Bhagora By Riaz Aqib Kohler Episode No. 36 ||بھگوڑا مصنف ریاض عاقبکوہلر قسط نمبر 36
Bhagora
By
Riaz Aqib Kohler
بھگوڑا
مصنف
ریاض عاقب کوہلر
بھگوڑا
قسط نمبر36
ریاض عاقب کوہلر
اس کی بات نے مجھے بے ساختہ پہلوبدلنے پر مجبور کر دیا تھا۔ امجد کے پلے بھی یہ بات پڑ گئی تھی اس لیے وہ بھی چو کناہو گیا تھا۔
”چودھری اکبر؟“ جانان خان کے لہجے میں حیرانی تھی۔ ایک لمحہ سوچ کر وہ بولا۔ ”اسے بلا کر ساتھ والے کمرے میں بٹھاﺅ میں آتا ہوں۔“
چوکیدار ”جی خان جی ۔“ کہہ کر کمرے سے نکل گیا اور اس کے باہر جاتے ہی جانان خان نے کمرے میں موجود باڈی گارڈ کو کہا۔
”دروازہ اندر سے بند کر دو۔“ اور اس نے سرہلا کر دروازے کو اندر سے کنڈی لگا دی۔”معاف کرنا برادر آپ سے کاروبار کے متعلق گفتگو تو تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔ مگر ابھی تک میں آپ کا نام نہیں جان سکا ہوں۔“ ا س مرتبہ اس کے مخاطب ہم دونوں تھے۔
”جی میرا نام عبدﷲ اور اس کا نام عبدالرحمن ہے۔“ میںنے اپنا تعارف کرایا۔ ”عبدالرحمن بھائی پشتو بولنا نہیں جانتا اس لیے یہ ہماری گفتگو میں شریک نہیں ہو سکا ہے۔ میرا تعلق لکی مروت سے ہے اور عبدالرحمن کا ہری پور سے لیکن ہم رہتے میرن شاہ میں ہیں۔“
”اچھا میں چودھری کورخصت کر دوں، پتا نہیں یہ کس مقصد کے لیے آیا ہے اس کے بعد آپ سے بات چیت ہو گی۔“ وہ کھڑاہو گیا۔ ”اور اگر آپ لوگ بھی اس سے ملنا چاہتے ہو تو میرے ساتھ آجاﺅ۔“
”مہربانی خان صاحب ہم بعد میں مل لیں گے....اب نہ جانے وہ کس مسئلے کے سلسلے میں آپ کے پاس آیا ہے“ اور جانان خان سر ہلاتا ہوا دروازے کی جانب بڑھ گیا۔کمرے میں موجود اکلوتے باڈی گاڈ نے اس کے لیے دروازہ کھولا اور وہ دونوں ساتھ والے کمرے میں چلے گئے۔ چونکہ چودھری کو اس نے اسی کمرے میں بلایا تھا اس لیے دروازہ کھلتے وقت ہم دونوں نے دروازے کی طرف پیٹھ کرلی تھی۔”وہ موذی کہیں ہمارے تعاقب میں یہاں نہ پہنچا ہو۔“ دروازہ بندے ہوتے ہی امجد تشویش بھرے لہجے میں پوچھا۔”ابھی پتا چل جاتا ہے۔“ میں اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے اٹھ کر دروازے کے قریب پہنچا۔ بات رسمی تعارف سے گزر چکی تھی اور اس وقت چودھری اکبر احتجاجی انداز میں جانان خان سے مخاطب تھا۔
”ملک صاحب یہ اچھی بات تو نہیں ہے نا؟ اور اس طرح دوسری مرتبہ ہو رہا ہے کہ آپ کے آدمیوں نے میرے سو دے کوخراب کرنے کی کوشش کی ہے۔“ ”چودھری صاحب میں تمھاری بات نہیں سمجھا؟“ جانان خان نرم لہجے میں مستفسر ہوا ۔” آج جنگل خیل میں ایک آدمی کو ہم نے مال ڈیلیور کرنا تھا، زبانی کلامی بات ہو چکی تھی، لیکن جب ہم پہنچے تو آپ کے آدمی ہم سے پہلے جا کر اسے مال دے کر رقم وصول کر چکے تھے۔“
”تو اس میں تو سراسر اس بندے کی غلطی ظاہر ہو رہی ہے جس کے ساتھ آپ کی بات پکی ہو چکی تھی۔ وہ آپ ہی سے مال وصول کرتا۔ میرے آدمیوں کا اس میں کیا قصور ہے۔ وہ تو بہ طور دکاندار اپنا مال ہر اس شخص کو بیچیں گے جو ان سے خریدنے آئے گا۔“”مجھے اس بندے نے بتایا کہ آپ کے آدمیوں نے اسے میرے بارے یہ کہا کہ میں ملاوٹ والا مال بیچتا ہوں اور اس کے علاوہ بھی چند الٹی سیدھی باتیں میرے بارے میں کی ہیں۔“
”چودھری صاحب !آپ نے اسے کہنا تھا کہ اس طرح کسی کی باتوں میں آ کر سودے منسوخ نہیں ہوا کرتے۔ وہ آپ کے مال کا معائنہ کر کے پھر ہم سے سودا کرتا۔“”ملک صاحب!.... آپ ساری بات خریدار کے اوپر ڈال رہے ہیں، حالانکہ آپ کے آدمی بھی اس کے جرم میں برابر کے شریک ہیں۔“ چودھری کا لہجہ خاصا کڑوا تھا۔ ”بہ ہر حال یہ دو دفعہ ہو چکا ہے اس کے بعد میں بھی آپ کے آدمیوں والا طریقہ کار اپناﺅں گا۔ بعد میں گلہ نہ کرنا۔“
جانان خان نے جواب دیا۔”چودھری مرد گلہ شکوہ نہیں کیا کرتے۔“
”چلو یہ بھی دیکھ لیں گے۔“ چودھری کی آواز سے مجھے محسوس ہوا کہ اس نے بات مکمل کرلی تھی میں جلدی سے آ کر امجد کے ساتھ بیٹھ گیا اس جگہ دروازہ بند ہونے کی وجہ سے آواز واضح سنائی نہیں دے رہی تھی۔
”کیا بات چیت ہو رہی تھی؟“ امجد نے اشتیاق سے پوچھا۔
” کوئی کاروباری معاملہ تھا بعد میں تفصیل سے بتاﺅں گا۔“
”ویسے جانو۔ ابھی موقع تھا کہ ہم ہلابول کر چودھری کو قابو کر لیتے۔“
”بے وقوف وہ جانان خان کے گھر آیا ہوا ہے اور تمھیں پتا ہونا چاہئے کہ اپنے گھر آئے دشمن کی بھی حفاظت میں یہ لوگ جان تک قربان کر دیتے ہیں۔ تم خواہ مخواہ جانان خان کے ساتھ دشمنی کی داغ بیل کیوں ڈالنا چاہتے ہو؟“
” سوری.... مجھے خیال نہیں رہا تھا۔“
میں جواباً کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ جانان خان دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا اور میں نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا۔ اس کے پیچھے اس کے دونوں باڈی گاڈ بھی اندر داخل ہو ئے۔
جانان خان اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔
”جاگیردار!.... بھائی صاحب کو مال چیک کراو۔“ جاگیردار نے ہاتھ میں پکڑا ہوا شاپر میری جانب بڑھا دیا۔ شاپر لے کر میں نے اپنے پاس رکھ لیا۔
”ملک صاحب یہ ہمارا خان خود ہی چیک کرے گا۔“”آپ تھوڑی سی پی کر دیکھیں۔“ جانان خان نے ہلکا سا اصرار کیا۔”ہم اس سے آج تک مستفید نہیں ہو سکے ہیں۔“ میں مسکرا یا۔ میری بات سن کر جانان خان کے چہرے پرحیرانی کے اثرات نمودار ہوئے اور جب وہ بولا تو یہ حیرانی اس کے لہجے میں بھی ہویدا تھی۔
” عجیب بات ہے کاروبار کرتے ہو اور خود استعمال نہیں کرتے؟“
”بس ملک صاحب نئے نئے وارد ہوئے ہیں نا اس میدان میں۔“
”اب آپ یہ مال میرن شاہ لے کے جائیں گے؟“ وہ مستفسر ہوا۔
”جی۔“ میں مختصراً
”آپ کے خان کا نام کیا ہے؟“
”ملک حاجی بہادر خان۔“
”کیا ....؟....تم حاجی بہادر کے بندے ہو۔“ اس کے لہجے میں حیرانی تھی۔
”جی ۔“”مگر وہ تو دگن میں رہتا تھا اور جہاں تک میرا خیال ہے وہ اس قسم کے کسی کام میں ملوث نہیں۔“ جانان خان کے لہجے میں شکوک کی پرچھائیاں لہرا رہی تھیں۔
”وہ اب بھی دگن ہی میں رہتا ہے لیکن آپ کی آسانی کے لیے میں نے میران شاہ بتلا دیا کیونکہ دگن اتنا معروف نہیں۔ دوسرے وہ واقعی اس کا روبار میں ملوث نہیں ہے یہ کام اس کا دست راست طوفان خان سرانجام دیتا ہے۔“
”اچھا اچھا۔“اس نے اطمینان سے سرہلایا۔ ”بہ ہر حال آپ لوگوں نے اور جس سے مال کے نمونے حاصل کرنے ہیں وہ کر لیں اور جتنے دن آپ ڈابیر میں ہیں میرے گھر میں مہمان رہیں گے۔“”مگر ہم یہاں کسی سے واقف نہیں۔“”آپ کی رہنمائی جاگیردار کر دے گا ہمارے علاوہ چودھری اکبر، ملک دل شاد خان اور سبز علی خان اس کا روبار میں ملوث ہیں۔“
”آپ نے اس کی قیمت نہیں بتلائی۔“ میں نے ہاتھ میں موجود چرس کے شاپر کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔
”اس کا ریٹ اور یکمشت ایک من لینے کا ریٹ بھی جاگیر دار بتا دے گا۔ فی الحال آپ لوگ آرام کرو۔ میں بھی تھوڑا مصروف ہوں بعد میں گپ شپ ہو گی۔“ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور ہم سے مصافحہ کر کے رخصت ہو گیا۔ اس کے جاتے ہی جاگیردار ہمیں وہاں سے ایک دوسرے کمرے میں لے گیا جہاں چارپائیوں پر صاف ستھرے بستر بچھے ہوئے تھے۔ وہ کمرہ یقینا مہمانوں کے ٹھہرانے کے کام آتا تھا۔
جاگیردار ہمیں چرس کے ریٹ وغیرہ سے آگاہ کرنے کے بعد آرام کا مشورہ دیتے ہوئے رخصت ہو گیا۔ اس پاﺅ بھر چرس کی پے منٹ کرنا میں نہیں بھولا تھا۔اس کے کمرے سے نکلتے ہی امجد نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی، جواباًمیں نے اسے ساری صورتِ حال سے آگاہ کر دیا۔” یہاں تک تو ٹھیک ہو گیا۔ آگے کیا کریںگے؟“ تفصیل جان کر وہ مستفسر ہوا۔”پہلے چودھری کی رہائش کا جائزہ لے لیں، اس کے بعد کوئی لائحہ عمل طے کریں گے۔“
”تو اس وقت آرام کرنے کی کیا ضرورت تھی، جاگیردار کو ساتھ لے کر چلے جاتے یا ویسے ہی اس سے حویلی کا محلِ وقوع پوچھ لیتے، تاکہ آج رات ہی اس کام کو نمٹا دیتے، ڈیڑھ مہینے سے اسے تلاش کر رہے ہیں اور اب اس کا پتا چلا ہے تو جناب کو آرام کی سوجھ گئی ہے۔“
”آرام سے ماجے، اب اس کا پتا تو چل گیا ہے خواہ مخواہ بے صبری کا مظاہرہ اچھا نہیں۔ گھنٹا ڈیڑھ آرام کرو عصر کو چلے چلیں گے۔“ یہ الفاظ میرے ہونٹوں پر تھے کہ ایک شخص چھابے میں روٹیاں اور ترکاری کا ڈونگہ لیے حاضر ہوا۔ دن کے کھانے کا وقت قریباً گزر گیا تھا مگر اس کے باوجود انھوں نے کھانا بھجوا دیا تھا اور ایسا شاید انھوں نے احتیاط کے طور پر کیا تھا۔ اتفاق سے ہم دونوں اس وقت تک کھانا نہیں کھا سکے تھے اس لیے اچھی خاصی بھوک محسوس ہو رہی تھی۔ ترکاری پلیٹوں میں ڈالنے کا تکلف کیے بغیر ہم ڈونگے میں ہی جڑ گئے۔ کھانے کے بعد وہی آدمی قہوہ لے آیا اور ہمارے قہوہ پیتے ہی برتن سمیٹ کر باہر نکل گیا۔ روٹی کھانے کے دوران میرا ارادہ تھا کہ کھانے کے بعد جاگیردار سے چودھری اکبر کا پتا پوچھ کر اس کی حویلی کے جانب چلیں گے ۔ مگر کھانا کھاتے ہی ایک عجیب قسم کی غنودگی میرے حواس پر چھا گئی۔ بند ہوتی آنکھوں سے میں نے امجد کی جانب دیکھا تو اس کی حالت بھی مجھے خود سے مختلف نہ لگی۔ بے انتہا کوشش کے باوجود میں اپنے حواس قائم نہ رکھ سکا اور چند لمحوں میں ہی دنیا و مافیہاسے بے خبر ہو گیا۔
حواس میں آنے پر مجھے اپنے سر پر بہت بوجھ محسوس ہو رہا تھا۔ سر جھٹک کر میں نے دائیں بائیں دیکھا۔ امجد مجھے اپنے بائیں جانب زمین پر پڑا نظر آیا۔ ہم دونوں کی قمیصیں اتارلی گئی تھیں اور دونوں کے ہاتھ پشت کی طرف رسّی سے باندھ دیئے گئے تھے۔ اپنے علاوہ مجھے اس کمرے میں ذی روح تو کیا بے جان چیز بھی نظر نہ آئی۔ تھوڑی دیر بعد ہی امجد کے جسم میں بھی حرکت پیدا ہوئی اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔”یہ کیا جانو صاحب؟“
”وہی جو تم دیکھ رہے ہو۔“ میں اطمینان سے بولا۔وہ طنزیہ انداز میںبولا۔”یہی ان کی مہمان نوازی ہے جس کے تم گن گا رہے تھے؟“
”پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ماجے۔ ہر قوم میں چودھری اکبر جیسے گھٹیا افراد موجود ہوتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ہر شخص اپنے علاقے کی روایات کا پاس رکھے۔ ویسے بھی کسی علاقے کے رواج کوہم وہاں کے لوگوں کی اکثریت کے مزاج سے پہچانتے ہیں۔ اگر انفرادی طور پر کوئی بد خصلت ہو تو اس کی بری عادات کو ہم پورے علاقے یا پوری قوم پر منطبق نہیں کر سکتے۔“
”اب مجھے فلسفے سے قائل کرنے کی کوشش نہ کرو بقراط صاحب۔“
”اچھا چھوڑو اس بحث کو اور میری رسّی کھولنے کی کوشش کرو۔“ میں کہنیاں ٹیک کر اٹھتے ہوئے بولا۔ ایک کمانڈوکے مزاج کے مطابق ہم پریشان ہونے کی بجائے حفاظتی اقدامات میں جڑ گئے، میں نے اپنی پیٹھ امجد کے جانب موڑی اور وہ دانتوں سے میرے ہاتھوں سے بندھی رسّی کھولنے لگا۔ تھوڑی محنت کے بعد ہی وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوگیا اور میرے ہاتھوں پر رسّی کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ اس کے بعد امجد کی رسّی کھولنے میں مجھے کوئی دشواری پیش نہ آئی۔ رسّی کھولنے کے بعد ہم نے وہ رسّی اس طرح اپنے ہاتھوں پر لپیٹ لی کہ ضرورت پڑنے پر ہم ایک جھٹکے سے اپنے ہاتھ آزاد کرا سکتے تھے
”یار!.... ہم جتنا ان سے لڑنے سے گریز کر رہے ہیں اتنا ہی ان سے لڑائی ناگز یر ہوتی جارہی ہے۔“ امجد دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔”ان سے لڑنا کوئی مشکل نہیں ہے ماجے....! مگر یہ فالتو پنگا ہو گا اور خواہ مخواہ ہمارا وقت ضائع ہو گا۔ دوسرے اگر اس لڑائی میں ہم دونوں سے کوئی ایک بھی وقتی طور پر ناکارہ ہو گیا تو چودھری کے خلاف ہماری طاقت آدھی رہ جائے گی۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ہماری پوری طاقت چودھری کے خلاف استعمال ہو۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے اور دوسرے رخ کے مطابق ہم دونوں ملک جانان خان کے آدمیوں سے لڑتے ہوئے یہاں سے عدم آباد بھی روانہ ہو سکتے ہیں ، گولی یہ نہیں دیکھتی کہ سامنے کمانڈو ہے یا کوئی عام بندہ اور اس علاقے کے لوگ زبانی کلامی جمع خرچ کی بجائے بندوق کی زبان میں گفتگو کرتے ہیں۔“
”بس اپنی بزدلی کو کسی نہ کسی مصلحت کا نام دیئے رکھنا۔“”چلو .... یونھی سہی۔“ میں نے بحث کرنا مناسب نہ سمجھا ۔”ویسے جانو.... یہ ایک دم ان کو کیا سوجھی؟ اچھا کھلا پلا کر اس حال میں لے آئے۔“
” ان کے آنے کی دیر ہے پتا چل جائےگا۔“”وقت کیا ہو گا۔ اب تک اچھی خاصی روشنی محسوس رہی ہے ؟“امجد نے کہا۔ ”جہاں تک میرا اندازہ ہے تو ہم کافی دیر بے ہوش رہے ہیں۔“”میرا خیال ہے دوسرا دن طلوع ہو چکا ہے۔“ ”ایسا ہی ہو گا۔“ اس نے اثبات میں سرہلایا۔
میں نے پوچھا۔”اچھا ان کے آتے ہی ہلا بول دینا چاہئے یا.... ان کو پوچھ گچھ کا موقع دینا چاہئے۔“
”کمانڈو ٹریننگ کا تضاضا تو یہی ہے کہ انھیں سنبھلنے کا موقع دیئے بغیر چھاپ لیا جائے....مگر پھر ان سے پوچھ گچھ میں دشواری پیش آئے گی اور ہمارے قابو آنے کے بعد وہ ہم سے جھوٹ بھی بول سکتے ہیں، دوسری صورت میں ہو سکتا ہے ان سے بات چیت کرنے کے دوران کوئی افہام و تفہیم کا پہلو بھی نکل آئے۔“
”اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ حملہ کرتے ہوئے ہم خود ہی پار ہو جائیں۔“ میں نے تاریک پہلو کی طرف اشارہ کیا۔”یہ توپھر قسمت کی بات ہے،موت کے ڈر سے ہم اپنے ارادے تو موّخر نہیں کر سکتے وہ تو بستر پر لیٹے ہوئے بھی آ سکتی ہے، تو نے سنا ہو گا کہ اس دنیا میں آنے کی ترتیب تو موجود ہے یعنی حمل ہو گا اس کے آٹھ، نو، دس ماہ بعد بچہ پیدا ہو گا .... لیکن جانے کی کوئی ترتیب موجود نہیں ۔ ہوسکتا ہے پوتا دادا سے پہلے مر جائے، بیٹا باپ سے پہلے فوت ہو جائے یہ تو مالک الملک کی منشا ہے، اس کی مرضی ہے۔ بندہ غریب تو اس ضمن میں بے بس اور لاچار ہے اور یہ وہ واحد حقیقت ہے جس کا منکر کوئی نہیں، چاہے کوئی دیندار ہو چاہے دنیا دار، چاہے کوئی مسلم ہو چاہے بے دین، یہاں تک کہ ﷲ تعالیٰ کے وجود کے منکر بھی اس کو چیلنج کرنے کی جرا¿ت نہیں کر سکتے۔“
”آج تو بڑے فلسفے بگھارے جا رہے ہیں۔“ میں ہنسا، وہ بھی ہنس پڑا تھا۔ہم کافی دیرگپ شپ میں مشغول رہے یہاں تک کہ کمرے کے باہر قدموں کی چاپ ابھری اور ہم خاموش ہو گئے۔ دروازہ کھول کر ایک ملازم سرکنڈوں سے بنا ہوا اسٹول اٹھائے اندر داخل ہوا جس کو ہمار ی زبان میں موڑھا کہتے ہیں۔ موڑھا کمرے کے وسط میں رکھ کر وہ باہر نکل گیا جبکہ اس کے پیچھے اندر داخل ہونے والوں میں ایک جاگیردار خان اور دوسرا، باڈی گارڈ تھا دونوں دروازے کے دائیں بائیںکھڑے ہو گئے۔ چند لمحوں بعد جانان خان اندر داخل ہوا اور آ کر موڑھے پر بیٹھ گیا۔
”ہاں بھئی جوانو کیا حال ہے۔“ اس کا لہجہ استہزائی تھا۔ دونوں باڈی گاڈ اس کے دائیں بائیں آ کر کھڑے ہو گئے تھے۔ جواباً ہم دونوں خاموش ہی رہے۔
”آپ لوگ خفا خفا سے لگ رہے ہو۔“
”ملک صاحب.... آپ کے ہاں مہمانوں کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا ہے۔“ میں نے شکوہ کیا۔”نہیں۔“ اس نے انکارمیں سر ہلایا۔ ”اس بات پر مجھے خفت بھی ہو رہی ہے مگر کیاکیاجائے کہ مہمانوں کی شکل میں ہماری جان کے دشمن قریب آنے کوشش کرتے ہیں تو پھر ایسا کرنا ہماری مجبوری بن جاتی ہے۔“
”میں سمجھا نہیں؟“ میں حیرانی سے بولا۔ ”آپ کی جان کے دشمن ہم کیسے ہو گئے؟“”بچکانہ باتیں مت کرو عبدﷲ خان یا جو بھی نام ہے۔ تمھارا کیا خیال ہے جانان خان سویا ہوا ہے۔ ہیبت خان اور باسمت خان کے قتل کے بعد ہم نے جو تفتیش کی اس کے مطابق ان دونوں کو قتل کرنے والے دو لمبے تڑنگے نوجوان ہیں۔ جن کی عمر24سے 28سال کے درمیان ہے۔گندمی رنگت سیاہ آنکھیں ایک کے بال ہلکے بھورے جبکہ دوسرے کے سیاہ، ایک پشتو بول سکتا ہے اور دوسرا پشتو نہیں جانتا وغیرہ وغیرہ۔“
ایک لمحے کے لیے رک کر اس کی بات جاری رہی ۔ ”تم شاید سوچ رہے ہو کہ میں یہ اپنی طرف سے گھڑ رہا ہوں ۔ اگر ایسا ہے تو یہ تمھاری بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ تمھارا حلیہ ہمیں اس کوارٹربکنگ کرنے والے سے پتا چلا تھا جو بعد میں قتل ہو گیا تھا۔ اس کے ساتھ جو بندہ تمھیں کوارٹر تک چھوڑنے گیا تھا اس نے بھی اس کی تائید کی تھی، سب سے بڑھ کر وادی بہرام شاہ کے عبدﷲ خان سے ہم نے ہیرا پھیری سے تمھارا حلیہ اگلوا لیا تھا جس کے ہاں تم لوگوں نے رات گزاری تھی۔ اب تم سوچو گے ہم عبدﷲ خان تک کیسے پہنچے تو یہ بھی میں بتائے دیتا ہوں میران شاہ سے ڈابیر آتے ہوئے اتفاقاً عبدﷲ خان کا گھر ہی راستے میں پڑتا ہے اور وہ حددرجہ کا مہمان نواز ہے یہ بات ممکن ہی نہیں کہ کوئی اس جانب سے جنگل خیل کی طرف آئے اور عبدﷲ خان کی مہمان نوازی سے مستفید نہ ہو سکے۔ بہ ہر حال اس سب کے باوجود میں تمھیں نہ تو باسمت خان اور ہیبت خان کا قاتل گردانتا ہوں اور نہ اس ضمن میں کوئی سزا دینے کا ارادہ رکھتا ہوں کیونکہ نادانستگی میں سہی تمھاری وجہ سے مجھے ڈابیر کی سرداری ملی اور اسی وجہ سے تمھارے بارے تمام معلومات حاصل ہو جانے کے باوجود میں نے تمھیں تلاش کرنے یا کرانے کی بالکل کوشش نہیں کی یہ معلومات بھی مجھے ہیبت خان اور باسمت خان کے مرنے کے دو تین دن بعد مل گئی تھیں۔ رہی بات باسمت خان کی بیوی کی تو میرا خیال تھا شاید اسی کے چکر میں تم لوگوں نے باسمت خان اور ہیبت خان کا کام تما م کیا تھا مگر اب جبکہ تم اس واقعے کے ڈیڑھ دو مہینے بعد ہی میرے پاس آ پہنچے ہو اور وہ بھی بوگس قسم کے سمگلربن کر۔ بے وقوف تم لوگ حاجی بہادر اور طوفان خان کا نام لے رہے ہو جن سے ہم خود چرس وافیون وغیرہ منگواتے ہیں۔ حاجی بہادر اس علاقے کا سب سے بڑا چرس وافیون سپلائیر ہے۔ بہر حال اب تمھاری بہتری اسی میں ہے کہ تم چپ چاپ بغیر اپنی ہڈیاں تڑوائے یہ بتا دو کہ تم دونوں کس کے لے کام کرتے ہو ؟اور مجھے قتل کرنے میں تمھارا کون سا مفاد پوشیدہ ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ تمھیں کم سے کم سزا دی جائے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم مجھے اصل حقائق سے آگاہ کرد و باسمت خان ہیبت خان کو قتل کرنے اور مجھے قتل کرنے کا ارادہ کرنے کی وجوہات سے پردہ اٹھا دو تو شاید میں تمھاری جان بخشی کردوں ورنہ تو میرے آدمی باسمت خان اور ہیبت خان کے قاتلوں کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں۔ اگر انھیں پتا چل جائے کہ میں ان کے سرداروں کے قاتلوں سے مذاکرات کر رہا ہوں تو شاید وہ مجھے بھی معاف نہ کریں۔ البتہ جاگیردار خان اور صاحب گل کی بات اور ہے۔“ اس نے اپنے باڈی گارڈز کی طرف اشارہ کیا۔ ”یہ میرے باڈی گارڈ نہیں بلکہ بھائیوں کی طرح ہیں۔ خیر یہ ایک ضمنی بات تھی اب تم بغیر کوئی بات چھپائے سب کچھ بیان کردو۔“
”ہمارے پاس آپ کو بتانے کے لیے کوئی ایسی کہانی نہیں ہے جس سے ہم آپ کے نام نہاد اندیشوں کی تصدیق کر سکیں۔“”ہوں۔“ اس نے ایک گہری سانس لی۔ ”اس کا مطلب ہے میری ساری بکواس رایگاں گئی۔ تم لوگ لاتوں کے بھوت ہو.... باتوں سے نہیں مانوگے۔....خیر تمھاری مرضی۔“وہ جاگیردار کی طرف متوجہ ہوا۔ ”اسے تفتیش کے دوسرے طریقے سے آگاہ کرو۔“”جی خان جی۔“ کہہ کر اس نے کلاشن کوف اپنے ساتھی صاحب گل کو پکڑائی اور میری طرف خطرناک ارادے سے بڑھا۔ اس کے بڑھنے کا انداز اس بات کا مظہر تھا کہ اسے میری جانب سے کوئی خطرہ نہیں۔ کیونکہ ایک تو میں بندھا ہوا تھا۔ دوسرے وہ مجھ سے ناواقف تھا۔
جانان خان کی بات ختم ہوتے ہی میں نے اپنے ہاتھ رسّی سے آزاد کرالیے تھے۔ امجد بھی لازمی طور پر میرے انداز کو دیکھتے ہوئے ایکشن کے لیے تیار ہو گیا تھا۔ جانان خان دلچسپ نظروں مجھے گھور رہا تھا کہ سب سے پہلے مجھے ہی پھینٹی لگنا تھی اس کے بعد کہیں امجد کا نمبر آتا۔ قریب آ کر جیسے ہی جاگیردار جارحانہ انداز میں جھکا اور اس کا ہاتھ میرے گریبان کے جانب بڑھا میں ایک دم اوپر کو اچھلا میرے سر کی بھرپورا ٹکر اس کی ٹھوڑی پر لگی وہ لڑکھڑاتے ہوئے ایک قدم پیچھے ہٹا اور اس پہلے کہ وہ سنبھلتا میں نے بجلی کی سی تیزی سے اس کے دائیں ہاتھ کو پکڑ کر جھٹکے سے گھمایا اور اس کے ساتھی صاحب گل کی طرف دھکیل دیا۔ اس میں طاقت کے ساتھ ٹیکنیک کا گہرا عمل دخل تھا کہ پہلے میں نے اس کے قدموں کو ان بیلنس کیا اور پھر ایک چکر دے کر اس کی سوچوں کو وقتی طور پر درہم برہم کرتے ہوئے اسے اس کے ساتھی پر پھینک دیا ۔اس کے بجائے اسے یرغمال بنا لینا میرے لیے زیادہ آسان تھا مگر اس میں یہ قباحت تھی کہ اس کا کمانڈر بچ کر نکل جاتا اور ہم ایک مرتبہ پھر پھنس جاتے اور دوبارہ ان کے قابو میں آنے کا مطلب صریحاً موت تھی۔ اسے دھکیلنے کے بعد میں رکانہیں تھا بلکہ اسی تسلسل میں میں موڑھے پر ہکا بکا بیٹھے جانان خان پر جا پڑا اور اگلے ہی لمحے پشت کے جانب اس کا دایاں بازو مروڑ کر اپنا بایاں ہاتھ میں اس کے گلے میں حمایل کرچکا تھا۔
دوسری جانب امجد بھی حرکت میں آچکا تھا۔ جاگیردار صاحب گل سے ٹکرایا اور دونوںنیچے گر گئے اس سے پہلے وہ سنبھلتے امجد ان کی کلاشن کوفوں پر قبضہ کر چکا تھا۔ ایک کلاشن کوف سلنگ اپ کر کے دوسری فائرنگ پوزیشن میں پکڑتے ہوئے وہ اُلٹے قدموں دروازے کی طرف بڑھا اور اندر سے کنڈی چڑھا دی۔ اس کی جگہ اگر میں ہوتا تو میرا ردِ عمل بھی یہی ہوتا کیونکہ ہم دونوں کمانڈو کے تربیت یافتہ تھے اور ایسی صورتِ حال میں کمانڈوزکا دماغ ایک ہی دائرے میں کام کرتا ہے۔ وہ ساری کارروائی ہم نے بغیر کسی منصوبے کے سرانجام دی اور ہر دونے بہ خوبی اپنا کردار ادا کر دیا تھا۔
امجد کے پوزیشن سنبھالتے ہی میں نے جانان خان کا بازو آزاد کرتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ سے ماہرانہ انداز اس کی جیبوں کو ٹٹولا اور اس کی جیب میں پڑا پستول نکال کر اسے آہستہ سے سامنے کی طرف دھکیلا اور وہ لڑکھڑاتے ہوئے سامنے دوڑتا چلا گیا۔”اب بتاﺅ ملک جانان خان تمھیں بے بس لوگوں سے تفتیش کرنے کے اور کتنے طریقے آتے ہیں۔“
”تت ....تم بچ کر نہیں جاسکتے۔ حویلی میں چاروں جانب میرے آدمی بکھرے ہوئے ہیں۔“ اس نے اپنے تئیں مجھے دھمکی دینے کی کوشش کی مگر اس کی ہکلاتی اور متوحش آواز اس کی دھمکی کے کھوکھلا ہونے کی مظہر تھی۔
”بھول ہے تمھاری جانان خان .... جب تک کسی کو تمھاری ہلاکت کا پتا چلے گا ہم اس علاقے سے بہت دور جا چکے ہو ں گے۔ کیوں، میں غلط کہہ رہا ہوں جاگیردار خان؟“جانان خان سے بات کرتے کرتے میں جاگیردار کو مخاطب ہوا جو شعلہ بار نظروں سے مجھے گھور رہا تھا۔ میری بات کا ان دونوں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔”ماجے ....!کیاخیال ہے انھیں گولی سے ماریں یاکوئی اور طریقہ اختیار کریں۔“ ں ان کی خاموشی دیکھتے ہوئے میں امجد سے مستفسر ہوا۔
”نہیں بھئی!.... میں تو بے گناہوں کا خون بہانے کے حق میں نہیں ہوں۔“وہ اطمینان سے بولا۔
”صحیح کہا۔“ میں جانان خان کو مخاطب ہوا۔ ”ملک صاحب بیٹھیں میں آپ کو اصل بات بتا دوں۔“ مگر اس بار بھی جانان خان خاموشی سے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر رہ گیا۔ شاید اسے بچنے کے امکانات صفر سے بھی کم دکھائی دے رہے تھے۔
” ملک صاحب !....آپ پریشان نہ ہوں ،ہم نہ پہلے آپ کے دشمن تھے اور نہ اب ہیں۔ یہ اقدام ہمیں اس لیے اٹھانا پڑا تاکہ آپ کو احساس دلائیں کہ اگر ہم آپ کو قتل کرنے کے ارادے سے آئے ہوتے تو کب کا ایسا کر چکے ہوتے اور ماجے انھیں گنیں واپس کر دو۔“ اس سے بات کرتے کرتے میں امجدکو مخاطب ہوا۔ اس نے سر ہلاتے ہوئے دونوں کلاشن کوفیں جاگیرداراور صاحب گل کی طرف بڑھا دیں۔ میں نے بھی اپنے ہاتھ میں موجود پستول جانان خان کی طرف بڑھا دیا جو اس نے میکانکی انداز میں لے لیا۔ جاگیردار اور صاحب گل کے چہروں پر بھی حددرجہ حیرت چھا گئی تھی۔
”اب بیٹھ جائیں ملک صاحب.... تاکہ میں آپ کواصل کہانی سنا سکوں۔“
”نہیں یہاں نہیں۔“ وہ جیسے ہوش میں آگیا۔ ”چلو میری آرام گاہ میں۔“
”چلیں ۔“ میں نے اس کی تائید کی۔
”جاگیردار.... مہمانوں کے کپڑے اور سامان وہیں پر لے آﺅ، اس کے علاوہ اچھے سے کھانے کا بندوبست بھی کرو کہ 25,24گھنٹوں سے انھوں کچھ نہیں کھایا۔“”ٹھیک ہے خان جی۔“”صاحب گل تم بھی جاگیر کے ساتھ چلے جاﺅ۔“ ”آپ چلیں میرے ساتھ۔“ جانان خان کے لہجے سے شہد ٹپک رہا تھا۔ موت کو اتنا قریب آ کر پلٹتے دیکھ کر اس کا رویہ عجیب سا ہو گیا تھا۔ ہم دونوں انھیں ختم کر کے آسانی سے نکل سکتے تھے مگر ایک تو یہ خواہ مخواہ کی خون ریزی ہوتی دوسرا اس کے بعد ہم اطمینان سے چودھری کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتے تھے۔ جبکہ یہ چال چل کے ایک تو ہم نے جانان خان کی نظروں میں اپنی پوزیشن صاف کرلی تھی دوسرے اس سے ہمارا ضمیر بھی مطمئن تھا۔
جانان خان کے ساتھ چلتے ہوئے ہم اس کی آرام گاہ میں پہنچے وہ کشادہ کمرہ کافی پُر تکلف انداز میں سجایا گیا تھا۔ ہلکے آسمانی کلر کی دیواریں، اسی رنگ کے کھڑکیوں پر لٹکتے ہوئے پردے، خوب صورت صوفہ سیٹ۔ فرش پر بچھا ہوا نرم ایرانی قالین ۔ دیواروں سے لٹکتی ہوئی خوب صورت تصاویر۔ وہ کمرہ واقعی ایک ملک کے شایانِ شان تھا۔
”آپ لوگ پہلے نہا دھو کر تازہ دم ہو جائیں، کھانا کھائیں اس کے بعد اطمینان سے بیٹھ کر بات چیت کریں گے۔“اور میں نے سر ہلاتے ہوئے اس سے اتفاق کیا تھا۔
پُرتکلف کھانے سے فارغ ہو کر ہم خوشبودار قہوے کی چسکیاں لیتے ہوئے جانان خان کو اپنی کہانی سنا رہے تھے۔ جاگیر دار اور صاحب گل بھی وہیں وجود تھے....
”باسمت خان اور ہیبت خان اپنی غلطی سے مارے گئے ۔پہل ہماری طرف سے نہیں ہوئی تھی، ہمارا آپ کے پاس آنے کا مقصد فقط چودھری اکبر کا پتا معلوم کرنا تھا۔ باقی چرس خریدنے کی کہانی بلاشبہ جھوٹی تھی مگر یہ بات بلاشبہ صحیح ہے کہ ہمارے طوفان خان سے تعلقات ہیں۔ اگر آپ کو ہماری بات میں کسی قسم کا شبہ ہو تو آپ بے شک اپنا کوئی بندہ طوفان خان کے پاس تصدیق کے لیے بھیج دیں اسے چودھری کے ساتھ ہماری دشمنی اور ہمارا چودھری کی تلاش میں جنگل خیل کی طرف آنے کی بارے سب معلوم ہے۔“”مجھے آپ کی بات میں بالکل بھی شک نہیں ہے، باقی چودھری اکبر نے جو ظلم کیا ہے اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ اب اگر میرے لائق کوئی کام ہو تو حکم کرو میں اپنے بندوں کے ساتھ مل کر چودھری کے خلاف جنگ میں تمھاری مدد کر سکتا ہوں۔“جانان خان نے پُرخلوص آفر کی۔
”مہربانی ملک صاحب.... اگر آپ کی مدد کی ضرورت پڑی تو ہم ضرور آپ کو زحمت دیں گے اب آپ صر ف اتنی مہربانی کریں کہ ہمیں چودھری کے گھر کا پتا سمجھا دیں۔“”میں جاگیردار خان کو آپ کے ہمراہ بھیج دیتا ہوں۔ یہ آپ کو اس کا مکان دکھلا کر واپس آجائے گا۔“
”ٹھیک ہے۔“ میں نے مطمئن ہو کر سرہلایا۔ ”اب ہم چلتے ہیں، چند دن اس کے گھر کی نگرانی کریں گے اور موقع ملتے ہی اس پروار کرنے کی کوشش کریں گے۔“ یہ کہہ کر میں جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا، میری تقلید میں باقی تمام بھی کھڑے ہو گئے۔ جانان خان سے رخصتی مصافحہ کر کے ہم اس کی حویلی سے باہر نکل آئے۔ جاگیر دار خان بھی ہمارے ساتھ تھا، اس کے باوجود کہ میں نے اسے اچھی خاصی چوٹ لگائی تھی اس کا رویہ میرے ساتھ خوشگوار ہی تھا۔
”عمر جان صیب!.... ایک بات پوچھوں ؟“ حویلی سے نکل کر ہم تھوڑا ہی چلے ہوں گے کہ جاگیر دار مجھ سے مخاطب ہوا۔ کہانی سناتے وقت میں انھیں اپنے اصلی نام بتا چکا تھا ۔”پوچھو؟“”کل چودھری، خان جی سے ملنے آیا تھا اور آپ دونوں بھی خان جی کے پاس موجود تھے۔ اس وقت آپ لوگوں نے کیوں چودھری پر حملہ نہیں کیا؟ حالانکہ اس وقت وہ آپ کی موجودی سے لا علم تھا آپ بڑی آسانی سے اسے ٹھکانے لگا سکتے تھے۔“”اس کی دو وجوہات ہیں....پہلی .... وہ ملک صاحب کے گھر آیا تھا اور ہمیں اندیشہ تھا کہ اس کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی پر ملک صاحب خفا ہو جائے گا ۔دوسراہم نے اسے گولی مار کر قتل نہیں کرنا بلکہ اذیت ناک موت کے حوالے کرنا ہے۔“
”اس کا مطلب ہے آپ اسے زندہ پکڑنے کی کوشش کروگے؟“
”ارادہ تو یہی ہے۔“ میں اثبات میں بولا۔”میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں، اگر میری کسی بھی قسم کی مدد چاہےے ہو تو ضرور حکم کرنا۔“
”شکر یہ جاگیردار بھائی! آپ کی دعاﺅں سے زیادہ ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں۔“ انھی باتوں کے دوران ہم ایک زیرِتعمیر عمارت کے قریب سے گزرے۔جاگیر نے ہمیں بتایا....
” یہ حویلی چودھری اکبر کی ہے،لیکن اس کی تعمیر ابھی تک مکمل نہیں ہوئی۔ اس لےے وہ ملک امجد خان کے مکان میں رہائش پذیر ہے۔“ ”ملک امجد خان خود بھی اسی مکان میں رہتا ہے؟“ ”نہیں،ملک امجد کی اپنی حویلی ڈابیر کے اندر ہی واقع ہے۔ یہ مکان تو اس نے بہت پہلے پہاڑی ڈھلوان پر بنایا تھا۔ اس وقت ڈابیر کی آبادی بہت کم تھی۔ بعد میں جب یہ شہر پھیلا تو اس نے بھی شہر کے وسط میں جگہ لے کر اپنی حویلی بنائی اور اپنے خاندان سمیت اس میں منتقل ہو گیا البتہ وہ مکان بھی جوں کا توں موجود رہا اور وقتاً فوقتاً امجد خان اسے مختلف سرگرمیوں میں استعمال کرتا رہا آج کل اس مکان میں چودھری اکبر ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے ۔“
انھی باتوں کے دوراں ہم ڈابیر کے مضافات میں نکل آئے تھے۔
”وہ سامنے نظر آنے والا مکان ملک امجد خان کا ہے جس میں چودھری رہائش پذیر ہے۔“
جاگیر دار خان نے درمیانے فاصلے پر نظر آنے والے مکان کی طرف اشارہ کیا جوکافی بلندی پر واقع تھا۔“
”ٹھیک ہے جاگیردار بھائی!.... اب آپ جا سکتے ہیں۔“ میں رک گیا ۔”اب ہم جانیں اور ہمارا کام۔“
”مگر میری مددکی ضرورت پڑ سکتی ہے ۔“”فی الحال تو کوئی ضرورت نہیں ،کیونکہ ہم نے دور دور سے اس مکان کا جائزہ لینا ہے۔“” جیسے آپ کی مرضی۔“ وہ ہم سے مصافحہ کر کے رخصت ہو گیا اور ہم ٹہلنے کے انداز میں مکان کی سمت بڑھنے لگے۔ اکا دکا مکانات چودھری کے گھر کے قرب و جوار میں بھی نظر آرہے تھے اس لیے ہمیں اس طرف آتے دیکھ کر چودھری یا اس کے آدمی چوکنا نہیں ہو سکتے تھے۔ اپنے چہرے چھپانے کے لیے ہم نے چادر کی پگڑی باندھ کر اس کے لٹکنے والے پلو مقامی انداز میں اپنے چہرے کے گرد اس طرح لپیٹ لیے تھے کہ صرف آنکھیں ہی نظر آرہی تھیں۔ چودھری کے مکان تک ایک کچا ٹریک جارہا تھا اور یہ ٹریک گاڑیوں کے مسلسل آنے جانے کی وجہ سے بنا تھا۔
ہم دونوںمکان والی ٹیکری کے گرد گھوم کر اس کی پشت پر موجود پہاڑی پر چڑھنے لگے اور پھر ایک مناسب بلندی پر پہنچ کرہم دونوں بیٹھ گئے، مگر مکان کی بناوٹ اس طرح تھی کہ اس کا اندرونی حصہ ہماری نظروں سے اوجھل رہا۔ مکان کے سامنے کے دائیں اور پشت کی طرف بائیں کونے میں دو مورچے بنے ہوئے تھے۔ گویا دونوں مورچے کراس میں تھے اور انھی دونوں مورچوں سے مکان کے چاروں اطراف کی نگرانی کی جا سکتی تھی۔ مٹی کے بلاکوں سے بنی ہوئی دیواریں جنھیں لپائی کیا گیا تھا اچھی خاصی بلند تھیں۔ ہم وہاں تھوڑی دیر بیٹھ کر مکان کے اندر گھسنے کے منصوبے پر بات چیت کرتے رہے۔ مگر بہ ظاہر اندر داخل ہونا مشکل نظر آرہا تھا۔
مزید تھوڑی دیر وہیں گزار کر ہم نیچے اترنے لگے۔ اس نگرانی کا مجھے کوئی خاص فائدہ نظر نہیں آیا تھا۔ہم رات کو وہاں آنے کا فیصلہ کیا اور نیچے اتر آئے ۔عصر کا وقت ہو گیا تھا ہم ٹہلنے کے انداز میں چلتے ہوئے واپس آبادی میں پہنچ گئے۔ پگڑیاں کھول کر ہم نے چادروں کو کندھوں پر رکھ لیا کہ مسلسل پگڑی باندھے رکھنا ہمارے بس سے باہر تھا۔
بازار سے گزرتے ہوئے، جینز پہنے ہوئے ایک لڑکی ہماری طرف بڑھی، اورقریب آ کر نامانوس زبان میں کچھ بولنے لگی۔ وہ زبان مجھے فارسی کے مشابہ لگی، لڑکی کی عمر25,24سال تھی اور وہ خاصی خوب صورت لڑکی تھی مگر اس کے چہرے پر عجیب سی بے رونقی چھائی تھی ۔ اس قبیل کی کافی لڑکیاں ہم نے جنگل خیل میں بھی دیکھی تھیں ان کے ساتھ انھی کی طرح کے لڑکے بھی ہوتے تھے اور یہ عموماً گروپ کی شکل میں پھرتے نظر آتے ۔ مگر ہمارے ساتھ یہ پہلا موقع تھا کہ کوئی ایسی لڑکی ہمیں مخاطب ہوئی تھی۔
میں انگلش میں بولا۔
"We cant under stand What are you Saying?"
(آپ کیا کہہ رہی ہیں ہم نہیں سمجھ سکے ہیں)
"I said you can get me on a hash cigrate"
(میں نے کہا چرس کے ایک سگریٹ کے بدلے آپ مجھے حاصل کر سکتے ہیں)”اب کیا خیال ہے؟“ اس کی بات سنتے ہی امجد نے طنزیہ لہجے میں کہا۔”اس کا قصور نہیں ہے ماجے....اس کے زندگی گزارنے کے فلسفے نے اسے اتنا ہی سمجھایا ہے ۔ بچپن ہی سے بُری سوسائٹی اور پھر مادر پدر آزاد معاشرے نے ان کے اندر اخلاقیات کے نام پر کچھ نہیں چھوڑا ہوتا۔“وہ لڑکی ہماری آپس کی باتوں سے یہ سمجھ رہی تھی کہ شایدہم اس کی آفر پرغور کر رہے تھے۔ میں نے اس کی ملتجی نظروں کو دیکھتے ہوئے جیب میں ہاتھ ڈالا میرا ارادہ اسے چند روپے دے کر اپنی جان چھڑانے کا تھا۔ مگر جیب میں پڑی ہوئی پاﺅ بھر چرس سے میرا ہاتھ ٹکرایا۔ یہ چرس میں نے ضائع کرنے کے بہانے اپنی جیب میں رکھ چھوڑی تھی مگر بعد میں میرے ذہن سے نکل گیا تھا۔ ایک لمحے کے لیے میں نے سوچا کہ یہ اس کے حوالے نہ کروں، لیکن پھر خیال آیا کہ میرے نہ دینے سے اس نے کون سا توبہ کر لینا ہے میں نے تو ویسے ہی ضائع کرنی ہے، وقتی طور پر سہی اس کا دل خوش ہو جائے گا۔ میں نے چرس کا پیکٹ نکال کر اس کی جانب بڑھا دیا۔
"What is this?" وہ مستفسر ہوئی۔
"Hash" میں مختصراً بولا۔
”آپ میرے ساتھ مذاق کررہے ہیں۔“ وہ بے یقینی سے بولی۔”نہیں.... یہ حقیقت ہے آپ کھول کر دیکھیں۔“ اس نے پیکٹ لے کر کھولا اور حیرانی سے اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔ وہ چرس کی عادی تھی اور اسے خوب پہچان تھی۔ وہ میرے ساتھ لپٹتے ہوئے بولی ۔”اوہ.... اتنی چرس کے لیے تو میں پوری زندگی آپ کی خدمت کر سکتی ہوں۔“”کیا کر رہی ہو۔“ میں نے خفت سے اسے پرے دھکیلا۔
”کک ....کیوں میں نے کیا غلط کر لیا۔“ وہ پریشان سے بولی۔
”غلط صحیح چھوڑو اور یہاں سے پھوٹنے کی بات کرو۔“ امجد جو کافی دیر سے خونی نظروں سے مجھے گھور رہا تھا، غصیلے لہجے میں بولا۔
”مگر .... یہ .... چرس.... پیسے....“وہ گڑبڑاسی گئی شاید اس کا خیال تھا کہ ہم اس سے چرس کے پیسنے لینا چاہ رہے تھے، ورنہ اتنی مقدار میں چرس بغیر کسی وجہ کے کوئی پاگل ہی کسی کے حوالے کر سکتا تھا۔
”چلو اسے سمجھانا مشکل ہے۔“ میں نے امجد کو بازو سے پکڑ کر کھینچا اور ہم دونوں اسے ہکا بکا چھوڑ کر جانان خان کی حویلی کی جانب روانہ ہو گئے۔
”بس کوئی خوب صورت لڑکی نظر آجائے تو رال ٹپک پڑتی ہے جناب کی۔ اب کیا ضرورت تھی پنگا بازی کی۔ اس کی زبان سے ہم ناواقف تھے تُم نے ضرور انگلش جھاڑنا تھی....اور دوسرا تُم نے اتنی زیادہ چرس اس کے حوالے کر دی، وہ اُلّو کی پٹھی ساری کی ساری آج ہی پھونکنے کی کوشش کرے گی اور جائے گی جان سے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے اس کے پاس یہ چرس کوئی آوارہ گروپ دیکھ لے ۔ وہ اسے ذبح کرنے سے بھی نہیں چوکیں گے۔“
میں نے اسے جواب دینے کی کوشش نہ کی اور خاموشی سے اس کی باتیں سنتا رہا۔ موڑ مڑتے وقت میں نے پیچھے دیکھا تو وہ لڑکی اسی طرح اپنی جگہ پر کھڑی ہمیں دیکھ رہی تھی۔جانان خان کی حویلی تک امجد کے کوسنے جاری رہے۔ چوکیدار نے ہمیں دیکھتے ہی سلام کہتے ہوئے دروازہ کھول دیا۔ ہم دونوں اس کمرے کی طرف بڑھ گئے جس میں ہمیں بے ہوشی کی دوا ملا قہوہ پلایا گیا تھا۔ شام کا وقت ہو گیا تھا۔ ہم آمنے سامنے چارئیوں پر بیٹھ گئے۔
”میرے ذہن میں تو ایک اور پلان آیا ہے۔ جانو۔“ ”کیا؟“ میں مستفسر ہوا۔
”کیوں نا.... ہم چودھری اکبر کو راستے میں روک کو اغوا کرنے کی کوشش کریں جس طرح دگن میں طوفان خان کو اغوا کیا تھا۔“
”ماجے میاں پہلی بات تو یہ ہے کہ طوفان خان آخرتک یہ نہیں سمجھ سکا تھا کہ ہم اس کے خلاف کیا کرنے والے ہیں کیونکہ بہ طور دشمن وہ ہم سے ناواقف تھا ورنہ اتنی آسانی سے کبھی بھی قابو نہ آتا۔ دوسرے وہ اکیلا تھا اور اس بزدل نے تو پانچ چھے باڈی گارڈ ہر وقت اپنے ساتھ لگائے ہوتے ہیں اور اسے راستے میں روکنے کا نتیجہ صرف مقابلے کی صورت میں نکلے گا۔ جس میں اسے زندہ پکڑنا کار ِمحال ہو گا.... اور سب سے بڑی بات یہ کہ چودھری ہماری صورتوں سے اچھی طرح واقف ہے۔ اس وجہ سے تمھارا یہ پلان بالکل ناقابل قبول ہے۔“
”تو پھر حویلی میں گھسنے کی کوشش کرنا پڑے گی ورنہ اس کے علاوہ تو کوئی طریقہ نہیں ہے۔“
”ہاں اب تم نے صحیح کہا۔“میں اس کی تائید کی ۔ ”اس کے علاوہ اور کوئی بھی صورت ان حالات میں قابلِ عمل نہیں ہے۔“”مگر حویلی میں گھسنا بھی تو کافی مشکل نظر آرہا ہے اور اگر ہم اچانک پن حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے تو شاید چودھری بھاگ جائے۔ یوں بھی وہ قلعہ بند ہوں گے اور اپنے گھر کے چپے چپے سے واقف۔ جبکہ ہمیں تو یہ بھی پتا نہیں کہ اس کے گھر میں کمرے کتنے ہیں۔“
” اس بارے جانان خان سے مشورہ کرتے ہیں شاید کوئی مناسب صورت نکل آئے۔“میں نے کہا اور وہ کھڑا ہو گیا....” پھر ابھی چلیں۔ کیونکہ میں چاہتا ہوں ہمیں آج رات ہی اپنا کام ختم کر لینا چاہئے۔“”ماجے !....میں تم سے بھی زیادہ بے چین ہوں مگر میں نہیں چاہتا کہ ہم تیزی میں درستی بھول جائیں۔ اس مرتبہ اگر چودھری ہم سے بھاگ گیا تو شاید زندگی بھر نہ ملے ۔“ مگر امجد خاموش رہا ہم جانا ن خان کے کرے کی طرف بڑھ گئے ۔
جانان خان کمرے میں جاگیردار خان سے گپ شپ کرتا ہوا ملا۔ ہمارے اندر داخل ہوتے ہی وہ ”پخیر“ کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ہم مصافحہ کرکے بیٹھ گئے۔اس نے بیٹھتے ہی پوچھا۔”سنا ﺅ بھئی کیا رہا؟“”حویلی دیکھ لی ہے۔ اب آپ سے مشورہ کرنے آئے ہیں تاکہ کوئی حتمی لائحہ عمل طے کر سکیں۔“”ضرور ضرور ، کیوں نہیں۔ آپ صورتِ حال کی وضاحت کریں تاکہ مجھے مشورہ دینے میں آسانی رہے۔“”ملک صاحب....!بات صرف اتنی ہے کہ ہم چودھری کو زندہ پکڑ نا چاہتے ہیں۔ جبکہ اس کی حویلی میں ہمیں کافی سخت پہرہ نظر آیا ہے اور اندر گھسنے کی صورت میں اندیشہ ہے کہ دو بدو مقابلہ کی نوبت آجائے گی۔ جس کے نتیجے میں چودھری کا زندہ ہمارے ہاتھ آنا کچھ مشکل سا لکتا ہے۔ بلکہ ایسی صورت پیش آنے پر ان پر قابو پالینے کے چانس بھی پچاس فیصد ہیں۔ دوسرا اگر ہم اسے راستے میں روک کر پکڑنے کی کوشش کریں تب بھی بات نہیں بنے گی کہ ایک تو وہ ہمیں شکل سے پہچانتا ہے اور اس کے علاوہ اس کے ساتھ چار پانچ باڈی گارڈز بھی ہوتے ہیں تو یہاں بھی وہی صورتِ حال در پیش ہونے کا خطرہ ہے۔ کافی دیر مغز ماری کرنے کے بعد ہم نے آپ سے رہنمائی لینے کی بابت سوچا ہے،اس ضمن میں آپ کہیں اس سوچ میں نہ پڑ جانا کہ ہمیں آپ کی جسمانی طور پر کوئی مدد چاہئے۔ ہمیں تو بس کسی مناسب مشورے کی احتیاج ہے۔“
”برادر!.... اپنی مدد کی پیش کش میں اس سے پہلے بھی کر چکا ہوں اور دوبارہ بھی یہی کہوں گا کہ میں اور میرے بندے بالکل حاضر ہیں، لیکن اس میں صرف اتنی قباحت ہے کہ چودھری کے خلاف آپ ہمیں صرف رات کو استعمال کر سکتے ہیں ۔کھلم کھلا اس کے خلاف کسی بھی کارروائی میں آپ کے شانہ بشانہ نہیں لڑسکتے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں ملک دلشاد خان اور سبز علی خان جن کے ساتھ چودھری کے اچھے تعلقات ہیں ہمارے خلاف میدان میں اتر آئیں گے۔ ان کے نزدیک چودھری سے میری دشمنی کی وجہ کاروباری رقابت ہو گی۔ وہ دونوں بھی اسی کاروبار میں ملوث ہیں اور آج اگر میں چودھری کو راستے سے ہٹانے کا اقدام کر سکتا ہوں تو کل کلاں ان کے خلاف بھی اس قسم کی کوئی کارروائی کر سکتا ہوں حالانکہ میں ان سے ڈرتا نہیں ہوںلیکن پھر بھی ان کی مخالفت میرے لیے چھوٹے موٹے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔“
”ملک صاحب .... آپ موضوع سے ہٹ گئے ہیں۔“ میںنے کہا۔” یہ ساری بحث ہم کر چکے ہیں اور ہمیں آپ کی مجبوریوں کا بھی احساس ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر ہمیں آپ کی ضرورت ہوتی تو ہم قطعاً نہ کتراتے مگر آپ کی مدد حاصل کر کے بھی ہم اسے صرف قتل کرنے میں ہی کامیاب ہو سکتے ہیں جبکہ ہمارا ارادہ اسے زندہ پکڑنے کا ہے۔ آپ کوئی مناسب ترکیب بتائیں، کوئی اچھا سا مشورہ دیں اور بس۔ باقی ان شاءاﷲ ہم خود اس سے نبٹ لیں گے۔“ وہ گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ چند لمحے کمرے میں خاموشی چھائی رہی اور پھر اس خاموشی کو جانان خان کی آواز نے ہی توڑا۔
”جہاں تک میرا اندازہ ہے چودھری کے تقریباً سات یا آٹھ بندے ہیں۔ گھر سے باہر نکلتے وقت اس کے ساتھ پانچ چھے بندے موجود رہتے ہیں اس کا مطلب ہے اس کی غیر موجودی میں اس کی حویلی میں زیادہ سے زیادہ دو بندے حاضر ہوتے ہیں اور ان سے آنکھ بچا کر اگر آپ لوگ حویلی میں گھس جاﺅ اور چودھری کے کمرے میں چھپ کر بیٹھ جاﺅ تو اس پر قابو پانا قطعاً مشکل ثابت نہیں ہو گا۔ اب اس کی غیر موجودی میں آپ اس کے گھر میں اس کے ملازمین کی نظر بچا کر کیسے داخل ہوتے ہیں یہ آپ کی اپنی صوابدید ہے۔“
”بات تو پھر بھی وہیں کی وہیں رہی.... آخر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ ہم اگر اس کے بندوں کو ہلاک کر کے اندر چھپتے ہیں تو چودھری واپسی پران کی گمشدگی کو محسوس کرتے ہی چوکنا ہو جائے گا ۔“”اس کا بھی ایک طریقہ ہے“ ۔ وہ کسی کہنہ مشق استاد کی طرح بولا۔ ”مگر اس میں اخلاقی قدروں کی قربانی دینی پڑے گی ۔“
”میں سمجھا نہیں؟“
”دیکھو عمر جان.... عورت ہمیشہ مردوں کی کمزوری رہی ہے۔ بڑے بڑے عقلمندوں کو یہ ہوش و خرد سے بیگانہ کر دیتی ہے۔ اگر تم کوئی ایسی عورت تلاش کر سکتے ہو جو چودھری کے ملازمین کو چند لمحوں کے لیے ڈیوٹی سے غافل کر دے تو تمھارا کام آسان ہو جائے گا۔“
”اوہ .... ویری گڈ۔“ میری زبان سے بے ساختہ نکلا۔ ”واقعی آپ سرداری کے لائق ہیں۔ بہت خوب یہ ایسی تجویز ہے کہ ہمارا دماغ کبھی بھی اس تک رسائی حاصل نہ کر سکتا۔“
میرے تعریفی جملے سنتے ہوئے جانان خان کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ جاگیر دار کہنے لگا۔
”پرسوں ملک امجد خان کے بیٹے کی شادی ہے اور چودھری لامحالہ اس میں شرکت کے لیے جائے گا تم پرسوں تک کوئی عورت تلاش کر لواور اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو۔“
”گڈ ....۔“ میں کھڑا ہوگیا۔ ”ہم اب چلتے ہیں، چلو امجد۔“”کھانا کھا کر چلے جاتے۔“ جانان خان نے مشورہ دیا۔”نہیں.... کھانا ان شاءﷲ واپسی پرکھائیں گے۔“ میں نے باہر کی طرف قدم بڑھا دیئے امجد نے میرا ساتھ دیا تھا۔”کچھ مجھے بھی تو پتا چلے کہاں چل دیئے؟“ کمرے سے نکلتے ہی امجد مستفسر ہوا اورمیں نے مختصر لفظوں میں اسے ساری بات بتا دی۔
”یار.... مشورہ تو اچھا ہے مگر بات کچھ معیوب ہے۔“”ہم شریف زادی تھوڑی ان کے پاس بھیجیں گے؟“
”مگر ایسی لڑکی آئے گی کہاں سے؟“
”یار میرا ارادہ اسی لڑکی کو استعمال کرنے کا ہے ....جسے تھوڑی دیر پہلے میں نے پاﺅ بھر چرس دی تھی۔“
جاری ہے
No comments: