Ads Top

Aur Neel Behta Raha By Annyat Ullah Altamish Episode No. 72 ||اور_نیل_بہتا_رہا از عنایت اللہ التمش قسط نمبر 72


Aur Neel Behta Raha
 By
Annyat Ullah Altamish

اور نیل بہتا رہا
از
عنایت اللہ التمش

 Aur Neel Behta Raha  By  Annyat Ullah Altamish  اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش

 #اورنیل_بہتارہا/عنایت اللہ التمش
#Second_Last_eEpisode_72

صبح طلوع ہوئی ہی تھی کہ روبیکا جادوگرنی کے پاس جا پہنچی، یہ روبیکا ہی تھی جس نے جادوگرنی کو مرتینا سے متعارف کروایا اور اسے یقین دلایا تھا کہ جادوگرنی کا جادو معجزہ کر کے دکھا سکتا ہے، روبیکا دوڑی دوڑی جادوگرنی کے پاس پہنچی اور روتے اسے کہا کہ اسے جو بچہ اس کے جادو کے اثر سے ملا تھا وہ لاپتہ ہو گیا ہے، جادوگرنی شیشے کا گولا سامنے رکھ کر الٹی سیدھی حرکتیں کیں اور گولے میں جھانکا پھر بولی کچھ دن انتظار کرنا پڑے گا ،بچہ زندہ ہے۔
جادوگرنی نے صرف یہ سچ بولا تھا کہ بچہ زندہ ہے ،بچہ کہیں دور نہیں تھا جادوگرنی کے ساتھ والے کمرے میں سویا ہوا تھا۔ جادوگرنی نے اس بچے پر اپنا عمل شروع کردیا تھا اور ایک دو دنوں بعد اس نے بچے کا دل نکالنا اور دل پر کچھ عمل کر کے اپنی ناگن کو کھلا دینا تھا ۔جادوگرنی نے روبیکا کو ایسی تسلیاں دیں کہ وہ مطمئن ہو کر چلی گئی۔
دو تین دنوں بعد آدھی رات کے وقت بچہ گہری نیند سویا ہوا تھا جادوگرنی نے اسے ہاتھوں پر اٹھایا اور لکڑی کی ایک میز پر لٹا دیا بچے کو تو ابھی دنیا کی کوئی ہوش ہی نہیں تھی اس کی عمر ابھی ایک مہینے بھی نہیں ہوئی تھی وہ تو ایک کلی تھی جس کی ابھی ایک پتی بھی نہیں کھلی تھی۔
جادوگرنی نے اپنا وہ ڈنڈا اٹھایا جس پر رنگ برنگے کپڑے لپٹے ہوئے تھے اور اس کے ایک سرے پر پرندوں کے رنگارنگ پر اڑسے ہوئے تھے ،اور دوسرے سرے پر ایک چھوٹی سی ایک گھنٹی بندھی تھی ،جادوگرنی یہ ڈنڈا بچے کے جسم سے ذرا اوپر کرکے ہوا میں آہستہ آہستہ پھرتی رہی اور پھر جادوگرنی کا جسم تھرتھرانے لگا تھا جیسے اس کا جسم اس کے دماغ کے قابو سے نکل گیا ہو کچھ دیر وہ ایسی ہی حرکتیں کرتی رہی اور پھر قریب پڑی ہوئی ایک نوکدار چھری اٹھائی۔
رات آدھی گزر گئی تھی جادوگرنی نے جیتے جاگتے بچے کے سینے میں اس جگہ چھوری اتار دیں جہاں دل ہوتا ہے,,,,,,,,,,,, مرتینا کی ایک اور منہ چڑی ملازمہ تھی جس کے دو جڑواں بچے تھے، ان کی عمر ایک سال ہو گئی تھی یہی دو بچے اس کی کل اولاد تھیں، جس رات روبیکا کا بچہ غائب ہوا تھا اس کے اگلے دن اس ملازمہ کا ایک بچہ بیمار ہو گیا ،مرتینا نے اسے شاہی طبیب کے پاس بھیجا تھا لیکن اس طبیب کی کسی دوائی نے بھی اثر نہ کیا، کچھ دن بعد جادوگرنی نے آدھی رات کے وقت نوزائیدہ بچے کے سینے میں چھری اتاری تو بچہ گہری نیند سویا ہوا تھا اس کے منہ سے تو سی بھی نہ نکلی، لیکن جس ملازمہ کا ایک سال کا بچہ بیمار تھا چیخ اس ماں کی نکل گئی ،وہ اس لیے کہ اس نے آدھی رات کے وقت بچے کو دیکھا تو بچہ مرا پڑا تھا وہ اتنی زیادہ روئی اور چینخی کے اس کے قریب رہنے والے شاہی محل کے ملازموں کے گھر میں سب جاگ اٹھے اور دوڑے پہنچے، شاہی طبیب اس بچے کی بیماری کو نہایت معمولی بیماری کہتا رہا تھا لیکن بچہ بچ نہ سکا اور مرگیا، جادوگرنی نے نوزائیدہ بچے کے سینے سے ننا سا کلی جیسا دل نکال لیا اور الگ رکھ دیا پھر اس نے باہر جا کر کدال اٹھائیں اور صحن میں گڑھا کھود کر بچے کی لاش اس میں رکھی اور اوپر مٹی ڈال دی، کچھ دیر مٹی کے ڈھیر پر کھڑی ہو کر اسے دباتی رہی اور صحن کو ہموار کر دیا پھر اپنے خاص کمرے میں جاکر اسی وقت ننھے کا دل سامنے رکھ کر اپنا عمل شروع کردیا، اسے مرتینا نے خزانہ پیش کیا تھا جس کے لیے وہ بڑی ہی محنت کر رہی تھی۔
اگلی صبح روبیکا پھر جادوگرنی کے ہاں گئی اس وقت جادوگرنی صحن میں ہی کوئی کام کر رہی تھی روبیکا نے کھڑے کھڑے جادوگرنی کو بتایا کہ بچہ ابھی تک نہیں ملا، پھر پوچھا کہ اس کے ملنے کی توقع بھی ہے یا نہیں، جادوگرنی نے اسے غصے سے کہا کہ وہ کہہ چکی ہے کہ بچہ جلدی مل جائے گا ،پھر وہ کیوں پریشان ہوئی جا رہی ہے,,,,,,,, روبیکا کو کون بتاتا کہ وہ اپنے بچے کی قبر پر کھڑی ہے اور بچہ اس کے پاؤں کے نیچے ہے ۔جادوگرنی کی یقین دہانی سے وہ کچھ مطمئن ہوگئی اور چلی گئی۔
ایک آدھ دن ہی اور گزرا ہو گا کہ جڑواں بچوں کی ماں کا دوسرا بچہ بھی بیمار ہو گیا اس کی بیماری کی علامت بھی پہلے بچے جیسی تھی جو مر گیا تھا ،ماں بے تاب اور بے حال ہو گئی وہ مرتینا کے پاس دوڑی گئی اور کہا کہ اس کے دوسرے بچے کو بھی وہی تکلیف ہو گئی ہے ،مرتینا نے اسے کہا کہ وہ بچے کو شاہی طبیب کے پاس لے جائے، ماں بچے کو سینے سے لگائے شاہی طبیب کے پاس جا پہنچی اور روتے ہوئے اس کی منت سماجت کرنے لگی کہ پہلا بچہ تو نہیں بچ سکا، اسے طبیب بچالے ۔ طبیب نے کہا کہ اب وہ کوئی اور دوائی آزمائے گا جو پہلے بچے کو نہیں دے سکا تھا، اس نے دوائی دے دیں اور کچھ پرہیز بتا کر ماں کو رخصت کر دیا۔
بچے کی حالت بگڑتی چلی گئی یوں معلوم ہوتا تھا جیسے دوائیاں الٹا اثر کر رہی ہوں، ماں مرتینا سے اور طبیب سے اپنے بچے کی زندگی کی بھیک مانگتی پھر رہی تھی، وہ جادوگرنی کے پاس بھی گئی جادوگرنی نے ایسے ویسے ہی تسلیاں دیں جیسی وہ روبیکا کو دے رہی تھی کہ اس کا بچہ مل جائے گا۔ جادوگرنی کو یہ تو معلوم ہوگا ہی کہ اس کا جادو کسی کی موت کو نہیں ٹال سکتا ،اور زندگی اور موت اس عظیم طاقت کے ہاتھ میں ہے جو بندوں کو آسمان سے زمین پر اتارتی اور جب چاہتی اٹھا لیتی ہے۔
 جادوگرنی ہر رات روبیکا کے بچے کے سینے سے نکالے ہوئے دل پر اپنا کچھ عمل کرتی تھی اور پھر اسے ایک انسانی کھوپڑی کے اندر رکھ دیتی تھی ،آخر ایک رات کا عمل پورا ہو گیا اس نے پنجرے سے اپنی ناگن نکالی اور اس کی گردن کو اس طرح دبایا کہ ناگن کا منہ کھل گیا ،جادوگرنی نے ننھا منا دل ناگن کے منہ میں رکھ کر انگلیوں سے دبایا اور ناگن کے حلق سے آگے کر دیا اس کے بعد ناگن خود ہی اس دل کو پیٹ کی طرف نگلنے لگی ،جادوگرنی ناگن کو پھر پنجرے میں بند کر دیا۔
جب ناگن کے جسم کے اندر دل اس کے پیٹ کی طرف جا رہا تھا ملازمہ کے بیمار بچے کی حالت بگڑ گئی بچہ گہری نیند سے جاگ اٹھا اور تکلیف سے رونے اور چیخنے لگا، وہ تو تڑپ رہا تھا ماں بھی رونے لگی لیکن اچانک یوں چپ ہو گئی جیسے اسے غائب کی کوئی آواز سنائی دی ہو اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر آسمان کی طرف دیکھا جیسے خدا سے بچے کی زندگی مانگ رہی ہو، لیکن اسے کوئی اور ہی خیال آ گیا تھا وہ دوڑ تی باہر نکلی اور روبیکا کے کمرے کے دروازے پر جا دستک دی ،رات کی اس دستک پر روبیکا جاگ اٹھی اور دروازہ کھولنے کو دوڑی، دروازہ کھولا تو باہر ملازمہ کو کھڑے دیکھا اس نے بے تابی سے پوچھا میرا بچہ مل گیا؟،،،، نہیں روبیکا!،،،،، ملازمہ نے کہا ۔۔۔اندر چلو میں بتاتی ہوں تمہارا بچہ کہاں ہے۔
روبیکا اسے بازو سے پکڑے بڑی تیز تیز چلتی اندر گئی اور کہا جلدی بتاؤ ،،،،جلدی بتاؤ۔ تمہارا بچہ مرتینا کے حکم سے میں نے اٹھایا تھا۔۔۔ ملازمہ نے آنسو بہاتے ہوئے کہا ۔۔۔اس وقت تمہیں مرتینا نے اپنے ہاں بلوایا تھا اس نے اسی لیے رات کے اس وقت تمہیں بلوایا تھا کہ میں تمہارا بچہ اٹھا سکوں، میں نے بچہ اٹھایا اور اپنے گھر چھپا لیا تھا، تم جب واپس آئی اور بچے کو غائب پایا تو پھر مرتینا کے پاس چلی گئی۔ مجھے معاف کردینا روبیکا بہن۔ میں اگر مرتینا کا حکم نہ مانتی تو مجھے بھی اور میرے میرے بچوں کو بھی قتل کروا دیتی، لیکن خدا نے مجھے اس گناہ کی سزا دے دی ہے، میرا ایک بچہ مر گیا ہے اور دوسرا مر رہا ہے، میں اسی لیے تمھارے پاس آئی ہوں کے یہ راز تم پر کھول دو اور تم سے یہ درخواست کرو کہ میرا یہ گناہ معاف کردو ہوسکتا ہے تمہاری بخشش سے میرا دوسرا بچہ زندہ رہ جائے۔
اس ملازمہ کو معلوم نہیں تھا کہ مرتینا نے یہ بچہ کس کو دیا تھا ،جادوگرنی کا تو ملازمہ کے ذہن میں ذرا سا بھی خیال اور شک نہیں تھا، اس نے یقین کی حد تک محسوس کر لیا تھا کہ اس کا ایک بچہ اسی گناہ کی سزا کے طور پر مر گیا ہے، اور دوسرا بھی اسی گناہ کی پاداش میں خدا اس سے واپس لے رہا ہے۔ اسے یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ جس وقت جادوگرنی نے روبیکا کے بچے کے سینے میں چھری اتاری تھی عین اسی وقت اس کا پہلا بچہ مر گیا تھا اور دوسرا بچہ اس وقت بیمار پڑا تھا جب اس نوزائیدہ بچے کا دل ناگن کے پیٹ میں پہنچا تھا۔
روبیکا تو غصے سے کانپنے لگی اسے شاید اس ملازمہ کی مجبوری کا خیال آگیا تھا اس لیے اس نے ملازمہ سے کچھ بھی نہ کہا البتہ غصے کی شدت سے مغلوب ہو کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور کہنے لگی کہ وہ ابھی مرتینا کے پاس جاتی ہے۔ ملازمہ نے اسے پکڑ کر پلنگ پر بٹھا دیا اور کہا کہ رات کے اس وقت وہ مرتینا کو نہ جگائے ورنہ وہ اسے بچہ کیا دے گی ،اسے قتل ہی کروا دی گی۔
جادوگرنی مرتینا کو بتا گئی تھی کہ اس کا عمل پورا ہو گیا ہے، اور زیادہ سے زیادہ دس دنوں بعد اس کی مراد پوری ہو جائے گی، عرب کے مسلمان شکست کھاکر مصر سے نکل بھاگے، اور بزنطیہ کے تخت پر اس کا بیٹا ہرقلیوناس بیٹھا ہوا ہوگا ،اور بادشاہی کا تاج اس کے سر پر ہوگا۔
ملازمہ جب اپنے گھر پہنچی تو اسکا دوسرا بچہ بھی مر گیا تھا اس کا خاوند بچے کی چارپائی کے قریب کھڑا ہچکیاں لے رہا تھا۔ ملازمہ اپنے مرے ہوئے بچے کے اوپر گری اور لاش کا منہ چوم چوم کر پاگل ہونے لگی، اور روتی اور یہی بین کر رہی تھی کہ مجھے اپنے گناہ کی سزا ملی ہے۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
روبیکا باقی رات سو نہ سکی وہ کروٹیں بدلتی اور تڑپتی رہی، کبھی اسے خیال آتا کہ مرتینا اس پر رحم کر کے اس کا بچہ واپس دے دے گی، لیکن زیادہ تر اسے دو بڑے ہی بھیانک خیال آ رہے تھے، اسے جادوگرنی کا خیال بھی آیا کہ مرتینا نے اس کا بچہ کسی عمل کے لیے جادوگرنی کو بھی نہ دے دیا ہو، صرف روبیکا کو معلوم تھا کہ مرتینا جادو گرنی سے کوئی عمل کروا رہی ہے ،روبیکا ہی اس جادو گرنی کو مرتینا کے پاس لے گئی تھی۔
صبح ابھی دھندلی تھیں جب روبیکا شاہی محل میں مرتینا کے کمرے میں جاپہنچی، مرتینا آخر ملکہ تھی گو نام ہی کی ملکہ تھی لیکن اس کی حیثیت ملکہ جیسی ہی تھی وہ سوئی ہوئی تھی، روبیکا کی ممتا اس قدر بھڑکی ہوئی تھی کہ اس نے نتائج سے بے خبر مرتینا کو جگایا مرتینا کی آنکھ کھلی تو وہ روبیکا پر برس پڑی، اس نے کہا کہ روبیکا کو اتنی جلدی آ کر اسے جگانے کی جرات کیسے ہوئی۔ روبیکا اس کی رازدان تھی لیکن روبیکا آخر ملازمہ تھی ۔
میرا بچہ مجھے لوٹا دو۔۔۔۔ روبیکا نے روتے ہوئے کہا۔
مرتینا غصے کی حالت میں اٹھ بیٹھی اور پوچھا کہ وہ کیا بک بک کر رہی ہے؟،،،،،،،، روبیکا نے پھر التجا کے لہجے میں کہا کہ مرتینا اسے اس کا بچہ لوٹا دے۔ ایسی توقع تو رکھی ہی نہیں جاسکتی تھی کہ بچے کے متعلق کچھ بتاتا تو دور کی بات ہے وہ یہ تو تسلیم ہی نہیں کر سکتی تھی کہ اس کا بچہ اس نے اٹھوایا ہے اور جادوگرنی کو دے دیا تھا، اور اس کا بچہ مارا جاچکا ہے، مرتینا روبیکا کو خوب ڈانٹ پلائی اور کہا کہ پھر اس نے اس پر یہ الزام لگایا تو اسے اس کی بڑی ہی بھیانک سزا ملے گی ۔
روبیکا نے ملازمہ کا نام لے کر کہا کہ اس نے اسے بتایا ہے کہ بچہ مرتینا کے حکم سے اس نے اٹھایا اور مرتینا کے حوالے کیا تھا۔
مرتینا اٹھ کھڑی ہوئی اور کہا کہ وہ ابھی اس ملازمہ کو بلا کر ایسی سزا دی گئی کہ دیکھنے والے کانپ اٹھیں گے ،روبیکا نے اسے روک لیا اور کہا کہ اس بیچاری کا دوسرا بچہ بھی رات مرگیا ہے۔
مرتینا نے جب روبیکا کی جذباتی حالت دیکھی اور پھر یہ پتہ چلا کہ ملازمہ نے راز فاش کر دیا ہے تو اس نے اپنا رویہ فوراً بدل کر نرم کر لیا، اس کی حیثیت ایسی تھی کہ وہ ملازمہ کو بلوا کر اسے جھوٹا کہہ دیتی اور اسے ملازمت سے نکال دیتی لیکن اس کا ضمیر مجرم تھا اس لیے اس نے روبیکا کو بہلانے پھسلانے والا طریقہ سوچ لیا۔
بیٹھو روبیکا !،،،،،،،مرتینا نے بڑے پیار سے کہا ۔۔۔۔دعا کرو میرا بیٹا زندہ رہے، تمہیں ایک اور بچہ مل جائے گا لیکن مجھے نہیں ملے گا، ذرا ٹھنڈے دل سے میری بات سن لو دیکھو میں نے تمہارے ساتھ کتنا پیار کیا ہے اور تمہیں ملازمہ نہیں رازدان دوست سمجھتی ہوں، کیا تم میرے لئے اتنی سی قربانی نہیں دے سکتیں؟ مرتینا نے روبیکا کو صاف صاف بتا دیا کہ اس کا بچہ اسی نے اٹھایا تھا اور اس کا مقصد کیا تھا اور یہ بھی بتایا کہ جادوگرنی بچے کو مار چکی ہے اور اس کا عمل پورا ہو چکا ہے، دس دنوں تک میرا بیٹا شاہ روم بن جائے گا، مرتینا نے کہا۔۔۔ ادھر وہ تخت پر بیٹھے گا ادھر میں اس کے ساتھ تمہاری شادی کرا دونگی اور تم سلطنت روم کی ملکہ کہلاؤ گی۔
روبیکا کی ذات میں ممتا یوں پھٹی جا رہی تھی جس طرح آتش فشاں کا دہانہ پھٹتا ہے، وہ شاہی محل کے ان بادشاہوں کو اچھی طرح جانتی تھی، اسے یہ بھی معلوم ہو گا کہ ہرقل اور اس کے بیٹے قسطنطین کو مرتینا نے ہی مروایا تھا ،اس نے غالباً یہ بھی سوچا ہوگا کہ ملکہ تو مرتینا خود بننے کو بے تاب ہے ایک ملازمہ کو کون ملکہ بناتا ہے، اگر اس کی شادی ہرقلیوناس کے ساتھ ہو بھی گئی تو یہ چند دنوں کا کھیل ہو گا اور پھر اسے حرم میں پھینک دیا جائے گا ،لیکن روبیکا کے دل و دماغ پر اور جذبات پر صرف بچہ غالب تھا۔ وہ ایک بچے کے لیے ہمیشہ تڑپتی ترستی رہتی تھی بچہ ملا تو وہ مرتینا نے اپنی ذاتی مفاد پر قربان کر دیا۔
مرتینا نے جب یہ کہا کہ بچے کو جادو گرنی مار چکی ہے تو روبیکا کا دماغ اس کے قابو سے نکل گیا اور اس پر پاگل پن سوار ہو گیا اس نے واہی تباہی بکنی شروع کردی وہ بھول ہی گئی کہ وہ ایک بے بس اور بے وسیلہ ملازمہ ہے اور قانون اور انصاف مرتینا کے ہاتھ میں ہے، اور وہ اسے بڑے آرام سے قتل کروا سکتی ہے، روبیکا کے منہ سے جھاگ پھوٹنے گی۔
مرتینا نے اسے یہ بھی کہا کہ وہ منہ سے بولے کے اپنے بچے کی کتنی قیمت چاہتی ہے؟ 
میرے سامنے زروجواہرات کا ڈھیر لگا دو۔۔۔ روبیکا نے قہر بھری آواز میں کہا۔۔۔ میں اسے ٹھوکر مار کر اپنا بچہ ہی مانگوں گی۔
مرتینا اپنی شاہانہ حیثیت میں آگئی اس نے سلطنت کی ملکہ کے انداز سے روبیکا کو دھتکار دیا اور کہا کہ وہ فوراً یہاں سے نکل جائے ورنہ وہ اسے قید خانے میں ڈال دے گی اور اس کی باقی عمر کال کوٹھری میں گلتی سڑتی گزرے گی ۔مرتینا نے صرف کہا ہی نہیں بلکہ روبیکا کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے زور سے گھمایا اور پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر دھکا دیا اور کہا نکل جاؤ یہاں سے۔
روبیکا کی نظر کمرے کی سامنے والی دیوار پر گئی وہاں شاہ ہرقل کی تلوار لٹکی ہوئی تھی اور اس کے ساتھ ہرقل کا لمبا خنجر نیام میں پڑا لٹک رہا تھا، یہ دونوں ہتھیار مرتینا ہرقل کی یادگار کے طور پر کمرے میں لٹکا رکھے تھے۔
مردینا کو تو یاد آ گیا تھا کہ وہ اس سلطنت کی ملکہ ہے لیکن روبیکا بلکل ہی بھول چکی تھی کہ وہ اس ملکہ کی ملازمہ ہے وہ مکمل طور پر پاگل ہو چکی تھی اس نے بجلی کی سی تیزی سے لپک کر دیوار سے ہرقل کا خنجر نوچ لیا اور اتنی ہی تیزی سے خنجر نیام سے نکالا ،نیام پرے پھینکی پیشتر اس کے کہ مرتینا سمجھ پاتی کہ یہ کیا کر رہی ہے خنجر مرتینا کے سینے میں اترچکا تھا، روبیکا نے بڑی ہی تیزی سے مرتینا کے سینے میں تین بار خنجر مارا اور مرتینا ایک چیخ مار کر لڑھک گئی اور پھر وہ فرش پر پڑی ہوئی تھی۔
روبیکا خون سے لتھڑا ہوا خنجر ہاتھ میں لئے باہر نکلی اور چلا چلا کر کہنے لگی میں نے اپنے بچے کے خون کا انتقام لے لیا ہے، اس کی یہ للکار اور پکار جس کسی کے کانوں تک پہنچی وہ دوڑا آیا دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ملازموں کا اور شاہی خاندان کے کچھ افراد کا ہجوم اکٹھا ہو گیا۔
روبیکا چیختی چلاتی باہر کو جا رہی تھی اور وہ خون آلود خنجر لہر آتی جا رہی تھی، آوازیں آنے لگی پکڑو اسے۔۔۔۔ پکڑو اسے۔۔۔ مرتینا کے کمرے میں جا کر دیکھ لیا گیا تھا کہ وہ لہولہان مری پڑی ہے ۔
کئی آدمی روبیکا کو پکڑنے کے لیے اس کی طرف دوڑے۔وہ بھاگی نہیں، پیچھے مڑی اور رک گئی اس نے دیکھا کہ اسے پکڑنے کے لیے آ رہے ہیں تو اس نے خنجر کا دستہ دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر ہاتھ اوپر کئے اور کہا میں اپنے بچے کے پاس جا رہی ہوں، اس نے بڑی زور سے اپنے دونوں ہاتھ نیچے کو کھینچا اور خنجر آدھے سے زیادہ اس کے سینے میں اتر گیا ،وہ آہستہ آہستہ گرنے لگی خنجر کو سینے میں ہی رہنے دیا گھٹنوں سے اس کی ٹانگیں دوہری ہوئی اور بڑی آہستہ سے اس کے گھٹنے زمین پر لگے اور پھر وہ ایک پہلو کو لڑھک گئی۔
اسے پکڑنے والے اس تک پہنچے اور اسے سیدھا کر کے پیٹھ کے بل کر دیا وہ آخری سانسیں لے رہی تھی اس کی آنکھیں بند ہو چکی تھیں اور ہونٹ ہل رہے تھے ،،،،،میرا بچہ مل گیا ہے،،،، اس کے ہونٹوں سے سرگوشیاں پھسل رہی تھیں۔۔۔۔ آخر میرا منّا مل ہی گیا اب اسے میرے سینے سے کوئی نہیں نوچ سکتا۔۔۔ اس نے اپنے دونوں بازو اپنے سینے پر رکھ کر دبا لیے سینے سے ابھی تک خون بہے جا رہا تھا، فوراً ہی بعد اس کی آنکھیں کھلی ھونٹ ساکن ہو گئے، اور پھر آنکھیں کھلی ہی رہ گئی اور ہونٹ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئے۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
مرتینا کا قتل کوئی معمولی واقعہ نہ تھا اس کا بیٹا ہرقلیوناس بھی وہاں پہنچ گیا تھا وہ تحکمانہ بلکہ شاہانہ لب و لہجے میں کچھ نہ کچھ کہے جا رہا تھا ،وہ تو جیسے وہاں کھڑے ہر انسان کو قتل کروا دینے کا فیصلہ سنا رہا تھا۔
 کونستانس کو اطلاع مل گئی وہ بھی دوڑتا ہوا آن پہنچا ،رومی فوج کا سپریم کمانڈر جنرل اقلینوس بھی آگیا اور پھر دوسرے جرنیل بھی آن پہنچے۔
کونستانس اور جنرل اقلینوس کو صرف یہ بات مطمئن نہیں کر سکتی تھی کہ ایک ملازمہ نے مرتینا کو قتل کر کے خود کشی کی ہے ،وہ اس اتنے بڑے حادثے کی وجہ معلوم کرنا چاہتے تھے، انہوں نے مرتینا کے ملازموں سے پوچھنا شروع کردیا انہیں بتایا گیا کہ روبیکا مرتینا کی منہ چڑی ملازمہ تھی، بلکہ یہ ملازمہ کم اور مرتینا کی گہری دوست زیادہ تھی، یہ پوچھ گچھ ہو ہی رہی تھی کہ وہ ملازمہ آگئی جس کا دوسرا بچہ بھی مر گیا تھا، اسے پتہ چلا کہ شاہی محل میں کیا قیامت آئی اور گزر گئی ہے تو وہ بھی وہاں آن پہنچے، جذباتی لحاظ سے اس کی حالت بھی نارمل نہیں تھی وہ اپنے دوسرے بچے کی لاش گھر میں چھوڑ کر آئی، اور آتے ہی غیر قدرتی سے لہجے میں اعلانیہ کہا کہ اسے معلوم ہے کہ یہ سب کیوں ہو ا ہے ۔
اس نے ساری بات کھول دی وہ اتنا ہی بتا سکی کہ روبیکا کا بچہ اس نے مرتینا کے حکم سے اٹھایا اور مرتینا کو دیا تھا، اس سے آگے اسے کچھ معلوم نہیں تھا، البتہ ایک اور بات اسے اچھی طرح معلوم تھی اس نے وہ بھی بتا دی وہ یہ تھی کہ روبیکا کو ہرقلیوناس نے داشتہ بنا رکھا تھا اور یہ بچہ ہرقلیوناس کا ہی تھا۔
مجھے ہرقلیوناس کی ماں کے قتل کا کوئی افسوس نہیں۔۔۔ کونستانس نے اعلانیہ لہجے میں کہا۔۔۔ مجھے غم یہ کھا رہا ہے کہ سلطنت روم کا زوال بڑی تیزی سے ہو رہا ہے، ہم خود اس عظیم سلطنت کی بنیادیں کھوکھلی کررہے ہیں ،ادھر مصر ہاتھ سے نکل گیا ہے اور مٹھی بھر مسلمانوں نے اتنے بڑے ملک پر قبضہ کر لیا ہے ،اور ادھر دارالحکومت میں یہ پراسرار اور خونی کھیل کھیلے جارہے ہیں ۔
میں یہ کھیل بند کرا دوں گا۔۔۔ ہرقلیوناس بڑی کھوکھلی سی آواز میں بولا۔۔۔ اور جو کوئی میرا حکم نہیں مانے گا،،،،،،، 
مجھے باغی کہ لو ،کچھ کہہ لو ۔۔۔۔ایک پرانا جرنیل بول اٹھا۔۔۔ حکم صرف ایک حکمران کا چلے گا، اور وہ حکمران کونستانس ہوگا ، کبھی سنا ہی نہیں کہ ایک سلطنت کے بیک وقت دو حکمران ہوں، اور دونوں اپنے اپنے حکم چلا رہے ہوں۔
اس جرنیل کے بولنے کی دیر تھی کہ دوسرے جرنیل بھی بول اٹھے وہ اس جرنیل کی تائید میں بول رہے تھے۔ جرنیل اقلینوس نے سب کو خاموش کرا دیا اور کہا کہ یہ مسئلہ ایسا نہیں کہ یہاں ملازموں اور دوسرے لوگوں کے سامنے کھڑے کھڑے طے کر لیا جائے ،یہ کہیں اور بیٹھ کر طے کرنے والا معاملہ ہے، اور اب ہمیں کسی نہ کسی فیصلے پر پہنچنا ہی ہوگا۔
مرتینا مر چکی تھی اور اس کا بیٹا ھرقلیوناس اکیلا رہ گیا تھا ،مرتینا ہی اس کی تلوار اور مرتینا ہی اسکے ڈھال تھی، اور یہ تلوار اپنے آپ ہی چلا کرتی تھی ،اس دن کے بعد ایک اور چپقلش چل پڑی، اب تو ہر جرنیل اور سول حکومت کا ہر بڑا حاکم ایک ہی بات کہتا تھا کہ ہرقلیوناس کو ایک طرف کر دیا جائے اور صرف کونستانس شاہ روم کہلائے۔
ایک واقعہ کچھ دنوں بعد ہوا تھا۔ اس سے پہلے مصر میں مجاہدین اسلام نے اسکندریہ پر آخری یلغار کردی تھی۔ بہتر ہے کہ بزنطیہ کا یہ واقعہ یہی بیان کردیا جائے۔ واقعہ یوں ہوا کہ یہ بات زیر غور آئی کے سلطنت روم کا حکمران صرف کونستانس رہے، ہرقلیوناس کے حامی تو بہت ہی کم رہ گئے تھے لیکن کچھ نہ کچھ زمین دوز شازشیں چل رہی تھیں، ہرقلیوناس صرف کہنے سے یا اپنی مرضی سے حکمرانی سے دستبردار نہیں ہو رہا تھا۔
ماں کے قتل کے تین چار روز بعد ہرقلیوناس گھوڑے پر سوار ہوا چند ایک ملازم ساتھ لیے اور جنگل میں شکار کو نکل گیا ۔
ان دنوں سلطنت روم ایسی صورتحال میں آگئی تھی کہ کسی کو شکار کھیلنے کی سوچ بھی نہیں سکتی تھی، لیکن ہرقلیوناس اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا تھا ۔
کچھ دیر بعد ایک گھوڑسوار گھوڑا دوڑاتا آیا اور اس نے کونستانس کو اطلاع دی کہ شکار کے دوران نہ جانے کدھر سے دو تیر آئے اور دونوں تیر ہرقلیوناس کی پیٹھ میں اتر گئے، ظاہر ہے تیر پھیپھڑوں میں اترے تھے ہرقلیوناس گھوڑے سے گرا اور گرا بھی پیٹھ کے بل جس سے یہ ہوا کہ دونوں تیر اور زیادہ آگے پھیپھڑوں میں چلے گئے، اور تھوڑی ہی دیر بعد ہرقلیوناس مر گیا۔
بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ تیر اتفاقیہ یا حادثاتی طور پر اسے نہیں لگے تھے، بلکہ ایک باقاعدہ پلان کے تحت اسے قتل کیا گیا تھا۔ بہرحال شاہی محل سے یہ اعلان کیا گیا کہ ہرقلیوناس کے ساتھ کچھ اور شکاری بھی تھے جن میں سے دو نے بیک وقت کسی جانور پر تیر چلائے تو اتفاق سے ہرقلیوناس آگے آگیا اور تیر اس کے پیٹھ کی طرف سے اس کے سینے میں اتر گئے اور وہ مر گیا ۔
اب کونستانس شاہ روم بن گیا، اس طرح تخت و تاج کا تنازعہ ختم ہو گیا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=۔=÷=÷*
مجاہدین نے اسکندریہ پر پہلی جو یلغار کی تھی، اور سپہ سالار عمرو بن عاص جنگی قیدی ہوتے ہوتے بچے اور اپنے تین ساتھیوں سمیت قلعے سے نکل آئے تھے۔ اس سے تیسرے یا چوتھے دن اسکندریہ پر بڑی ہی زوردار یلغار کی گئی، عمرو بن عاص نے سالاروں کے ساتھ مل کر اس یلغار کا پلان تیار کر لیا تھا۔
امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اپنے پیغام میں خاص طور پر لکھا تھا کہ میرے بھیجے ہوئے چاروں سالاروں کو لشکر کے آگے رکھنا، ان سالاروں کے نام پہلے آچکے ہیں، عمرو بن عاص نے ان چاروں کو آگے رکھا سارے لشکر کو معلوم تھا کہ یہ دیوار سے منجیقوں سے سنگ باری بھی ہوگی ،اور بے پناہ تیرا آئینگے، عمرو بن عاص نے اپنے تیرانداز دستے کو آگے بھیج دیا کہ وہ بڑی ہی تیزی سے دیوار پر تیر پھینکتے رہیں، ان تیر اندازوں میں سے کچھ قریبی درختوں پر چڑھ گئے یہاں سے ان کے تیر زیادہ کارگر ہو سکتے تھے۔
اس انتظام کے باوجود عمرو بن عاص نے لشکر سے کہہ دیا تھا کہ مجاہدین کو سنگ باری اور تیروں کی بوچھاڑوں میں سے گزرنا پڑے گا، اور جان قربان کرنی ہوگی، لشکر کا ہر مجاہد اس قربانی کے لئے تیار تھا۔
جب پورا لشکر آگے بڑھا تو دیوار سے سنگ باری شروع ہوگئی اور تیر بھی آنے لگے، مجاہدین کے تیرانداز دستے نے جم کر مقابلہ کیا اور خصوصاً ان تیر اندازوں نے جو درختوں پر چڑھ گئے تھے بہت کام کیا ۔ان کے تیر ٹھیک نشانوں پر جاتے تھے جن سے منجیقیں چلانے والے کچھ لوگ گھائل ہوئے اور کچھ تیر انداز بھی گرے، لیکن دیوار کی طرف سے آنے والے تیر بہت ہی زیادہ تھے، مجاہدین نے دیکھا کہ سالار ان کے آگے ہیں تو انکے حوصلے اور زیادہ مضبوط ہو گئے ،سالار تیروں کی بارش سے اس طرح گزرتے جا رہے تھے جیسے انہوں نے زرہ بکتر پہن رکھی ہو، جن پر تیر کچھ اثر ہی نہیں کرتے، لیکن ان کا محافظ اللہ تھا اور وہ اللہ کے نام پر تیروں میں سے گزرتے جا رہے تھے، رومیوں نے اپنی وہی چال چلی جس سے وہ پہلے نقصان اٹھا چکے تھے، وہ یہ کہ شہر کے اس طرف والے دروازے کھلے اور زیادہ نفری کی فوج باہر نکلی سپہ سالار عمرو بن عاص یہی چاہتے تھے انہوں نے اپنے لشکر کو اسی کے مطابق ترتیب میں رکھا تھا، یلغار کا انداز یہ نہیں تھا کہ ایک ہجوم کہیں ہلہ بول رہا ہو، لشکر کی ایک ترتیب تھی اور یہ ترتیب سالاروں کے کنٹرول میں تھی، اور ہر سالار کا رابطہ سپہ سالار کے ساتھ تھا ،رومیوں نے اسکندریہ میں بےشمار فوج اکٹھی کر رکھی تھی اور جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے اسکندریہ بڑا ہی مضبوط اور قلعہ بند شہر تھا۔
رومی فوج باہر آئی تو سپہ سالار نے اپنے خاص احکام سالاروں کو بھیج دیے جن کے مطابق لشکر دائیں بائیں پھیل گیا اور سامنے والے دستے سیدھے آگے گئے، رومیوں نے بھی یلغار جیسا حملہ کیا۔
 پہلے دی ہوئی ہدایت کے مطابق درمیان والے مجاہدین کے دستے ذرا ذرا پیچھے ہٹنے لگے، جس سے رومیوں کو یہ تاثر ملا کہ مسلمان قدم جماکر لڑنے کے قابل نہیں رہے اور پسپا ہو رہے ہیں۔
رومی جرنیل بھی سمجھ نہ سکے کہ مسلمانوں کے سپہ سالار نے یہ چال چل کر رومی فوج اور اسکندریہ کی دیواروں کے درمیان خاصا فاصلہ پیدا کر لیا ہے، اور اس کا دوسرا فائدہ یہ حاصل کر لیا کہ دیوار سے منجیقوں کی سنگ باری اور تیر اندازی بند ہوگئی ہے، وہ اس لئے کہ اب ان کے اپنے رومی پتھروں اورتیروں کی زد میں آتے تھے، لڑائی گتھم گتھا انداز کی ہو رہی تھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ فرمان عملی طور پر سامنے آ رہا تھا کہ اللہ جب چاہتا ہے کہ یہ کام ہوجائے تو اس کی ذات باری صرف اتنا اشارہ دیتی ہے ہوجا ،اور وہ کام ہو جاتا ہے۔
 سپہ سالار اور دوسرے سالاروں کو ایسی توقع تھی ہی نہیں کہ وہ اس روز اسکندریہ میں داخل ہو سکیں گے، بلکہ رومی فوج کی افراط اور مجاہدین کی قلت بتا رہی تھی کہ مجاہدین کو پیچھے ہٹنا پڑے گا لیکن وہاں کچھ اور ہی ہو گیا۔
ہوا یہ کہ مجاہدین کو اس قسم کی لڑائی کا خاصا تجربہ ہو چکا تھا، سپہ سالار نے رومیوں پر دائیں اور بائیں پہلوؤں سے حملہ کرادیا اور اس کے ساتھ ہی حکم دیا کے پہلوؤں پر حملہ کرنے والے شہر میں داخل ہونے کی کوشش کریں، سپہ سالار نے اپنے سامنے والے رومیوں کو لڑائی میں الجھائے رکھا۔
 رومیوں کے پہلوؤں پر حملہ ہوا تو وہ بوکھلا گئے یہاں پھر وہی صورت پیدا ہو گئی کہ رومیوں کی فوج درمیان کی طرف سکڑنے لگی، اور اس طرح پیادہ سپاہی گھوڑوں کے درمیان کچلے جانے لگے، اس فوج کو معلوم ہی نہ ہو سکا کے مجاہدین ان کے عقب میں پہنچ گئے ہیں۔
رومیوں کے دفاع کا ایک ہی طریقہ تھا کہ شہر کے دروازے بند کر دیں لیکن انہوں نے دروازے اس لئے کھلے رکھے کہ مزید فوج باہر آرہی تھی، مجاہدین نے دروازوں پر ہلہ بول دیا سالاروں نے پہلوؤں کی طرف سے مزید دستے آگے بڑھا دیے اور مجاہدین دروازوں سے نکلتی ہوئی فوج کو برچھیوں اور تلواروں پر لیتے اندر جانے لگے اور کچھ دیر بعد مجاہدین کی اچھی خاصی تعداد شہر کے اندر چلی گئی۔
خاص طور پر ذہن میں رکھیں کہ مجاہدین گوشت پوست کے انسان تھے جن بھوت نہیں تھے، ان میں اگر کوئی اضافی طاقت تھی تو وہ جذبہ جہاد تھا، اور ایمان کی پختگی تھی، اور اللہ کی ذات باری پر پورا پورا یقین تھا، اس کے باوجود وہ تھے تو انسان ہی ان کے مقابلے میں اتنے کثیر تعداد رومی کس طرح بوکھلا گئے اور ان کے حوصلے پست ہو گئے؟،،،،،، اس میں انسانی نفسیات کی کمزوریوں کا ہاتھ تھا ایک یہ کہ رومی فوج پر مسلمانوں کی دہشت طاری تھی، اور فوجی تسلیم کرنے لگے تھے کہ واقعی مسلمانوں کے پاس کوئی غیبی طاقت ہے جو صرف جنات میں ہوتی ہے، تاریخ مرتب کرنے والے مؤرخوں نے بھی حیرت کا اظہار کیا ہے کہ اس قدر کم تعداد مسلمانوں نے کس طرح اتنی بڑی فوج کو شکست دے دی۔
ایک تو یہ دہشت تھی جس نے رومی فوج کو نفسیاتی طور پر کمزور کر رکھا تھا اور اس فوج میں دوسری کمزوری یوں پیدا ہوئی کہ اتنے مضبوط قلعہ بند شہر میں وہ اپنے اپ کو پوری طرح محفوظ سمجھ رہے تھے اور بہادر بھی، اس شہر کو وہ ناقابل تسخیر سمجھتے تھے، لیکن جب انہیں ان مضبوط چوڑی اور اونچی دیواروں سے باہر کھلے میدان میں نکالا گیا تو ان کے حوصلے کمزور پڑ گئے ، وہ مسلمانوں کی بے جگری اور طوفانی یلغار کے آگے ٹھہرنہ سکے۔
مجاہدین اس فوج سے لڑتے لڑتے اندر چلے گئے جو باہر کی فوج کو مدد دینے کے لیے باہر آرہی تھی، مجاہدین کی مزید تعداد شہر میں داخل ہونے لگی، اور باہر لڑنے والے رومی سمجھ نہ پائے کہاں جائیں دروازوں پر مجاہدین قابض ہو چکے تھے اور مجاہدین کی کچھ نفری باہر بھی تھی جو ان رومیوں پر تابڑ توڑ وار کر رہی تھی ان رومی فوجیوں کا لڑنے کا جذبہ بالکل ہی بجھ کے رہ گیا۔
سالار بھی شہر کے اندر چلے گئے اور ان کے پیچھے باقی مجاہدین بھی شہر میں داخل ہوئے اور ایک معرکہ شہر کے اندر لڑا گیا۔
شہری پہلے ہی محاصرے سے تنگ آئے ہوئے تھے وہ اپنی فوج کو ذرا سا بھی تعاون دینے سے گریز کررہے تھے، ان پر بھی تو مسلمانوں کا خوف طاری تھا رومی فوج لوگوں کے گھروں میں داخل ہو رہے تھے لیکن لوگ انہیں دھکیل کر باہر نکال دیتے تھے، یہ رومی فوج دراصل پناہ ڈھونڈ رہے تھے۔
اس دن کا سورج غروب ہونے تک اسکندریہ کا پورا شہر مسلمانوں کے قبضے میں آ چکا تھا روم کا جھنڈا اتر گیا اور اسلامی پرچم لہرانے لگا۔
یہ ایک اور داستان ہے کہ اتنے بڑے شہر کا نظم و نسق کس طرح سنبھالا گیا اور کس طرح امن و امان قائم کیا گیا، یہ تو ہر شہر فتح کرنے کے بعد ہوتا تھا، قابل ذکر بات یہ ہے کہ قیرس اور جنرل تھیوڈور نے عمرو بن عاص کے آگے ہتھیار ڈال کر درخواست کی کہ انہیں اپنی فوج کے ساتھ شہر سے نکل جانے کی مہلت دی جائے۔
 عمرو بن عاص نے انہیں دو مہینوں کی مہلت دے دی لیکن ساتھ یہ کہا کہ کوئی فوج یا فوجی کا ایک بھی آدمی مصر میں نہ رہے سب جہازوں میں سوار ہوکر سمندر پار چلے جائیں۔
مصر پورے کا پورا فتح ہو گیا ،اور اتنا بڑا ملک سلطنت اسلامیہ میں شامل کر لیا گیا جو آج تک عالم اسلام کا ایک بڑا اور اہم ملک ہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=*
اسکندریہ فتح ہوتے ہی سپہ سالار عمرو بن عاص نے پہلا کام یہ کیا کہ ایک نائب سالار معاویہ بن حدیج کو بلایا اور کہا کہ وہ فوراً مدینہ روانہ ہوجائیں اور امیر المومنین کو اسکندریہ کی فتح کی خوشخبری سنائیں۔ معاویہ نے پیغام لینے کے لیے ہاتھ آگے کیا تو عمرو بن عاص نے کہا کہ کوئی تحریری پیغام نہیں۔ معاویہ حیران رہ گئے۔
کیا تم عرب نہیں ہو؟،،،،،، تاریخ کے مطابق عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ کیا تم زبانی پیغام نہیں پہنچا سکو گے جو تم نے دیکھا ہے وہ بیان کر دینا۔
مؤرخوں نے تاریخ میں عمرو بن عاص کے یہ الفاظ لکھیں ہیں اور بعض نے یہ رائے دی ہے کہ اسکندریہ کی فتح ایک لمبی کہانی تھی جو تحریر میں نہیں لائی جاسکتی تھی اس لیے انہوں نے معاویہ بن حدیج کو پیغام دینے کے لیے منتخب کیا تھا کہ ان کا لشکر میں عہدہ بھی تھا اور وہ ذہین بھی تھے۔
معاویہ روانہ ہوگئے اور بڑی ہی تیزی سے منزلیں طے کرتے مدینہ پہنچے، تاریخ کے مطابق وہ اس وقت مدینہ میں داخل ہوئے اور امیرالمومنین کے دروازے پر پہنچے جب امیرالمومنین قیلولہ کیا کرتے تھے، دوپہر کے کھانے کے بعد وہ کچھ دیر آرام ضرور کرتے تھے۔ معاویہ نے دروازے پر دستک نہ دی اس کی بجائے دروازے کے باہر ہی بیٹھ گئے۔
کچھ دیر بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک خادمہ باہر نکلی اس نے معاویہ کا حال حلیہ دیکھا اور انکی اوٹنی کو پاس کھڑے دیکھا تو وہ سمجھ گئی کہ یہ شخص بڑے لمبے سفر سے آیا ہے۔
 آپ کسی محاذ سے تو نہیں آئے؟،،،، خادمہ نے پوچھا۔
سپہ سالار عمرو بن عاص کا ایلچی ہوں۔۔۔ معاویہ نے کہا۔۔۔ ابھی ابھی پہنچا ہوں، امیرالمومنین کے آرام کا وقت ہے ان کے آرام میں مخل نہیں ہونا چاہتا۔
 خادمہ اندر چلی گئی اور فوراً ہی واپس آکر کہا کہ امیرالمومنین بلا رہے ہیں ،معاویہ فوراً اٹھے اور اندر چلے گئے۔
 کیا خبر لائے ہو؟،،،،،، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے سوال کیا۔
اللہ تعالی نے اسکندریہ ہمیں عطا فرما دیا ہے۔۔۔ معاویہ نے جواب دیا۔
امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ پیغام کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو معاویہ بولے زبانی سناؤنگا۔
 امیرالمومنین نے خادمہ کو بلایا اور کہا کہ معاویہ کے لیے فوراً کھانالائے۔ تاریخ میں یہ بھی لکھا ہے کہ جو روٹی معاویہ کو کھلائی گئی وہ زیتون کے تیل میں تیار کی گئی تھی۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ معاویہ کو مسجد میں لے گئے لوگوں کو مسجد میں بلانے کا طریقہ اذان ہوتا تھا۔ امیرالمومنین کے کہنے پر اذان دی گئی اور مدینہ کے لوگ بڑی تیزی سے مسجد میں آنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے مسجد بھر گئی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے معاویہ سے کہا کہ اٹھو اور پیغام سناؤ۔
معاویہ بن حدیج نے اٹھ کر بلند آواز میں اسکندریہ کی فتح کی خبر سنائی اور پھر تفصیل سے سنایا کہ یہ شہر جو ہر پہلو سے ناقابل تسخیر تسلیم کیا جاتا تھا مجاہدین نے اتنی تھوڑی تعداد میں کس طرح فتح کیا۔
سننے والے آفرین آفرین اور داد و تحسین کے کلمے ہی بے ساختہ کہتے رہے۔
 حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اٹھے اور اسی وقت شکرانے کے دو نفل با جماعت پڑھائے۔
بلاذری اور مقریزی نے لکھا ہے کہ شکرانے کے نفل پڑھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ معاویہ کو اپنے گھر لائے اور اس وقت کھانا پیش کیا ،خادمہ کھانا لائی جس میں روٹی اور زیتون کا تیل تھا اور اس کے بعد کھجور کھانے میں رکھی گئی ،اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور معاویہ میں یہ مکالمہ ہوا۔
معاویہ!،،،،،،، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا۔۔۔ تم اتنی اہم خبر لائے تو دروازے کے باہر ہی کیوں بیٹھ گئے تھے۔
 یا امیرالمومنین!،،،،،، معاویہ نے جواب دیا۔۔۔میں جانتا تھا کہ آپ اس وقت کچھ دیر کے لئے سوتے ہیں۔
نہیں معاویہ!،،،،،،، امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا۔۔۔ تم نے کسی سے غلط سنا ہے میں دن کو سو جاؤ تو رعایا کا نقصان ہوتا ہے، اور اگر رات کو سوؤں تو میرا اپنا نقصان ہوتا ہے، خلیفہ کو نیند کیسے آ سکتی ہے 

#جاری_ہے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.