غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر50 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar
Ghazi
by
Abu Shuja Abu Waqar
غازی از ابو شجاع ابو وقار
پیشکش محمد ابراہیم
50 قسط نمبر
Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar
Presented By Muhammad Ibraheim
Episode 50
کھکھڑی تو پہلے ہی میرے بیلٹ کے ساتھ لٹکی رہتی تھی اب میں نے اپنا پسٹل بھی اپنی جیکٹ کی جیب میں رکھنا شروع کر دیا تھا میرے چینی دوست صبح 10 بجے ہی میرے ہوٹل کی لابی میں آ کر بیٹھ جاتے تھے میں نے ہوٹل انتظامیہ کو انکو اپنے مہمان کے طور پر متعارف کروا دیا تھا چند روز بعد میں محسوس کیا کہ لابی میں بیٹھے رہنے پر انکے چہروں پر اکتاہٹ طاری ہونے لگی ہے میں نے انکے لیے اپنے کمرے کے ساتھ والا کمرہ کرایہ پر لے کر دے دیا جہاں وہ آرام کر سکتے اور انجوائے کر سکتے شام کو مریم نے کال کی کہ وہ مجھے لینے اپنی گاڑی پر آ رہی ہے میرے ہاں یا ناں کرنے سے پہلے ہی اس نے کال کینسل کر دی مریم مجھے اپنے ہوٹل لے گئی. اور پھر دو تین گھنٹے کے بعد واپس میرے ہوٹل مجھے چھوڑ گئی. اگلے روز میں 11 بجے ہوٹل سے باہر آیا باہر بہت سے رکشے کھڑے تھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ بھارتی ایجنٹ کا رکشہ کون سا ہے میں نے ایک رکشہ لیا اور اسے بازار جانے کا کہا راستے میں میں نے وہ رکشہ چھوڑ دیا اور ایک رکشہ لے کر اپنے سفارت خانے پہنچ گیا سفیر صاحب نے مجھے پیسوں کی تقسیم والی پکس دکھائیں وہ اکیلے تصاویر میں مسکرا رہے تھے بہت خوش تھے مگر ہر مہاجر کے چہرے پر چھائی افسردگی انہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی ہوٹل سے نکلتے وقت میں نے سارے رکشہ ڈرائیورز کے چہرے ذہن نشین کر لیے تھے دوسرے دن کل والے رکشوں میں دو موجود تھے باقی سب نئے تھے میں نے پرانے والے رکشوں میں ایک رکشہ لیا اور اسے شیر پنجاب ہوٹل چلنے کا کہا میرے محافظ میرے پیچھے ایک اور رکشے میں آ رہے تھے وہاں پہنچ کر ہم نے رکشے فارغ کر دئیے اور تقریباً ایک گھنٹہ وہاں بیٹھ کر سردار کے ساتھ گپ شپ لگائی جب وہاں سے باہر نکلا تو وہاں صرف ایک رکشہ کھڑا تھا یہ اجنبی چہرہ تھا وہاں سے میں پیدل نکل کر چلنے لگا آگے چل کر ایک اور رکشہ مل گیا میں اس میں بیٹھ کر ہوٹل چلا آیا وہاں پرانے دو رکشوں میں صرف ایک رکشہ کھڑا تھا میں روم میں پہنچا تو محسن میرا منتظر تھا میں نے محسن سے کہا کہ باہر ایک رکشہ کھڑا ہے اسے لے کر شیر پنجاب ہوٹل چلا جاے اور پھر وہاں سے واپس آ جاے میں بھی محسن کے پیچھے پیچھے باہر نکلا محسن نے اس رکشہ والے سے جانے کا کہا تو اس نے انکار کر دیا اور دوسرے رکشہ کیطرف اشارہ کر دیا میں سیدھا اس کے پاس گیا اور اسے چلنے کا کہا تو اس نے فوراً رکشہ سٹارٹ کر کے پاکستان ایمبیسی کیطرف چل دیا میں نے اسے روکا اور کہا کہ میں نے بازار جانا ہے یہ سن کر اس کے چہرے پر بیزاری کے آثار نمودار ہوگئے ہوٹل سے ابھی ہم 50 قدم دور ہی آے تھے کہ وہی سے واپس لوٹ پڑے محسن اور میرے چینی دوست ابھی تک رکشہ کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھ رہے تھے میں ہوٹل کے سامنے پہنچ کر محسن کو ساتھ بٹھایا اور بازار کی طرف چل دئیے راستے میں پھر رکشہ روکا اور محسن کو ایک دوکان سے سگریٹ لانے کے لیے بھیجا دراصل
میں چینی دوستوں کے انتظار میں تھا جتنی دیر میں محسن دوکان سے باہر آیا چینی بھی ایک رکشہ لیے قریب آ گئے میرا رکشہ ڈرائیور اناڑی تھا اسے رکشہ کنٹرول کرنے میں دشواری پیش آ رہی تھی خاص کر موڑ کاٹتے وقت تو بالکل بوکھلا جاتا تھا میں نے اسے سزا دینے کا فیصلہ کر لیا اور دو چار گھنٹے ایسی ہی بلا مقصد اسے گھماتے رہا رکشہ چلاتے چلاتے وہ بے حال ہو رہا تھا واپسی پر ہم وجے کمار کی دوکان پر اتر گئے میں نے رکشہ ڈرائیور کو کرایہ کے لیے جو کچھ دیا اس نے خاموشی سے رکھ لیا حالانکہ یہ اس سے بہت کم تھے جو میں نے اسے دئیے تھے میرے چینی دوست بھی رکشہ سے اتر کر ایک بیکری میں چلے گئے وجے نے مجھے اس مخصوص رکشہ سے اترتے دیکھ لیا تھا وجے نے میری بہت آؤ بھگت کی میں بھی اسکی ہاں میں ہاں ملاتا رہا ہم لوگ ہمیشہ کیطرح دوکان کے اینڈ پر پڑی کرسیوں پر جا بیٹھے وجے کمار ہمیشہ کیطرح باتوں کے دریا بہا رہا تھا میں تقریباً 2 گھنٹے اس کے پاس بیٹھا رہا اور اسکی ایک ایک بات غور سے سنتا رہا کیونکہ میں اسکی حقیقت سے واقف ہو چکا تھا.
جتنی چاہت سے وہ اپنی میرے ساتھ محبت اور عقیدت کا اظہارِ کر رہا تھا کوئی بڑے سے بڑا ایکٹر بھی ایسا نہیں کر سکتا تھا واقعی ہندوؤں میں لومڑی جیسی چالاکی بھری ہوئی ہوتی ہے اپنے سے کمزور پر یہ شیر بن جاتے ہیں اور اپنے سے تگڑے کے آگے بھیگی بلی اس وجے کمار نے ایسی ایکٹنگ کی تھی کہ میں بھی دھوکا کھا گیا تھا یہ تو اللہ کا کرم تھا کہ اس نے مجھے بچا لیا آج جب میں سب کچھ لکھ رہا تو اسکی ایکٹنگ کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکا وجے کی دوکان سے واپس میں ہوٹل آیا تو وہی ٹیکسی والا خالی رکشہ لیے کھڑا تھا یہ نہ تو نیپالی تھا اور نہ بنگلہ دیشی یہ اپنے لب و لہجہ سے کوئی اور ہی لگتا تھا اس نے مجھے پرنام کیا اور پوچھا کہ کہیں جانا ہے تو میں نے کہا نہیں آج نہی کل 11 بجے میں نے پاکستان ایمبیسی جانا ہے میں نے اسے اپنا پروگرام اس لیے بتا دیا کہ میں بھی اب اس چوہے بلی کے کھیل سے اکتا گیا تھا اب میرا پہلا شکار اسی رکشہ والے نے بننا تھا رات کو میں اپنے چینی دوستوں کے ساتھ چنگ وا ہوٹل گیا اور مریم کے ذریعے ان سے زہریلی گیس کا سلنڈر مانگا وہ سلنڈر دے کر باہر چلے گئے تو مریم نے پوچھا پھر مار دھار کا کام کرنا ہے تو یہ کام چینیوں کے ذریعے کیوں نہیں کرواتے وہ دراصل میرے ساتھ محبت کی انتہا تک پہنچ چکی تھی اسی کے لیے میں ہی اب سب کچھ تھا وہ مجھے ٹوٹ کر چاہنے لگی تھی اور میرے ساتھ پرسکون زندگی گزارنے کے سپنے دیکھ رہی تھی اور وہ چاہتی تھی کہ میں اس خون خرابے والی زندگی سے باہر نکل آؤں میں نے کہا کہ اب زیادہ وقت نہیں صرف چند سامنے آے ہوے دشمنوں کو ختم کرنا ہے اس کے بعد میری بھی خواہش ہے کہ پرامن زندگی گزاروں کھٹمنڈو میں مجھے زندہ رہنے کے لیے میرا انکو ختم کرنا ضروری ہے جونہی مجھے اپنے محکمے کی طرف سے واپسی کے آرڈر ملیں گے میں تمہیں لے کر خوشگوار اور پرامن وادیوں میں چلا جاؤں گا چینی ساتھی میرے لیے مزید دو سلنڈر لے کر لوٹے ہر سلنڈر دس افراد کے لیے کافی تھا اور گیس کے مؤثر ہونے کی زیادہ سے زیادہ رینج 3فٹ تھی میں نے ایک سلنڈر مریم کے پاس چھوڑا اور واپس ہوٹل لوٹ آیا چینی ساتھی مجھے ہوٹل چھوڑ کر واپس اپنی رہائش گاہ پر چلے گئے اگلے دن ٹھیک 11 بجے میں ہوٹل سے باہر آیا وہاں کافی رکشے کھڑے تھے مگر کل والا مخصوص رکشے والا جلدی سے اپنا رکشہ لے کر میرے سامنے آ گیا میں نے رکشہ میں بیٹھنے سے پہلے سگریٹ نکال کر جلانے میں اتنی دیر لگائی جتنی دیر میں میرے ساتھی بھی رکشہ لے کر چلنے کے لیے تیار ہو گئے میرے کوٹ کی ایک جیب میں پسٹل اور دوسری میں سلنڈر تھا پروگرام یہ تھا کہ میرا رکشہ رکنے کے بیس سیکنڈ بعد چینی دوست مجھے پاس کرتے ہوئے مجھ سے پسٹل اور سلنڈر لے کر آگے بڑھ جائیں گے اور پاکستانی سفارت خانے کے پاس میرا ویٹ کریں گے سیدھی سڑک پر دور بھارتی سفارت خانے کے دروازے کھلے نظر آ رہے تھے رکشہ والا اپنی کامیابی پر اتنا خوش تھا کہ پوری رفتار سے رکشہ چلا رہا تھا میں نے سلنڈر جیب سے نکال کر ہاتھ میں لے لیا اور رکشہ والے کو کمر پر ٹہوکا دیا جونہی اس نے گردن پیچھے موڑی میں نے گیس اس کے منہ پر چھوڑ دی گیس اس کے نتھنوں میں گھسی تو وہ لڑکھڑایا اور رکشہ الٹنے لگا اس سے پہلے کہ رکشہ الٹتا میں نے چلتے رکشے سے چھلانگ لگا دی اتنی دیر میں میرے چینی ساتھی میرے پاس پہنچ چکے تھے رکشہ الٹ چکا تھا اور رکشے والا ہلاک ہو چکا تھا ساتھیوں کا رکشہ میرے پاس رکا میں نے سلنڈر اور پسٹل انکے حوالے کر دیا انہوں نے اپنے رکشہ ڈرائیور کو آگے بڑھنے کا کہا اس دوران سڑک پر آنے جانے والے رکشے رکنے لگے اور تین کاریں بھی وہاں آ کر ٹھہر گئیں سب یہی سمجھے کہ ڈرائیور رکشے کو کنٹرول نہیں کر سکا رکشہ الٹ گیا اور ڈرائیور نیچے آ کر بے ہوش ہوگیا دوسرے رکشہ ڈرائیورز نے اس کے رکشہ کو سیدھا کیا اور اس کے ہاتھوں پیروں پر مساج کرنے لگے کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ مر چکا ہے میں نے اپنے ایمبیسی کیطرف جانے والی گاڑی سے لفٹ مانگی اور بھارتی سفارت خانے کے سامنے سے گزرتا ہوا اپنے سفارت خانے کے سامنے جا کر اتر گیا گاڑی کا مالک نیپالی تھا اور وہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں افسوس کر رہا تھا کہ غربت کے مارے یہ لوگ اپنی جسامت سے زیادہ کام کرتے ہوئے اکثر ایسی چڑھائی چڑھتے ہوئے بیہوش ہو جاتے ہیں بھارتی سفارت خانے کے اندر صحن میں دس پندرہ افراد کھڑے تھے سب کی نظریں مرے ہوئے رکشہ ڈرائیور پر لگی ہوئی تھیں جسے ہوش میں لانے کے لیے اس کا مسلسل مساج جاری تھا پاکستانی سفارت خانہ بند ہونے تک میں وہی رہا اور بند ہونے کے بعد میں واپس اپنے ہوٹل جانے کے لیے میں چنگ وا ہوٹل چلا گیا ہم سب کا بھوک سے برا حال ہو رہا تھا مریم نے خاص طور پر میرے لیے پکوڑے اور چینی ساتھیوں کے لیے نوڈلز بنوائے تھے ہم نے سیر ہو کر کھانا کھایا چینی دوستوں نے میرا پسٹل اور سلنڈر مجھے واپس کیا میں نے انہیں اگلے دن دس بجے آنے کا کہا مگر انہوں نے مجھے میرے ہوٹل چھوڑنے تک میرے ساتھ رہنے کا اصرار کیا
9 بجے میں واپسی ہوٹل پہنچ گیا میرے ساتھی مجھے ہوٹل چھوڑ کر واپس چلے گئے اگلے دن 11 بجے میں تیار ہو کر وجے کی دوکان پر گیا تو پتہ چلا کہ وہ ابھی تک نہیں آیاادھر ادھر گھوم کر میں ہوٹل واپس آ گیا اور شام 5 بجے میں پھر وجے کی شاپ پر گیا اس بار وہ مجھے مل گیا اس کا چہرہ لٹکا ہوا تھا اور آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا اس نے اپنی اس کیفیت پر قابو پانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا آج میری وہ پہلے والی آؤ بھگت بھی نہیں رہی تھی میرے پوچھنے پر اس نے طبیعت خراب کا بہانہ بنایا میں نے اسے کل والے رکشہ ڈرائیور کے اچانک بے ہوش ہو کر گرنے کا واقعہ سنایا تو اسکی رنگت اور پھیکی پڑ گئی میں اسکی اس کیفیت سے حقیقی معنوں میں لطف اندوز ہو رہا تھا میں نے اسے کہا کہ یہ واقعہ بھارتی سفارت خانے کے قریب پیش آیا تھا اور اس وقت خلاف معمول بھارتی سفارت خانے کے دروازے کھلے ہوئے تھے اور تقریباً 15 آدمی دروازے کے ساتھ یوں کھڑے تھے جیسے کسی اہم شخصیت کے استقبال کے لئے کھڑے ہوں وہ میری باتیں سنتا جا رہا تھا اور اس کے چہرے کی رنگت سیاہ ہوتی جا رہی تھی جب میں نے اس سے پوچھا کہ واقعی کوئی اہم شخصیت آ رہی تھی تو وہ ہاں یا نہ میں جواب بھی نہیں دے پا رہا تھا اسکے ہونٹ خشک ہو چکے تھے میں اس پر وار پر وار کیے جا رہا تھا میں نے کہا کہ کل بعد دوپہر دوکان سے ایسے غائب ہوے ہو کہ آج مل رہے ہو میں نے تو یونہی کل کہہ دیا تھا اس نے کہا کہ کل دوپہر سے اسکی طبیعت خراب ہے وہ گھر چلا گیا تھا اور آج شام کو ہی دوکان پر واپس آیا ہے میرے وار جاری تھے میں نے کہا کہ آج صبح تمہاری دوکان پر آتے ہوئے رکشہ والے نے بتایا کہ کل گرنے والا رکشہ ڈرائیور اچانک مر گیا تھا میں نے وجے کو ہمراز بناتے ہوئے آہستہ سے کہا کہ جب یہ حادثہ پیش آیا اسکے رکشہ پر میں سوار تھا اس کے ساتھ ہی میں نے وجے کو کہا کہ بہت جلد میں اسکے گھر پر اطلاع دے کر سر پرائز دوں گا اور اس کے ہاتھ کی بنی ہوئی ماش دال کھاؤں گا جسکی وہ ہمیشہ تعریف کرتا ہے وجے کی جو حالت ہو رہی تھی وہ دیکھنے لائق تھی ایسے لگتا تھا کہ جیسے اسکے جسم کا سارا خون نچوڑ لیا گیا ہو وجے کو اسی ذہنی اذیت میں چھوڑ کر میں واپس ہوٹل آ گیا تھا مجھے اغواء کرنے کی ساری ذمہ داری وجے کو سونپی گئی تھی مگر اپنے اس پلان میں ناکامی کے بعد اسے پورا کرنے کی ذمہ داری اب پھر وجے پر آ چکی تھی میں چاہتا تھا کہ وجے کو انتہائی مایوس کن حالت میں لے جاؤں جہاں پہنچ کر وہ کوئی ایسی غلطی کرے کہ مجھے اسے ٹھکانے لگانے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے میں نے محسن کی ڈیوٹی لگا دی کہ وہ مکمل طور پر وجے کی دوکان اور اس سے سامان لینے والے مہاجروں پر پورا دھیان رکھے اس نگرانی سے چند ہی دن بعد مثبت نتائج سامنے آنے شروع ہو گئے اس نے پہلے تو مہاجروں کے ساتھ بدزبانی کی پھر ان کو سامان دینا بھی بند کر دیا اور وہ ہر وقت پریشان رہنے لگا تھا محسن کے ذریعے میں 6 نیو شادی شدہ جوڑوں کی خدمات حاصل کیں جن کے ذمے یہ ڈیوٹی لگائی کہ وہ وجے کی دوکان اور گھر جانے پر اور کون کون اس سے ملنے آتا ہے اس طرح اسکی نگرانی کریں کہ اسے شک تک نہ ہو انہوں نے نہایت خوش اسلوبی سے اپنی ذمہ داری پوری کی چند روز بعد جب میں وجے کی دوکان پر گیا تو اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا وہ برسوں کا مریض ہوہر وقت چہکنے والے وجے کمار نے کئی دن سے شیو تک نہیں بنائی تھی ذرا سے کھٹکے پر وہ چونک جاتا سڑک پر گزرنے والا جو بھی اسکی دوکان کیطرف دیکھتا وہ دیر تک اس کیطرف دیکھتا رہتا نگرانی کرنے والے مہاجر ہر پانچ یا سات منٹ بعد اسکی دوکان کے سامنے سے اسے گھورتے ہوے گزر جاتے تھے وہ اتنا گھبرایا ہوا تھا کہ بے اختیار بول اٹھا نامعلوم یہ لوگ باری باری سے میری دوکان کے سامنے سے کیوں گزرتے ہیں میرے گھر تک میرا پیچھا بھی کرتے ہیں میں نے انکا کیا بگاڑا ہے میں وجے کے ساتھ ہی بیٹھا تھا میں نے اسکی پشت پر تھپکی دینے سے پہلے اپنی انگشت کی انگلی اس طرح لگائ جس طرح پستول لگاتے ہیں انگلی پشت پر لگتے ہی وجے کی چیخ نکل گئی اس نے بے اختیاری میں دونوں ہاتھ اوپر اٹھا لیے میں نے ہنستے ہوئے اسکی پیٹھ کو سہلاتے ہوئے اسے بٹھایا اور کہا کہ اسے کیا ہو گیا ہے وجے کی حالت ایسی ہو چکی تھی کہ لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے اسے اپنے چاروں طرف موت ہی موت دکھائی دیتی تھی میں بھی یہی چاہتا تھا کہ انتہائی مایوس کن ہو کر کوئی بے احتیاطی کرے قارئین کو یاد ہو گا کہ میرا ڈی ایم آئی کی قید سے دو گارڈز کو ہلاک کر کے فرار ہونا ایسے ہی انتہائی مایوس قدم تھا جس میں میں کامیاب ہوا تھا مجھے پتہ تھا کہ وجے بھی ایک دو دن میں کوئی ایسا ہی قدم اٹھاے گا لیکن یہاں میں پھر غلطی کر گیا میں نے ہندو کی بذدلانہ ذہنیت کو فراموش کر دیا تھا موت اور چتا کی آگ سے ڈرنے والی یہ بزدل قوم آسانی سے نہ تو موت کا سامنا کرتی ہے اور نہ ہی اسے قبول کرتی ہے دوسرے روز مجھے محسن اور مہاجروں سے پتہ چلا کہ وجے صبح پہلی بس سے کھٹمنڈو سے پیر گنج کے لیے روانہ ہو گیا ہے کھٹمنڈو سے وجے دو مہینے غائب رہنے کے بعد جب واپس لوٹا تو وہ کافی سنبھل چکا تھا اس بار وہ نیو ارادوں اور نیو پلاننگ کے ساتھ واپس آیا تھا
وجے سے جو مہاجرین سامان لیتے تھے ان کا کام اب بند ہو چکا تھا میں نے محسن کے ذریعے ان لوگوں کو بلایا اور سب کو ایک ایک ہزار روپیہ دے کر کہا کہ وہ اس سے دوسرے دکانداروں سے تھوک سے سامان خریدیں اور آگے فروخت کریں اور اپنا کام چلائیں یہ پیسے واپس کرنے کی ضرورت نہی ہے اسے اپنی جمع پونجی سمجھ کر رکھ لیں رزق حلال کمانے والے یہ مہاجر میرے اس تعاون پر بہت خوش ہوگئے بعد میں انہوں نے بتایا کہ وجے انہیں صرف دو تین سو سے زیادہ کا سامان نہیں دیتا تھا جبکہ وجے کی نسبت دوسری تھوک کی شاپ سے سامان سستا ملتا ہے
وجے کے جانے کے بعد دشمن ظاہری طور پر سامنے نہ آئے مگر بھارتی سفارت خانے میں سر جوڑ کر مجھے زندہ پکڑنے کی پوری پلاننگ کر رہے تھے جس سے میں بے خبر تھا مجھے اپنے قادر مطلق پر مکمل بھروسہ تھا اور اپنے پسٹل پر بھی جو ہر وقت میرے پاس ہوتا تھا زندگی کے گذشتہ 3 برسوں میں بغیر ہنگامے کے اب زندگی. مجھے بد مزا سی لگتی تھی میں نے جب بھی مریم سے اپنے ان بے امن ارادوں کا ذکر کیا اس نے مجھے غصے سے دیکھا اور پھر مجھے موضوع بدلنا پڑتا تھا وہ ہر وقت میری سیکیورٹی اور حفاظت کے پلان بناتی رہتی تھی میری ایسی باتیں سن کر طیش میں آ جاتی تھی وہ عام عورتوں کی طرح چپ نہیں رہتی تھی بلکہ اپنی بات منوانے کا ہنر جانتی تھی اسکی یہی بات مجھے اچھی لگتی تھی اب میرا روز کا معمول یہ تھا کہ کبھی مین بازار کبھی شیر پنجاب ہوٹل اور کبھی پاکستان سفارت خانہ اور ہر روز چنگ وا ریسٹورنٹ جانا جب واپس اپنے ہوٹل آتا تو محسن کو منتظر پاتا اس سے دن بھر کی خبریں ملتی میرے 15 روز اسی طرح گزر گئے اسی دوران یو این او کی بھیجی ہوئی مہاجروں کے لیے امداد بھی سفارت خانے پہنچ گئی مہاجروں کی شکایت اور بھارتی سفارت خانے کے پراپیگنڈا کیوجہ سے یو این او کا ایک افسر بھی ساتھ آیا جس نے تمام سامان مہاجروں کو اپنے سامنے دلوایا اور پیسوں کی تین اقساط بھی ایک ساتھ دے دیں میرے متعلق بھی مہاجروں کے نمائندے نے یو این او کے افسر کو بتایا کس طرح میں نے مہاجروں کی مدد کی ہے یہ سن کر افسر نے مجھے بھی سفارت خانے بلوایا اور متعارف کروایا سفیر اور اس کے سیکرٹری بہت ڈرے ہوئے تھے کہ میں کہیں ان کے پول ہی نہ کھول دوں میرا دل تو چاہا کہ سب کچھ بتا دوں مگر پھر خیال آیا کہ ایک غیر ملکی کے سامنے اپنے ملک کے نمائندوں کو ننگا کرنے سے مراد اپنے وطن کو ننگا کرنا ہے بس یہی سوچ کر میں خاموش رہا
ان ہی دنوں میں نے محسن اور اپنے چینی ساتھیوں کے ساتھ شیو کے مندر جانے کا پروگرام بنایا اس مندر کے متعلق بہت کہانیاں مشہور ہیں جن کا میں آگے ذکر کروں گا لیکن فی الحال میں یہاں کسی اور مقصد کے لیے جانا چاہتا تھا ماؤنٹ ایورسٹ دنیا کی بلند ترین چوٹی ہے اسی طرح کھٹمنڈو امریکی اور دوسرے غیر ملکیوں کے لیے نشے کی منزل تھی جہاں پر ہر نشہ بآسانی اور سستہ مل جاتا ہے ان دنوں افغانستان کا سفر سب سے محفوظ سمجھا جاتا تھا چرس اور افیون کے رسیا ہیپی امریکی اور دودرے یورپی یورپ سے بھری جیبوں کے ساتھ روانہ ہوتے تھے انکی پہلی منزل ترکی ہوتی جہاں وہ مہنگے داموں چرس اور افیون خریدتے اور وہاں سے وہ افغانستان پہنچتے جہاں انہیں یہ نشہ آور چیزیں بہت سستی ملتیں یہ ہیپی مرد اور عورتیں اپنی ساری پونجی سے خرید لیتے لیکن وہاں کے معاشرتی ماحول کے ڈر سے یہ وہاں قیام نہ کرتے بلکہ پاکستان اور بھارت سے ہوتے ہوئے کھٹمنڈو پہنچ جاتے کھٹمنڈو کا سرد موسم انہیں موافق آتا اور یہ وہی کے ہو جاتے گذشتہ صفحات میں عرض کر چکا ہوں کہ نیپال میں چرس اور دوسریےنشے کرنے کی کھلی اجازت ہے مگر خریدو فروخت ممنوع ہے اور وہ بھی رسمی طور پر یہ ہیپی جوڑے کھٹمنڈو میں آزادی سے چرس کے دھویں اڑاتے اور اور اپنے گرواجنیش کے گن گاتے راجنیش ایک انٹرنیشنل فراڈیا تھا جس نے ایک نیا مذہب ایجاد کیا تھا اس مذہب کے ماننے والے امریکہ بھارت اور دوسرے باقی یورپ میں بہت زیادہ ہیں اس مذہب کے ماننے والے ہر طرح سے مادر پدر آزاد ہوتے ہیں جسکیوجہ سے یہ مذہب ان تین ملکوں میں بہت تیزی سے پھیلا ان تین ملکوں کی بہت مشہور ہستیوں کے علاوہ فلمی اسٹار منسلک ہیں آج سے چند برس پہلے راجنیش ایک کیس میں پکڑا گیا مگر پھر اچانک منظر سے غائب ہو گیا اس کے غائب ہونے کے بعد اس کا کچھ پتہ نہ چل سکا مگر اس کے بنائے ہوے گناہوں کے آشرم آج بھی تینوں ملکوں میں کامیابی سے چل رہے ہیں
جاری ہے
No comments: