Aur Neil Behta Raha By Inyat Ullah Altamish Episode No. 53 ||اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش قسط نمبر 53
Aur Neel Behta Raha
By
Annyat Ullah Altamish
اور نیل بہتا رہا
از
عنایت اللہ التمش
#اورنیل_بہتارہا/عنایت اللہ التمش
#قسط_نمبر_53
مقوقس کو توقع تھی کہ اس کا بھیجا ہوا پادریوں کا وفد شام سے پہلے پہلے جواب لے کر واپس آجائے گا ،وہ کسی لمبے سفر پر نہیں گئے تھے دریا کی چوڑائی جتنا فاصلہ تھا، وفد کو دوسرے کنارے تک جانا تھا لیکن وفد اس رات واپس نہ آیا اگلا دن اگلی رات اور اس سے اگلا دن بھی گزر گیا تب مقوقس نے کہا کہ مسلمانوں نے وفد کو قید کر لیا ہے یا قتل کردیا ہے۔
دو دنوں بعد وفد واپس آ گیا ،مقوقس نے پہلی بات یہ پوچھی کہ وہ دو دن وہاں کیا کرتے رہے ہیں؟
انہوں نے ہمیں پورے احترام سے روکے رکھا تھا ۔۔۔۔بڑے پادری نے کہا ۔۔۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں نے ہمیں صرف اس لئے روکا تھا کہ ہم اپنی آنکھوں مسلمانوں کا حوصلہ اور عزم کی پختگی دیکھ لیں، ہم اپنی دلچسپی کی خاطر لشکر کو دیکھتے رہے کہ ان کا رہن سہن اور دیگر عادات و حرکات کیسی ہیں ہم سب نے مسلمانوں کو اتنے قریب سے پہلی بار دیکھا ہے۔
مقوقس نے مزید بات سننے سے پہلے کہا کہ اسے بتایا جائے کہ سپہ سالار نے کیا جواب دیا ہے۔۔۔۔ بڑے پادری نے سپہ سالار عمروبن عاص کا تحریری پیغام مقوقس کے ہاتھ میں دے دیا۔
عمرو بن عاص نے لکھا تھا میں پہلے بھی ایک بار فرمانروائے مصر کو بتا چکا ہوں کہ ہم ان شرائط پر صلح کی پیشکش قبول کر سکتے ہیں چونکہ یہ شرائط میری نہیں بلکہ میرے دین اسلام کی ہیں، اس لیے میں ان میں ذرا بھی کمی بیشی نہیں کرسکتا ایک بار پھر بتا دیتا ہوں کہ صرف تین صورتیں ہیں کوئی سی بھی قبول کر لو صلح سمجھوتہ ہوسکتا ہے۔ اسلام قبول کر لو پھر تم ہمارے بھائی ہو گے۔ تمہارے اور ہمارے حقوق یکساں ہوجائیں گے۔ اگر یہ قبول نہیں تو دوسری صورت یہ ہے کہ ہماری اطاعت قبول کرو اور ہمارا مقرر کیا ہوا جزیہ ادا کرو ، تیسری صورت یہ کہ ہم جنگ بندی نہیں کریں گے بلکہ لڑیں گے اور ہمارے تمہارے درمیان فیصلہ اللہ کرے گا سب سے اچھا فیصلہ کرنے الا اللہ ہی ہے جس کا پیغام ہم تمہارے لئے لائے ہیں۔
مقوقس نے عمرو بن عاص کا یہ جواب سب کی موجودگی میں پڑھ کر سنایا اس کے چہرے پر مایوسی اور حیرت کا ملا جلا تاثر آگیا۔
کیا تم سب سمجھے نہیں۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔ یہ اس شخص کا جواب ہے جو صلح پر بات چیت کرنا ہی نہیں چاہتا ،ذرا دیکھو اس شخص نے کس لہجے میں خط لکھا ہے یہ ایک ایسے فاتح کا خط ہے جو ہم پر اپنا حکم چلا رہا ہے، عربوں کی اس قوم کا غرور دیکھو دولت اور زرو جواہرات کی پیشکش کو یہ لوگ کچھ سمجھتے ہی نہیں۔
مقوقس نے وفد کے ارکان کی طرف دیکھا اور کچھ دیر بعد پوچھا کہ وہ دو دن مسلمانوں میں رہے ہیں انہوں نے مسلمانوں کو کیسا پایا ہے؟،،،، کیا وہ ایسی ہی رعونت سے باتیں کرتے ہیں؟
نہیں فرمانروائے مصر!،،،،، وفد کے سربراہ بڑے پادری نے کہا ۔۔۔میں نے مسلمانوں کو ایک اجتماع کی صورت میں پہلی بار دیکھا ہے، میں کہتا ہوں کہ میں نے ایک ایسی قوم کو دیکھا ہے جو زندگی سے زیادہ موت کو ،اور غرور سے زیادہ عجزوانکساری کو عزیز رکھتی ہے، ان کی حرکات ،عادات ،اور گفتار میں رعونت کا نام و نشان نہیں ملتا۔
ان میں شاید کوئی ایک بھی ایسا نہ ہو جسے اس دنیا سے اور زمین سے دلچسپی ہو، وہ اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور بیٹھتے زمین پر ہے، ان میں حاکم، ماتحت، سالار ،اور سپاہی ،میں کوئی تمیز نہیں ہوتی ایک جیسا کھاتے ہیں اور پھر مل کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں،،،،،
میں نے پہلی بار مسلمانوں کو اجتماعی طور پر عبادت کرتے دیکھا ہے اسے وہ نماز کہتے ہیں۔
سپہ سالار امامت کرتا ہے اور باقی سب اس کے پیچھے صفیں باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس سے پہلے سب وضو کرتے ہیں اور اپنے آپ کو پاک کر کے نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں، پھر جس طرح امام کرتا ہے باقی سب اسی طرح کرتے ہیں رکوع میں اکٹھے جاتے ہیں، سجدے میں اکٹھے جاتے ہیں ،اور اکٹھے اٹھتے ہیں، میں ان کے اس نظم و نسق سے بہت متاثر ہوا ہوں، سالار سپاہیوں کے ساتھ مل کر کھڑے ہوتے ہیں یہ ضروری نہیں سمجھا جاتا کہ سالار سب سے آگے والی صف میں کھڑے ہوں۔
یہ وہ الفاظ ہیں جو آج تک تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں۔
مقوقس تو پہلے ہی مسلمانوں سے کسی حد تک متاثر تھا اس نے جب بڑے پادری کی زبان سے مسلمانوں کی یہ اوصاف سنیں تو وہ گہری سوچ میں کھو گیا کچھ دیر بعد اس نے سر اٹھایا اور سب کی طرف باری باری دیکھا ۔
وہ آخر مصر کا بادشاہ تھا سب پر سناٹا طاری ہوگیا تھا ۔کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ مقوقس کیا حکم صادر کرے گا اس نے جب بات کی تو سب کو حیرت میں ڈال دیا۔
قسم ہے اس خدا کی جس کی قسم کھائی جاتی ہے۔۔۔ مقوقس نے بے اختیار کہا۔۔۔ یہ مسلمان کسی پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہلانے کا عزم کرلیں تو ہلاسکتے ہیں، میں اعتراف کرتا ہوں کہ ان کا مقابلہ جنگ میں کوئی نہیں کرسکتا ۔ان میں وہ اوصاف ہیں جو ہم میں نہیں اس حقیقت پر غور کرو میرے بھائیوں ان سے صلح سمجھوتا کرنے کا یہی وقت ہے جب وہ نیل کے گھیرے میں آئے ہوئے ہیں، چند دنوں تک وہ اس خطرے سے نکل جائیں گے پھر ان سے صلح ناممکن ہوجائے گی وہ صلح پر آمادہ ہی نہیں ہونگے۔
سب نے دیکھ لیا کہ مقوقس صلح پر ہی بات کرتا ہے۔ وہ آخر فرمانروائے مصر تھا اگر وہ کوئی ارادہ ظاہر کر رہا تھا تو حاضرین میں کوئی جرات نہیں کرسکتا تھا کہ اس کے خلاف بولے ۔ مقوقس نے ان سے پوچھا کہ اب کیا کرنا چاہیے اب تو اس نے بات ہی صاف کردی کہ وہ صلح کی ایک آخری کوشش کرنا چاہتا ہے۔
ابھی گنجائش ہے ۔۔۔حاضرین میں سے کسی نے کہا ۔۔۔آپ نے مسلمانوں کے سپہ سالار کو لکھا تھا کہ اپنے کچھ آدمی بات چیت کے لئے بھیجے لیکن انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ سپہ سالار کو ایک اور پیغام بھیجا جائے کہ وہ اپنے نمائندے بات چیت کے لیے بھیجے؟
سب نے اس مشورے کی تائید کی اور مقوقس نے اسی وقت سپہ سالار عمرو بن عاص کے نام پیغام لکھوایا کہ آپ نے اپنے نمائندوں کا وفد نہیں بھیجا نہ کوئی جواب دیا ہے، آخری فیصلے پر پہنچنے کے لئے آپ اپنا وفد فوراً بھیجیں، میں بے تابی سے منتظر رہوں گا۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷=÷*
مقوقس کا یہ پیغام ایک عام سے قسم کے ایلچی کے ہاتھ عمرو بن عاص تک پہنچا ،انہوں نے ایلچی کو جواب کے انتظار میں باہر بیٹھا دیا اور اپنے سالاروں کو بلایا انہیں مقوقس کا پیغام پڑھ کر سنایا۔
پہلے اس پر غور کرو کہ یہ شخص صلح ہی کے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔میرا ایک خیال تو یہ ہے کہ مقوقس نے دیکھ لیا ہے کہ اس کی فوج حوصلے اور جذبے کے لحاظ سے لڑنے کے قابل نہیں رہی، دوسرا خیال یہ آتا ہے کہ صلح کی گفتگو کا دھوکہ دے کر وقت حاصل کر رہا ہے اور وقت حاصل کرنے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس دوران اسے کمک پہنچ جائے گی ، مجھے مشورہ دو کہ میں اپنا وفد اس کے پاس بھیجوں یا صاف انکار کر دوں ؟،،،میں کوئی ایک بھی شرط نرم نہیں کرسکتا یہ میرے بس سے باہر ہے۔
وقت اور مہلت ہمیں بھی درکار ہے۔۔۔ ایک سالار نے کہا۔۔۔ نیل کی طغیانی تو اتر گئی ہے لیکن پانی جو دریا سے باہر آ گیا تھا یہ ابھی واپس نہیں گیا اور ہم پانی کے گھیرے میں آئے ہوئے ہیں، ہمیں اس پانی کے واپس جانے یا خشک ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا، ورنہ لڑائی کی صورت میں ہم اس زمین پر نہیں لڑ سکیں گے۔
اس پر غور کریں سپہ سالار !،،،،ایک اور سالار میں کہا ۔۔۔یہ بھی تو اللہ کا حکم ہے کہ دشمن صلح کے لئے ہاتھ بڑھائے تو اسے پورا موقع دو، اور صلح قبول کرو بشرطیکہ تمہارا دشمن تمہاری شرائط قبول کرتا ہے۔
باہمی صلاح و مشورے کے بعد عمرو بن عاص نے دس افراد کا ایک وفد مقوقس کے ساتھ گفتگو کرنے کے لئے منتخب کیا اس کی قیادت ایک صحابی عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ کے سپرد کی، جو زبیر بن العوام کی قیادت میں آئے ہوئے کمک کے ایک حصے کے سالار تھے، ان کا رنگ سیاہ تھا جسم گھٹا ہوا لیکن اوپر بڑھنے کی بجائے چوڑائی میں تھا، اور قد دراز نہیں تھا۔
عمرو بن عاص نے مقوقس کے پیغام کا جواب دے کر اس کے ایلچی کو رخصت کر دیا۔
جواب یہ تھا کہ ان کا ایک وفد آ رہا ہے ۔
اس کے بعد عمرو بن عاص نے اس وفد کے تمام ارکان کو بلایا اور عبادہ بن ثابت رضی اللہ تعالی عنی کو ہدایت دی کہ وہ کیا گفتگو کریں، اور پھر انہیں وہیں تین شرطیں بتائیں جو پہلے مقوقس کو پیش کر چکے تھے۔
سپہ سالار نے عبادہ بن صامت کو بڑا سخت حکم دیا کہ ان شرائط میں ذرا سی بھی نرمی نہیں کرنی۔
اگلے روز یہ وفد مقوقس کے پاس پہنچ گیا مقوقس کے اپنے مشیر اور جرنیل اس کے ساتھ تھے ، بات عبادہ بن صامت نے شروع کی لیکن مقوقس نے انہیں حقارت سے دیکھا اور یہ تاثر دیا جیسے وہ خفا ہو۔
اس سیاہ کالے آدمی کو میرے سامنے کیوں لایا گیا ہے۔۔۔ مقوقس نے حقارت آمیز لہجے میں کہا ۔۔۔ہٹاؤ اسے میرے آگے سے اور کوئی اور آدمی بات کرے۔
عبادہ بن صامت کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی، وفد کے ایک آدمی نے کہا کہ انھیں سپہ سالار نے وفد کا قائد بنا کر بھیجا ہے لہذا یہی بات کریں گے اور ہم سب کو ان پر پورا پورا اعتماد ہے۔
مقوقس نے ابھی اس بات پر اپنے ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا کہ وفد کے تمام ارکان بیک وقت بولنے لگے، وہ کہہ رہے تھے کہ عبادہ بن صامت ان کے قائد ہیں اور ان کی موجودگی میں کوئی اور نہیں بولے گا، مقوقس نے جب پورے کے پورے وفد کا یہ ردعمل دیکھا تو اس نے ہونٹ سی لیے۔
مقوقس کا اپنا ہم مذہب تاریخ دان بٹلر لکھتا ہے کہ مقوقس اس قسم کی اوجھی بات کرنے والا آدمی نہیں تھا، لیکن اس نے بڑی ہی اوجھی بات کہہ دی جس کا مطلب یہ ہو سکتا تھا کہ وہ مسلمان کے اس نمائندہ وفد میں اختلاف پیدا کرنا چاہتا تھا، شاید یہ بھی دیکھنا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں میں نظم و نسق کس حد تک ہے اور یہ لوگ اپنے سپہ سالار کے حکم کے سوفیصد پابند رہتے ہیں یا نہیں، اس نے اشارہ کیا کہ وہ بات کرے۔
فرماں روائے مصر!،،،،، عبادہ بن صامت نے بات شروع کی۔۔۔۔ ہم مسلمان ہیں اور اسلام کے احکام کے پابند، اسلام کسی کے چہرے کا رنگ اور لباس دیکھ کر اسے برتری یا کمتری قرار دینے کی اجازت نہیں دیتا ،اس دنیا کے لہو و لعب کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں ہماری روحانی دلچسپی آخرت کے ساتھ ہے ،اور دنیا میں ہمارا فریضہ جہاد فی سبیل اللہ ہے، کوئی لالچ اور خزانوں کے پہاڑ بھی ہمیں اس راستے سے نہیں ہٹا سکتے,,,,,,,,, آپ نے ہمیں بلایا ہے ،ہم آپ کے پاس بھیجے گئے ہیں پہلے اپنا مدعا بیان کریں۔
میں اپنا مدعا تمہارے سپہ سالار کو لکھ چکا ہوں ۔۔۔مقوقس نے کہا۔۔۔ تمہیں بھی بتادیتا ہوں اور تمہارا یہ فرض ہے کہ اپنے سپہ سالار کے ذہن میں میری یہ بات بٹھا دینا,,,,,,,,, تم اس خوش فہمی میں مبتلا ہو کے روم کی یہی فوج ہے جسے تم ہر میدان میں شکست دیتے چلے آرہے ہو، ہمارے پاس اس قلعے میں روم کی اتنی زیادہ اور اتنی طاقتور فوج موجود ہے، اور اتنی زیادہ فوج آرہی ہے جسے تم تصور میں بھی نہیں لا سکتے,,,,,,
تم تعداد میں بہت ہی تھوڑے ہو اس کے علاوہ میں جانتا ہوں کہ تمہیں کس قسم کی پریشانیوں کا سامنا ہے کچھ دن گزرے تو تم اپنے لشکر کی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں رہو گے، میں جو بار بار تمھیں تمہاری کمزوریوں کا احساس دلا رہا ہوں یہ صرف اس لئے دلا رہا ہوں کہ مجھے تمہارے اس ذرا سے لشکر پر رحم آ رہا ہے، تمہارا یہ لشکر میری فوج کے ہاتھوں کٹ مرے گا تو مجھے بہت افسوس ہوگا کیونکہ میں اسے گناہ سمجھتا ہوں میں اس وقت خوش ہونگا جب تم میرے ساتھ صلح کر لو گے۔
میں تمھارے لشکر کے ہر سپاہی کو دو دینار، اور سالار کو سو دینار، اور خلیفہ کو ایک ہزار دینار پیش کرتا ہوں، یہ مجھ سے وصول کر لو اور واپس چلے جاؤ، رومی فوج کے قہر اور غضب سے ڈرو۔
تاریخ نویسوں نے مختلف واقعات اور شخصیات پر تبصرے بھی لکھے ہیں اور تجزیے بھی کیے ہیں ، وہ کچھ حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ ایک طرف تو مقوقس مسلمانوں کو اچھا سمجھتا تھا اور صلح کے لیے بے تاب نظر آتا تھا ،لیکن جب کسی مسلمان سے سامنا ہو جاتا تو رعب اور دھمکی کی زبان میں بات کرتا تھا، اسے غالبا یہ توقع تھی کہ مسلمان اگر کسی لالچ میں نہیں آتے تو شاید ڈر کر واپس چلے جائیں۔
تاریخ میں آیا ہے کہ عبادہ بن صامت نے حساب کیا تو یہ تیس ہزار دینار بنتے تھے جو مسلمانوں کو مصر سے چلے جانے کے عوض پیش کیے جا رہے تھے۔
میں کچھ بھی قبول نہیں کرسکتا ہے۔۔۔۔ عبادہ بن صامت نے کہا ۔۔۔۔۔میں اپنے سپہ سالار کے بڑے واضح سے کام لے کر آیا ہوں آپ کی دھمکیوں کا مجھ پر کچھ اثر نہیں ہو سکتا ہمارا تعلق براہ راست اپنے اللہ کے ساتھ ہے ہم یہ نہیں دیکھا کرتے کہ ہماری تعداد کتنی تھوڑی اور دشمن کی فوج کتنی زیادہ ہے۔
اللہ نے قرآن میں ہمیں بشارت دی ہے کہ ایسا اکثر ہوا ہے کہ چھوٹی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی بڑی فوجوں پر غالب آتی ہیں، اللہ صبر و استقلال والوں کے ساتھ ہے,,,,,,,, آپ نے لشکر کی ضروریات کی جو بات کی ہے یہ ہمارے لیے بے معنی ہے، ہم دنیا کی تنگدستی یا خوشحالی کی پرواہ نہیں کیا کرتے کیونکہ ہمارا تعلق براہ راست اللہ کے ساتھ ہے,,,,,,,,,,,,,
ہمارے سپہ سالار نے جو ہمارا امیر بھی ہے آپ کو صاف الفاظ میں بتایا ہے کہ ہماری تین شرطیں ہیں ان میں سے جو چاہو قبول کر لو باقی سب گفت و شنید فضول باتیں ہیں، ان سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا مجھے میرے امیر نے اور میرے امیر کو امیر المومنین نے اور امیر المومنین کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بتایا تھا میں وہ آپ کے آگے رکھ رہا ہوں، اسلام قبول کر لو اور یہاں اسلامی حکومت قائم کر دو تو ہم واپس چلے جائیں گے، یہ نہیں تو جزیہ ادا کرو اور ہم آپ کو اور آپ کے ہر فرد و بشر کو اپنی پناہ اور اپنی حفاظت میں لے لیں گے، اور اگر اسلام بھی قبول نہیں اور جزیہ بھی قبول نہیں تو ہمارے تمہارے درمیان فیصلہ تلوار کرے گی۔
تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مقوقس نے اس گفت و شنید کے بعد عبادہ بن صامت کے آگے کچھ تجویزیں رکھیں لیکن عبادہ بن صامت نے کوئی ایک بھی تجویز نہ مانی انہوں نے کہا کہ انہیں اتنا اختیار حاصل ہی نہیں، نہ سپہ سالار کو نہ ہی امیرالمومنین کو اختیار حاصل ہے کہ اسلام کی شرائط میں ذرا سی بھی لچک پیدا کریں۔
مقوقس اپنے مشیروں اور جرنیلوں سے مخاطب ہوا اور ان سے پوچھا کہ ان کی ان تین شرطوں میں سے کون سی شرط قبول کرتے ہو؟،،،،،، سب نے متفقہ طور پر کہا کہ انہیں اسلام قبول ہے نہ وہ جزیہ دینے کے لئے تیار ہیں۔
عبادہ بن صامت اٹھے اور اپنے وفد کو ساتھ لے کر واپس چل پڑے۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=*
اس کے بعد تاریخ مقوقس اور اس کے مشیروں کی گفتگو کچھ مختصر سی سناتی ہے وفد کے جانے کے بعد مقوقس نے اپنے مشیروں اور جرنیلوں کے ساتھ باتیں کیں۔
میں اب بھی کہتا ہوں کے مسلمانوں کے ساتھ ہماری صلح ہو جانی چاہیے۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔ تم نے دیکھ لیا ہے کہ یہ کسی لالچ میں بھی نہیں آتے اور کسی دھمکی سے بھی نہیں ڈرتے۔
آپ کو ان کی کون سی شرط قبول ہے۔۔۔ مقوقس کے جرنیل جارج نے پوچھا۔
میں اس سوال کا جواب نہیں دوں گا۔۔۔ مقوقس نے کہا ۔۔۔میں اپنی رائے دوں گا اور تم سب اس پر غور کرو آج میں تمہیں صاف صاف بتا دیتا ہوں کہ ان مسلمانوں سے لڑنا تمہارے بس کی بات نہیں تم نے خود دیکھ لیا ہے، لہذا جنگ جاری رکھنے کو ذہن سے نکال دو اسلام قبول نہ کرو لیکن تیسری شرط ماننی پڑے گی۔
فرمانروائے مصر!،،،،، ایک مشیر نے حیرت سے کہا ۔۔۔آپ کا مطلب یہ ہے کہ ہم جزیہ دینا قبول کرلیں اور پھر مسلمانوں کے غلام ہوکر زندگی بسر کریں۔
یہ غلامی اتنی سی ہی ہوگی کہ تم مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لو گے۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔ تمہیں مسلمان غلام نہیں سمجھیں گے بلکہ تمہیں پورے حقوق اور عزت نفس دیں گے ،اگر تم لڑو گے اور مسلمان تم پر فتح پا لیں گے تو پھر تمہارے ساتھ مسلمانوں کا رویہ بالکل ہی مختلف ہوگا نہ تمہاری جان محفوظ ہوگی نہ تمہارے مال و اموال محفوظ ہونگے، اس صورت میں تم مسلمانوں کے صحیح معنوں میں غلام ہو جاؤ گے۔
اس سے موت بہتر ہے ۔۔۔جنرل تھیوڈور نے کہا۔۔۔ اور اٹھ کھڑا ہوا۔
تھیوڈور اٹھا تو باقی سب بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر سب مقوقس کو اکیلا چھوڑ کر وہاں سے چلے گئے مقوقس نے انہیں روکنے کی کوشش نہ کی وہ سمجھ گیا کہ مسلمانوں کے ساتھ صلح سمجھوتہ کی کوشش میں وہ تنہا رہ گیا ہے، جرنیلوں نے یہ فیصلہ دے دیا تھا کہ اب تلوار ہی فیصلہ کرے گی مقوقس کو ان کا ساتھ دینا پڑا ورنہ بغاوت بھی ہو سکتی تھی، قبطی عیسائی پہلے ہی بغاوت پر آمادہ تھے۔
جرنیلوں نے اپنے ماتحت کمانڈروں کو بلایا اور انہیں کہا کہ جنگ ہوگی اور محاصرے پر حملہ کیا جائے گا جرنیلوں نے یہ بات یہیں تک نہ رہنے دی بلکہ اپنے ماتحت کمانڈروں سے یہ بھی کہا کہ اب وہ اس جنگ کو پہلے والی جنگ نہ سمجھیں کہ جہاں مسلمانوں نے ذرا دباؤ ڈالا تو ہماری فوج بھاگ اٹھی ۔ اب یہ ذہن میں رکھ لو کہ ہمارا اپنا بادشاہ مقوقس ہمیں مسلمانوں کا غلام بنانے کا ارادہ کر چکا ہے وہ مسلمانوں کے ساتھ صلح کرنے کے لئے سودےبازی کر رہا ہے۔
جرنیلوں نے اپنے جونیئر کمانڈروں کو کچھ اور باتیں سنا کر بھڑکا دیا اور کہا کہ اپنے اپنے دستوں کو بتادوں کہ تم جنگی قیدی ہوگئے تو بھیڑ بکریوں کی طرح مسلمانوں کے غلام ہو جاؤ گے، تمھیں انسانیت کے درجے سے گرا کر تمام حقوق سے محروم کر دیا جائے گا اور پھر تم ان کے مویشی ہوں گے ،مسلمان یہی سلوک تمہاری بیٹیوں اور بہنوں سے کریں گے۔
جونیئر کمانڈروں نے اپنی فوج کو یہ باتیں اور اپنے فرمانروائے مقوقس کے ارادے سنا کر بھڑکا دیا فوجیوں سے یہ باتیں شہریوں کے کانوں تک پہنچی، انہیں باتیں اس قدر اشتعال انگیز سنائی گئی کہ وہی لوگ جو مسلمان کے نام سے بھی ڈرتے اور اطاعت قبول کر لینے تک کی بات کرتے تھے یکلخت مسلمانوں کے دشمن ہو گئے ،اور انہوں نے اپنی فوج سے کہا کہ وہ فوج کے دوش بدوش لڑیں گے۔
بعض مؤرخوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب مسلمانوں کا وفد چلا گیا تھا تو مقوقس نے عمرو بن عاص کو ایک اور پیغام بھیجا تھا کہ اسے کسی فیصلے پر پہنچنے کے لئے ایک مہینے کی مہلت دی جائے، لیکن عمرو بن عاص نے جواب دیا تھا کہ تین دنوں سے زیادہ مہلت نہیں دی جاسکتی ۔
عمرو بن عاص کا یہ شک صحیح ثابت ہو رہا تھا کہ مقوقس وقت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے اور وہ کمک کا انتظار کر رہا ہے۔
اگر رومی فوج کی اس تعداد کو دیکھا جاتا جو قلعہ بابلیون میں موجود تھی تو مقوقس کو کمک کی ضرورت ہی نہیں تھی، لیکن وہ کمک کے لئے اس لیے بے تاب تھا کہ اسکندریہ سے آنے والی کمک تازہ دم ہو گی اسکندریہ میں رومی فوج کے ایسے دست موجود تھے جو ابھی تک مجاہدین اسلام کے مقابلے میں نہیں آئے تھے، بزنطیہ سے کسی کمک کے آنے کا تو امکان ہی نہیں تھا۔
یہ خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ ہرقل کا بنایا ہوا اسقف اعظم قیرس بابلیون میں موجود تھا وہ بھی اب ہرقل کے مخالفین میں شامل ہو گیا تھا ۔ اس نے بنیامین سے صلح کر لی تھی مسلمانوں کے معاملے میں میں وہ بڑا سخت متعّصب تھا ،اور کٹر اسلام دشمن، اس نے قلعے کے اندر قبطیوں کو اس قدر بھڑکایا کہ وہ آگ بگولہ ہوگئے۔
اب شہر کی یہ کیفیت تھی جیسے لوگ اچانک بڑی گہری نیند سے جاگ اٹھے ہوں فوج کو تو جنگ کی تیاری کرنی ہی تھی شہری بھی تیروکمان ،تلواریں ،برچھیاں لے کر لڑنے کے لئے تیار ہو رہے تھے، ان تیاریوں کو دیکھ کر لگتا تھا کہ اس قدر بڑا ہجوم سیلاب کی طرح اپنے سامنے آئے ہوئے پہاڑوں کو بھی بہا لے جائے گا ۔ مقوقس اپنے محل میں خاموش بیٹھا تھا کبھی وہ باہر نکل کر لوگوں کو دیکھتا اور کبھی محل کے اوپر جا کر بالکونی میں کھڑا ہوجاتا اور اپنی فوج اور لوگوں کو تیاریوں میں ادھر ادھر بھاگتے دوڑتے دیکھتا۔
فرمانروائے مصر!،،،،، قیرس نے ایک روز مقوقس کے پاس آکر کہا۔۔۔ اب ہم مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دیں گے۔
کیا تم محسوس نہیں کررہے قیرس!،،،،، مقوقس نے کہا ۔۔۔کیا یہ افواج اور یہ لوگ میرے خلاف بغاوت نہیں کر رہے؟
نہیں!،،،،، قیرس نے جواب دیا ۔۔۔۔میں جانتا ہوں آپ صلح چاہتے ہیں اور یہ لوگ ایسے بیدار ہوگئے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف جان کی بازی لگا کر لڑنا چاہتے ہیں ان کی تیاریاں آپ کے خلاف نہیں، انہیں شک کی نظروں سے نہ دیکھیں، گرجوں میں دعائیں مانگی جا رہی ہیں، مایوس نہ ہو فرمانروائے مصر۔
تاریخ میں آیا ہے کہ مقوقس نے کچھ بھی نہ کہا نہ کوئی حوصلہ افزا بات کہی نہ کوئی حوصلہ شکن اشارہ دیا، اس کے ہونٹوں پر لطیف سی مسکراہٹ آ گئی، لیکن اس مسکراہٹ میں مسرت کی ذرا سی بھی جھلک نہیں تھی، البتہ طنز سے ضرور نظر آتی تھی۔ قلعے کے اندر رومی فوجی اپنی کثیر تعداد کے بھروسے اور لوگوں کے تعاون کے بھروسے پر جوش و خروش جنگی تیاریاں کر رہے تھے اور ان کا ایک بھروسہ یہ بھی تھا کہ نیل کے جزیرے روضہ سے فوراً فوج پہنچ جائیں گی، اور ان کی تعداد اور زیادہ ہو جائے گی۔
قلعے کے باہر خندق سے ذرا ہٹ کر قلیل تعداد مجاہدین اسلام صرف اللہ کی ذات باری پر بھروسہ کیے بیٹھے تھے، فن حرب و ضرب کے ماہرین کہتے ہیں کہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ یہ اتنے قلیل تعداد مسلمان چند منٹ بھی کثیر تعداد رومی فوج کے سامنے ٹھہر سکیں گے۔ جبکہ رومی فوج کو شہریوں کی مدد بھی حاصل ہو گئی تھی اور ان کی عورتیں بھی لڑنے کے لئے تیار تھیں۔
مجاہدین اسلام کو اللہ کی اس بشارت کا بھروسہ تھا کہ تم اگر ایمان کے پکے ہو تو تم میں سے دس سو کفار پر اور تم میں سے سو ایمان والے ایک ہزار کفار پر غالب آئیں گے۔
ایک رات جب قلعے کے باہر کی دنیا محو خواب تھی، رومی فوج دریا کی طرف سے نہایت خاموشی سے قلعےے سے نکلی کشتیوں میں بیٹھی اور اس جگہ جا پہنچی جہاں سے وہ مجاہدین اسلام پر حملہ کر سکتی تھی۔
تاریخ میں یہ واضح نہیں کہ رومی فوج دریا والے دروازے سے ہی نکلی تھی یا دوسرے دروازوں میں سے بھی، یہ پتہ چلتا ہے کہ رومی فوج نے رات ہی رات خندق پر پل ڈال دیے تھے جو اس مقصد کے لئے ہر وقت تیار رکھے جاتے تھے۔
رومیوں کی یہ کارروائی اس قدر خفیہ اور خاموش تھی کہ مسلمانوں کو خبر تک نہ ہوئی وہ سنتری بھی بے خبر رہے جو پہرے پر تھے۔
مجاہدین اسلام پر اچانک قیامت ٹوٹ پڑی رومی فوج کا یہ حملہ اچانک اور غیر متوقع تھا اور بڑا ہی تیز اور شدید نظر یہی آتا تھا کہ مجاہدین اسلام کو جاگنے کی بھی مہلت نہیں ملے گی اور رومی انہیں ابدی نیند سلا دینگے۔ لیکن مجاہدین نے زمین وآسمان اور اس تاریک رات کو اور پھر تاریخ کو حیرت میں ڈال دیا کہ حملہ ہوتے ہی وہ اس طرح سنبھل گئے جیسے پہلے ہی تیار بیٹھے تھے، دیکھتے ہی دیکھتے مشعلیں جل اٹھیں اور مجاہدین نے رات کو دن بنا دیا۔
یہ سپہ سالار عمرو بن عاص کا کمال تھا جنہوں نے اپنے سالاروں کو اور تمام لشکر کو کہہ رکھا تھا کہ دشمن کے ملک میں آکر چند لمحوں کے لئے بھی غافل نہیں ہونا، اور سونا بھی اس طرح جیسے ایک آنکھ کھلی ہو، جیسے کسی بھی لمحے حملہ ہو جائے گا۔
مجاہدین اسلام کا تو یہ ایمان تھا کہ انہیں اپنے سالاروں سے جو احکام ملتے ہیں وہ دراصل اللہ کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک کے احکام ہوتے ہیں۔
اور ان احکام کی خلاف ورزی اللہ کے عذاب میں پھینک دیتی ہے۔
حملہ آور رومی فوج کو سب سے پہلا جھٹکا تو یہ پڑا کے مسلمان اس طرح بیدار ہو کر مقابلے میں آگئے تھے جیسے انھیں پہلے پتہ چل گیا ہو کہ حملہ آ رہا ہے پھر رومی فوج کے جرنیلوں نے غلطی یہ کی تھی کہ بہت سے شہری رضاکارانہ طور پر حملے میں شامل ہونا چاہتے تھے انہیں بھی فوج کے ساتھ حملے کے لئے بھیج دیا گیا تھا، وہ تیر اور تلوار اور برچھی چلا سکتے تھے لیکن جنگ کی صورت میں وہ کسی ترتیب میں ہو کر لڑنے کے قابل نہیں تھے ،بلکہ اپنی فوج کے لئے ایک رکاوٹ بن گئے مسلمانوں نے جب بیدار ہوکر قہر اور غضب سے اس یلغار کو روکا تو سب سے پہلے رضاکار شہریوں میں بھگدڑ باپا ہوئی۔
عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں کو پہلے ہی ذہن نشین قرار رکھا تھا کہ اچانک حملہ ہو جانے کی صورت میں لشکر کو کس ترتیب میں کرکے مقابلہ کرنا ہوگا اس سے یہ ظاہر ہوا کہ مسلمان ایک ترتیب اور تنظیم میں تھے اور ان کے مقابلے میں رومی فوج اور شہری ایک ہجوم کی صورت میں آئے، اور جب مسلمانوں نے قدم جما کر مقابلہ کیا تو رومی بکھرنے لگے۔
رومی سپاہیوں کو پہلا دھچکا تو یہ لگا کہ مسلمان تو جیسے پہلے ہی سے بیدار تھے، اور پھر انہوں نے مشعلیں جلا لی تھی رومی سپاہیوں کے لیے یہ خلاف توقع صورتحال ایک مصیبت بن گئی مجاہدین نے ان کی بوکلاہٹ سے پورا پورا فائدہ اٹھایا تھوڑی سی دیر میں مجاہدین اسلام نے رومی فوج کو دفاعی جنگ لڑنے پر مجبور کر دیا۔
عمرو بن عاص نے اپنے لشکر کو خاص طور پر یہ ٹریننگ دے رکھی تھی کہ دشمن قلعے سے باہر آکر حملہ کرے تو کس طرح لڑنا ہے ،اور کیا کیا چال چلنی ہے، مختصر یہ کہ دشمن باہر آئے تو ایک دستہ اس کے عقب میں جانے کی کوشش کریں تاکہ قلعے میں داخل ہو جائیں، اور اگر قلعے کے دروازے پہلے ہی بند ہو جائیں تو دشمن کی باہر آئی ہوئی فوج کو گھیرے میں لے کر آخری سپاہی تک ختم کر دیا جائے۔
مجاہدین کو اس قسم کی لڑائی اور عقب میں جانے کی چال کا خاص طور پر تجربہ حاصل ہو چکا تھا، اس سے پہلے وہ چند قلعےے ایسے ہی چال چل کر لے چکے تھے، اب قلعہ بابلیون کے باہر مجاہدین اسلام نے دیکھ لیا کہ رومی فوج خندق پر پل پھینک کر آگے نکل آئی ہے تو مجاہدین نے رومیوں کے پیچھے جاکر پلوں پر قبضہ کرنے کی کوشش شروع کر دی۔
سپہ سالار نے پہلے ہی ایک سالار اور اس کے دستے کو اس کام کے لئے مقرر کردیا تھا کچھ وقت بعد رومیوں نے دیکھا کہ مسلمان ان کے عقب میں آ رہے ہیں اس سے ان کی بوکھلاہٹ اور زیادہ بڑھ گئی انھوں نے خندق پار کر کے قلعے میں واپس جانے کی کوشش شروع کردی، لیکن مجاہدین نے انھیں جانے نہ دیا ۔
خندق کا ایک آدھ پل ہی رہ گیا تھا جو ابھی مسلمانوں کے قبضے میں نہیں آیا تھا وہاں سے کچھ رومی زندہ پیچھے کو نکل گئے۔ خندق سے باہر رہنے والے رومیوں میں سے شاید ہی کوئی زندہ بچا ہو، بعض رومیوں نے خندق میں چھلانگیں لگا دی لیکن تیرانداز مجاہدین نے مشعلوں کی روشنی میں انہیں تیروں کا نشانہ بنا لیا اور اس طرح بہت سی لاشیں خندق میں بھرے پانی میں ڈوبنے اور تیرنے لگی۔
بہت تھوڑے رومی فوجی اور شہری قلعے میں واپس جا سکے، قلعے والوں نے جب دیکھا کہ ان کے فوجی تو پیچھے کو بھاگ رہے ہیں تو مقوقس کے حکم سے قلعے کے تمام دروازے بند کر دیے گئے تاکہ مجاہدین قلعے میں داخل نہ ہوسکے ،مسلمانوں کو روکے رکھنے کے لیے مقوقس نے اپنی بہت سی فوج قربان کر دی۔
مؤرخوں نے اس لڑائی کو گھمسان کی لڑائی اور بڑی ہی خونریز لڑائی لکھا ہے، اور بعض غیر مسلم مؤرخوں نے اسلام کے خلاف تعصب کو الگ رکھ کر یہ بھی لکھا ہے کہ ایک طرف صرف جذبہ اور عزم تھا، اور دوسری طرف تعداد اور ہجوم پر بھروسہ تھا، جہاں ایک کے پاؤں کھڑے پورا ہجوم اکھڑ گیا لیکن مسلمانوں نے اپنے جذبے کو اور انکے سالاروں نے اپنی عقل کو بہت تامل سے استعمال کیا۔
اتنی زیادہ گھمسان کی خونریز لڑائی رات ہی رات ختم ہو گئی، صبح ہوئی اور سورج کی کرنیں زمین پر اپنا نور پھیلانے لگی تو جدھر نظر جاتی تھی لاش نظر آتی تھی کوئی زخمی ان لاشوں سے اٹھتا اور ایک دو قدم چل کر پھر گر پڑتا تھا، نیل کا پانی کناروں سے باہر آ گیا تھا ،جھیلوں اور تالابوں کی صورت میں دور دور تک بکھرا ہوا تھا، اور یہ پانی مرنے والوں کے خون سے لال ہو گیا تھا۔ پانی میں بھی لاشیں گریں تھیں۔ خندق کا پانی بھی سرخی مائل ہو گیا تھا اور اس ہیبت ناک منظر سے مسلمانوں کے نعرے اٹھ اٹھ کر گونج رہے تھے۔
بابلیون کے قلعہ بند شہر کے لوگ اور رومی فوج کے بھاگے ہوئے فوجی قلعے کی دیواروں پر کھڑے رات کی لڑائی کا انجام دیکھ رہے تھے ،اوپر سے تو یہ بھیانک منظر اور ہی زیادہ خوفناک اور ہیبت ناک لگتا تھا۔ کہاں ان لوگوں کا یہ عزم کے مسلمانوں کو شکست دینے کے لئے عورتیں بھی لڑیں گی، مگر ہوا یوں کے مرد بھی جم کر نہ لڑ سکے اور کٹ مرے یا جو بچے وہ بھاگ کر شہر میں پناہ گزین ہوئے، اگر شہر کے دروازے بروقت بند نہ کیے جاتے تو دیواروں کے اندر بھی یہی منظر ہوتا کہ رومیوں کی لاشیں بکھری ہوئی ہوتیں۔
مقوقس کو اس کے مخبر نے بتایا کہ شہر کے لوگ اور فوجی دیواروں پر جاکر باہر کا منظر دیکھ رہے ہیں، اور ان کے حوصلے جو پہلے ہی کمزور تھے بالکل ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں ۔
مقوقس نے یہ سنا تو غصے سے باہر نکلا اور حکم دیا کہ کوئی شہری یا فوجی دیوار پر نہ جائے سوائے ان فوجیوں کے جو قلعے کے دفاع کے لئے اوپر موجود رہتے ہیں، یہ حکم ملتے ہی مقوقس کے محافظ دستے کے بہت سے آدمی دوڑے گئے اور دیوار پر جا کر لوگوں کو ھانک کر اور دھکیل کر دیوار سے اتارا اور سارے شہر میں مقوقس کا یہ حکم پہنچایا کہ کوئی آدمی بغیر ڈیوٹی کے دیوار پر نہیں جا سکتا۔
سب دیواروں سے اتر گئے تو مقوقس نے اپنے جرنیلوں اور ایک دو مشیروں کو بلایا قیرس بھی آگیا ان سب کو ساتھ لے کر مقوقس دیوار پر چلا گیا اور باہر کا منظر دیکھا۔
دیکھ رہے ہو اپنی جنگ کا انجام۔۔۔ مقوقس نے کہا ۔۔۔تم نے ان پر سوتے میں حملہ کیا تھا لیکن یہ خون آلود انجام بتاتا ہے جیسے تم سوئے ہوئے تھے اور مسلمانوں نے تم پر حملہ کیا تھا ۔میں جانتا تھا ایسا ہی ہوگا تم اپنے آپ کو فریب دیتے رہے ہو حقیقت کو دیکھو ہماری فوج لڑنے کے قابل نہیں رہی۔ ہاں اگر اسکندریہ سے کمک آجائے تو پھر شاید ہم مسلمانوں کو للکارنے کا خطرہ مول لے سکتے ہیں۔
مقوقس کے ساتھ جو جرنیل اور مشیر تھے وہ خاموشی سے سنتے رہے ان کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہ تھا۔
میں اب بھی کہتا ہوں ان سے صلح کر لو۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔ لیکن اب ہمیں جزیہ قبول کر کے صلح خریدنی پڑے گی، میں جانتا ہوں تم سب نے لوگوں کو اور فوج کو گرمایا تھا کہ میں انہیں مسلمانوں کا غلام بنانا چاہتا ہوں۔ تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ اب جاؤ اور لوگوں سے کہو کہ جزیہ قبول کریں اور مسلمانوں کے ساتھ صلح کرلیں۔
مقوقس کا یہ فیصلہ بلاجواز نہیں تھا وہ اس کے جرنیلوں کی خاموشی اور مشیروں کا سر جھکا لینا بھی بے معنیٰ نہیں تھا۔
سب دیوار سے دیکھ رہے تھے کہ باہر ان کی فوج اور شہریوں کی لاشیں ہی نہیں بکھری ہوئی، بلکہ مجاہدین اسلام کا لشکر خندق سے آگے آگیا تھا خندق ہی ایک رکاوٹ تھی جو گزشتہ رات مسلمانوں نے رومیوں کے بچھائے ہوئے پلوں سے عبور کر لی تھیں۔
خندق قلعے کی دیوار سے بہت دور تھی دیوار اور خندق کے درمیان ہرے بھرے کھیت اور پھلوں کے باغات تھے، ان پر اب مجاہدین اسلام کا قبضہ ہوگیا تھا ،مقوقس بھی جانتا تھا اور اس کے جرنیل بھی جانتے تھے کہ مسلمان جب کسی قلعے پر یلغار کرتے دیتے ہیں تو قلعہ لے کر ہی دم لیتے ہیں۔
ان سب نے یہی بہتر سمجھا کہ اپنے لوگوں کو اور فوج کو اس حقیقت سے آگاہ کر دیا جائے کہ مسلمانوں کے ساتھ ان کی شرط پر صلح کر لینے میں ہی اپنی عافیت ہے ۔
لوگوں کو ہم قائل کر لیں گے۔۔۔ قیرس نے مقوقس سے کہا ۔۔۔آپ سلسلے میں جو کارروائی کرنا چاہتے ہیں وہ کریں۔
لوگوں اور فوجیوں کو قائل کرنا تو کوئی مسئلہ ہی نہ تھا ،اس وقت اپنے حملے کا انجام دیکھ کر ان کے حوصلے بری طرح ٹوٹ گئے تھے۔ اور سارے شہر پر خوف و ہراس طاری تھا۔ پہلے جو لوگ نہیں مانتے تھے کہ مسلمانوں میں کوئی پراسرار قوت موجود ہے اب وہ بھی مان گئے ۔
گزشتہ رات سے پہلے وہ اپنے آپ کو قلعے کی دیواروں کے اندر محفوظ سمجھتے تھے لیکن اب ان دیواروں سے بھی انہیں خوف آنے لگا تھا۔
مقوقس نے اپنے جرنیلوں اور مشیروں کو اپنے محل میں لے گیا اور سپہ سالار عمرو بن عاص کے نام ایک پیغام لکھوایا۔
میں امن اور خیرسگالی چاہتا ہوں مجھے ملاقات کا ایک موقع دیں، میرے دو چار رفیق ساتھ ہوں گے، اور آپ اپنے دوچار رفیقوں کو ساتھ رکھیں، اور ہم دونوں مل بیٹھ کر صلح سمجھوتے کا کوئی راستہ نکالیں گے، ہو سکتا ہے ہم کسی بہتر فیصلے پر پہنچ جائیں۔
پیغام ایک قاصد کو دے کر اسی وقت روانہ کردیا گیا۔
عمرو بن عاص اس وقت قلعے کے اردگرد گھوم پھر رہے تھے جب مقوقس کا پیغام ان تک پہنچا ،انہوں نے اپنے تمام سالاروں کو بلایا اور الگ لےجا کر انہیں مقوقس کا پیغام پڑھ کر سنایا ،پھر ان سے پوچھا کہ وہ کیا مشورہ دیتے ہیں۔
صاف انکار کر دیں!،،،،،، سالار زبیر بن العوام نے کہا ۔۔۔آپ کا خیال بالکل صحیح ہے کہ یہ شخص وقت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔
عمرو بن عاص نے دوسرے سالاروں کی طرف دیکھا سب نے زبیر بن عوام کی پرزور تائید کی اور متفقہ طور پر کہا کہ ملاقات نہ کی جائے۔
کیا تم لوگ میری مجبوری نہیں سمجھتے ۔۔۔عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔کیا تم نہیں جانتے کہ امیر المومنین نے مجھے کیا احکام بھیج رکھے ہیں، امیر المومنین کا بڑا ہی واضح حکم ہے کہ مصر کا حاکم ان تین شرطوں میں سے کوئی ایک مان لے تو اس کے ساتھ صلح کرلو، لیکن اپنی شرط پر سو فیصد عمل درآمد کر آؤ۔ اب مقوقس نے ہماری ایک شرط مان لی ہے میں امیر المومنین کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا،،،،،،
اس کے علاوہ یہاں اپنی حالت بھی دیکھ لو کہ ہم کس کیفیت میں مبتلا ہیں ہمارے اردگرد پانی ہے بے شک ہم نے خندق عبور کر لی ہے، لیکن اس قلعے کو سر کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا ۔کھیتوں اور باغات میں بھی پانی ہی پانی ہے ہم ابھی کسی دوسرے شہر کی طرف پیش قدمی بھی نہیں کر سکتے ،ہمیں پانی خشک ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا،،،،،،
اب دشمن کی کیفیت کا اندازہ کرو اس کے ساتھ ہی دشمن کا ذہن پڑھنے کی کوشش کرو ،اس وقت رومی فوج کے حوصلے ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں ،ہم نے ان کے جو قیدی پکڑے ہیں انہوں نے بتایا ہے کہ فوج کے ساتھ شہر کے لوگ بھی حملے میں شامل تھے، اس سے ہمیں یہ فائدہ ملا ہے کہ شہر کے لوگوں پر بھی ہمارے مجاہدین کی دھاک بیٹھ گئی ہے۔ لیکن یہ لوگ قلعے کی پناہ میں بیٹھے ہیں پیشتر اس کے کہ ان کے حوصلے بحال ہوجائیں ہمیں ان کی یہ شرط قبول کر لینی چاہیے کہ یہ جزیہ ادا کریں گے، اگر یہ لوگ سنبھل گئے تو پھر یہ اس شرط سے بھی پھر جائیں گے۔
تمام سالار اپنے سپہ سالار سے متفق ہوگئے اور مقوقس کے پیغام کا جواب یہ دیا کہ وہ باہر آکر جہاں چاہے ملاقات کرے۔
تاریخ میں یہ واضح نہیں کہ ان کی ملاقات کہاں ہوئی سوائے اس کے کہ مقوقس اور مجاہدین کے سپہ سالار عمرو بن عاص کی ملاقات ہوئی ۔ مقوقس کے ساتھ دو جرنیل اور دو مشیر تھے، اور عمرو بن عاص کے ساتھ تین یا چار سالار تھے۔ عمرو بن عاص نے مقوقس کو کوئی اور بات کرنے کا موقع نہ دیا سوائے اس کے کہ وہ اطاعت قبول کر لے اور جزیہ ادا کرے۔
مقوقس تو یہی سوچ کر آیا تھا اور یہ اس کا فیصلہ تھا کہ مسلمانوں کی اطاعت قبول کی جانی ہے ،اور جزیہ ادا کیا جائے گا۔ چنانچہ جو جزیہ طے پایا وہ دو دینار فی کس تھا ۔ یہ صرف بالغ مردوں کو ادا کرنا تھا نابالغ لڑکوں اور لڑکیوں عورتوں اور بوڑھے مردوں کو جزیہ سے مستثنیٰ رکھا گیا۔
مقوقس حیران رہ گیا کہ اتنا تھوڑا جزیہ مقرر کیا گیا ہے ۔عمرو بن عاص نے مقوقس سے یہ بھی منوا لیا کہ مسلمانوں کی کوئی جماعت جہاں کہیں بھی چاہے گی کچھ دن قیام کر سکے گی اور اگر دو تین مسلمان کسی مجبوری کے تحت کبھی کسی مصری کے گھر ٹھہرے گے تو گھر والے تین دن ان کی میزبانی کریں گے۔
اس معاہدے میں عمرو بن عاص نے مقوقس کے مطالبے کے بغیر ہی یہ بھی شامل کیا کہ مصریوں کی زمین ،مال و اموال ،ان کے گرجے ،اور دیگر عبادت گاہیں، اور خشکی یا دریا میں کوئی بھی ملکیت ہو گی یہ انہی کی رہے گی اور مسلمان ان کی حفاظت کریں گے۔ مصریوں کی تجارت پر کوئی پابندی عائد نہیں ہوگی، مصری تاجر جہاں چاہیں مال لاسکیں گے اور کسی بھی ملک کو اپنا مال بھیج سکیں گے۔
مقوقس نے اس معاہدے پر اپنی مہر ثبت کر دی لیکن اس نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس معاہدے کی منظوری شاہ ہرقل سے لینی ضروری ہے۔ اس وقت تک دونوں طرف کی فوجی جہاں ہیں وہیں رہیں منظوری جلدی آ جائے گی ۔
یہ ملاقات اور معاہدہ مجاہدین اسلام کی بہت بڑی فتح تھی۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷==÷*
مقوقس واپس اپنے قلعہ بابلیون میں گیا تو اپنے ساتھ گئے ہوئے جرنیلوں اور مشیروں سے صلاح مشورہ کیا کہ ہرقل کو کس طرح اطلاع دی جائے، عام طریقہ تو یہ تھا کہ ہرقل کے نام پیغام ایک ایلچی لے جایا کرتا تھا لیکن مقوقس نے کہا کہ یہ مسئلہ اتنا اہم ہے کہ ہرقل نہ جانے کیسے کیسے سوال کرے اور ایلچی جواب نہ دے سکے۔
سب نے بیک زبان اسے مشورہ دیا کہ وہ خود بزنطیہ چلا جائے اور ہرقل کو مطمئن کر دے۔ ہرقل کو مقوقس ہی مطمئن کر سکتا تھا۔
مقوقس نیل کے راستے اسکندریہ کو روانہ ہوگیا اسکندریہ سے اسے بزنطیہ جانا تھا لیکن مؤرخ لکھتے ہیں کہ نہ جانے کیا وجہ ہوئی اور اس نے کیا سوچا کہ مقوقس اسکندریہ رک گیا، اور وہاں صلح کے معاہدے کی پوری تفصیلات لکھ کر اپنے ایک ایلچی کو دی کہ وہ بزنطیہ جائے اور ہرقل کے حوالے کر دے۔ معاہدے کی وہ اصل تحریریں بھی ساتھ بھیج دیں جس پر عمرو بن عاص اور مقوقس نے دستخط کرکے اپنی اپنی مہر لگائی تھیں۔
کچھ دنوں بعد ایلچی بزنطیہ پہنچا ہرقل مصر کی صورتحال معلوم کرنے کے لئے اتنا بے تاب تھا کہ اسے اطلاع ملی کے مصر سے ایلچی پیغام لایا ہے، تو ہرقل خود باہر کو دوڑ پڑا اور پیغام ایلچی کے ہاتھ سے چھین کر اندر لے گیا اور پڑھنے لگا اس نے جب معاہدہ دیکھا تو اسکے تن بدن کو آگ لگ گئی اور جب اس نے معاہدے کی تفصیلات پڑھی تو وہ غصے سے باؤلا ہونے لگا۔
ایلچی کو اندر بلایا۔
کیا تم مجھے کچھ بتا سکتے ہو۔۔۔ ہرقل نے غصے سے کانپتی ہوئی آواز میں پوچھا ۔۔۔کیا یہ معاہدہ صرف بابلیون کے لیے ہے یا اس بدبخت مقوقس نے پورے کا پورا مصر مسلمانوں کی جھولی میں ڈال دیا ہے، اور کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ جزیہ وصول کرکے مسلمان واپس چلے جائیں گے یا مصر کے بادشاہ بن بیٹھیں گے۔
نہیں قیصر روم!،،،،،،، ایلچی نے جواب دیا۔۔۔ مجھے فرمانروائے مصر نے کوئی ایسی بات نہیں بتائی سوائے اس کے کہ یہ پیغام آپ کے حضور پیش کر دوں۔
کہاں ہے وہ؟،،،،، ہرقل نے پوچھا۔۔۔ اور خود ہی جواب دیا بابلیون میں ہوگا۔
نہیں قیصر روم!،،،،، ایلچی نے جواب دیا۔۔۔ اسکندریہ میں آپ کے جواب کا وہیں انتظار کریں گے ۔
ابھی روانہ ہو جاؤ۔۔۔ ہرقل نے حکم دیا ۔۔۔تمہیں بادبانی جہاز تیار ملے گا فوراً اسکندریہ پہنچو اور مقوقس سے کہوں کہ اسی جہاز پر آئے اور میرے پاس پہنچے۔
#جاری_ہے
No comments: