Ads Top

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر48 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi

 by 

Abu Shuja Abu Waqar 


غازی از ابو شجاع ابو وقار
 پیشکش محمد ابراہیم
48 قسط نمبر
 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar 
Presented By Muhammad Ibraheim
 Episode 48
چند دنوں سے میں محسوس کر رہا تھا کہ میری غیر محسوس طریقے سے نگرانی کی جا رہی ہے ہوٹل کی لابی سفارت خانے شیرپنجاب ہوٹل غرض ہر جگہ آدمی میرے پیچھے پیچھے رہتے تھے میں نے اپنا پیچھا کرنے والوں سے جان چھڑانے کی بجاے انکی اصلیت اور ارادے جاننے کی کوشش کرنے لگا چنانچہ میں نے ایک دن سفارت خانے جانے کے لیے سائیکل رکشہ لیا مگر سفارت خانے کے آدھے راستے جانے کے بعد میں نے اسے بازار جانے کا کہ دیا تو اسنے رکشہ واپس بازار کیطرف موڑ لی پیچھا کرنے والوں نے بھی اپنے رکشے میرے پیچھے موڑ لیے اب مجھے یقیں ہو گیا کہ واقعی میری نگرانی کی جا رہی ہے نگرانی کرنے والے نو افراد تھے جن میں 4 بنگالی اور 5 دوسرے قد کاٹھ کے اونچے لمبے تھے میں نے اپنا پسٹل جو میرے پاس ہی ہوتا تھا ساتھ میں ایک کھلھری بھی اپنی کمر کے ساتھ باندھنا شروع کر دی ایک دن میں ایمبیسی جاتے ہوئے راستے میں ہی رکشہ روک لیا پیچھا کرنے والوں نے بھی اپنے رکشے روک لیے میں رکشہ سے اتر کر ان کے پاس گیا اور کرختگی سے پیچھا کرنے کی وجہ پوچھی وہ اس اچانک صورت حال کے لیے تیار نہ تھے لگے ادھر ادھر کی کرنے میں نے کھکھری نکال کر حملہ کرنے کے انداز میں پکڑ لی اور کہا کہ آئندہ اگر میرا پیچھا کیا تو تمہارا وہ حشر کروں گا جو تمہارے 9 ساتھیوں کا ہو چکا ہے یہ سن کر انہوں نے رکشے واپس موڑے لیے اس کے بعد انہوں نے کبھی میرا پیچھا نہیں کیا اس سے ثابت ہوا تھا کہ وہ بھارتی سفارت خانے کے نچلے درجے کے ملازم تھے اور جو وہ
جاننا چاہتے تھے انہیں اس کا چہرہ ہو گیا تھا
 اسی شام ہوٹل کی لابی میں میں ایسے 3 افراد کو بیٹھے دیکھا جو میری نگرانی کرنے والوں میں بھی شامل تھے میں سیدھا ریسیپشن پر گیا اور ریسیپشن سے کہا کہ اگر یہ آپکا فائیو سٹار ہوتا ہے تو پھر غیر ضروری افراد یہاں پر کیوں آتے ہیں جو یہاں رہتے ہی نہیں اگر یہ آپ سمجھتے ہیں کہ ہر ایک کے لیے ہر وقت کھلا ہے تو پھر اسکو فائیو اسٹار نہ کہیں اور ساتھ اسکا کرایہ بھی کم کر دیں ریسیپشن حیرت سے میری طرف دیکھ رہا تھا اس نے پوچھا کہ کیا وجہ بنی جو آپ ایسا کہہ رہے ہیں میں نے ان 3 افراد کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہاں نہیں رہتے اور میں انہیں 3 دن سے ہر روز یہاں لابی میں بیٹھے دیکھ رہا ہوں آپ نے کبھی ان سے پوچھا ہے کہ وہ یہاں کیا لینے آتے ہیں اور کس سے ملنا ہے انہیں ریسیپشن سیدھا ان 3 افراد کی ٹیبل پر گیا اور پوچھا کہ انہوں نے کس سے ملنا ہے تو وہ لوگ کوئی مناسب جواب نہ دے سکے مینجر ریسیپشن نے گیٹ پر گارڈز کو بلایا اور کہا کہ ان تینوں کو دھکے مار باہر چھوڑ آؤ گارڈز نے انہیں گیٹ سے آؤٹ کر دیا ساتھ میں بھی باہر آ گیا اور ان تینوں سے کہا کہ میں کئی دن سے دیکھ رہا ہوں تم لوگ میری نگرانی کر رہے ہو میرے ہوٹل میں آنے جانے کے اوقات ملنے والے کون کون ہیں سب کو دیکھ رہے ہو یہ پہلی بار ہے اگر آئندہ مجھے نظر آے تو گولیوں سے بھون دوں گا وہ بھی اس کے بعد نظر نہ آے لیکن اس کے بعد بھی میری نگرانی ختم نہیں ہوئی اس کے بعد منجے ہوئے تجربہ کار جاسوس میرے پیچھے لگاے گئے یہ سب بھی بھارتی سفارت خانے کیطرف سے تھا بھارت کی نسبت یہاں صورتحال بلکل مختلف تھی وہاں ہم چھپ کر وار کرتے تھے جبکہ یہاں پر دو دشمن آمنے سامنے تھے دونوں میں فرق صرف یہ تھا کہ بھارتی میرے مقابلے پر سینکڑوں لاسکتے تھے جبکہ میں انکے مقابلہ کے لیے اکیلا تھا میرے وسائل محدود جسمیں ایک پسٹل اور کھکھری تھی جبکہ میں اللہ کی مدد کے سہارے ان کے دو بدو آ گیا اب بھارتی سفارت خانے نے اک نئی چال چلی مجھے پھانسنے کے لیے انہوں نے اپنا نہایت تجربہ کار بھارتی ایجنٹ کو میرے پیچھے لگایا یہ ایجنٹ خفیہ سرگرمیوں کو کور دینے کے لیے نیپال میں ایک کاروباری کی حیثیت سے رہتا تھا اسکی کھٹمنڈو میں مین روڈ پر راجہ بازار میں دو دوکانیں تھیں ایک دوکان دیوی کے محل نما عمارت کے ساتھ جبکہ دوسری کشمیریوں کی بستی کے قریب تھی دیوی کی محل کے قریب والی جنرل اسٹور اور مرچنٹ کی جبکہ کشمیری بستی کے پاس والی کشمیری شالوں والی تھی اسکے متعلق مجھے ملنے والے مہاجرین نے بتایا تھا یہ شخص مہاجروں کا بڑا ہمدرد بنا ہوا تھا کہتے تھے کہ ہے تو بھارتی ہندو مگر بڑا درد مند انسان ہے جنرل مرچنٹ کی دوکان پر صرف رجسٹریشن کارڈ نمبر دیکھ کر مہاجروں کو مختلف برانڈ کے سگریٹ چیونگم اور دوسری اشیاء تھوک سے بہت کم قیمت پر بیچنے کو دیتا ہے لکڑی کی ٹرے جس سے چمڑے کی بیلٹ گلے میں ڈالنے کی لیے بیلٹ بھی فری دیتا ہے مہاجر ان میں مختلف سامان رکھ کر شہر کے مختلف علاقوں خصوصاً ان گھٹیا آور کم کراے والے گیسٹ ہاؤسز کے قریب یہ سامان بیچتے ہیں جہاں مغرب سے آنے والے ٹھہرتے ہیں وہ صحیح ضرورت مند مہاجر کی مدد کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا مہینے میں ایک دو بار بھارت جاتا ہے اور فروختگی کے لیے سامان لاتا ہے جب سے اسے آپ کے مہاجرین میں کمبل اور پیسے تقسیم کرنے کا پتہ چلا ہے وہ آپکا پرستار بن گیا ہے ہر وقت آپکی تعریف کرتا ہے اور آپ سے ملنے کا بے حد شائق ہے لیکن وہ کہتا ہے کہ میں بھارتی ہندو ہوں ہو سکتا کہ آپ مجھ سے اچھا سلوک نہ کریں حالانکہ میں اپنے ملک بھارت کی مشرقی پاکستان میں کی گئی ذلیل حرکت کا کفارہ ادا کررہا ہوں مہاجروں نے کچھ اس طرح سے اس کے قصیدے پڑھے کہ میں اس سے ملنے کو تیار ہو گیا اور ایک شام اسے اپنے ہوٹل میں مدعو کر لیا وہ رائٹ ٹائم پر آ گیا اور میں اسے کافی شاپ میں لے گیا شکل و صورت اور لب و لہجہ سے وہ بھارت پنجاب کا رہنے والا لگتا تھا اس نے بتایا کہ اسکا نام وجے کمار ہے اور وہ انبالے کا رہنے والا شرنارتھی مہاجر ہے تقسیم ہند سے پہلے وہ گوجرانوالہ محلہ گورونانک پورہ میں رہتا تھا وہیں اس نے میٹرک پاس کیا اور اپنے والد صاحب کے ساتھ کاروبار میں لگ گیا والدین کا اکلوتا تھا اور لاڈلہ بھی تقسیم ہند کے بعد ہم لوگ انبالہ آ گئے والد صاحب کے کاروبار نے یہاں پہنچ کر بہت ترقی کی انبالے میں ہی اسکی شادی ہوئی اور دو لڑکے پیدا ہوئے اسکا گھرانہ نہایت خوش حال زندگی بسر کر رہا ہے گوجرانوالہ سے آتے ہوئے پتا جی کے مسلمان دوستوں نے پتا جی کی بہت مدد کی سواے دوکان اور مکان کے سب سامان پتا جی سے مسلمانوں نے خرید لیا تھا اور اسی سرمائے سے پتا جی نے کاروبار شروع کر دیا آج سے 6 سال قبل تیرتھ کی یاترا سے واپسی پر اسکے گھر والوں کا ایکسیڈینٹ ہو گیا سب ایکسیڈینٹ میں مارے گئے صرف وہ زندہ بچا کیوں کہ وہ یاترا پر اپنے کاروبار کی دیکھ بھال کیوجہ نہیں گیا تھا اتنے بڑے حادثے کے نتیجے میں میں اپنے حواس کھو بیٹھا آخر کئی ماہ کے علاج کے بعد میں ٹھیک ہوا انبالہ اب کاٹنے کو دوڑتا تھا آخر ایک دوست نے مشورہ دیا کہ کھٹمنڈو چلے جاؤ تو طبیعت بہل جاے گی چنانچہ میں کھٹمنڈو چلا آیا اور پھر یہی کا ہو کر رہ گیا انبالہ سے کاروبار کلوز کیا اور یہاں دو دوکانیں لیں اور روزگار کمانا شروع کر دیا اس نے ابھی تک دوبارہ شادی نہیں کی اپنی یادوں کو بھلانے کی کوشش. کر رہا ہوں جب یہاں مہاجر آے تو انکی کمپسری دیکھ کر اپنا ماضی یاد آ گیا لہذا میں نے انکی مدد کرنے کا فیصلہ کر لیا میں سب کی ہیلپ تو نہیں کر سکتا تھا لہذا میں نے انکو پھیری لگا کر چیزیں بیچنے کی ترغیب دی انکو اشیاء تھوک سے بھی کم قیمت بیچ دیتا ہوں جیسے یہ سیل کر کے 25 یا 30 روپے روزانہ کما لیتے ہیں جب آپکے متعلق سنا کہ آپ نے مہاجروں کی مالی امداد کی ہے تو آپ سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا اور اب آپ کے چرنوں میں بیٹھا ہوا ہوں وجے نے اپنی داستان اتننے دکھ برے انداز میں سنائی پھر اپنے زخموں کو یاد کر کے مہاجروں کی ہیلپ کرنا اور انکو روز گار دینا اور انکی مالی امداد کرنا واقعی مذہب سے ہٹ کر ایک قابل تحسین بات تھی اور وہ یہ خدمت 3 سال سے کر رہا تھا لہذا میں اسکی دوکان پر گیا مہاجروں میں سامان تقسیم کرتے دیکھا انکو کاروبار کی تلقین کرتے دیکھا اسی طرح کئی بار میں اس کی دوکان پر گیا اور ہوٹل انوائیٹ کیا اسی طرح ہم ایک دوسرے کے قریب آ گئے
 شام کا وقت کاٹنا میرے لیے بہت تکلیف دہ ہوتا تھا محسن بھی میرا اچھا دوست نہ بن سکا اس نے بھی اپنے آپکو صرف مشن تک محدود رکھا اور بہت سے ایجنٹ اس نے بے نقاب کیے اس کمی کو وجے نے پورا کیا ہماری شامیں اکثر اکھٹے گزرنے لگیں ایک بار وہ انڈیا مال لینے گیا تو واپسی پر میرے بہت سارے کاجو لے آیا میں نے پوچھا کہ آپکو کیسے پتا چلا کہ مجھے کاجو پسند ہیں تو اس نے کہا کہ ایک دن باتوں باتوں میں آپ نے کہا تھا کہ میں کاجو کھاتے ہوئے نہی تھکتا سو اس لیے لے آیا اس نے کہا کہ وہ یہ سب سامان لکھنؤ سے خریدتا ہے اور رکسول تک ٹرین میں آتا ہے آگے رکشے پر لے کر آتا ہے میں نے کبھی اس سے کسی بھی معاملے پر بحث نہیں کی اور نہ کبھی اس نے میں جو بھی بات کرتا وہ میری ہاں میں ہاں ملاتا میں بھی بہت زخمی تھا روحانی طور پر بھی بھارت میں پکڑنے جانے کے بعد مجھ میں تشدد کیوجہ سے پہلے والی بات نہیں رہی تھی وجے نے اپنا ماضی میرے سامنے کھول کر رکھ دیا تھا لیکن اس نے میرے متعلق کبھی کچھ نہیں پوچھا تھا اسکی اس خوبی کیوجہ سے میں اس کے اور قریب ہو گیا ایک شام وجے میرے پاس آیا اور ادھر ادھر کی باتوں میں اس نے کہا کہ انبالہ سے اس کے کچھ دوست کھٹمنڈو آے ہیں مگر وہ کٹر ہندو ہیں وہ یہی ہوٹل میں ٹھہریں گے اگر ان سے آپکا آمنا سامنا ہو جاے تو انکو میرے متعلق نہ بتائیے گا بلکہ لاتعلقی اور بے پرواہی سے پاس سے گزر جایئے گا میں اسکی یہ خوبی دیکھ کر اسکا معترف ہو گیا مگر مجھے کیا پتہ تھا کہ میرے خلاف سازش تیار ہو رہی ہے اور وجے اس سازش کا مرکزی کردار ادا کر رہا ہے وجے کے دوستوں کی موجودگی کے دوران میں نے اپنے سفارت خانے کے جنرل اٹاچی کو کال کی کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں کچھ اہم معلومات ملی ہیں ان کے بارے میں ڈسکس کرنا چاہتا ہوں ایمبیسی میں اگر ان سے ملوں تو باقی افراد چوکنا ہو جائیں گے میرا ہوٹل بھی اس ملاقات کے لیے موزوں نہیں ہے کیونکہ یہاں پر میری نگرانی ہو رہی ہے ملٹری اٹاچی نے کچھ دیر سوچ کر جواب دیا کہ ایسی صورتحال میں بہترین جگہ چنگ وا چائنیز ہوٹل بہتر رہے گا انہوں نے کہا کہ آج رات 8 بجے وہی آ جاؤں یہ ریستوران کھٹمنڈو کے پوش علاقے میں تھا میں رات 8 بجے وہاں پہنچ گیا اور اٹاچی صاحب بھی تقریباً اسی ٹائم وہاں پہنچے ہم ایک ہاف کیبن میں بیٹھ گئے اور کھانے کا آرڈر دے دیا میں نے محسن کی اکٹھی کردہ معلومات انہیں بتائیں اور کہا کہ پاکستان بھیجنے کے لیے کور کی ایک مہاجروں کی جاسوسی ٹیم پاکستان بھیجی جا رہی ہے اور کئی مکانات میں انکی برین واشنگ کا سلسلہ جاری ہے میرا پلانٹیڈ آدمی خود ایسی کئی جگہوں پر شامل ہوا ہے جہاں یہ کام ہو رہا ہے مجھے تو یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جب دوبارہ افغان ائیر لائن کا سلسلہ شروع ہو گا جاسوسوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان پہنچ جاے گی ملٹری اٹاچی نے میری باتیں غور سے سنیں اور کہا کہ میرے اپنے مخبروں نے بھی مجھے ایسی اطلاعات دی ہیں میں یہ بھی جانتا ہوں کہ مہاجروں کے بھیس میں چھپے مکتی باہنی کے 8 جاسوسوں کو ٹھکانے لگانے میں آپکا ہاتھ ہے ان 8 سے تو ہماری جان چھوٹ گئی مگر باقی ان برین واش کرنے والوں کے متعلق ہم جان کر بھی کچھ نہیں کر سکتے ان مہاجروں کے بھارت میں قیام کے دوران انکی کسی مجبوری کے تحت بھارتی انٹیلیجنس نے انکو اس کام پر مجبور کیا ہے اور انکی مالی امداد بھی وہی کر رہے ہیں ملٹری اٹاچی نے اپنی مجبوری بھی بتا دی اسے اپنا ہر کام قانون کے دائرے میں ہی رہ کر کرنا پڑتا تھا ملٹری اٹاچی نے یہ وعدہ ضرور کیا کہ جونہی کوئی نئی بات اس کے سامنے آئی تو وہ مجھے ضرور بتاے گا ہماری یہ میٹنگ ختم ہوئی تو میں افسردہ دل لیے واپس ہوٹل آ گیا میرے سامنے میرے بچے کھچے گھر کو اجاڑ ڈالنے کے اسباب ہو رہے تھے اور میں اکیلا کچھ نہ کر سکتا تھا ایسی صورت حال میں مجھے قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنے والوں کی نہیں بلکہ ایسے افراد کی ضرورت تھی جو میرے گھر کو بچانے کے لیے بے خوف خطر ہر آگ میں کود جاتے دہلی سے قیصر پارٹی کو بلانا ان کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا تھا نیپالی پولیس نے بظاہر تو مکتی باہنی کے قتل کیس کو پس پشت ڈال دیا مگر میں جانتا تھا کہ انکی انٹیلیجنس خاموش نہیں بیٹھی ہو گی رازداری انکا اولین اصول تھا وہ صرف اسی وقت ظاہر ہوتے تھے جب انکے ہاتھ مکمل ثبوت آ جائیں اگر مسئلہ صرف اب برین واش کرنے والوں کی ذات تک محدود ہوتا تو انکو پہلی فلائیٹ سے ہی پاکستان بھجوا دیتے اور جہاں پر میرا محکمہ ان کے اسقبال اور سب کچھ ان سے اگلوانے کے لیے موجود ہوتا مگر فلائٹ کے جانے کا کہیں دور دور تک نشان نہیں تھا جب تک فلائٹ شروع ہوتی یہ برین واش کرنے والے نہ جانے کتنے مہاجروں کا برین واش کر چکے ہوتے پاکستان جانے والے تمام مہاجروں کی جانچ پڑتال کرنا نامکمن تھی میں بڑے مخمصے میں پھنس گیا تھا اگر انکو ہلاک کر دیا جاتا تو انکے بچے بے یارومددگار رہ جاتے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جاے اسی سوچ میں کئی روز گزر گئے مگر حل کوئی سمجھ میں نہ آیا ایک روز میں چنگ وا ریسٹورنٹ میں شام کا کھانا کھانے گیا وہاں ریسیپشن پر جو چینی لڑکی ہوتی تھی وہ مسلمان تھی اس نے مسلم طریقہ سے سر کو ڈھانپ رکھا ہوتا تھا اس دن بھی میں کھانا کھانے لگا تو وہی چینی لڑکی میرے پاس آئی اور مسکراتے ہوئے کہنے لگی کہ 3 چینی مسلمان تم سے ملنا چاہتے ہیں پچھلے دن جب آپ یہاں آے تھے وہ آپکا پیچھا کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے تھے تمہارے ساتھ تمہارے سفارت خانے کا افسر تھا اس لیے وہ آپ سے مل نہ سکے لڑکی نے بتایا کہ انہوں نے مجھے کہا تھا کہ آئندہ جب میں کھانا کھانے وہاں آؤں تو اس سے ہمارے ملنے کے متعلق بات چیت کرنا لڑکی نے کہا کہ ہوٹل کے پاس ہی میرا گھر ہے اور وہ محفوظ بھی ہے اس لیے وہاں آپکی ان سے ملاقات بہتر رہے گی لفظ محفوظ سن کر مجھے پتہ چل گیا کہ میری شہرت یہاں بھی پہنچ گئی ہے میں نے ہامی بھر لی کھانا کھانے کے بعد میں اس لڑکی کے ساتھ اس کے گھر میں چلا گیا اس نے مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا جو چائینز چیزوں سے سجا ہوا تھا اس نے مجھے وہاں بٹھایا اور کہا کہ آدھے گھنٹے بعد وہ لوگ یہاں پہنچ جائیں گے اس نے بتایا کہ ملاقات کے دوران وہ بھی یہاں موجود رہے گی کیونکہ ان لوگوں کو انگریزی بولنا نہیں آتی اور میں اان کے اور تمہارے درمیان مترجم کا کام کروں گی اور ایک بات وہ تمہارے دشمن نہیں ہیں دوست ہیں
 جاری ہے

Next Episode


No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.