Ads Top

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر 51 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi

 by 

Abu Shuja Abu Waqar 


غازی از ابو شجاع ابو وقار
 پیشکش محمد ابراہیم
51 قسط نمبر
 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar 
Presented By Muhammad Ibraheim
 Episode 51
کھٹمنڈو کے گیسٹ ہاؤسز میں ٹھہرے ہوئے یہ ہیپی جوڑوں کے پاس جب مال ختم ہو جاتا تو یہ سب شیو کے مندر کی سیڑھیوں پر بیٹھے مانگتے نظر آتے ہیں پہاڑ کی چوٹی پر بنے ہوئے اس مندر کی 85 بڑی سیڑھیاں ہیں وہ مشرقی لوگ جو ان یورپ والوں کو بہت بڑا سمجھتے ہیں ان کو چاہیے کہ انکی اگر انہوں نے اصلی حالت دیکھنی ہے تو وہ کھٹمنڈو میں شیو مندر جا کر انکو دیکھیں تاکہ اپنی احساس کمتری والی بیماری کو ختم کر سکیں. اس مندر میں میرے جانے کا مقصد ان تین اسرائیلی لڑکیوں کی تلاش تھا جو ایک اعلی سطح کے ہوٹل میں ٹھہری ہوئیں تھیں ان میں میری دلچسپی کیوجہ یہ تھی کہ تین مہاجر جوان لڑکے جو پڑھے لکھے بھی تھے غائب تھے ان کے متعلق پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ آخری بار ان تین لڑکیوں سے ملتے ہوئے دیکھے گئے تھے اس کے بعد ان کا کچھ پتہ نہی چلا کہ وہ کہاں گئے ہم لوگ پروگرام کے مطابق شیو مندر کے پہاڑ کے قریب پہنچ کر گاڑی سے اترے اور مندر کی سیڑھیاں چڑھنے کے لیے میں نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا ہی تھا کہ وہ ہیپی صدائیں لگانے شروع ہو گئے ہیلپ بھیک مانگنے کی صدائیں لگانے لگے یقین کریں انکی حالت کراچی میں صابری ہوٹل کے قریب فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے نشئیوں سے بھی بدتر تھی بڑھے ہوئے بال میلے کپڑے بدبوادار حالت میں ہرے کرشنا ہرے رام کے نعرے لگاتے ہوئے بھیک مانگ رہے تھے ان مغربی ممالک کے ہیپیوں کو اس حالت میں دیکھ کر مجھے خوشی ہو رہی تھی جو مسلمانوں کو غلط کہتے ہیں میں نے ان میں پچاس پچاس روپے تقسیمِ کرنے شروع کیے تو سب ہیپی میرے پاؤں کو میرے ہاتھوں کو چھونے کو بے تاب ہو رہے تھے اچانک کسی نے مجھے بازو سے پکڑا مجھے اس کا پکڑنا ناگوار گزرا مگر جب نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ شکل مجھے کچھ جانی پہچانی سی نظر آئی اس نے کہا کہ دوست ہم نے گورکھ پور سے نیپال تک اکھٹے سفر کیا تھا نشے اور بھوک نے اسکی ایسی حالت کر دی تھی کہ میں فوری پہچان نہ سکا میں نے اس سے ہاتھ ملایا اور کہا کہ میرا انتظار کرو میں ان سے فارغ ہو کر تم سے ملتا ہوں ہیپی مجھ سے پیسے لیتے اور فوراً ہی ایک جانب بھاگ جاتے میں ان سے فارغ ہو کر جرمن کے پاس آیا اور اس سے حال احوال پوچھا اس نے کہا کہ جو کچھ دینا ہے جلدی دے دو ورنہ یا تو چرس ختم ہو جاے یا پھر اسکے دام بڑھ جائیں گے میں نے اسے 200 روپے دیتے ہوے کہ میں ان تین اسرائیلی لڑکیوں سے ملنا چاہتا ہوں جو تم لوگوں میں شامل ہیں اور اگر تم مجھے ان کے متعلق معلومات دوگے تو میں تمہیں بہت سارے پیسے دوں گا جرمن کو دو سو روپے ملے تھے وہ اسکی اوقات سے زیادہ تھے اس نے کہا کہ کافی ہیں
اگر تم ان کتیا کو تلاش کرنا چاہتے ہو تو ٹوررسٹ ہوٹل میں تلاش کرو یہ کہتے ہی وہ ہیپی باقیوں کے پیچھے بھاگ گیا ہم لوگ کچھ ادھر ادھر گھومنے کے بعد واپس اپنے ہوٹل لوٹ آئے شام کو میں چنگ وا ہوٹل گیا مریم سے ملا اور اسے اس ہوٹل میں جانے کی اجازت مانگی اس نے مخالفت کی لیکن جب میں نے اسے حقیقت بتائی تو اس نے مجھے جانے کی اجازت دے دی
 ٹورسٹ ان ایک معمولی گیسٹ ہاؤس تھا جس کے اندر ایک بڑا ہال چرس نوشوں کے لیے مخصوص تھا دونوں چینی ساتھی میرے ہمراہ تھے یہ ہال چرس کی بو سے بھرا ہوا تھا تقریباً چالیس مرد عورتیں چرس کے نشے میں چور بے ہنگم میوزک پر ناچ رہے تھے اسی ہال کے ایک کونے میں کچھ ہیپی مرد عورتیں آپسمیں ایسی حرکات کر رہے تھے جنہیں میں لکھنے سے قاصر ہوں ایسے ماحول اور چرس کے دھویں سے میرا دم گھٹنے لگا اور میں ساتھیوں کے ساتھ باہر آ گیا اتنی ساری لڑکیوں میں ان تین اسرائیلی لڑکیوں کو تلاش کرنا مشکل تھا میں نے ریسیپشن سے ان لڑکیوں کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ دن کے بارہ اور دو کے درمیان یہ لڑکیاں اپنے کمروں سے باہر آتی ہیں میں واپس ہوٹل آ گیا اور مریم کو کال کر کے ساری روداد سنا دی جس ماحول میں یہ لڑکیاں رہتی تھیں اس ماحول میں ان لڑکیوں سے ملنا اور کچھ اگلوانا ناممکن تھا اگر یہ اسرائیلی ادارے موساد کے لیے کام کر رہیں ہیں تو انکی جرآت پر میں حیران تھا کیونکہ انہوں نے اپنے ایڈریس اسرائیل کے ہی لکھوائے تھے ہوٹلز میں غیر ملکیوں کا پاسپورٹ جمع کروانا لازم تھا موساد تو دنیا بھر کی جانی مانی سیکرٹ ایجنسی تھی کوئی معمولی جاسوسی ادارہ بھی اپنے ایجنٹوں کو ملکی پاسپورٹ دے کر دوسرے ممالک میں جاسوسی کے لیے نہیں بھیجتا موساد کے لیے ان کے لیے کسی دوسرے ملک کے پاسپورٹ حاصل کرنا بہت معمولی کام تھا میری اطلاع کے مطابق موساد کے ہیڈ کوارٹر میں ہی دنیا بھر کے ممالک کے جعلی پاسپورٹ موجود تھے کھٹمنڈو میں پاکستان کے خلاف کام کرنے کے چانس نہیں تھے یہاں پاکستان کا چھوٹا سا سفارت خانہ اور چند ہزار پاکستانی مہاجر تھے جنکی اکثریت انگریزی نہیں جانتی تھی نیپال جیسے بےضرر اور چھوٹے سے ملک میں دنیا بھر کے سفارت خانے موجود تھے اور ملکوں کی جاسوسی ایجنسیاں خاص کر امریکن ایجنسی کے ایجنٹ بہت سرگرم عمل تھے اور ان کا مشترکہ ٹارگٹ چین تھا جو بہت تیزی کے ساتھ دنیا میں ایک طاقت بن کر ابھر رہا تھا ان اسرائیلی لڑکیوں (جو موساد کے لیے کام کرتی ہیں) کے پاس پاسپورٹ اسی لیے تھے کہ کوئی بھی مشکل میں وہ دوسرے ممالک سے مدد حاصل کر سکیں یا انہیں اطلاعات فراہم کر سکیں کیونکہ چین کی جاسوسی کرنا ان سب کا مشترکہ مقصد تھا ان تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے لیے میں نے اپنی بے مائیگی کو دیکھا میں اور میرے تینوں محافظ بھی مل کر ان ہر قسم کی وسائل کی حامل ایجنسیوں سے ٹکرانے کی پوزیشن میں نہیں تھے چاروں مہاجر لڑکے اپنی مرضی سے ان تک پہنچے تھے اور پھر غائب ہو گئے انہیں کہیں سے بھی جبراً اغوا نہیں کیا گیا تھا اور اس بات کا ٹھوس ثبوت بھی نہیں تھا کہ واقعی وہ آخری بار ان لڑکیوں کے ساتھ ہی دیکھے گئے تھے سب سے تعجب والی بات یہ تھی کہ لڑکوں کے والدین نے اسکی روپوٹ نہ تو پاکستانی سفارت خانے میں کی تھی اور نہ کوئی کیس کیا تھا یہ سب سوچ کر میں نے اس معاملے پر خاموش رہنا بہتر سمجھا اور اس واقعے کو بلا دیا ٹوررسٹ ان میں جانے کے تیسرے روز جب میں رات کو چنگ وا ہوٹل سے واپس اپنے ہوٹل پہنچا تو ریسیپشن سے مجھے پتہ چلا کہ ایک مرد اور ایک عورت کافی شاپ میں اس کا انتظار کر رہے ہیں میری جان پہچان میں ایسا کوئی نہ تھا جو بغیر اطلاع دیئے رات 11 بجے اس طرح ملنے آ جاتا میں نے اپنا پسٹل نکال کر اپنی جیکٹ کی جیب میں ڈالا اور کافی شاپ پر چلا گیا میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب کافی شاپ پر ایک ٹیبل ریزرو دیکھا جس پر ایک اسرائیلی مرد اور عورت بیٹھے تھے مجھے دیکھتے ہی لڑکی مسکرائی اور مجھے میرے اصلی نام سے مخاطب کر کے اپنے پاس بلایا میں حیرتوں کے سمندر میں غرق انکے ٹیبل پر پہنچا تو اس نے ساتھ بیٹھے مرد سے میرا تعارف کروایا اور مجھے بیٹھنے کو کہا میں کرسی پر بیٹھا تو لڑکی نے بغیر کسی تمہید کے مجھے کہا کہ آپ میری تلاش میں پہلے مندر پھر ٹوررسٹ ان گیسٹ ہاؤس گئے تھے اور میرے ساتھی آپ کے متعلق سب کچھ جانتے ہیں مجھے بڑی حیرت ہوئی جب آپ نے مجھ تک پہنچنے کی کوشش کی پاکستان سے بے شک ہمارے اختلاف ہیں مگر یہاں کھٹمنڈو میں پاکستان کے خلاف ہمارا کوئی مشن نہیں ہے بین الاقوامی اصولوں کے مطابق ہمیں بلاوجہ ایک دوسرے کے کاموں میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور اسی وجہ سے ہم نے آپ کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا آپ کے کھٹمنڈو پہنچنے کے تیسرے روز آپ کے متعلق ہمیں پوری معلومات مل چکی تھیں یہاں بھی جو کچھ آپ نے کیا اس کا ہمیں پورا علم ہے اگر یہاں آپ ہم سے معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں شمالی چین سے دلچسپی ہے اگر ایسی کوئی بات نہیں تو نہ آپ ہمارے متعلق سوچیں اور نہ ہی ہم آپ کے متعلق سوچیں گے بھارت اور کھٹمنڈو میں آپکے کامیاب مشنوں پر میں تم کو دلی طور پر مبارک باد دیتی ہوں ہماری ہمیشہ یہ خواہش رہے گی کی کھٹمنڈو میں ہمارا آپ سے سامنا نہ ہو یہ کہہ کر لڑکی اٹھی اور ساتھ اسکا ساتھی بھی اٹھ گیا لڑکی نے مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا کہ امید کرتی ہوں کہ آئندہ جب کبھی بھی ہمارا آمنا سامنا ہو گا تو ہم ایک دوسرے سے اجنبیوں کی طرح رویہ رکھیں گے میں نے جواباً کہا کہ میں تمہاری دلیری پر حیران ہو رہا ہوں میرا تم سے ملنا تمہارے کام میں رکاوٹ ڈالنا نہیں تھا بلکہ میرا ملنے کا مقصد ان 3 مہاجروں لڑکوں کے بارے میں بات کرنے کا تھا جو اچانک غائب ہو گئے ہیں اور میری اطلاع کے مطابق انہیں آخری بار تمہارے یا تمہاری ساتھیوں کے ساتھ دیکھا گیا تھا اسرائیلی لڑکی مسکرائی اور بولی تم بہت چالاک ہو نہ نہ کرتے ہوئے بھی مجھ سے اپنے مطلب کی بات پوچھ لی مزید کوئی سوال نہ کرنا میں صرف اتنا بتا سکتی ہوں کہ وہ چاروں اپنی مرضی سے بھارت چلے گئے ہیں اور وہاں کسی بھارتی جاسوسی کیمپ میں جاسوسی کی ٹریننگ لے رہے ہیں یہ کہہ کر لڑکی نے دوبارہ مجھ سے ہاتھ ملایا اور بولی کہ کافی شاپ کا میرا سارا بل تم پے کرو گے اسے اس معمولی اطلاع کی قیمت سمجھ لینا جو میں نے تم کو دی ہے اتنا کہنے کے بعد وہ تو چلے گئے اور میں اسرائیلی موساد سیکرٹ ایجنسی کے بارے میں دو گھنٹے تک وہاں بیٹھا سوچتا رہا کہ ان کے وسائل کتنے وسیع ہیں
 رات2 بجے میں اپنے کمرے میں گیا اور دن چڑھے تک سویا رہا اسرائیلی لڑکی کی بے باکی اور کافی حد تک صحیح بات کرنے کیوجہ سے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا تھا میں کھٹمنڈو میں درحقیقت تنہا تھا میرے چینی ساتھی بلکل روبوٹس کیطرح تھے وہ میری حفاظت کرتے اور میرے کہنے پر کسی کو بھی ٹھکانے لگانے کے لیے تیار رہتے تھے لیکن میں ان سے کسی بھی مشن کے لیے مشورہ نہیں کر سکتا تھا پاکستانی سفارت خانے کے ارکان اول تو تعداد میں اتنے کم تھے کہ اپنے سفارتی مقاصد بڑی مشکل سے پورے کر رہے تھے اور دوسرا انہیں اس کام سے کوئی سروکار ہی نہی تھا کہ پاکستان کے خلاف جو سازشیں کھٹمنڈو میں ہو رہی ہیں اور جنہیں ان کے علم میں بھی لایا گیا تھا ان کے خلاف کوئی عملی قدم اٹھاتے مجھے یقین تھا 9 مکتی باہنی والے اور 5 مہاجر غدار جنکو ہم نے ٹھکانے لگایا تھا کی روپوٹ بھی سفارت خانے نے پاکستان نہیں بھیجی ہو گی اپنے سفارت خانے کے متعلق میرا مجموعی تآثر یہ تھا کہ وہ پیسے بنانے اور سفارتی حقوق کی آڑ میں ڈیوٹی فری گاڑیاں اور ایسا سامان جسکی سفارت خانے کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں ضرورت ہی نہ تھی غیر ممالک سے سستے داموں منگوانے کے لیے یہاں آے تھے ۔اور ان اہم کاموں کے بعد جو فالتو ٹائم بچ جاتا اس میں بادل نخواستہ سفارتی کام بیکار سمجھ کر انجام دیتے کھٹمنڈو میں میری موجودگی اور میرے کام کو کبھی بھی انہوں نے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا صرف ایک ٹرانسمیٹر آپریٹر تھا جو میرے محکمے سے آیا تھا سفارت خانے میں اسکی پوزیشن اتنی محدود تھی کہ وہ میرے لیے نیک خواہشات کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا تھا بھارت میں گورکھ پور اور کھٹمنڈو میں مشن میں نے اپنے فیصلے سے کیے تھے مجھے اپنے محکمے سے ان کے متعلق کوئی ہدایات نہیں ملیں تھیں اور یہ سب بھارت کے خلاف میری نفرت اور سقوط ڈھاکہ میں ہونے والی ذلت کا نتیجہ تھے اگر بھارت میں میں گرفتار نہ ہوتا اور مجھے وہاں مزید کچھ عرصہ رہنے کو ملتا تو وہاں میں اپنے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرتا لیکن میری گرفتاری کے بعد جو میرے ساتھ سلوک کیا گیا اور جو مجھے میرے مذہب کے متعلق باتیں سنائی گئیں اس سے میری نفرت اور انتقام کا جذبہ مزید بڑھ گیا تھا قارئین کو یاد ہو گا کہ. میں نے بھارت میں گرفتاری سے پہلے جو مشن سر انجام دئیے تھے ان میں سواے عاقل میاں کے میں نے کسی کو بھی اپنے ہاتھ سے قتل نہیں کیا تھا گورکھ پور میں دو اغوا شدہ ٹیکسی ڈرائیور کو محض انسانیت کی بنا پر زندہ چھوڑ دیا تھا لیکن ڈی ایم آئی سے فرار کے بعد بمبئی میں میں نے 6 افراد کو اپنے ہاتھوں سے ہلاک کیا تھا
اسرائیلی لڑکی کی باتوں نے مجھے نئی راہ دکھائی وہ اپنے ملکی مفاد کی خاطر اس حد تک آگے جا چکی تھی کہ نشے کی لت اور آبرو تک کی کوئی پرواہ نہ کی لیکن اس کے سامنے ایک واضح مقصد اور ایک مقررہ ہدف تھا اس کے برعکس کھٹمنڈو میں جو کوئی بھی پاکستان کے مفاد کو ٹھیس پہنچاتا نظر آیا اسے میری ٹیم اور میں نے مل کر ٹھکانے لگا دیا میں وقتی طور پر تو دشمنوں پر غالب آ چکا تھا لیکن اب ایک کی جگہ دس دشمن سامنے آ جاتے تھے اسی لیے غیر ملکی ایجنسیاں جو پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی تھیں ان سے الجھنا بیکار تھا دوسرے لفظوں میں اپنے لیے نئی مصیبت کھڑی کرنا تھی مجھے اپنی توانائیاں محفوظ رکھنی تھیں تاکہ انکا استعمال صحیح جگہ کر سکوں مریم بھی یہی بات مجھے سمجھاتی تھی کہ چار اغواء شدہ بنگالی لڑکے جن کی ان کے والدین کو فکر نہیں تم کیوں ان کے لیے مصیبت مول لے رہے ہو تم کوئی فوج نہیں پولیس نہیں بلکہ دشمن کی قید سے فرار ہو کر شکستہ حالت میں یہاں پہنچے ہو اس لیے اب اپنی حالت پر رحم کھاؤ اور اب بس کر دو بہت ہو گیا. اور اپنی طاقت اور ہمت کو یکجا کرو نہ کہ ان بیکار کاموں میں ضائع کرو. تم بہت کر لو گے تو دس بیس دشمن اور مار دو گے یا پھر ان کے ہاتھوں مارے جاؤ گے تمہارا سفارت خانہ تو تمہاری لاش تک لینے سے انکار کر دے گا اور تمہیں لاوارث سمجھ کر یہی دفن کر دیا جائے گا یہ سب باتیں سوچ کر میں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ بلاوجہ میں ایسے کاموں میں ہاتھ نہیں ڈالوں گا لیکن پہلے سے مارک شدہ دشمن وجے کمار کو ضرور ٹھکانے لگاؤ گا اور اس کے بعد اپنا اسلحہ اس وقت تک یوز نہیں کروں گا جب تک دشمن خود سامنے نہ آ جاۓ
 میں نے مریم کو اسرائیلی لڑکی سے ملاقات کا سارا واقعہ سنایا اور پھر اسے اپنے فیصلے سے آگاہ کیا تو وہ یہ سن کر بہت خوش ہوئی کہنے لگی مجھ سے تو وہ اسرائیلی لڑکی بہتر رہی جس نے ایک ملاقات میں تمہارے ارداے بدل دیئے کہیں وہ تمہیں بھا تو نہیں گئی اور مستقبل میں اسرائیل جانے کے ارادے تو نہیں بن گئے یہ مریم نہیں عورت کی فطری کمزوری بول رہی تھی میں نے خود کو مصروف رکھنے کے لیے دنیا بھر کی جاسوسی ایجنسیوں کا کھٹمنڈو میں موجودگی اور ان کی انفارمیشن اور ان کے ٹارگٹس کے بارے میں ممکنہ روپوٹ پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا اور اس کے علاوہ بھارت میں انجام دئیے گئے مشنوں کی مفصل روپوٹ لکھنی شروع کر دی ان روپوٹس کی تیاری میں دن کا خاصہ ٹائم صرف ہو جاتا تھا اور شام کو چنگ وا ہوٹل جانا بھی لازمی ہو گیا تھا مریم نے کہا کہ روپوٹ کی تیاری ایک دن تم اپنے ہوٹل اور دوسرے روز میرے گھر میں رہ کر تیار کیا کرو گے اس کی بات ماننا اب ضروری ہو گیا تھا اس نے ریزن یہ بتایا کہ ایک تو تم اپنے کمرے میں مستقل کام کرتے ہوے بور ہو جایا کرو گے اور دوسرا سکیورٹی کے حساب سے بھی یہ مناسب نہیں ہو گا اور کوئی انجانا دشمن وار کر سکتا تھا اور اس کے علاوہ محسن اور مہاجر نمائندے بھی ملنے آ جایا کرتے تھے اس لیے لکھنے میں خلل پڑ سکتا تھا بھارت میں قیام کی روپوٹس میں دو مرتبہ دہلی اور بمبئی سے پاکستان بھیج چکا تھا اس لیے ان کی تیسری بار تفصیل لکھنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی یہ مشن میں نے محکمے کی اجازت کے بغیر اپنی صوابدید پر کیے تھے اور روپوٹس میں انکا جواز بھی لکھا تھا چینی محافظوں کو بھی صرف میری حفاظت کے لیے بھیجا گیا تھا جن سے میں ان کے تفویض کیے کام سے زیادہ کام لے رہا تھا ان کے جواز لکھنے کے لیے میرے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہ تھے ہر بات روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ میں نے 9 مکتی باہنی اور 5 غدار بنگالیوں کو ہلاک کیا تھا لیکن ان الزامات کا میرے پاس ٹھوس ثبوت نہ تھا میرے خیال میں ان واقعات کو میری ایجنسی نے پس پردہ رکھا ہو گا کہ اس کیوجہ سے ان کے کام کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہو گی مہاجروں میں بھی سوائے محسن کے کوئی ایسا نہ تھا جو میرے حق میں کچھ لکھ کر دینے کے لیے تیار ہوتا مرنے والوں کی اصلیت جاننے کے باوجُود ایسی تحریر لکھ کر دینے سے کتراتے تھے اسکی وجہ یہ تھی کہ میں اکیلا تھا اور انہیں پاکستان جانے کے لیے ہمارے سفارت خانے سے اور پاکستان پہنچ کر وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ سے اپنی بحالیات سے واسطہ پڑنا تھا اس پریشانی سے نکلنے کے لیے میں نے آخر فیصلہ کیا کہ کھٹمنڈو میں انجام دیئے گئے مشنوں کی تفصیل اور تحریر ابھی رہنے دیتا ہوں جب پاکستان جاؤں گا تو زبانی واقعات اور اس کی ریزن بتا دوں گا میں نے فیصلہ تو کر لیا لیکن اس سوچ کو اپنے ذہن سے جھٹک نہ سکا انہی دنوں میں چنگ وا سے واپس رکشہ پر ہوٹل واپس آ رہا تھا میرے چینی ساتھی میرے پیچھے دوسرے رکشہ میں آ رہے تھے کہ راستے میں اچانک میرا رکشہ کسی چیز سے ٹکڑا کر الٹ گیا میں اور رکشہ ڈرائیور نیچے گر گئے ابھی اس صورت حال میں تھے کہ ایک ساتھ چھے سات فائر ہوئے گولیا کچھ تو میرے سر کے اوپر سے گزت گئیں اور کچھ مجھ سے کچھ فاصلے پر سڑک میں پیوست ہو گئیں میرے چینی ساتھ غائب ہو چکے تھے فائر بند ہوے تو میں نے رکشہ ڈرائیور کو اٹھ کر سہارا دے کر کھڑا کیا اتنی دیر میں میرے چینی ساتھی دو آدمیوں کو گردنوں سے دبوچے میرے سامنے لے آے وہ انہیں خنجروں سے ہلاک کرنے لگے تو میں نے انہیں منع کرتے کہا کہ وہ انہیں لے کر چنگوا پہنچیں انہوں نے ان دونوں بے ہوش کیا اور رکشے میں ڈال کر چنگ وا کی طرف چلے گئے میں نے رکشہ والے کو اضافی پیسے دے کر چنگ وا چلنے کا کہا ریسٹورنٹ سے کچھ آگے چل کر تھوڑی سنسان جگہ تھی چینی ساتھیوں نے انہی وہی جا کر اوٹ میں لٹا دیا میں نے مریم کو جا کر ساری روداد سنائی تو اس کے ہوش گم ہو گئے میں نے کہا کہ وقت ہوش رکھنے کا کھونے کا نہیں ہے مجھے اپنی گاڑی میں شیر پنجاب ہوٹل لے چلو ہم وہاں پہنچے اور سردار سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد اس سے اسکی گاڑی مانگی تو وہ گھبرا گیا اس نے کہا آج پھر کسی کا جھٹکا کرنا ہے میں نے کہا سردار جی بات یہ نہیں باہر گاڑی میں ایک لڑکی بیٹھی ہے اور یہ گاڑی اسکی سہیلی کی ہے جسے اس نے ابھی اسکو واپس کرنی ہے اور میں مزید دو چار گھنٹے اس لڑکی کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں اسلئے تمہاری گاڑی کی ضرورت ہے سردار نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا ذرا ہم بھی اسے دیکھ لیں یہ کہتے ہوئے سردار جی نے گاڑی کی چابی مجھے دی اور اپنی گدی سے اٹھے میں نے جلدی سے باہر نکل کر مریم کو اشارہ کیا اس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور جب سردار جی باہر پہنچے تو وہ مریم کی معمولی سے جھلک ہی دیکھ سکے سردار کی گاڑی لے کر میں چینی ساتھیوں کے پاس پہنچا دونوں بے ہوش آدمیوں کو گاڑی میں ڈالا اتنی دیر میں مریم بھی گاڑی پارک کر کے آ چکی تھی اور میرے ساتھ بیٹھ گئی چینی ساتھی پیچھے بیٹھ گئے اور میں نے گاڑی چین کی تعمیر کردہ سڑک کی جانب موڑ دی مریم کے مطابق اس سڑک پر آگے جا کر ایک تنگ کھائی میں ایک سڑک جاتی ہے پل کی تعمیر کے دوران سامان اسی تنگ سڑک کے ذریعے کھائی میں لایا جاتا تھا ہماری منزل تنگ سڑک کا وہ آخری حصہ تھا جس پر دور دور تک کوئی انسان دکھائی نہ دیتا تھا
تنگ سڑک سے اتر کر ہم کھائی میں پہنچے جہاں پر بجری کے چند ڈھیر ابھی تک موجود تھے میں نے وہاں پہنچ کر گاڑی روکی اور ہم سب گاڑی سے نیچے اتر آئے مجھے صحیح واقعے کا علم نہیں تھا میں نے مریم کے ذریعے چینیوں سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہمارا رکشہ آپ کے رکشے سے پیچھے تھا ہم نے دو آدمیوں کو آپ کے رکشہ کی شست لیتے ہوئے دیکھا انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس وقت بہت کم تھا اس لیے ہم نے پہلے آپ کے رکشے کو دھکا دے کر الٹا دیا اور اسی دوران فائرنگ شروع ہو گئی ہم دونوں فائر کرنے والوں کیطرف لپکے انہیں نہی معلوم تھا کہ ہم آپ کے محافظ ہیں اس لیے وہ دونوں فائر کرنے والے ہماری طرف سے لاپرواہ تھے ہم نے انکی نازک جگہ پر چوٹیں لگائیں تو وہ بے ہوش ہو کر گڑ پڑے ان دونوں کے پاس دو ریوالور اور بہت سی گولیاں تھیں ہم نے ان دونوں سے اسلحہ لے کر انکی گردن کی نسیں دبائیں جن سے انکی قوت گویائی سلب ہو گئی پھر انکو آپ کے پاس لے آے جہاں میں رکشہ سیدھا کر کے ابھی کھڑا ہی ہوا تھا باقی کی کارروائی آپ جانتے ہیں مریم کے پاس ٹارچ تھی مریم نے ان کے چہروں پر روشنی ڈالی تو وہ شکل سے بھارتی دکھائی دیئے میں نے مریم کو کہا کہ وہ ٹارچ لے کر ذرا دور کھڑی ہو جاے میں نے اور چینیوں نے مل کر انہیں چیک کیا تو وہ ہندو نکلے میں نے چینیوں سے کہا کہ انہیں ہوش میں لانا ہے مارشل آرٹ اس قدر انسانی جسم پر ہیوی ہوتا ہے کہ جسم کے مخصوص حصوں پر چوٹ مار یا دبا کر بے ہوش اور ہلاک بھی کیا جا سکتا ہے اور یہی چوٹ بے ہوش کو ہوش میں بھی لا سکتی ہے چینی ساتھیوں نے ان دونوں کو گاڑی سے نکال کر بجری پر ڈال دیا اور چند ٹھوکروں سے انہیں ہوش میں لے آئے میرے کہنے پر چینی ایک ایک کو پکڑ کر ہم سے دور کھائی میں لے گئے میں ارادہ تھا کہ ان دونوں سے الگ الگ انکوائری کروں بجری پر لیٹے ہوئے ایک آدمی کے پاس میں گیا اور پستول نکال کر اس پر تان لیا اور کہا کہ اگر دو منٹ میں اس نے سب کچھ سچ نہ بتایا تو ساری گولیاں اس کے سینے میں اتار دوں گا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر اسکا بیان اسکے ساتھی سے مختلف ہوا تو بھی دونوں کو ہلاک کر دیا جاے گا یہ آدمی خود کو اس سنسان جگہ پر دیکھ کر کانپنے لگا وہ ہاتھ جوڑ کر اپنی جان بخشی کی بھیک مانگنے لگا اس نے بتایا کہ وجے کمار نے مجھے مارنے کے لیے لکھنؤ سے اسے ہائر کیا تھا دوسرے کو بلایا اس نے بھی پہلے والے کے مطابق بیان دیا کہ ہم دونوں لکھنؤ کے بدمعاشوں میں شمار ہوتے ہیں اور وجے کمار نے 40 ہزار روپے میں ہمارے استاد کے ذریعے مجھے مارنے کے لیے ہائر کیا یہ اسلحہ بھی وجے کمار نے ہی دیا ہے میں نے ان دونوں کو زندہ تو چھوڑنا نہیں تھا کیونکہ ان کو زندہ چھوڑنا مطلب مریم اور چینی دوستوں کو بھی مصیبت میں مبتلا کرنا تھا لہذا میں نے انہیں بجری پر الٹا لیٹنے کا کہا ان دونوں کے الٹا لیٹتے ہی میں نے اپنے پسٹل کی ساری گولیاں ان دونوں پر ایک ایک کر کے داغ دیں. سائلنسر لگا ہونے کی وجہ سے گولیاں چلنے کی آواز نہ ہونے کے برابر تھی جب چینی دوستوں نے انکی نبض چیک کر کے ان کے مرنے کی تصدیق کر دی تو میں نے پسٹل پر دوسرا میگزین چڑھایا اور گاڑی سٹارٹ کر کے مین روڈ پر آ گیا مریم نے زندگی میں پہلی بار اس طرح کسی انسان کو ہلاک ہوتے دیکھا تھا اسکی ساری دلیری اس وقت ایک خوفزدہ عورت میں تبدیل ہو چکی تھی تحفظ کے احساس کے پیش نظر مریم نے میرا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام رکھا تھا جس سے میں گاڑی کا گئر بدل رہا تھا شہر پہنچ کر جب میں نے گاڑی ایک نئی سڑک پر ڈالی تو اس نے پوچھا اب ہم کہاں جا رہے ہیں تو میں نے کہا کہ کام مکمل کرنے. وہ اتنی ڈری ہوئی تھی کہ بجائے لیکچر دینے کے بس اتنا کہا کہ جیسے آپکی مرضی وجے کے گھر سےتھوڑا پہلے میں نے گاڑی روکی مریم گاڑی میں ہی بیٹھی رہی اور میں چینی دوستوں کے ہمراہ وجے کے گھر جا پہنچا دو منزلہ بلڈنگ پر اس کا دوسری منزل پر کارنر کا فلیٹ تھا میں نے بیل بجائی تو اندر سے دروازے کے قریب سے آواز آئی کون ہے تو میں نے آواز بدل کر ایک حملہ آور کا نام لے کر کہا کہ کام ہو گیا ہے مگر میرا بازو زخمی ہے جلدی سے دروازہ کھولو ورنہ باہر فرش پر خون کے دھبے لگ جائیں گے میں حتی الامکان اپنی آواز کو بدل کر رکھا اس نے دروازہ کھولا تو وہ ہمیں دیکھ کر ڈر گیا اتنی دیر میں میرے چینی دوستوں نے دروازے کو دھکا دے کر اسے اندر دھکیل دیا وجے کو کسی کی مدد کے لیے پکارنے سی پہلے انہوں نے اس کو فرش پر گرا کر اس کے منہ میں رومال ٹھونس دیا
جاری ہے.

Next Episode

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.