Ads Top

Aur Neil Behta Raha By Inyat Ullah Altamish Episode No.54 ||اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش قسط نمبر 54

Aur Neel Behta Raha
 By
Annyat Ullah Altamish

اور نیل بہتا رہا
از
عنایت اللہ التمش

Aur Neel Behta Raha  By  Annyat Ullah Altamish  اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش

 #اورنیل_بہتارہا/عنایت اللہ التمش
#قسط_نمبر_54

نہ جانے کتنے دنوں بعد مقوقس بزنطیہ پہنچا اور ہرقل سے ملا ہرقل نے رسمی طور پر بھی مقوقس کو شاہی احترام نہ دیا ۔
مقوقس آخر اتنے بڑے ملک کا فرمانروا تھا لیکن ہرقل کا رویہ ایسا تھا جیسے مقوقس اس کا غلام ہو۔
 ہرقل نے اس سے پہلی بات یہ پوچھی کہ اس معاہدے کے بعد مسلمان مصر سے چلے جائیں گے یا نہیں ؟
ہاں !،،،،، مقوقس نے بھی قدرے بے رخی سے جواب دیا۔۔۔ وہ مصر سے چلے جائیں گے۔
تم مجھے دھوکا دے رہے ہو۔۔۔ ہرقل نے کہا۔۔۔ معاہدے میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کی کوئی بھی جماعت جہاں چاہے گی جاسکے گی، اور جہاں چاہے گی قیام کرے گی، اور دو چار مسلمان کسی مجبوری کے تحت کسی مصری کے گھر روکیں گے تو اس مصری پر ان کی میزبانی فرض ہوگی، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان نہیں جائیں گے۔
 اس کے بعد ہرقل نے مقوقس سے اتنے زیادہ سوال پوچھے اور اتنی وضاحت مانگی کے مقوقس پریشان ہو گیا اور ( مورخین کے مطابق) اس نے سوچا کہ ہرقل کو حقیقت سے آگاہ کر ہی دیا جائے۔
قیصر روم !،،،،،،مقوقس نے کہا۔۔۔ آپ ان عربوں کی جوانمردی ،شجاعت اور کٹ مرنے کے عزم سے ناواقف نہیں ، آپ کا ان کے ساتھ مقابلہ ہو چکا ہے اور آپ نے اس کا انجام بھی دیکھا ہے ،کیا آپ مجھ سے اتفاق نہیں کریں گے کہ ان مسلمانوں کو شکست دینا کم از کم ہماری اس فوج کے لیے ناممکن نہیں، میرے سامنے سوائے صلح کے اس معاہدے کے کوئی اور راستہ نہیں تھا ، میں نے قلعہ بابلیون کو ان سے بچانے کی کوشش کی ہے۔ اگر مسلمانوں نے بزور شمشیر بابلیوں لے لیا تو پھر سارا مصر ان کے قدموں میں پڑا ہو گا۔
دیکھو مقوقس!،،،،، ہرقل نے کہا۔۔۔ تم پہلے بھی مجھے شام کی شکست اور وہاں سے پسپائی کا طعنہ دے چکے ہو، اب تم مسلمانوں کی اطاعت قبول کرچکے ہو انہیں جزیہ ادا کرنے کا فیصلہ کرچکے ہو اور مصر میں ان کی موجودگی اور حکومت کو بھی برداشت کر رہے ہو ،پھر بھی تم مجھے شام کی شکست کا طعنہ دے رہے ہو؟ 
مقوقس نے اس کا یہ وہم رفع کرنے کے لیے بہت کچھ کہا کہ وہ اس پر طنز نہیں کر رہا بلکہ ایک حقیقت بیان کر رہا ہے، لیکن ہرقل اس کی کوئی دلیل قبول نہیں کر رہا تھا ۔
کیا تم یہ سمجھتے رہے کہ میں مصر سے اتنی دور ہوں اور مجھے وہاں کی حالات کی کچھ خبر ہی نہیں ۔۔۔ہرقل نے کہا۔۔۔ مجھے پل پل کی خبر ملتی رہی ہے ۔ شام کے حالات کچھ اور تھے اور مصر کے حالات کچھ اور ہیں۔ مصر میں ہماری ایک لاکھ فوج موجود ہے اور اس میں صرف ساڑھے بارہ ہزار فوج ہی لڑی ہے، اگر اس فوج کی قیادت عقلمندی سے کی جائے تو ان مٹھی بھر مسلمانوں کو مصر کے ریگستان میں روندا اور مسئلہ جا سکتا ہے یا انہیں نیل میں ڈوبو دیا جائے اور نیل بہتا رہے گا,,,,,,,,,,,, مصر میں ہماری فوج بڑے مضبوط قلعوں میں محفوظ ہے، یہ ذرا جتنے مسلمان اس فوج کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے، مجھے یقین ہے مقوقس کوئی ایسا راز ہے جو تم مجھے نہیں بتا رہے؟ 
مقوقس کو بھی غصہ آ گیا اور اس نے ایک دو جلی کٹی سے کہہ دیں، تم اپنا سب سے بڑا اور شرمناک جرم سن لو،،،،،، ہرقل نے کہا۔۔۔ جنہیں تم نے میرے قتل کے لیے بھیجا تھا وہ میرے ہاتھوں قتل ہوگئے اب تم غداری کے مرتکب ہو رہے ہو ،تم نے بزدلی کا مظاہرہ کیا، اور مصر عربوں کے لئے خالی چھوڑ دیا ہے۔
ہرقل نے جب اس لڑکی کو اور اس کے ساتھ جانے والے دونوں آدمیوں کو جو اسے قتل کرنے گئے تھے جلاد سے قتل کروادیا تھا تو اس نے اپنے مشیروں اور دو جرنیلوں کو بلا کر یہ واقعہ سنایا تھا اور کہا تھا کہ وہ اس سازش کے جواب میں مقوقس کو قتل کروا سکتا ہے، لیکن ایسا نہیں کرے گا ،اور انتقام اس طرح لے گا کہ مقوقس کو رعایا کے سامنے ذلیل و خوار ہونے کے لئے چھوڑ دے گا۔
اب ہرقل کو وہ موقع مل گیا۔ اس نے تو جیسے تیسے کر لیا تھا کہ مقوقس کی بات اور کوئی دلیل نہیں سنے گا ،وہ جانتا تھا کہ روم کی فوج جو مصر میں ہے وہ نفسیاتی لحاظ سے اور حوصلے کے لحاظ سے لڑنے کے قابل نہیں ،لیکن اس نے مقوقس سے انتقام لینے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
 ہرقل نے اسی وقت حاکم شہر اور کوتوال کو بلایا وہ دوڑتے ہوئے پہنچے ۔
ہرقل نے حکم دیا کہ اس کو ہتھکڑیاں اور بیڑیاں ڈال دی جائیں اور اسے بستی یا شہر میں گھما پھرا کر اور پھر ایک جگہ رک کر لوگوں کو اکٹھا کیا جائے، اور اعلان کیا جائے کہ یہ شخص غدار ہے اور اس نے مصر مسلمانوں کے مٹھی بھر لشکر کے حوالے کردیا ہے ،اس کے بعد اسے سلطنت روم سے نکال دیا جائے، اس کی ہتھکڑیاں کھول دی جائیں لیکن بیڑیاں پاؤں میں رہے، اور اسے اور زیادہ ذلیل و خوار کر کے سلطنت بدر کردیا جائے۔
ہرقل کے حکم کی تعمیل ہوئی مقوقس کو ہرقل کے حکم کے مطابق ذلیل و خوار کر کے سلطنت بدر کردیا گیا,,,,,,,, ہرقل نے انتقام لے لیا۔
ہرقل نے صلح کا معاہدہ منسوخ کردیا اور اس کی اطلاع سپہ سالار عمرو بن عاص کو بھیج دی گئی جو دسمبر 640 عیسوی میں بھیجی گئی تھی۔
 عمرو بن عاص نے قلعہ بابلیون پر یلغار کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا جو بظاہر ناممکن تھا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
کوتوال اور حاکم شہر جب ہرقل کے حکم کی تعمیل کے لیے مقوقس کو ہتھکڑیاں اور بیڑیاں لگانے کے لئے باہر لے گئے تو ہرقل کی ملکہ مرتینا تقریباً دوڑتی ہوئی اس کمرے میں گئی جہاں ہرقل اپنی عدالت یا دربار لگایا کرتا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ہرقل نڈھال بیٹھا ہے اور اس کے چہرے کا رنگ زرد تھا ۔چوبدار اور دو محافظ بت بنے چاک و چوبند کھڑے تھے۔ ملکہ کے سر کے اشارے سے وہ بڑی تیزی سے باہر نکل گئے۔
آفرین شہنشاہ ہرقل!،،،،،،،، ملکہ مرتینا نے اپنا ایک بازو ہرقل کے گلے میں ڈال کر اور پھر اس کا ایک رخسار چوم کر کہا۔۔۔ زندہ باد!،،،،، غدار کو یہی سزا ملنی چاہیے تھی ۔ موت تو کوئی سزا ہی نہیں ہوتی۔ انسان دنیا کے جھنجٹ سے آزاد ہو جاتا ہے، یہ شخص مقوقس مصر کا بادشاہ بنا ہوا تھا اب ذلیل و خوار ہوتا پھرے گا، اس کے چہرے پر لکھا نظر آئے گا کہ یہ غدار ہے۔
مرتینا!،،،،،،، ہرقل نے آہ لے کر کہا۔۔۔ اسے اتنی کڑی سزا دے کر مجھے خوشی نہیں ہوئی۔ روم کی سرزمین نے کبھی غدار پیدا نہیں کیا تھا۔
 لعنت بھیجو اس پر!،،،،، ملکہ مرتینا نے کہا۔۔۔۔ اس نے آپ کو نہیں سلطنت روم کو دھوکا دیا ہے، دل پر غم اور افسوس کا اتنا بوجھ نہ ڈالیں آپ کا تو رنگ ہی پیلا پڑ گیا ہے، اگر آپ اجازت دیں تو میں ہرقلیوناس کو مصر بھیج دیتی ہوں۔
وہ وہاں جا کر کیا کرے گا ؟،،،،،،ہرقل نے نحیف سی آواز میں کہا ۔۔۔وہاں میرے آزمائے ہوئے جرنیل بھی گھٹنے ٹیک رہے ہیں۔
میں جانتی ہوں آپ کا مطلب کیا ہے ۔۔۔مرتینا نے کہا۔۔۔ وہ لڑ نہیں سکے گا، لڑا بھی تو نہیں سکے گا، لیکن جرنیلوں پر نظر رکھے گا کہ کوئی کھلم کھلا یا درپردہ مسلمانوں کے ساتھ اس طرح صلح سمجھوتہ نہ کرے جس طرح مقوقس نے کیا تھا ۔
میرا بیٹا ہرقلیوناس یہ کام خوش اسلوبی سے کرے گا۔
مجھے جانا چاہیے۔۔۔ ہرقل نے کہا۔۔۔ یا قسطنطین وہاں جائے۔ تم جانتی ہو قسطنطین تجربے کار جرنیل ہے لیکن میری صحت اتنی بگڑی گئی ہے کہ نہ میں جا سکتا ہوں نہ میں قسطنطین کو بھیجنا چاہتا ہوں ،یہاں کے معاملات اور امور قسطنطین ہی چلا رہا ہے ،اور میں چاہتا بھی یہی ہو کہ میرا یہی بیٹا سلطنت روم کی باغ ڈور سنبھالے ۔
ملکہ مرتینا کے چہرے پر ناگواری اور بیزاری کا تاثر آگیا لیکن وہ کوشش کر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ لے آئی۔
یہ آپ نے ٹھیک کہا ۔۔۔مرتینا نے بظاہر خوشگوار لہجے میں کہا۔۔۔ آپ کی طبیعت کچھ زیادہ ہی خراب معلوم ہوتی ہے میں طبیب کو بلواتی ہوں، مصر کا غم دل سے اتار دیں۔ وہاں تھیوڈور اور وہاں جارج بھی ہیں۔
پہلے ملکہ مرتینا کا تفصیلی ذکر آچکا ہے۔ مرتینا غیرمعمولی طورپر حسین و جمیل عورت تھی وہ جتنی حسین تھی اس سے کہیں زیادہ مکار اور عیار تھی، ہرقل کے حرم میں ایک سے بڑھ کر ایک حسین عورت موجود تھی ، لیکن حسن کے استعمال کی جو صلاحیت خدا نے مرتینا کو عطا کی تھی وہ کسی اور عورت میں نہیں تھی، کسی بھی تاریخ میں یہ نہیں لکھا کہ حرم کی عورتوں کے علاوہ ہرقل کی باقاعدہ بیویاں کتنی تھیں۔ ان میں ایک مرتینا تھی جس کی حیثیت سورج جیسی تھی باقی سب چاند اور ستاروں جیسی تھیں، جب سورج طلوع ہوتا تھا تو چاند اور ستارے آسمان کی وسعتوں سے ہی ناپید ہو جاتے تھے۔
ہرقل کو اچھی طرح معلوم تھا کہ مرتینا اس پر غالب آ گئی ہے، اور اسے یعنی ہرقل کو اس غلبے سے نکلنا ہے، لیکن اس کی ہر کوشش ناکام رہتی تھی یہاں تک کہ ہرقل کے دل میں مرتینا کا خوف سا بیٹھ گیا تھا ،ایک ہسپانوی تاریخ نویس فرڈیننیڈ نے یہاں تک لکھا ہے کہ مرتینا نے ہرقل پر کوئی آسیبی اثر پیدا کروارکھا تھا۔
ہرقلیوناس مرتینا کا بیٹا تھا۔ وہ اسے ہرقل کا جانشین بنانے کی کوشش میں لگی رہتی تھی، لیکن ہرقل کی ایک اور بیوی سے قسطنطین اس کا بیٹا تھا، جو ہرقلیوناس سے عمر میں خاصا بڑا تھا۔ ہرقل قسطنطین کو جانشین بنانا چاہتا تھا اب ہرقل نے دیکھا کہ ملکہ مرتینا اس کے اس فیصلے پر اسے خراج تحسین پیش کررہی ہے کہ اس نے مقوقس کو ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں باندھ کر سلطنت بدر کردیا ہے۔ مرتینا ہرقل کی صحت کے متعلق بھی پریشان نظر آتی تھی۔ لیکن ہرقل اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ محض دکھاوے کی ہمدردی ہے۔ مرتینا نے کہا تھا کہ وہ اپنے بیٹے ہرقلیوناس کو مصر بھیج دے گی، ،،،،،،ہرقل نے کہا کہ وہ قسطنطین کو بھیجنا چاہتا ہے لیکن اپنی صحت کے پیش نظر نہیں بھیج سکتا۔
ہرقل سمجھ گیا تھا کہ مرتینا اس صورتحال سے اپنا مطلب پورا کرنا چاہتی ہے جو مقوقس کی جلاوطنی سے پیدا ہوگئی ہے۔ لیکن ہرقل نے قسطنطین کا نام لے کر مرتینا کی خواہش رد کر دی ۔
مرتینا طبیب کو بلوانے کے لئے باہر نکل گئی تھی۔

*=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
ہرقل کی صحت مسلسل اور تیزی سے گرتی جا رہی تھی وہ بوڑھا تو ہو ہی گیا تھا، لیکن ایسا بھی نہیں کہ بڑھاپا اسے اس قدر معزور کردیتا ۔
بڑھاپا جسم کو لاغر کر دیا کرتا ہے لیکن ذہن کا کچھ نہیں بگاڑتا دماغی صلاحیتیں اچھے برے تجربات کی بدولت اور زیادہ تیز اور کارآمد ہو جاتی ہیں، انسان دانشمند بن جاتا ہے، لیکن ہرقل ذہنی طور پر بھی کمزور ہو گیا تھا۔
 یہ بھی ایک وجہ تھی کہ وہ اپنی ملکہ مرتینا اور اس کے بیٹے ہرقلیوناس سے ڈرتا تھا۔
تمام مورخین نے ہرقل کو خراج تحسین پیش کیا ہے ان مورخین میں مسلمان بھی شامل ہیں، انہوں نے لکھا ہے کہ ہرقل سورج بن کر سلطنت روم کے افق سے ابھرا تھا اور اس نے رومی سلطنت کو بڑی دور دور تک پھیلا دیا تھا، یہاں تک کہ پورے کا پورا ملک شام بھی اپنی سلطنت میں شامل کرلیا اور اس کی نظریں عرب پر لگی ہوئی تھیں، یہ ہرقل ہی تھا جس نے کسریٰ ایران کی ہیبت ناک جنگی قوت کو شکست دے کر پہلے مصر سے بےدخل کیا اور پھر شام سے بھی ایرانیوں کو بھگایا، اور ان کی سلطنت عراق تک محدود کر دی تھی۔
وہی ہرقل جو عزت و عظمت اور شہنشاہیت کا آفتاب بن کر چمک رہا تھا اب اس کی عزت وعظمت ننگ و ہزیمت میں بدل گئی تھی۔
 کسریٰ ایران کی ڈیڑھ پونے دو لاکھ نفری کی فوج کو گھٹنوں بٹھانے والا ہرقل چند ہزار مسلمانوں کے لشکر کے آگے بے بس اور مجبور ہوگیا تھا ،ان قلیل تعداد مجاہدین نے اسے شام سے بھگایا اور اب مصر بھی اس سے چھین رہے تھے، ہرقل بزنطیہ میں حسرت و ایاس کا بت بنا بیٹھا تھا۔
عام خیال یہی تھا کہ ہرقل کو سلطنت روم کے سکڑنے کا غم کھا گیا ہے، مصر کے قبطی عیسائی کہتے تھے کہ ہرقل نے جس بے دردی اور بہیمانہ انداز سے قبطیوں کا قتل عام کیا ہے اس کی سزا اسے دنیا میں ہی مل رہی ہے۔ غیرجانبدار دانشمند کہتے تھے کہ کمال اور زوال کا چولی دامن کا ساتھ ہے، جیسے ہر چمکتا سورج افق سے ابھر کر افق میں غروب ہو جاتا ہے اور پیچھے رات کی تاریکی چھوڑ جاتا ہے ۔ لیکن پس منظر دیکھیں تو مؤرخین کوئی اور ہی کہانی سناتے ہیں۔
ملکہ مرتینا نے طبیب کو بلوایا تھا طبیب تو ہر لمحہ شاہی حکم کا منتظر رہتا تھا، ملکہ کا حکم پہنچتے ہیں وہ دوڑا آیا لیکن مرتینا اسے سیدھا ہرقل کے پاس لے جانے کی بجائے اپنے کمرے میں لے گئی، یہ طبیب اور اس طرح کے اور سب آدمی جو محل میں مختلف کاموں پر مامور تھے شاہی خاندان کے غلام بنے رہتے تھے۔ وہ اشارے کے منتظر رہتے تھے۔ اور بادشاہ، ملکہ، کسی شہزادے، یا شہزادی کے بلاوے پر دم ہلاتے دوڑتے پہنچتے اور ان لوگوں کے حکم بجا لا کر فخر محسوس کرتے تھے ۔ بات بات پر جھک جاتے اور پھر کام میں جت جاتے تھے۔ اس طبیب کا انداز بھی ایسا ہی تھا لیکن جونہی وہ مرتینا کے کمرے میں داخل ہوا اس کا انداز بالکل بدل گیا یوں لگتا تھا جیسے یہ شخص ملک مرتینا کا کوئی قریبی عزیز ہو، یا بے تکلف دوست۔
کیا حال ہے؟،،،،،،، طبیب نے مرتینا کے کہے بغیر بیٹھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔دماغ ٹھکانے آیا یا نہیں۔
نہیں !،،،،،مرتینا نے جواب دیا ۔۔۔وہیں کا وہیں ہے میں نے ابھی ابھی ایک موقع دیکھ کر کہا کہ ہرقلیوناس کو مصر بھیج دیتے ہیں کہ جرنیلوں کی نگرانی کرے اور اس طرح غداری کا خطرہ ٹل جائے گا، لیکن ہرقل نے صاف طور پر کہہ دیا کہ وہ خود جائے ،یا قسطنطین کو بھیجا جائے، ہرقلیوناس کسی کام کے قابل نہیں۔
پھر میرے لئے کیا حکم ہے؟۔۔۔۔ طبیب نے پوچھا۔
 تم اپنا کام جاری رکھو۔۔۔۔مرتینا نے کہا۔۔ اب یہی ایک علاج رہ گیا ہے مجھے کچھ ایسا نظر آرہا ہے جیسے یہ شخص اپنی زندگی میں ہی قسطنطین کو تخت پر بٹھا دے گا، آج اسے دیکھ کر بتاؤ کہ یہ کتنے دن اور زندہ رہے گا اب میں جلدی میں ہوں۔
ملکہ محترمہ!،،،،،، طبیب نے کہا۔۔۔ ایک بات جو شروع سے ہی کہتا چلا آ رہا ہوں آج پھر وہی بات کہوں گا آپ کا مقصد دوچار لمحوں میں پورا کرسکتا ہوں لیکن میں تو پکڑا جاؤں گا ہی میرے ساتھ آپ بھی پکڑی جاسکتی ہیں، یہ کام آہستہ آہستہ ہونے دیں۔ کیا آپ اسکے اثرات دیکھ نہیں رہیں؟ کسی کو شک نہیں ہو رہا میں نے اچھے اچھے دانشمندوں کی زبان سے سنا ہے کہ ہرقل کو پے در پے شکستوں کا غم کھا رہا ہے، کہیں سے کوئی بہت ہی قابل طبیب لے آئیں اسے بھی پتہ نہیں چلے گا کہ شاہ ہرقل کو غم نہیں بلکہ کچھ اور کھا رہا ہے ۔ ہر طبیب یہی کہے گا کہ شاہ ہرقل کی جو ذلت و خواری ہوئی ہے اور ہو رہی ہے اس کا اثر اس کی صحت پر بہت برا پڑا ہے۔
اٹھو!،،،،، زیادہ وقت نہ لگے مرتینا نے کہا۔۔۔ وہ یہ نہ کہہ بیٹھے کے طبیب اتنی دیر سے کیوں پہنچا ہے۔
یہ طبیب ادھیڑ عمر آدمی تھا چہرے مہرے ڈیل ڈول اور انداز سے دانشمند طبیب لگتا تھا۔ مرتینا اس سے تین چار سال ہی بڑی ہو گی لیکن وہ طبیب سے چھوٹی لگتی تھی، طبیب اٹھا اور مرتینا کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور اسے اپنے بازوؤں میں جکڑ لیا۔ مرتینا نے ذرا سی بھی مزاحمت نہ کی بلکہ اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دیا اور اتنا کہا کہ پہلے اپنا کام کر لو۔
پہلے مرتینا ہرقل کے کمرے میں داخل ہوئی اور اس کے پیچھے طبیب اندر گیا رک کر پہلے جھکا سیدھا ہوا اور دایاں بازو آگے کرکے رومی انداز سے ہرقل کو سلام کیا پھر تیزی سے آگے بڑھا اور ہرقل کی نبض پر ہاتھ رکھ دیا ۔نبض چھوڑ کر اس کے پپوٹے دونوں انگوٹھوں سے اوپر کیے اور اس کی آنکھوں میں جھانکا اس طرح ہرقل کا معائنہ کرکے اس کے قریب ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔
قیصر روم !،،،،،،،طبیب نے کہا ۔۔۔سلطنت روم آپ کے دم سے قائم ہے فتح و شکست انسان کے ساتھ ساتھ لگی آرہی ہے، آپ مجھ سے زیادہ عقل اور دانش رکھتے ہیں، اگر آپ نے اس طرح ہاتھ پاؤں چھوڑ دیے تو شکست آپ کے مقدر میں لکھ دی جائے گی، حوصلہ کریں اس تخت پر بیٹھے بیٹھے ہی آپ اس عارضی شکست کو فتح میں بدل سکتے ہیں، میں قیافہ شناس بھی ہوں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جو علاقے سلطنت روم سے نکل گئے ہیں ان سے کچھ زیادہ ہی علاقے واپس سلطنت روم میں آئیں گے۔ ملکہ معظمہ آپ کو دیکھ دیکھ کر اکیلی بیٹھی روتی رہتی ہیں میں انھیں بھی یہ یقین دلاتا ہوں کہ سلطنت روم مزید سکڑے گی نہیں بلکہ اب اس کی وسعت شروع ہوجائے گی۔
باتیں کم کرو۔۔۔۔۔ مرتینا نے ذرا غصے سے طبیب کو کہا ۔۔۔۔اگر تم ان کا علاج نہیں کرسکتے تو صاف بتا دو ہم تمہیں اس کی سزا نہیں دیں گے، دیکھو ان کی حالت کیا ہو گئی ہے ،یہ نہ رہے تو میں بھی نہیں رہوں گی۔
آج میں تم سے صاف جواب چاہتی ہوں۔
میں غم کھانے والا آدمی نہیں تھا۔۔۔ ہرقل نے کہا ۔۔۔میں اتنی کمزور فطرت کا آدمی ہوتا تو روم کے بادشاہ کا تختہ الٹ کر سلطنت روم کو اتنی وسعت نہ دے سکتا، اب ایک دکھ میرے دل پر اثر کیا ہے۔ دکھ یہ ہے کہ رومیوں میں بھی غدار موجود ہیں، پھر بھی تم اور اچھی طرح دیکھو، کوئی اور ہی روگ لگ گیا ہے ۔
میں دیکھ چکا ہوں قیصر روم !،،،،،طبیب نے کہا ۔۔۔میں آج دوائیاں بدل رہا ہوں ۔
میں تمہیں پورا موقع دے رہا ہوں۔۔۔ ہرقل نے کہا ۔۔۔جاؤ اور فوراً دوائیاں بھیجو۔
طبیب فوراً اٹھا اور رومی طریقہ ادب سے ہرقل کو سلام کرکے الٹے قدم دروازے تک گیا اور پھر باہر نکل گیا۔ مرتینا ہرقل کو یہ کہہ کر کمرے سے نکلی کے وہ طبیب کے ساتھ ایک آدمی کو بھیجے گی جو فوراً دوائیاں لے آئے گا ۔
مرتینا ایک بار پھر طبیب کو اپنے کمرے میں لے گئی اور پوچھا کہ اب اس کا کیا خیال ہے۔ کام جلدی ہوجائے گا ۔۔۔طبیب نے کہا ۔۔۔۔میرا اندازہ ہے کہ ڈیڑھ یا زیادہ سے زیادہ دو مہینے اور لگیں گے پھر اس تخت پر آپ کا بیٹا ہرقلیوناس بیٹھا ہوگا۔
میں اُس وقت تمہیں وہ انعام دونگی کہ تمہاری نسلیں بھی مجھے یاد کیا کریں گی ۔۔۔۔مرتینا نے کہا۔۔۔۔ میں تمہیں زیادہ دیر روکوں گی نہیں۔ دوائیاں جلدی بھیجو اور بتاؤ کیا چاہیے۔
آپ کا کام ہو رہا ہے۔۔۔۔ طبیب نے کہا۔۔۔ مجھ سے نہ پوچھا کریں کہ مجھے کیا چاہیے، اس کی بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ مرتینا دوسرے کمرے میں چلی گئی واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں سونے کا ایک ٹکڑا تھا جسے سونے کی اینٹ کہا جاتا ہے ۔
 آج کے حساب کے مطابق اس ٹکڑے کا وزن کم و بیش تیس تولے تھا۔
یہ پہلا ہی انعام نہیں تھا مرتینا اسے ایسے ہی انعامات سے نوازتی رہتی تھی ،طبیب جانے کے بجائے رکا رہا اور ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ لاکر ملکہ کو ایسی نگاہوں سے دیکھنے لگا جن نگاہوں کو مرتینا سمجھتی تھی، منہ سے بولو کیا چاہیے مرتینا نے پوچھا۔ آج کی رات کو ذرا رنگین بنانے کو جی چاہتا ہے ۔۔۔طبیب نے کہا ۔۔۔۔کوئی ادھ کھلی شام کے بعد بھیج دو تو تمہیں دعائیں دوں گا۔
 آجائے گی۔۔۔۔ مرتینا نے کہا۔۔۔ اس کلی کو دیکھ کر کہو گے کہ یہ تو ہمیشہ تمہارے پاس ہی رہے لیکن صبح کا اجالا نکلنے سے پہلے اسے بھیج دینا۔
 مرتینا نے ایک آدمی کو بلایا اور اسے کہا کہ وہ طبیب کے ساتھ جائے اور دوائیاں لے آئے۔
ہسپانوی مؤرخ فرڈنینڈ نے لکھا ہے کہ یہ ایسا راز تھا جو ملکہ مرتینا اور طبیب کے سوا کسی کو معلوم نہیں تھا، کسی کو شک نہ ہوا کہ ہرقل کو دوائیوں میں کوئی ایسی زہریلی دوائی دی جارہی ہے جو اسے اندر ہی اندر کھا رہی ہے، وہ بڑی ہی تیزی سے مرجھاتا اور معذور ہوتا چلا جا رہا تھا۔
 مرتینا ہرقل کو مارنے کا فیصلہ کچھ عرصہ پہلے کیا تھا جب اسے یقین ہو گیا تھا کہ ہرقل اپنے دوسرے بیٹے قسطنطین کو ہی اپنا جانشین بنائے گا ۔
مرتینا کے بیٹے ہرقلیوناس کے ساتھ تو ہرقل نے کبھی بات بھی نہیں کی تھی۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اسی رات طبیب کے اس خاص کمرے میں ایک نوخیز لڑکی داخل ہوئی جس کمرے میں طبیب کے گھر کا کوئی اپنا فرد بھی نہیں جاسکتا تھا، کوئی چلا بھی جاتا طبیب کو کسی غیر عورت کے ساتھ شراب پیتے یا رنگ رلیاں مناتے دیکھ بھی لیتا تو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، یہ عیش و عشرت اور یہ رنگین بدکاریاں رومی معاشرے کا ایک لازمی حصہ تھیں۔ اس طبیب کو تو اس کے گھر کا کوئی فرد اس لیے بھی روک ٹوک نہیں کر سکتا تھا کہ وہ ملکہ مرتینا کا منظور نظر تھا ،اور اس سے بیش قیمت انعامات لا کر گھر والوں کو دیتا تھا ۔
یہ لڑکی بھی انعام کے طور پر طبیب کے پاس آئی تھی اور یہ طبیب کا ذاتی انعام تھا۔
مرتینا نے طبیب کو ایسے ہی حسین اور دلکش انعام پہلے بھی بھیجے تھے، لیکن اس روز اس نے مرتینا سے کہا تھا کہ آج رات کوئی ادھ کھلی کلی بھیجے، طبیب نے جب اس لڑکی کو دیکھا تو کچھ دیر دیکھتا ہی رہا ، وہ صحیح معنوں میں ادھ کھلی کلی تھی، وہ حرم کی لڑکی تھی ایسی لڑکیاں عموماً ساقی کے طور پر کام کرتی تھیں، شاہی محفلوں میں یہ لڑکیاں نیم برہنہ لباس میں شراب پیش کیا کرتی تھیں اور انہیں خصوصی ٹریننگ دی ہوئی تھی ، اُس رات مرتینا نے طبیب کو خوش کرنے کے لیے ایسی ہی ایک لڑکی بھیج دی، حالانکہ ان لڑکیوں کو اس طرح استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔
مرتینا طبیب سے یہ بات سن کر بہت خوش ہوئی تھی کہ ڈیڑھ دو مہینے بعد اس کا بیٹا ہرقلیوناس ہرقل کے تخت پر بیٹھا ہوگا ، بات بڑی صاف تھی ہرقل کی زندگی ہی ڈیڑھ یا زیادہ سے زیادہ دو مہینے رہ گئی تھی، ملکہ مرتینا بڑی ہی خوبصورت ڈائن تھی۔
تمہارا نام؟،،، طبیب نے پوچھا۔
 میریاقس !،،،،لڑکی نے جواب دیا ۔۔۔مجھے میری بھی کہتے ہیں، اور میریا بھی۔
شاہی حرم میں بڑی ہی خوبصورت اور نوخیز لڑکیاں موجود تھیں اور ان میں سے دو چار طبیب کے پاس آئی بھی تھیں، لیکن اس لڑکی سے زیادہ حسین لڑکی اس نے نہیں دیکھی تھی ، طبیب پر تو نشے کی سی کیفیت طاری ہونے لگی، اس کی تو جیسے عقل ہی مغلوب ہو گئی ہو، اس نے مخمور سی آواز میں کہا۔۔۔ تمہارا سراپا ہی اتنا نشہ آور ہے کہ اس کی موجودگی میں روم کی بہترین شراب بھی بیکار لگتی ہے۔
شراب تو میں آپ کو اپنے ہاتھوں پلاؤں گی۔۔۔ میریا نے جذباتی لہجے میں کہا ۔۔۔میرے ہاتھ سے جو پیتا ہے وہ بادلوں کے سفید سفید ٹکڑوں پر اڑنے لگتا ہے۔
ملکہ مرتینا نے اس لڑکی کو اپنے کمرے میں بلا کر خاص طور پر کہا تھا کہ وہ اسے نہیں بھیجنا چاہتی تھی، لیکن طبیب کو خوش کرنا بہت ضروری ہے، اس لئے وہ جائے اور طبیب کو اپنے ہاتھ میں لے لے ،مرتینا نے وجہ یہ بتائی تھی کہ قیصر روم ہرقل بیمار ہیں اور یہ طبیب ان کا علاج کر رہا ہے، لڑکی سمجھ گئی تھی کہ اس طبیب کو آسمان تک پہنچانا ہے۔
طبیب کے ہاں جا کر میریا نے فوراً بھانپ لیا کہ یہ طبیب ذہنی طور پر کمزور اور ڈھیلا آدمی ہے ۔
میریا نے اپنی تربیت کے مطابق طبیب کے ساتھ ایسی حرکتیں اور باتیں شروع کردیں کہ طبیب احمقوں جیسی حرکتیں کرنے لگا ۔
میریا نے اسے شراب پلانی شروع کی اور پلاتی ہی چلی گئی پھر یوں لگتا تھا جیسے طبیب نہیں بلکہ میریا اس ادھیڑ عمر کے ساتھ کھیل رہی ہو۔
طبیب نے بہکی بہکی باتیں شروع کردی اس نے ملکہ مرتینا کی بات چھیڑ دی اور یہاں تک کہہ دیا کہ وہ چاہے تو ملکہ کو یہاں بلا کر پوری رات اپنے کمرے میں رکھ سکتا ہے۔
ملکہ مرتینا جب میرے پاس ہوتی ہے تو وہ ملکہ نہیں بلکہ صرف مرتینا ہوتی ہے ۔۔۔طبیب نے میریا پر اپنا رعب گانٹھنے کے لئے اور شراب کے زیراثر کہا ۔۔۔آج اس نے تمھیں میرے پاس بھیجا ہے یہ حرم ہے تو شاہ ہرقل کا لیکن اصل میں یہ میرا حرم ہے۔
میریا پر طبیب کا رعب بیٹھا تھا یا نہیں یہ الگ بات ہے، لیکن میریا کے لیے یہ بات عجیب تھی کہ ملکہ مرتینا طبیب کے پاس آتی ہے ، میریا کو یہ شک بھی ہوا کہ طبیب اپنا رعب جمانے کے لیے جھوٹ بول رہا ہے۔ میریا میں تجسس بیدار ہو گیا اور وہ اصلیت معلوم کرنے کی ضرورت محسوس کرنے لگی۔
اب میریا کا رویہ ایسا جذباتی اور اشتعال انگیز ہوگیا کہ طبیب کی اگر کچھ عقل صحیح رہ گئی تھی وہ بھی میریا کے قبضے میں آ گئی۔
تخت کے جانشین کے سلسلے میں شاہی محل میں جو کشمکش چل رہی تھی باہر کے کچھ لوگ اس سے واقف ہوگئے تھے اور شاہی محل کے اندر تو ادنیٰ درجے کے ملازموں کو بھی پتہ چل گیا تھا کہ ملکہ مرتینا اپنے بیٹے ہرقلیوناس کو ہرقل کا جانشین بنانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ اور ہرقل اس لڑکے کو قبول نہیں کر رہا ،اور اس کی جگہ بڑے بیٹے قسطنطین کو تخت پر بٹھانا چاہتا ہے،،،،،،، میریا کو تو یہ سب چکر پوری طرح معلوم تھا اس نے دیکھا کہ طبیب مرتینا کے ساتھ دوستانہ بے تکلفی کی باتیں کر رہا ہے تو میریا نے سوچا کہ اس سے معلوم کیا جائے کہ ہرقلیوناس جانشین ہو گا؟،،،، یا قسطنطین، میریا نے یہ بات چھیڑ دی۔
آپ کو تو بالکل صحیح معلوم ہوگا۔۔۔ میریا نے کہا ۔۔۔آپ کی عظمت کا اندازہ تو اس سے ہی ہوجاتا ہے کہ ملکہ مرتینا کے ساتھ آپ کی اتنی گہری دوستی ہے۔
 آپ کا کیا خیال ہے شاہ ہرقل کا جانشین کون ہوگا؟ 
 جسے میں چاہوں گا۔۔۔ طبیب نے لڑکھڑاتی زبان سے کہا۔۔۔ مرتینا کے بیٹے کے سوا اس تخت پر اور کوئی نہیں بیٹھ سکتا۔
اگر شاہ ہرقل کا حکم کچھ اور ہوا تو؟
شاہ ہرقل!،،،، طبیب نے طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔ اس شہنشاہ کی جان میری مٹھی میں ہے، چاہو تو کل اس کے جسم سے نکال لوں لیکن جو کام آہستہ آہستہ ہو جائے وہ زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
میریا نے اپنی تربیت اور پھر اپنے تجسس کی تسکین کے مطابق طبیب پر اپنے حسن اور اپنے ریشم جیسے ملائم بالوں اور گالوں کا سحر طاری کر دیا، اس کے ساتھ ہی شراب کا پیالہ اس کے ہونٹوں سے لگا دیا ،پھر جانشین کا مسئلہ چھیڑ دیا۔
طبیب نے بات صاف تو نہ کی لیکن میریا کو شک ہو گیا کہ شاہ ہرقل کو جو روگ کھا رہا ہے اس میں ملکہ مرتینا اور اس طبیب کا بھی ہاتھ ہے۔ طبیب پر ایک تو شراب کا اور پھر اس نوخیز لڑکی کے حسن کا خمار طاری تھا ۔اس لئے وہ غیر محتاط ہو کر اتنی نازک بات کر رہا تھا لیکن اسے یہ بھی معلوم تھا کہ حرم کی ایک لڑکی میں اتنی جرات نہیں ہو سکتی کہ وہ یہ بات کسی اور کے کانوں میں ڈال دے۔ بہرحال یہ حقیقت اپنی جگہ موجود تھی کہ میریا اس طبیب کے ذہن اور اعصاب پر ایک بڑا ھی حسین آسیب بن کر طاری ہو گئی تھی۔
رات گزر گئی میریا کی آنکھ اس وقت کھلی جب صبح ابھی تاریک تھی۔
 طبیب سانس لیتی ہوئی لاش کی طرح بے سود پڑا خراٹے لے رہا تھا ،میریا آہستہ آہستہ اٹھی اور باہر نکل گئی اس کی ڈیوٹی پوری ہو چکی تھی ،وہاں سے وہ اپنے حرم میں جا پہنچی۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اگلی رات میریا حرم سے پھر غیر حاضر تھی، گزشتہ رات تو ملکہ مرتینا کے حکم سے غیر حاضر ہوئی اور طبیب کے پاس گئی تھی، لیکن اگلی رات وہ چوری چھپے غیر حاضر ہوئی تھی وہ شاہی محل کے ساتھ ہی ایک بڑے ہی خوشنما اور روح افزا باغ میں ایسی جگہ بیٹھی ہوئی تھی جہاں اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا، وہ اکیلی نہیں تھی اس کے ساتھ ایک شہزادہ بیٹھا تھا جس کا نام کونستانس تھا۔
کونستانس ہرقل کے بیٹے قسطنطین کا بیٹا تھا یعنی ہرقل کا پوتا چونکہ ہرقل قسطنطین کو زیادہ عزیز رکھتا تھا اس لئے کونستانس سے بھی ہرقل بہت پیار کرتا تھا۔
 قسطنطین ادھیڑ عمری میں پہنچ گیا تھا اور کوننستانس کی عمر تیئس چوبیس سال تھی۔
یہ نوجوان انہیں شہزادوں میں سے تھا جو اپنے آپ کو شرم حجاب اور اخلاقیات کی پابندیوں سے آزاد سمجھا کرتے تھے، اپنے باپ کی حرم کو وہ اپنے اوپر حلال سمجھتے تھے، اورباپ کی پسند کی لڑکیوں کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے تھے۔
 کونستانس بھی کچھ اسی قماش کا شہزادہ تھا عیش و عشرت کے دوران اس کی نظر میریا پر پڑی تو اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔
بادشاہ کے حرم میں اسکے بیٹوں بھتیجوں وغیرہ کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی، لیکن شہزادے حرم کی نوکرانیوں اور ہیجڑوں کو اپنے ہاتھ میں رکھتے تھے انہیں چوری چھپے اس خدمت کا بڑا اچھا معاوضہ مل جاتا تھا، کوئی شہزادہ کسی نوکرانی کو انعام و اکرام دے کر کہتا کہ رات فلاں لڑکی کو باہر لے آنا تو نوکرانی خطرہ مول لے کر اس لڑکی کو لے آتی تھی ۔
کونستانس بھی ایسی ایک دو عورتوں کو اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا تھا اور وہ اس کی فرمائش پوری کرتی رہتی تھیں۔
اب کونستانس نے میریا کو ایک محفل میں دیکھا تو ایک عورت سے کہا کہ اس لڑکی کو کسی طرح مجھ سے ملواؤں اس نے اس عورت کو اچھا خاصہ انعام دیا اور عورت نے ایک رات میریا کو باہر نکال کر اس کے حوالے کر دیا۔
یہ پہلا موقع تھا کہ میریا اس طرح کسی شہزادے کی فرمائش پر چوری چھپے نکلی تھی۔ وہ بڑی قیمتی چیز سمجھی جاتی تھی اس لیے کوئی ملازمہ اسے باہر لانے کی جرات نہیں کر تی تھی، میریا کو معلوم تھا کہ وہاں درپردہ یہ کاروبار بھی چلتا ہے لیکن اس نے کبھی ایسی خواہش کی ہی نہیں تھی۔
 اب ایک پرانی اور بہت ہی چالاک ملازمہ نے اسے کہا کہ قسطنطین کا بیٹا کونستانس اس کی ملاقات کا خواہشمند ہے تو اس نے کچھ پس و پیش کی۔
ملازمہ نے اسے بتایا کہ وہ انکار کا خطرہ مول نہ لے کیونکہ یہ شہزادے کسی بھی طرح انتہائی ذلیل انتقام لے سکتے ہیں ، اور اگر وہ چلی جائے گی تو اس شہزادے سے منہ مانگا انعام لے سکتی ہے۔
 وہ رضا مند ہوگئی اور رات ملازمہ اسے کسی طرف سے باہر لے گئی اور کونستانس کے حوالے کردیا۔
یہ کوئی چھ سات مہینے پہلے کا واقعہ ہے کہ ان دونوں کی پہلی ملاقات ہوئی تھی میریا نے کونستانس کو بتایا کہ وہ باہر آنے سے ڈرتی تھی اور وہ اس زمین دوز کاروبار کو اچھا نہیں سمجھتی اس نے یہ بھی بتایا کہ شہنشاہ ہرقل نے صرف دو راتیں اسے اپنے پاس رکھا تھا اور پھر اسے شاہی محفلوں میں مہمانوں کو شراب پیش کرنے کا کام سونپ دیا اور اس کی تربیت بھی کی مختصر یہ کہ وہ اپنے آپ کو مردوں سے بچا کر رکھنا چاہتی تھی۔
تمہاری یہ بات سن کر مجھے خوشی ہوئی ہے میریا!،،،،، کونستانس نے کہا۔۔۔ میں نے تمہیں اس مقصد کے لئے نہیں بلایا جو تم سمجھ رہی ہوں میرے دل میں تمہاری محبت پیدا ہوگئی ہے میں تمہیں مجبور نہیں کرسکتا کہ تم اپنے دل میں میری محبت پیدا کرو محبت جبر سے پیدا نہیں ہوا کرتی نہ ہی محبت کا معاوضہ دیا جا سکتا ہے۔
میں نے اپنے دل کی بات کہہ دی ہے ۔۔۔میریا نے کہا ۔۔۔اور یہ صرف اس لئے کہی ہے کہ میں تمہیں ان شہزادوں جیسا شہزادہ سمجھتی ہوں جو حرم میں اسی طرح کی ڈاکہ زنی کرتے رہتے ہیں تم محبت کی بات کرتے ہو محبت کسے عزیز نہیں مجھے میرے ماں باپ سے نوچ کر یا جبراً خرید کر قید میں ڈالا گیا ہے، میں تو محبت اور پیار کو ترس گئی ہوں، اگر تم نے مجھے اپنی ہوس کی تسکین کے لیے بلایا ہے تو میں تمہارے لئے گوشت اور ہڈیوں کا بنا ہوا ایک بت ہوں جو تمہارے سامنے موجود ہے، اور اگر بات اس محبت کی کرتے ہو جس کا تعلق جسمانی ہوس کے ساتھ ہوتا ہی نہیں تو مجھے آزماء کر دیکھ لو تمہاری محبت پر جان بھی قربان کر دوں گی۔
یہاں سے ان کی محبت کا آغاز ہوا دونوں بہت دیر شاہی باغ کے ایک کونے میں بیٹھے رہے تھے، جب میریا جانے لگی تو کونستانس نے اسے کچھ نقد معاوضہ پیش کیا۔
 میریا نے یہ نقدی دیکھی پھر کونستانس کے چہرے پر نظریں جماۓ اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
 کونستانس نے اسے بازوؤں میں لے کر ساتھ لگا لیا۔
اس محبت کو یوں توہین نہ کرو۔۔۔ میریا نے کہا۔۔۔ جب تمہارا اشارہ ملے گا میں آجایا کرو گی۔
اور میں ایک خاص انتظام کر دوں گا ۔۔۔۔۔کونستانس نے کہا ۔۔۔۔میں حرم کی تمام عورتوں اور ہیجڑوں کو کہہ دوں گا کہ کوئی شہزادہ تمھاری فرمائش کرے تو صاف انکار کر دینا، البتہ تمھیں شاہ ہرقل اور ملکہ مرتینا کے حکم سے کسی کے حوالے کیا گیا تو یہ میرے بس سے باہر ہوگا۔
اگلے ہی روز کونستانس نے یہ انتظام کردیا حرم کی تمام عورتوں اور ہجڑوں کو شدید نتائج کی دھمکی دے کر کہا کہ میریا کو اس درپردہ کاروبار میں استعمال کیا گیا تو اسے باہر لے جانے والی کو زندہ نہیں رہنے دیا جائے گا۔
اس کے اس حکم پر عمل ہوتا رہا میریا اور کونستانس اسی باغ میں ملتے رہے، اور وہ ایک دوسرے میں اتنے جذب اور تحلیل ہو گئے تھے کہ انہیں بعض ملاقاتوں میں یہ بھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ رات گزر گئی ہے ،اور پرندوں کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں ،اس محبت کا ایک اثر تو یہ دیکھا کہ میریا کو کوئی اور اپنی فرمائش پر نہیں بلاتا تھا ،اور دوسرا اثر یہ کہ کونستانس کا دھیان کبھی کسی اور لڑکی کی طرف نہ گیا۔
کونستانس قسطنطین کا بیٹا تھا اور قسطنطین کو ہرقل نے تجربہ کار جرنیل بنا دیا تھا اس نے لڑائیاں لڑی تھی اور میدان جنگ میں قیادت میں مہارت حاصل کر لی تھی اس نے ایسی ہی تربیت بیٹے کونتانس کی بھی کی ۔ یہ نوجوان فن حرب و ضرب میں بھی طاق ہو گیا تھا اور شاہی معملات و امور کو بھی بڑی اچھی طرح سمجھتا تھا اور انتظامی امور میں تو اچھی خاصی سوجھ بوجھ رکھتا تھا۔
اس تعلیم و تربیت کا یہ اثر تھا کہ کونتانس کا شمار آوارہ شہزادوں میں نہیں ہوتا تھا۔
 پہلی ملاقات کے چھ سات مہینے بعد کونتانس اور میریا ایک بار پھر باغ کے اسی ڈھکے چھپے کونے میں بیٹھے ایک دوسرے میں گم تھے۔
آج تمہیں ایک بات بتاتی ہوں میریا نے کہا ۔۔۔۔لیکن ابھی یہ دل میں ہی رکھنا میری گزشتہ رات اس طبیب کے ہاں گزری ہے جو شہنشاہ ہرقل کا علاج کر رہا ہے ،وہ ہے تو طبیب لیکن اس سے زیادہ احمق آدمی اور شاید کوئی نہ ہو مجھے ملکہ مرتینا نے اس کے یہاں جانے کا حکم دیا تھا ،طبیب تو مجھے دیکھ کر آپے سے باہر ہوگیا میں نے اسے شراب پلائی اور وہ پیتا ہی گیا ،اور جو اس نے باتیں کیں اس سے پتہ چلا کہ اس شخص کے اندر سے میں کوئی بھی راز نکال سکتی ہوں، اور اس کے ہوس پوری کئے بغیر رات بھی گزار سکتی ہوں،،،،،،،،،،، یہ سن کر تم کیا کرو گے کہ میری یہ رات کس طرح گزری یہ سن لو کہ وہ مجھ سے اتنا مرعوب اور مغلوب ھوا کہ اس کے دل میں سے ایک دو ایسی باتیں نکل گئیں جن سے میں ایک شک میں مبتلا ہو گئی ہوں۔ پہلی بات یہ ہے کہ وہ اس کوشش میں ہے کہ ہرقلیوناس ہرقل کا جانشین بنے، ملکہ کے متعلق اس نے ایسی باتیں کیں جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا تھا کہ ملکہ کے ساتھ اس کی کوئی اور ہی بے تکلفی ہے۔
اسمیں کوئی شک والی بات نہیں ۔۔۔۔۔کونتانس نے کہا۔۔۔۔ملکہ چاہتی ہے کہ شاہ ہرقل صحت یاب ہوجائیں، اسی لئے اسے خوش کررہی ہے ۔وہ دراصل شاہ ہرقل کو خوش رکھنے کی کوشش میں ہے کیونکہ وہ اپنے بیٹے کو انکا جانشین بنانا چاہتی ہے ۔
میرا شک پھر بھی وہیں قائم ہے ۔۔۔۔میریا نے کہا۔۔۔۔شک یہ ھیکہ ملکہ کی رضامندی سے طبیب شاہ ہرقل کو غلط یا زہریلی دوائیاں دے رہا ہے جن سے انکی صحت بڑی تیزی سے گرتی چلی جارہی ہے ۔
میرا خیال ہے طبیب ایسی جرات نہیں کر سکتا ۔۔۔کونتانس نے کہا۔۔۔۔ہمیں یہ بات ابھی کسی سے کرنی نہیں چاہئے ۔اگر کی تو بتانا پڑے گا یہ بات تمہاری زبان سے نکلی ہے ۔میں جانتا ہوں اسوقت سلطنت روم پر حکومت ملکہ مرتینا کی ہے اس تک تمہارا نام پہونچا تو تمہیں قتل کروا دے گی ۔اگر ملکہ پھر کبھی تمہیں طبیب کے ہاں بھیجے تو پھر یہ راز نکلوانے کی کوشش کرنا ۔وہ اگر تمہارے حسن اور تمہاری نوجوانی سے مرعوب ہے تو وہ راز اگل دے گا ۔
میں راز اگلوانا چاہتی ہوں ۔۔۔۔میریا نے کہا۔
دونوں نوجوان تھے ان پر رومانی جزبات کا غلبہ تھا اور ایسی کیفیت طاری تھی کہ میریا کی بتائی ہوئی بات جیسے اوپر سے گزر گئی ہو لیکن اتنا ضرور ہوا کہ ملکہ مرتینا اور طبیب کے درمیان جو راز تھا، اس سے پردہ اٹھ گیا تھا۔

#جاری_ہے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.