپ خود کرنا پڑے گی۔ دوسرے میں آپ کا منشی ہوں باورچی نہیں۔“
”بھائی نہیں ہے؟“ میں نے اسے جذباتی طور پر بلیک میل کرنا چاہا۔
” یہ بہنوں کا کام ہوتا ہے۔“ اس نے میرا حملہ پسپا کیا۔”یار سودا سلف بھی میں اتنی دور سے جا کر لے آیا ہوں اب کچھ غیرت تم بھی کر لو۔“
”اس معاملے میں مَیں سخت بے غیرت ہوں۔“ وہ کہاں ہار مانے والا تھا، لیکن اس سے پہلے کہ میں اسے کھانا پکانے پر راضی کرنے کے لیے مزید کوئی دلیل دیتا سعدیہ بولی۔
”اگر اجازت دوتو میں پکالوں؟۔“ گو یہ بات وہ پشتو میں بولی تھی۔ مگر امجد کو سمجھ آگئی اوراس نے جلدی سے لقمہ دیتا۔
”دیکھونا!.... میری بہن کی موجود ی میں تم مجھے مجبور کررہے تھے۔“
”مگر سعد یہ تم ہماری مہمان ہو۔“ میں نے امجد کی بات پر توجہ دیئے بغیر رسمی سا انکار مناسب سمجھا۔
”آپ کا کون سا اپنا گھر ہے۔“ وہ اٹھ کر کچن کی طرف بڑھ گئی اور میں خاموش ہو گیا۔”کچھ گھریلو سا ماحول نہیں بن گیا ملک صاحب۔“ امجد نے ہنستے ہوئے کہا۔
”چلو اس کے ہونے سے کچھ سہولت تو مل گئی۔“”ویسے اس کو کب تک اپنے ساتھ لیے پھریں گے؟“
”اب اسے کون سا ساتھ لیے پھرنا ہے؟ کوارٹر میں پڑی رہے گی۔غریب جب تک ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو جاتے اس کو یہیں رہنے دو یہاں سے واپسی پر اس کے بارے کوئی مناسب حل سوچیں گے۔“”چودھری کی تلاش سے متعلق کوئی لائحہ عمل سوچا ہے۔“
”جنگل خیل کا ماحول دیکھتے ہوئے یہ کام کافی دشوار گزار دکھائی دے رہا ہے۔“”میرا خیال ہے کھانا کھا کر نکلتے ہیں ، حرکت میں برکت ہے شاید اس کا کوئی سراغ مل جائے۔“
امجد کا مشورہ کافی معقول تھا میں نے کہا۔ ”کھانا کھا کر تھوڑا آرام کرتے ہیں رات کو نکلیں گے۔ یوں بھی میرے اندازے کے مطابق یہاں دن سے زیادہ رات کو رش ہونا چاہئے۔“
”ٹھیک ہے اسی طرح کر لیتے ہیں۔“ وہ مجھ سے متفق ہوگیا۔
”اور ہاں ایک اہم بات ۔“ مجھے اچانک ڈابیر والوں کو آمد یاد آئی اور میں امجد کو ان کی آمد اور اپنی احتیاطی تدبیر کے متعلق بتانے لگا۔”کیا چکر ہے آج کل تمھارا دماغ کچھ زیادہ ہی تیز نہیں ہو گیا۔ ”
میں نے مسکرانے پر اکتفا کیا۔ اس کے بعد کھانا آنے تک ہم چودھری کی تلاش کے لیے کوئی متفقہ لائحہ عمل سوچتے رہے سعدیہ نے کھانا بہت اچھا بنایا تھا بالکل گھر کی یاد تازہوگئی تھی کھانے کے بعد وہ چاے لے کر آگئی چاے پی کر میں نے کہا۔
”ہم دونوں اسی کمرے میں رہیں گے۔ تم اپنے لیے ساتھ والا کمرہ سیٹ کرلینا۔ باقی فی الحال ہم سو رہے ہیں۔ اٹھ کر تھوڑی دیر بعدگھومنے کے لیے نکلیں گے تم نے اپنے کمرے کی کنڈی بند رکھنی ہے۔ البتہ بیرونی دروازہ ہم باہر سے بند کرتے جائیں گے۔ اگر ہمیں دیر ہو جاتی ہے تو گھبرانا نہیں۔“
”رات کے لیے کیا پکا لوں؟“ میں چونکہ سبزی، گوشت اور دالیں وغیرہ اکٹھی لے آیا تھا اس لیے اس نے میرا مشورہ لینا ضروری سمجھا۔
”رات کے لیے ؟ ﷲ کی بندی اب کون سا دن ہے۔“ میں نے غروب ہوتے ہوئے سورج کی طرف اشارہ کرتے کیا۔وہ مسکرا دی تھی۔”پھر آپ لوگوں کو کس وقت جگا دوں؟“”ہمیں جگانے کی ضرورت نہیں۔ اپنے کمرے تک محدود رہو، جب تک کوئی کام نہ ہو ہمارے پاس آنے کی بالکل زحمت نہ کرنا۔“ آخری الفاظ کہتے ہوئے میرا لہجہ ہلکا ساخشک ہو گیا تھا۔ ”جی اچھا۔“ وہ دھیمے لہجے میں بولتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔” کیوں اتنے کڑوے لہجے میں بات کر رہے تھے؟“
” جوان لڑکی ہے ماجے صاحب ....! اور اس کے ساتھ بے آسرا بھی، ہمارا نرم لہجہ اس کے دل میں غلط فہمی کا بیج بھی بو سکتا ہے جو بعد میں ہمارے لیے لاینحل مسئلہ ثابت ہو گا اس لیے بہتر یہی ہے کہ ابھی سے اسے غیر ہونے کا احساس دلایا جائے تاکہ بعد میں ہمارے لیے پرابلم نہ بنے۔“”ٹھیک ہے بقراط صاحب۔ اب سو جاﺅ۔“ وہ لکڑی کی بنی ہوئی چارپائی پر ڈھیر ہوگیا
چارپائیوں کی بناوٹ ہو بہو ہمارے علاقے کی چارپائیوں جیسی تھی، لکڑی کا فریم جس کی بنائی کھجور کے پتوں سے بنے ہوئے بان سے کی گئی تھی۔ سونے سے پہلے مجھے واش روم جانے کی حاجت ہوئی اور میں کمرے سے باہر نکل آیا۔ سعدیہ کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا کچن میں برتنوں کی کھنکھناہٹ سنائی دے رہی تھی جس کا مطلب یہی تھا کہ وہ برتن دھونے میں مصروف ہے۔ واش روم سے باہر آنے پر بھی وہ مجھے کچن میں ہی مشغول دکھائی دی۔ میں آرام کا ارادہ کیے کمرے کے جانب بڑھا مگر آرام شاید ہماری قسمت میں نہیں تھا اور اس کا سبب دروازے پرہونے والی زور دار دستک تھی۔ میں انھی قدموں پر بیرونی دروازے کی طرف بڑھا سعدیہ بھی دستک کی آواز سن کر کچن سے نکل آئی تھی میں نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور دبے قدموں آگے بڑھ کر دروازے کی جھری سے آنکھ لگا دی میرے بدترین اندیشوں نے حقیقت کا روپ دھارلیا تھا۔ دروازے پر جانان خان کے آدمی کھڑے نظر آئے میں جلدی سے مڑ کر کمرے کے جانب بڑھا میری تیز ی دیکھتے ہوئے سعدیہ بھی پریشان ہو گئی تھی۔
”ماجے....! تیار ہو جاﺅ خطرہ ہے۔“ میں اپنی کلاشن کوف سنبھال لی ۔ امجد پر غنودگی طاری ہونے لگی تھی مگر وہ کمانڈو تھا جو امن کے دنوں میں بھی ایک آنکھ کھول کر سوتے ہیں اس وقت تو یوں بھی ہم خطرناک حالات سے دو چار تھے۔ میں جب تک دروازے سے نکلتا وہ میرے پیچھے پہنچ گیا تھا۔ اس وقت ایک مرتبہ پھر دروازہ زور سے دھڑ دھڑایا گیا۔”ایک منٹ بھائی کپڑے تو پہننے دو۔“ میں نے انھیں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گویا میں باتھ روم میں ہوں ۔”ماجے ....! میرا خیال ہے دائیں جانب کے کوارٹر کی دیوار پھلانگ کر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں پچھلی سائیڈ پر تو انھوں نے لازماً بندے بٹھائے ہوں گے۔“ اس نے اثبات میں سر ہلا کر اپنی رضا مندی کا عندیہ دے دیا۔ وہ تمام کوارٹر ایک سیدھی لائن میں تھے، کوارٹروں کے سامنے اور پشت پر تو ہر صورت خطرہ موجود تھا البتہ دوسرے کوارٹروں کا سہارا لے کر ہم وہاں سے نکلنے کی کوشش کر سکتے تھے۔ امجد کو ارٹر کی درمیانی دیوار پر چڑھا اور آہستگی سے دوسرے جانب اتر گیا۔ میں نے سہارا دے کر سعدیہ کو بھی دیوار پرچڑھایا اور اس کے پیچھے خود بھی اوپر چڑھ گیا۔ امجد اگلے کوارٹر کی دیوار کے قریب پہنچ گیا تھا۔ کوارٹر کے اندر چھائی خاموشی اس کے خالی ہونے کا اعلان کر رہی تھی۔ سعدیہ بغیر کسی سہارے کے دوسرے جانب اتر گئی۔ اگلے کوارٹر میں کمرے کے اندر باتوں کی آواز سنائی دی مگر ہم دبے قدموں تیسرے کوارٹر کی دیوار پا ر کر گئے۔ اس کوارٹر میں بھی بندے موجود ہونے کے باوجود ہمارا سا منا کسی سے نہ ہوا۔ البتہ چوتھے کوارٹر کے صحن میں کرسیاں ڈالے ایک مرد اور دو جوان سال عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ ہمیں دیکھتے ہی وہ گھبرا کرکھڑے ہو گئے تھے۔
کک ....کیا بات ہے۔“ مرد نے ہمت مجتمع کرتے ہوئے پوچھا۔
”گھبرائیں نہیں ہم دشمنوں سے بچنے کے لیے بھاگ رہے ہیں۔“ میں نے انھیں تسلی دی۔وہ کوارٹر اس لائن کا آخری کوارٹر تھا۔ اس کے بعد نسبتاً بڑے مکانوں کا سلسلہ شروع ہو رہا تھا، لیکن اس کو ارٹر اور پہلے مکان کے درمیان ایک پتلی سی گلی گزر رہی تھی۔ امجد نے دیوار سے اچک کر گلی میں جھانکا اور بولا ۔
”خالی پڑی ہے۔“” نکلوپھر ۔“ ہم تینوں دیوار سے گزر کر گلی میں آگئے۔ میں نے تھوڑا سا آگے بڑھ کر بڑی گلی میں جھانکا تو اپنے کوارٹر کے سامنے مجھے چند بندے کھڑے نظر آئے۔ وہ سارے ہمارے کواٹر کی طرف متوجہ تھے میرے دیکھتے ہی دیکھتے ان میں سے ایک بندہ کوارٹر کی سامنے والی دیوار سے اچک کر کوارٹر کے اندر داخل ہو گیا؟ ان کے صبر کا پیمانہ شاید لبریز ہو چکا تھا۔ چند سیکنڈ کے بعد ہی دیوار سے کودنے والے نے کوارٹر کا دروازہ اندر سے کھول دیا اور وہ تمام تیزی سے اندر داخل ہو گئے۔
”آجاﺅ۔“ میں ان سے بولا اور ہم نے دوڑ کر وہ چوڑی گلی عبور کرلی۔ وہ پتلی گلی کافی طویل تھی ہم تیز قدموں سے چلتے ہوئے وہاں سے نکلتے چلے گئے۔ سعدیہ کو ہمارا ساتھ دینے کے لیے تقریباً دوڑنا پڑ رہا تھا۔ وہ غریب ابھی تک ننگے پاﺅں تھی۔
”جانو صاحب !....اس کا مطلب ہے تمھاری احتیاط پسندی کام نہیں آسکی ہے۔“”ہاں یار.... اسی لیے تو اسے جنگل خیل کہتے ہیں۔ اور اب بکنگ والے کا صفایا کرنا پڑے گا کیونکہ وہ ہمیں شکل سے پہچانتا ہے۔“”وہ توخیر ہو ہی جائے گا، پہلے سرچھپانے کے لیے کوئی جگہ ڈھونڈو۔“”میرا تو خیال ہے کسی خالی کوارٹر یا مکان میں گھس کے رات گزارتے ہیں۔“
”بالکل ٹھیک ہے۔“ اس نے میری تائید کی اور ہم چلتے چلتے گھروں کے بیرونی دروازوں کو غور سے دیکھنے لگے، سورج غروب ہو چکا تھا مگر اب تک اتنی روشنی باقی تھی کہ ہم گلی کے وسط سے تالوں کو دیکھ سکتے تھے۔ ہماری محنت رنگ لائی اور جلد ہی ایک بڑے مکان کے باہر ہمیں تالا لٹکتا نظر آگیا۔”یہ کیسا رہے گا جانو؟“ امجد مستفسر ہوا۔
”اچھا ہے.... اندر گھس کر دروازہ کھولو۔“ مکان کی دیواریں کافی اونچی تھیں دائیں بائیں کا جائزہ لے کر امجد اچھلا اور دیوار کے اوپر اپنی انگلیاں پھنسا کر اوپر چڑھ گیا۔ دیوارپر اس نے زیادہ دیر نہیں گزاری تھی ایک سرسری نظر صحن میں دوڑا کر وہ نیچے کود گیا۔ منٹ ڈیرھ منٹ کے بعد اس نے چھوٹی کھڑکی کھول دی میں اور سعدیہ جلدی سے اندر گھس گئے۔”ایک دفعہ تسلی کرلیں یہ نہ ہو کوئی عارضی طور پر باہر گیا ہوا ہو اور لینے کے دینے پڑ جائیں۔“ میں نے کہا اور ہم دونوں نے کمروں کے تالے توڑ کر دیکھنے شروع کر دیئے، پہلے دو کمروں میں گرد کی ہلکی ہلکی تہہ دیکھنے کے بعد ہمیں یقین ہو گیا تھا کہ چند دنوں سے ان کی کمروں کو کسی نے بھی استعمال نہیں کیا تھا۔ باقی کمروں کے تالے توڑنے کی ضرورت محسوس نہ کرتے ہوئے ہم نے انھیں بندر رہنے دیا تھا۔
”آپ دونوں آرام کرو۔ میں ذرا بکنگ والے کی خبرلے لوں۔“
”دونوں چلے جاتے ہیں۔“ امجد نے مشورہ دیا۔”نہیں۔“میں نفی میں سر ہلایا۔ ”ایک بندے کا سعد یہ کے ساتھ رہنا ضروری ہے۔“”پھر آپ بھی آرام کریں.... اس سے بعد میں نبٹ لیں گے۔“”دماغ ٹھیک ہے ماجے صاحب....! اس موذی نے ہماری مبارک شکلیںبہت اچھی طرح سے دیکھی ہوئی ہیں۔ اس کا زندہ رہنا ہمارے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا“ ا س دفعہ اس نے خاموش رہتے ہوئے اپنی رضامندی ظاہر کر دی تھی۔ میں نے ایک پرانی چادر اٹھا کر پگڑی کے انداز میں سر پر لپیٹی اور اس کا ایک پلو منہ کے گرد لپیٹ کر اپنے چہرے کو کسی حد تک ڈھانپ دیا۔
میں نے سعدیہ سے پوچھا۔”تمھیں ہتھیار چلانا آتا ہے؟“ ”جی۔“ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔”یہ پستول اپنے پاس رکھو شاید تمھیں اس کی ضرورت پڑ جائے۔“ میں نے جیب سے پستول نکال کر اس کے جانب بڑھا دیا، ہم دونوں کے پاس یوں بھی کلاشن کوفیں موجود تھیں۔ تین کلاشن کوفیں ہم نے ڈابیر والوں سے اپنے قبضے میں کی تھیں۔ جس میں سے ایک میرے پاس موجود تھی جبکہ دو گنیں ہم گاڑی میں بھول آئے تھے۔ ان دونوں کو وہیں چھوڑ کر میں باہر نکل آیا۔ رات کا اندھیرا آہستہ آہستہ گہرا ہو رہا تھا۔ میں ہوٹل کی سمت چل پڑا لوگوں کی آمدورفت میں کوئی خاص کمی نہیں ہوئی تھی اور یہ چہل پہل اس بات کا اشارہ تھا کہ جنگل خیل کی راتیں بھی جاگتی ہیں۔ جلد ہی میں ہوٹل کے قریب پہنچ گیا ، لیکن اندر داخل ہونے کی بجائے میں ناک کی سیدھ میں نکلتاچلتا گیا البتہ ہوٹل کے گیٹ کے سامنے سے گزرتے ہوئے میں نے ایک نظر اندر دیکھ کر بکنگ والے کی موجودی کا یقین کر لیا تھا۔ کافی آگے جاکر میں پیچھے مڑا اور ٹہلنے کے انداز میں واپس آنے لگا۔ دروازے کے سامنے مزید ڈیڑھ گھنٹے تک میری مٹرگشت جاری رہی۔
جس وقت بکنگ والے نے اپنی جگہ چھوڑی اس وقت رات کا اندھیرا خوب گہرا ہو چکا تھا، مگر ہوٹل کے اندر روشنی کا خاطر خواہ بندوبست کیا گیا تھا جو جنریٹر کی مرہون منت تھاکیونکہ ادھر سرکاری بجلی کا کوئی بندوبست نہیں تھا، اور ہوتا بھی کیسے جب یہ علاقہ کسی بھی حکومت کے زیر اثر نہیں تھا۔
اس کے باہر آتے ہی میں نے غیر محسوس انداز میں اس کا تعاقب شروع کر دیا۔ گلیوں کے اندر اکا دکا آدمیوں کی موجودی جہاں میرے کام میں مانع ثابت ہوئی وہیں اسے بھی میرے تعاقب کی سرگرمی سے بے خبر رکھا۔ دو تین گلیاں مڑنے کے بعد آخر وہ ایک چھوٹے سے مکان کے سامنے رک کر اس کا تالا کھولنے لگا اور یہ دیکھ کر میں نے اطمنان کا گہرا سانس لیا گویا وہ اس کا مکان میں اکیلا تھا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا ، گلی سنسان نظر آئی البتہ مجھے، آگے دو بندے جاتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے جب تک وہ کواڑ کھول کر اندر داخل ہوتا میں اس کے سرپر پہنچ گیا تھا۔ اس نے گھر میں داخل ہو کر دروازہ بند کرنے کی کوشش کی اور اس کی یہ کوشش ناکام بناتے ہوئے میں دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہو گیا۔
”کک کیا بات ہے کون ہوتم۔“
”خاکسار کو عبداﷲ ولد عبدالرحمن کہتے ہیں۔“
”آ.... آ.... عبدﷲ بھائی آپ“ ۔ وہ ہکلایا۔”جی میں....تم نے کہا تھا ناںکہ اگر تمھارے لائق کوئی خدمت ہو تو میں بے جھجک بتا سکتا ہوں۔“
”ک، کک ۔ کیوں نہیں۔“ وہ تھوک نگلتے ہوئے بولا۔ ”مگر اس کے لیے آپ کو ہوٹل میں تشریف لانا چاہیے تھا۔“
”نہیں اس خدمت کے لیے یہی جگہ مناسب رہے گی۔“ میں سرد لہجے بولا۔ ”تم آگے بڑھ کر کمرے کا دروازہ کھولو۔“”آ.... آپ مجھے کسی غلط فہمی کا شکار لگ رہے ہیں۔“ وہ اپنے دل کے اندیشے زبان پر لے آیا۔
”شاید.... مگر آپ کوشش کر کے میری غلط فہمی دور کر سکتے ہیں۔“
”بب ....بالکل سر.... کیوں نہیں۔“
”تو چلو پھر دروازہ کھولو تاکہ غلط فہمی دور کی جائے۔“ میں اسے کلاشن کوف سے آگے دھکیلا۔
اور وہ مرے مرے قدموں سے اندر کی طرف چل پڑا۔ بیرونی دروازے کو اندر سے کنڈی لگا کر میں نے جیب سے پنسل ٹارچ نکالی اور جلا کر اس کے پیچھے چل پڑا۔ اس کی حرکت وسکنات پر میں نے گہری نظر رکھی ہوئی تھی۔ اس کی طرف سے ذراسی بے قاعدگی پر میں اسے آڑے ہاتھوں لینے کے لیے تیار تھا اور اسی مقصد کے لیے میں نے ٹارچ جلائی تھی تاکہ وہ اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر کوئی غلط حرکت نہ کر گزرے مگر ابھی تک وہ میرے خطرناک عزائم سے بے خبر تھا اس لیے اس نے کسی بھی قسم کی الٹی سیدھی حرکت سے گریز کیا تھا یا شاید وہ میرے ہاتھ میں موجودگن سے ڈراہوا تھا۔ اس نے اندرونی کمرے کا دروازہ کھولا اور ہم اکٹھے کمرے میں داخل ہو گئے چارپائی کے ساتھ پڑی لکڑی کی تپائی پر ایک چھوٹا سا گیس سلنڈر رکھا ہوتھا۔ اس نے تیلی جلا کر منٹل کو آگ لگائی اور کمرے میں تیز روشنی پھیل گئی۔
”بیٹھی عبدﷲ صاحب۔“ وہ گیس سلنڈر جلا کر بولا۔”بیٹھنے کو چھوڑو.... مجھے صرف اتنا بتا دو کہ میرے متعلق جانا ن خان کے آدمیوں کو معلومات پہنچانے کے عوض کتنی رقم وصول کی ہے؟“”کک کون جانان خان.... اور کیسی رقم آ.... آپ نے کیسی باتیںشروع کر دی ہیں؟“
”جانان خان فرام ڈابیر مسٹر وعدہ خلاف.... اگر تمھیں زیادہ رقم چاہیے تھی تو مجھے بتلاتے میں کوئی غریب تو نہیں تھا۔ تمھیں منہ مانگی رقم ادا کر سکتا تھا۔ بہ ہر حال اب تمھاری سزا یہی ہے کہ میری دی ہوئی تمام رقم بہ شمول ایڈوانس کرائے کے اور جانان خان سے حاصل کی ہوئی رقم میرے حوالے کر دو۔“
میری بات ختم ہوتے ہی اس کے چہرے پر چمک سی لہرائی تھی اور یہ چمک اتنی آسانی سے جان چھوٹنے کی تھی اس نے بغیر کوئی بحث کئے جلدی سے جیب میں ہاتھ ڈالا اور سوسو کے نوٹوں کی ایک چھوٹی سی گڈی میرے جانب بڑھا دی۔
”یہ اکتیس سو روپے ہیں۔“
”اس کا مطلب ہے انھوں نے تمھیں دو ہزار کی ہڈی ڈالی تھی۔“ میں زہر خند لہجے میں بولا اور اس نے مجرمانہ خاموشی سے سر جھکا لیا۔
”تمھارا نام؟“”شاکر خان۔“ وہ آہستہ سے بولا۔”شاکر خان.... تم نے انھیں میرا اور میرے ساتھی کا حلیہ بتایا تھا؟“”نن نہیں۔“ اس نے نفی میں سر ہلایا۔
”سچ بتاﺅ؟“”صحیح کہہ رہا ہوں۔“ وہ جلدی سے بولا۔ ”انھوں نے مجھ سے اس وقت سے دو تین گھنٹوں کے دوران آنے والے بندوں کے متعلق معلومات پوچھیں تھیںاور میں نے فقط یہ بتایا تھا کہ دو مرد کلاشن کوفوں سے مسلح تھے اور ان کے ساتھ ایک عورت تھی۔“
”چلو مان لیتا ہوں.... لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں تمھیں زندہ نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ اب اگر وہ جلدی میں میرے حلیے کے متعلق نہیں پوچھ سکے ہیں تو دوبارہ آ کر شاید انھیں یہ استفسار نہ بھولے۔“
”م.... مم میں اب انھیں کچھ بھی نہیں بتاﺅں گا۔“ میرے لہجے میں پائی جانے والی سنجیدگی نے اسے لرزا دیا تھا۔”اگر تُو آرام سے نہیں بتانا چاہے گا تو پوچھنے کے اور بھی کئی طریقے ان کے پاس موجود ہوں گے۔“
”م....مم میں ق....ق....قیں۔“ الفاظ اس کے منہ میں ادھورے رہ گئے تھے ۔ میں نے بجلی کی سی سرعت سے اس کی گردن کو بائیں بازو کی گرفت میں لیا اور مخصوص جھٹکے کے ساتھ اسے دنیا کے غموں سے نجات دلا دی۔اسے مار کر پھینکنے کے بعد میں نے تمام کمرے کی تفصیلی تلاشی لی مجھے امید تھی کہ اپنی ساری رقم اس نے گھر میں ہی کہیں چھپا کر رکھی ہو گی کہ جنگل خیل میں بینک نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ مگر اس کی خواب گاہ باقی دوکمرے اور کچن جو کہ استعمال نہیں ہوتا تھا ان سب کو اچھی طرح کھنگالنے کے بعد بھی مجھے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ گھر سے نکلنے سے پہلے میں نے ایک گہری نگاہ اس کی خواب گاہ میں دوڑائی مگر ایسی کوئی چیز مجھے نظر نہ آئی۔ جسے میں نے چیک نہ کیا ہو یہاں تک کہ چارپائیوں تک کے نیچے میں نے اچھی طرح تلاشی لے لی تھی۔ صرف اس کے سرہانے لگی ہوئی تصویر جو تجریدی آرٹ کا نمونہ تھی مجھ سے رہ گئی تھی۔ میں نے آگے بڑھ کر اسے ہلایا تو وہ سختی کے ساتھ دیوار میں گڑی نظر آئی۔ میں نے پنڈلی کے ساتھ بندھا ہوا خنجر نکال کر کینوس اور اس کے نیچے موجود گتے کو چوکور شکل میں کاٹ دیا۔ اس ٹکڑے کے ہٹتے ہی تصویرکے پیچھے دیوار میں نصب چھوٹا سا سیف ظاہر ہو گیا۔ شاکر خان نے بلاشبہ بڑے سلیقے سے اسے چھپا یا تھا۔
میرے پاس سیف کے تالے کے ساتھ متھا مارنے کا وقت نہیں تھا اس کے ساتھ زور آزمائی کرنا وقت کا ضیاع تھا۔ میں نے کلاشن کوف کو سنگل راﺅنڈ فائر پر سیٹ کرتے ہوئے اس کی بیرل کو تالے کے سوراخ سے لگایا اور مسلسل دو دفعہ ٹریگر پریس کیا۔ زور دار دھماکے کے ساتھ سیف کا تالا ٹوٹ گیا تھا۔ میں نے دروازہ کھولا، وہ چھوٹا سا سیف رقم سے بھرا نظر آیا۔ اس کے ایک خانے میں سونے کی چنداینٹیں اور کوئی دستاویزات پڑی تھیں۔ دستاویزات کو چھیڑے بغیر میں نے جلدی جلدی رقم اور سونے کی اینٹوں کو سمیٹا اور انھیں ایک کپڑے میں گھڑی کی طرح باندھ کر وہاں سے چل پڑا۔ گو یہاں پر فائر روزمرہ کا معمول تھے لیکن پھر بھی احتیاط لازمی تھی کوئی بھی پڑوسی اس فائرکی حقیقت جاننے کے لیے شاکر خان کے گھر جھانک کر دیکھ سکتا تھا اور اس کی وجہ سے خواہ مخواہ مجھے ایک اور جان لینا پڑتی۔ ڈابیر والوں سے اپنا آپ چھپانے کے لیے مجھے بڑی تگ و دو کرنا پڑ رہی تھی کیونکہ ہماری شناخت ظاہر ہو جانے کی صورت میں ایک لمبی دشمنی کا سلسلہ شروع ہو جانا تھا اور پورے گاﺅں یا کم از کم ڈابیر کے مخصوص گروپ سے لڑائی مول لینا ہم دو بندوں کے لیے ناممکن ہو جاتا۔ یوں بھی ہتھیار کازمانہ تھا اور ٹریگر دبا کر ایک بچہ بھی چھے فٹ کے جوان کو زندگی کی قید سے نجات دلا سکتا تھا۔
شاکر خان کے گھر سے نکل کر میں اسی مکان کے جانب روانہ ہو گیا جہاں امجد اور سعدیہ چھپے ہوئے تھے، واپسی کے لیے میں چاہنے کے باوجودرستا تبدیل نہ سکا کہ دوسرے راستے سے میں شاید اس مکان تک نہ پہنچ سکتا۔ اس بار بھی میں بغیر کسی حادثہ کے اپنی کمین گاہ میں پہنچ گیا۔امجد بیرونی دروازے پر ہلکا سا کھٹکا سن کر باہر آگیا تھا۔ وہ کسی بھی ناگہانی صورتِ حال کے لیے تیار تھا۔
”کون؟“
”عمر۔“ میں مختصراً بولا۔
”کیا رہا۔“”کامیابی ۔“”گڈ۔“
”سعدیہ کدھر ہے؟“ میں نے کمرے میں داخل ہو کر ٹارچ روشن کرتے ہوئے پوچھا۔”ساتھ والے کمرے میں ہے۔“ امجد نے موم بتی روشن کرتے ہوئے کہا۔ اس سے پہلے بھی اس نے موم بتی جلائی ہوئی تھی مگر دروازے پر ہونے والی آہٹ اس کے بجھانے کا باعث بنی تھی۔
”یہ کیا ہے؟“ موم بتی کی روشنی میں اس کی نظر رقم کی گٹھڑی پہ پڑی۔”کھول کر دیکھ لو۔“ میں نے پوٹلی اس کے جانب بڑھائی۔
”بھئی واہ.... کہیں ڈاکا ڈالاہے شاید؟“
”یہ شاکر خان کا وہ خزانہ ہے جو اس نے پتا نہیں کون کون سے ناجائز طریقوں کے ذریعے اکٹھا کیا ہو گا؟“
”شاکرخان؟“” اسی بکنگ والے کا نام ہے۔ ویسے تو اس کی حرام کی کمائی سے مجھے بالکل غرض نہیں تھی مگر حالات کو دیکھ کر مجھے یہ گھٹیا کام کرنا پڑا۔“”اچھا کیا ہے۔“ امجد پانچ سو کے نوٹوں کی گڈی اپنی جیب میں ٹھونستے ہوئے بولا۔جو یقینا پچاس ہزار کے بہ قدر رقم ہو گی اس سے زیادہ رقم ابھی تک گٹھڑی میں پڑی تھی۔”یہ بھی رکھو۔“ میں نے سوسو کے نوٹوں کی گڈی اس کی طرف بڑھائی اور بقایا رقم سمیٹ کر اپنی جیبوں میں بھر لی۔ سونے کی اینٹیں ہم نے کپڑے میں لپٹی رہنے دیں تھیں۔
”یار جیبیں کچھ وزنی نہیں ہو گئیں۔“”اس کا انتظام کل کرلیں گے۔ ایک دکان میں مجھے کمر سے باندھنے والے بیلٹ نظر آئے تھے بڑی رقم کو آسانی سے اپنے ساتھ گھمانے کا اس سے اچھا بندوبست اور کوئی نہیں ہو سکتا۔“”اب کیا ارادہ ہے۔“
”موم بتی بجھاﺅ تھوڑا آرام کرتے ہیں۔“ میں بستر پر لیٹ گیا۔ ”مجھے امید ہے کہ یہ مکان فی الحال محفوظ رہے گا۔“”صحیح کہا۔“ امجدنے پھونک مار کرموم بتی بجھا دی اورہم دونوں سونے کے لیے لیٹ گئے۔
جاری ہے
No comments: