Ads Top

Aur Neil Behta Raha By Inyat Ullah Altamish Episode No. 55 ||اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش قسط نمبر 55

Aur Neel Behta Raha
 By
Annyat Ullah Altamish

اور نیل بہتا رہا
از
عنایت اللہ التمش

Aur Neel Behta Raha  By  Annyat Ullah Altamish  اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش

 #اورنیل_بہتارہا/عنایت اللہ التمش
#قسط_نمبر_55

ہرقل کی صحت پہلے ہی گر گئی تھی اب اسے احساس ہوا کہ مقوقس غداری کر گیا ہے تو اسے بہت دکھ ہوا اور گرتی ہوئی صحت پر اس کا اثر بہت برا پڑا ،اس نے اس مسئلے پر غور کیا ہی نہیں کہ مقوقس نے غداری کی تھی یا دانشمندی کا ثبوت دیا تھا، مقوقس کا موقف یہ تھا کہ اب رومی فوج اسلامی لشکر کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہی اس نے سوچا تھا کہ بجائے اس کے کہ مسلمان پورے کا پورا مصر لے لیں ان کے ساتھ معاہدہ کرکے انہیں وہیں تک رکھا جائے جہاں تک وہ آ گئے تھے ،وہ قلعی بابلیون کو مسلمانوں سے بچانے کی فکر میں تھا، بابلیون اور قلعہ روضہ جو نیل کے وسط میں ایک جزیرے میں تھا بہت ہی اہم اور مستحکم مقام تھا۔ مقوقس یہ دونوں قلعے اور گردونواح کا علاقہ مسلمانوں سے بچا کر رکھنا چاہتا تھا اور اسی کے پیش نظر اس نے عمرو بن عاص کے ساتھ معاہدہ کر لیا تھا ۔
لیکن ہرقل نے اس کا یہ استدلال سنا ہی نہیں یا مانا ہی نہیں، وہ تو مقوقس سے اس سازش کا انتقام لے رہا تھا جس کے تحت مقوقس نے ہرقل کو قتل کروانے کی کوشش کی تھی۔
مقوقس کی قسمت کا فیصلہ کرکے ہرقل کی جسمانی اور ذہنی حالت بہت ہی بگڑ گئی یہ اس کا ذہنی ردعمل تھا ،طبیب اسے دیکھ لیا اور پھر طبیب کی بھیجی ہوئی دوائی کھا لیں تو اس نے پیغام لکھنے والے آدمی کو بلوایا اور سپہ سالار عمرو بن عاص کے نام پیغام لکھوایا جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ اس نے مقوقس کا کیا ہوا معاہدہ منسوخ کردیا اور مسلمانوں کو بڑے ہی برے نتائج کی دھمکیاں لکھی، اس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمان کسی معاہدے کے بغیر مصر سے نکل جائیں ۔
پیغام لکھا جا چکا تو ھرقل نے قاصد کے بجائے ایک ایلچی کو بلوایا اور پیغام اسے دے کر کہا کہ بہت تیزی سے بابلیون پہنچے اور یہ پیغام مسلمانوں کے سپہ سالار تک پہنچائے۔
کاتب جب پیغام لکھ کر ہرقل کے حکم سے باہر نکلا تو ایک ملازمہ نے اس کے کان میں کہا کہ اسے ملکہ مرتینا بلا رہی ہے، کاتب اس کمرے میں چلا گیا جہاں ملازمہ نے اسے بتایا تھا کہ ملکہ اندر بیٹھی انتظار کر رہی ہے۔
 بیٹھو اور ایک پیغام اور لکھو۔۔۔ مرتینا نے کاتب سے کہا۔۔۔ اس پیغام کا ذکر کسی کے ساتھ نہ ہو ، ذرا سا بھی شک ہوا کہ تم نے کسی کو بتایا ہے تو اس کے فورا بعد تم اس دنیا میں نہیں ہوں گے، میں تمہیں اس راز داری کا انعام دوں گی ،،،،،،،،لکھو!،،
 وہ آدمی بیٹھ گیا اور مرتینا جنرل تھیوڈور کے نام پیغام لکھوانے لگی اس وقت تھیوڈور مصر کے قلعہ بند شہر بابلیون میں تھا۔
کاتب پیغام لکھ چکا تو طبیب کی طرح اس کاتب کو بھی ملکہ مرتینا نے سونے کا ایک ٹکڑا دیا کاتب نے سونے کا ٹکڑا ہاتھ میں لیا تو اس کے چہرے پر حیرت زدگی کا تاثر آ گیا اسے اتنے زیادہ معاوضے کی توقع نہیں تھی۔
 مرتینا نے دیکھا کہ یہ شخص سونے کے ٹکڑے کو دیکھے ہی جا رہا ہے تو اس نے اسے کچھ خوشگوار سے لہجے میں ڈانٹ کر کہا کہ اسے جیب میں ڈال دو اور کسی کو یہ نہ بتانا کہ یہ میں نے تمہیں دیا ہے،،،،، یہ سن کر کاتب نے بڑی تیزی سے ٹکڑا جیب میں ڈال لیا۔
روم کے اس شاہی خاندان کے پاس اس قدر کثیر خزانہ تھا جس کا حساب کتاب ان کے پاس بھی نہیں تھا ،ایک کاتب کے لیے صرف ایک ٹکڑا ایک خزانہ تھا لیکن ملکہ مرتینا کے لئے اتنا سونا ایسے ہی تھا جیسے ایک تنکا اٹھا کر باہر پھینک دیا ہو۔
کاتب باہر نکلا تو ملازمہ نے اندر آکر مرتینا کو بتایا کہ ایلچی آگیا ہے، مرتینا نے ایلچی اندر بلایا۔
ایک پیغام میرا بھی لیتے جاؤ ۔۔۔۔مرتینا نے کہا۔۔۔ تم جانتے ہو کہ میرے پیغام کسی اور کو نہیں دکھائے جاتے مصر پہنچو گے تو جنرل تھیوڈور کو تنہائی میں میرا یہ پیغام دینا کسی اور کو پتہ چل گیا تو تم جانتے ہو اس کی سزا کیا ہے۔
مرتینا نے ایلچی کو بھی سونے کا ایک ٹکڑا دیا جو ایلچی نے لے کر فوراً جیب میں ڈال لیا۔ اسی وقت الچی ہرقل کا الگ اور مرتینا کا الگ پیغام لے کر مصر کو روانہ ہو گیا اس کا سفر خشکی کا بھی تھا اور پھر اسے بحیرہ روم بادبانی جہاز میں پار کرنا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
سپہ سالار عمرو بن عاص کے نام ہرقل کا یہ پیغام دسمبر 640 عیسوی کے ابتدائی دنوں میں بزنطیہ سے چلا ہوگا، یہ دسمبر کے آخری ہفتے کے وسط میں منزل پر پہنچا ،مجاہدین کا لشکر بابلیون کا محاصرہ کیے ہوئے تھا اس لیے سپہ سالار عمرو بن عاص اسے باہر ملے۔ انہیں پیغام دے کر ایلچی دریا کی طرف چلا گیا اسے اس دروازے سے اندر جانا تھا جو دروازہ دریا میں کھلتا تھا۔
عمرو بن عاص نے ہرقل کا پیغام پڑھا اور اپنے سپہ سالار کو اس طرح بلایا جیسے انہیں کوئی خوشخبری ملی ہو۔
 سالار دوڑے آئے ۔عمرو بن عاص نے انہیں ہرقل کا پیغام پڑھ کر سنایا جس میں لکھا تھا کہ معاہدہ منسوخ کردیا گیا ہے اور اب مسلمانوں کا مقابلہ مقوقس کی بجائے دوسرے جرنیلوں سے ہوگا ۔ ہرقل نے کچھ ایسے الفاظ بھی لکھے تھے کہ کوئی حکمران اپنی قوم کے کسی غدار کا طے کیا ہوا معاہدہ تسلیم نہیں کیا کرتا ، ہرقل نے یہ بھی لکھا تھا کہ پیشتر اس کے کہ تمہاری ہڈیاں مصری کی مٹی میں مل جائیں تو زندہ و سلامت مصر سے نکل جاؤں بابلیون کو فتح کرنا تمہارے بس کی بات نہیں۔
اللہ کے شیروں !،،،،،،عمرو بن عاص نے سالاروں سے کہا ۔۔۔۔ہرقل کی یہ دھمکی ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں، مقوقس نے یہی دھمکیاں دیتے دیتے معاہدے پر آمادہ ہوگیا تھا ،کیا تم سمجھتے نہیں کہ رومیوں کے پاس سوائے دھمکیوں کے اور کچھ بھی نہیں رہا ،بابلیون کا معاملہ صرف اس لئے کچھ مختلف ہے کہ یہ بہت ہی مضبوط قلعہ ہے۔ اسے ایک طرف سے نیل کا تحفظ حاصل ہے اور یہ خندق بڑا ہی کارآمد دفاعی انتظام ہے۔ ہمارے مجاہدین کو نیل بھی نہیں روک سکا اور صحرا بھی روکنے میں ناکام رہے ہیں۔
 ان شاءاللہ تم بابلیون کو بھی سر کر لو گے خدا کی قسم میں ہرقل کو اس کی دھمکی کا جواب دینا چاہتا ہوں۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے بابلیون کو سر کرنے کا پالان سالاروں سے صلح مشورہ کرکے بنا رکھا تھا وہ منتظر تھے کہ ہرقل معاہدہ منظور کرتا ہے یا نہیں یہ فیصلہ ہوگیا تو سپہ سالار نے بابلیون پر حملے کا حکم دے دیا اور کہا کہ چند ثانیے وقت بھی ضائع نہیں ہونا چاہیے۔
سالار دوڑے گئے اور اپنے اپنے دستوں کو اکٹھا کر کے سپہ سالار کا حکم سنایا اور جوش بھی دلایا ہر مجاہد کے کانوں میں ہرقل کی دھمکی ڈالی گئی اور کہا گیا کہ اس دھمکی کا جواب زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر دیں گے۔
پہلے یہ گزر چکا ہے کہ مجاہدین کس طرح خندق پھاند کر قلعے کی دیواروں تک پہنچ گئے تھے، لیکن مقوقس نے صلح کا پیغام بھیج دیا اس لیے لڑائی روکنی پڑی پھر معاہدہ ہوگیا۔ سپہ سالار عمرو بن عاص نے دیکھا کہ ان کا لشکر خندق اور قلعے کے درمیان آ گیا تھا ۔قلعے اور خندق کا درمیانی فاصلہ خاصا زیادہ تھا معاہدہ تو ہو گیا تھا لیکن عمرو بن عاص دور اندیش سپہ سالار تھے ،انہوں نے پہلے ہی اپنے سالاروں سے کہہ دیا تھا کہ مقوقس نے وقت حاصل کرنے کے لیے یہ معاہدہ کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ اس معاہدے کی منظوری ھرقل سے لینا ضروری ہے دراصل مقوقس کمک کا منتظر تھا عمرو بن عاص کو خیال آیا کہ پہلے ہی وقت زیادہ گزر گیا ہے اور ابھی تک معاہدے کی منظوری نہیں آئی ہو سکتا ہے معاہدے کی منظوری کی بجائے اسکندریہ سے یا بزنطیہ سے زیادہ نفری کی کمک آجائے پھر مجاہدین کے لئے بڑی ہی مشکل پیدا ہوجائے گی۔
اس خدشے کے پیش نظر سپہ سالار نے اپنے لشکر کی پوزیشن کا جائزہ لیا ،لشکر قلعہ اور خندق کے درمیان تھا سپہ سالار عمرو بن عاص کو یہ خطرہ نظر آنے لگا کے کمک دریا کے راستے سے آئے گی اور اس طرف کے دروازے سے اندر چلی جائے گی ایسا ہوسکتا ہے کہ رومی خندق میں پانی چھوڑ دیں اور اندر سے فوج باہر نکال کر حملہ کر دیں، اس صورت میں مجاہدین کے لئے پیچھے ہٹنا خطرناک ہوجائے گا ،وہ خندق اور زیادہ نفری کی رومی فوج کے درمیان ایسی صورتحال میں پھنس جائیں گے کہ سالار کوئی چال کوئی پینترہ نہیں بدل سکیں گے۔
مجاہدین نے یہ خندق اس صورت میں پار کی تھی کہ نیل کے اتر جانے سے خندق کا پانی بھی دریا میں واپس چلا گیا تھا، سپہ سالار کو معلوم نہیں تھا کہ خندق میں پانی چھوڑنے کا کوئی اور انتظام ہے یا نہیں، خطرہ یہ نظر آ رہا تھا کہ کوئی اور انتظام ضرور ہوگا ان خطروں اور خدشے کے پیش نظر سپہ سالار نے یہ احتیاطی تدبیر اختیار کی کہ معاہدے کی منظوری یا نامنظوری آنے سے پہلے ہی تمام لشکر کو حصار خندق سے باہر لائے۔ محاصرہ برقرار رکھا گیا سپہ سالار نے سالاروں سے کہہ دیا تھا کہ ضندق کسی اور طریقے سے عبور کر لیں گے۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
قلعہ بند رومیوں نے جب دیکھا کہ مسلمان پھر خندق میں سے گزر کر پیچھے چلے گئے ہیں تو ان کے جرنیلوں نے ایک اور چال چلی وہ فوج کو تو باہر نہ لائے یوں کیا کہ منجیقیں باہر لے آئے اور شہر کے چاروں طرف نصب کرلیں ،ان کے ساتھ تیر اندازوں کی ایک فوج باہر آگئی جسے آگے بڑھ کر حملہ نہیں کرنا تھا بلکہ ایک مقام پر رک کر مجاہدین کے لشکر پر تیر پھینکنے تھے۔
رومیوں کو ایک سہولت یہ حاصل تھی کہ خندق اور قلعے کے درمیان پھلوں کے باغات تھے اور پھلوں کے درخت گھنے جھنڈ چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے یہ درخت خاص گھنے تھے، رومی تیرانداز ان درختوں پر چڑھ گئے اور مجاہدین کے لشکر پر تیر پھینکنے لگے ساتھ ہی منجیقوں سے پتھر آنے لگے۔
مسلمانوں کے پاس بھی منجیقیں تھیں اور تیر دور پھینکن والی کمانیں بھی۔
 تیروں کے جواب میں بے تحاشا تیراندازی کی لیکن رومی تیرانداز جو کے درختوں پر چڑھ گئے تھے اس لئے نظر نہیں آتے تھے، درختوں کی آڑ اور سہولت ملنے کی وجہ سے رومی زیادہ فائدہ حاصل کر رہے تھے، سپہ سالار نے اپنے لشکر کو تیروں سے بچانے کے لئے اور پیچھے ہٹا لیا۔
شام کے بعد جب رات تاریک ہو جاتی تھی تو صاف پتہ چلتا تھا کہ رومی خندق میں کچھ کر رہے ہیں ،رات کو تیراندازی رک جاتی تھی پھر بھی کوئی مجاہد آگے نہیں جاتا تھا کہ ذرا سے شک پر رومی تیروں کی بوچھاڑ پھینکنے لگے گے ، رومی اپنے آپ کو اس قدر آزاد اور محفوظ سمجھنے لگے تھے کہ انہوں نے دروازے کھلے رکھے تھے ،تیرانداز آزادی سے اندر باہر آتے جاتے تھے ایک تیرا انداز دستہ دن بھر تیر اندازی کرتا اور شام کو اندر چلا جاتا اور اس کی جگہ تازہ دم دستہ آجاتا تھا۔
 سپہ سالار عمرو بن عاص ہر طرف گھوڑا دوڑاتے پھرتے اور لڑائی کی صورت حال دیکھ کر ہدایات جاری کرتے تھے۔
سنگ باری اور تیر اندازی کے جواب میں سنگباری اور تیر اندازی میں ہی جنوری 641 عیسوی کا مہینہ گزر گیا اور ماہ فروری کا آغاز ہوا، مجاہدین کا لشکر ابھی تک خندق سے باہر کچھ دور تھا اور رومی خندق اور قلعے کے مستحکم دفاعی انتظام میں بالکل محفوظ اور خوش و خرم تھے۔ عمرو بن عاص نے لڑائی جاری رکھی ان کی مجبوری یہ تھی کہ مجاہدین کی نفری رومیوں کے مقابلے میں اور بابلیون کے دفاعی انتظامات کو توڑنے کے لئے بہت ہی تھوڑی تھی، سپہ سالار کا دماغ بڑی تیزی سے کام کر رہا تھا لیکن انھیں کوئی راستہ یلغار کے لئے نظر نہیں آرہا تھا۔
سپہ سالار نے ایک انتظام یہ بھی کر رکھا تھا کہ کئی ایک مجاہدین کو نیل کے کنارے اسکندریہ کی طرف خاصی دور تک بھیج دیا تھا ان کے ذمہ کام یہ تھا کہ ادھر سے کمک آئے تو فورا اطلاع دیں ۔ان مجاہدین میں تیر انداز زیادہ تھے ان کے لئے حکم یہ تھا کہ وہ بحری جہازوں اور کشتیوں پر جن میں کمک آرہی ہوگی، تیر پھینکیں اور انکی رفتار سست کریں ۔سپہ سالار کا ایک حکم یہ بھی تھا کہ کمک سے لدی کشتیاں ندی کے کنارے کنارے آ رہی ہو تو مشعلیں جلا کر انکے بادبانوں پر پھینکیں۔ تاکہ بادبان جل اٹھے لیکن کمک کے آنے کی اطلاع سپہ سالار تک فوراً پہنچائیں۔
قرآن میں اللہ تعالی نے جہاد کو افضل ترین قرار فرمایا اور اللہ کی راہ میں لڑنے والوں کے ساتھ کچھ وعدے کیے ہیں، مثلا سورہ العنکبوت میں اللہ کا ارشاد ہے کہ جو لوگ اللہ کے لیے جہاد کرتے ہیں انہیں اللہ ضرور اپنے راستے (فتح کے) دیکھا دیتا ہے اور اللہ نیکوکار لوگوں کے ساتھ ہے۔
اللہ نے بابلیون کے محاصرے میں مجاہدین سے اپنا وعدہ پورا کیا کہ ایک روز ان مجاہدین میں سے ایک جنہیں نیل کے کنارے دور تک بھیجا گیا تھا گھوڑا دوڑاتا آیا اور سیدھا سپہ سالار عمرو بن عاص کے پاس جا رکا اسے دیکھ کر یہی توقع کی جاسکتی تھی کہ کمک آ گئی ہے اور یہ اس کی خبر لایا ہے۔
 کیا رومیوں کی کمک آرہی ہے۔۔۔ سپہ سالار نے اس مجاہد سے پوچھا ۔
نہیں سپہ سالار!،،،،، مجاہد نے جواب دیا ۔۔۔اچھی خبر لایا ہوں ایک خبر یہ کہ شہر میں کوئی ایسی بیماری پھیل گئی ہے جس سے آبادی کا خاصا حصہ بیمار پڑا ہے اور لوگ مررہے ہیں، یہ بیماری اس فوج میں بھی پھیل رہی ہے جو شہر میں موجود ہے، دوسری خبر یہ کہ ہرقل مر گیا ہے ،تیسری خبر یہ کہ کمک کا دور دور تک نام و نشان نہیں اور فوج کے لوگ برجیوں پر چڑھ چڑھ کر اس طرف دیکھتے رہتے ہیں جس طرف سے انھیں کمک کے آنے کی توقع ہے۔
سپہ سالار کو یہ خبر سن کر بڑی ہی خوشگوار حیرت ہوئی یہ خبریں باہر اس طرح نکلی اور سپہ سالار تک پہنچی کہ ایک کشتی قلعے کے دروازے کی طرف آئی جو دریا میں کھلتا تھا یہ ماہی گیروں کی کشتی تھی جو اتفاق سے نیل کے مغربی کنارے کے قریب آ گئی وہاں جو مجاہدین موجود تھے انہوں نے کشتی کو روک لیا اور پوچھا کہ شہر کے اندر کیا حال ہے؟ ماہی گیروں نے انہیں یہ خبر سنا دی اور مجاہدین نے انہیں چھوڑ دیا۔
سپہ سالار نے اسی وقت تمام سالاروں کو بلایا اور انہیں یہ خبر سنا کر کہا کہ اب توقع رکھی جا سکتی ہے کہ رومی فوج کا حوصلہ مزید کمزور ہوجائے گا ،رومی فوج کے جرنیل اپنے بادشاہ کی خوشنودی کی خاطر ہی لڑا کرتے تھے اور ان کا بادشاہ مر گیا تھا اس کے برے اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے۔۔۔ عمرو بن عاص نے سالاروں سے کہا۔۔۔ کہ کمک آئے گی ہی نہیں یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ ہرقل کو مصر کی یہ خبر پہنچے کے مسلمان بابلیوں تک پہنچ گئے ہیں اور وہ کمک نہ بھیجے۔
 مرنے سے پہلے اس نے کمک بھیجنے کا حکم دے دیا ہوگا لہذا ہمیں بابلیون سر کرنے میں مزید جوش و خروش پیدا کرنا ہوگا۔
 ہرقل کی موت کے متعلق بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ مارچ 641عیسوی میں مرا تھا، لیکن مستند تاریخ 11 فروری 641عیسوی ہے۔
ہرقل سلطنت روم کا آخری جنگجو اور جابر بادشاہ تھا وہ زندہ و سلامت تھا تو روم کی طاقت بھی سلامت تھی یہ تو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کا جوش ایمان تھا کہ ہرقل کو پے در پے شکست دی تھی لیکن سپہ سالار عمرو بن عاص اور امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہا کرتے تھے کہ رومی کسی بھی وقت قدم جماکر جوابی یلغار کر سکتے ہیں۔ یہ تو وہ سانپ تھا جو مرتے مرتے بھی ڈس جاتا تھا۔
 بہرحال اللہ تعالی نے مجاہدین کے ساتھ اپنا وعدہ پورا کیا اور ان کی کامیابی کے راستے کھول دیے تاریخ اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ اللہ نیکو کار بندوں کے ساتھ ہے۔
 عمرو بن عاص کو تو یہ اطلاع ملی تھی کہ ہرقل مر گیا ہے لیکن انہیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس کی موت کے بعد بزنطیہ میں کیا صورتحال پیدا ہوگئی تھی ،انہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ملکہ مرتینا نے جنرل تھیوڈور کو الگ اور خفیہ پیغام بھیجا ہے اور یہ پیغام اپنا اثر دکھائے گا۔
پہلے اس پیغام کی بات ہو جائے تو بابلیون کے اندر کی کیفیت کا پتہ چل جائے گا ،کسی بھی مورخ نے ملکہ مرتینا کے پیغام کا پورا متن نہیں لکھا اس کا لب لباب یا اختصار لکھا ہے۔ اس پیغام سے صاف پتہ چلتا تھا کہ ملکہ مرتینا نے جنرل تھیوڈور کو اپنے حسن کا اور انعام واکرام کا اسیر بنا رکھا تھا، تھیوڈور اس کا مدح سرا ہی نہیں اس کا غلام بنا ہوا تھا۔
مرتینا نے اسے لکھا تھا کہ شاہ ہرقل کی زندگی کا اب کچھ پتہ نہیں کیونکہ اس کی صحت تیزی سے گزر رہی ہے اور وہ روز بروز نڈھال ہوتا جا رہا ہے، اس نے لکھا کہ تم جانتے ہو کہ میں اپنے بیٹے ہوقلیوناس کو سلطنت کے تخت پر بٹھا کر تاج اس کے سر پر رکھونگی ۔
ضروری ہے کہ عرب کے ان مسلمانوں کو مصر سے نکالو پھر میں یہ کہنے کے قابل ہو جاؤں گی کہ شاہ ہرقل نے تو شکست تسلیم کر لی تھی لیکن میرے بیٹے نے شکست کو فتح میں بدل دیا ہے ۔ یہ خیال رکھنا کسی قیمت پر بابلیون مسلمانوں کے ہاتھ نہ چلے جائے ۔ تم جانتے ہو کہ میں اس کے عوض تمہیں کیا دونگی، بتانے کی ضرورت نہیں اتنا بتا دیتی ہوں کہ تم حیران رہ جاؤ گے، یہ بھی بتا دیتی ہوں کہ میری یہ بات اور یہ خواہش پوری کر دو تو تمہیں سلطنت روم کی ساری فوج کا کمانڈر بنا دوں گی اور مصر میں تمہیں وہی حیثیت حاصل ہوگی جو مقوقس کی تھی تم مصر کے حکمران ہو گے۔
بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ مرتینا نے اس پیغام میں کچھ رومانی باتیں بھی لکھی تھی، اور یہ بھی کہ مرتینا تھیوڈور کے لیے بزنطیہ سے حسین ترین اور نوخیز دو تین لڑکیاں بھیجے گی ۔ مختصر یہ کہ مرتینا نے جنرل تھیوڈور کو یہ کہا تھا کہ وہ مصر سے مسلمانوں کو نکالے اور اس کے عوض مرتینا نے تھیوڈور کے لئے ایسی کشش اور دلکشی پیدا کردی تھی جو انسان کو دنیا میں ہی جنت دکھا دیا کرتی ہے۔
یہ پیغام ملتے ہی تھیوڈور میں بے پناہ جوش اور جذبہ پیدا ہو گیا تھا اس نے اپنے ماتحت جرنیلوں اور دیگر کمانڈروں کو بلا کر ایک تو جذباتی انداز سے بھڑکایا پھر فوجی نقطہ نگاہ سے انہیں بڑے سخت احکام دیے اور کہا کہ یہ روم کی عزت و آبرو کا سوال نہیں بلکہ ہر رومی کے ذاتی وقار کا مسئلہ ہے۔ تصور میں لایا جاسکتا ہے کہ تھیوڈور نے بابلیون کو مجاہدین اسلام سے بچانے کے لیے کیا کیا جتن کئے ہونگے۔
جب ہرقل کی موت کی اطلاع بابلیون پہنچی تو اس کے ردعمل کے طور پر یہ توقع تھی کہ سب کے حوصلے پست ہوجائیں گے لیکن تھیوڈور نے ساری فوج کو اکٹھا کرکے ایسے پرجوش طریقے سے خطاب کیا کہ ہر فوجی کو بھڑکا دیا اس نے کہا کہ شکست کا ذمہ دار سب سے پہلے مقوقس تھا ،اس کے بعد ہرقل اب دونوں نہیں ہیں تو یہ ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ جن شکستوں کی ذمہ دار وہ دونوں تھے انہیں ہم فتح میں بدل دے سلطنت روم ہرقل کی نہیں بلکہ تمہاری ہے۔
تھیوڈور کے اس خطاب کے صحیح الفاظ تاریخ میں نہیں ملتے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس نے فوجیوں اور شہریوں میں بےپناہ ولولہ اور جذبہ پیدا کردیا تھا اب وہ اس جنگ کو ذاتی جنگ سمجھنے لگا تھا۔
مستند مؤرخوں کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ بزنطیہ میں ہرقل کی موت کے بعد کیا صورتحال پیدا ہوگئی تھی پہلی بات تو یہ تھی کہ ہرقل کو مرتینا نے طبیب کے ہاتھوں زہریلی دوائیاں دلوا دلوا کر مروایا تھا ۔
طبیب نے صحیح اندازہ لگایا تھا کہ ہرقل ڈیڑھ یا زیادہ سے زیادہ دو مہینوں بعد مر جائے گا اس کا اندازہ صحیح نکلا۔
بزنطیہ میں صورتحال کچھ اس طرح بن گئی کہ جونہی ہرقل مرا ملکہ مرتینا نے اعلان کردیا کہ اس کا بیٹا ہرقلیوناس ہرقل کا جانشین ہے اور یہ فیصلہ ہرقل نے مرنے سے پہلے کر دیا تھا ۔حقیقت یہ تھی کہ ہرقل نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا مرنے سے پہلے مسلسل تین یا چار دن وہ بے ہوشی میں پڑا رہا تھا اور ایک رات ملکہ نے دیکھا کہ وہ مرا پڑا ہے ،وہ رات بے ہوشی یا نیند میں مر گیا تھا۔
ملکہ مرتینا کے اس اعلان کو سنتے ہی ہرقل کے بڑے بیٹے قسطنطین نے ہنگامہ برپا کردیا وہ کہتا تھا کہ ہرقل نے اسے کہہ دیا تھا کہ اس کی موت کے بعد وہ یعنی قسطنطین جانشین ہو گا ۔ وہ کہتا تھا کہ ہرقلیوناس نوعمر ،ناتجربہ کار، اور سلطنت روم کی باگ دوڑ سنبھالنے کے لیے بالکل ہی نا اہل ہے، اس صورتحال میں جب مسلمانوں نے رومیوں کو شام سے دھکیل باہر کیا ہے اور مصر کے اتنے بڑے حصے پر قابض ہوگئے ہیں کوئی ایسا حکمران ہونا چاہیے جو فوجی امور کی سوجھ بوجھ ہی نہیں بلکہ تجربہ رکھتا ہو اور انتظامی امور کو بھی سنبھال سکے۔
 فوج کے جرنیل اور شہری انتظامیہ کے حاکم جانتے تھے کہ ہرقلیوناس کو اس صورتحال میں تخت پر بٹھانا بہت بڑی اور بڑی ہی خطرناک غلطی ہے، اس کے لئے قسطنطین ہی موزوں تھا لیکن یہ جرنیل اور انتظامیہ کے چھوٹے بڑے حاکم دو حصوں میں بٹے ہوئے تھے کچھ ملکہ مرتینا کے حامی تھے اور باقی قسطنطین کی حمایت کرتے تھے، اس طرح فوج اور شاہی محل میں دھڑے پیدا ہوگئے جو جانشینی کے مسئلے پر ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے، قسطنطین تو کسی قیمت پر تخت و تاج نہیں چھوڑنا چاہتا تھا وہ چونکہ بڑا بیٹا تھا اس لیے بھی تخت کا وارث وہی تھا۔ ملکہ مرتینا اسے قبول نہیں کر رہی تھی۔
تاریخ میں یہ بھی واضح ہے کہ ھرقل زیادہ نفری کی تازہ دم کمک تیار کرنے اور فوراً مصر بھیجنے کا حکم دے دیا تھا ،کمک بالکل تیار ہو گئی تھی لیکن ابھی روانہ ہوئی تھی کہ ہرقل مر گیا قسطنطین نے فوراً حکم دیا کہ کمک کو مصر بھیجنے کے لئے جہاز تیار کیے جائیں۔ ملکہ مرتینا نے اس حکم پر یہ اعتراض کیا کہ قسطنطین خود اس کمک کے ساتھ جائے وہ جواز یہ پیش کرتی تھی کہ قسطنطین چونکہ میدان میں قیادت کا تجربہ رکھتا ہے اس لیے وہ کمک کا صحیح استعمال کرے گا ورنہ پہلے والے جرنیل اس کمک کو بھی مسلمانوں کے ہاتھوں مروا دیں گے۔
 قسطنطین جانتا تھا کہ اس وقت ملکہ مرتینا کو مصر کا کوئی خیال نہیں اس کی تمام تر دلچسپیاں اپنے بیٹے کو تخت پر بٹھانے پر مرکوز ہے وہ بزنطیہ سے غیر حاضر نہیں ہونا چاہتا تھا۔
حکم میرا چلے گا۔۔۔ملکہ مرتینا نے اعلان کردیا۔۔۔۔یا میرے بیٹے کا چلے گا۔ قسطنطین فوج کا کمانڈر ہے وہ مجھ سے یا میرے بیٹے سے حکم لے اس کے لیے شاہی حکم یہ ہے کہ کمک لے کر مصر کو روانہ ہوجائے جانشینی کا فیصلہ ہوچکا ہے۔
 قسطنطین جانتا تھا کہ اس کی پشت پناہی میں جو لوگ ہیں وہ ایک محاذ پر متحد ہوچکے ہیں اور اسے یہ پشت پناہی ملتی رہے گی۔
 ہوا بھی یہی اس کے حامی جرنیل اور اس سے نیچے کے عہدوں کے فوجی افسر اور شہری انتظامیہ کے بڑے حاکم اور شاہی خاندان کے کچھ افراد اس کی حمایت میں سامنے آگئے۔ اور صحیح معنوں میں انھوں نے متحد محاذ بنا لیا یہاں تک کہ مصر کی شکست کو اور مجاہدین اسلام کی پیش قدمیوں کو نظرانداز کردیا اور اولیت اور اہمیت صرف اس مسئلہ کو دینے لگے کہ تخت کا وارث قسطنطین کو ہی بنانا ہے۔
 یہ تو وہ فوجی اور شہری حاکم تھے جو حقیقت پسند تھے اور سلطنت روم کا وقار بحال کرنا چاہتے تھے اور سلطنت کی توسیع بھی ان کے پیش نظر تھی بجا طور پر وہ قسطنطین کو ہی اس قابل سمجھتے تھے کہ اس صورتحال کو وہ سنبھالنے کی اہلیت اور تجربہ رکھتا ہے۔ عمر کے لحاظ سے قسطنطین ادھیڑ عمری کی آخری اسٹیج تک پہنچ چکا تھا جہاں انسان کی عقل و دانش مزید تیز ہوجاتی ہے اور وہ گزشتہ زندگی کے اچھے برے تجربات سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
 دوسری طرف ملکہ مرتینا نے اپنے بیٹے کے حامی خرید رکھے تھے خزانہ اس کے ہاتھ میں تھا اور شاہی حرم پر اس کا حکم چلتا تھا اس لئے اس نے یہ دونوں چیزیں یعنی زرو جواہرات اور حسین و جمیل لڑکیاں بے دریغ استعمال کر کے چند ایک جرنیلوں اور شہری حاکموں کو اپنی مٹھی میں لے رکھا تھا اب وقت آگیا تھا کہ یہ فوجی اور شہری حاکم انعام و اکرام کا حق ادا کریں، جو انہوں نے کیا اور محاذ بنا کر قسطنطین کے حامیوں کے خلاف مورچہ بند ہوگئے۔
 شاہی حکم تو معطل ہی ہو گئے ،کمک روانگی کے حکم کے انتظار میں ہی بارکوں میں بیٹھی رہی دونوں دھڑوں کے جرنیلوں نے اپنے اپنے دستوں کو الگ کر لیا اور صورتحال خانہ جنگی والی پیدا ہو گئی۔
 اس صورتحال میں کمک کو بھی جرنیلوں نے تقسیم کرلیا اور یہ بات ہی ختم ہو گئی کہ مصر کو کمک بھیجنی ہے ۔
کون نہیں سمجھ سکتا کہ جہاں اس طرح دھڑے بندی شروع ہوجائے اور یہ کشمکش اور چپقلش دونوں دھڑوں کو مرنے مارنے تک پہنچا دے تو وہاں کیسی تباہی آتی ہے۔ سارا سرکاری نظام ہی جام ہو کر رہ گیا ملکہ مرتینا کی عیاریاں عروج پر پہنچ گئی۔
 قسطنطین سلطنت روم کے معاملے میں مخلص تھا وہ دل و جان سے چاہتا تھا کہ یہ کشمکش ختم ہوجائے ۔ ملکہ مرتینا نے یہ چال بھی چلی کے تین چار بڑے پادریوں کو قسطنطین کے پاس بھیجا کہ اسے قائل کرے کہ وہ تمام تر فوج کا کمانڈر انچیف بن جائے اور تخت پر ہرقلیوناس بیٹھے، بے شک تمام امور قسطنطین اپنے ہاتھ میں رکھے۔
 پادری قسطنطین کے پاس گئے اور مذہب کے نام پر اسے قائل کرنے لگے، قسطنطین نے کہا کہ اسے اگر یقین ہوتا کہ ہرقلیوناس کو تخت کا وارث قرار دینے سے سلطنت روم کے استحکام کو فائدہ پہنچے گا تو وہ اپنے حق سے دستبردار ہو جائے گا ۔ پادریوں نے مزید دباؤ ڈالنا شروع کردیا اور غالبا کسی پادری نے اسے کوئی توہین آمیز بات کہہ دی۔
 میں آپ لوگوں کا احترام کر رہا ہوں۔۔۔ قسطنطین نے کہا۔۔۔ لیکن آپ مجھے ڈرا رہے ہیں اور دھمکیاں دے رہے ہیں کیا آپ میں اتنی سی بھی عقل و دانش نہیں کہ ہرقلیوناس کے اخلاق اور عقل کو جانتے ہوئے اسے تخت کا وارث بنا رہے ہیں، لیکن آپ مجبور ہیں کیونکہ آپ کے اندر مرتینا کا دیا ہوا خزانہ بول رہا ہے۔ اور آپ سب پر ان حسین و جمیل لڑکیوں کا سحر طاری ہے جو مرتینا آپ کو پیش کرتی رہی ہے۔ پیشتر اس کے کہ میں آپ کو کلیسا سے بے دخل کردوں یہاں سے چلے جائیں۔
 ان پادریوں کے ضمیر مجرم تھے اس لیے وہ خاموشی سے چلے گئے۔
 قسطنطین نے اب ایک بادشاہ کی حیثیت سے حکم دیا کہ کمک فوراً تیار کرکے مصر بھیجی جائے ،لیکن اس کے حکم کا وہی حشر ہوا جو ہوا میں چلائے تیر کا ہوتا ہے ،اس کے حامی جرنیلوں نے اسے بتایا کہ کمک تقسیم ہوچکی ہے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ جو فوج قسطنطین کے حق میں ہے اس میں سے کمک بھیجی جائے ورنہ حامی فوج کی نفری بہت کم رہ جائے گی اور مرتینا کی حامی فوج اپنی طاقت سے تخت پر قابض ہو کر ہرقلیوناس کو روم کا بادشاہ بنا دے گی۔
 یہ ایک بہت بڑا کرم تھا جسے اللہ تعالی نے مجاہدین اسلام کو نوازا تھا ،اور یہ بہت بڑی لعنت تھی جو اللہ تعالی نے رومیوں پر نازل کی تھی ،اللہ تبارک وتعالی اپنا یہ وعدہ بھی پورا کر رہا تھا کہ تم میں سے صرف دس ثابت قدم رہنے والے اور ایمان والے ہوئے تو ایک سو پر غالب آئیں گے اور سو ہوئے تو ایک ہزار پر غلبہ حاصل کریں گے ، مطلب یہ کہ اللہ ثابت قدم رہنے والے مومنین کی اتنی مدد کرتا ہے کہ معجزہ رونما ہوتے ہیں۔
 رومی شہنشاہیت کے ایوانوں میں جو صورت حال پیدا ہوگئی تھی یہ مجاہدین کے لئے ایک معجزے سے کم نہ تھی ، وہاں تو مجاہدین کو مصر سے نکالنے والے رومی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
سپہ سالار عمرو بن عاص کو بالکل ہی معلوم نہ تھا کہ بزنطیہ میں یہ صورتحال پیدا ہو گئی ہے اور کمک کا خطرہ بالکل ہی ختم ہوگیا ہے۔ سپہ سالار تو یہ پلان بنا رھے تھے کہ کس طرح خندق عبور کر کے قلعے پر یلغار کی جائے ،لیکن ممکن نظر نہیں آتا تھا رومیوں نے منجیقیں باہر لگا رکھی تھیں اور تیرانداز درختوں میں چھپے ہوئے تیروں کی بوچھاڑ پھینک رہے تھے۔
ملکہ مرتینا نے (تاریخ کے مطابق) جنرل تھیوڈور کو ایک پیغام اور بھیجا اس میں مرتینا نے شاہی محل کی تمام صورت حال لکھی اور اسے بتایا کہ کسی بھی وقت یہاں خانہ جنگی ہو سکتی ہے، خانہ جنگی ہو یا نہ ہو یہ صاف نظر آرہا ہے کہ ہرقلیوناس کو تخت کی وراثت نہیں مل سکے گی ،مرتینا نے لکھا کہ اپنے تمام ذرائع اور وسائل ہوشمندی سے استعمال کرو اور مسلمانوں کو وہاں سے نکالو، مرتینا کا مطلب یہ تھا کہ ہو سکتا ہے ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ لوگ اس کے اور اس کے بیٹے کے خلاف ہو جائیں تو اسے اپنے بیٹے کے ساتھ پناہ لینے کے لیے مصر آنا پڑے۔
 اس صورت میں وہ مصر سے خودمختاری کا اعلان کردی گی۔ اس نے تھیوڈور کو پرزور الفاظ میں لکھا تھا کہ مصر محفوظ رہنا چاہیے اور وہاں سے ہماری بادشاہی کی ابتدا ہوگی اور جو فوج وہاں موجود ہے وہ ہماری اپنی ہوگی۔
ہرقل نے بزنطیہ میں مقوقس پر غداری کا الزام لگا کر بالکل ٹھیک کہا تھا کہ مصر میں ایک لاکھ رومی فوج موجود ہے، جس میں سے صرف بارہ ہزار کو لڑایا گیا ہے، اگر عقل مندی اور دیانتداری سے اس فوج کو استعمال کیا جاتا تو آٹھ دس ہزار نفری کے لشکر کو مصر میں ہی کچلا اور مسلا جاسکتا تھا۔
یہ صحیح ہے کہ مصر میں ایک لاکھ رومی فوج موجود تھی لیکن یہ فوج مختلف مقامات پر بکھری ہوئی تھی اور ان میں جو مجاہدین اسلام کے مقابلے میں آئی تھی اس میں سے ہزاروں کی تعداد میں کٹ گئی تھی۔ تھیوڈور نے مرتینا کے اس دوسرے پیغام کے مطابق اپنے دفاعی پالان میں رد و بدل کیا ایک تو اسے یہ پتہ چل گیا کہ بزنطیہ سے کمک نہیں آئے گی۔ وہ کسی دوسرے مقام سے کمک نہیں منگوا سکتا تھا کیونکہ بابلیون مجاہدین کے محاصرے میں تھا دریائی راستہ بھی مجاہدین کی موجودگی میں محفوظ نہیں تھا۔
ایک روز مجاہدین نے دیکھا کہ رومی منجیقیں قلعے کے اندر لے جارہے ہیں اور تیرانداز دستے بھی قلعے کے اندر چلے گئے ہیں۔ دروازے بند ہوگئے سپہ سالار عمرو بن عاص دیکھتے رہے اور ان کے دیکھتے ہی دیکھتے منجیقیں قلعے کی دیواروں پر پہنچا دی گئیں اور وہاں سے پھر سنگ باری شروع ہوگئی۔
ایک بات جو پہلے بتا دینے والی تھی وہ اب بتائی جا رہی ہے، چونکہ قسطنطین سلطنت روم کے حق میں مخلص تھا اور اپنے شاہی خاندان اور سلطنت کا وقار بحال کرنے کی کوشش میں مصروف تھا ،اس لئے وہ دیکھ رہا تھا کہ اس صورتحال پر کس طرح قابو پایا جاسکتاہے ۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ ہرقل کا بنایا ہوا اسقف اعظم قیرس قسطنطین کو یاد آیا لیکن ہرقل نے اس پر بھی بے وفائی اور مقوقس کا ساتھ دینے کا الزام لگا کر جلا وطن کر دیا تھا ۔اس کے لئے یہ حکم نہیں دیا تھا کہ اسے بیڑیاں اور ہتھکڑیاں لگاکر جلاوطن کیا جائے بلکہ اسے یہ حکم دیا گیا کہ وہ سلطنت روم سے نکل جائے۔
تاریخ میں یہ واضح نہیں کہ قسطنطین کو معلوم تھا یا نہیں کہ جلاوطنی کے بعد قیرس کہاں چلا گیا ہے؟ 
تاریخ میں لکھا ہے کہ قسطنطین نے اپنا ایک دانشمند ایلچی قیرس کی طرف اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ شاہ ہرقل مر چکا ہے اور وہ یعنی قسطنطین اس کی جلاوطنی منسوخ کرتا ہے ،اور وہ فوراً بزنطیہ آ پہنچے۔
 قسطنطین نے ایلچی کو اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ قیرس کو قائل کر کے واپس لانا ہے۔ پھر آگے مورخ لکھتے ہیں کہ قیرس کا سراغ مل گیا تھا اوروہ بزنطیہ آ گیا تھا ،لیکن یہ بعد کی بات ہے، پہلے ہم اس سے پہلے کے واقعات سناتے ہیں۔
بابلیون کے باہر اب جو کیفیت تھی وہ اس طرح تھی کہ جب رومی منجیقیں اور تیر انداز قلعے کے اندر چلے گئے تو مجاہدین آگے بڑھ کر خندق کو دیکھنے لگے تیر اندازوں کی موجودگی میں وہ خندق کو دیکھ ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ تیر موسلا دھار مینہ کی طرح آتے تھے۔
 مجاہدین یہ دیکھنے کو آگے بڑھے کہ خندق عبور کی جا سکتی ہے یا نہیں۔
وہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ رومیوں نے خندق کو ناقابل عبور بنا دیا تھا اس میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا لیکن تمام تر خندق خار دار تاروں کے گچھوں سے سے بھری پڑی تھیں، ان گچھوں کے علاوہ خندق میں لوہے کی نوکیلی سالاخیں گاڑھی ہوئیں تھیں۔ اگر خندق میں پانی ہوتا ، خواہ پانی سے خندق لبریز ہوتی تو تیر کر اسے عبور کیا جا سکتا تھا۔لیکن رومیوں نے خندق کو خار دار تاروں اور نوکیلی سلاخوں سے بھر دیا تھا۔ اور کوئی انسان خندق میں قدم رکھنے کی جرات نہیں کرسکتا تھا۔
محاصرے کو تقریبا آٹھ مہینے گزر گئے تھے مجاہدین کے لشکر میں مایوسی اور بددلی کے کوئی آثار نہیں تھے۔
 لیکن سپہ سالار اور دیگر سالار بے تاب و بے قرار ہو تے جا رہے تھے۔ خندق اتنی چوڑی تھی کہ اسے اندرونی رکاوٹوں کے ہوتے ہوئے عبور کرنے کی سوچی بھی نہیں جاسکتی تھی۔ پھر بھی سب اپنا اپنا دماغ لڑا رہے تھے کہ خندق عبور کرنی ہی کرنی ہے۔
*=÷=÷=÷==÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اب دیکھئے گوشت پوست کا ایک انسان کیا موجزے کر کے دکھاتا ہے ، یہ تھے زبیر بن عوام رضی اللہ تعالی عنہ اس مرد مجاہد کا پہلے بھی ذکر آچکا ہے ۔ زبیر بن عوام رضی اللہ تعالی عنہ رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے ۔
ان کا شمار عرب کے بہادر ترین افراد میں ہوتا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار فرمایا تھا ۔ ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے میرے حواری زبیر بن عوام ہیں۔
زبیر بن عوام نے بابلیوں کے محاصرے میں جب دیکھا کہ خندق عبور کرنے کا کوئی اور ذریعہ نہیں تو ایک رات انہوں نے چند مجاہدین کو ساتھ لیا اور چار پانچ درختوں کے بڑے بڑے ٹہنیں کٹوائے پھر یہ ٹہن شاخوں اور پتوں سمیت گھسیٹ کر خندق تک لے گئے اور خندق میں پڑی ہوئی خار دار تاروں کے گچھے اور نوکیلی سلاخوں پر اس طرح پھینکنے شروع کیئے کہ اگلے کنارے تک ٹہن پہنچ گئی۔
 اس طرح انھوں نے خندق پر پڑے ہوئے ٹہوں پر چلتے چلتے اور ٹہن پھینکے اور خندق کے اوپر سے گزرنے کا اچھا خاصا راستہ بنالیا۔
اسی رات انہوں نے مجاہدین کو ایک جگہ اکٹھا کیا اور ان سے یوں خطاب کیا۔۔۔۔۔
 یاد کرو خالد بن ولید کے وہ کارنامے جو انہوں نے دمشق میں کر دکھائے تھے ،یاد کرو سعد بن ابی وقاص کی وہ شجاعت جو انہوں نے مدائن میں دکھائی تھی، اور نہاوند میں نعیم بن مقرن کی بہادری یاد کرو، تم میں کون ہے جو شجاعت اور جانبازی میں ان مجاہدین سے پیچھے رہنا چاہتا ہے؟،،،،،،،،،، کیا تم میں کوئی بھی نہیں جو اللہ کی راہ میں سرفروشی کے جذبے سے سرشار نہ ہو؟ 
ہم ہیں۔۔۔۔ تمام مجاہدین کی آواز اٹھی۔۔۔ ہم اللہ کی راہ کے جانباز اور سرفروش ہیں۔ ہم سے تو کونسا کارنامہ کروانا چاہتا ہے۔
 میں اللہ کی راہ میں اپنی جان پیش کرتا ہوں۔۔۔۔ زبیر بن عوام نے کہا۔۔۔ اللہ میری اس قربانی کو مسلمانوں کی فتح کا سبب بنائے۔
زبیر بن عوام نے اتنی سی بات کہہ کر مجاہدین کو جوش اور جذبے کے شعلے بنا دیا۔ وہ اب پوچھ رہے تھے کہ کرنا کیا ہے۔
 لشکر میں ڈسپلن ایسا تھا کہ کوئی سالار ایسی کاروائی جو زبیر کرنے لگے تھے اپنے طور پر نہیں کرتا تھا۔ سپہ سالار کو پہلے اپنا پورا پلان بتاتے تھے پھر وہ کارروائی کی جاتی تھی۔
زبیر سپہ سالار عمرو بن عاص کے پاس گئے اور انہیں بتایا کہ انہوں نے قلعے پر یلغار کے لئے مجاہدین کا ایک پورا دستہ تیار کر لیا ہے، اور پھر اپنا پلان بتایا۔
عمرو بن عاص تو خطرہ مول لینے میں ہی شہرت رکھتے تھے ،انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ بابلیون کا قلعہ سر کرنا ہے تو کوئی بہت ہی بڑا خطرہ مول لینا پڑے گا۔ وہ زبیر بن عوام لے رہے تھے۔
 سپہ سالار نے سالار زبیر کو اجازت دے دی۔ زبیر بن العوام جب واپس اس جگہ گئے جہاں انہوں نے خندق پر درختوں کے ٹہن پھینکے تھے، وہاں پہلے سے زیادہ مجاہدین اکٹھے ہوگئے تھے وہ سب اپنی جان پیش کرنے آئے تھے اور بے تاب تھے کہ انھیں بتایا جائے کرنا کیا ہے۔
سالار زبیر نے ایک دستے کی نفری الگ کرلی اور بتایا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ اور کیسی قربانی دینی ہوگی۔ ان کا پلان ایسا تھا جس میں شہادت یقینی نظر آتی تھی۔
 سالار زبیر کی ہدایات کے مطابق مجاہدین نے سیڑھیاں اکٹھا کر لیں اور دو دو سیڑھیاں باندھ لیں۔

#جاری_ہے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.