Aur Neil Behta Raha By Inyat Ullah Altamish Episode No. 56 ||اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش قسط نمبر 56
Aur Neel Behta Raha
By
Annyat Ullah Altamish
اور نیل بہتا رہا
از
عنایت اللہ التمش
#اورنیل_بہتارہا/عنایت اللہ التمش
#قسط_نمبر_56
یہ کام رات کی تاریکی میں ہورہا تھا، تاریکی مجاہدین کو فائدہ تو دے رہی تھی کہ وہ ذرا ہی دور سے کسی کو نظر نہیں آ سکتے تھے، لیکن اس تاریکی میں کچھ خطرے بھی تھے۔ فتح انہیں کے مقدر میں لکھی جاتی ہے جو آتش نمرود میں بے خطر کود پڑتے ہیں ،سپہ سالار عمرو بن عاص وہاں موجود تھے اور مجاہدین کا حوصلہ بڑھا رہے تھے وہ بہت ہی خوش تھے کہ انہیں زبیر بن العوام جیسے سالار مل گئے تھے۔
اس جانباز اور سرفروش سالار نے قلعہ بابلیون سر کرنے کی مہم میں نئی روح پھونک دی تھی۔
کئی ایک مجاہدین کی خواتین لشکر کے ساتھ تھیں جو لشکر کے پیچھے رہتی تھیں ۔ان خواتین میں زیادہ تر بیویاں تھیں ایک دو مجاہدین کی مائیں بھی تھیں اور دوچار کی بہنیں ان کے ساتھ تھیں ۔ کسی طرح ان خواتین کو پتہ چل گیا کہ مجاہدین خندق عبور کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور یہ بڑا ہی خطرناک کام ہے ،مجاہدین خندق عبور کیا ہی کرتے تھے لیکن خواتین جانتی تھی کہ بابلیون کے اردگرد جو خندق ہے یہ سب سے نرالی اور دشوار ہے، انھیں بتانے والے نے بتایا کہ خندق کس طرح عبور کی جارہی ہے اور یہ بھی کہ سیڑھیاں اور کچھ سامان بھی ساتھ لے جایا جا رہا ہے ،بیس پچیس جوان سال خواتین اس طرف اٹھ دوڑی جہاں سے خندق عبور کی جارہی تھی ،سپہ سالار عمرو بن عاص نے ان خواتین کے دوڑ کے قدموں اور ان کی باتوں کی آوازیں سنی تو خود دوڑے گئے اور عورتوں کے راستے میں جا کھڑے ہوئے۔
انہیں روک کر پوچھا کہ وہ کیا لینے آئی ہیں؟،،،،، یہ بھی کہا کہ وہاں آواز نہ نکالے مکمل خاموش اختیار کیے رکھیں، ایک خاتون نے آگے بڑھ کر سپہ سالار کو بتایا کہ وہ کیوں آئی ہیں۔
فوراً خاموشی سے واپس چلی جاؤ ۔۔۔عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔تمہاری ضرورت محسوس ہوئی تو تمہیں بلا لیں گے۔
سیڑھیاں اور سامان ہمیں اٹھا کر آگے لے جانے دیں۔۔۔ خاتون نے کہا۔۔۔ ہم پیچھے خیموں میں بیکار پڑی ہیں ۔
عمرو بن عاص نے انہیں ذرا سختی سے کہا کہ وہ واپس چلی جائیں خندق عبور کرنا مجاہدین کے لئے کوئی نیا کام نہیں جو عورتوں کی مدد کے بغیر ہو ہی نہ سکے۔
سات، آٹھ ہزار نفری سے آپ کیا کچھ کر لیں گے ۔۔۔ایک اور خاتون نے کہا۔۔۔۔ ہمارے جسموں میں بھی اللہ نے طاقت ڈال رکھی ہے یہ کسی کام تو آئے، ہم صرف لاشیں اٹھاتی ہیں اور زخمیوں کو ڈھونڈتی پھرتی اور انہیں پیچھے لے جاتی ہیں ،ہم اس خندق سے واقف ہیں ہمارے مردوں کو آگے جا کر لڑنا بھی ہے، جو کام ہم کرسکتے ہیں وہ ہمیں کرنے دیں۔
تمہارے کرنے کا صرف ایک کام ہے۔۔۔ عمر بن عاص نے کہا ۔۔۔فوراً واپس جاؤ اور یہ کام شروع کر دو وضو کرو نفل پڑھو اور ہماری کامیابی کی دعا کرو ہمیں اس مدد کی ضرورت ہے۔
خواتین واپس چلیں تو گئی لیکن سب پر مایوسی طاری تھی خیموں میں واپس جا کر سب نے وضو کیا اور فرداً فرداً نماز پڑھنے کھڑی ہو گئی۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
ادھر مجاہدین کے سپہ سالار کا یہ جذبہ کے وہ سپاہی بنا ہوا مجاہدین کے ساتھ کام کر رہا تھا ۔اور ادھر قلعے کے اندر رومیوں کا سپہ سالار اپنے آپ کو ہرقل جیسا بادشاہ سمجھے ہوئے تھا ، مقوقس کے بعد مصر میں وہ مختارکل تھا، وہ تھا جرنیل تھیوڈور آدھی رات ہونے کو آئی تھی اس کے سونے کے کمرے میں کچی عمر کی ایک نوجوان لڑکی بیٹھی اس کا انتظار کر رہی تھی۔
تھیوڈور ایک اور کمرے میں تھا اس کے ساتھ اس کے دو ماتحت جرنیل تھے ،اور چار پانچ اور فوجی افسر بھی تھے جو جرنیلی کے درجے سے ایک درجہ ہی کم تھے، ان میں ایک جرنیل جارج تھا جو تجربے اور قابلیت میں تھیوڈور کا ہم پلہ تھا۔
جنرل تھیوڈور کے دماغ پر ملکہ مرتینا سوار تھی اور وہ انعام جس کا مدینہ نے اس کے ساتھہ وعدہ کیا تھا ۔ وہ تو ابھی سے اپنے آپ کو مقوقس کا جانشین سمجھنے لگا تھا یعنی فرمانروائے مصر۔
وہ اپنے پاس بیٹھے ہوئے فوجی افسروں کو یقین دلارہا تھا کہ یہ عربی لشکر بابلیون کی دیوار کے قریب بھی نہیں آسکے گا ، اس دعوے میں وہ حق بجانب تھا پہلے بیان ہوچکا ہے کہ بابلیون کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے کیا اہتمام کیا گیا تھا ۔
تھیوڈور ہی نہیں بلکہ اس کے تمام تر چھوٹے بڑے افسر اور پوری کی پوری فوج کو یقین ہو گیا تھا کہ مسلمان اس خندق سے باہر ہی رہیں گے اور ان کے پاس کوئی ایسا طریقہ نہیں کہ خندق کو عبور کر سکیں گے، یہ یقین انھیں بڑا ہی پرلطف اطمینان دے رہا تھا۔
جنرل تھیوڈور نے اپنے اعلیٰ فوجی افسروں کا اجلاس بلا رکھا تھا لیکن دو نیم برہنہ جوان اور خوبصورت لڑکیاں انہیں شراب پیش کر رہی تھیں۔
شراب اپنا اثر دکھانے لگی تھی۔
اگر بزنطیہ سے تم نے کوئی امید وابستہ کر رکھی ہے تو وہ دل سے نکال دو۔۔۔ تھیوڈور نے کہا۔۔۔ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ شاہ ہرقل کمک نہیں بھیج رہا تھا۔ اب اس کا بیٹا قسطنطین یہ ذمہ داری پوری کر سکتا ہے۔ لیکن مجھے اس سے بھی کمک کی توقع نہیں، بزنطیہ سے مجھے جو خبری ملی ہے وہ ہمارے لئے اور مصر کے لیے اچھی نہیں۔ قسطنطین شاہ ہرقل کا جانشین بننے کی کوشش میں ہے۔
بلکہ مرتینا کا پیغام میرے پاس آ چکا ہے ۔شاہ ہرقل کی جانشین صرف ملکہ مرتینا ہو سکتی ہے ،اور اسے ہونا بھی چاہئے ،بہر حال ہمیں ایسی امید رکھنی ہی نہیں چاہیے کہ قسطنطین کمک بھیجے گا ۔ البتہ ملکہ مرتینا نے وعدہ کیا ہے کہ وہ زیادہ نفری کی کمک بھیجی گی لیکن اس میں کچھ عرصہ لگے گا۔ شاہ ہرقل کو بھی مصر کا کچھ خیال نہ تھا اور قسطنطین کو بھی نہیں ،اس کی دلچسپیاں صرف تخت و تاج پر مرکوز ہے، یہ عزم ذہن میں رکھ لو اور عہد کرو کہ ہمیں اس مٹھی بھر مسلمانوں کو یہی خندق کے باہر ہی نیست و نابود کر دینا ہے، میں مصر کے اندر سے ہی کمک منگوا رہا ہوں۔
عرب کے یہ بدوّ آخر کب تک محاصرے میں بیٹھے رہیں گے۔۔۔ جنرل جارج نے کہا۔۔ انہیں کچھ عرصہ بیٹھے رہنے دو ہم ان کی رسد کے راستے مسدود کر رہے ہیں، اور جب یہ بھوکے مرنے لگیں گے تو ان کے عقب سے ان پر حملہ کریں گے۔
مصر میں اپنی فوج کی کمی نہیں۔۔۔ تھیوڈور بولا۔۔۔ ان عربوں کو ذرا نڈہال ہو جانے دو ابھی یہ فتح کے نشے سے سرشار ہیں تھوڑے ہی دنوں بعد اس خوش فہمی سے نکل آئیں گے۔
یہ رومی فوج کے افسران علی کا اجلاس تھا یا محفل مے نوشی تھی، اس میں یہ سمجھا گیا کہ مجاہدین اسلام خندق عبور نہیں کر سکیں گے اور مصر سے ہی کمک آئے گی، اور مجاہدین کی رسد کے راستے بند کر دیے جائیں گے ۔اور ان پر عقب سے حملہ کیا جائے گا ، یہ رومی افسر اپنے دفاعی انتظامات سے بجا طور پر مطمئن تھے اور ان کا دفاعی پناہ بھی بالکل صحیح تھا، ہرقل نے مقوقس پر یہ جو الزام عائد کیا تھا کہ مصر میں روم کی ایک لاکھ فوج موجود ہے غلط نہیں تھا، مقوقس نے اس فوج کا تھوڑا سا حصہ ہی جنگ میں استعمال کیا تھا، تھیوڈور نے پوری فوج کو استعمال کرنے کا پلان بنا لیا تھا ۔ تصور میں لایا جاسکتا ہے کہ ایک لاکھ فوج کے مقابلے میں مسلمانوں کے سات آٹھ ہزار نفری کے لشکر کی کیا حیثیت تھی۔
آدھی رات کے وقت یہ محفل برخاست ہوئی اور تمام فوجی افسر رخصت ہوگئے۔ تھیوڈور کے سونے کے کمرے میں جو نوخیز لڑکی اس کے انتظار میں بیٹھی تھی وہ نیند پر قابو نہ پا سکی اور پلنگ پر سو گئی ، وہ فرمانروائے مصر کے حرم کی لڑکی نہیں تھی نہ ہی مقوقس نے کوئی حرم بنا رکھا تھا یہ ایک غریب ماں باپ کی بیٹی تھی اس کا گھرانہ کوئی ایسا غریب بھی نہیں تھا کہ یہ لوگ کسی کے محتاج ہوتے ، دو وقت کی روٹی باعزت طور پر میسر آ جاتی تھی، لیکن اس لڑکی نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا ہوگا کہ وہ کسی رات شاہی محل کے سونے کے کمرے کی زینت بنے گی، وہ پلی بڑھی تو غربت میں تھی لیکن خدا نے اسے بے مثال حسن سے نوازا تھا اس کے چہرے پر معصومیت کا جو تاثر تھا وہ اس کے حسن کو طلسماتی بنا رہا تھا۔
تھیوڈور نے اس نوخیز لڑکی کو کہیں دیکھ لیا تھا، وہ کچھ دیر اسے دیکھتا ہی رہا تھا، تھیوڈور کے ساتھ اس کا ایک خاص معتد بھی تھا ،اس معتمد نے اس کے کان میں کہا کہ یہ لڑکی اسے اتنی ہی اچھی لگی ہے کہ وہ دیکھے ہی جارہا ہے تو آج رات یہ اس کے سونے کے کمرے میں پہنچائی جاسکتی ہے۔ تھیوڈور کے ہونٹوں پر ابلیسی مسکراہٹ آگئی اور اس نے سر سے اشارہ کیا کہ ایسا ہو جائے تو اچھا ہے۔
یہ معصوم سی لڑکی رات کے پہلے پہر ہی تھیوڈور کے یہاں پہنچا دی گئی تھی، لڑکی کو اغوا نہیں کیا گیا تھا ،نہ اس پر جبر ہوا تھا ظاہر ہے کہ اس کے باپ کو اتنی رقم دی گئی ہو گی جو اس نے تصور میں بھی نہیں دیکھی ہوگی ۔ اس غریب باپ کو یہ خواب بھی دکھایا گیا ہوگا کہ جنرل تھیوڈور اس کی بیٹی کے ساتھ شادی کر لے گا اور اب تھیوڈور ہی مصر کا فرمانروا ہوگا۔
تھیوڈور کی عمر بڑھاپے میں داخل ہو چکی تھی، وہ سونے والے کمرے میں داخل ہوا تو لڑکی کو پلنگ پر سوتا ہوا دیکھا ، اس کی بیوی اور بیٹے بیٹیاں اپنے اپنے کمرے میں گہری نیند سوئی ہوئی تھے۔ تھیوڈور کو ایسا کوئی خدشہ نہیں تھا کہ اس کی بیوی کو پتہ چلا کہ اس کے پاس ایک لڑکی آئی ہوئی ہے تو وہ ہنگامہ برپا کردے گی۔ بیوی اپنے طور پر آزاد تھی۔ یہ اس معاشرے کا سب سے زیادہ اور اونچا طبقہ تھا جس میں شرم و حجاب کا کوئی عمل دخل نہیں تھا، اس وقت کے مرد کسی بھی عورت کو اپنے ساتھ گھر لے آنا اپنا حق سمجھتے تھے۔
لڑکی گہری نیند سوئی ہوئی تھی تھیوڈور کو وہ کچھ اور ہی زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔ شراب کے نشے نے تھیوڈور کو اپنے آپ میں رہنے ہی نہیں دیا تھا وہ کچھ دیر کھڑا گھومتا رہا اور لڑکی کو دیکھتا رہا ۔وہ تو اس کے لیے ایک کھلونا تھی جس طرح چاہتا اس کے ساتھ کھیل سکتا تھا۔ اس نے لڑکی کے ریشمی بالوں میں انگلیاں پھیر کر اسے جگایا۔
لڑکی گھبراکر جاگی اور اٹھ بیٹھی اس کے معصوم چہرے پر خوف کا تاثر آگیا لیکن تھیوڈور کے ہونٹوں پر کھلی ہوئی مسکراہٹ دیکھ کر خوف میں کمی آگئی۔ تھیوڈور اس کے پاس بیٹھ گیا اور ایسے پیارے انداز سے ایک دو باتیں اور کچھ حرکتیں کیں کہ لڑکی کو اس انداز میں اپنائیت سی محسوس ہونے لگی۔
مجھ سے یوں نہ ڈر لڑکی۔۔۔ تھیوڈور نے کہا۔۔۔ میرے دل نے تمہیں پسند کیا ہے ،میں تمہیں مصر کی ملکہ بناؤں گا ،کیوں تم مصر کی ملکہ بنوں گی نا۔
لڑکی جواب دینے کی بجائے بچوں کی طرح ہنس پڑی وہ شاید محسوس نہ کر سکی کہ یہ شخص نشے میں ہے، اور صبح تک بھول چکا ہوگا کہ اس نے رات کیا کہا تھا۔
تھیوڈور اس پر وحشیوں کی طرح ٹوٹ پڑنے کی بجائے بڑے پیار سے اس کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتا رہا۔
چند ہی باتوں اور کچھ پیاری سی حرکتوں سے لڑکی تھیوڈور کے ساتھ بے تکلف ہو گئی۔ انہی باتوں میں عرب کے مسلمانوں کا ذکر آگیا تھیوڈور نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا اظہار کیا، لڑکی کے ماں باپ قبطی عیسائی تھے اور مذہب کے معاملے میں بڑے ہی جذباتی اور کٹر تھے، لڑکی کے خیالات پر بھی ان کا اثر تھا۔
میں ایک مسلمان جاسوس کو پکڑوا سکتی ہوں۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے مجھے بھی وہ اچھا لگتا ہے میں جانتی ہوں کہ وہ عرب کے اس لشکر کا جاسوس ہے جس نے ہمارے شہر کو محاصرے میں لے رکھا ہے۔ لیکن میں اس کے خلاف زبان نہیں کھولنا چاہتی تھی کیونکہ اس نے میری جان بچائ تھی ۔
پھر اب کیوں زبان کھولی ہے؟،،،، تھیوڈور نے پوچھا۔
مجھے احساس ہے کہ میں اس کے ساتھ بے وفائی کر رہی ہوں۔۔۔ لڑکی نے کہا ۔۔۔لیکن آپ کی باتیں سن کر میں نے محسوس کیا ہے کہ اس کے ساتھ وفا کرتی ہوں تو یہ اپنے مذہب اور اپنے ملک کے ساتھ بےوفائ ہوگی جسے غداری بھی کہا جاسکتا ہے۔
لڑکی نے تھیوڈور کو بتایا کہ یہ مسلمان کب سے یہاں ہے، اور کہاں رہتا ہے ۔
شاباش!،،،،،، تھیوڈور نے کہا۔۔۔ محبت اور جزبات کی قربانی جان کی قربانی سے زیادہ بڑی ہے۔ میں تمہارے جذبے کی قدر کرتا ہوں اور تمہیں اس کا پورا صلہ ملے گا ۔
صبح یہ مسلمان جاسوس ہتھکڑیوں میں بندھا ہوا یہاں ہو گا ،اور تمہارے سامنے اس کا سر اس کے جسم سے الگ پھینک دیا جائے گا۔ لڑکی خواب و خیال میں مصر کی ملکہ بن گئی اور اپنے آپ کو تھیوڈور کے حوالے کردیا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
یہ مسلمان جاسوس کون تھا ؟
اس کا نام اسامہ بن اظہری تھا اس کی عمر چوبیس پچیس سال تھی، اس کا باپ عراق میں مثنیٰ بن حارثہ کے لشکر میں تھا جو کسریٰ ایران کی فوجوں کے خلاف لڑ رہا تھا، یہ مجاہد ایک معرکے میں شہید ہو گیا تھا، اسامہ بن اظہری کا ایک ہی بڑا بھائی تھا وہ شام کی جنگ میں ہرقل کی فوجوں کے خلاف لڑتا ہوا شہید ہوا تھا، پیچھے اسامہ رہ گیا تھا
ماں نے اسے اس لیے محاذ پر نہیں بھیجا تھا کہ وہ اکیلی رہ جاتی تھی، لیکن باپ کے بعد بڑا بھائی بھی شہید ہو گیا تو ماں نے اسامہ سے کہا کہ وہ اپنے بڑے بھائی کی جگہ چلا جائے اس طرح اسامہ رومیوں کے خلاف لڑنے والے لشکر میں شامل ہوا اور اس کی ماں بھی اس کے ساتھ چلی گئی۔
اسامہ بن اظہری کو سالاروں نے دیکھا کہ یہ تو ایک خاص قسم کی ذہانت کا مالک ہے تو انہوں نے اسے جاسوسی کی تربیت دی اسامہ بڑا خوبصورت نو جوان اور نہایت پر اثر انداز میں بات کرتا تھا، اور اس میں روپ بہروپ کا فن قدرتی طور پر موجود تھا اسے پہلی بار جاسوسی کے لئے بھیجا گیا تو وہ ایک رومی فوج کے افسر کا خدمت گار بن گیا ڈیڑھ ایک مہینے بعد واپس آیا تو نہایت قیمتی باتیں اپنے ساتھ لایا، آخر اسے اس لشکر میں بھیج دیا گیا جس کے سپہ سالار عمرو بن عاص تھے اور مصر پر فوج کشی کے لئے روانہ ہوئے تھے۔
مصر میں بھی اس نے جاسوسی کے میدان میں کچھ نمایاں کامیابیاں حاصل کیں جو سپہ سالار کے کام آئیں، اب وہ بابلیون کے اندر چلا گیا تھا ایک بار واپس آیا تو سپہ سالار کو بتایا کہ شہر کے اندر رومی فوج کی ذہنی اور جذباتی کیفیت کیا ہے، اور شہری کیا سوچ رہے ہیں، اس ضمن میں اس نے سپہ سالار کو بڑی ہی کارآمد باتیں بتائیں۔
وہ پھر کسی بہروپ میں بابلیون کے اندر چلا گیا اور ایک عیسائی تاجر کا قابل اعتماد نوکر بن گیا وہ عیسائیوں کے بہروپ میں گیا تھا اسے واپس آنا تھا لیکن مجاہدین کے لشکر نے بابلیون کو محاصرے میں لے لیا اس صورتحال میں اس کا واپس آنا بہت ہی مشکل تھا، اس نے یہ بھی سوچا کہ واپس نہ ہی جائے تو اچھا ہے، شہر کے اندر رہے اور اپنے لشکر کی مدد کا سامان پیدا کرلے اس نے تو یہاں تک سوچ لیا تھا کہ جب مجاہدین کا لشکر قلعے پر یلغار کرے گا تو وہ اپنی جان کی بازی لگا کر شہر کا کوئی نہ کوئی دروازہ کھولنے کی کوشش کرے گا۔
یہ تھا وہ مسلمان جاسوس جس کی نشاندہی یہ لڑکی تھیوڈور کے آگے کر رہی تھی لڑکی نے کہا تھا کہ اس مسلمان کو اس کے ساتھ محبت ہے اور وہ خود بھی اسے چاہتی ہے۔ یہ محبت ایک واقعہ سے شروع ہوتی تھی جو اس لڑکی کے لئے اور اس کے ماں باپ کے لئے ایک حادثہ بن چلا تھا۔ یہ واقعہ یوں ہوا کہ ایک بڑی بادبانی کشتی بابلیون سے سامنے والے جزیرے تک جا رہی تھی جہاں قلعی روضہ تھا ۔ اسامہ کو اس تاجر نے جزیرے میں جانے کو کہا تھا جس کا وہ ملازم تھا اس تاجر کو وہاں کوئی کام تھا۔
چونکہ اس طرف دریائے نیل تھا اس لئے شہر کا وہ پہلو محاصرے سے محفوظ تھا جزیرے اور بابلیون کے درمیان دریائی آمدورفت لگی رہتی تھی، کشتی بہت بڑی تھی جس میں بہت سے مسافر جا رہے تھے سامان بھی تھا اور چند ایک گھوڑے بھی تھے یہ تین ساڑھے تین مہینے پہلے کا واقعہ تھا جب نیل میں طغیانی آئی ہوئی تھی طغیانی کا زیادہ جوش و خروش دریا کے وسط میں تھا کشتی وسط میں پہنچی تو ملاح دیکھ نہ سکے کہ طغیانی بڑھ گئی ہے اور لہریں کچھ زیادہ ہی اوپر نیچے ہو رہی ہیں ،کشتی جب اس مقام تک پہنچی تو لہروں نے اسے اٹھا اٹھا کر گرانا شروع کردیا اور ایک بار کشتی کا رخ بدل گیا اور تیز ہوا نے بادبانوں کو ملاحوں کے قابو سے نکال دیا۔
کشتی ایک پہلو سے اس قدر جھک گئی کہ یوں لگتا تھا جیسے دریا کشتی کے اندر آجائے گا ،ایک نوخیز لڑکی جو اس طرف کھڑی تھی اپنا توازن قائم نہ رکھ سکی اور دریا میں جا پڑی، اسے اب ڈوبنا ہی تھا بچنے کی کوئی صورت نہیں تھی، لڑکی کا باپ بھی اس کے ساتھ تھا لیکن وہ رونے چلانے اور لوگوں کی منت سماجت کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔
اسامہ کی فطرت میں خطرہ مول لینے والا عنصر موجود تھا اور اس کے ساتھ انسانی ہمدردی کا جذبہ بھی تھا۔ اس نے اور کچھ بھی نہ سوچا اور دریا میں لڑکی کے پیچھے کود گیا ۔ لڑکی کو موجیں اٹھا اٹھا کر پٹخ رہی تھی اور اپنے ساتھ لے جا رہی تھی، اسامہ جوان تھا جس میں طاقت تھی اور زیادہ طاقت تو اس جذبے میں تھی جو ہمدردی کا جذبہ تھا ،وہ پوری طاقت صرف کرتا کرتا تیرتا چلا گیا ،اسے تو طغیانی بھی آگے کو دھکیل رہی تھی۔
ملاحوں نے کشتی نہ روکی اس کے بادبانوں کو قابو میں رکھا اور کشتی کو دریا کے وسط سے نکال کر لے گئے ۔اسامہ لڑکی تک پہنچ گیا اور اسے اٹھا کر اپنی پیٹھ پر ڈال لیا اب بڑا ہی خطرناک مرحلہ شروع ہوا یہ تیرنا تھا تو یعنی کے جوش و خروش میں سے نکلنا۔ بہت دور جا کر وہ موجوں کی لپیٹ سے نکلا اور سامنے والے کنارے تک چلا گیا ۔
وہ کچھ ہی دیر اور تیر سکتا تھا ،اس کے بازو اکھڑنے لگے تھے۔
یہ اسامہ کی اور لڑکی کی خوش قسمتی تھی کہ کنارہ آ گیا اور اسامہ لڑکی کو نیل کے منہ سے نکال کر لے گیا۔
کناروں کے ساتھ ساتھ چھوٹی کشتیاں چلتی رہی تھیں، ان میں سے ایک میں اسامہ لڑکی کو جزیرے میں لے گیا لڑکی کا باپ مل گیا اس نے یہ صورت قبول کر لی تھی کہ اس کی بیٹی ڈوب کر مر چکی ہے ۔اس نے اسامہ کو گلے لگایا اور اسے کہا کہ وہ بابلیون میں اس کے گھر آئے، اسامہ نے اپنے تاجر کا کام بھی کر لیا اور لڑکی اور اس کے باپ کے ساتھ واپس بابلیون آگیا۔
وہ پہلی بار لڑکی کے گھر گیا تو ان لوگوں نے اسے سر آنکھوں پر بٹھایا، لڑکی تو اس پر مری جا رہی تھی۔ اس نے لڑکی کو یقینی موت کے منہ سے چھینا تھا ،اسامہ آخر جوان سال اور غیر شادی شدہ تھا اس کے دل میں لڑکی کی ایسی محبت پیدا ہوگئی جو انسان کو مجبور اور بے بس کر دیا کرتی ہے۔ اور اسے اس کے راستے سے بھی ہٹا لیتی ہے۔ یہاں سے ان کی ملاقاتیں شروع ہوگئی۔
اسامہ کو تاجر نے ایک چھوٹا سا الگ مکان دے رکھا تھا لڑکی اس کے پاس وہاں پہنچ جاتی تھی ،ایک روز جذبات کا ایسا غلبہ ہوا کہ اسامہ نے لڑکی سے کہا کہ وہ اسے اپنے ساتھ عرب لے جائے گا ۔
لڑکی نے حیرت زدگی کے عالم میں پوچھا کہ وہ عرب کیوں جائے گا؟ اسامہ نے تو اسے بتایا تھا کہ وہ عیسائی ھے۔
اسامہ پستانے لگا کے اس کے منہ سے ایسی بات نکل گئی ہے کہ اس کا پردہ اٹھ گیا ہے اس نے ادھر ادھر کی باتیں بنائیں کہ وہ اپنی اصلیت پر پردہ ڈال لے لیکن لڑکی کو شک نہیں بلکہ یقین ہو گیا تھا کہ اسامہ دراصل کچھ اور ہے، اسامہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکا لڑکی کا حسن اور اس کی عمر ایسی تھی اور پھر لڑکی نے باتیں بھی کچھ ایسی کی کہ اسامہ کو اپنا راز فاش کرنا پڑا۔ دونوں کی محبت ایسی تھی کہ اسامہ کو ایسی توقع تھی ہی نہیں کہ لڑکی اسے دھوکا دے گی ۔
لڑکی نے اسے قسم کھا کر کہا کہ وہ اس کے راز کو اپنے سینے میں دفن کر لے گی اسامہ نے کھل کر بات کر دی اور لڑکی نے اس کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ مسلمان ہو جائے گی اور اس کے ساتھ عرب بھی چلی جائے گی۔ وہ تو اس کی بہت ہی ممنون تھی اس کے دل پر دریا کا ایسا خوف بیٹھ گیا تھا کہ بہتے پانی کو دیکھ کر ہی ڈر جاتی تھی۔ اسامہ کو وہ اپنا محافظ سمجھتی تھی۔
اسامہ کو لڑکی پر بھروسہ تو تھا لیکن اسے یہ احساس پریشان کرتا ہی رہتا تھا کہ اس نے اپنے آپ کو بے نقاب کردیا ہے۔ لڑکی کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے اسامہ نے یوں بھی کیا کہ اس کے دل میں رومیوں کی نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی اسے بتایا کہ ہرقل اور قیرس نے کس طرح قبطی عیسائیوں کا قتل عام کیا ہے۔ وہ لڑکی سے یہ بھی کہتا تھا کہ رومیوں کی بادشاہی مصر میں قائم رہی تو یہاں کسی قبطی عیسائی کو زندہ نہیں رہنے دیں گے۔ اگر مسلمانوں کو فتح حاصل ہو گئی تو ہر کوئی اپنے مذہبی امور میں آزاد ہوگا ۔
لڑکی کو رومیوں کا قبطی عیسائیوں پر ظلم و تشدد اچھی طرح معلوم تھا لیکن وہ کمسن اور نادان لڑکی تھی، جنرل تھیوڈور نے اس کی معصومیت کے ساتھ کھیلنے کے لئے کہہ دیا کہ وہ اسے مصر کی ملکہ بن آئے گا، تو وہ اس کی باتوں میں آ گئی اور جب تھیوڈور نے مصر کی اور مسلمانوں کی باتیں کیں اور پھر لڑکی کو اور زیادہ بھڑکا دیا تو لڑکی نے نادانی میں آکر اسامہ کا پردہ چاک کردیا۔
اسامہ اپنے گھر میں اکیلا گہری نیند سویا ہوا تھا اسے معلوم نہیں تھا کہ یہ رات اس کی زندگی کی آخری رات ہے، اس سے جذبات میں آکر جو غلطی ہوئی تھی اس کی سزا تھیوڈور نے لڑکی کو سنا دی تھی,,,,, سزائے موت,,,,,,,یہ سزا تو دراصل اسامہ کی ماں کو بھگتنی تھی، اس کا خاوند بھی شہید ہوگیا تھا، بڑا بیٹا بھی شہید ہوگیا ،اور اب چھوٹا بیٹا رات گزرتے ہیں تھیوڈور کے جلاد کے ہاتھوں قتل ہونے والا تھا۔ پیچھے ماں کو سزا بھگتنے کے لیے اکیلے رہ جانا تھا ۔
ماں یہاں بھی اسکے ساتھ تھیں اور سپہ سالار عمرو بن عاص کے کہنے پر دوسری عورتوں کے ساتھ نفل پڑھ رہی تھی اور مجاہدین کی فتح کی دعائیں مانگ رہی تھی اسے یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کا بیٹا شہر کے اندر پھندے میں آ چکا ہے اور اب وہ اپنے بیٹے کو کبھی بھی نہیں دیکھ سکے گی۔
یہ تھی وہ رات اور یہ تھا وہ وقت جب یہ لڑکی تھیوڈور کو بتا رہی تھی کہ وہ ایک مسلمان جاسوس کو پکڑوا سکتی ہے، اور تھیوڈور نے اس سے کہا تھا کہ اس جاسوس کو اس کے سامنے قتل کروایا جائے گا ،بالکل اس وقت مجاہدین اپنے سالار زبیر بن العوام کی قیادت میں ان کی ہدایت کے مطابق خندق کی روکاوٹوں پر درخت ڈال کر خندق عبور کر رہے تھے۔
قلعوں کی دیواروں پر چڑھنے کے لئے ایک تو کمند پھینکی جاتی تھی اور اگر دیواری کمزور ہوتی تو ان میں شگاف ڈال لیا جاتا تھا ،ایک طریقہ سیڑھیوں کے ذریعے اوپر چڑھنے کا بھی تھا بابلیون کی دیواریں بہت ہی مضبوط عام دیواروں کی نسبت زیادہ چوڑی اور اونچی بھی خاصی زیادہ تھی، اس بلندی کو دیکھتے ہوئے ہی مجاہدین نے دو سیڑھیاں باندھ لی تھیں تاکہ یہ دیوار کے اوپر تک پہنچ جائیں۔
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ قلعے کے محاصرے کو آٹھ مہینے گزر گئے تھے عمرو بن عاص کبھی بھی محاصرے کو طول دینے کے حق میں نہیں ہوئے تھے، کچھ دن محاصرہ کر کے قلعے پر یلغار کر دیا کرتے تھے۔ بابلیون کی بات دوسرے قلعوں کے مقابلے میں بالکل ہی مختلف تھی ، اندر کی رومی فوج کو ہی نہیں بلکہ فوج کے جرنیلوں کو بھی یقین ہو گیا تھا کہ مسلمان خندق عبور نہیں کر سکیں گے ،وہ کہتے تھے کہ خندق عبور کرنی ہوتی تو یہ عربی مسلمان ایک دن کی بھی دیر نہ لگاتے کسی نہ کسی طور خندق عبور کرلیتے۔
رومی بجا طور پر مطمئن تھے، خندق بہت چوڑی تھی اور رومیوں نے اسے جن خاردار تاروں اور نوکیلی سالاخوں سے بھر دیا تھا انہیں عبور کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں تھی، اور نہ کوئی ذریعہ تھا کہ اسے عبور کیا جا سکتا ۔
اس یقین نے رومی جرنیلوں کو اور ان کی فوج کو اتنا مطمئن کردیا تھا کہ رات کو رومی پوری طرح بیدار رہتے ہی نہیں تھے، اور دیوار پر پہرے کی خاصی کمی ہو گئی تھی، گشتی سنتری رسمی طور پر دو چار مرتبہ اوپر چکر لگاتے تھے، اس فوج کے سپریم کمانڈر جنرل تھیوڈور پر بھی بے نیازی اور بے پرواہی کا موڈ طاری رہنے لگا تھا۔
تھیوڈور تو مکمل طور پر مطمئن تھا کہ مصر کے اندر سے ہی اس کی کمک آرہی ہے اور وہ مسلمانوں کے لشکر پر عقب سے حملہ کرے گا اس نے اپنے اعلی افسروں کو بتا ہی نہیں دیا بلکہ یقین دلادیا تھا کہ بابلیون کے باہر خندق سے کچھ دور کی زمین مسلمانوں کے لشکر کا قبرستان بنے گی۔
رات آدھی سے کچھ زیادہ گزری تھی جب سالار زبیر بن العوام نے سب سے پہلے درختوں کے تنوں پر قدم رکھا اور شاخیں پکڑ پکڑ کر اور سنبھل سنبھل کر آگے بڑھے اور خندق عبور کر لی، وہ پھر واپس آئے اور خندق سے کچھ دور جا کر مجاہدین کو اپنے پاس بلایا۔
میرے رفیقو!،،،،، سالار زبیر نے کہا۔۔۔ مجھے پار جاتے اور واپس آتے دیکھ کر یہ نہ سمجھ لینا کہ یہ کوئی آسان کام ہے تم نے دیکھا ہے کہ یہ ٹہن تاروں کے گچھے اور نوکیلی سالاخوں پر رکھے گئے ہیں، ان پر جب جسم کا بوجھ پڑتا ہے تو قدم آگے رکھنے سے یہ ٹہن دائیں بائیں ہلتے ہیں، اور کچھ نیچے کو بھی ہو جاتے ہیں، شاخوں کا سہارا لینا پڑتا ہے لیکن یاد رکھو کہ کوئی کمزور شاخ ہاتھ میں آ گئی تو وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے، اور ٹہنیوں کے ہلنے سے اپنا توازن بگڑ بھی سکتا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ کوئی گر پڑا تو نوخدار سالاخیں اس کے جسم میں اتر جائیں گی، پھر خندق سے اس کی لاش ہی نکلے گی ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم قدم آگے بڑھائیں ہی نہیں فتح اور کامیابی صرف اسے عطا ہوتی ہے جو دماغ کو حاضر رکھ کر خطرہ مول لیا کرتے ہیں، مت بھولو کہ اللہ تعالی تمہارے ساتھ ہے، اللہ کے اس وعدے کو بھی یاد رکھو کہ تم میری مدد کرو میں تمہاری مدد کروں گا,,,,,,,
ان مجاہدین کو جو سیڑھیاں پار لے جائینگے اور ہی زیادہ احتیاط سے ٹہنوں پر چلنا ہوگا ،ہم جب خندق کے پارچلے جائیں گے تو ایک اور خطرہ موجود ہوگا ہوسکتا ہے میدان صاف ہی ہو لیکن ہمیں یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ یہ خطرہ بھی موجود ہوگا، یہ خطرہ ان گھنے درختوں میں ہوسکتا ہے جو خندق سے قلعے تک کھڑے ہیں، ممکن ہے ان درختوں میں رات کے وقت کچھ رومی چھپے رہتے ہوں، رات بھی تاریک ہے اگر رومی ان درختوں میں ہوئے تو نیچے سے گزرنے والوں کو تیروں سے ختم کردیں گے، بہرحال کسی درخت سے ایک بھی تیر آیا تو ہم جوابی کارروائی کرکے یہ خطرہ ختم کر ڈالیں گے لیکن ذہن میں رکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔
ان ہدایات کے بعد سالار زبیربن العوام نے چند ایک مجاہدین کو الگ کرکے کہا کہ چار چار یا پانچ پانچ آدمی ایک ایک سیڑھی اٹھائیں اور خندق عبور کریں، مجاہدین نے فوراً اس حکم کی تعمیل کی اور تین سیڑھیاں اٹھا کر خندق کے طرف چلے ،سالار زبیر بن العوام ان کے آگے آگے خندق عبور کرنے لگے۔ نہایت احتیاط سے ٹہنوں پر قدم رکھتے آہستہ آہستہ بڑھتے گئے اور اللہ نے انہیں پار پہنچا دیا پار جا کر رکے اور زبیربن العوم نے دو مجاہدین کو آگے بھیجا ان کا مقصد یہ تھا کہ درختوں میں اگر رومی فوجی موجود ہوئے تو وہ ان دونوں کو پکڑنے کی کوشش کریں گے یا اوپر سے تیر چلائیں گے، اس خطرے کی نشاندہی کے لیے ان دو مجاہدین کی قربانی پیش کردی گئی تھی۔
دونوں مجاہدین تاریکی میں گم ہوگئے اور کچھ دیر درختوں کے نیچے نیچے گھوم پھر کر بخیروعافیت واپس آگئے، انہیں یقین ہو گیا کہ راستہ صاف ہے ،اب پھلوں کے باغات کے یہ درخت مجاہدین کے محافظ بن گئے یہ نہایت اچھی آڑ مہیا کرتے تھے۔
جس سے دیوار پر کھڑے کسی رومی کو نظر نہیں آ سکتا تھے کہ کوئی دیوار کے قریب آ رہا ہے رات تاریک تھی لیکن انسان سائے کی طرح نظر آسکتا تھا۔
سیڑھیاں خندق کے اگلے کنارے کے قریب رکھوا کر زبیر بن العوام نے اپنے جانباز دستے کو اشارہ کیا کہ اب وہ آگے آجائیں، اشارہ ملتے ہی پورا دستہ ایک دوسرے کے پیچھے خندق عبور کر گیا، سالار زبیر نے ان میں سے چند ایک جانبازوں کو الگ کرکے کہا کہ وہ سیڑھیاں اٹھالیں اور قلعے کی دیوار تک پہنچ جائیں۔ باقی دستے کو وہی روکا رہنے کو کہا اور پہلے دی ہوئی ایک ہدایت کو دہرایا۔
ایک بار پھر سن لو ۔۔۔زبیر بن العوام نے کہا۔۔۔ ہم جب اوپر جائیں گے تو ایک بار نعرہ تکبیر بلند ہوگا اس نعرے پر جو مجاہدین میرے ساتھ جا رہے ہیں اوپر چڑھائیں گے ،پھر سب مل کر اللہ اکبر کا نعرہ لگائیں گے اور تم سب یعنی سارا دستہ دوڑ کر سیڑھیاں چڑھے گا اور اوپر آجائے گا۔
خندق عبور کرنے سے پہلے زبیر بن العوام نے سپہ سالار عمرو بن عاص کو بھی ان نعروں کے متعلق بتا دیا تھا ۔انہوں نے کہا تھا کہ جب تیسری بار نعرہ تکبیر بلند ہو گا تو پھر باقی دستے اوپر آئیں گے اور یہ دستے مزید سیڑھیاں اپنے ساتھ لائیں گے تاکہ دیوار پر چڑھنے میں زیادہ وقت نہ لگے پھر یہ طے ہوا تھا کہ یہ دستے اگر نیچے جانے میں کامیاب ہوگئے تو قلعے کے دو تین دروازے کھولنے کی کوشش کی جائے گی اور باقی لشکر ان دروازوں سے اندر آئے گا۔
یہ نعرے بجائے خود ایک خطرہ تھا۔ پہلے ہی نعرے پر رومی فوجی بیدار ہو کر اوپر آ سکتے تھے ۔
اس وقت چند ایک جانبازوں کو اوپر ہونا تھا جن پر زیادہ تعداد میں رومی ٹوٹ پڑتے تو انہیں کاٹ کر دیوار سے پھینک دیتے، لیکن خطرہ مول لینے کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔
#جاری_ہے
No comments: