Ads Top

Bhagora By Riaz Aqib Kohler Episode No. 35 ||بھگوڑا مصنف ریاض عاقبکوہلر قسط نمبر 35




Bhagora
By
Riaz Aqib Kohler
بھگوڑا
 مصنف
ریاض عاقب کوہلر

 Bhagora By Riaz Aqib Kohler بھگوڑا  مصنف ریاض عاقب کوہلر

بھگوڑا
قسط نمبر35
ریاض عاقب کوہلر
میری آنکھ امجد کی آواز سن کر کھلی وہ کہہ رہا تھا....
 ”ملک صاحب اٹھ جاﺅ کافی دیر ہو گئی ہے۔“ میں آنکھیں ملتا ہوا اٹھا بیٹھا۔ کمرے میں پھیلی روشنی سے اندازہ ہواکہ سورج کافی اوپر آ گیا تھا۔” ساتھ باتھ روم ہے اس کے بیچ پانی کا بھرا ہوا ڈرم رکھا ہوا ہے۔ نہالو۔“میں کمرے کے ساتھ بنے ہوئے باتھ روم میں گھس گیا۔ نہا کر باہر نکلا تو کمرے میں سعدیہ کا اضافہ ہو چکا تھا۔ وہ چھابے میں گرم گرم پراٹھے اور کیتلی قہوے کی بھر لائی تھی۔”یہ بندوبست کہاں سے کیا؟“
”کچن میں ضرورت کی ہر چیز موجود تھی۔“”یہ کام تمھیں اندھرے میں کرناچاہئے تھا۔ اس وقت تو دھواں دیکھ کر کوئی بھی اس جانب متوجہ ہو سکتا ہے۔“
”م ....مم مجھے خیال نہیں رہا تھا۔“ وہ پریشان ہو گئی ۔” آئندہ خیال رکھنا.... اور ناشتا کر لیا ہے؟“
” کچن میں جا کر،کر لیتی ہوں۔“ وہ کمرے سے نکل گئی۔”اب کیا ارادہ ہے؟“ ناشتے سے فارغ ہو کر امجد مستفسر ہوا۔”اب چلتے ہیں ذرا آوارہ گردی کے لیے۔“”مِس مصیبت کا کیا کریں گے ؟“”شرم کرو یار وہ تمھاری اتنی خدمت کر رہی ہے اور تم اسے مصیبت کہہ رہے ہو۔“”میں نے جو پوچھا ہے اس کا جواب دو تقریر سننے کے موڈ میں مَیں بالکل نہیں ہوں۔“”یہ ادھر ہی رہے گی۔“
”اگر مکان کے مالک واپس آگئے تب؟“
”تب یہ کہیں چھپ جائے گی۔ اتنا بڑا مکان ہے، لیکن امید یہی ہے کہ کوئی آئے گا نہیں۔“”چلو پھر نکلیں۔“ ہم دونوں سعدیہ کو ضروری ہدایات دیتے ہوئے اس مکان سے باہر نکل آئے۔ باہر نکلنے سے پہلے ہم نے گلی کے خالی ہونے کا یقین کر لیا تھا۔ ہم سیدھے بازار پہنچے اور وہاں سے کمر سے باندھنے والے پرس خریدے کہ رقم کی وجہ سے ہماری جیبیں کافی بوجھل ہو رہی تھیں اس کام سے فارغ ہوتے ہی ہم نے اپنے لیے رہائش کی تلاش شروع کر دی۔ اس مرتبہ ہم نے ہوٹلوں سے دور رہنے کی ٹھانی تھی، پھرتے پھراتے ہم جنگل خیل کے مضافات میںنکل آئے ۔ افغانستان کی طرف جانے والے راستے پر چاے کا کھوکھا دیکھ کر ہم چاے پینے بیٹھ گئے۔ کھو کھے کامالک پختہ عمر کاقبول صورت مردتھا۔ وہ خود چاے بنا کر اپنے گاہکوں کو سرو کر رہا تھا۔
”بھائی صاحب دودھ والی چاے مل جائے گی۔“ پہلے بیٹھے ہوئے دو گاہکوں کو قہوہ پیتے دیکھ کر میں نے اس سے پوچھنا مناسب سمجھا۔
”چاے کیا دودھ پتی ملے گی صاحب۔“
”اچھا دو کپ لے آﺅ۔“چاے تیار ہونے تک پہلے والے گاہک رخصت ہو گئے تھے۔ چاے پیتے ہوئے میں نے امجد سے پوچھا۔”ماجے کیا خیال ہے اسی سے رہائش کے متعلق بات نہ کرلی جائے؟“”بسم ﷲ کرو.... نیکی اور پوچھ پوچھ۔“”چاے پی کر میں نے اسے کہا۔ ”بھائی جی ہم مسافر ہیں آپ کی نظر میں کوئی ایسا شخص ہو جو اپنا گھر کرائے یہ دینا چاہتا ہو؟“”صاحب جی جنگل خیل میں تو کئی ہوٹل والے یہی کاروبار کرتے ہیں۔ ہوٹل کے اندر کمروں کے علاوہ ان کے پاس کرائے کے کوارٹر اور بڑے مکان بھی دستیاب ہیں۔“
”نہیں وہ کرایہ زیادہ لیتے ہیں اور ہم نے کافی عرصہ یہاں پر گزارنا ہے، ہمیں تو کوئی ایسی جگہ چاہئے جہاں کرایہ بھی کم ہو اور گھر کی بنی ہوئی روٹی بھی مل سکے البتہ کھانے کی ہم علاحدہ سے قیمت ادا کریں گے۔“وہ چند لمحے سوچنے کے لیے بعد بولا۔ ”صاحب جی میری نظر میں تو کوئی ایسا شخص یا گھر نہیں ہے۔“”اپنے بارے کیا خیال ہے تمھارا؟“ وہ عجیب انداز میں ہنسا۔ ”صاحب جی میرے پاس چھوٹا سا گھر تو موجود ہے۔ کھانا پکانے والا کوئی نہیں۔“”کیا مطلب ؟“
”مطلب یہ ہے کہ ماں باپ مر چکے ہیں۔ بہن بھائی کوئی نہیں ہیں اور شادی ابھی تک ہوئی نہیں ہے، اس لیے کبھی خود پکا لیتا ہوں کبھی ہوٹل سے لے کر کھا لیتا ہوں۔“
”شادی کر لونا؟“”شادی....؟ کرلیں گے صاحب.... جب لڑکی کے باپ کا مطالبہ پورا کرنے کے قابل ہو ا شادی ضروری کروں گا۔“ اس کی آنکھوں میں گویا اَن دیکھی دولھن کے خواب اتر آئے تھے۔”تمھارانام؟“”عبدالمجید....۔“
”عبدالمجید بھائی بات یہ ہے کہ ہم نے تمھارے ہی گھر کو اپنے لیے پسند کر لیا ہے، کھانا پکانے کی فکر نہ کرو اس کی ذمہ داری ہم قبول کرتے ہیں۔“”مم.... مگر میرے گھر میں تو ایک ہی چارپائی ہے۔“ وہ گڑبڑا کر بولا۔”تمھارا گھر یہاں سے کتنی دور ہے؟“ میں نے اس کی الجھن نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔
”اس درختوں کے جھنڈ کے پرلی سمت ہے۔“ اس نے تقریباً تین سو گز کی دوری پر نظر آنے والے درختوں کے چھوٹے سے جھنڈ کی طرف اشارہ کیا۔”اچھا پھر یوں کرو بازار سے جا کر تین نئی چارپائیاں لے کر آجاﺅ۔“ میں نے ایک ہزار روپیہ اس کی جانب بڑھایا۔ ”لیکن خیال رہے کسی کے سامنے ہمارا ذکر نہ کرنا۔“”مم.... مگر صاحب جی؟“”چھوڑو اگر مگر یار۔ جاﺅ ہم یہیں تیرا انتظار کریں گے۔“ اور وہ متذبذب سا بازار کے جانب روانہ ہو گیا۔ اس کے جاتے ہی میں نے امجد کو اس سے ہونے والی گفتگو تفصیل سے بتا دی۔ گھنٹے بھر بعد ہی عبدالمجید ایک گدھا گاڑی پر تین نئی چارپائیاں لا دے بازار کی سمت سے آتا دکھائی دیا اور پھر وہ ہمارے قریب رکے بغیر اپنے گھر کے جانب نکلتا چلا گیا۔ اس کے پیچھے خوش قسمتی سے چاے پینے کے لیے کوئی گاہک نہیں آیا تھا اس کی واپسی تک ہم اس کے متعلق ہی مصروف ِ گفتگو رہے تھے۔
”یہ لیں صاحب۔“ واپس پہنچتے ہی اس نے پانچ سو کا نوٹ اور کچھ ریز گاری میرے جانب بڑھائی ۔ ”چارپائیوں کی قیمت اور کرائے سے یہ رقم بچ گئی ہے۔“”انھیں فی الحال اپنے پاس رکھو اور چلو ہمیں اپنا گھر دکھاﺅ۔“ کھوکھا بند کر کے وہ ہمارے ساتھ چل پڑا۔ اس کے گھر کی لوکیشن ہمیں کافی پسند آئی تھی۔ اس کے ساتھ بقیہ معاملات طے کر کے اور رات کے وقت اپنی آمد کا بتلا کر ہم رخصت ہو گئے۔ وہاں سے سیدھے ہم مکان میں واپس آئے لیکن بازار سے گزرتے وقت میں سعدیہ کے لیے زنانہ جوتی لینا نہ بھولا تھا۔ سعدیہ بڑی بے چینی سے ہماری منتظر تھی۔ دن کا بقیہ حصہ ہم نے اسی مکان میں گزارا۔رات کا اندھیرا چھاتے ہی ہم وہاں سے نکل آئے تھے۔ عبدالمجید کے گھر تک ہم بغیر کسی حادثہ کے پہنچ گئے۔ 
اس کا چھوٹا سا مکان تین کمروں پر مشتمل تھا۔ کچن کے نام پر صحن کے کونے میں چھوٹے چھوٹے دو چولہے بنے ہوئے تھے۔ سارا مکان مٹی کے کچے بلاکوں سے بنایا گیا تھا۔ کمروں کی نسبت صحن کافی بڑا تھا۔ صحن کے اندر دوتین پیٹر بھی موجود تھے۔ ہمارے لیے کھانا اس نے تیار کر کے رکھا ہوا تھا، سعدیہ کا تعارف ہم نے اپنی قریبی عزیزہ کے طور پرکرایاتھا۔ کھانا کھا کر ہم تھوڑی دیر گپ شپ کرتے رہے اور اس کے بعد سو گئے۔ رہائش کا مسئلہ تقریباً حل ہو گیا تھا۔ اب ہم یکسو ہو کر چودھری کی تلاش کا آغاز کر سکتے تھے۔ عبدالمجیدچہرے مہرے سے اچھے کردار کا شخص دکھائی دیتا تھا۔ اس کے ساتھ غربت نے اس کے اندر ایک عجیب سی تواضع اور انکساری پیدا کر دی تھی، اگلی صبح جبکہ وہ اپنے کھوکھے پر جا چکا تھا ہم دونوں سعدیہ کو گھر میں چھوڑ کر باہر نکل آئے۔”ملک صاحب مِس مصیبتے کا مسئلہ تو حل ہو گیا اب چودھری کی تلاش کا باضابطہ آغاز کر دینا چاہئے۔“”سعدیہ کا مسئلہ کیسے حل ہو گیا؟“”بھئی عبدالمجیدغیر شادی شدہ ہے دوسری جانب سعدیہ ٹھہری بیوہ اب ان دونوں کی شادی کر دی جائے تو دونوں کا فائدہ ہو گا۔“”بات تو تمھاری معقول ہے مگر پہلے سعدیہ سے پوچھنا پڑے گا۔ آیا اسے بھی یہ رشتا قبول ہے یا....“”یا وہ جانو کا انتظار کرے گی۔“ وہ میری بات مکمل کرتے ہوئے بولا۔ ”ملک صاحب کسی ایک کو تو بخش دو ایک انڈیا میں جناب کی منتظر ہے، دوسری رحمن خیل میں چشم براہ ہے اور تیسری یہاں ڈھونڈلی۔“”بکواس مت کرو۔“ میں چڑ گیا۔ ”میں نے کب رضیہ یا سعدیہ سے اظہار محبت کیا ہے۔ البتہ شیتل کو میں نے جھوٹی تسلی دینے کے لیے کہا تھا کہ اپنے مسائل سے نبٹنے کے بعد اس کے پاس انڈیا آنے کی کوشش کروں گا۔“
”تمھارا سب سے بڑا مسئلہ تو لڑکیوں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آنا ہے جو کبھی ختم نہیں ہو گا۔“” بڑی مہربانی ہو گی اگر تُم اس موضوع کو ختم کر دو۔“ میں نے جھلا کر کہا۔”چل پھر بازار چلتے ہیں تاکہ مختلف ہوٹلوں کے بکنگ والوں سے چودھری کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔”اب کی ہے نہ کام کی بات ۔“ میں نے اسے شاباش دی ۔اور وہاں سے بازار کی طرف چل پڑے۔
 جنگل خیل میں ٹوٹل پانچ چھے ہوٹل تھے ۔ تمام ہم نے شام تک چھان مارے مگر وہ چودھری کے نام یا اس کے حلئے سے ناواقف تھے اس دن ہم ناکام و نامراد واپس لوٹ آئے۔ 
عبدالمجیدہمارا منتظر تھا ہمیں دیکھتے ہی مستفسر ہوا ۔
”آپ نے دن کا کھانا کہاں کھایا ہے؟“
”شکرکرو رات کے کھانے پر آ پہنچے ہیں۔“”کیا مطلب؟“ اس کے لہجے میں حیرانی تھی۔”مطلب یہ کہ جنگل خیل میں ہماری آمد کا مقصد اپنے دشمن کی تلاش ہے جس کا نام چودھری اکبر ہے۔ پہلے ہمیں سعدیہ کی فکر رہتی تھی اب چونکہ اس کی طرف سے اطمینان حاصل ہو گیا ہے تو ہم نے بھی باقاعدگی سے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ تم سے بھی یہ درخواست ہے کہ اگر تمھیں چودھری اکبر کے متعلق کوئی خبر پتا چلتی ہے تو بغیر کسی تاخیر کے ہمیں بتا دینا اس کا حلیہ....۔“ اس کے ساتھ ہی میں نے چودھری اکبر کا حلیہ تفصیل سے اسے بتا دیا۔
”ٹھیک ہے عبدﷲ بھائی مجھے جیسے ہی اس کے بارے کچھ معلوم ہوا میں ضرور آپ کو باخبر کر دوں گا۔“ اسی وقت سعدیہ کھانا لے کر آگئی۔ ہمارے آگے کھانا رکھنے کے بعد و ہ خود کمرے میں گھس گئی وہ ہمارے درمیان بیٹھنے سے احتراز برتتی تھی اور اس کی وجہ اس کی شرم و حیا تھی۔ غیر مردوں کے ساتھ رہنا اس کی مجبوری تھی ورنہ شاید وہ کب کی ہم سے علاحدہ ہو گئی ہوتی ۔ دوسری طرف ہم دونوں بھی انسان ہمدردی کی بنا پر اسے ساتھ لیے پھرتے رہے ورنہ ہمیں بھی اسے ساتھ رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
”آپ دونوں کھانا کھاﺅ میں آتا ہوں۔“ میں سعدیہ کے کمرے کے جانب بڑھ گیا۔”السلام علیکم۔“ میں دروازہ ہلکے سے کھٹکھٹا کر اندر داخل ہوا۔
”آ.... آپ۔“ وہ بے ساختہ اٹھ کھڑی ہوئی۔”سلام کا جواب تو دے دو۔“
”وعلیکم السلام.... آئیں بیٹھیں۔“
”شکریہ۔“ میں کمرے میں پڑی اکلوتی چارپائی پر بیٹھ گیا۔ وہ بھی چارپائی کے ایک کنارے پرٹک گئی۔
”سعدیہ مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنا تھی اس لیے تمھیں زحمت دی۔“ میںنے گفتگو کا آغاز کیا۔
”جی.... حکم کرو؟“”اس دن جنگل خیل میں داخل ہوتے وقت میں نے تمھیں ایک بات کہی تھی کہ کسی بھی پُرامن علاقے میں چلی جاﺅ اور کسی شریف آدمی سے شادی کر لو مگر تم نے میری بات کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا تھا۔ اب میں تھوڑے فرق کے ساتھ دوبارہ وہی بات کرنے کے لیے آیا ہوں کہ عبدالمجیدبہت اچھا نیک خصلت اور شریف جوان ہے۔ اس کے ساتھ شادی کر کے تمھاری کافی مشکلیں حل ہو جائیں گی۔ اسے بھی ایک اچھی شریک حیات کی ضرورت ہے۔ اگر تم مناسب سمجھو تو میں تمھاری نسبت اس سے طے کردوں؟“
میں نے نپے تلے الفاظ کے ساتھ اپنی بات اس تک پہنچانے کی کوشش کی تھی میری بات ختم ہوتے ہی اس نے عجیب سی نظروں سے میری جانب دیکھا اس کی نگاہ میں ہزاروں شکوے پنہاں تھے مگر زبان سے اس نے کسی گلے شکوے کا اظہار کرنے کی بجائے صرف اتنا کہا۔”آپ میرے لیے بھلا ہی سوچیں گے میں آپ کی کسی بات سے انحراف نہیں کر سکتی۔“”سعدیہ میں تمھارے جذبات سمجھتا ہوں، مگر افسوس کہ تم میرے حالات سے ناواقف ہو۔ تمھارے لیے مختصراً اتنا ہی کافی ہے کہ میں شادی شدہ ہوں تمھارے جیسی شریف اور خوب صورت لڑکی کسی خوش نصیب کے حصے میں ہی آتی ہے۔ باسمت خان ناشکرا تھا اس لیے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ باقی میں تمھیں دھوکے میں رکھ کر تمھاری معصومیت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا تھا اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تمھیں محفوظ ہاتھوں کے حوالے کر کے ہم اپنے اس مقصد کی تکمیل کے لیے فارغ ہو جائیں کہ جس کے لیے ہم جنگل خیل آئے تھے۔“
”میں نے کوئی شکوہ تو نہیں کیا ۔“ اس کے لہجے میں اداسی تھی ۔
”کچھ شکوے ایسے ہوتے ہیں جو بے کہے مخالف تک پہنچ جاتے ہیں۔ بہ ہر حال ہم دونوں دوستوں کی کسی بات سے تمھاری دل آزاری ہوئی ہو تو درگزر کرنا اور یہ کچھ رقم رکھ لو ۔“ میں نے پانچ سو والے نوٹوں کی ایک گڈی اس کی سمت بڑھائی ۔ ”یہ تمھیں اور تمھارے ہونے والے شوہر کو نئی زندگی کی شروعات میں مدد فراہم کرے گی۔ اس کے علاوہ بھی اگر کوئی چیز چاہئے ہو تو بے تکلف بتا دینا۔“
”اتنی زیادہ رقم.... مم میں....“وہ گڑ بڑا سی گئی۔”کوئی بڑی رقم نہیں ہے۔ بھائی اس سے بھی بہت بڑھ کر بہنوں کے لیے کرتے ہیں، یہ تو ہماری مجبوری ہے کہ ہم پردیس میں ہیں۔“
”خدا ہر بہن کو آپ جیسے بھائی دے۔“ وہ جذبات سے رندھی ہوئی آواز میں بولی اور پھر اپنے آنسو چھپانے کے لیے میری جانب سے رخ پھیر لیا۔ وہ آنسو شاید اپنے محبوب سے ہمیشہ ہمیشہ کی جدائی کی وجہ سے نکلے تھے یا بھائی ملنے کی خوشی میں باہر آئے تھے میں اس بات سے بے خبر تھا۔ میں نے اس کے جذبات کو نارمل کرنے کے لیے کہا۔
”اب یوں کرو کہ فٹافٹ کھانے کا بندوبست کرو میں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ہے۔“
وہ جلدی سے بولی....”اوہ معافی چاہتی ہوں، مجھے تو خیال ہی نہیں رہا کہ آپ ان کے ساتھ کھانا نہیں کھا سکے ہیں۔میں ابھی لائی۔“ وہ باہر نکل گئی اور تھوڑی دیر بعد ہی کھانا لے کر آگئی۔ کھانا ہم دونوں نے اکٹھے کھایا۔ کھانے کے دوران میں نے ایک دفعہ پھر اس کا عندیہ لینا چاہا۔
”سعدیہ یہ نہ سمجھ لینا کہ تم ہم پر بوجھ تھیں اور موقع ملتے ہی ہم نے تم سے جان چھڑانے کی کوشش کی۔ میں نے ابھی تک عبدالمجیدسے تمھارے بارے کوئی بات نہیں کی اگر تمھیں وہ ناپسند ہو تو بے جھجک بتا دو۔“
”اگر میں عبدالمجیدکو ٹھکرا بھی دوں تو کون سا مجھے کسی نے مل جانا ہے۔ اگر آپ نہیں تو پھر کوئی بھی شریف آدمی سہی جو اس پہاڑ سی زندگی کو گزارنے میں مدد دے۔“
”گڈ۔“ میں نے تعریفی لہجے میں کہا۔ ”اس کو کہتے ہیں سمجھ داری۔“
کھانا کھا کر میں نے اس سے اجازت لی اور باہر آگیا۔ امجد اور عبدالمجیدگپیں ہانکنے میں مصروف تھے۔عبدالمجیدکی اردو سننے کے لائق تھی۔ مجھے دیکھتے ہی امجد چہکا۔
”کیا رہا؟“”وہ تیار ہے، اب جناب کی مرضی معلوم کرنی ہے۔“ میرا اشارہ عبدالمجیدکے جانب تھا۔
”اسے بھی آپ ہی سمجھائیں۔ میری تو آدھی باتیں اس کے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہیں۔“ میں عبدالمجیدکی طرف متوجہ ہو گیا۔ ”عبدالمجیدہیبت خان اور باسمت خان کو جانتے ہو؟“”جی ہاں،آپ غالبا ڈابیر والے ہیبت خان اور باسمت خان کی بات کر رہے ہیں؟“
”بالکل ۔“”ان کے بارے تو مجھے آج پتا چلا ہے کہ دونوں قتل ہو گئے ہیں۔“”کب ؟“”دو تین دن پہلے۔“
”کیسے آدمی تھے؟“”ٹھیک ہی تھے۔“ وہ مبہم لہجے میں بولا۔
”ان کے قتل کی وجوہات سے واقف ہو۔“”لوگ مختلف قسم کی کہانیاں سنا رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے ان کے قتل کے پیچھے ان کے چچا زاد بھائی جانان خان کا ہاتھ ہے؟ کوئی ان کے دشمنوں کی کارستانی بتلاتا ہے ۔ کسی کی نظرمیں باسمت خان کی بیوی کے آشنا کا کام ہے الغرض جتنے منہ اتنی باتیں۔“
”اچھا یہ بات ہے تو پھر اصل کہانی سنو۔“ یہ کہہ کر میں نے اسے سعدیہ کی کہانی سنا دی۔ اس کے ساتھ مختصراً اپنے بارے میں بتا دیا۔ وہ حیرت سے منہ پھاڑے میری گفتگو سنتا رہا۔”اب تمھیں پتا چل گیا ہو گا کہ ہمیں کیوں اس قسم کے مکان کی تلاش تھی۔“
”جج.... جی جی۔“ وہ پوری طرح میری کہانی میں کھویا ہوا تھا اس یکدم استفسار پر بوکھلا سا گیا۔
”باسمت خان کی بیوی اب ہم دونوں کی منہ بولی بہن ہے۔ بہت شریف اور صاحب کردار لڑکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی عزت بچانے کے لیے وہ اپنی جان پر کھیل گئی۔ اﷲ تعالیٰ کو اس کی زندگی منظور تھی ورنہ اب تک شاید اس کی بوٹیاں بھی چیل کوے کھا گئے ہوتے۔ بہ ہر حال منہ بولی بہن ہونے کے ناطے اس کی ذمہ داری ہم دونوں پر عائد ہوتی ہے اور بہنیں اپنے شوہر کے گھر ہی اچھی لگتی ہیں، اس وجہ سے ہم اس کی شادی کرنا چاہ رہے ہیں، تمھاری نظر میں کوئی اچھا سا رشتا ہو؟“
”م .... مم میں کیا کہہ سکتا ہوں۔“ وہ ایک بار پھر گڑبڑا گیا تھا۔
”اپنے بارے کیا خیال ہے ۔“
”م.... مم .... میں۔“ چند لمحے تو اس کا منہ حیرانی سے کھلا رہا اور پھر جیسے ہی اس کی سمجھ میں میری بات آئی۔ وہ جلدی سے چار پائی سے اٹھ کر میرے قدموں میں آبیٹھا۔
”عبدﷲبھائی....! خدا کی قسم شہزادیوں کی طرح رکھوں گا۔“ وہ میرے گھٹنوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے لجاجت بھرے لہجے میں بولا۔
”ارے کیا کررہے ہو۔“ اس کے ردِ عمل پر میں خفیف سا ہو گیا تھا۔ مگر وہ میری بات ان سنی کرتا ہوا اپنی لے میں شروع رہا۔”اگر ذرا سا بھی شکایت کا موقع دوں تو میرا سر اور آپ کا جوتا۔ گردن بھی کاٹ دو تو اُف نہیں کروں گا۔“”اچھا ٹھیک ہے بھئی۔ میرے گھٹنے تو چھوڑدو۔“ میں ہنستے ہوئے بولا۔”نہیں پہلے مجھے یقین دلاﺅ کہ میں خواب نہیں دیکھ رہا ہوں۔“میں نے اسے کان سے پکڑ کر زور سے کھینچا تووہ ”ہائے‘ کے ساتھ اٹھ گیا۔
”اب یقین آیا۔“”کچھ کچھ۔“ وہ چارپائی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
”باقی شادی ہونے کے بعد آجائے گا۔“ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔”تو عبدﷲ بھائی پھر کب؟“”چار مہینے دس دن بعد ؟“”ک .... کک کیا مطلب ؟“
”بے وقوف وہ بیوہ ہے۔ عدت گزار کر ہی تم سے بیاہ کر سکتی ہے۔“
”میرے تو ذہن سے نکل گیا تھا۔“ وہ شرمندگی سے بولا۔”اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس نے بھی تمھیں قبول کرنے کی رضا مندی دے دی ہے اور اس سے یہی پوچھنے کے لیے میں تھوڑی دیر پہلے اس کے پاس گیا تھا۔“”اچھا....؟“ اس کے لہجے میں خوشگوار سے حیرت تھی۔ ”یاﷲ تیر ا شکر ہے۔“ اس کی بات پر مجھے ہنسی آگئی اور وہ بھی جھینپے جھینپے انداز میں ہنس پڑا۔ اس کے بعد میں نے امجد کو بھی شامل گفتگو کرتے ہوئے عبدالمجیدسے ہونے والی گفتگو سنا دی اور پھر رات گئے تک ہم اسی موضوع پر مصروف گفتگو رہے۔عبدالمجیدکا بس نہیں چل رہا تھا کہ ہماری کس طرح خاطر داری کرے۔ سعدیہ جیسی خوب صورت لڑکی سے شادی اس نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا تھا۔
 لیٹنے کے بعد بھی جب تک مجھے نیند نہ آگئی عبدالمجیدبستر پر کروٹیں لیتا نظر آتا رہا۔ صبح بھی وہ ہم سے بہت پہلے اٹھ گیا تھا یا شاید اسے رات بھر نیند ہی نہیں آئی تھی۔
اگلے دو تین دن ہم نے چودھری کی تلاش میں گزارے، مگر اس کے بارے ہمیں کوئی سراغ نہ مل سکا اور پھر چند دن مزید جنگل خیل میں گزارنے کے بعد ہم نے عبدالمجیدسے دوسرے جنگل خیل کے بارے معلومات حاصل کیں اور عارضی طور پر اس سے الوداع ہو کر دوسرے جنگل خیل کی طرف چل پڑے، رقبے کے لحاظ سے وہ پہلے والے جنگل خیل کے برابر ہی تھا البتہ اس کی آبادی اس سے کم تھی۔ اس کے قرب وجوار میں کافی چھوٹے چھوٹے گاﺅں پھیلے ہوئے تھے ۔ اس تمام علاقے کو چھاننے میں ہمارے دو ہفتے گزر گئے مگر ہم ہنوز پہلے دن کی طرح چودھری کے متعلق چھوٹی سے چھوٹی اطلاع پانے میں بھی ناکام رہے تھے۔ وہاں سے واپس ہم عبدالمجیدکے پاس آگئے۔ ہمارے بعد وہ بھی اپنے طور پر چودھری کی تلاش میں سرگرداں رہا تھا مگر وہ بھی ہمیں کوئی خوشخبری نہ سنا سکا تھا دو دن اس کے پاس ٹھہرنے کے بعد ہم افغانستان کی سرحد پار کر گئے اور سرحدی علاقوں کو اچھی طرح چھان پھٹک کر مہینے بھر کے بعد جنگل خیل واپس آگئے ان دونوں سفروں میں خوش قسمتی سے ہمارے ساتھ کوئی ایسا حادثہ پیش نہ آیا جو قارئین کے گوش گزار کیا جائے۔
اس دن صبح کو اٹھ کر ہم سعدیہ کے ہاتھ کے بنے ہوئے پراٹھوں کے ساتھ انصاف کرنے میں مشغول تھے۔ امجد چاے کے گھونٹ کے ساتھ نولا نگلتے ہوئے بولا.... ”جانو صاحب !....میری مان لو طوفان خان نے ہمیں ڈبل کراس کیا ہے۔“ یہ بات وہ اس سے پہلے بھی چند مرتبہ کر چکا تھا۔
”یار ماجے!.... وہ اس قسم کا بندہ لگتا تو نہیں تھا۔“”یار!.... لگنے کو چھوڑود اگر اس بات پر جائیں تو تُم بھی شکل اور باتوں سے کافی شریف نظر آتے ہو تو کیا یہ حقیقت ہے؟“ اور اس سے پہلے کہ میں اس کی بات کا کوئی کرارا سا جواب دیتا عبدالمجیدایک جھٹکے سے گھر کا بیرونی دروازہ کھول کر اندر آیا اس کے سانس چڑھے ہوئے تھے وہ شاید اپنے کھو کے سے بھاگ کروہاں آیا تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر ہم بے اختیار کھڑے ہو گئے تھے۔
”عبدﷲبھائی۔“ وہ بہ مشکل میرا نام لے پایاتھا۔”ہاں ہاں بولو کیا بات ہے۔“
”عبدﷲ بھائی۔ چو.... چودھری میرے کھوکے پر بیٹھا چاے پی رہا ہے۔“ اس نے اٹک اٹک کر اپنی بات مکمل کی ۔”کیا؟“ مجھے لگا جیسے آسمان پھٹ کر میرے سر پر آن گرا ہو اور پھر پہلے جھٹکے سے سنبھلنے کے بعد ہم دونوں اپنی پوری رفتار سے عبدالمجیدکے کھوکے کی طرف بھاگے جارہے تھے۔ وہ چند سو میٹر کا فاصلہ ہمیں کافی طویل محسوس ہو رہا تھا۔
ہم دونوں پوری طاقت سے عبدالمجید کے کھوکے کی جانب دوڑتے ہوئے جارہے تھے۔ جونھی ہم نے درختوں کے جھنڈ کو عبور کیا۔دو ڈبل کیبن ٹویوٹا گاڑیاں نظر آئیں، دونوں سفید کلر کی تھیں اور دونوں کا رخ ڈابیر کی طرف تھا۔ جس وقت ہم نے درختوں کا جھنڈ عبور کیا اس وقت وہ سٹارٹ ہو کر چل پڑی تھیں، ان کا فاصلہ ہم سے ٹوٹل اڑھائی تین سو گز تھا اور وہاں سے انھیں نشانہ بنانا اتنا مشکل بھی نہیں تھا مگر ہم ایسا نہ کر سکے کہ تیزی میں ہم درستی بھول چکے تھے۔ عبدالمجید سے چودھری کے متعلق سن کر ہم اتنے بدحواس ہوئے تھے کہ ہتھیار لانا ہی بھول گئے تھے۔ اب گاڑیوں کے پیچھے دوڑنا وقت کو ضائع کرنا اور اپنے آپ کو تھکانا تھا۔
”اسے کہتے ہیں بچہ بغل میں اور ڈھنڈورا شہر میں۔“ میں نے قدموں کی رفتار آہستہ کرتے ہوئے کہا۔ ”ہم نے سارے جنگل خیل کو چھان مارا ہے مگر ڈابیر کے متعلق ہمارا گمان ہی نہیں ہوا ہے کہ وہ یہاں چھپا ہو گا؟“
”ڈابیر کی سمت گاڑیوں کے رخ کو دیکھ کر تم یہ بات اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو کہ وہ ڈابیر میں ہی رہائش پذیر ہے۔“”اس سمت میں اور کوئی قابلِ رہائش جگہ ہی نہیں ڈابیر کے علاوہ ۔“ اسی وقت مجید خان بھی ہم سے آن ملا۔”بھاگ گئے؟“ اس نے آتے ہی افسوس کا اظہار کیا۔
’یہ کس وقت تمھارے کھوکے پر پہنچے تھے؟“”یہی کوئی آدھ پون گھنٹا ہوا ہو گا....کھوکے پر آتے ہی انھوں نے دودھ پتی کا آرڈر دیا اور بیٹھ گئے۔ میرے پاس وہاں سے نکلنے کا کوئی بہانہ نہیں تھا مجبوراً میں دودھ پتی بنا کر انھیں پیش کرنے کے بعد ہی وہاں سے رفع حاجت کے بہانے نکل سکا۔“”تُم نے کیسے پہچاناکہ وہ ہمارا مطلوبہ آدمی ہے۔“
”ایک تو آپ نے تفصیلاً اس کا حلیہ بتا دیا تھا دوسرے اس کے ساتھی بار بار اسے چودھری صاحب.... چودھری صاحب کہہ کر پکار رہے تھے اور یہ تو آپ کو بھی پتا ہو گا کہ اس علاقے میں چودھری نہیں ہوتے۔ سب سے بڑھ کر ان تمام کے پشتو بولنے کا لہجہ بالکل آپ ساتھا چونکہ ہمارے علاقے کی پشتو اور آپ کے علاقے کی پشتو میں واضح فرق ہے۔ اس لیے میں نے آسانی سے اسے پہچان لیا۔“
اس دوران ہم کھو کے پر پہنچ گئے تھے۔ وہاں چاے کے کپ کے نیچے پڑا ہوا پچاس روپے کا نوٹ ہمارا منہ چڑا رہاتھا۔ وہ لازمی عجلت میں تھے یا کسی اور وجہ کی بنیاد پر انھوں نے مجید کا انتظار کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا اور بل کی رقم کپ کے نیچے رکھ کر چلتے بنے تھے اور یہ اتفاق چودھری اکبر کی زندگی میں اضافے کا باعث بن گیا تھا۔
”ویسے جانو تمھیں شرم کرنا چاہئے۔“ امجد ایک چارپائی پر بیٹھ کر تکیہ گود میں لیتے ہوئے بولا۔ ”اتنے بڑے کمانڈو بنے پھرتے ہواور دشمن کے پیچھے جاتے وقت ہتھیار گھر چھوڑ آئے۔“
” تُم کون سا ساتھ لے آئے تھے۔“
”میں نے تو تمھیں خالی ہاتھ بھاگتے دیکھ کر سوچا کہ شاید خالی ہاتھ جانا ہے۔“”کیوں تم ننھے بچے ہونا جو میرے نقش قدم پر چلو گے۔“
”تم ملک ہو یار.... اور تمھار احکم ماننا میرا فرض ہے۔“”میں نے کب حکم دیا تھا کہ ہتھیار چھوڑ آﺅ۔“
”ہر حکم دیا تو نہیں جاتا.... ملازم تو بس آقا کو دیکھ کر چلتا ہے۔“
”اچھا اب یہ فضول بکواس چھوڑو اور ڈابیر جا نے کا سوچو۔“
”تو ڈابیر جانا کون سا مشکل ہے؟“ وہ سنجیدہ ہوگیا۔ ”ویسے بھی باسمت خان کے آدمی کون سا ہمیں شکل سے پہچانتے ہیں کہ اپنے آدمیوں کا بدلہ لیں گے۔“”نہیں ان سے تو خیر کوئی خطر ہ نہیں۔ یوں بھی اس بات کو مہینے سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے اور اب تو ہیبت خان اور باسمت خان کا قائم مقام شاید ان کے قاتلوں کی تلاش پر مٹی ڈال چکا ہو۔“”شاید ایسا نہ ہو۔“ امجد نے کہا۔ ”ہو سکتا ہے وہ اب تک ان کے قاتلوں کی تلاش میں ہوں بہ ہر حال یہ ان کا دردِ سر ہے ۔“”تو پھر؟ کیا خیال ہے آج ہی چلیں۔“”نیکی اور پوچھ پوچھ۔“ اس نے میری تائید کی ۔
”چلو اٹھو پھر۔“ میں نے کھڑا ہوگیا۔
”کہاں چل دیئے؟۔“ مجید ہاتھوں میں چاے پکڑے ہماری جانب آرہاتھا پوچھنے لگا۔ ”چاے تو پیتے جاﺅ۔“
”چاے کا وقت نہیں ہے۔“ ہم لمبے قدموں سے گھر کی جانب چل پڑے اور پھر تھوڑی دیر بعد ہم ٹویوٹا ہائی ایس میں بیٹھے ڈابیر کی جانب رواں دواں تھے۔ مجید خان نے ہمارے ساتھ آنے کی بہت کوشش کی تھی مگر اسے ہم سعدیہ کی حفاظت اور خیال رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے وہیں چھوڑ آئے تھے۔ گاڑی نے ڈابیر بازار میں ہمیں اتار دیا اور ہم چہل قدمی کے انداز میں بازار کے اندرونی جانب بڑھ گئے۔ دوپہر کا وقت تھا اور بازار میں کوئی خاص رش نہیں تھا۔
”اب کس سے اس موذی کا پوچھیں؟“”صبر کرو پوچھ لیتے ہیں۔“ میں نے اسے تسلی دی، لیکن میں اس کے اضطراب کو سمجھ رہا تھا اور خود بھی اس کش مکش میں مبتلا تھا کہ آیا ہم حقیقتاً چودھری کے قریب پہنچ چکے تھے یا مجید کو کوئی غلط فہمی ہوئی تھی یہ بھی ہو سکتا تھا کہ وہ ڈابیر کی بجائے کسی غیر معروف مقام پر چھپا ہوا ہو۔ آخر اس کے ذہن میں بھی تو ہماری آمد کا خطرہ پوشیدہ ہو سکتا تھا اور اسی اندیشے سے میں اس کے بارے کسی سے پوچھ نہیں پارہا تھا، مگر زیادہ دیر میری یہ کیفیت برقرار نہ رہ سکی اور خود پر قابو پاتے ہوئے میں ایک چھپر ہوٹل کی طرف بڑھ گیا۔
”دوا چاے جوڑ کا ماما۔“(دو چاے بناو¿ ماما)ہوٹل کے بوڑھے سے مالک سے مخاطب ہو میں نے کہا اور اس نے سر ہلاتے ہوئے ہمیں بیٹھنے کا اشارہ کیا، ہم دونوں سڑک کے کنارے پڑی چارپائیوں پر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد ہی وہ ایک چھوٹی سی کیتلی میں چاے اور دو خالی کپ لے آیا۔ چاے کے برتن اس نے ہمارے سامنے پڑی لکڑی کی ٹیبل پررکھ دیئے اور واپسی کے لیے مڑنے ہی لگا تھا کہ میں نے اسے آواز دی ۔
”خبر واورا ماما۔“( ماما بات سنو)
”جی۔“ وہ رک گیا۔
”ہم نے چودھری اکبر سے ملنا تھا کیا آپ اس کی حویلی کا پتا بتا سکتے ہیں؟“”چودھری اکبر؟“ اس کے لہجے میں حیرانی تھی۔ ” اس نام کے کسی بندے سے تو میں واقف نہیں ہوں۔“
”اس کو یہاں آئے ہوئے چند مہینے ہی ہوئے ہیں۔ اگرآپ ڈابیر میں رہائش پذیر ہونے والے کسی نئے آدمی سے واقف ہوں تو اس کا پتا بتا دیں شاید اس سے ہمیں چودھری کا ایڈریس معلوم ہو جائے۔“”آپ کا مطلب میں سمجھ گیا۔ آپ اس طرح کریں کہ ملک جانان خان سے مل لیں اس سے آپ کو اپنے مطلوبہ بندے کے متعلق تمام معلومات مل جائے گی۔“
”اس کا گھر کس طرف سے؟“ میں مستفسر ہو ا اور ہوٹل والے نے وہیں کھڑے کھڑے مجھے جانان خان کے گھر کی لوکیشن سمجھا دی۔
چاے پی کر ہم ہوٹل والے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے چل پڑے۔ میں نے امجد کو ہوٹل والے سے ہونے والی تمام گفتگو تفصیل سے سنا دی۔
”یہ جانان خان ....یہ وہی نہیں ہے باسمت خان کا آدمی۔“”صحیح پہچانا۔“ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔
”تو پھر کیا خیال ہے چلیں اس کے پاس؟“”کس بہانے سے اسے ملیں گے؟“”میرا خیال ہے، چرس یا اسلحے کے خریدار بن کے اس سے ملتے ہیں اس جیسے بندے ان قبیح کاموں میں ملوث ہوتے ہیں۔“ امجد نے ایک قابل قبول مشورہ دیا۔”گڈ.... بالکل ٹھیک ہے۔“ میں نے اسے شاباش دی۔
”لیکن جانو صاحب !.... پہلے اپنی کلاشن کوف سے جان چھڑالیں....یہ ہم نے جانان خان کے آدمیوں سے ہی چھینی تھی۔“”واقعی یار!.... صحیح یاد دلایا میرے تو ذہن سے ہی یہ بات نکل گئی تھی۔ چلو پہلے اسے ٹھکانے لگاتے ہیں۔“ بازار سے نکل کر ہم سیدھا گاﺅں سے باہر جانے والے راستے پر چل پڑے۔ مگر ہمیں گاﺅں سے باہر نہ نکلنا پڑا راستے ہی میں گن کو ٹھکانے لگانے والی ایک مناسب جگہ نظر آگئی۔ وہ ایک کافی بڑا گڑھا تھا جس سے غالباً گھر بنانے کے لیے لوگ مٹی اٹھاتے رہے تھے۔ اس وسیع گڑھے کے اندر بنے ہوئے چھوٹے گڑھوں میں دو دن پہلے ہونے والی بارش کا پانی جمع کھڑا تھا۔ دائیں بائیں نگاہ دوڑاتے ہوئے میں نے اسی پانی سے بھرے ہوئے گڑھے میں گن کو پھینکااور ہم واپس مڑ گئے ۔ جانان خان کی حویلی ڈھونڈنے میں ہمیں کوئی دقت نہیں ہوئی تھی اس کی حویلی تک پہنچتے پہنچتے ہم نے اس سے ملاقات کا لائحہ عمل طے کر لیا تھا۔
”جی کس سے ملنا ہے؟“ بڑی مونچھوں اور لمبے بالوں والے چوکیدار نے ہمیں حویلی کے دروازے پر رکتے دیکھ کر استفسار کیا۔
”ملک جانان خان سے۔“ ”وہ آپ کو جانتا ہے؟“”نہیں۔“ میں نے انکار میں سرہلایا۔ ”لیکن ہمارا اس کے ساتھ بہت ضروری کام ہے۔“”کام کی نوعیت؟“ وہ ہمارا انٹرویو لینے یہ تلا ہوا تھا۔”کوئی چیز خریدنا ہے۔“
”ہوں۔“ اس نے معنی خیز انداز میں سرہلاتے ہوئے کہا۔ ”تم یہیں ٹھہرو میں پوچھ کر آتا ہوں۔“
اس کے آنے تک ہم خاموش کھڑے رہے۔”آجاﺅ ۔“ تھوڑی دیر بعد ہی وہ نمودار ہوتا ہوا بولا اور ہم سرہلاتے ہوئے اس کے پیچھے ہو لئے حویلی کے اندر ایک دیوارا ٹھا کر زنانہ اور مردانہ حصے تشکیل دیئے گئے تھے چوکیدار ہمیں لیے ایک کمرے میں جا گھسا جس کے اندر ترتیب کے ساتھ تین چارپائیاں پڑئی ہوئی تھیں مگر وہ وہاں رکنے کی بجائے ایک بغلی دروازہ کھول کر اندر چلا گیا۔ اس کمرے میں چارپائیوں کی بجائے فرشی قالین بچھا ہوا تھا اور اس کے اوپر گاﺅ تکئے پڑے ہوئے تھے۔ جوتوں کے لیے تھوڑی سی جگہ چھوڑ کر باقی سارے کمرے کے فرش کو قالین نے ڈھانپ رکھا تھا۔ دیواروں کے اوپر سفید پینٹ کیا گیا تھا جبکہ فرش سے تین فٹ بلندی تک سبز پینٹ سے حاشیہ لگایا گیا تھا۔
”آپ بیٹھیں خان صاحب آرہے ہیں۔“ چوکیدار نے ہمیں قالین پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔ ہم جوتے اتار کر قالین پر بیٹھ گئے ۔ وہ باہر نکل گیا۔ہمیں زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا جلد ہی تین آدمی کمرے میںداخل ہوئے سب سے آگے درمیانی قامت کا سرخ رُو شخص تھا اس کے انداز سے ہم سمجھ گئے کہ وہ ملک جانان خان تھااس کے پیچھے دوخوفناک صورت کے گرانڈیل افراد تھے جو لا محالہ اس کے باڈی گاڈ تھے۔ ہم دونوں انھیں دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے تھے جانان خان نے ہم سے مصافحہ کرکے کہا۔....
”تشریف رکھیں۔“ اور ہمارے بیٹھنے کے ساتھ وہ خود بھی بیٹھ گیا البتہ اس کے باڈی گارڈ کھڑے رہے۔ ابھی میں گفتگو کرنے کے لیے اپنے ذہن میں الفاظ ترتیب دے ہی رہا تھا کہ ایک شخص چاے کے برتن اٹھائے اندر داخل ہوا، مہمان نوازی تو ویسے بھی اس کے علاقے کے لوگوں کا خاصا ہے۔
”ہاں برادر اب بتائیں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟“ چاے کاگھونٹ بھرتے ہوئے جانان خان مستفسر ہوا۔”ملک صاحب !ہمیں ایک من چرس چاہئے.... کیا آپ مہیا کر سکیں گے؟ لیکن شرط یہ ہے کہ مال خالص ہونا چاہئے اور کچا مال بھی نہیں چاہئے پکی ہوئی چرس ہونا چاہئے۔“
مجھے چرس کے متعلق کوئی خاص معلومات نہیں تھیں بس اتنا پتا تھا کہ چرس کچی بھی ہوتی ہے جو پینے والے کو تیلی سے جلا کر پینے کے قابل بنانا پڑتی ہے اورپکی ہوئی بھی ہوتی ہے۔ کچی چرس کی شکل بالکل ایسی ہوتی ہے جیسے نسوار خشک ہو جائے اور پکنے کے بعد اس کی شکل تارکول جیسی ہو جاتی ہے۔ اپنی اسی ادھوری معلومات کی بنیاد پر میں نے اپنی گفتگو کا آغاز کیا تھا۔
”مل جائے گی مگر چند دن انتظار کرنا پڑے گا۔“ ”چند دن نہیں بلکہ آپ کے پاس دو ہفتے ہیں۔ ابھی ہمیں صرف نمونے کے لیے تھوڑی سی چرس چاہئے ہو گی جو ہم اپنے بڑے کے پاس دکھانے کے لیے لے جائیں باقی مال ہم اس کی اجازت سے لینے آئیں گے۔“
”اس کا مطلب ہے آپ لوگوں نے دوسری جگہ سے بھی نمونے کے لیے چرس لینا ہو گی اور جو آپ کے خان کو پسند آئے گی وہی آپ خریدیں گے؟“”آپ ٹھیک سمجھے ہیں۔“ میں اثبات میں سرہلایا۔
”اگر آپ کے خان کو ہمارا مال پسند نہ آیا تومیں اس ایک من چرس کا کیا کروں گا؟“ اس نے ایک جائز بات کی ۔اس کی بات سن کر میں نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور پھرکہا....
 ”ملک صاحب ....!پھر ایسے کریں کے کہ آپ ہمیں نمونے کے لیے چرس دے دیں وہ ہم اپنے خان کے پاس لے جاتے ہیں اگر اسے پسند آگئی تو ہم دوبارہ آ کر آپ کو بتائیں گے اس کے بعد آپ ہمارے مطالبے کے مطابق منگوا لینا۔“
”ہاں یہ ٹھیک ہے۔“ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ ”آپ کو نمونے کے لیے کتنی چرس چاہئے ہو گی؟“
”پاﺅ ادھ پاﺅ ہو جائے تو کافی ہے اور اس مقدار کی پے منٹ ہم ابھی کریں گے۔“”جاگیر دار خان۔“ وہ اپنے ایک باڈی گارڈ کو مخاطب ہوا۔ ”جاﺅ منشی سے ایک پاﺅ خالص چرس لے آﺅ۔ اسے کہنا کہ وہ مال دے جو بعد میں ہم ایک من کی مقدار میں مہیا بھی کر سکیں۔“ 
 ایک باڈی گارڈ۔”جی خان جی۔“ کہہ کر کمرے سے نکل گیا۔”ہمارے علاوہ آپ نے کس کس کے پاس جانا ہے۔“ جاگیردار کے کمرے سے نکلتے ہی وہ مستفسر ہوا .... اس کے اس سوال کا میں کافی دیر سے منتظر تھا۔
”آپ کے علاوہ ڈابیر میں تو صرف چودھری اکبر کے پاس یہ مال مل سکتا ہے، اس کے علاوہ بھی اگر کوئی آدمی ایسا ہے یہاں تو اس کے متعلق آپ ہماری رہنمائی کر دیں بڑی مہربانی ہو گی۔“”ڈیرہ اسماعیل خان والا چودھری اکبر؟“ وہ حیرانی سے مستفسر ہوا۔ 
”جی اس کے علاقے کا تو پتا نہیں ہے۔ صرف اس کا نام اور شہرت سنی ہے۔“”غلط سنا ہے۔“اس نے منہ بنایا۔ ”اس پرچون فروش کے پاس تمھیں10,5کلو سے زیادہ چرس نہیں مل سکتی۔“”مگر بازار میں تو ایک بندہ اس کی بڑی تعریف کر رہا تھا۔“میں نے دل میں بے ساختہ اٹھنے والی خوشی کی لہر کو دباتے ہوئے اپنی بات کا جواز پیش کیا۔ چودھری کے بارے یہ کنفرم ہو جانے کے بعد کہ وہ یہیں ڈابیر میں موجود تھا میرا جانان خان کے پاس آنے کا مقصد پورا ہو گیا تھا۔ اب کسی ترکیب سے اس سے چودھری کی رہائش کی لوکیشن معلوم کرنا رہ گئی تھی۔
جانان خان نے جواب دیا۔”اس طرح کے بندے اسی طرح اپنی شہرت کراتے ہیں۔“ 
 اس کے جواب میں مَیں کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ چوکیدار اجازت مانگ کر اندر داخل ہوا۔”خان جی.... چودھری اکبر نام کا بندہ آپ سے ملنا چاہتا ہے اس کے ساتھ چار باڈی گارڈ بھی ہیں۔“ 
جاری ہے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.