Ads Top

Aur Neel Behta Raha By Annyat Ullah Altamish Episode No. 58 ||اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش قسط نمبر 58


Aur Neel Behta Raha
 By
Annyat Ullah Altamish

اور نیل بہتا رہا
از
عنایت اللہ التمش
 Aur Neel Behta Raha  By  Annyat Ullah Altamish  اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش

 #اورنیل_بہتارہا/عنایت اللہ التمش 
#قسط_نمبر_58

جب سے انسانی معاشرے میں حکمرانی کا سلسلہ شروع ہوا ہے اس وقت سے بغاوت بھی ساتھ ساتھ چلی آ رہی ہے۔ باغیوں نے بڑے بڑے جابر اور ظالم بادشاہوں کے تخت الٹے تھے۔
 بغاوتوں کی تاریخ دیکھیں بعض بغاوت اتنی بڑی تھی اور اتنی مشہور ہوئی کہ تاریخ میں ہمیشہ کے لئے زندہ رہیں گئی ۔
بیشتر بغاوت کچھ کم پیمانے کی تھی اس لئے تاریخ میں جگہ نہ پا سکی۔
بغاوت بڑی ہو یا چھوٹی اسے فرو کرنے یا دبانے کا ایک ہی طریقہ کار چلا آ رہا ہے۔
 باغیوں کے لیڈر کی پکڑ دھکڑ ہوتی ہے تشدد کیا جاتا ہے اور باغیوں کو بے دریغ قتل کیا جاتا ہے۔ عموماً بغاوت دب جاتی ہے لیکن ہمیشہ کے لیے نہیں چنگاری کی طرح اندر ہی اندر سلگتی رہتی ہے، لیڈروں کی گرفتاری اور ان کے باغی پیروکاروں کی قتل وغارت کا بغاوت میں انتقام کا جذبہ بھی شامل ہو جاتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ بغاوت بزور شمشیر فرو کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بغاوت خانہ جنگی کی صورت بھی اختیار کر سکتی ہے اور حکمرانوں کے تختے بھی الٹ جاتے ہیں جو باغیوں کی فتح ہوتی ہے ،اور باغی شکست بھی کھاسکتے ہیں۔
جب سپہ سالار عمرو بن عاص کو یہ رپورٹ دی گئی کے بابلیون میں پولیس میں جو قبطی عیسائی ہیں وہ کہتے پھرتے ہیں کہ وہ ان پسماندہ عربی مسلمانوں کے محکوم نہیں رہ سکتے اور آثار بغاوت کے نظر آرہے ہیں ، تو تمام سالاروں کو یہ توقع تھی کہ سپہ سالار یہی حکم دیں گے کہ ان قبطیوں کو تشدد سے دبا کر رکھا جائے اور اگر وہ ایسے باغیانہ خیالات سے باز نہیں آتے تو انہیں سخت سزا دی جائے، جو دوسروں کے لئے عبرت ناک ہو۔ لیکن عمرو بن عاص جو پورے لشکر کو یقینی موت کے منہ میں ڈال دیا کرتے تھے یہ رپورٹ سن کر بالکل ہی چپ رہے اور گہری سوچ میں گم ہوگئے ان کے ماتھے پر شکن نمودار ہوئے اور پھر ان کے ہونٹوں پر تبسم آگیا۔
 یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ عرب غیر معمولی ذہانت کے لئے مشہور تھے ان میں معجزہ نما شجاعت تھی بلکہ ان کے دماغ ایسی ترکیب سوچ لیتے تھے جو اوسط درجہ ذہن کے انسان کے دماغ میں آ ہی نہیں سکتی تھیں۔
یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ رومیوں نے پولیس کا باقاعدہ محکمہ بنا رکھا تھا، اسلامی حکومت و معاشرت میں ابھی پولیس کا محکمہ نہیں بنا تھا اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پولیس کا محکمہ قائم کیا تھا ،جسے احداث کہتے تھے، اور پولیس افسر کو صاحب الاحداث کہا جاتا تھا ۔
عمرو بن عاص نے گہری سوچ سے نکل کر تمام سالاروں کو بلوایا۔
کل ان قبطیوں کو اپنے لشکر کے کھانے پر مدعو کرنا ہے۔۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔ایک ضروری بات اچھی طرح سن لو اپنے لشکر کے ہر مجاہد سے کہنا کے وہ کھانا اس طرح کھائے جس طرح میدان جنگ میں لڑائی کے دوران کھاتے ہیں اور ان کا لباس جنگی ہوگا۔
 تاریخ میں آیا ہے کہ کوئی ایک بھی سالار نہ سمجھ سکا کہ سپہ سالار کا مطلب اور مقصد کیا ہے۔ اگلے روز بے شمار اونٹ زبح کئے گئے اور ان کا گوشت اس طرح پکایا گیا کہ شوربا زیادہ رکھا گیا ۔ پولیس کے تمام ملازمین کو اس کھانے پر مدعو کیا گیا تھا کھانا زمین پر بیٹھ کر کھایا جاتا تھا اس کھانے پر قبطی عیسائیوں اور مجاہدین کو ایک دوسرے کے بالمقابل بٹھایا گیا۔
مجاہدین نے بڑی تیزی سے کھانا شروع کردیا اور ان کا کھانے کا طریقہ یہ تھا کہ وہ بوٹی منہ میں لے کر کھینچتے تو شوربے کی چھیٹے سامنے بیٹھے ہوئے قبطیوں پر پڑتی تھی ۔ مجاہدین کو اس طرح بدتمیزی سے کھاتے دیکھ کر قبطی ناک بھوں چڑھانے لگے۔ انہوں نے دل ہی دل میں یہ رائے قائم کر لی ہو گی کہ عرب کہ یہ مسلمان جنگلی ہیں اور انہیں سلیقے اور شائستگی سے کھانا کھانے کا کچھ پتہ ہی نہیں ۔ مجاہدین رکابیاں اٹھا کر منہ سے لگاتے اور شوربا پیتے تو پینے کی آوازیں پیدا ہوتی تھیں، کوئی بھی ان مجاہدین کو اس طرح کھاتے دیکھتا تو یہی کہتا کہ ان لوگوں کو اچھا کھانا کبھی نہیں ملا اور ان میں کھانے کا سلیقہ بھی نہیں۔
آخر کھانا ختم ہوا اور قبطی چہروں پر نفرت کا تاثر لیے چلے گئے 
عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ اپنے کچھ آدمی یہ دیکھیں کہ قبطیوں کی رائے کیا ہے، اور وہ کیا باتیں کرتی ہیں؟ 
کچھ مجاہدین قبطیوں کی باتیں سننے چلے گئے انہوں نے سپہ سالار کو آکر بتایا کہ قبطی عیسائی مجاہدین کے خلاف کھلم کھلا نفرت کا اظہار کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ان عربوں کے محکوم نہیں رہیں گے۔
مصری تاریخ دا محمد حسنین ہیکل بٹلر اور تین چار مسلمان تاریخ دانوں کے حوالوں سے لکھتا ہے کہ دو دنوں بعد سپہ سالار نے اپنے سالاروں کو بلوایا اور کہا کہ کل پھر اسی طرح لشکر کے لئے کھانا پکے گا اور قبطی عیسائیوں ہونگے۔ سپہ سالار نے دوسری ہدایت یہ دی کہ مجاہدین کے تمام لشکر کو یہ بتا دیا جائے کہ وہ اس طرح کھانا کھائیں گے جس طرح وہ امن کے وقت کھایا کرتے ہیں ۔
اور ان کا لباس جنگی نہیں بلکہ وہ لباس ہوگا جو وہ اپنے گھروں میں پہنتے ہیں۔
مقریزی نے لکھا ہے کہ سپہ سالار عمرو بن عاص نے مجاہدین کو یہ کہا تھا کہ وہ کھانے پر مصری لباس پہن کر آئیں چنانچہ تمام مجاہدین بڑے صاف ستھرے مصری لباس میں اس دعوت میں آئے ۔مقریزی کی یہ بات صحیح معلوم نہیں ہوتی کیونکہ مجاہدین کا یہ لشکر جب سے مصر میں داخل ہوا تھا اسے لڑائیوں سے ہی فرصت نہیں ملی تھی، تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ انھوں نے مصری لباس سلوا لئے ہونگے ،ویسے بھی مجاہدین اس قسم کی عیاشیوں کے قائل نہیں تھے۔
 بہرحال تاریخ میں یہ واضح ہے کہ مجاہدین اپنے اچھی قسم کے لباس میں کھانے میں شریک ہوئے اب بھی کھانے پر بیٹھنے کی ترتیب وہی تھی جو پہلے کھانے میں رکھی گئی تھی۔ قبطی عیسائی اور مجاہدین آمنے سامنے دسترخوان پر بیٹھے۔ کھانا شروع ہوا تو مجاہدین نے بڑی ہی تمیز شائستگی اور سلیقے سے کھانا کھایا اور قبطیوں کے ساتھ باتیں بھی کرتے اور ہنستے مسکراتے بھی رہے۔ قبطی حیران رہ گئے کہ آج ان میں اتنی تہذیب کیسے آ گئی یہ تو شک کیا ہی نہیں جا سکتا تھا کہ وہ کوئی اور تھے، اور یہ مجاہدین کوئی اور جو تمیز اور سلیقہ والے ہیں ۔
پچھلے کھانے میں قبطی مجاہدین کے خلاف نفرت اور ناپسندیدگی کا اظہار کھلم کھلا کرتے رہے لیکن اس کھانے کے بعد حیران تھے کہ کیا کہیں اور کیسے سمجھیں کہ یہ تبدیلی  کیسے آئی ہے وہ ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ یہ کوئی اور عرب تو نہیں تھے ۔کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا ۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے یہ حکم دیا کے کل صبح تمام لشکر گھوڑدوڑ میدان میں امن کی ترتیب میں اکٹھا ہو گا اور سپہ سالار لشکر کا معائنہ کریں گے۔
 سالاروں نے سپہ سالار کا یہ حکم تمام لشکر تک پہنچا دیا اور مزید جو ہدایات سالاروں کو دی گئی تھی وہ بھی لشکر تک پہنچا دی گئی۔
یہاں یہ بات ذہن میں رکھیں کہ مجاہدین کا لشکر کوئی باقاعدہ فوج نہیں تھی جس کی درجہ بدرجہ تنخواہ مقرر ہوتی اور انہیں باقاعدہ فوج کی طرح ٹریننگ دی گئی ہوتی ہے ۔ تنخواہ دار فوج امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس سے تھوڑا ہی عرصہ بعد بنائی تھی تمام مجاہدین رضاکارانہ طور پر لشکر میں شامل ہوتے تھے۔ تیغ زنی، برچھی بازی ،اور تیراندازی تو مسلمانوں کی گھریلو تربیت میں شامل تھیں۔ لشکر میں انہیں صرف یہ بتایا اور سمجھایا جاتا تھا کہ ایک سالار کے تحت کس طرح لڑا جاتا ہے۔انہیں ڈسپلن کا الگ تھلگ کوئی لیکچر نہیں دیا جاتا تھا نہ ان میں ڈسپلن پیدا کرنے کی کوئی بات ہوتی تھی۔ مجاہدین ایک جذبے کے تحت لشکر میں شامل ہوتے اور محاذوں پر جاتے تھے۔ رومیوں کی فوج باقاعدہ تنخواہ دار فوج تھی اور اسے آجکل کی فوج کی طرح ٹریننگ دی جاتی تھی۔
اگلی صبح ان تمام قبطی عیسائیوں کو جو وہاں کی پولیس میں تھے اور انہیں بھی جو انتظامیہ کے مختلف شعبوں میں کام کرتے تھے گھوڑ دوڑ کے میدان میں اکٹھا کیا گیا۔ تاریخ کی تحریر بتاتی ہے کہ ان قبطیوں کو معلوم ہوگیا تھا کہ مسلمان اپنے لشکر کی نمائش کر رہے ہیں، انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ یہ لشکر باقاعدہ فوج نہیں اور اس کے تمام آدمی رضاکار ہیں۔
قبطی یہ دیکھ کر کچھ حیران ہوئے کہ جس لشکر کو وہ لڑنے والوں کا ایک غیر تربیت یافتہ ہجوم سمجھتے تھے ان میں فوج جیسا ہی ڈسپلن تھا انہیں ہانکنا نہیں پڑتا تھا بلکہ وہ سالاروں کے اشاروں پر حرکات وسکنات کرتے تھے۔ انہوں نے جو لباس پہن رکھے تھے اس کا بھی ایک تاثر تھا جو قبطی عیسائیوں نے خاص طور پر محسوس کیا۔
عمرو بن عاص نے لشکر کی نمائش کچھ سوچ کر کی تھی اور لشکر نے اپنے سپہ سالار کی توقعات پوری کردی۔ عمرو بن عاص ان میں جو تاثر پیدا کرنا چاہتی تھی لشکر نے وہ پیدا کردیا۔ حالانکہ لشکر کے کسی بھی مجاہد کو معلوم نہ تھا کہ کیا تاثر دینا ہے۔
 عمرو بن عاص گھوڑے پر سوار تھے انہوں نے گھوڑے کا رخ موڑا اور قبطیوں کے ہجوم کے سامنے جا رکے۔
 میں نے تمہیں اپنے لشکر کے تین روپ دکھائے ہیں۔۔۔ عمرو بن عاص نے قبطیوں سے خطاب کیا ۔۔۔مجھے بتایا گیا ہے کہ تم اپنے آپ کو بڑا مہذب اور میرے اس لشکر کو جنگلی اور بدتمیز سمجھتے ہو ،میں نے وہ سارے طعنے سنے ہیں جو تم نے مجاہدین کو دیے ہیں، یہ بہت بڑی بدتہذیبی ہے کہ دوسروں کو بد تہذیب کہا جائے، وہ یہی مجاہدین تھے جن کے ساتھ تم نے کھانا کھایا اور جن کے اڑتے شوربے کے چھیٹے تم پر پڑے تھے اور انہوں نے تمہارے خیال کے مطابق غیرشائستگی سے کھانا کھایا تھا، میں تمہیں یہ دکھانا چاہتا تھا کہ انھیں کہا گیا تھا کہ اس طرح کھانا کھائے جس طرح جنگ کے دوران کھانا کھایا کرتے ہیں، میدان جنگ میں یہ کسی سلیقے اور شا ئستگی کی پرواہ نہیں کرتے کیونکہ ان کے سامنے اس سے کہیں زیادہ بڑا مقصد ہوتا ہے اس وقت انہیں کھانے کی پرواہ نہیں ہوتی، اگر کھاتے ہیں تو اسی طرح جلد بازی میں کھا کر اپنے اس فرض کی ادائیگی میں گم ہو جاتے ہیں جو اللہ نے انہیں سونپا ہے۔ میرے قبطی بھائیوں!،،،، پھر میں نے تمہیں ان کا وہ روپ دکھایا ہے جس میں شائستگی بھی ہے ،سلیقہ بھی، اور تہذیب بھی،انہیں صرف اتنا کہا تھا کہ اب تم میدان جنگ میں نہیں اس لئے کھانا اس طرح کھانا جس طرح امن کے وقت کھایا جاتا ہے اور یہ خیال رکھنا کہ تمہارے کھانے پر کچھ مہمان بھی ہوں گے۔ تم نے ان کا یہ روپ بھی دیکھ لیا اور تم حیران ہوتے رہے ہو کہ یہ تو وہی ہیں۔ لیکن ایک دن میں ہی اتنے تہذیب یافتہ کس طرح ہو گئے ہیں۔ انہیں کسی نے بھی نہیں کہا کہ تہذیب کا خیال رکھنا۔
 یہ ہیں ہی تہذیب یافتہ اپنے گھروں میں یہ اسی طرح کھانا کھایا کرتے ہیں،،،،،،،، 
پھر میں نے تمہیں ان کا تیسرا روپ دکھایا ہے میں جانتا ہوں تم انھیں غیر تربیت یافتہ فوجی سمجھتے ہو جو صرف لڑنا جانتے ہیں ۔ تم نے دیکھ لیا ہے کہ انہوں نے نظم و نسق کا کیا مظاہرہ کیا ہے یہ نظم و نسق اور اپنے سالاروں کے اشاروں پر چلنا ان کی فطرت میں شامل ہے، یہ جب ایک لشکر کی صورت میں اکٹھے ہوتے ہیں تو اپنی انفرادیت اپنے امیر یا سالار کے سپرد کر دیتے ہیں، اسلام کے حکم اور اصول کے مطابق اگر ان میں سے تین چار یا کچھ زیادہ اپنے لشکر سے الگ ہو جائیں تو ایک ساتھی کو اپنا امیر جماعت بنا لیتے ہیں۔ اور پھر اس کے حکم کے مطابق عمل کرتے ہیں ۔میں نے تمہیں ان کے یہ تینوں روپ اس لئے دکھائے ہیں کہ تم انہیں گنوار اور اجڈ بدوّ نہ سمجھتے رہو، اور اپنے آپ کو اس خوش فہمی میں مبتلا نہ کرو کہ تم ان کے خلاف نفرت پھیلا کر اپنے لوگوں کو بغاوت پر آمادہ کر لو گے تو یہ مجاہدین تمہارے آگے بے بس ہو جائیں گے، ان کے ساتھ شرافت اور شائستگی سے رہو گے تو یہ تمہاری قدر کریں گے کیونکہ شرافت اور شائستگی ان کی فطرت میں شامل ہے اور اگر تم نے کسی خوش فہمی میں مبتلا ہوکر انہیں جنگلی اور پسماندہ سمجھ کر من مانی کرو گے تو جس طرح انہوں نے تمہارے کپڑوں پر شوربے کے چھٹے پھینکے تھے اسی طرح تمہارے کپڑے تمہارے ہی خون سے لال کر دیں گے، سوچ لو تمہیں کون سی صورت بہتر لگتی ہے ۔
یہ واقعہ لکھنے والے تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ سپہ سالار عمرو بن عاص کا یہ طریقہ کار اور یہ انداز بیشتر قبطی عیسائیوں کو اتنا اچھا لگا کہ ان کے ایک خاص بڑے گروہ نے اسلام قبول کر لیا ۔ لیکن کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اس انداز نمائش میں ایک طنز اور اپنی توہین محسوس کی۔
اے قبطیوں!،،،، اپنی توہین سمجھنے والے قبطی عیسائیوں نے کہا۔۔۔ عربوں نے تمہیں اپنی ٹھوکر پر رکھا ہے۔
 تاریخ میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ کسی لیڈر قسم کے قبطی نے کہا۔۔۔ عربی مسلمان قوم وہ ہیں جس قوم کو کوئی مفتوح اور مغلوب نہیں کرسکتا ۔آج اس قوم نے تمہیں اپنے قدموں تلے مسل ڈالا ہے۔
تاریخ میں یہ بھی آیا ہے کہ ان آوازوں پر قبطی عیسائیوں نے دھیان نہ دیا ان میں سے جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا انکا جزیہ عمرو بن عاص نے وہیں معاف کردیا، اور ساتھ ہی یہ اعلان کردیا کہ آج سے انہیں مسلمانوں کے مساوی حقوق دے دیے گئے ہیں۔
 تاریخ یہ رائے قائم کرتی ہے کہ عمرو بن عاص نے یہ انوکھی اور دلچسپ کارروائی کرکے قبطی عیسائیوں کو ایسا متاثر کیا کہ وہ پوری طرح مسلمانوں کے وفادار ہو گئے۔ عمرو بن عاص ایسی ہی کامیابی حاصل کرنا چاہتے تھے تاکہ جب امیر المومنین کی طرف سے منظوری آجائے کے اسکندریہ کی طرف پیش قدمی کروں تو عمرو بن عاص اطمینان سے اسکندریہ کو روانہ ہو جائیں پیچھے بدامنی اور بغاوت کا خطرہ نہ رہے۔
 محاذوں کے سپہ سالار جب امیر المومنین کو اپنے اپنے محاذ کی صورتحال لکھ کر بھیجتے تھے تو اس طرح کے چھوٹے چھوٹے واقعات بھی لکھ دیتے تھے ،اگر نہ لکھیں تو پیغامات لے جانے والے قاصد خود چھوٹے چھوٹے واقعات سنا دیا کرتے تھے۔ یہ واقعہ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ تک پہنچ گیا انہوں نے (تاریخ کے مطابق) یوں اظہار خیال کیا، خدا کی قسم ابن عاص کی جنگ ٹھنڈی اور نرم ہوتی ہے، اس میں وہ ہیجانی کیفیت پیدا نہیں ہونے دیتا، دوسرے لڑنے والے تلوار سے لڑتے ہیں لیکن ابن عاص کی زبان تلوار سے زیادہ کام کرتی ہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
صرف سپہ سالار عمرو بن عاص ہی نہیں تھے جنہیں امیرالمومنین کی منظوری کا انتظار تھا۔ بلکہ تمام تر لشکر اسکندریہ کی طرف پیش قدمی کے لیے بے تاب ہوا جا رہا تھا، یہ لشکر مسلسل لڑائیاں لڑتا چلا آرہا تھا اسے صرف ایک بار کمک ملی تھی اس کے بعد ایک آدمی کا بھی اس میں اضافہ نہیں ہوا تھا، کمک تو دور کی بات تھی شہیدوں اور شدید زخمیوں کی وجہ سے لشکر کی تعداد اچھی خاصی کم ہو گئی تھی، ان حالات میں اس لشکر کو جسمانی طور پر تھکن سے ٹوٹ پھوٹ جانا چاہیے تھا لیکن اسلام کے ان شیدائیوں کے جذبے اور حوصلے میں عجیب و غریب سی تازگی آتی جا رہی تھی۔
ابن عبدالحکم لکھتا ہے کہ بابلیون کی فتح نے مجاہدین کے جسموں میں جیسے بجلیوں کی سی طاقت پیدا کر دی تھی۔ یہ دراصل ایمان کی تازگی اور پختگی تھی ،ان مجاہدین نے اپنے جسموں کو اللہ کے حوالے کر دیا تھا۔ اور وہ روحانی قوت سے لڑ رہے تھے بابلیون پر یلغار سے پہلے وہ توقع رکھتے ہی نہیں تھے کہ وہ بابلیون جیسا نہ قابل تسخیر قلعہ سر کر لیں گے، بابلیون بلاشک و شبہ ناقابل تسخیر تھا ،مجاہدین نے یہ سر کر لیا۔
یہ تو ان کا ایمان تھا کہ وہ اللہ کی راہ میں لڑرہے ہیں اور اللہ انہیں مدد دے رہا ہے۔ لیکن اب وہ اس یقین سے سرشار ہوئے جا رہے تھے کہ ان پر کوئی غالب نہیں آ سکتا اور وہ کفر پر غالب آئیں گے۔
کچھ مجاہدین ایسے تھے جو صرف اللہ اور اسلام کو پہچانتے تھے لیکن سوچوں کی گہرائی میں جانے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے، انہیں سالاروں نے بتایا تھا کہ مسلمان کا دشمن دراصل اسلام کا دشمن ہے، اور اسلام کا دشمن ہر مسلمان کا دشمن ہے، خواہ وہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں کیوں نہ ہو اور یہ بھی کہ اللہ کا فرمان ہے کہ تم اسلام کے دشمنوں کے خلاف ہتھیار لے کر نکلو گے تو اللہ تمہارے ساتھ ہو گا۔
بابلیون کی فتح ایک شہر کی فتح نہ تھی مجاہدین جوں جوں اس علاقے کی تاریخ اور ثقافت کی قدیم کہانیاں سنتے جاتے تھے ان کے دلوں میں بابلیون کی فتح کی اہمیت بڑھتی جاتی تھی۔ یہ فرعونوں کا ایک بڑا شہر تھا اس شہر کے ارد گرد فرعونوں کے زمانے کے جو کھنڈرات تھے ان میں بھی ایک طرح کی عظمت اور شان و شوکت تھی، یہ کھنڈرات صرف فرعونوں کی ہی یاد نہیں دلاتے تھے بلکہ یہ بھی پتہ چلتا تھا کہ یہ ایک قدیم انسانی تہذیب کے آثار ہیں، مجاہدین تو یہ سوچتے تھے کہ یہ ان فرعونوں کے دور کے آثار تھے جنہوں نے خدائی کا دعوی کیا تھا اور وہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ وہ ہمیشہ اس دنیا میں ہی رہیں گے اور لوگ ان کے آگے سجدے کرتے رہیں گے ،مجاہدین فخر محسوس کرتے تھے کہ اللہ نے انہیں سعادت عطا فرمائی ہے کہ فرعونوں کی اس سرزمین پر دین اسلام کا پرچم گاڑیں، اور لوگوں کے دلوں کو اللہ کے نور سے منور کر دیں۔
عظمت رفتہ کے ان آثار کے گردوپیش پھیلے ہوئے وسیع و عریض سبزہ زار تھے جنہوں نے عرب کے ان مجاہدین کو مخمور سا کر دیا۔ ایسے سبزہ زار عراق اور شام میں بھی تھے، لیکن مصر کے اس قدرتی حُسن میں کوئی اور ہی بات تھی ان سبزہ زاروں میں قبل از مسیح کے صدیوں پرانی تہذیب جیسے اب بھی نظر آ رہی تھی ،اور کبھی یوں محسوس ہوتا تھا جیسے یہ علاقہ اس تہذیب و تمدن کا مدفن ہو اور اس پر اللہ نے یہ سبزہ اگا دیا ہو ، اس لیے نہیں کہ وہ تہذیب وتمدن اللہ کو عزیز تھا بلکہ اس لئے کہ لوگ دیکھیں اور عبرت حاصل کریں۔
بعض کھنڈرات خاموش زبان میں بتاتے تھے کہ کبھی وہ کیا ہوا کرتے تھے، اور ان کی شان و شوکت تھی، ان کی دیواروں پر اس دور کے کاریگروں نے خاکے اور تصویریں کندہ کردی تھیں صاف پتہ چلتا تھا کہ یہ دیویوں اور دیوتاؤں کی شبیہیں ہیں جنہیں اس دور کے لوگ معبود سمجھتے تھے اور یہ ان کی عبادت گاہیں تھیں۔
بابلیون کے قریب ہیں ایسی ایک بہت بڑی عبادت گاہ تھی جسے فتاح کہتے تھے، اس میں سورج کی عبادت کی جاتی تھی ۔
کچھ دور ایسی ایک اور عبادت گاہ تھی جسے سرابیوم کہتے تھے اس میں ایک گائے کے بچھڑے کا بت تھا جو ابھی تک صحیح و سالم کھڑا تھا اس کا نام ایبس تھا ۔ اس عبادت گاہ کے عقب میں بہت سی قبریں تھیں ۔
مجاہدین کو بتایا گیا کہ یہ ان بچھڑوں کی قبریں ہیں جن کی عبادت کی جاتی ہے اور پھر انہیں قربان کردیا جاتا ہے ۔جب عیسائیت کے پیروکار حملہ آور مصر میں داخل ہوئے اور اپنی حکومت قائم کرلی تو انہوں نے ان عبادت گاہوں کو بند کردیا ، لیکن چوری چھپے یہ عبادت جاری رہی۔
 یہ سعادت بھی اللہ نے مسلمانوں کے حصے میں لکھی کے باطل کی عبادت ہمیشہ کے لئے ختم کر دی اس کی جگہ وہ دین حق لائے جسے تا قیامت زندہ و پائندہ رہنا ہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
بابلیون میں مسلمانوں نے نظم و نسق شہری انتظامات اور امن و امان بحال کر دیے تھے، بغاوت کے کوئی آثار نہیں رہے تھے  بلکہ قبطی عیسائی عملاً اپنی وفاداری کا اظہار کر رہے تھے ۔ان میں سے بہت سے عیسائی واپس آگئے تھے جو مسلمانوں کی یلغار کے دوران گھر بار چھوڑ کر بھاگ گئے تھے ،انھیں پتہ چلا کہ مسلمانوں سے تو وہ بلاوجہ ڈرتے رہے ہیں امن وامان تو مسلمان ہی لائے ہیں اور ایک ادنیٰ شہری کو بھی انہوں نے اس کا وقار اور اس کے حقوق دے دیے ہیں۔
ایک روز ایک ضعیف العمر آدمی لاٹھی کے سہارے چلتا سپہ سالار عمرو بن عاص سے ملنے آیا، عمرو بن عاص نے حکم دے رکھا تھا کہ ان سے ملنے کوئی کتنا ہی معمولی اور ادنیٰ آدمی کیوں نہ آئے اسے ٹالنا نہیں اور ان سے ملوا دینا ضروری سمجھا جائے، اگر سپہ سالار وہاں موجود نہ ہو تو اس کی بات سن لی جائے اور اگر کوئی شکایت ہو تو اس کا ازالہ فوراً کیا جائے۔
ضعیف العمر آدمی سے سپہ سالار کے ایک محافظ نے پوچھا کہ وہ سپہ سالار سے کیوں ملنا چاہتا ہے؟،،،،، اس نے بتایا کہ اس کی کمسن پوتی لاپتہ ہو گئی ہے ،اس نے پوتی کی عمر پندرہ سولہ سال بتائی ،محافظ نے فوراً سپہ سالار کو اطلاع دی اور عمرو بن عاص نے اسے فوراً اپنے پاس بلایا۔
 اس لرزتے کانپتے بوڑھے نے بتایا کہ اس کی پوتی اس وقت لاپتہ ہوئی ہے جب رومی فوج اور کچھ شہری یہاں سے نکل رہے تھے وہ سمجھتا تھا کہ کوئی فوجی یا شہری اسے اغوا کرکے لے گیا ہے اس وقت تک اس کی پوتی گھر میں محفوظ تھی۔
میں خوشامد کی بات نہیں کررہا سپہ سالار۔۔۔۔ بوڑھے نے کہا ۔۔۔میں حقیقت بیان کر رہا ہوں کہ مجھے کسی مسلمان پر شک نہیں کہ اس نے میری پوتی کو اٹھا لیا ہو گا، تم لوگوں نے ہماری عزتیں محفوظ کر دی ہیں اس کے باوجود میں نے اپنی پوتی کو گھر میں چھپا کر رکھا ہوا تھا، وہ معمولی شکل و صورت کی ہوتی تو پھر مجھے کوئی ڈر نہ ہوتا، خطرہ یہ نظر آتا رہتا تھا کہ بچی بہت خوبصورت ہے ،اور جسے بہت اچھی لگی وہ اسے اٹھالے جائے گا ،میں تمہارے لشکریوں سے ڈرتا رہا ہوں لیکن ایک مہینہ ہوا مجھے تسلی ہو گئی کہ مسلمانوں سے ڈرنا کوئی معنی نہیں رکھتا، بچی کو میں نے تھوڑی دیر کے لئے باہر جانے کی اجازت دے دی کل ہی وہ باہر نکلی پھر واپس نہیں آئی۔
بوڑھا اس سے آگے بول نہ سکا اس کے آنسو بہے جا رہے تھے اور اس کی ھچکیاں نکلنے لگی ۔ وہ چپ ہو گیا سپہ سالار عمرو بن عاص نے اسے بڑی شفقت سے کہا کہ اس کی پوتی کو تلاش کیا جائے گا اور ان شاءاللہ وہ مل جائے گی پھر اسے اغوا کرنے والوں کو اس کے سامنے سزا دی جائے گی۔
بوڑھے نے بڑے ہی جذباتی لہجے میں عمرو بن عاص کو بتایا کہ گمشدہ پوتی کی ماں جوان اور خوبصورت تھی اس کی کوئی اور اولاد نہیں تھی، جب بابلیون میں مسلمان فاتحین کی حیثیت سے داخل ہوئے اور رومی فوج نکل رہی تھی تو چار رومی فوجیوں نے اس کے گھر پر ہلہ بول دیا۔
بوڑھے نے پوتی کو اندر کہیں چھپا دیا اور فوجیوں نے اس کی ماں کو پکڑ لیا بچی کا باپ بیوی کو بچانے کے لیے آگے بڑھا تو ان فوجیوں نے اسے تلوار مار مار کر کاٹ پھینکا اور پھر اس بچی کی ماں کے ساتھ اجتماعی طور پر ایسا وحشیانہ سلوک کیا کہ وہ مر گئی پھر ان فوجیوں نے گھر میں جو ٹرنک رکھے تھے کھولے اور ان میں تھوڑا سا سونا اور کچھ رقم تھی وہ لے گئے۔
اے قابل قدر سپہ سالار!،،،،، اس ضعیف العمر آدمی نے جذبات سے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔۔میں نے زمانے کے بہت نشیب و فراز دیکھے ہیں وہ دور بھی یاد ہے جب آتش پرستوں نے مصر کو فتح کرلیا تھا، پھر رومی آئے ،اور اب تم آئے ہو ، نہ آتش پرستوں کے دلوں میں انسانیت کا درد تھا ،نہ رومیوں میں، میں ان کے دور حکومت میں شکایت لے کر آتا تو مجھے محل کے دروازے سے دھتکار یا دھکے دے کر رخصت کردیا گیا ہوتا، تمہارے پاس بھی یہی توقع لے کر آیا تھا لیکن تم نے مجھے فوراً اپنے پاس بلا لیا، تو میں تمہیں دیکھ کر حیران رہ گیا ہوں کہ یہ تو انسان لگتا ہے لیکن ہے فرشتہ۔ پھر جس طرح تم توجّہ اور ہمدردی سے میری شکایت سن رہے ہو اس سے میں اور زیادہ حیران بھی ہو رہا ہوں اور پریشان بھی۔
میرے بزرگ!،،،،، عمرو بن عاص نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔۔ حیران بھی نہ ہوں، اور پریشان بھی نہ ہوں، کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ تم صرف مطلب کی بات کرو اور مجھے یہ نہ بتاؤں کہ اچھا کون تھا اور برا کون ہے ،کوئی ایسی بات کرو جس سے مجھے تمہاری بچی کا سراغ لگانے میں مدد ملے۔
بوڑھے کو کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ اس کی پوتی کو کس نے اغوا کیا ہے یا وہ اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ چلی گئی ہے، وہ اپنی پوتی کے لیے بہت ہی جذباتی تھا اس کے آنسو بہے جارہے تھے اور اس نے یہ سنانا شروع کردیا کہ پوتی اس کے ساتھ کتنا پیار کرتی تھی، پوتی کہا کرتی تھی کہ جب تک دادا زندہ ہے وہ شادی نہیں کرے گی، دادا یہ تسلیم ہی نہیں کرتا تھا کہ اس کی پوتی پندرہ سولہ سال کی ہوگئی ہے ،وہ اسے دو یا تین سال کی بچی سمجھ کر اپنے ساتھ سلاتا اور دن بھر اس کے ساتھ کھیلتا رہتا تھا۔
میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکوں گا اے سپہ سالار۔۔۔۔ بوڑھے نے کہا۔۔۔ میں چاہتا ہوں کے مرنے سے پہلے اسے دیکھ لو اور مجھے یقین آجائے کہ وہ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
 سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنے محافظ دستے کے کمانڈر کو بلا کر کہا کہ اس بوڑھے کو عزت سے اپنے پاس بٹھائیں اور پولیس کے بڑے افسر کو بلا لائیں۔
پولیس کا بڑا افسر آیا تو عمرو بن عاص نے اسے بڑی سختی سے کہا کہ وہ اس بوڑھے کی پوتی کو تلاش کرے ۔ پولیس کا یہ افسر قبطی عیسائی تھا اور یہ بوڑھا بھی قبطی عیسائی تھا۔
 ایک بار سن لو جوزف!،،،، عمرو بن عاص نے پولیس کے اس حاکم سے کہا۔۔۔ معلوم نہیں ہرقل کے دورحکومت میں تم لوگ اس قسم کی شکایت پر کیا رویہ اختیار کرتے تھے لیکن ہمارے لئے ایک لڑکی کا لاپتہ ہو جانا کوئی معمولی واقعہ یا جرم نہیں، اگر ہم ایک شہری کی شکایت رفع نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور اپنا فرض ادا نہیں کررہے ۔
حقیقت یہ ہے سپہ سالار۔۔۔ جوزف نے کہا۔۔۔ آپ سے پہلے ایسی کوئی شکایت اوپر تک پہنچتی ہی نہیں تھی ،اسکا مطلب یہ نہیں تھا کہ کسی کو کبھی کوئی شکایت ہوئی ہی نہیں اصل میں کوئی جرات نہیں کرتا تھا کہ ایسی شکایت لے کر کسی بڑے حاکم کے پاس چلا جائے ،کیوں کہ ہر کسی کو معلوم تھا کہ نہ صرف یہ کہ سنوائی نہیں ہوگی بلکہ بےعزتی کر کے بھگا دیں گے۔
اب ذہن میں رکھ لو کہ رومی حکمران چلے گئے ہیں اور یہاں اللہ کی حکمرانی ہے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔اب یہاں اللہ کا قانون چلتا ہے جس میں کسی کی حیثیت دیکھے بغیر انصاف ملتا ہے، میں ذرا سی بھی کوتاہی برداشت نہیں کروں گا اور مجھے زیادہ سے زیادہ ایک دن میں بتایا جائے کہ کیا کوشش ہوئی اور لڑکی کا کچھ سراغ ملا ہے یا نہیں، اس بوڑھے کو لے جاؤ اور دلجمعی اور محنت سے سراغرسانی کرو۔
جوزف نے سپہ سالار کو یقین دلایا کہ وہ کوتاہی نہیں کرے گا، پھر اس نے یہ خیال ظاہر کیا کہ لڑکی جوان ہو گئی ہے اور ہوسکتا ہے وہ اپنے کسی چاہنے والے کے ساتھ چلی گئی ہو ۔
عمرو بن عاص نے یہ رائے سن کر کہا کہ یہ معلوم کرنا اس کا کام ہے کہ وہ اپنے مخبروں سے اور ادھر ادھر سے پوچھ کر معلوم کرے کہ لڑکی کسی سے ملتی ملاتی ہوگی، ایسی ملاقاتیں چھپ نہیں سکتی۔
محترم سپہ سالار !،،،،،جوزف نے کہا ۔۔۔ایک امکان اور ہے شاید اس طرف دھیان نہ دیتے، لیکن میں چونکہ سراغ رساں ہوں اس لیے ایسے واقعات کے ہر پہلو پر غور کرتا رہا ہوں اور گہرائی میں بھی گیا ہوں یہ الگ بات ہے کہ عملاً کچھ بھی نہیں کر سکتا ،میں نے دیکھا ہے کہ ہر تین سال بعد اسی عمر کی ایک لڑکی اغوا ہوتی ہے اور پھر اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا، اس سے پہلے جو لڑکیاں اغواء ہوئی ہے وہ بابلیون کی نہیں تھیں کسی بھی شہر یا گاؤں سے ایک کمسن لڑکی اغوا ہوتی رہی ہے، یہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو میں نے بیان کیا ہے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص اتنی لمبی بات سننے کے عادی نہیں تھے دوٹوک بات کرتے اور دوٹوک بات سنتے تھے۔ انہوں نے جوزف سے کہا کہ وہ فوراً اصل بات پر آجائے۔
 معافی چاہتا ہوں سپہ سالار!،،،،، جوزف نے کہا ۔۔۔میں بات صرف اس لئے لمبی کر رہا ہوں کہ آپ اچھی طرح سمجھ لیں یہ آپ کے لیے ایک نئی بات ہے یہاں سے کچھ دور ایک قدیم عبادت گاہ ہے جس کا نام سرابیوم ہے، آپ نے شاید اس عبادت گاہ کے کھنڈرات دیکھے ہوں گے ہو سکتا ہے آپ اندر بھی گئے ہو ، ان کھنڈرات میں سے ایک راستہ ایک اور طرف کھلتا ہے جس سے باہر کا کوئی آدمی واقف نہیں ،غار جیسا ایک دہانہ ہے جس کے اندر ایک اور دنیا آباد ہے۔
ہاں جوزف میں ان کھنڈرات کے اندر گیا تھا۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ دور اندر تک نہیں گیا، اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ ایک فرقے کی عبادت گاہ ہے اور اسے سرابیوم کہتے تھے،،،،،،، اب موقع نکال کر اس غار کے اندر بھی جاؤں گا جس کا تم نے ذکر کیا ہے۔
 کبھی ایسی جرات نہ کرنا سپہ سالار !،،،،جوزف نے کہا ۔۔۔آپ چلے تو جائیں گے لیکن واپس نہیں آسکیں گے، مجھے معلوم ہے اور شاہ ہرقل کو بھی معلوم تھا ،اور شاہ ہرقل کے بیٹے قسطنطین کو بھی اس غار کا راز معلوم تھا پہلے میں یہ بتاتا ہوں کہ اس کے اندر کیا ہوتا ہے، وہاں ابھی تک عبادت ہو رہی ہے اس فرقے کے کچھ پیروکار موجود ہیں۔
 اس عبادت گاہ میں غالباً ایبس نام کے بچھڑے کی عبادت ہوتی تھی۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔
ہاں میرے محترم سپہ سالار!،،،،، جوزف نے کہا ۔۔۔آپ نے ان کھنڈرات میں ایبس بچھڑے کا بت دیکھا ہوگا میں نے چونکہ پوری سراغ رسانی اور تحقیقات کی ہے اس لیے وثوق سے بتا رہا ہوں کہ وہاں اب بھی اس بچھڑے کی عبادت ہوتی ہے اور ہر تین سال بعد ایک بچھڑے اور اس کے ساتھ ایک نو عمر کنواری لڑکی کی قربانی بھی دی جاتی ہے۔
 تم لوگ تو عیسائی تھے ۔۔۔عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔شاہ ہرقل تو کٹر عیسائی تھا کیا اس نے یہ ظالمانہ عبادت بند نہیں کروا دی تھی، مجھے بتایا گیا تھا کہ مصر میں عیسائیت کی حکومت آتے ہی ایسی تمام عبادت گاہیں بن کر دی گئی تھی، جن میں سورج کے پجاریوں کی بھی عبادت گاہ تھی۔
قابل احترام سپہ سالار!،،،،، جوزف نے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ لا کر کہا۔۔۔۔ آپ کو ٹھیک بتایا گیا ہے کہ شاہ ہرقل نے ایسے تمام قدیم معبد اور مندر بالکل ہی بند کروا دیے تھے۔ لیکن سرابیوم کو بند نہ کروا سکا نہ کروا سکتا تھا۔ لیکن شاہ ہرقل وہمی آدمی تھا اس کا اصل مذہب شہنشاہیت تھا اور یہ بھی کہ وہ اسکندر اعظم کی طرح ساری دنیا کو فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کرنا چاہتا تھا عیسائیت اس کی نگاہ میں ثانوی بلکہ غیر اہم حیثیت رکھتی تھی،،،،،،، 
شاہ ہرقل سرابیوم کی عبادت گاہ بھی بند کروا دی تھی اور اسے یقین تھا کہ اس فرقے کا نام و نشان مٹ گیا ہے، لیکن کچھ عرصہ بعد پتہ چلا کہ کھنڈرات کے اندر ڈھکا چھپا ایک راستہ ہے جس میں داخل ہو جاؤ تو آگے عبادتگاہ آجاتی ہے، یہاں ابھی تک ایبس بچھڑے کو پوجا جا رہا ہے۔ شاہ ہرقل نے ایک جرنیل سالقوس کو حکم دیا کہ وہ جاکر اس عبادت گاہ کو بند کروا دے اور وہاں جو کوئی بھی ہے اسے پکڑ کر باہر لائے اور قتل کردے،،،،، جرنیل سالقوس کچھ فوجی ساتھ لے کر گیا، اور شام کو شاہ ہرقل کو یہ اطلاع ملی کہ یہ جرنیل اپنی فوجی جماعت کے ساتھ اندر چلا گیا تھا لیکن کہیں سے ایک تیر آیا جو اس کے پہلو میں اتر گیا اور جرنیل مارا گیا اس کے باقی فوجی وہاں سے بھاگ گئے ، اگلے ہی روز شاہ ہرقل ایسا بیمار پڑا کے اس کے بچنے کی کوئی امید ہی نہ رہی، طبیبوں نے بڑی مشکل سے اسے صحت یاب کیا ، ایک فوجی نے بتایا کہ ان تاریک کھنڈرات کے اندر سے ایک آواز آئی تھی کہ اس عبادت گاہ پر جو بادشاہ ہاتھ رکھے گا وہ زندہ نہیں رہے گا اور اس کی سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گی،،،،،، 
شاہ ہرقل پر یہ وہم طاری ہو گیا کہ اس کی یہ پراسرار بیماری اس کے اس اقدام کا نتیجہ تھی جو اس نے سرابیوم کے خلاف کیا تھا۔ سالقوس جیسا قابل اور تجربہ کار جرنیل مارا گیا ۔پھر وہ وقت آیا جب شاہ ہرقل ملک شام فتح کرلیا اور اب وہ عراق اور عرب کو بھی فتح کرنے کے منصوبے بنا رہا تھا ۔فارس بہت بڑی جنگی طاقت تھی جسے آپ نے توڑا ہے، شاہ ہرقل فارس سے سارے علاقے چھین لینا چاہتا تھا اس نے مصر اور شام سے فارسیوں کو بے دخل کر کے بھگا دیا تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ روم فارسیوں کے ٹکر کی جنگی طاقت تھی۔ شاہ ہرقل نے فارسیوں کو شکست دے کر اپنے آپ کو اس خوش فہمی میں مبتلا کرلیا تھا کہ اب اس کے سامنے آنے والی کوئی اور جنگی طاقت نہیں رہی اور اب وہ ساری دنیا کا فاتح ہوگا۔
لیکن جوزف!،،،، عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔اس میں مجھے کوئی شک نہیں کہ روم فارس کی ٹکر کی جنگی طاقت تھی لیکن فارسی اور ادھر رومی یہ ذہن سے اتار بیٹھے تھے کہ اوپر ایک اور طاقت ہے جو جسے چاہے طاقتور بنا دے اور طاقتوروں کو اتنا کمزور کردے کہ وہ حشرات الارض بن جائیں ۔ کیا ہم مسلمان جنگی طاقت کے لحاظ سے کسی شمار میں آتے تھے؟ 
میں یہی کہنا چاہتا ہوں سپہ سالار!،،،، جوزف نے کہا۔۔۔ پہلے مجھے سرابیوم کی عبادت گاہ کی بات کر لینے دیں،،،،،،،، شاہ ہرقل شام میں تھا پیچھے مصر میں اس کا بیٹا قسطنطین تھا جو مصر کا قائم مقام حکمران بھی تھا اور جرنیل بھی، جوان آدمی تھا اور وہ اس قابل تھا کہ اسے جرنیل بنایا جاتا ، سلطنت کا وفادار تھا اور بڑا ہی قابل جرنیل ، اس کے کان میں سرابیوم کی عبادت گاہ کی بھنک پڑی ،کسی ذریعے سے اسے معلوم ہوا کہ وہاں ہر تین سال بعد ایک گائے کے بچھڑے کی اور کمسن لڑکی کی قربانی دی جاتی ہے۔ قسطنطین نے حکم دیا عبادت گاہ کو بالکل تباہ کر دیا جائے اور بچھڑے کا بت توڑ کر باہر پھینک دیا جائے اور یہ عبادت گاہ چلانے والوں کو قتل کر دیا جائے،،،،،،،، 
فوجی گئے اور نہ صرف ناکام لوٹے بلکہ چار پانچ فوجی پراسرار طریقے سے مارے گئے اور باقی ایسی خوفزدگی کے حالت میں واپس آئے کہ ان میں سے کسی کے منہ سے کوئی بات نہ نکلتی تھی، یہ سب بولنے کے قابل ہوئے تو ہر ایک نے یہی ایک بات بتائی کہ کہیں سے ایک آواز آتی تھی کہ جو کوئی اس عبادت گاہ کو تباہ کرنے کی کوشش کرے گا وہ خود تباہ ہو جائے گا،،،،،،، 
ہم میں سے کسی نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ عرب کے ریگزاروں میں سے ایک قوم اٹھے گی اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف غالب آجائے گی مجھے یاد ہے کہ جب آپ کی قوم کے ساتھ آٹھ ہزار نفری کے لشکر نے ملک شام پر پہلا حملہ کیا تھا تو شاہ ہرقل نے نفرت سے کہا تھا کہ چند گیدڑ ایک شیر کے مقابلے کو آئے ہیں، لیکن جنہیں اس نے گیدڑ کہا تھا انہوں نے شاہ ہرقل کو شام سے اس طرح پسپا کیا کہ اس کی زیادہ تر فوج کٹ گئی اور باقی تتربتر ہو کر بھاگی ۔
آپ کو یہ معلوم نہیں ہو گا کہ ہمارا ایک جرنیل کمک لے کر شام گیا تھا لیکن اس وقت وہاں پہنچا جب ہماری فوج پسپا ہو رہی تھی،،،،، 
اس جرنیل نے شاہ ہرقل کو بتایا کہ قسطنطین نے سرابیوم کی عبادت گاہ کو تباہ کرنے کی کوشش کی تھی اس نے پوری بات سنائی۔
 پھر قسطنطین کو بہت ڈانٹا کے اس نے اس عبادت گاہ پر ہاتھ ڈالا تھا اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک گمنام قوم کا مٹھی بھر لشکر ہمارے قدم اکھاڑ چکا ہے، اور اس نے ملک شام پر قبضہ کر لیا ہے وہ کہتا ہے کہ اس عبادت گاہ کی توہین کی سزا ہے ،،،،،،میں نے آپ کو بتایا ہے کہ شاہ ہرقل وہمی آدمی تھا۔
جوزف!،،،،،،، سپہ سالار عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ انسان جسمانی طور پر کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو وہ صرف ایک کوئی سا وہم ذہن میں بٹھا لے تو اس کی جسمانی طاقت کسی کام نہیں آئے گی، ہم اللہ کا پیغام لے کر آئے ہیں جو یہ ہے کہ اصل طاقت اور حکمرانی اللہ کی ہے، اس میں کوئی شک نہیں اور کوئی وہم نہیں، کیا تم نے دیکھ نہیں لیا کہ میرے ساتھ کتنی کچھ جنگی طاقت ہے لیکن اس لشکر کی فتوحات دیکھ لو یہ میری طاقت نہیں یہ اللہ کی طاقت ہے ،اور ہم پر کوئی وہم طاری نہیں۔
صرف میں نہیں سپہ سالار!،،،، جوزف نے کہا۔۔۔ میرے ساتھہی اور مجھ سے اوپر کے رتبوں کے قبطی عیسائی اسلام قبول کریں یا نہ کریں یہ مان گئے ہیں کہ عرب کے ان مسلمانوں کے پاس کوئی روحانی طاقت ہے ورنہ فارسیوں اور رومیوں کو کوئی اس طرح شکست نہیں دے سکتا ، کسریٰ ایران کا صرف نام باقی رہ گیا ہے، آپ نے مصر لے لیا ہے اور اب دیکھتے ہیں کہ قسطنطین باقی مصر کو آپ سے بچاتا ہے یا نہیں۔
اس وقت ہم ایک لڑکی کی گمشدگی کی بات کر رہے ہیں اس لئے میں کوئ اور بات چھیڑنا نا مناسب سمجھتا ہوں۔
اگر کوئی ضروری بات ہے تو وہ مختصراً بتا دو۔۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔پوری بات پھر کبھی سن لوں گا۔
بات تو لمبی ہے سپہ سالار!،،،،،، جوزف نے کہا۔۔۔۔ ذرا سا اشارہ دیتا ہوں بزنطیہ میں شاہ ہرقل کے مرنے کے بعد شاہی محل میں تخت و تاج کی وراثت پر رسا کشی شروع ہوچکی ہے اور ہوسکتا ہے یہ خانہ جنگی کی صورت اختیار کرلے ملکہ مرتینا کو تو میں جادوگرنی کہوں گا وہ جو چاہتی ہے کر بھی لیتی ہے اور دوسروں سے کروا بھی لیتی ہے ۔ نئی خبر یہ ہے کہ قسطنطین نے شاہ ہرقل کے بنائے ہوئے اسقف اعظم قیرس کو جلاوطنی سے واپس بلا لیا ہے۔ وہاں اگر کسی کو مصر کا غم ہے تو وہ صرف قسطنطین ہے۔ ملکہ مرتینا اپنے بیٹے کو تخت پر بٹھانا چاہتی ہے ان حالات میں مصر کی رومی فوج کو شاید بزنطیہ سے کمک نہ ملے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص بزنطیہ کی بات سننا تو چاہتے تھے لیکن اس وقت ان کے ذہن پر یہ لڑکی سوار تھی اس کے علاوہ وہ اس کشمکش سے بے خبر نہ تھے جو بزنطیہ کے شاہی محل میں چل رہی تھی، انہیں اپنے خفیہ ذرائع سے وہاں کی خبریں مل رہی تھی، انہوں نے جوزف سے پوچھا کہ اس کی رائے کیا ہے؟ 
لڑکی اسی عبادت گاہ سے ملے گی۔۔۔ جوزف نے کہا۔۔۔ مجھے یاد ہے کہ تین سال پہلے ایک لڑکی روضہ جزیرہ سے لاپتہ ہو گئی تھی،یہ الگ بات ہے کہ اس کے باپ کی شکایت کسی نے نہیں سنی تھی آپ سوچ لیں کہ ان کھنڈرات میں کچھ آدمیوں کو بھیجنے کا خطرہ مول لیں گے یا نہیں۔
تم شاید نہ سمجھ سکو جوزف!،،،،، عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔۔ مجھے اپنی جان کا خطرہ بھی مول لینا پڑا تو لونگا میں اس لڑکی کے باپ کے آگے نہیں اپنے اللہ کے آگے جواب دہ ہوں ، اس کے بعد میں اپنے امیرالمومنین کے آگے جواب دہ ہوں، رہی بات لڑکی کے باپ کی تو لڑکی کی گمشدگی کی شکایت کے بعد میں لڑکی کو اپنی بیٹی سمجھنا فرض سمجھتا ہوں ،میں نے اتنی لمبی بات کبھی نہیں سنی آج صرف اس لئے سنی ہے کہ شاید کوئی بات میرے فرض کی ادائیگی میں میری مدد کر سکے۔
 عمرو بن عاص نے اسی وقت اپنے سب سے زیادہ نڈر اور خطرہ مول لینے والے سالار زبیر بن العّوام رضی اللہ عنہ کو بلایا انہیں لڑکی کی گمشدگی کی بات مختصراً سنا کر کہا کہ وہ جوزف کو ساتھ لیں اور کوئی ایسے ایک دو آدمی بھی ساتھ لے لیں جو ان کھنڈرات سے پوری طرح واقف ہو، اور جتنے مجاہدین ساتھ لے جانا چاہتے ہیں لے جائیں اور وہاں چھاپہ ماریں، انھوں نے یہ بھی کہا کہ لڑکی وہاں سے نہ ملی تو اس کی عبادت گاہ کو تباہ کر دیں ،اور وہاں جو آدمی ہوں انہیں پکڑ کر لے آئیں۔

#جاری_ہے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.