Bhagora By Riaz Aqib Kohler Episode No. 33 ||بھگوڑا مصنف ریاض عاقبکوہلر قسط نمبر 33
Bhagora
By
Riaz Aqib Kohler
بھگوڑا
مصنف
ریاض عاقب کوہلر
قسط نمبر33
بھگوڑا
ریاض عاقب کوہلر
ٹارچ کی روشنی میں اس کا ہراساں چہرہ اس خوف زدہ چوہیاکی مانند لگا جس نے بلی کو دیکھ لیا ہو اور اس کے لیے کوئی راہ ِفراربھی نہ ہو۔
”جانو یہ کون ہے‘؟‘۔ امجد نے اسے دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا تھا۔
”ﷲ کی مخلوق ہے بھائی۔“
”تت ....تا....سو.... سوک یئی۔“(آپ کون لوگ ہو) وہ ہکلاتے ہوئے بولی۔
”گھبراﺅ مت ہم مسافر ہیں۔“ میںنے اسے تسلی دی۔یہ سن کر اس کے چہرے کی رنگت بحال ہونے لگی ۔ چہرے کے نقوش سے وہ کافی دلکش اور خوب صورت دکھائی د ے رہی تھی۔ میں نے ٹارچ آف کر دی روشنی میں خواہ مخواہ وہ جھجک محسوس کرتی۔”آپ ....آپ....کہاں سے آرہے ہیں.... اور کہاں جانے کا ارادہ ہے؟“ ”ہم میران شاہ سے آرہے ہیں، جنگل خیل میں کام تھا۔“
”راستے میں آپ کو بہرام شاہ وادی کی طرف کوئی جاتے ہوئے ملا تھا۔“
”نہیں۔“ میں دانستہ جھوٹ بولا۔
” تھوڑی دیر پہلے فائرنگ کی آوازیں آرہی تھیں۔ وہ آپ لوگوں نے کی تھی؟“”نہیں۔“ ایک مرتبہ پھر میرا جواب نفی میں تھا۔”ہوں۔“ کہہ کر وہ خاموش رہی ۔” آپ کیوں پوچھ رہی ہیں کہیں.... آپ یہاں کسی کے ڈر سے تو نہیں چھپیں؟“”نن.... نہیں تو۔“ وہ گڑبڑاگئی۔”مینوں تاں اے اوہا کڑی لگ رہی ہیے جدے بارے او منحوس پچھ رہیاسی۔“ (مجھے تو یہ وہی لڑکی لگ رہی ہے جس کے بارے وہ منحوس(ہیبت خان) پوچھ رہا تھا۔“ امجد نیچے بیٹھتے ہوئے پنجابی میں بولا۔ تاکہ وہ لڑکی ہماری بات چیت نہ سمجھ سکے۔”ٹھیک پہچانا۔“ میںنے اس کی تائید کی۔ ”ویسے کیا خیال ہے ا س کی مدد نہ کی جائے مجھے تو یہ مظلوم لگ رہی ہے ؟“
”پنگا لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔“اس نے مجھے جھڑکا۔ ”یہاں ہر دوسرا بندہ مظلوم ہے ہم کس کس کی مدد کرتے پھریں گے۔“
”خواہ مخواہ کی پنگا بازی کے حق میں تو میں بھی نہیں ہوں۔ میرا مقصد فقط اتنا تھا کہ اسے گھر والوں تک پہنچا دیا جائے ....اور بس۔“”ایک تو ہرخوب صورت لڑکی کو دیکھتے ہی نہ جانے کیوں مردوں میں ہمدردی کے جذبات اتنی شدت سے ابھرتے ہیں کہ انھیں مقصد سے بھی غافل کر دیتے ہیں ؟“”آ.... آپ لوگ کس زبان میں باتیں کر رہے ہیں۔“ اس سے پہلے کہ میں امجد کو کرارا سا جواب دیتا وہ لڑکی درمیان میں بول پڑی۔ لہجے میں موجود پریشانی اس سے نہ چھپائی گئی تھی۔” ہماری آپس کی بات ہے، تمھارا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔“ میرے لہجے میں چھپی بے رخی نے اسے چپ سادھنے پر مجبور کر دیا تھا۔ عورت تو نام ہی مجبوری کا ہے۔ رات کے اندھیرے اور اتنے خراب موسم میں دو اجنبی مردوں کے درمیان ایک ایسی لڑکی کا پھنس جانا جو خوب صورت بھی ہو کسی وضاحت کا محتاج نہیں ۔
”تمھیں شاید میری بات بری لگی ہے....لیکن اگر ہمدردی کو ایک جانب رکھ کر سوچو تو تمھیںیہ غلط نہیں لگے گا۔ ضروری نہیں کہ یہ لڑکی وہی ہو جس کے بارے میں وہ پوچھ رہے تھے۔“ امجد دانستہ ہیبت خان کا نام گول کر گیا۔ ”اور اس کا گھبرانا یا جھجکنا اس وجہ سے بھی ہو سکتا ہے کہ یہ اس وقت میں دو اجنبی مردوں کے درمیان پھنسی ہوئی ہے۔ دوسرا اگر ہم رسک لیتے ہوئے اسے ان مردار ہونے والوں کا بتا دیں تو یہ مطلوبہ لڑکی ہوتے ہوئے بھی اس راز کو راز نہ رکھ سکے گی جب ہم اسے گھر والوں تک پہنچائیں گے تو اس بات کا لازمی چرچا ہو گا اور ہم منظر عام پر آجائیں گے۔ ان کے دشمن ہمیں بھی اپنے دشمنوں کی فہرست میں شامل کرلیں گے۔ ٹھیک ہے زندگی اﷲ کے ہاتھ میں ہے لیکن خواہ مخواہ اپنی توانائیوں کو ضائع کرنا کہاں کی عقلمندی ہے، بے شک ایسی سرگرمیاںہمیں اپنے مقصد سے غافل نہ کر سکیں گی ....مگر دورضرورکر دیں گی اور ہماری مشکلات میں اضافے کا باعث بنیں گی۔ باقی مرضی تمھاری اپنی ہے۔ اپنے ہر کام اور ارادے میں مجھے شانہ بہ شانہ پاو¿گے ۔“
اس کی کھری کھری باتیوں نے مجھے خاموش کر دیا تھا ۔میں غار کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ امجد نے بھی میری خاموشی دیکھتے ہوئے مزید کچھ کہنے سے گریز کیا تھا۔میں اسی حالت میں بیٹھا کافی دیر تک مختلف سوچوںمیں گم رہا یہاں تک کہ امجد کے بھاری سانسوں کی آواز میرے کانوں میں آنے لگی۔ اسے پتا تھا کہ میرے لیے سونا مشکل ہو گا اس لیے وہ بے دھڑک سو گیا تھا۔ غار سے باہر بارش اسی تسلسل سے جاری تھی مگر غار کے اندر ماحول کافی خوشگوار تھا۔ ہلکی خنکی محسوس ہونے کے باوجود اگر ایک کمانڈو سونے کی کوشش کرتا تو وہ آسانی سے کامیاب ہو سکتا تھا۔ جس طرح کہ امجد اپنی کوشش میں کامیاب رہا تھا۔ اچانک مجھے لگا وہ لڑکی رو ر ہی ہے۔ مجھ سے صبر نہ ہو سکا میں بے ساختہ پوچھ بیٹھا....
”کیا ہوا.... کیوں رو رہی ہو؟“
”ک.... کک کچھ نہیں۔ میں رو تو نہیں رہی۔“ وہ گڑبڑا گئی۔”تمھارا نام کیا ہے۔“ میں نے سلسلہ گفتگو دراز کیا۔ ہزار قسم کے دلائل دینے کے باوجود میں خود کو اس سے لا تعلق نہیں رکھ سکا تھا۔”سعدیہ ۔“ ”کیا؟“ میرے لہجے میں حیرانی کا عنصر نمایاں تھا۔”جی سعدیہ۔“اس نے اپنا نام دہرایا۔” اس غار میں کیسے پھنس گئی ہو؟۔“ میں نے اس سے وہ سوال پوچھا جو مجھے شروع میں پوچھنا چاہئے تھا۔”مم.... مم میں.... اپنی بکری کو تلاش کررہی تھی کہ بارش شروع ہو گئی مجبوراً مجھے یہاں پناہ لینا پڑی۔ میرا گھر یہاں سے تھوڑی ہی دور ہے۔ بارش رکتے ہی چلی جاﺅں گی۔“اس کا لہجہ اور انداز واضح طور پر اس کے جھوٹا ہونے پر چغلی کھا رہا تھا۔
”اب تو کافی دیر ہو گئی ہے۔ یہ نہ ہو گھر والے تمھارے لےے پریشان ہوں۔“
”ن....نن نہیں میں انھیں بتا کر آئی تھی کہ اگر لیٹ ہو جاﺅں تو پریشان نہیں ہونا میں بکری تلاش کر کے ہی واپس آﺅں گی۔ یوں بھی ہماری کسی سے دشمنی تھوڑی ہے کہ انھیں پریشانی ہو؟“”ہیبت خان سے بھی کوئی دشمنی نہیں ۔“ میں نے ایسا سوال کیا کہ اس کی سٹی گم ہو گئی اور چند لمحوں تک وہ کچھ نہ بول سکی مگر جب بولی تو الفاظ اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔
”ی.... یہ ہے.... بت....ک.... کک.... کون ہے۔“”ہے نہیں تھا۔ ہمارے ہاتھوں جہنم واصل ہو چکا ہے۔ راستے میں ملا تھا کسی لڑکی کے بارے پوچھ رہا تھا۔ اظہارِ لاعلمی پر ہمارے ساتھ بھڑ گیا نتیجے میں اپنی اوردو ساتھیوں کی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اورجہاںتک میرا اندازہ ہے وہ لڑکی تم ہو۔“
”کک ....کون سی لڑکی۔“ وہ گھبراگئی ۔ ”یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیںمم مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی۔“ ”سعدیہ گھبرانے کی بالکل ضرورت نہیں۔ میں نے تمھارے سامنے کوئی غلط بیانی نہیں کی یہ تمام باتیں بالکل سچ ہیں۔ تھوڑی دیر پہلے میری ساتھی سے بھی اسی موضوع پر بحث ہو رہی تھی کہ تمھاری مدد کی جائے یا نہ کی جائے مگر تمھارا نام سننے کے بعد میں اتنا کر سکتا ہوں کہ تمھیں گھروالوں تک بہ خیریت پہنچا دوں۔ کیونکہ تم میری ایک عزیز ہستی کی ہم نام ہو جو ایک حادثے میں مجھ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئی ہے۔ البتہ اس سے زیادہ کی توقع مجھ سے نہ رکھنا۔“
”گھر، کون سا....گھر۔“ وہ گہری سوچ میں ڈوب گئی ۔ ”جب ایک مرتبہ لڑکی گھر سے باہر نکلتی ہے تو گھروالوں کا اعتبارا س سے اٹھ جاتا ہے ہمارے ہاں لڑکی گھر سے ایک مرتبہ ہی رخصت ہو تی ہے۔ چاہے گھر والوں کی مرضی سے ہو، اپنی مرضی سے ہو یا اس کا سبب کوئی اور ہو۔ اس کی واپسی بہ ہر حال ممکن نہیں رہتی۔“”کیا مجھے اپنی کہانی سنا سکتی ہو؟۔“ میں اس کے لہجے میں چھپے دکھ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔”میری کہانی بڑی مختصر سی ہے۔“ اس کے لہجے میں دنیا جہاں کا دکھ سمٹ آیا ۔ ”میں ہیبت خان جیسے شقی القلب کے ظلم کا شکار ہوئی ہوں۔ ہیبت خان اور اس کا بھائی باسمت خان دونوں لڑکیوں کی خریدو فروخت کا کاروبار کرتے ہیں۔ دور دراز علاقوں میں جا کر شادی کے بہانے کمسن لڑکیوں کو ان کے والدین سے خرید کرلے آنا اور پھر انھیں عرب کی مختلف ریاستوں کے رئیسوں کو بیچنا، اگر کسی دور دراز گاﺅں میں کوئی اکیلی خوب صورت لڑکی انھیں مل جائے تو اسے یہ اغوا کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ ایسی لڑکیوں کو یہ بہت سنبھال کررکھتے ہیں کہ ان کا معاوضا انھیں بہت اچھا ملتا ہے۔ میں باسمت خان کی منکوحہ ہوں، مگر شادی کے بعد پورا ہفتا گزر جانے کے بعد بھی اس نے مجھے چھوا تک نہیں تھا،ایک دن بدقسمتی یا خوش قسمتی سے وہ شراب کے نشے میں دھت گھر میں داخل ہوا اور پھر اپنے آپ کو مجھ سے باز نہ رکھ سکا۔ جب ہیبت خان کو اس بات کا پتا چلا تو اس نے اپنے چھوٹے بھائی کی خوب بے عزتی کی۔ وہ دونوں اس وقت بیٹھک میں مصروف گفتگو تھے۔ ہیبت خان میرے شوہر کو کہہ رہاتھا۔
” تمھاری بے غیرتی کی وجہ سے اب کوئی رئیس بھی اسے خریدنے کے لیے تیار نہیں ہو گا۔ وہ ان چھوا مال مانگتے ہیں اور منہ مانگے دام ادا کرتے ہیں۔“
”بھائی جان کوئی بات نہیں۔“ باسمت خان دبے لہجے میں بولا تھا۔ ”عرب رئیس نہ سہی لاہور کے کئی کاروباری اچھے داموں اسے خرید لیں گے۔ پہلے بھی تو اس طرح کئی دانے ہم نکال چکے ہیں۔“”لاہوربیوپاریوں اور عرب شیخوں کے معاوضے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے سمجھے۔“ ہیبت خان نے کہا اور پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد بولا۔”بہ ہر حال جو کچھ ہونا تھا وہ تو ہو چکا تم اس طرح کرنا آج رات یہیں بیٹھک میں سو جانا غلطی تو تم سے ہو گئی ہے اب کچھ اپنے بارے بھی سوچ لیں کافی وقت گزر گیا ہے اس طرح کے کسی پیس سے لطف اندوز نہیں ہو سکا ہوں۔ آج میری باری ہے۔“ان کی باتیں سن کر میرے پاﺅں تلے زمین نکل گئی ،ان کی گفتگو سے کچھ تو میں سمجھ گئی تھی باقی ملازما نے بتا ان کے کرتوتوں کے بارے آگاہ کر دیا اور میں اسی وقت ان کے گھر سے نکل بھاگی۔ اپنے تئیں وہ اس بات سے مطمئن تھے کہ میں ان کے کردار سے لاعلم ہوں اور ان کی اسی بے خبری کی سے میں نے فائدہ اٹھا یا، لیکن بدقسمتی سے میں تھوڑی دور ہی آئی ہوں گی کہ ہیبت خان کی نظر مجھ پر پڑ گئی اس وقت وہ اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ کہیں سے آرہا تھا اس نے میرا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ میرا ارادہ سیدھے راستے پر سفر کرنے کا تھا مگر بعد میں مَیں نے راستے کو چھوڑ دینا مناسب سمجھا۔ اس کے بعد کے واقعات آپ کے علم میںہیں۔“”تمھارا شوہر بے غیرت نکلا....ہیبت خان کی دسترس سے ﷲ تعالیٰ نے تمھیں محفوظ رکھا اور وہ جہنم واصل ہو چکا ہے۔ اب ان شاءﷲہم تمھیں خیریت سے والدین تک پہنچا دیں گے اس کے باوجود تم اتنی پریشان اور غمگین دکھائی دے رہی ہو۔ گھر والوں کو جب تم اپنی کہانی سناﺅ گی تو یقینا وہ تمھیں قبول کرنے میں پس و پیش سے کام نہیں لیں گے۔“”یہ بات اتنی بھی آسان نہیں ہے جتنی آپ سمجھ رہے ہیں۔ میں ابھی تک باسمت خان کے نکاح میں ہوں۔ اس نے قیمت چکائی ہوئی ہے میری....پھر میرے والد نہایت غریب آدمی ہیں اور ہم جنگل خیل کے باسی ہیں جس میں ہر شخص اپنا جو ابدہ خود ہوتا ہے جبکہ باسمت خان کی پشت پر اس کا پورا گاﺅں ہے۔ اگر اس کا گاﺅں بھی اس کے ساتھ نہ ہو تب بھی ہمارا گھرانہ ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور اس بار اگر میں اس کے ہتھے چڑھ گئی تو بہت برا سلوک کرے گا میرے ساتھ.... میری وجہ سے اس کا بڑا بھائی بھی مارا جا چکا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ آپ لوگ اپنی راہ لیں اور مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں۔ یہ نہ ہو میری نحوست آپ لوگوں پر بھی پڑ جائے اور آپ لوگوں کو باسمت خان یا اس کے آدمیوں سے کسی قسم کا نقصان پہنچ جائے۔“
”اس بات کی فکر تم مت کرو۔“ میں اٹھ کر غار کے دھانے کی طرف بڑھ گیاتاکہ باہر بارش کا جائزہ لے سکوں۔ بارش بالکل رک چکی تھی لیکن آسمان ابھی تک بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ میں اندر آ کر بیٹھ گیا۔ امجد کے ہلکے ہلکے خراٹوں کی آواز تواترسے آرہی تھی۔ سعدیہ خاموش ہو گئی تھی ۔ میں نے بھی آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کی۔ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کی نیند مجھے تازہ دم کر سکتی تھی۔ سونے کی کوشش کامیاب رہی اور چند لمحوں میں مَیں گہری نیند سو گیا۔
آنکھ کھلی تو امجددیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا نظر آیا جبکہ سعدیہ غار کے کونے میں بے سدھ پڑی تھی اس کا مطلب تھا کہ وہ ذہنی طور پر ہم سے مطمئن ہو گئی تھی۔ غار کے اندر ہلکی ہلکی ملگجی سے روشنی پھیلی ہوئی تھی۔”ماجے.... کیا خیال ہے، چلیں ۔“ ”اس مصیبت کا کیا کریں گے۔“ اس کا اشارہ سعدیہ کے جانب تھا۔”یہ بہت بد قسمت لڑکی ہے ماجے۔ اس کے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے۔ میرا خیال ہے اسے گھر تک پہنچا دیتے ہیں۔ یہ ویسے بھی جنگل خیل کی باسی ہے اور ہماری منزل بھی جنگل خیل ہی ہے۔“”مجھے پہلے سے پتا تھا رابن ہڈ صاحب کہ تمھاری رگ ہمدردی جب تک اپنی مرضی نہ منوالے، پھڑکتی رہے گی۔“
”اس کی ایک دوسری وجہ بھی ہے ماجے!....“”ہاں وہ ہے اس کی خوب صورتی.... اور وہ دوسری نہیں پہلی وجہ ہے۔“”اس کا نام سعدیہ ہے۔“ میں نے اس کے مذاق کو درخور اعتناءنہ سمجھااور مختصر الفاظ میں اس کی کہانی دہرا دی ۔”اچھا اس کو جگاﺅ تاکہ چلیں۔“ ”سعدیہ۔“ میں نے اسے زور سے پکارا مگر وہ اسی طرح پڑی رہی۔ میں نے تھوڑا سا آگے ہوااور اس کے ہاتھ کو پکڑ کر آہستہ سے ہلایا تو وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی ۔
”کک ....کیا بات ہے؟“”سورج طلوع ہونے والا ہے۔ چلنے کی تیاری کرو۔“
”میں تیار ہوں۔“ وہ سنبھل گئی ۔
اس کے ننگے پاﺅں کو دیکھ کر میں نے پوچھا۔”تمھاری چپل کدھر ہے؟۔“
”چپل ،مَیںساتھ نہیں لا سکتی تھی۔ بہ ہر حال آپ پریشان نہ ہوں.... مَیں ننگے پاﺅں پھرنے کی عادی ہوں۔“
میں سر ہلاکر غار کے دھانے کی طرف بڑھ گیا۔ میرے پیچھے امجد اور اس کے پیچھے سعدیہ تھی۔ میں نے غار کے دھانے پر کھڑے ہو کر باہرجھانکا مگر کوئی ذی روح نظر نہ آیا۔ آسمان بھی بالکل صاف تھا۔
”کوئی نظر آرہا ہے؟۔“ امجد نے پوچھا۔
”نظر خاک آئے چاروںطرف جھاڑیوں کے اتنے گھنے جھنڈ ہیں....سامنے کاعلاقہ البتہ صاف ہے۔“” پھر بسم ﷲ پڑھو.... یہاں سے جتنی جلدی ہو سکے نکلنے کی کوشش کریں۔“
”سعدیہ!.... تمھارے خیال میں جنگل خیل کی طرف جانے کے لیے کون ساراستا اختیار کیا جائے؟“مجھے اس کا نام لیتے ہوئے سکون سا ملا تھا۔اپنی سعدیہ کو تو جانے میں کن کن ناموں سے پکارا کرتا تھا ۔
”اگر اصل راستا اختیار کیا جائے تو وہ ڈابیر میں سے ہو کر گزرتا ہے اور ڈابیر باسمت خان کا گاﺅں ہے۔ اور وہ اپنے بھائی کی تلاش میں پاگل کتے کی طرح سرگرداں ہوگا۔ دوسرا راستا تھوڑا طویل ہے اور اس پہاڑی کے پیچھے سے ہو کر گزرتا ہے۔“ اس نے دائیں ہاتھ پر موجود ایک اکیلی پہاڑی کی طرف اشارہ کیا۔
”ٹھیک ہے.... پہاڑی والا رستا اختیار کرتے ہیں۔“ میں غار سے باہر آگیا۔ سعدیہ میرے پیچھے ہولی جبکہ امجد اس سے پیچھے محتاط انداز میں دائیں بائیں کا جائزہ لیتے ہوئے چل پڑا۔جلد ہی ہم نیچے اتر گئے ۔ اترائی ایک بہت وسیع نالے میں ختم ہو رہی تھی.... خوش قسمتی سے اس میں جا بجا درختوں اور جھاڑیوں کے جھنڈ تھے جس کی وجہ سے ہمارے دور سے نظر آنے کا خطرہ کم تھا۔ بائیں ہاتھ ڈھلانوں پر نظر آنے والے گھر اس جگہ آبادی کا پتا دے رہے تھے۔ ہم تینوں بغیر کوئی بات چیت کئے خاموشی سے اپنے راستے پر روانہ تھے۔ سعدیہ نے گھونگٹ کے انداز میں دوپٹا چہرے پر ڈالا ہوا تھا۔
”ویسے آپ نے راستا کیوں تبدیل کرلیا ہے۔“ امجدنے پوچھا۔اورمیں نے اسے سعدیہ سے ہونے والی گفتگو تفصیل سے بتادی۔”تو کیا جس راستے کے بارے میں سعدیہ جانتی ہے اس سے باسمت خان لاعلم ہو گا؟“
”تمھاراکیا خیال ہے .... اصل راستا اختیار کریں؟“”میرے خیال کی تمھیں ضرورت ہوتی تو کوئی بھی رستا اختیار کرنے سے قبل مجھ سے پوچھ لیتے۔“”سوری یار۔“ میں نادم ہو کر بولا۔ ”میرا خیال تھا تُم مجھ سے متفق ہو گے۔“”میں تمھاری صرف ایک بات سے اتفاق کر سکتا ہوں اس کے علاوہ بالکل نہیں۔“ ”کس بات سے؟“”یہی کہ تم کہو ﷲ ایک ہے۔ اس کے علاوہ تمھاری کوئی بات میرے نزدیک قابل تسلیم نہیںہے “
”اچھا فضول باتیں چھوڑو اور اپنا نقطہ نظر بیان کرو تاکہ میں اس کے متضاد اپنی کارروائی جاری رکھ سکوں ۔“ اس بات چیت کے دوران بھی ہمارا سفر جاری رہا۔”اب اسی رستے پر چلتے رہو.... نامعلوم باسمت خان اپنے بھائی کی موت سے باخبر ہے بھی یا نہیں.... اور اگر اسے پتا چل گیا ہے ....تو ہو سکتا ہے قاتلوں کی تلاش میں اس کا رخ بہرام شاہ کی طرف ہو۔“مگر یہ امجد کی خام خیالی تھی، کیونکہ درختوں کے ایک جھنڈ سے جیسے ہی ہم باہر آئے دائیں ہاتھ موجود ڈھلان پہ ایک پتھر کے پیچھے کلاشن کوف گرجی۔ ساتھ ہی کوئی بلند آواز سے دھاڑا ہتھیار پھینک کر ہاتھ اوپر اٹھا لو۔“ یہ بات گو پشتو میں کہی گئی تھی لیکن ہمارے ہاتھ اٹھتے دیکھ کر امجد نے بھی گن نیچے رکھ کر ہاتھ اوپر اٹھا لئے۔
بڑے پتھر کے پیچھے سے چار افراد برآمد ہوئے۔ ” آگے والا باسمت خان ہے۔“میرے پہلو میں کھڑی سعدیہ آہستہ سے بولی۔ باسمت خان اپنے بھائی کے برعکس کافی لمبا تھا۔ وہ تیزی سے ڈھلان سے اتر کر ہمارے سامنے آگئے۔”تیرا کیا خیا ل تھا، تُو باسمت خان کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنے یار کے ساتھ نکل بھاگے گی؟“باسمت خان نے سعدیہ کے سامنے رک کر طنزیہ لہجے میں پوچھا۔ وہ اس وقت اپنے چہرے کو چھپائے کھڑی تھی، مگر کپڑوں اور جسمانی ساخت کی بدولت باسمت خان نے آسانی سے اسے پہچان لیا تھا۔
”کیسی باتیں کر رہے ہو بھائی۔ یہ میری بیوی ہے اور اس کا تمھارے ساتھ کیا تعلق۔“ میں اسے جا نچنے کی خاطر بولا تاکہ پتا چل سکے کہ اس نے کس حد تک سعدیہ کو پہچانا تھا۔”تمھاری تو یہ بہن ہے سالے۔“ ا س نے مجھے تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ گھمایا، لیکن مجھے چھونے کی حسرت اس کے دل میں ہی رہی۔ میں اپنے گھٹنوں میں خم دے کر تھوڑا سا نیچے ہوا اس کا ہاتھ میرے سر کے اوپر سے گزر گیا اور وہ اپنی جھونک میں مڑ گیا اسی موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے میں بجلی کی سی سرعت سے آگے بڑھا اور اگلے لمحے وہ میرے بازوﺅں کے شکنجے میں تھا۔ اس کی پیٹھ میری چھاتی سے لگی ہوئی تھی جبکہ گیراکٹ مارک تھرٹین کی خوفناک منرل اس کی کنپٹی سے لگ چکی تھی۔
”اپنے کتوں سے کہو رایفلیں نیچے پھینک دیں۔“ میں بڑی بے رحمی سے اپنے بازو کی گرفت اس گردن پر سخت کی ۔ اس کے تینوں آدمی شاک کی سی کیفیت میں ساکن کھڑے رہ گئے تھے جبکہ امجد نے میرے ایکشن لیتے ہی اپنے پاﺅں میں پڑی گن اپنے ہاتھوں میں سنبھال لی تھی۔
”تت تمھیں یہ بہت مہنگا پڑے گا۔“ وہ خرخرایا۔”دھمکی نہیں۔“ میں اپنی گرفت کومزید سخت کیا۔ ”جو کہا ہے وہ کرو۔“ اس کی حلقوں سے ابلتی آنکھیں دیکھ کر اس کے تینوں ساتھیوں نے اضطراب میں اپنے ہتھیاروں کا رخ میرے جانب کیا مگر مجھ سے پہلے گولی ان کے ساتھی کو لگتی اس لیے پہلو بدل کر رہ گئے۔
”تمھاری بہتری اسی میں ہے کہ سردار کو چھوڑ دو۔“ ان میں سے ایک غصے سے دھاڑا۔”میں کہہ رہا ہوں ہتھیار پھینک دو۔“ میں نے اپنی بات دہرائی مگر ہتھیار پھینکنے میں وہ متذبذب نظر آرہے تھے۔”تمھیں میری بات کی زبان سمجھ نہیں آرہی؟ میں تین تک گنوں گا اگر اس دوران تم لوگوں نے ہتھیار نہ پھینکے تو....“ میں نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی لیکن معنی کے لحاظ سے میری بات مکمل تھی.... تو کے بعد میں کیا کرنے کا ارادہ رکھتا تھا اس بات سے وہ اچھی طرح واقف تھے۔ انھوں نے میری جانب تانے ہتھیاروں کی بیرل آہستہ آہستہ زمین کی طرف جھکا دی مگر ہتھیار پھینکنے میں وہ ابھی تذبذب کا شکار تھے اور ان کی یہ مشکل امجد نے حل کر دی کہ جیسے ہی ان کی کلاشن کوفوں کی بیر لیں زمین کی جانب ہوئیں امجد نے یکدم کلاشن کوف کاٹریگر پر یس کر دیا، برسٹ پر سیٹ ہو ئی گن سے گولیوں کی بوچھاڑ نکلی اور وہ تینوں چیختے ہوئے نیچے گر گئے۔ امجد کی انگلی نے اس وقت تک ٹریگر پریس رکھا جب تک میگزین خالی نہ ہو گئی اور اس کی وجہ اس کے علاوہ اور کوئی نہیں تھی کہ امجد انھیں سنبھلنے کاموقع نہیں دینا چاہتا تھا۔ ہو سکتا تھا کہ ان میں سے کوئی مرتے مرتے بھی ہم تینوں کو نشانہ بنا لیتا۔
”تت.... تت.... تم نے یہ اچھا نہیں کیا۔“ باسمت خان کے لہجے میں غصہ بھرا تھا۔مگر یہ اس کی زبان سے ادا ہونے والے آخری الفاظ تھے۔ اپنے بائیں بازو کی گرفت میں پھنسی اس کی گردن میں نے مخصوص جھٹکے سے توڑتے ہوئے اسے نیچے پھینک دیا۔ امجد نے اپنی خالی میگزین پھینک کر باسمت خان کی گن سے بھری ہوئی میگزین اتار کر اپنی گن میں لگالی۔میں نے باسمت خان کی سرسری سے تلاشی لی تو اس کی جیبوں سے نسوار، چرس کے بھرے ہوئے سگریٹ اور ایک لمبے پھل کا پتلا سا خنجر بر آمد ہوا۔ ان میں صرف خنجر ہی میرے کام کا تھا جو میں نے اپنی جیب میں ڈال لیا۔ باقی آدمیوں کی تلاشی لینے کی ضرورت ہم نے محسوس نہیں کی تھی اور اس کی وجہ ان کے جسموں سے نکلنے والاخون تھا۔ جس نے ان کے لباس کو ررنگ دار کر دیا تھا۔ ایک صاف سی کلاشن کوف البتہ میں نے اٹھا کر اپنے کندھے سے لٹکا لی تھی۔ سعدیہ ابھی تک شاک کی کیفیت میں اپنی جگہ پر منجمد کھڑی تھی۔
”چلو۔“ میں نے اسے بازو سے پکڑ کر آہستہ سے ہلایا تو وہ جیسے چونک پڑی۔
”ی.... یہ.... یہ.... تت.... تمام.... مم مر گئے۔“ ”ہاں.... اور اب چلویہ نہ ہو ان کے ساتھی اکٹھے ہو جائیں۔“
ہم تینوں وہاں سے تیز قدموں سے روانہ ہو گئے۔ سعدیہ کے پاﺅں میں جوتے نہیں تھے مگر اس کے باوجود وہ بڑی ہمت سے ہمارے ساتھ قدم ملا کر چل رہی تھی۔” جانو....! لاشوں کو اگر راستے سے دائیں بائیں پھینک دیتے تو اچھا تھا۔“”اب دن کا وقت ہے اور ان کے جسموں سے نکلنے والا خون ہم کیسے چھپاتے پھریں گے۔ دفع کرو ایک دفعہ ہم جنگل خیل پہنچ گئے پھر کسی نے ہمیں نہیں پہچاننا۔ ان دونوں بھائیوں کے ساتھ ہماری کون سی دشمنی تھی کہ کوئی ہم پر شک کرے گا؟“
”اور یہ مصیبت جو ہم ساتھ لیے پھر رہے ہیں۔“ وہ شاکی لہجے میںبولا۔
”اس کو پہچاننے والے ہیبت خان اور باسمت خان مردار ہو چکے ہیں۔ ان کے علاوہ میرا نہیں خیال کہ کوئی اسے شکل سے پہچانتا ہو گا۔“
”پھر بھی یار ان سات مرنے والوں کے ورثاً آخر چپکے تو بیٹھے نہیں رہیںگے۔ گو ان کو قتل کرتے وقت مجھے ذرا بھر بھی جھجک نہیں ہوئی اور نہ ابھی کوئی افسوس ہے کہ ان کے کرتوت ہی ایسے تھے، نامعلوم کتنے بے گناہوں کے قاتل ہوں گے اور پتا نہیں کتنی عورتوں کی عزت یہ لوگ خراب کر چکے ہوں گے۔ ان کا زمین کے اوپر چلنے کی بجائے زمین کے نیچے لیٹنا مخلوق خدا کے لیے بہتر ہے۔ لیکن ان کے پسماندگان تو یہ بات نہیں سوچیں گے نا۔ انھیں تو ان کے قاتل کی تلاش ہو گی اور اگر وہ ایک مرتبہ ہمارے ساتھ چلنے والی بی بی تک پہنچ گئے تو یہ شاید ہمارا راز نہ رکھ سکے ۔“ امجد دانستہ اس کا نام لینے سے گریز کررہا تھا تاکہ اسے یہ پتا نہ چل سکے کہ ہم اس کے متعلق محو گفتگو ہیں۔
”انھیں کیا پتا چلے گا کہ یہ گھر پہنچ گئی ہے؟“”جناب جس راستے پر گامزن ہے یہ جنگل خیل کی طرف ہی جاتا ہے۔“”ٹھیک ہے لیکن کسی کو یہ پتا تو نہیں ناکہ یہ قتل اس لڑکی کی ایما پر ہوئے ہیں اور ویسے بھی اس کے فرار کے متعلق چند لوگوں ہی کو خبر ہو گی۔ ان لوگوں کی تو دشمنیاں بھی اتنی زیادہ ہو ں گی کہ شاید انھیں اپنے دشمنوں کے نام بھی یاد نہ ہوں اور یہ کارستانی بھی کسی ایسے ہی مضبوط اور ان کی ٹکر کے دشمن کے کھاتے میں جائے گی، اس مظلوم کی جانب تو کسی کا گمان بھی نہیں جائے گا۔“
”بہ ہر حال یہ اندازہ ہے معاملہ اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے۔ باسمت خان جس طرح ہماری گھات میں بیٹھا تھا اس طرح اس نے ،علاقے سے نکلنے والے باقی راستوں کی بھی ناکہ بندی کروائی ہو گی۔ اس بات سے یہ پتا بھی چلتا ہے کہ انھوں نے کل رات ہی ہیب خان پارٹی کی لاشیں تلاش کرلی تھیں اور یہ اندازہ انھوں نے فائر کی ڈائریکشن سے لگایا ہو گا اور اگر میرا اندازہ صحیح ہے تو ابھی ہمارا تعاقب شروع ہو چکا ہو گا۔ باقی راستوںپر متعین ان کے آدمی لازمی طور پر ہماری فائرنگ سے اس جانب متوجہ ہو گئے ہوں گے اور اب شاید وہ جائے حادثہ پر پہنچے والے ہوں۔“ امجد کا تجزیہ مجھے زیادہ حقیقت کے قریب محسوس ہوا۔
” تو....اب کیا کرنا چاہئے؟“
امجد نے جواب دیا۔”پھر یہ راستا ہمارے لیے موزوں نہیں ہے۔“
” کیوں نا، کچھ دیر ادھر چھپ کر انتظار کیا جائے اگر تمھارا اندازہ صحیح ثابت ہوا تو وہ ادھر سے ہی گزریں گے۔“
”ہاں.... یونھی کرنا پڑے گا۔“ اس نے اثبات میں سر ہلایا اور ہم راستے کے بائیں جانب موجود ڈھلان پر پڑے بڑے بڑے پتھروں کے درمیان چھپ کر بیٹھ گئے ،اس طرح کہ راستا ہمیں آسانی سے دکھائی دیتا رہے۔
سعدیہ مستفسر ہوئی ۔”ادھر کس لیے چھپ رہے ہو؟“ ”ہمیں شک ہے کہ فائرنگ کی آواز سن کر دشمن اس طرح متوجہ ہوگا اور ابھی شاید وہ اسی راستے پر آگے آئے....ویسے کیا ان دو راستوں کے علاوہ کوئی اور راستا جنگل خیل کی طرف جاتا ہے۔“
”اگر جاتا بھی ہے تو میں اس سے لاعلم ہوں۔“ اس نے نفی میں سر ہلایا۔ اسی وقت مجھے دور درختوں کے جھنڈ سے ایک ڈبل کیبن ٹویوٹا نکلتی دکھائی دی اور پھر اس سے چند سیکنڈ بعد ایک اور گاڑی برآمد ہوئی۔ امجدکا اندازہ صحیح ثابت ہوا تھا اور ہم نے بروقت فیصلہ کرتے ہوئے چھپنے کا جو فیصلہ کیا تھا وہ ہمارے حق میں بہتر ثابت ہواتھا ورنہ راستے پر گامزن ہونے کی وجہ سے اب تک ہم ان کی نظروں میں آگئے ہوتے۔
دونوں گاڑیاں لاشوں کے پاس آ کر رک گئیں۔ دونوں گاڑیوں میں پانچ پانچ افراد سوار تھے۔ چند منٹ بعد ایک گاڑی تو تیز رفتاری سے ہماری جانب روانہ ہو گئی جبکہ دوسری گاڑی میں وہ لوگ لاشیں رکھنے لگے۔ ہمارے سامنے آ کر گاڑی کی رفتار قدرے آہستہ ہوئی اور پھر ہمارے چھپنے کی جگہ سے چند سوگز مزید آگے جا کروہ گاڑی رک گئی اور تمام نیچے اتر کر ہتھیار سونتے دائیں بائیں کے علاقے کو غور سے دیکھتے آگے بڑھنے لگے۔ لاشیں اٹھانے والی گاڑی واپس ڈابیر کی طرف چل پڑی تھی۔”اب کیا کریں؟“ امجد مستفسر ہوا۔”اب جو بھی کرنا ہے جلدی کرنا پڑے گا ورنہ لاشیں لے جانے والے جلد ہی واپسی کا قصد کریں گے۔
”اگر ہم ان کی گاڑی قبضے میں کر لیں تو تیز رفتاری سے یہاں سے نکل سکتے ہیں۔“”اس میں ایک قباحت ہے....۔“امجد کا سوالیہ چہرہ دیکھ کر میں نے وضاحت کی ۔ ”اور وہ یہ کہ اگر ہم نے سیدھے نکلنے کی کوشش کی تو ان کی گولیوں کی زد میں آنے کا خطرہ ہے۔ اور واپس جانے کی صورت میںدوسری گاڑی والوں سے ٹکراﺅ کا اندیشہ ہے۔“”ویسے انھوں نے جس طرح اس پہاڑی کو نظر انداز کر دیا ہے اس سے یہی پتا چلتا ہے کہ اس جانب سے جنگل خیل تک پہنچنا ناممکن ہو گا۔“” اگر ایک ٹرائی اس پہاڑی کو عبور کرنے کی کرلیں تو....“
”کوئی ضرورت نہیں....خواہ مخواہ اپنی توانائیوں کو ضائع کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔“”توپھر....؟“
”تلاشی لینے والے جس انداز میں آگے جارہے ہیں اس سے تو یہی لگ رہا ہے جیسے انھیں ہمارے آگے بڑھ جانے کا یقین ہو ا س لیے میرا مشورہ یہی ہے کہ تھوڑی دیر انتظار کر لیتے ہیں دوسری گاڑی آنے کے بعد جب وہ تلاشی لینے والوں کے ساتھ مل جائیں گے تو ہم اس گاڑی پر قبضہ کر کے ڈابیر کے راستے سے نکلنے کی کوشش کریں گے۔“
”اور اگر انھوں نے دوسری گاڑی پر ہمارا تعاقب شروع کر دیا ؟“
”دوسری گاڑی کو ناکارہ کر کے ہی جائیں گے۔“”خیال رہے ان کے پاس محدود رینج کے واکی ٹاکی بھی ہوتے ہیں۔ یہ نہ ہو اس کی مدد سے یہ ہماری ناکہ بندی کروالیں۔“
”اتنا رسک بہر حال لینا ہی پڑے گا۔ “
”چلو ایسا ہی کرلیتے ہیں ۔“ میںنے ڈابیر کے راستے پر نظریں جمالیں ....جلد ہی لاشیں لے جانے والی گاڑی واپس آتی دکھائی دی اس مرتبہ اس میں چند بندوں کا اضافہ ہو گیا تھا۔ یہ لوگ لاشوں کی جگہ پر گاڑی روک کر نیچے اترے۔ ایک بندہ گاڑی کے ساتھ کھڑا کر کے باقی تمام اردگرد کے علاقے میں پھیل گئے اور تلاشی لینے کے انداز میں آگے چل پڑے۔ ان میں سے دو آدمی ڈھلان پر چڑھ گئے اور دائیں بائیں پتھروںمیں نظریں دوڑاتے ہماری جانب چل پڑے۔ سعدیہ کا رنگ خوف سے سفید پڑ گیا تھا امجد کے چہرے پر بھی گہری سنجیدگی چھا گئی ۔ حالات ہماری توقع سے بھی بڑھ کر خطرناک ہو گئے تھے۔ ہم دونوں کلاشن کوفیں ہاتھ میں تھام کر ان کا استقبال کرنے کے لیے تیار ہو گئے مگر ان کی تعداد کافی زیادہ تھی ان کے کچھ ساتھی پہلے سے بھی موجود تھے۔ دو تین کو تو ہم پہلے ہلے میں مار گراتے مگر اس کے بعد انھوں نے بھی کسی آڑ کے پیچھے ہو جانا تھا اورپھر ان کے پیچھے گاﺅں سے بھی کمک پہنچ جاتی۔ ہمیں سخت مر حلے کا سامنا تھا لیکن اس کے باوجود ہم گرفتاری دینے یا ہارماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔
وہ آہستہ آہستہ ہمارے قریب ہوتے جارہے تھے یہاں تک کہ ان کا فاصلہ گھٹتے گھٹتے 100گز رہ گیا۔ امجد نے میری آنکھوں میں جھانکا۔ اس کے کھلنڈرے چہرے پر اس وقت بلا کی سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔ اس کا یوں گھورنا فائر کرنے کی اجازت طلب کرنے کے لیے تھا۔ مگر میں نے اس کی امیدوں کے برخلاف نفی میں سر ہلا دیا۔ میر ے خیال میں ان کے زیادہ قریب ہونے کی صورت میں فائر کھولنے پر ان کا زیادہ نقصان ہونے کی امید تھی۔
امجد نے نالے کے درمیان چلنے والوں پر شست باندھی ہوئی تھی جبکہ میری نظر ڈھلان کے اوپر ہماری طرف چل کر آنے والوں پر تھی اور پھر چند لمحوں بعد ہی وہ میری مطلوبہ رینج میں پہنچ گئے۔ میں نے آگے والے بندے پر شست لیتے ہوئے ٹریگرکی آزادنہ حرکت کو پورا کیا، اور اس کے ساتھ ہی میں امجد کو فائر کرنے کا کہنے لگا تھا کہ اچانک ماحول تڑتڑاہٹ کی آواز سے گونج اٹھا۔ یہ فائر یہاں سے پہلے گزر جانے والی پارٹی نے کیا تھا۔ یہ آواز گویا ہمارے لیے صوتِ رحمت ثابت ہوئی تھی۔ ہماری سیدھ میں آنے والے دونوں اشخاص بھاگتے ہوئے ڈھلان اترتے چلے گئے ڈبل کیبن ٹویوٹا کا ڈرائیور گاڑی کو آہستہ آہستہ چلاتے ہوئے تلاش لینے والوں کے متوازی ہی چل رہا تھا۔ تمام پارٹی نالے میں اکٹھے ہو کر گاڑی میں بیٹھی اور گاڑی تیر رفتاری سے آگے بڑھ گئی۔
”بال بال بچ گئے۔“ امجدنے گہرا سانس لیا۔”ہاں یار ﷲ نے بچا لیا۔“ میں نے اس کی تائیدکی ۔ ”لیکن اب اٹھو تاکہ ان کی افراتفری سے فائدہ اٹھا کر کوئی پناہ ڈھونڈیں۔“”کس طرف چلیں“ ۔ وہ اٹھتے ہوئے بولا۔ سعدیہ بھی ہمارے ساتھ کھڑی ہو گئی تھی اس کے زرد پڑتے چہرے کی رنگت خطرہ ٹلتے ہی بحال ہو گئی تھی۔”میرے خیال میں انھی کے پیچھے چلتے ہیں۔“”پاگل ہو گئے ہو کیا۔“بہ ظاہر میری مخالفت کرنے کے باوجوداس نے میرے ساتھ قدم بڑھائے تھے۔سعدیہ تو ویسے ہی بے زبان جانور کس طرح ہمارے پیچھے پیچھے تھی۔”عقل استعمال کرو ماجے صاحب....!۔“ میں نے اسے جھڑکا۔ ”یہ سارا علاقہ انھوں نے سرچ(تلاش) کر لیا ہے اب ان کی توجہ یا تو اس علاقے سے آگے رہے گی یا وہ پیچھے ہٹے تو گاﺅں کی سمت تلاش کا آغاز کریں گے اور اس وقت سب سے محفوظ جگہ یہی درمیانی علاقہ ہے جس کو دونوں پارٹیاں سرچ کر چکی ہیں۔“
”ٹھیک ہے زیرو زیروسیون صاحب۔“ وہ طنزیہ لہجے میں بولا۔ ”لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کہ وہ دوبارہ نئے سرے سے اس علاقے کی تلاشی شروع کر دیں۔“
”کیوں یہ ایک کلو میٹر کا رقبہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ وہ دوبارہ اسی جگہ کی تلاشی لیں گے؟“”ویسے ہی .... دشمن کی عقل سے کیا بعید ہے۔“”ماجے صاحب ....!ہرکام یونہی نہیں ہوتا۔ اس کے پیچھے کوئی سوچ کار فرما ہوتی ہے۔“”مگر تمھارے تو سارے کام تکے سے ہوتے ہیں۔ اس لیے میں نے سوچا شاید سارے پٹھان ہی ایسے ہوتے ہوں۔“”اچھا اپنی چونچ بند رکھو اور مجھے سوچنے دو۔“
”ہونہہ.... یہ بھی نئی کہی کہ سوچنے دو۔ یہ سوچ کہیں اس پٹھان کی طرح نہ ہو جو ساری عمر یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوتا رہا کہ اس کی بہن کے تین بھائی ہیں تو اس کے دو کیوں ہیں۔“مجھے پتا تھا کہ یہ ساری بکواس وہ اس ٹینشن کو زائل کرنے کے لیے کر رہا ہے جس کا شکار تھوڑی دیر پہلے ہم دونوں ہوئے تھے۔ اس کو نظر انداز کرتے ہوئے میں سعدیہ سے مخاطب ہوا۔”سامنے نظر آنے والا درختوں کا جھنڈ کتنے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔“ میرا اشارہ نالے کے درمیان موجود جھنڈ سے تھا جس کے اندر دشمنوں کی دونوں گاڑیاں غائب ہوئی تھیں اور اس وقت ہمارا رخ بھی اسی جانب تھا۔
”اس جگہ تو درخت اتنے زیادہ نہیں ہیں۔ البتہ اس کے بعد جو جنگل آتا ہے وہ کافی علاقے میں پھیلا ہوا ہے اور اس جھنڈ اور جنگل کے درمیان تقریباً کلو میٹر بھر علاقہ بغیر درختوں کے ہے۔“”ہوں.... اس کا مطلب ہے فائرنگ کی آواز اسی جنگل کے جانب سے آئی تھی۔ شاید وہاں پر انھوں نے غلط فہمی سے کسی جانور پر فائر کر دیا ہو۔ کیونکہ اس ایک برسٹ کے بعد دوبارہ فائرنگ کی آواز نہیں آئی ہے۔“”شاید۔“ سعدیہ نے ہولے سے میری تائید کی۔ اس دوران ہم جھنڈ میں داخل ہو گئے تھے۔ راستے سے ہٹ کر ہم دبے قدموں آگے بڑھنے لگے۔ میرا اندازہ تھا کہ اس جھنڈ کی تلاشی وہ تفصیلاً کر چکے تھے۔ ہم درختوں اور جھاڑیوں کی آڑ لے کر آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگے۔ سب سے آگے امجد تھا اس کے پیچھے میں اور میرے پیچھے سعدیہ چل رہی تھی۔ چلتے چلتے امجد نے رک کر ہاتھ کھڑا کر دیا اور اس کا مطلب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا کہ اسے کوئی سرگرمی نظر آگئی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں آگے بڑھ کر اس سے مستفسر ہوتا یا خود سن گن لینے کی کوشش کرتا وائریس سیٹ پر کسی کی تیز آواز گونجی۔ بولنے والا پشتو میں محو گفتگو تھا اور وہ چند گز ہی دور تھا۔ ہم تینوں وہیں دبک گئے۔
”ورتہ اووایہ.... اخوا لار باندے سو مرہ کسان ناست دی ٹول دے خواراولیگا۔“ (اسے بتاﺅ اس راستے پر جتنے بندے موجود ہیں تمام ادھر بھیج دو)”دامیے ورتہ ویلی دی.... ھغہ تپوس کیی زہ اخپل درشم یا پاتے شم۔“(یہ میں نے اسے بتا دیا ہے۔ وہ پوچھ رہا ہے وہ خود بھی ساتھ آجائے یاوہیں رہ جائے)
”ھغہ پہ یوازے ھغلتہ سہ¿ کوی۔“(وہ اکیلا وہاں کیا کرے گا)۔ ”ھغہ دے ہم راشی“ (وہ بھی آجائے)
”گل ھان الدین.... وہ کہہ رہا ہے تم بھی ساتھ آجاﺅ۔“ اس مرتبہ اس کا مخاطب کوئی دوسرا تھا۔ہم سے چند گز دوری پر موجود شخص انھوں نے اپنا رابطہ بحال رکھنے کے لیے وہاں چھوڑا ہوا تھا۔ چونکہ ان کے پاس موجود سیٹوں کا ملاپ لمبے فاصلے تک نہیں ہو سکتا تھا اس لیے درمیانی شخص دونوں گروپوں کا پیغام ایک دوسرے تک پہنچا رہا تھا۔ اصولی طور پر تو اسے کسی اونچی جگہ پر ہونا چاہئے تھا مگر شاید دھوپ سے بچنے کے لیے وہ نیچے سائے میں اتر آیا تھا۔ ویسے بھی وہاں اسے رابطے میں کوئی پرابلم پیش نہیں آرہی تھی اس لیے وہیں ٹکا ہوا تھا۔ اس کی گفتگو سے میں نے جو اندازلگایا وہ یہی تھا کہ آگے جانے والے تمام جنگل کو سرچ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے اور اس مقصدکے لیے وہ دوسرے راستے کی ناکہ بندی کرنے والے تمام آدمیوں کو اپنے پاس ہی بلا رہے تھے۔
”دوبارہ کوئی نظر نہیں آیا؟“ اس مرتبہ وہ آگے والوں سے مستفسر ہوا تھا۔ ”نہیں.... لیکن کب تک چھپیں گے۔ ہم بھوسے کے ڈھیر سے سوئی نکال لیتے ہیں یہ تو پھر میں جیتے جاگتے آدمی ہیں۔“”لڑکی نظر آئی تھی یا....“”نہیں.... مگر وہ حرام زادی بھی ان کے ساتھ ہی ہو گی۔“
ان کی گفتگو سے مجھے ساری کہانی پتا چل گئی تھی۔ انھیں جنگل میں کچھ لوگوں کی جھلک نظر آئی تھی جن پر انھوں نے فائر کھولا مگر وہ وہیں جنگل میں کہیں غائب ہو گئے تھے اور وہ غلط فہمی سے انھیں اپنے مطلوبہ دشمن سمجھ رہے تھے۔
”اس سے پوچھو۔ ہم بھی گل ہان الدین پارٹی کے ساتھ آجائیں۔ یا یہیں ٹکے رہیں۔“ اس مرتبہ میرے کانوں میں ایک دوسری آواز گونجی۔
”اس کا مطلب ہے یہاں پر ایک نہیں بلکہ دو افراد موجود ہیں۔“ میں نے دل ہی دل میں سوچا۔
پہلے والا یہی بات واکی ٹاکی پر اپنے سردار سے پوچھنے لگا اور اسے جواب ملا۔”تم دونوں وہیں رہو۔ اگر ضرورت پڑی تو میںآگے بلوا لوں گا۔“
ہم تینوں اس گھنی جھاڑی میں دبکے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد ہی جھنڈکے سرے پر گاڑیوں کی آواز آئی۔ گاڑیاں جھنڈ کے درمیان گزرنے والے راستے پر روانہ تھیں۔میں نے احتیاط سے جھاڑی سے سرنکال کر دیکھا ۔ مجھے آگے پیچھے تین ڈبل کیبن ٹویوٹا نظر آئیں، تینوں میں آٹھ نو، نو بندے سوار تھے۔ یہاں پر پہلے سے موجود دشمن کے بندوں نے بھی گاڑیوں کی آواز سن لی تھی اس لیے وہ راستے کے جانب بڑھے اور ہمیں نظر آگئے۔ دونوں میں ایک نوجوان اور دوسرا پختہ عمر کا تھااور حلیہ ویسا ہی تھا جیسا کہ عموماً اس علاقے کے مردوں کا ہوتا ہے لمبے لمبے بال چھوٹی چھوٹی داڑھی اور کھردرے موٹے کپڑے کا لباس جسے دھلے شاید ہفتوں بیت چکے تھے۔
”افضل خان گاڑی لشکی سائیڈتاکاچے منگ تیر شو۔“(افضل خان گاڑی تھوڑی سائیڈ پہ کرو تاکہ ہم گزر جائیں) سب سے آگے والی گاڑی سے ایک شخص چیخ کر بولا تھا۔
جواباً پختہ عمر کا شخص بولا۔ ”لگ صبر کوا.... در روان یو۔“ (تھوڑا صبر کرو آرہے ہیں۔)ان دونوں نے شاید اپنے لیے گاڑی وہیں کھڑی ہوئی تھی۔ افضل خان اور اس کا ساتھی اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اسے اسٹارٹ کر کے درختوں کے بیچ لے آئے اور آنے والا گروپ آگے بڑھتا گیا۔
”ماجے کچھ سمجھ آرہی ہے؟“ میںنے سرگوشی میںپوچھا۔”کچھ کچھ۔“
”آگے جانے والوں کو شک ہے کہ ہم اس جھنڈکے بعد موجود ایک جنگل میں چھپے ہوئے ہیں....اور اس جنگل کی تفصیلی تلاشی لینے کے لیے انھوں نے مزید افراد کو طلب کر لیا ہے۔ میرے خیال میں ہمیں یہاں موجود دونوں آدمیوں پر قابو پاکر گاﺅں والے راستے سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہےے ....جب تک ان لوگوں کو خبر ہو گی ہم گاﺅں کراس کر چکے ہوں گے۔“
”زندگی میں پہلی بار تُم نے کوئی عقل کی بات سوچی ہے۔“اس کو متفق دیکھ کر میں سعدیہ کی طرف متوجہ ہوا ۔ ”ہم دونوں ان کی سرکوبی کے لیے جارہے ہیں تم یہیں لیٹی رہو۔“”ٹھیک ہے۔“ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ جھاڑی میں وہ مجھ سے جڑ کرلیٹی ہوئی تھی عام حالت میں شاید کسی غیر مرد کے اتنا نزدیک لیٹنے کا وہ سوچ بھی نہ سکتی ہو مگر اس وقت حالات نے اسے مجبورکیا ہوا تھا۔ میرے احساسات بھی اس کے جوان بدن کی حدت اور گداز پن سے غافل تھے۔
وہ دونوں گل ہان الدین پارٹی کے گزرتے ہی واپس اپنی جگہ پہنچ گئے تھے۔ میں اور امجد آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کر کے اپنی جگہ سے رینگتے ہوئے نکلے اور کرالنگ کرتے ہوئے ان دونوں کی طرف بڑھنے لگے۔ مگر تھوڑا سا آگے بڑھ کر ہی ہمیں رکنا پڑا کہ ایک تو سخت پتھریلی زمین پر کرالنگ کرنا مشکل تھا دوسرا زمین پر پڑے کنکروں سے ہمارے حرکت کرنے کی وجہ سے ہلکی ہلکی آواز پیدا ہو رہی تھی پتھروں کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف تو ہم برداشت کر لیتے مگر ان کا ہلکا سا شور بھی ہمارے لیے صوراسرافیل ثابت ہو سکتا تھا۔ ہم ایک مرتبہ پھر آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کر کے اٹھ بیٹھے۔ اس دفعہ ہم دونوں بیٹھی حالت میں ان کی طرف بڑھنے لگے۔ کمانڈو سروس ہو یا عام فوجی زندگی ہر دو میں دشمن تک اس کی بے خبری میں پہنچنے کے لیے کچھ چالیں سکھائی جاتی ہیں جن میں عام طور پر چیتا چال، بندر چال ،بلی کے بچے کی چال اور بھوت چال بہت معروف ہیں۔ان میں سے ہر چال موقع محل کی مناسبت سے اپنائی جاتی ہے۔ اس وقت ہمیں سب سے بہتر بندر چال لگی۔ بڑے درختوں کے درمیان اُگی چھوٹی جھاڑیاں ہمارے بیٹھے ہونے کی صورت میں نظری آڑ مہیا کر رہی تھیں اور بیٹھ کر آگے بڑھنے کی صورت میں نہ تو ہمارے قدموں کی آواز آرہی تھی اور نہ ہی رینگنے والی حالت کی طرح کنکروں سے کوئی شور اٹھ رہا تھا۔ ہم تھوڑا سا آگے ہی بڑھے تھے کہ ایک مرتبہ پھر ان کا وائرلیس سیٹ بول اٹھا۔
”جانان خان ہم پہنچ گئے ہیں۔“ یہ آواز اسی شخص کی تھی جو اس سے پہلے افضل خان کی وساطت سے اپنے سردار سے بات چیت کررہا تھا۔ اب چونکہ وہ خود ان کے نزدیک پہنچ چکا تھا اس لیے براہِ راست ان سے مخاطب تھا۔
”گل ہان الدین ہم جنگل کے دوسرے سرے پر جمع ہیں۔ تم اسی طرف سے پھیل کر اندر داخل ہو جاﺅ اس سمت سے ہم تمھاری طرف بڑھیں گے۔ راستے میں ہر جھاڑی اور درخت کو کھنگالتے آنا میں دیکھتا ہوں یہ سالے کیسے بچتے ہیں؟“”ٹھیک ہے۔ میں ایسے ہی کر رہا ہوں۔“ گل ہان الدین کی موّدبانہ آواز سنائی دی اور ماحول میں ایک پھر صرف پرندوں کی آواز باقی رہ گئی۔ اس دوران ہم ان کے بالکل قریب پہنچ چکے تھے وہ دونوں جس جگہ کھڑے تھے وہاں سے جنگل واضح نظر آرہا تھا ان دونوں کا رخ بھی اسی جانب تھا۔ امجد نے میری جانب دیکھتے ہوئے اپنے ہاتھ کو خنجر کی طرح اپنے گلے پر پھیرا۔ مگر میں نے نفی میں سر ہلا دیا وہ انھیں ہلاک کرنے کے بارے پوچھ رہا تھا مگر میں نے نفی میں سر ہلا کر اسے خواہ مخواہ کی خون ریزی سے منع کر دیا۔ اگر ان کی زندگی ہمارے لیے کسی نقصان کا باعث بنتی تو میں کبھی بھی انھیں زندہ چھوڑنے کا مشورہ نہ دیتا۔ ہم دونوں نے ایک ہی لَے میں ان پر چھلانگ لگائی دونوں کا ہدف اس کے سامنے والا بندہ تھا۔ا س اچانک افتاد سے وہ حواس باختہ ہو گئے تھے مگر ان کے منہ سے کوئی آواز نہ نکل سکی تھی کہ ہمارا ایک ایک ہاتھ سختی سے ان کے ہونٹوں پر جم گیا تھا۔ دوسرے ہاتھ سے ہم نے ان کی کنپٹیوں پر مخصوص انداز میں دباﺅ ڈالا اور وہ ہمارے ہاتھوں میں جھول گئے۔ اس عمل کے دوران ہم اپنے چہرے ان سے چھپانے میں کامیاب رہے تھے۔ ان کے بے ہوش ہوتے ہی ہم نے ان کی چادروں سے ان کے ہاتھ پاﺅں باندھے اور سعدیہ کو آواز دیتے ہوئے گاڑی کی جانب بڑھ گئے۔ امجد ان کے ہتھیار بھی سمیٹ لایا تھا۔
میری آواز سنتے ہی سعدیہ جھجکتی ہوئی جھاڑی سے نکل آئی تھی۔
ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہوئے میں نے ان دونوں کو پیچھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور ان کے بیٹھتے ہی گاڑی آگے بڑھا دی۔
”اس کو اپنے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بٹھا دیتے تاکہ یہ تمھیں راستا بتاتی جاتی۔“”نہیں۔“ میں نے نفی میں سرہلایا۔ ”اس علاقے میں عورتوں کو فرنٹ سیٹ پر بٹھانے کا رواج نہیں ہے۔“”کوئی کام رسم ورواج سے ہٹ کر بھی کر لیا کرو۔“مگر میں اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے سعدیہ سے مخاطب ہو ا۔ ” راستے کے بارے میری رہنمائی کرتی جانا۔“
اور وہ ”جی اچھا“ کہ کر خاموش ہو گئی۔”ویسے آپ کا علاقہ تو جنگل خیل ہے۔ آپ کو ان راستوں کے بارے کیونکراتنی معلومات حاصل ہیں۔“
”میں اپنے والد کے ساتھ تین چار مرتبہ میرن شاہ تک جا چکی ہوں اور اس دوران ہمارا گزر انھی راستوں سے ہوا ہے۔ اس کے علاوہ وادی بہرام شاہ میں بھی میں کئی دفعہ حا چکی ہوں۔“میں نے اثبات میںسر ہلایااور گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی۔ پتھریلے راستے پر گاڑی اچھلتی کودتی تیزی سے رواں دواں تھی۔ دس پندرہ منٹ کی ڈرائیونگ کے بعد ہم ڈابیر کے قریب پہنچ چکے تھے۔ راستے میں اکا دکا بندے ہمیں نظر آئے مگر انھوں نے گاڑی کی طرف کوئی توجہ نہیں دی تھی۔
سعدیہ نے دائیں ہاتھ پر موجود ایک تنگ سے راستے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ”یہ سیدھا راستا ڈابیر بازار سے گزر کر جنگل خیل کی طرف جاتا ہے جبکہ دائیں طرف کے راستے سے ہم بغیر بازار سے گزرے جنگل خیل کی طرف جا سکتے ہیں۔ البتہ بازار والے راستے کی نسبت یہ راستا زیادہ خراب ہے۔“
میں نے پوچھا۔”یہ جنگل خیل تک دوسرے راستے سے جدا ہی رہتا ہے؟“
”نہیں۔“ یہ چھوٹا سا ٹکڑا ہے آگے جا کریہ دوبارہ ڈابیر اور جنگل کو ملانے والے بڑے راستے سے مل جاتا۔ اس میں اور دوسرے راستے میں بس اتنا فرق ہے کہ اس پر سفر کرتے ہوئے ہم بازار کو بائی پاس کر سکتے ہیں۔ عموماً اس راستے کو پیدل چلنے والے استعمال کرتے ہیں کیونکہ یہ دوسرے راستے سے چھوٹا پڑتا ہے۔“
”پھر تو یہی راستا ٹھیک رہے گا۔“ میں نے اس سے مشورہ لینے کے دوران گاڑی اس راستے کے سرے پر روکی ہوئی تھی۔ اس کی بات ختم ہوتے ہی میں نے گاڑی اس راستے کی طرف موڑدی۔وہ کلومیٹر بھر کا فاصلہ تھا جو سعدیہ کے کہنے کے مطابق واقعی دشوار گزار تھا۔ آگے جا کر وہ ٹکڑا ڈابیر اور جنگل خیل کو ملانے والے بڑے رستے سے مل گیا تھا۔ جنگل خیل سے آتے ہوئے بازار دائیں طرف اور یہ شارٹ کٹ بائیں طرف پڑتا تھا۔ ان دنوں کے درمیان ایک بڑی ٹیکری حدبندی کا کام کر رہی تھی۔
بڑے رستے پر سفر کرتے ہمیں تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ مجھے سامنے سے ایک گاڑی آتی دیکھائی دی۔
”ماجے خطرہ ہے۔“ میں نے گاڑی روک دی۔ ”اور یہاں سے گاڑی موڑنا بھی مشکل ہے۔ کیا خیال ہے ریورس چلیں یا گاڑی چھوڑ دیں۔“
جاری ہے
No comments: