Ads Top

Aur Neil Behta Raha By Inyat Ullah Altamish Episode No. 57||اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش قسط نمبر 57

Aur Neel Behta Raha
 By
Annyat Ullah Altamish

اور نیل بہتا رہا
از
عنایت اللہ التمش
Aur Neel Behta Raha  By  Annyat Ullah Altamish  اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش

 #اورنیل_بہتارہا/عنایت اللہ التمش
#قسط_نمبر_57

تین سیڑھیاں قریب قریب دیوار کے ساتھ لگ گئی، ان کی لمبائی دیوار کی بلندی تک تھی۔ خاموشی قائم رکھنی تھی جو سیڑھیاں لگاتے قائم نہ رہ سکی ۔سیڑھیوں کی آواز پیدا ہوئی لیکن اوپر کوئی حرکت نہ دیکھی گئی۔
سالار زبیر بن العوام نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر اللہ تبارک وتعالی سے مدد مانگی اور پھر آپ نے وہ الفاظ دہرائے جو انہوں نے کہے تھے کہ اللہ میری قربانی کو مجاہدین اسلام کی فتح کا سبب بنائے ۔ اس دعا کے بعد انہوں نے سیڑھی پر قدم رکھا اور جن مجاہدین کو انہوں نے اپنے ساتھ لے جانا تھا انھیں سیڑھیاں چڑھنے کا اشارہ دیا سب سے پہلے زبیر دیوار پر پہنچے اور ادھر ادھر دیکھا کوئی حرکت نظر نہ آئی مجاہدین سیڑھیاں چڑھتے آئے اور سالار زبیر کے دائیں بائیں کھڑے ہوگئے ۔
انہوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اب تو ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا جاسکتا تھا پہلے تو یہ دیکھنا تھا کہ اس نعرے پر رومی بیدار ہوتے ہیں یا نہیں؟ 
رومی فوج کوئی ایسے غافل بھی تو نہیں تھے کہ رات کی خاموشی میں اتنے بلند نعرے سے بھی بیدار نہ ہوتے۔ دیوار پر جن فوجیوں کا پہرا تھا وہ برجیوں میں سوئے ہوئے تھے۔ باری باری جاگتے اور تھوڑا سا چکر لگا کر واپس چلے جاتے تھے۔ اتنا بلند نعرہ انہیں جگانے کے لیے کافی تھا ۔ وہ برچھیاں اور تلواریں لیے دوڑے، دیوار خاصی چوڑی تھی لڑنے اور پینترے بدلنے کے لئے کافی تھی۔
رومی فوجی قریب آئے تو مجاہدین نے انھیں آڑے ہاتھوں لیا، رومی فوجیوں کی کمزوری یہ تھی کہ وہ یہی دیکھ کر خوفزدہ ہوگئے تھے کہ یہ مسلمان اتنی اونچی دیوار پر کس طرح چڑھ آئے ہیں ، دوسرا یہ کہ ان مسلمانوں کی تعداد یقیناً زیادہ ہوگی ، انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہی چند ایک مجاہدین ہیں جو اوپر آئے ہیں۔ اور ان کی اصل طاقت یہ ہے کہ یہ جانوں کی بازی لگاکر اور شہادت کو قبول کرکے آئے ہیں۔
 پھر یہ بھی رومی بےجگری سے لڑے ، جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ پہرے پر تھے اور یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ نظر رکھیں کہ دیوار پر کوئی چڑھ نہ سکے اگر وہ مقابلے سے منہ موڑ کر بھاگ جاتے تو انہیں اس جرم میں جلاد کے حوالے کردیا جاتا کہ اپنے فرائض اور ذمہ داری کو بھول کر سوئے ہوئے تھے انہوں نے لڑ کر مرنا بہتر سمجھا۔
 یہ ایک خونریز معرکہ تھا مجاہدین جان توڑ کر لڑ رہے تھے اور انہوں نے تمام رومیوں کو کاٹ پھینکا۔ نیچے سالار زبیر کا باقی دستہ نعرہ سن کر پہنچ گیا اور تمام جاں باز سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔
ادھر سپہ سالار عمرو بن عاص نے حکم دے دیا کہ تمام سیڑھیاں خندق کے پار پہنچائی جائیں اور تین چار اور دستے خندق پار کرجائیں ۔
عمرو بن عاص زندہ وہ بیدار اور نعروں کے ہی انتظار میں بےتاب ہوئے جا رہے تھے۔ انہوں نے تیسرے نعرے کا انتظار نہ کیا مزید سیڑھیاں اور دوچار دستے آگے بھیج دیے۔ دیوار کے ساتھ کئی سیڑھیاں لگ گئی۔ یہ سب سیڑھیاں دو دو کی صورت میں بندھی ہوئی تھی ۔خاموشی کی ضرورت بھی نہیں تھی مجاہدین بڑی تیزی سے سیڑھیاں چڑھتے جا رہے تھے اور اس وقت سالار زبیر کے حکم سے تیسرا نعرہ تکبیر بلند کیا گیا۔
ان گرجدار اللہ اکبر کے پرجوش نعروں نے قبروں میں مردوں کو بھی جگا دیا ہو گا۔ نیچے شہر کے اندر سوئی ہوئی رومی فوج تو ہڑبڑا کر جاگ اٹھی ، جنرل تھیوڈور اس نوخیز اور معصوم لڑکی کو پہلو میں لیے گہری نیند سویا ہوا تھا، اسے کچھ خبر نہیں تھی کہ باہر کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے، اس کے دروازے پر دو تین بار دستک ہوئی تو اس کی آنکھ کھلی تو اس نے لیٹے لیٹے بڑے غصے سے پوچھا کہ یہ کون دروازہ توڑ رہا ہے، اور کیا مصیبت آن پڑی ہے، لڑکی بھی بیدار ہو کر اٹھ بیٹھی۔ عربی لشکر دیوار پر آگیا ہے۔۔۔ باہر سے آواز آئی۔۔۔ اوپر بڑی سخت لڑائی ہو رہی ہے۔
وہ تھیوڈور کے محافظ دستے کا کمانڈر تھا تھیوڈور غصے میں کچھ نہ کچھ بولتا باہر نکلا اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ بیداری میں یہ خبر سن رہا ہے، شاید اسے وہ خواب سمجھ رہا تھا اسے تو یقین تھا کہ دیوار تو دور ہے کوئی انسان خندق ہی عبور نہیں کر سکتا۔
محافظ دستوں کے کمانڈر نے اسے پوری طرح صورت حال سنائی، تھیوڈور کو کچھ آوازیں سنائی دے رہی تھی وہ اپنے محل نما مکان سے باہر نکلا تو اسے قیامت کا شوروغل سنائی دیا، اس کا اپنا پورا خاندان پہلے ہی جاگ اٹھا تھا، تھیوڈور دوڑتا کمرے میں گیا اور لڑائی والا لباس پہنا اس کے اوپر ذرّہ اور سر پر آہنی خود رکھ کر تلوار اٹھائی اور لڑکی کی طرف دیکھے بغیر باہر نکل گیا ۔
دوسرے جرنیل بھی بیدار ہوگئے تھے اور باقی افسر پہلے ہی شور شرابہ سن کر اٹھے اور اپنے اپنے دستوں تک جا پہنچے تھے، لیکن دیوار پر اب یہ صورتحال تھی کہ وہاں مجاہدین کو بالادستی حاصل تھی، یوں کہہ لیں کہ دیوار پر مجاہدین کا قبضہ تھا اندر سے دیوار پر چڑھنے کے لیے چند ایک جگہوں پر پکی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں، مجاہدین اوپر ان سیڑھیوں کے دائیں بائیں گھات لگا کر بیٹھ گئے تھے جونہی رومی فوج اوپر آتے مجاہدین انہیں کاٹ پھینکتے، اوپر برجیوں اور برجوں میں جو فوجی سوئے ہوئے تھے انہیں تو مقابلے کی مہلت ہی نہ ملی پوری طرح بیدار بھی نہیں ہوئے تھے کہ مجاہدین کی پرچھیوں اور تلواروں کی نذر ہوگئے۔
 ان میں سے چند ایک گھبراہٹ کے عالم میں یہ خبر سناتے گئے کہ مسلمانوں کا پورا لشکر دیوار پر آ گیا ہے، اور نیچے آکر کسی کو زندہ نہیں چھوڑے گا ،اس طرح انہوں نے سارے شہر میں افراتفری اور نفسا نفسی کا عالم پیدا کر دیا۔
اندر سے اوپر جانے والی سیڑھیوں کا یہ حال تھا کہ رومی فوجیوں کی لاشوں سے اٹ گئی تھیں۔ نہ کوئی اوپر جا سکتا اور نہ اوپر سے کوئی نیچے آ سکتا تھا ،نیچے مشعلیں جل اٹھی ان کی روشنی میں جب فوجیوں اور شہریوں نے دیکھا کہ سیڑھیوں سے خون نیچے بہتا رہا ہے تو ان کے حوصلے بالکل ہی پست ہو گئے اور ان پر دہشت طاری ہو گئی۔
مجاہدین اسلام ایک معجزہ کر کے تاریخ کے دامن میں ڈال رہے تھے، غیر مسلم مؤرخوں نے بھی ان مجاہدین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ناممکن کو ممکن کر کے دکھا رہے تھے۔
یہ سالار زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کی دعا تھی جو اللہ نے قبول کی اور پوری ہوئی تھی، انہوں نے اللہ سے گڑگڑا گڑگڑا کر دعا کی تھی کہ میری قربانی مجاہدین اسلام کی فتح کا سبب بنے، یہ ان خواتین کی دعاؤں کا بھی اثر تھا جو وہ خندق سے کچھ دور نفل پڑھ پڑھ کر اللہ کے حضور دعا مانگ رہی تھیں۔
ان خواتین میں اسامہ بن اظہری کی ماں بھی تھی جو صرف اپنے بیٹے کی زندگی کی ہی دعا نہیں مانگ رہی تھی بلکہ اس کی زبان پر یہی ایک التجا تھی کہ اللہ اپنے جانبازوں کو فتح عطا کر، لیکن اسے اپنا بیٹا یاد آتا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے، اس نے صرف ایک بار کہا یا اللہ میرا ایک ہی بیٹا رہ گیا ہے وہ بھی تیرے نام پر قربانی کے لئے پیش کر دیا ہے میں اکیلی رہ گئی ہوں۔
 یہ دعائیں بھی بے اثر نہیں جا رہی تھیں۔
اسامہ بھی جاگ اٹھا تھا اور باہر نکل آیا تھا اس نے لوگوں سے سنا کے مجاہدین دیوار پر آگئے ہیں اور اب کوئی رومی فوجی اوپر نہیں جا سکتا، نیچے جب مشعلیں جلیں تو اوپر دیوار پر مجاہدین نے بھی مشعلیں جلا لیں اس سے نیچے کے لوگوں پر اور زیادہ دہشت طاری ہو گئی۔
اوسامہ کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ تھیوڈور کے فیصلے کے مطابق یہ اس کی زندگی کی آخری رات ہے، لیکن اللہ کے فیصلے نے زمین پر رہنے والوں کے تمام فیصلے رد کر دیے تھے ،اسامہ کی ماں کے سینے سے نکلی ہوئی یہ فریاد کے میں اکیلی رہ جاؤں گی اللہ نے سن لی تھی۔
وہ تھیوڈور جس نے اسامہ کی سزائے موت کا فیصلہ سنا دیا تھا شہر کے اندر بھٹکتا پھر رہا تھا ،اپنی فوج پر اس کی کمانڈ ختم ہو چکی تھی وہ اپنے جرنیلوں اور دیگر افسروں کو ڈھونڈتا اور پکارتا پھر رہا تھا ، لیکن اس کے اپنے ہی فوجی اور شہری بھاگتے دوڑتے اس کے ساتھ ٹکراتے گزرتے جا رہے تھے ،کسی نے دیکھا تک نہیں کہ یہ فوج کا سپریم کمانڈر اور مقوقس کی جگہ اس کی حیثیت فرمانروائے مصر جیسی ہے۔
اسامہ اوپر جاکر اپنے لشکر سے جا ملنا چاہتا تھا لیکن جن سیڑھیوں سے چڑھنے لگتا انہیں لاشوں سے اٹا ہوا دیکھا اوپر جانا ممکن نہیں تھا ،آخر وہ ایک سیڑھیوں سے لاشوں کے اوپر چلتا گرتا اٹھتا اوپر چلا ہی گیا دو تین مجاہد تلوار اٹھائے اس کی طرف لپکے تو اس نے ہاتھ اوپر کر کے کہا کہ میں تمہارا ہی آدمی ہوں اسامہ بن اظہری ، وہ اب آزاد تھا وہ سپہ سالار کو ڈھونڈنے لگا اسے اب اس بڑے شہر کا گائیڈ بننا تھا ، اس نے معلوم کر لیا تھا کہ اسلحہ خانہ کہاں ہے، خزانہ کہاں ہے ،اور اسی طرح کچھ اہم اور ڈھکی چھپی جگہیں تھی جو اس نے دیکھ لی تھی، وہ یہ ساری جگہیں سپہ سالار عمرو بن عاص کو بتانا اور ان کی رہنمائی کرنا چاہتا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
اب دیوار کے چاروں طرف مجاہدین کافاتحانہ شوروغل اور تکبیر کے نعرے بڑھتے اور بلند سے بلند تر ہوتے جارہے تھے، تمام مورخوں نے لکھا ہے کہ رومی فوج کا دم خم بڑی ہی تیزی سے ٹوٹ پھوٹ رہا تھا ، یہ تو ہونا ہی تھا فوج اور شہر کے لوگوں پر جس وجہ سے زیادہ دہشت طاری ہوئی وہ یہ تھی کہ جرنیلوں تک نے انہیں یقین دلایا تھا کہ اب مسلمان تو کیا دنیا کی کوئی طاقت خندق عبور نہیں کر سکتی، رومی فوجی اور شہری حیرت زدہ تھے کہ مسلمان آخر کس طرف سے آئے ہیں۔
مجاہدین اسلام کے متعلق رومی فوج میں یہاں تک کہا سنا جارہا تھا کہ انھیں جنات کی طاقت حاصل ہے یا جنات ان کے ساتھ رہتے ہیں۔
 یہ تاثر مجاہدین کی پہلی فتوحات سے پیدا ہوا تھا اب بابلیون میں لوگ اسے سچ ماننے لگے اور ان میں جو سب سے زیادہ خوفزدہ تھے انہوں نے یقین کے ساتھ کہنا شروع کردیا تھا کہ مسلمانوں کو جنات کی مدد حاصل ہے ان کے مقابلے میں کوئی نہ آئے۔
کئی فوجی قلعے کے دریا والے دروازے کی طرف چلے گئے، وہ اس دروازے سے بھاگ نکلنا چاہتے تھے انہیں امید تھی کہ کشتیاں تیار ہو گی اور وہ انہیں دریا کے وسط والے جزیرے تک پہنچا دے گی، لیکن وہ دروازہ کھلا نہیں جارہا تھا وہاں جو رومی فوج پہرے پر موجود تھے وہ کہتے تھے کہ یہ دروازہ کھلا تو مسلمان اس طرف سے اندر آ جائیں گے۔
ایک روایت یہ ہے کہ زبیر بن العوام چند ایک مجاہدین کے ساتھ نیچے چلے گئے اور قلعے کے دو تین دروازے کھول دیے لیکن یہ روایت صحیح معلوم نہیں ہوتی کیونکہ معروف اور مستند تاریخ نویس طبری نے کچھ قابل اعتماد حوالے دے کر اور کچھ استدلال کا سہارا لے کر لکھا ہے کہ جرنیلوں نے اپنی فوج کی افراتفری شہریوں کی نفسانفسی دیکھی اور پھر یہ دیکھا کہ مسلمانوں کا پورا لشکر دیوار پر آ گیا ہے اور رومی فوج دیوار پر جا ہی نہیں سکتی اور بھاگنے کے راستے دیکھ رہی ہے تو جرنیلوں نے اعلان کروایا کہ جو کوئی دروازہ کھولنے کی کوشش کرے گا اسے قتل کردیا جائے گا۔
طبری نے یہ بھی لکھا ہے کہ جنرل تھیوڈور کے حکم سے نیچے سے اعلان کیا گیا کہ وہ مقابلہ نہیں کریں گے اور صلح کی بات کرنا چاہتے ہیں۔
 ڈر کے مارے کوئی قاصد اوپر نہیں جا رہا تھا۔ طبری کی تحریر سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سپہ سالار عمرو بن عاص بھی دیوار پر آگئے تھے انہوں نے تھیوڈور کا اعلان سنا تو اس کے جواب میں اعلان کردیا کہ جرنیل اوپر آ جائیں اور بات کریں۔
ہم یہاں کا سارا خزانہ تمہارے حوالے کردیں گے۔۔۔ تھیوڈور نے اعلان کردیا۔۔۔ یہ لے کر دیوار سے باہر کو اسی راستے اتر جاؤ جس طرح چڑھے تھے اور خندق کی حدود سے بھی نکل جاؤ اس کے علاوہ کچھ اور چاہتے ہوں تو ہم وہ بھی پیش کر دیں گے۔
 ہمیں جو کچھ چاہئے اب وہ ہم خود ہی لے لیں گے۔۔۔۔ عمرو بن عاص نے اعلان کروایا ۔۔۔۔ہم دیوار سے باہر کو نہیں اندر کو اتریں گے ،دو تین جرنیل اوپر آجائیں۔
اس کے ساتھ ہی عمرو بن عاص نے چند ایک مجاہدین کو حکم دیا کہ دیوار کے چاروں طرف یہ اعلان کرتے جائیں کہ شہر کے لوگ نہ بھاگیں ان کی جان و مال کی پوری حفاظت کی جائے گی ،انہیں امان دی جائے گی، اور ہمارے لشکر کا کوئی فرد کسی گھر میں داخل نہیں ہو گا اور سب کی عزت کا پورا پورا خیال رکھا جائے گا۔
ہم اوپر آجائیں۔۔۔۔ جنرل تھیوڈور نے بلند آواز سے کہا۔۔۔ لیکن اس کی کیا ضمانت کے ہمیں گرفتار یا ہلاک نہیں کر دیا جائے گا۔
گرفتار یا ہلاک کرنا ہو تو ہم نیچے آکر بھی کرسکتی ہیں۔۔۔ سپہ سالار عمرو بن عاص نے اب کی کسی اور سے کہلوانے کی بجائے خود اوپر سے جھک کر نیچے دیکھا اور کہا۔۔۔ کوئی ہے تم لوگوں کو ہم سے بچانے والا ؟
ہم مسلمان ہیں وہی کرتے ہیں جو ہم زبان سے کہتے ہیں ہم دھوکے میں قتل نہیں کیا کرتے بے دھڑک اوپر آ جاؤ ۔
جنرل تھیوڈور اس جگہ کھڑا تھا جہاں سے عمرو بن عاص اوپر سے جھک کر بات کر رہے تھے۔ تھیوڈور نے جنرل جارج کو اپنے ساتھ لیا اور قریبی سیڑھیوں سے اوپر چڑھنے لگا لیکن سیڑھیاں لاشوں سے اٹی پڑی تھیں۔ تھیوڈور نے اپنے محافظ دستے سے کہا کہ وہ لاشیں گھسیٹ کر نیچے پھینکیں۔
 محافظوں نے بڑی تیزی سے رومی فوجیوں کی لاشیں گھسیٹ گھسیٹ کر نیچے پھینکی اور دونوں جرنیل اوپر چلے گئے۔
 صلح کی شرائط طے کرنے کے لئے عمرو بن عاص نے جرنیلوں کے ساتھ مجاہدین سے دور ہٹ گئے۔
اب بتاؤ کیا چاہتے ہو ؟۔۔۔عمرو بن عاص نے پوچھا ۔۔۔یہ پیش نظر رکھنا کے اپنی شرط پیش کرنا کہ تمہاری فوج لڑ نہیں رہی بلکہ بھاگ بھاگ کر پناہ ڈھونڈ رہی ہے۔
 تین دنوں کی مہلت۔۔۔ تھیوڈور نے کہا۔۔۔ہمیں تین دنوں کی مہلت دی جائے کہ ہم قلعہ خالی کر دیں اور اس کے بعد قلعے پر تمہارا قبضہ ہوگا۔
مجھے یہ شرط منظور ہے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔تیسرے دن کا سورج غروب ہوجائے گا تو جو فوجی قلعے میں رہ جائے گی اسے قتل کردیا جائے گا یا جنگی قیدی بنا لیا جائے گا۔
تاریخ میں آیا ہے کہ عمرو بن عاص نے تھیوڈور کی شرط قبول کرلی تو سالار زبیر بن العوام نے عمرو بن عاص کا بازو پکڑا اور انہیں ایک طرف لے گئے۔
خدا کی قسم سپہ سالار ۔۔۔سالار زبیر نے کہا۔۔۔ تھوڑی سی دیر اور صبر کر لے اور ان کی بات نہ مان مجھے نیچے جانے دے پہلے میں قلعے پر اور ان کے شاہی محل پر قبضہ کر لو پھر ہم ان پر اپنی شرائط مسلط کرکے معاہدہ کریں گے۔ یہ جو کہہ رہے ہیں کہ تین دنوں میں قلعہ خالی کر دیں گے اس میں کوئی راز ہے ابھی ان کے ساتھ معاہدہ نہ کریں، انہیں نیچے بھیج دیں اور ہم اپنے طور پر قلعے پر باقاعدہ قبضہ کریں گے ہو سکتا ہے ہم انہیں کہیں کہ اپنی آدھی فوج یا اس سے کچھ کمک ہماری قید میں دے دو اور قلعے سے نکل جاؤ۔
نہیں زبیر بن العوام!،،،، عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ میں تمہارا مشورہ اچھی طرح سمجھتا ہوں اور جو تم کہہ رہے ہو ہونا یہی چاہیے۔ لیکن میں امیرالمومنین کے حکم کا پابند ہوں امیرالمومنین کا حکم ہے کہ دشمن تمہارے آگے جھک جائے اور صلح کی پیشکش کرے تو فوراً قبول کرلو، دوسری بات یہ ہے کہ مزید خون بہائے بغیر ہم اپنا مقصد پا لیتے ہیں تو کیوں نہ ابھی جنگ روک دیں۔ ہمیں مجاہدین کی جانیں اور ان کا خون بچانا ہے، قلعہ تو ہم نے لے ہی لیا ہے۔
سپہ سالار اور سالار زبیر نے آپس میں صلح مشورہ کرکے وہ شرائط طے کر لی جو ان رومی جرنیلوں سے منوانی تھی دونوں ان کے پاس جا کھڑے ہوئے۔
 قلعہ خالی کرنے کے لیے ہم تمہیں تین دن دیتے ہیں۔۔۔۔ عمر بن عاص نے تھیوڈور سے کہا کہ قلعہ خالی ہونے تک تم دونوں یہاں ہمارے پاس یرغمال کے طور پر رہو گے ،قلعے میں جو اسلحہ ہے اور جو خزانہ ہے اور جو دیگر مال و دولت ہے تم اس میں سے کچھ بھی نہیں لے جا سکو گے، یہ سب مسلمانوں کا مال غنیمت ہوگا فوج بغیر ہتھیاروں کے قلعے سے نکلے گی۔
دونوں جرنیلوں نے بلا حیل وحجت یہ شرائط قبول کرلی، اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کس قدر مجبور اور کمزور ہو چکے ہیں ،وہ تو جیسے اپنی صرف جان بچانے کی فکر میں تھے۔
عمرو بن عاص نے انہیں کہا کہ وہ اوپر سے ہی نیچے حکم بھیجیں کہ خندق پر پل ڈال دیئے جائیں۔
 تھیوڈور نے اوپر سے ہی کسی سے کہا کہ خندق پر پل گرا دیے جائیں اس حکم کی فوری تعمیل ہوئی۔
 تاریخ میں یہ واضح نہیں کہ پل کس طرف ڈالے اور اٹھائے جاتے تھے اتنا ہی لکھا ہے کہ صدر دروازے کے اندر کوئی ایسا انتظام تھا جہاں سے پل اٹھا لئے جاتے تھے اور گرا بھی دیے تے تھے ۔ پل گرانے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی تھی کہ مجاہدین کا پورا لشکر ابھی قلعے کے قریب نہیں آیا تھا آدھے سے زیادہ لشکر خندق سے باہر تھا اتنا لشکر ایک ہی راستے سے نہیں آسکتا تھا۔ پل گرائے گئے تو سارا لشکر تھوڑے سے وقت میں خندق عبور کر آیا۔
 عمرو بن عاص نے دیوار پر کھڑے کھڑے حکم دیا کہ لشکر باہر اگلے حکم کے انتظار میں رک جائے۔
عمرو بن عاص نے دونوں رومی جرنیلوں سے کہا کہ اپنے قاصدوں کو اوپر بلا لیں اور انہیں کہیں کہ سارے شہر میں اعلان کر دیں کہ جنگ بندی ہوگئی ہے اور فوج ہتھیار رکھ دے اور باہر نکلنے کے لئے تیار ہوجائے ، یہ بھی کہا گیا کہ کوئی فوجی یا شہری کوئی قیمتی چیز اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتا۔
دیوار پر پھر پھر کر تین چار مجاہدین اعلان کررہے تھے کہ شہری بھاگنے کی کوشش نہ کریں انہیں امان میں لے لیا جائے گا اور ان کی جان و مال کی حفاظت مسلمانوں کے ذمہ ہو گی۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے دریا والے دروازے پر مجاہدین کی کچھ نفری تعینات کردی جس کا کام یہ تھا کہ باہر جانے والے فوجیوں اور شہریوں کی تلاشی لیں پھر انہیں جانے دیں۔
 فیصلہ یہ ہوا تھا کہ رومی فوج کا انخلاء مکمل ہو جائے گا تو مجاہدین شہر میں داخل ہوں گے اور پھر ان دونوں جرنیلوں کو جانے کی اجازت دے دی جائے گی۔
*=÷=÷=÷=÷=۔÷=÷=÷=÷=*
بابلیون شہر بہت ہی وسیع وعریض تھا مصر میں جس کی بھی بادشاہی آئی اس نے اس شہر کو بہت ہی اہمیت دی اور اس کی آبادی میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور یہ اہمیت ابھی تک قائم تھی۔ اس شہر کی دفاعی پوزیشن بھی بہت اچھی تھی مصر کا دارالحکومت تو اسکندریہ تھا لیکن بابلیون کو اسکندریہ سے زیادہ اونچا مقام حاصل تھا۔
قلعہ شہر کے ایک طرف تھا اس کے اوپر بڑے برج اور برجیاں تھی دیوار سارے شہر کے ارد گرد کھڑی کی گئی تھی اس پر بھی کئی جگہوں پر برجیاں بنائی گئی تھیں،،،،،، اس شہر کے متعلق تمام تر تفصیلات پہلے بیان ہو چکی ہیں ۔ یہاں یہ ذکر اس لیے آیا ہے کہ یہ ذہن میں رکھا جائے کہ مجاہدین اور ان کے سالار ابھی تک قلعے کے اوپر کھڑے تھے اور انہوں نے ابھی پورا شہر نہیں دیکھا تھا، انہوں نے حکم دے دیا تھا کہ شہر خالی کردیا جائے لیکن یہ دیکھنے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی کے شہر کس طرح خالی ہو رہا ہے اور لوگ کیا کر رہے ہیں۔
 سپہ سالار نے یہ تسلی کرلی تھی کہ فوج کا انخلاء شروع ہوگیا ہے شہر کے نظم و نسق کی بحالی کے لیے جو کچھ کرنا تھا وہ رومیوں کے نکل جانے کے بعد ہی ہو سکتا تھا۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے یہ تو دیکھ لیا کہ رومی فوج کا انخلا شروع ہو گیا ہے لیکن یہ نہ دیکھ سکے کہ یہ بدبخت رومی جاتے جاتے شہر کی کچھ آبادی کا خون بہا گئے ہیں۔
 یہ اس وقت پتہ چلا جب فوج نیچے گئی اور مجاہدین نے اندر جاکر شہر پر اپنا قبضہ کیا۔
ہوا یوں کے رومیوں نے سیکڑوں قبطی عیسائیوں کو قید میں ڈال رکھا تھا یہ محض تعصب کا مظاہرہ تھا ، یہ قبطی ہرقل کی عیسائیت کو قبول نہیں کرتے تھے اور اس کے خلاف تبلیغ میں بھی مصروف پائے گئے جو ایک جرم تھا، انہیں ہمیشہ کے لئے قید خانے میں ڈال دیا گیا تھا قید خانے کا تمام عملہ رومی تھا ،اس عملے کو جب حکم ملا کہ شہر خالی کرنا ہے اور وہ یہاں سے نکل چلیں تو انہوں نے اسے ایک بہت بڑی چوٹ اور صدمہ سمجھا وہ مسلمانوں کے خلاف تو کوئی کاروائی کر نہیں سکتے تھے انہوں نے غصہ ان قبطی قیدیوں پر نکالا اور وہ بھی ایسی بے دردی سے کہ تمام قیدیوں کے ہاتھ کاٹ دیے اور خود وہاں سے چلے گئے۔
یہ تو قید خانے میں ہوا جس کا باہر کسی کو پتا نہ چل سکا ۔ شہر کے اندر رومی فوجیوں نے اپنی شکست کا انتقام مصری عیسائیوں سے لیا ،اور یہ بھی ایسی بے دردی کے وہ کئی گھروں میں جا گھسے ان کی عورتوں کی بے حرمتی کی اور کسی نے ذرا سی بھی مزاحمت کی تو اسے قتل کردیا ۔ بہت سے قبطی عیسائی ان کے ہاتھوں زخمی ہوئے رومیوں نے لوٹ مار بھی کی لیکن وہ کوئی چیز اپنے ساتھ باہر نہیں لے جا سکتے تھے۔
یہاں چھوٹا سا ایک اور واقعہ ہو گیا ۔ جن مجاہدین کو دریا والے دروازے پر اس کام کے لئے بھیجا گیا تھا کہ شہر خالی کرکے جانے والوں کی تلاشی لے کر جانے دیں ان میں اسامہ بن اظہری بھی تھا، اور اس کے تین چار اور جاسوس ساتھی بھی تھے ، رومی فوجی نکل رہے تھے اور ہر ایک کی تلاشی لی جا رہی تھی ، یکلخت کچھ شہریوں اور فوجیوں کا ایک ریلا آگیا جن پر قابو پانا مشکل ہو گیا ، انہیں پیچھے دھکیل کر اکیلے اکیلے گزرنے کو کہا جانے لگا اور وہاں اچھی خاصی افراتفری پیدا ہو گئی، اسامہ کو یوں آواز آئی جیسے کسی عورت نے اسے پکارا ہو وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا اور اس نسوانی آواز نے ایک بار پھر اسے پکارا۔
اس نے ادھر دیکھا جدھر سے آواز آئی تھی تو یہ منظر نظر آیا کہ دو رومی فوجی اس لڑکی کو جس کے ساتھ اسامہ کی محبت تھی ، اور وہ گزشتہ رات تھیوڈور کے پاس تھی، اپنے درمیان لیے ایک طرف گھسیٹ اور دھکیل رہے تھے، اور لڑکی اسامہ کو پکار رہی تھی ، اس وقت باہر جانے والوں کے ہجوم میں افراتفری مچی ہوئی تھی اس لئے کوئی ان کی طرف دیکھ بھی نہیں رہا تھا۔
اسامہ نے اپنے ایک جاسوس ساتھی کو ساتھ لیا اور ہجوم کو چیرتا ہوا لڑکی تک پہنچا ، دونوں فوجی اسے چھوڑ کر وہاں سے کھسکنے لگے لیکن اسامہ اور اس کے ساتھی نے انہیں پکڑ لیا، لڑکی بری طرح رو رہی تھی اسامہ نے اس سے پوچھا کہ اسے کیا ہوا ہے اور یہ اسے کہاں لے جا رہے ہیں؟ 
انہوں نے میری ماں کو اور میرے باپ کو قتل کر ڈالا ہے۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ میرے گھر سے زیورات بھی اٹھالئے ہیں اور مجھے گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ لے جا رہے ہیں۔
ان دونوں فوجیوں کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا کہ وہ لڑنے پر اتر آتے تمام فوجیوں کو سپہ سالار کے حکم سے نہتا کر دیا گیا تھا۔ اسامہ اور اس کا ساتھی انہیں اور لڑکی کو دھکیلتے ہوئے ہجوم سے نکال کر کچھ دور لے گئے تھے ۔ قریب ہی ایک چھوٹا سا اور بڑا پرانا سا ایک مکان تھا جسکا دروازہ کھلا ہوا تھا اوسامہ کے کہنے پر انہیں اس مکان میں لے گئے مکان کے دو ہی کمرے تھے اور دونوں خالی تھے۔
ایک کمرے میں لے جا کر دونوں فوجیوں کی تلاشی لی گئی تو ان کے کپڑوں کے اندر سے ایک تھیلی برآمد ہوئی جس میں زیورات تھے یہ انہوں نے اس لڑکی کے گھر سے اٹھائے تھے۔
 دونوں فوجیوں نے ہنس ہنس کر کہنا شروع کر دیا کہ یہ لڑکی اتنی خوبصورت ہے کہ ہم نے سوچا کہ اسے ساتھ لے چلیں ، زیورات تم رکھ لو ہمیں یہ لڑکی ساتھ لے جانے دو۔
اور اس کے ماں باپ کو تم نے قتل کیا ہے۔۔۔۔ اسامہ نے کہا۔۔۔ کیا یہ خون بھی تمہیں بخش دیں ایک کمسن لڑکی کو تم نے یتیم کردیا ہے۔
 یہاں تو کئی لوگ قتل ہوئے ہیں۔۔۔ ایک فوجی نے کہا ۔۔۔اس کے ماں باپ قتل ہو گئے تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔
اسامہ نے اپنے ساتھی کی طرف دیکھا آنکھوں ہی آنکھوں میں انھوں نے طے کر لیا کہ کیا کرنا ہے دونوں نے بیک وقت خنجر نکالے اور دوسرے ہی لمحے یہ خنجر ان رومی فوجیوں کے پیٹوں میں اترے ہوئے تھے، دونوں مجاہدین نے ان فوجیوں کے پیٹ چاک کر دئیے دونوں گرپڑے مجاہدین لڑکی کو ساتھ لے کر باہر آگئے ۔
میں اب کہاں جاؤں؟،،،، لڑکی نے روتے ہوئے اسامہ سے پوچھا ۔۔۔گھر میں تو میرا رہا ہی کوئی نہیں۔
کیا یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے۔۔۔ اسامہ نے زیورات کی تھیلی لڑکی کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔۔۔ کیا تم میرے ساتھ نہیں چلو گی، کیا تم نے میرے ساتھ رہنے کا وعدہ نہیں کیا تھا؟
کیا تھا ۔۔۔۔لڑکی نے کہا ۔۔۔لیکن میں تمہارے ساتھ بے وفائی کر چکی ہوں اور میں بہت شرمسار ہوں۔
 بے وفائی کیسی؟،،،، اسامہ نے پوچھا۔
لڑکی نے اسامہ کو گزشتہ رات کی ساری بات سنا ڈالی جو تھیوڈور کے سونے کے کمرے میں ہوئی تھی اس نے کچھ بھی نہ چھپایا اور کہا کہ اسے اتنے بڑے جرنیل نے اس کا دماغ ہی پھیر ڈالا تھا ، اور وہ تصورو میں مصر کی ملکہ بن گئی تھی اب یقین آیا کہ تمہارا خدا سچا ہے، لڑکی نے کہا تمہارا مذہب بھی سچا ہے اور برحق ہے ،اگر ایسا نہ ہوتا تو اس وقت تم زندہ نہ ہوتے میں نے تو تمہیں پکڑوا دیا تھا اگر میرا یہ گناہ معاف کر سکتے ہوں تو مجھے اسلام میں داخل کرلو اور اپنے ساتھ لے چلو۔
میں تمہیں تمہارے ماں باپ واپس نہیں دلوا سکتا ۔۔۔اسامہ نے کہا ۔۔۔یہ زیورات تمہارے ہیں تمہیں لوٹا دیے ہیں سچ اور جھوٹ کو حق اور باطل کو سچے دل سے سمجھ گئی ہو تو میرے ساتھ آ جاؤ ،کسی بھی مسلمان کے پاس بیٹھ جاؤں گی تو تھوڑی ہی دیر بعد کہے اٹھو گی کہ یہ تو میرا وہ باپ ہے جسے رومیوں نے قتل کر دیا تھا۔
 مسلمانوں میں لوٹیرے نہیں ہوا کرتے ان کے پاس شفقت اور انسانی ہمدردی ہے، میں تمھیں اپنے سپہ سالار کے پاس لے جاؤں گا تاکہ انہیں پتہ چل جائے کہ میں تمہیں زبردستی نہیں لایا اور تم اپنی خوشی اور رضا سے اسلام قبول کر کے میرے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہو۔
اسامہ نے جب لڑکی کی یہ باتیں سنیں تو اس نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ اسے قتل کروانے والا جرنیل اس وقت مسلمانوں کی قید میں یرغمال کے طور پر ایک برجی میں بیٹھا ہوا تھا ، اور اسامہ فاتح کی حیثیت سے سر اونچا کرکے اس جرنیل کے قلعے میں گھوم پھر رہا تھا اور اپنے سالار کے حکم منوا رہا تھا۔
اسامہ لڑکی کو سپہ سالار کے پاس لے گیا اور انہیں ساری بات سنائی ۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے لڑکی سے دو چار باتیں پوچھی اور اسے شفقت اور پیار سے مسلمان خواتین کے پاس بھیج دیا اس کے زیورات اس کے پاس رہنے دیے۔
سپہ سالار کو ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ رومی فوجی شہر کے ایک حصے میں شہریوں کا خون خرابہ کر گئے ہیں، اس لڑکی کو بھی معلوم نہیں تھا ورنہ وہ بتا دیتی ، اس کے اپنے ماں باپ قتل ہو گئے تھے اس لئے اسے گردوپیش کا کوئی ہوش ہی نہ تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
دو دنوں میں فوج قلعہ خالی کر گئی سپہ سالار عمرو بن عاص اپنے سالاروں کے ساتھ پہلی بار نیچے اترے ان کے ساتھ دونوں رومی جرنیل تھیوڈور اور جارج تھے۔ پہلے تھیوڈور کے محل جیسی رہائش گاہ میں گئے تمام خزانہ نکلوایا اور دونوں جرنیلوں سے کہا کہ وہ اپنے اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر شہر سے نکل جائیں۔
شہر کے دروازے کھول دیے گئے اور مجاہدین کا لشکر اللہ اکبر کے نعرے لگاتا شہر میں داخل ہوا اس وقت عمرو بن عاص باہر کھڑے تھے جیسے اپنے لشکر کا استقبال کرنے آئے ہوں۔ ایک طرف سے دو تین سو شہریوں کا ہجوم جلوس کی شکل میں سپہ سالار کی طرف آتا نظر آیا اس ہجوم میں عورتیں بھی تھیں، یوں لگتا تھا جیسے یہ لوگ ماتم کرتے آ رہے ہوں، دور سے ہی نظر آتا تھا کہ کئی ایک کے کپڑوں پر خون کے بڑے بڑے داغ دھبے تھے۔
 سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنے ایک سالار سے کہا کہ جاکر ان سے پوچھے کہ وہ کیوں ادھر آ رہے ہیں۔
سالار دوڑا گیا اور ان سے پوچھا ان لوگوں نے سالار کو بتایا کہ رومی فوجی ان کا کس طرح خون خرابہ کر گئے ہیں اور اب یہ لوگ یہ شکایت لے کر مجاہدین کے سپہ سالار کے پاس آئے ہیں، سالار نے واپس آکر عمرو بن عاص کو بتایا تو انہوں نے بجائے اس کے کہ انہیں اپنے پاس بلا تے بلکہ خود ان تک جا پہنچے اور کہا کہ انھیں بتایا جائے کہ ان پر کس نے یہ ظلم کیا ہے۔
ہم یہی بتانے آئے ہیں۔۔۔ ایک بزرگ سے آدمی نے آگے ہو کر کہا۔۔۔ لیکن یہ بتانے سے پہلے ہم یہ فریاد لے کر آئے ہیں کہ ایک وہ تھے جو ہمارے کئی آدمیوں اور عورتوں کو قتل کر گئے ہیں ،اور اب تم لوگ ہمارے گھروں کو لوٹنے آگئے ہو، یہ تو بتا دو کہ ہمارا قصور کیا ہے جس کی ہمیں سزا ملی ہے، اور باقی آپ سے ملے گی۔
کیا تم لوگوں نے ہماری طرف سے وہ اعلان نہیں سنے تھے۔۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ ہم دیوار پر کھڑے یہ اعلان کرتے رہے کہ کوئی شہری بھاگنے کی کوشش نہ کرے شہریوں کی عزت و آبرو اور جان و مال کی حفاظت کریں گے ، اور امان میں رکھیں گے ہم لوٹنے نہیں آئے کچھ دینے آئے ہیں،،،،، جس وقت رومی تمہارے گھروں میں قتل و غارت کر رہے تھے اس وقت ہمیں اطلاع دینی تھی، پھر تم دیکھتے کہ ہم انہیں زندہ کس طرح جانے دیتے ،،،،،اب بتاؤ تم پر کیا بیتی ہے۔
ان لوگوں نے اپنی اپنی بپتا سنانی شروع کر دی کسی نے کہا کہ اس کی بیٹی کو بے آبرو کیا گیا ہے، کسی نے کہا کہ اس کے گھر کے دو آدمی مارے گئے ہیں کیونکہ وہ گھر کی عورتوں کی عزت کی حفاظت میں مقابلے پر آ گئے تھے ،اس ہجوم میں جو بڑھتا ہی جارہا تھا کئی آدمی زخمی تھے اور کچھ ایسے زخمی جن کے زخم خاصے گہرے تھے انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ سب مصری ہے اور قبطی عیسائی ۔
ان لوگوں میں سے ہی کسی نے بتایا کہ اسے پتہ چلا ہے کہ قید خانے میں جو قیدی قبطی عیسائی تھے رومی ان کے ہاتھ کاٹ گئے ہیں۔ اس وقت عمرو بن عاص نے کچھ مجاہدین کو قید خانے کی طرف دوڑایا، ان کے ساتھ ایک حاکم کو بھی بھیج دیا جسے قیدخانے کی ذمہ داریاں سنبھالنی تھی۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنے ایک سالار سے کہا کہ شہر میں جتنے لوگ زخمی ہیں ان کی مرہم پٹی کا انتظام فورا کیا جائے، اور انہیں کھانا پینا اپنی طرف سے دیا جائے، یہ حکم دے کر سپہ سالار قید خانے کی طرف چلے گئے۔
وہاں ان لوگوں کی حالت دیکھ کر جن کے ہاتھ کاٹے گئے تھے سپہ سالار کانپ اٹھے ۔ 
ان کا خون بہتا ہی رہا تھا اس لئے کچھ تو مر ہی گئے تھے، اور باقی بے ہوش پڑے ایک ایک کر کے مر رہے تھے، ایک دن پہلے ان کے ہاتھ کاٹے گئے تھے، سپہ سالار کے حکم سے انہیں اٹھایا گیا جو ابھی زندہ تھے اور فوری مرہم پٹی کا انتظام کیا گیا انہیں شہد ملا دودھ بھی پلایا گیا اور اس طرح ان میں سے چند ایک کو بچا لیا گیا۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے قید خانے سے واپس آتے اپنے سالاروں سے کہا کہ ان نہتے شہریوں پر رومی فوج کا یہ ظلم وستم بڑا ہی افسوسناک ہے، لیکن ان کے اس صدمے میں ہم یہ رویہ اختیار کریں کہ ان کے ساتھ ہمدردی اور محبت سے پیش آئیں جیسا کہ اسلام کا حکم ہے، ان کے دلوں میں رومیوں کی نفرت پیدا ہو گئی اور ان کے خلاف یہ غم و غصے سے بھرے ہوئے رہیں گے ، اپنے ساتھ مبلغ بھی ہیں۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ انہیں کہو کہ گھر گھر جائیں ان لوگوں کی دلجوئی کریں اور انہی جیسی بھی مدد چاہیے وہ دیں، اور پھر انہیں کہیں کہ اب اسلام کی برکت اور رحمت کو بھی دیکھیں۔
سپہ سالار وہاں سے پھر فرمانروائے مصر کے محل میں چلے گئے، ان کے ساتھ چار پانچ سالار تھے اور کچھ تعداد دوسرے مجاہدین کی بھی تھی۔ اب انہوں نے سارے محل میں گھوم پھر کر دیکھا ایسی شاہانہ طرز بودوباش اور ایسی بیش قیمت اشیاء ،فرنیچر اور فانوس وغیرہ دیکھ کر کر عرب کے مجاہدین حیران ہوئے جا رہے تھے۔
غور سے دیکھو اور عبرت حاصل کرو ۔۔۔سالار زبیر بن العوام نے مجاہدین سے کہا ۔۔۔اگر یہ شاہانہ طرز رہائش ہمارے نصیب میں آئی ہوتی تو ہم خندق عبور کرنے کی سوچ بھی نہ سکتے۔
ان رومیوں کو اس شہانہ زندگی نے شکست دلوائی ہے، دیکھ لو اس قدر خزانہ اور ایسی شہنشاہیت یہیں رہ گئی ہے، اور وہ لوگ جو یہاں رہتے تھے صرف پہنے ہوئے کپڑوں میں یہاں سے شکست خوردگی کے عالم میں نکلے ہیں،،،،،،،،، وہ لوگ جو دنیا میں ہی اپنے لیے جنت بنا لیتے ہیں اللہ انہیں دنیا میں ہی جہنم کا عذاب دکھا دیتا ہے۔
 اور میں تمہیں یہ بھی بتادوں۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔انہوں نے جن بے گناہ قیدیوں کے ہاتھ کاٹے ہیں، اور جن پر ظلم و ستم کر گئے ہیں ان کی بد دعا انہیں اب جہنم کا عذاب ہی دکھائی گئی۔ فتح ایمان والوں کی ہوتی ہے اور ان کی جو بنی نوع انسان سے محبت کرتے ہیں۔
رومی فوج نے 16اپریل 641عیسوی کے روز بابلیون کا شہر خالی کیا اور مسلمانوں نے اس پر اپنا قبضہ مکمل کر لیا تھا۔
عمرو بن عاص نے وہیں بیٹھ کر امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے نام پیغام لکھوایا جس میں اتنی بڑی فتح کی خوشخبری لکھی اور تفصیل سے لکھوایا کہ اس فتح کا سہرا سالار زبیر بن الّعوام کے سر ہے ، اور انہوں نے کس طرح خندق عبور کی اور پھر رومیوں سے کس طرح ہتھیار ڈلوا کر بغیر خون بہائے ان سے شہر خالی کروالیا گیا آخر میں انہوں نے لکھوایا کہ اب وہ مصر کے دارالحکومت اسکندریہ کی طرف کوچ کی اجازت چاہتی ہیں۔ انہوں نے لکھوایا کہ یہ اجازت جلدی ملنی چاہیے تاکہ رومی فوج کو سستانے اور دم لینے کا موقع نہ مل سکے۔ یہ پیغام لکھوا کر انہوں نے قاصد سے کہا کہ وہ بہت ہی تھوڑے وقت میں مدینہ پہنچے اور یہ پیغام دے کر جواب لے آئے۔
بابلیون کی فتح کوئی عام سی فتح نہیں تھی اس اتنے بڑے شہر اور اس اتنے مستحکم قلعے کو فتح کر لینے سے مصر میں مجاہدین کی فتوحات کا ایک مرحلہ ختم ہوگیا، انہوں نے آدھا مصر فتح کر لیا تھا جسکا بابلیون والا علاقہ ایک خاص اہمیت کا حامل تھا۔
اللہ تبارک وتعالی نے اپنا یہ فرمان پورا کردیا کہ ہم نے تمہیں دین کے دشمنوں کے ان زرخیز علاقوں اور خزانوں تک پہنچایا جو کبھی تمہارے تصور میں بھی نہیں آئے تھے،،،،، یہ حقیقت ہے کہ بابلیون جیسی جگہ مسلمانوں کے تصور میں کم ہی کبھی آئی ہوں گی یہ اللہ کا ایک عظیم انعام تھا۔
مصر کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ علاقہ فرعونوں کا محبوب علاقہ تھا قلعے کی دیواروں پر کھڑے ہوجاتے تو ابوالحلول اور فرعونوں کے احرام نظر آتے تھے ،اور نیل کی اپنی ہی ایک دلکشی تھی ۔
بابلیون کا شہر فرعونوں نے ہی بسایا تھا حضرت موسی علیہ السلام نے یہیں کہیں فرعون کا طلسم سامری اپنے عصا سے توڑا تھا۔ 
 وہاں جگہ جگہ فرعونوں کے دور کے آثار نظر آتے تھے اور تمام تر علاقے میں بکھرے ہوئے تھے۔
بابلیون فتح کر لینے سے جزیرہ روضہ بھی مسلمانوں کے تسلط میں آگیا تھا ۔
عمرو بن عاص نے حکم دیا کہ بابلیون کے دریا والے دروازے سے جزیرے تک کشتیوں کا پل بنا دیا جائے اس حکم کی فوری تعمیل شروع ہوگئی شہر کے لوگوں نے مسلمانوں کو دیکھ لیا تھا کہ انہوں نے ان کے گھر کی طرف دیکھا بھی نہیں تھا اور انہیں ہر طرح کی مدد بہم پہنچائی تھی، اس کے اثرات یہ تھے کہ جب کشتیوں کا پل تیار ہونے لگا تو شہر کے لوگ دوڑے گئے اور اس کام میں مجاہدین کا ہاتھ بٹانے لگے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص کی یہ مجبوری تھی کہ ان کے ساتھ لشکر کی نفری کم تھی اس نفری میں سے شہر کی انتظامیہ کے کام بھی کروانے تھے اور نظم ونسق بھی بحال کرنا تھا، کشتیوں کا پل بھی بننا شروع ہو گیا تھا، اور کئی اور کام تھے جو فوری طور پر کرنے والے تھے۔ مجاہدین کی تعداد اتنی ہی تھی جسے ان کاموں میں لگا دیا جاتا تو عسکری ذمہ داریاں التوا میں پڑ جاتی تھی، اس کا علاج یہ سوچا گیا کہ رومیوں کے دور حکومت میں جو قبطی عیسائی شہری انتظامیہ کے فرائض سر انجام دے رہے تھے انہیں ہٹایا نہیں گیا۔ بلکہ یہ کام انہی کے سپرد کردیئے گئے۔ اردگرد کے علاقے میں اپنے لشکر کی کچھ نفری رکھنی لازمی تھی۔ سپہ سالار کا مقصد یہ بھی تھا کہ قبطیوں کو اعتماد میں لے کر انہیں اہمیت دی جاتی رہے تاکہ یہ بغاوت کی نہ سوچ سکیں۔
اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ ہوگیا جو مؤرخوں نے تفصیل سے لکھا ہے یہ واقعہ یوں ہوا کے محکمے میں اکثریت قبطی عیسائیوں کی تھی اسے آج کی زبان میں پولیس کہا جاتا ہے ۔عمرو بن عاص نے پولیس کے فرائض قبطیوں کے پاس ہی رہنے دیے اور ان کی نفری میں اضافہ کردیا اس محکمہ میں اپنے مجاہدین کو بھی شامل کیا گیا لیکن بہت ہی تھوڑی تعداد میں۔
کچھ دنوں بعد سپہ سالار کو یہ رپورٹ ملی کے پولیس میں جو قبطیی ہیں وہ مسلمانوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ بعض کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ ہم عرب کے اس پسماندہ مسلمانوں کے محکوم نہیں رہ سکتے، بابلیون میں قبطیوں کی بغاوت کے آثار نظر آنے لگے تھے۔

#جاری_ہے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.