Bhagora By Riaz Aqib Kohler Episode No. 37 ||بھگوڑا مصنف ریاض عاقبکوہلر قسط نمبر 37
Bhagora
By
Riaz Aqib Kohler
بھگوڑا
مصنف
ریاض عاقب کوہلر
بھگوڑا
قسط نمبر37
ریاض عاقب کوہلر
”اب تک وہ تمھارے ذہن سے نہیں نکلی۔“”اچھا دفع کرو اسے .... تم بتاﺅ کس کو بھیجیں۔“”اس کردار کی کئی مل جائیں گی۔“” شاید وہ ہمارے ساتھ مخلص نہ ہوں۔ جبکہ اِس پر ہمارا بہت بڑا احسان ہے۔ امید ہے و ہ ہمیں دھوکا نہیں دے گی۔“
”اچھا ملک صاحب !....وہی سہی مگر سوچ لو مجھے اچھا نہیں لگ رہا اور دوسرا وہ ملے گی کہاں؟“
”بازارکا چکر لگاتے ہیں شاید مل جائے۔“ میں امید بھرے لہجے میں بولا اور امجد سرہلا کر رہ گیا۔ ہم اسی راستے پر چل پڑے جہاں ہمیں وہ لڑکی ملی تھی۔” ویسے یہ وقت مناسب نہیں ہے۔ اس اندھیرے میں ہم اسے کہاں ڈھونڈتے پھریں گے۔ لاہور یا کراچی کا بازار تو ہے نہیں کہ روشنی ہو۔“
” بازار میں اچھی خاصی روشنی ہوتی ہے۔ پیٹرومیکس کے جلنے اور جنریٹروں سے جلائی گئی ٹیوب لائیٹوں کی روشنی میں ہم اسے پہچان لیں گے۔“”تم تو خیر اسے اندھیرے میں بھی پہچان لو گے۔ آخرجناب کو اس سے گلے ملنے کا شرف حاصل ہو چکا ہے۔“ اس نے مجھے چھیڑا ۔”بکواس کرنا کوئی تم سے سیکھے۔“ ”کیوں غلط کہا ہے؟“وہ مسکرایا۔ مگر اسے جواب دینے کی بجائے میںارد گرد نگاہ دوڑانے لگا ہم بعینہ اسی جگہ پہنچ چکے تھے جہاں وہ ہمیں ملی تھی۔ اس جگہ روشنی کا کوئی بندوبست نہیں تھا اور ہم شاید اسی رو میں آگے بڑھ جاتے مگر اچانک راستے کے بائیں جانب ایک سرخ نقطہ چمکتا ہوا نظر آیا۔
”ماجے !....اس طرف کوئی سگریٹ نوشی میں مصروف ہے۔“
”چلو۔“وہ اسی طرف مڑ گیا ۔ سگریٹ پینے والا جو بھی تھا اس نے ہماری آواز سن کر کسی قسم کے ردِعمل کا اظہار نہیں کیا تھا۔ میں نے جیب سے پنسل ٹارچ نکال کر اس سمت جلائی تو خوشی کے ساتھ ہمیں حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ وہی لڑکی درخت کے تنے سے ٹیک لگائے سگریٹ نوشی میں مصروف تھی اور یہ کہنے کی تو غالباً ضرورت نہیں کہ وہ سگریٹ چرس کے بھرے ہوئے تھے۔ اپنی پسندیدہ چیز ملنے کے بعد اس نے مزید دائیں بائیں پھرنا پسند نہیں کیا تھا اور وہیں بیٹھ کر اپنی حسرتیں پوری کرنے لگی تھی۔ ہمارے قریب پہنچنے کا بھی اس نے کوئی نوٹس نہیں لیا تھا اور اسی انداز میںبیٹھی رہی تھی۔
”ہیلو گڈ گرل۔“ میں نے گفتگو کی ابتداءکی۔”کون؟“ اس نے نشے سے بوجھل آنکھیں اٹھائیں۔”یہ ہم ہیں۔“ میں نے ٹارچ کا رخ اپنے چہرے کی طرف کیا۔’یو ....سویٹ بوائے۔“ وہ کھڑے ہو کر مجھ سے لپٹ گئی ۔ ”مجھے پتا تھا تم ضرور واپس آﺅ گے۔“میں نے نری سے اس کی گرفت سے آزاد ہو کر کہا۔”اچھا.... وہ کیسے۔“”بس میرا دل کہہ رہا تھا۔“ اس نے ایک دفعہ پھر مجھ سے لپٹنے کی کامیاب کوشش کی۔”اچھا اب اس سے ملو۔“ میں نے اسے دوبارہ خود سے علاحدہ کر کے امجد کی طرف متوجہ کیا۔”اوہ.... سوری۔“ اس نے امجد کی طرف مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔”ان پر تو میری نظر ہی نہیں پڑی تھی۔“”ہاں جانو کی موجودی میں مَیں خاک نظر آتا۔“ امجد اردو میں بولا۔
”کیا کہا؟“ وہ مستفسر ہوئی۔
”میں نے کہا۔ ”تھینک یو۔“ امجد مسکرایا۔”آپ کا بھی بہت بہت شکریہ۔“ اس نے بھی جوابی مسکراہٹ اچھالی۔وہ لہجے اور انداز سے بالکل نارمل دکھائی دے رہی تھی۔ یوں بھی چرس کا نشہ پینے والے کی عقل کو افیون، ہیروئن یا کو کین کی طرح خبط نہیں کرتا۔ بلکہ کہنے والوں سے تو یہاں تک سنا ہے کہ شراب اور بھنگ کا نشہ بھی چرس سے زیادہ ہوتا ہے۔ بہ ہر حال ان خرافات سے ا ﷲ تعالیٰ کی ذات نے آج تک محفوظ رکھا ہے اس لیے اس بارے میری معلومات واجبی سی ہیں۔ البتہ اس وقت اس لڑکی کی عادات واطوار میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جس سے پتا چلتا کہ وہ نشے میں ہے ۔
”اچھا ہم تمھیں لینے آئے ہیں۔“
”ہاں چلو۔“ میرا ہاتھ تھام کر اس نے بغیر کسی ہچکچاہٹ یا جھجک کے میرے ساتھ قدم بڑھادئےے ۔ اس کے پُراعتماد انداز نے مجھے حیرت زدہ کر دیا تھا۔ مگر بعد میں سوچنے پر مجھے اس کا یہ عمل اتنا حیران کن نہ لگاکیونکہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس کے چھننے کا اسے کوئی افسوس ہوتا۔ وہ کوئی مشرقی لڑکی تو تھی نہیں کہ اپنی عزت و عصمت کا خوف کرتی۔ دولت سے وہ قبیل ویسے تہی دامن ہوتی ہے۔ لے دے کے ایک چرس ایسی چیز تھی جو اس کے نزدیک قیمتی تھی مگر وہ ہم خود اس کے حوالے کر چکے تھے تو چھین لیے جانے کا ڈر کیسا؟
تھوڑی دیر بعد ہم جانان خان کی حویلی میں پہنچ گئے تھے۔ دربان نے اسے دیکھتے ہوئے معنی خیز انداز میں سرہلاتے ہوئے دروازہ کھول دیا ۔
”جانان خان کو بتلا دینا کہ ہم واپس پہنچ گئے ہیں۔“ میں نے دربان کو بتلادیا اور اس نے اثبات میں سرہلانے پر اکتفا کیا۔لڑکی کو لیے ہم سیدھے مہمان خانے میں پہنچے کمرے کے اندر ٹیوب لائٹ جل رہی تھی جو جنریٹر کی مرہون منت تھی۔جنریٹر کے چلنے کی ہلکی ہلکی آواز ہمارے کانوں میں آرہی تھی وہ اس وسیع وعریض حویلی کے کسی کونے میں رکھا گیا تھا۔ ورنہ نزدیک ہونے کی صورت میں جنریٹر کی آواز کانوں کو خاصی ناگوار گزرتی ہے۔
”بیٹھو۔“ میںنے چارپائی کی طرف اشارہ کیا اور وہ آہستہ سے بیٹھ گئی۔ اب تک اس نے ہمارے مقصد کے متعلق استفسار نہیں کیا تھا کہ ہم کیوں اسے ساتھ لے آئے تھے اور اس کا مطلب یہی تھا کہ اس نے اپنے طور پر کوئی مطلب اخذ کیاہوا تھا۔ وہ جینز کی پتلون اور ہلکے سرخ رنگ کی شرٹ میں ملبوس تھی۔ اس کے لباس کی حالت دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا تھا کہ اسے پانی کی صورت دیکھے عرصہ بیت چکا ہے اور یہی وجہ تھی کہ اس لڑکی کے بدن سے کافی ناگوار سی بواٹھ رہی تھی۔
”میرا نام جان ،اوراس کا امجد ہے۔ آپ کا نام ؟“
”آپ مجھے لزا کہہ سکتے ہیں۔“
”اچھا مس لزا سب سے پہلے تو آپ ایسا کریں کے نہا لیں اس کے بعد کھانا کھائیں گے۔“”مم.... میں ایسے ہی ٹھیک ہی ہوں۔“ وہ گھبرا گئی۔
”ٹھیک کدھر ہو، آئینہ دیکھا ہے.... بھوت نظر آرہی ہو۔“”مم.... مگر نہا کر.... پہنوں گی کیا؟“ اس نے جان چھڑانا چاہی۔”کپڑوں کا بندوبست ہو جائے گا۔“میں نے اسے بازو سے پکڑ کر باتھ روم کی طرف دھکیلا اور وہ مرے مرے قدموں سے باتھ روم کی طرف بڑ ھ گئی۔ اس کے باتھ روم میں گھستے ہی میں نے امجد کو کہا۔
”تم بیٹھو میں ابھی آیا۔“
”کہاں جارہے ہو؟“”لزا کے لیے کپڑوں کا بندوبست کرنے۔“”بازار جاﺅ گے؟“
”نہیں .... جانان خان سے کہتا ہوں۔“ میں باہر کی طرف چل پڑا مگر اس سے پہلے کہ میں کمرے سے نکلتا جانان خان ”السلام علیکم“ کہتے ہوئے جاگیردار کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوا۔
”وعلیکم السلام.... آئیں ملک صاحب میں آپ کی طرف ہی جارہا تھا۔“
”حکم کرو۔“ وہ بشاشت سے بولا۔
”زنانہ شلوار قمیص چاہیے تھی۔“
”خیر تو ہے۔“ وہ معنی خیز مسکراہٹ سے بولا۔”ہاں بس ایک لڑکی تو ہم پکڑ لائے ہیں مگر وہ ہے غیر ملکی اب اسے اپنے علاقے کی عورت کا روپ دینا ہے۔“”شلوار قمیص تو مشکل ہے۔ البتہ میں مقامی لباس لے آتا ہوں۔“ وہ کمرے سے نکل گیا۔”عمر جان صاحب!.... یہ عورت کدھر سے مل گئی؟۔“ جاگیردار امجد کے ساتھ چارپائی پر بیٹھ گیااور میں نے مسکراتے ہوئے اسے لزا کے ملنے کی کہانی سنا دی۔”اسی لیے ملک صاحب کی تجویز سنتے ہی آپ عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی تلاش میں چل پڑے تھے؟“
ملک جانان خان جلد ہی کپڑوں کے بنڈل کے ساتھ لوٹ آیا۔ گلابی رنگ کا گھگرا جس پر سبز اور سفید کشیدہ کاری کی گئی تھی اس کے ساتھ اسی رنگ کی شلوار اور دوپٹا مجھے کافی خوب صورت لگا۔کپڑوں کا بنڈل اس سے لے کر میں باتھ روم کے د روازے کی طرف بڑھ گیا۔”لزا یہ کپڑے لے لو۔“ میں نے دروازے پر دستک دے کر اسے آواز دی اور خود دروازے سے تھوڑا ساہٹ کر کھڑہوا گیا کیونکہ مجھے پتا تھا کہ اس نے دروازہ کھول دینا ہے اور وہی ہوا جس کی مجھے امید تھی۔”دے دو۔“ اس نے مکمل دروازہ کھول دیا ۔ میں نے اس کی طرف دیکھنے سے گریز کرتے ہوئے اندازے سے کپڑے اس کی جانب بڑھا دیئے اور پھر واپس امجد پارٹی کے پاس آبیٹھا۔
جاگیردار جانان خان کو لزا کی بابت تفصیل بتلا رہا تھا جبکہ امجد نے ا س موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے گن کی صفائی کرنی شروع کر دی تھی۔ وہ اس منصوبے کے حق میں نہیں تھا مگر میری طرح اس کے ذہن میں بھی اس کا متبادل حل نہیں آرہا تھااس لیے خاموش تھا، البتہ خاموش تائید کے باوجود اس منصوبے پر عمل پیرا ہونے کے لیے اس نے کوئی خاص سرگرمی نہیں دکھائی تھی۔چند لمحے بعد ہی لزا باتھ روم سے برآمد ہوئی۔ دوپٹے کو اس نے سکارف کی طرح گلے میں لپیٹ لیا تھا۔ اسے دیکھ کر جانان خان اور جاگیردار حیران رہ گئے تھے بلکہ وہ کیا خود ہمیں بھی حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔ ان کپڑوں میں وہ اتنی دلکش پیاری اور پُرکشش لگ رہی تھی کہ اگر ہم اس کا دوسرا روپ نہ دیکھ چکے ہوتے تو کبھی بھی اسے اس منصوبے میں استعمال کرنے کی کوشش نہ کرتے۔
”او ہلک دا خوڈیراخکلی دے۔“(او لڑکے یہ تو بہت خوب صورت ہے)جانان خان کے منہ سے بے ساختہ نکلا اور میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی وہ خراماں خراماں چلتے ہوئے میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی اور ہولے سے بولی۔
” میں کیسی لگ رہی ہوں جان؟“
”بہت اچھی اور بہت خوب صورت۔“ میںنے صاف گوئی سے کہا۔
”شکریہ۔“ کہتے ہوئے اس کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی تھی۔
”کھانا منگواﺅں....؟ بھوک لگی ہے یا نہیں؟۔“ میں مستفسر ہوا۔
”کل صبح چاے کے ساتھ ایک ڈبل روٹی کھائی تھی۔“ اس نے پیٹ پر ہاتھ پھیرا۔”ملک صاحب کھانا تومنگوالو۔“ میں جانان خان ے مخاطب ہو ا۔”جاگیردار .... کھانا لے آﺅ....میں بھی یہیں کھاو¿ں گا ۔“ مخاطب وہ جاگیر دارکو تھا مگر اس کی نظریں لزا کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔جاگیر۔ ”جی خان جی۔“ کہہ کر چلا گیا۔
”اس سے آپ نے بات کرلی ہے۔“ اس کا اشارہ لزا کی جانب تھا۔”نہیں۔“ میں نے نفی میں سرہلایا۔ ”مگر یہ آسانی سے مان جائے گی۔“”ہوں۔“ کہہ کر وہ گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ امجد بڑے انہماک سے کلاشن کوف کی صفائی میں مصروف تھا۔ میں بھی خاموشی سے جاگیردار کی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔ لزا زیادہ دیر خاموش نہ رہ سکی اور ہولے سے بولی۔”آپ کتنے آدمی ہو....؟“”کیا مطلب ؟“ میرے لہجے میں حیرانی تھی۔
” مطلب .... آپ یہی چار مرد ہو.... یا اوربھی ہیں؟“ً”میں اب بھی آپ کی بات نہیں سمجھ سکا ہوں کہ ہماری تعداد سے آپ کا کیا تعلق ۔“
”وہ .... وہ دراصل ....میں آپ کے ساتھ اس لیے آئی تھی کہ میں نے سمجھا آپ صرف دو آدمی ہو ،جبکہ یہاں لگتا ہے لوگوں کی کافی تعداد ہے اور میں اکیلی۔ کیسے....؟“ اس نے بات ادھوری چھوڑدی مگر میں اس کے مفہوم سے پوری طرح آگاہ ہو گیا تھا اور یہ آگاہی نامہ میرے لیے فقط شرمندگی کا باعث ہی بن سکا تھا امجد نے بھی عجیب سی نظروں سے میری طرف دیکھا۔
میں جلدی سے بولا۔”نہیں نہیں لزا ایسی کوئی بات بھی نہیں ہے۔“
مگر اسے یہ باور کرانا بہت مشکل تھا کہ ہم اسے کسی مذموم مقصد کے لیے اپنے ساتھ نہیں لائے تھے۔ اس نے جس معاشرے میں آنکھ کھولی تھی اور جس تہذیب کی وہ پرورُدہ تھی اس تہذیب میں عورت اور مرد کا صرف ایک ہی رشتا تھا اور وہ تھا جسمانی تعلق کا رشتا۔ جبکہ ہمارا معاشرہ عورت کو کئی پاکیزہ رشتوں کی صورت میں ہمارے سامنے لاتا تھا۔ جس کی ہر صورت ہمارے لیے قابل احترام، مقدس اور قابل عزت تھی۔ اس نے جس خدشے کا اظہارد بے الفاظ میں کیا تھا وہ اس بات کا مظہر تھا کہ اس کم عمری میں اسے کافی تلخ تجربات ہو چکے تھے۔
”کیا مطلب.... ایسی کوئی بات نہیں ؟“ اب حیرانی ہونے کی باری اس کی تھی۔
”پہلے کھانا کھالیں.... پھر بتاتا ہوں۔“ جاگیردار کو کھانے والے برتنوں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر میں بولا ،وہ اثبات میں سرہلا کر رہ گئی تھی۔ ایک دوسرا ملازم بھی جاگیردار کے ہمراہ تھا۔ کھانے والے برتن ٹیبل پر رکھ کر وہ دونوں باہر نکل گئے تھے، جاگیر دارخا ن بھی جانان خان کے احترام میں ہمارے ساتھ کھانے میں شریک نہیں ہواتھا۔
کھانے کے دوران جانان خان مستفسر ہوا۔
”یہ لڑکی آپ سے کیا پوچھ رہی تھی؟“لزا چونکہ انگریزی میں بات کرتی رہی تھی اس لیے جانان خان کے پلے کچھ نہیں پڑا تھا۔ امجد اور میں بھی کوئی اتنی اچھی انگلش نہیں بول سکتے تھے بس گزارے لائق سمجھ بول لیتے تھے۔ اسی طرح لزا کو بھی انگلش پر اتنا عبور نہیں تھا، نامعلوم اس کی مادری زبان کون سی تھی، لیکن جانان خان تو اس معاملے میں بالکل کورا تھا۔”یہ پوچھ رہی تھی کہ ہم اس سے کیا کام لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔“ میں بات کو گول مول کیا۔”تو پھر آپ نے کیا بتلایا؟“ اس نے اشتیاق سے پوچھا۔
”فی الحال تو کچھ نہیں بتلایا۔ کھانے کے بعد یا پھر کل صبح اس سے تفصیل سے گفتگو کریں گے۔“کھانا کھانے کے بعد ملازم چاے لے آیا چاے پی کر میں نے لزا سے پوچھا....”تمھیں مزید کوئی چیز درکار ہے؟“
”اگر سگریٹ مل جاتے؟....اس کے ساتھ تھوڑی سی چرس بھی۔“
”کیا؟“ اس کی بات نے مجھے حیران کر دیا تھا۔ ” پاﺅ بھر چرس کا کیاہوئی ؟ “”وہ میںساتھ لیے تھوڑی پھر سکتی ہوں....؟وہ تو میں نے اسی درخت کے ساتھ ایک مناسب جگہ پر چھپا دی تھی۔“”ملک صاحب !....سگریٹ اور چرس مل جائے گی۔“”کیوں نہیں.... یہ لو۔“ اس نے گولڈ لیف کی ڈبی میری جانب بڑھائی اس میں چرس سے بھرے سگریٹ موجود ہیں۔“ڈبی لے کر میں نے لزا کی طرف بڑھا دی ....
”اس میں چرس سے بھرے سگریٹ موجود ہیں۔ اب تم آرام کرو صبح کام سے متعلق بات چیت کریں گے۔“ اسے کہہ کرمیں جانان خان سے مخاطب ہوا۔”چلیں ملک صاحب تاکہ یہ آرام کرسکے۔“”ہاں.... ہاں کیوں نہیں۔“ وہ اٹھ گیا۔ جبکہ امجد میری بات سن کر اس سے پہلے کھڑا ہو گیا تھا۔”جان!.... تم تو میرے ساتھ رہ جاﺅ نا۔“ لزالجاجت سے بولی ۔
”نہیں لزا !....میں فی الحال آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتا اور کیوں نہیں رہ سکتا اس بارے پھر کبھی بات کریں گے۔ اب تم ہمیں اجازت دو اور خود بھی آرام کرو۔“
اسے ہکا بکا چھوڑ کر ہم باہر نکل آئے۔جانان خان نے پوچھا۔”اب یہ کیا کہہ رہی تھی؟“ میرا جی چاہا کہ اس سے پوچھوں کہ وہ لزا میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہا ہے مگر پھر مصلحت آڑے آگئی ۔میں نے بات کو گول مول کر دیا۔”اب بھی وہ اس کام کے متعلق استفسار کررہی تھی جو ہم اس سے لینا چاہتے ہیں؟“
”تو بتاد ینا تھا ناں اسے۔“
”نہیں صبح بتلائیں گے تفصیل کے ساتھ۔“وہ بولا۔ ”چلو جیسے تمھاری مرضی۔“ اس دوران ہم آرام گاہ میں پہنچ چکے تھے۔
میں نے کہا۔ ”ملک صاحب ہمیں بھی کوئی کمرہ دکھا دیں تاکہ تھوڑا آرام کرلیں۔“”تھوڑی گپ شپ کر تے ہیں.... پھر سو جانا۔“ وہ مصر ہوا۔
” صبح گپ شپ ہو گی ان شا ءاللہ لگائیں گے۔ فی الحال ہم تھکن محسوس کررہے ہیں۔“ میں نے جان چھڑائی۔” ٹھیک ہے ....آپ آرام کریں۔“ خلاف توقع وہ راضی ہوگیا۔”یہ ساتھ والا کمرہ خالی پڑا ہے۔“ اس نے اپنی آرام گاہ سے متصل کمرے کی جانب اشارہ کیا ۔
ہم مصافحہ کر کے کمرے سے نکل آئے۔ دوسرے کمرے میں بھی لکڑی کی دو رنگین چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ بلکہ اس حویلی کے ہر کمرے میں مجھے اس طرح کی چارپائیاں اور ان کے اوپر بچھے ہوئے بستر دکھائی دیئے تھے۔ شاید جانان خان کے ہاں مہمانوں کی آمدورفت لگی رہتی تھی۔ ہم کمرے میں گھستے ہی چارپائیوں پر لیٹ گئے۔ امجد خلافِ توقع چپ تھا۔ پہلے تو میں نے سمجھا شاید جانان خان کی وجہ سے خاموش ہے مگر اکیلے ہونے کے بعد بھی اس نے کوئی بات نہیں کی تھی۔
”ماجے خیر تو ہے؟“ میں نے اس کی طرف کروٹ بدلی۔ ”کافی دیر سے چپ ہو؟“”جانو!....میں اس ترکیب کے حق میں نہیں ہوں۔ میرا ضمیر اس پر بالکل راضی نہیں.... ایک معصوم لڑکی کو استعمال کرنا کہاں کی مردانگی ہے۔“”اس کے علاوہ چارہ بھی تو کوئی نہیں۔ دوسرے ہم اسے کون سا موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں۔ اسے صرف ایک خطرہ ہے جو اس کی نظرمیں شاید خطرے کی بجائے انجوائے منٹ ہو، وہ کوئی پارسا لڑکی تو ہے نہیں۔ سنا نہیں تھا کتنی بے باکی سے اس موضوع پر محو گفتگو تھی۔“
”کچھ بھی ہے.... اگر تم نے اسے استعمال کیا تو میں تمھارا ساتھ نہیں دے سکوں گا۔“امجد نے حتمی لہجے میں کہا اور میں حیرانی سے اس کے چہرے کی جانب تکتا رہ گیا ۔
ماجے کیا ہو گیا ہے تمھیں؟....لزا کو یہاں لانے سے پہلے میں تمھیں یہ سب کچھ بتا چکا ہوں، اس وقت تو تُم نے اس قسم کی کوئی بات نہیں کی تھی۔“
”اس وقت بھی میں اس کے حق میں نہیں تھا، لیکن بعد میں غور کرنے پر تو یہ بات مجھے نہایت معیوب لگی۔“”اس میں کون سی قباحت کی بات ہے۔ لزا کوئی باعصمت اور پردہ دار لڑکی تو ہے نہیں۔“”یار!.... تم نے تو گنڈہ پوروں والی خو ہی بدل ڈالی ہے۔ چودھری کے غلیظ کتوں کے سامنے ایک لڑکی کو چارہ بنا کر پیش کر رہے ہو اور اس میں تمھیں قباحت نظر نہیں آرہی، تمھارے نقطہ نظر سے تو ہیرا منڈی کے سارے دلال بے قصور اور بر حق ہیں کیونکہ وہ بھی تو آبروباختہ عورتیں ہی گاہکوں کو پیش کرتے ہیں۔“
”بکواس بند کرو۔“ میں چڑگیا۔ ”تمھیں ہمیشہ الٹی سوجھتی ہے۔“
” یہ بکواس نہیں ہے۔ تم سوچوتو سہی آخر ہم کیا کرنے جارہے ہیں۔ اپنی دشمنی میں ایک بے قصور لڑکی کواستعمال کرنا کہاں کی بہادری ہے۔ اب ہم اتنے عاجز ہو گئے ہیں کہ چودھری کے خلاف عورتوں کا سہارا لیں گے۔ کبھی نہیں میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔“وہ اپنی بات پر ڈٹا رہا۔
”تو.... کیا کریں؟“ ”کچھ بھی کرو.... لیکن اصولوں پر سودے بازی نہیں ہو گی۔ چودھری کو ہم نے ڈھونڈ نکالا ہے، اس کی نگرانی کرتے رہیں گے۔ کبھی تو ایسا موقع ہاتھ آئے گا جب اس پر ہاتھ ڈال سکیں۔“
”اور اگر اس سے پہلے وہ غائب ہو گیا پھر؟“”ہونہہ .... ایسے ہی غائب ہو جائے گا، کوئی جن بھوت ہے کیا ؟....اور بالفرض ایسا ہو بھی گیا تو پھر ڈھونڈ لیں گے۔ پہلے بھی تو وہ ہم سے چھپ کر ادھر آیا ہوا ہے۔“
”مگر مجھ سے مزید صبر نہیں ہو سکتا۔ میں چاہتا ہوں جلد سے جلد اس کے گندے وجود سے دھرتی کو پاک کردوں۔“
”میں تم سے بھی زیادہ بے چین ہوں.... لیکن بے صبری میں کام بگاڑ نا نہیں چاہتا۔ یاد ہے ناچچا فاضل نے کیا کہا تھا کہ ”اوباہلی کتی اندھے کو نگرے جیندی ہیے۔“(جلد باز کتیا اندھے بچے پیدا کرتی ہے) امجد نے سرائیکی کی مشہور کہاوت بیان کی۔
”پھر لزا کاکیا کریں؟“ ”کرنا کیا ہے۔ صبح اس کاشکریہ ادا کر کے رخصت کر دیتے ہیں اور میں اس سے نکاح پڑھانے سے تورہا۔ شہیلا بی بی کافی بے چینی سے میری منتظر ہو گی، البتہ تم چاہو تو شیتل کا بہتر نعم البدل ہے وہ بھی کافرہ ہے یہ بھی مسلمان نہیں ہے اور نشے بازی کی لت بونس میں۔“
”بک بک اچھی کر لیتے ہو۔“ میںخفت سے ہنسا۔ ”تُم نے شیتل کو دیکھا نہیں ورنہ ایسا کہنے کی جرا¿ت کبھی نہ کرتے۔ ہندو ہونے کے باوجود اس نے اپنی عصمت پر کبھی حرف نہیں آنے دیا۔“”اس کی برائی کے لیے اس کا ہندو ہونا کافی ہے۔“
”بالکل غلط ہے۔“ میں نے نفی میں سرہلایا۔ ”تُو نے سنا نہیں کہ کسی کافر سے نہیں بلکہ اس کے کفر سے نفرت کرو۔“اس نے قہقہہ لگایا۔”اور اگر وہ کافر کی بجائے کافرہ ہو تو اسے گلے سے لگانے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔“
”اس فالتو گفتگو کے بجائے اگر چودھری اکبر پہ قابو پانے کے لیے کوئی پروگرام تشکیل دیائے تو مناسب نہیں ہو گا۔“ میں نے اس فضول بحث سے جان چھڑانے کی کوشش کی ۔”درست کہا، لیکن اس سے بھی مناسب یہ ہے کہ میں سو رہا ہوں اور تم بہ طور مالک کوئی اچھا سا منصوبہ سوچو۔“ یہ کہہ کر وہ بڑے آرام سے لیٹ گیا ۔ میں نے بھی اس کی تقلید میں آنکھیں بند کر لیں، لیکن نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی لزا کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے کا پروگرام میں نے ترک کرنا مناسب سمجھا شاید امجد نہ ہوتاتو میری نظر اس پہلو کی طرف نہ جاتی۔ چودھری کی دشمنی میں مَیں ایسا کام کرنے جارہا تھا کہ جس کے نتائج غلط نکلنے کی صورت میں مجھے پچھتانے کا موقع بھی نہ ملتا اور ہو سکتا ہے میرا ضمیرساری عمر مجھے ملامت کرتا رہتا۔ چودھری کو زندہ پکڑنے کے لیے میں رات گئے تک مختلف منصوبے بنا بنا کر انھیں رد کرتا رہا اور آخر میں ملک جانان خان سے دوبارہ اس موضوع پر بات چیت کرنے کا پروگرام بنا کر مطمئن ہو گیا وہ جہاں دیدہ شخص لازمی طور پر کوئی مناسب قسم کا مشورہ دے سکتا تھا
صبح ہم بہ مشکل حوائج ضرور یہ سے فارغ ہوئے تھے کہ جانان خان کی طرف سے بلاوا آگیا۔”خان جی ناشتے پر آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔“ ملازم ہمیں یہ بتا کرباہر نکل گیا۔”جانان خان کی مہربانیاں کچھ زیادہ نہیں بڑھ رہی ہیں۔“ امجد ملازم کی پشتو سمجھ گیا تھا۔”صحیح کہا۔“ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ ”کل سے میں بھی اس کے انداز میں واضح تبدیلی محسوس کر رہا ہوں اور اس کی وجہ شاید لزا ہے۔“
”کیا مطلب ہے؟“ امجد کے لہجے میں حیرانی تھی۔” بار بار لزا کے متعلق استفسار کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اسے لزاکی ذات میں کافی دلچسپی ہے۔“”وہ تو خیر تمھیں بھی کافی ہے۔“ امجد مجھ پر چوٹ کرنے سے باز نہ آیا۔ اس دوران ہم جانان خان کے کمرے تک پہنچ گئے تھے اس لیے میں امجد کی بات کا جواب نہ دے سکا۔ جانان خان بے چینی سے ہمارا منتظر تھا۔ ہمارے سلام کا جواب خوش دلی سے دیتے ہوئے اس نے اٹھ کر ہم دونوں سے مصافحہ کیا اور ہمیں ساتھ لیے بیٹھ گیا۔
”عمر بھائی!.... رات کیسی گزری؟“
”ﷲ کا شکر ہے ملک صاحب.... بہت اچھی.... آپ سنائیں۔“”اور امجد بھائی آپ کا۔“ ”الحمد ﷲ.... دعا ہے آپ کی۔“” عمر بھائی آپ کو ناشتے پر بلانے کا مقصد یہ ہے کہ ایک تو آپ چند دن کے مہمان ہیں۔ پھر چلے جائیں گے اور میں چاہتا ہوں آپ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارا جائے دوسرے ایک چھوٹی سی غرض بھی تھی میرا ارادہ تو گزشتہ رات ہی آپ کو یہ سب کچھ بتلانے کا تھا، مگر رات آپ تھکے ہوئے تھے اس لیے میں نے زحمت دینا مناسب نہ سمجھا۔ اب جو کچھ میں کہنے لگا ہوں آپ امجد بھائی کو بتا کر مشورہ کرلیں اور پھر مجھے دوپہر کے کھانے تک جواب دے دینا۔“
”ملک صاحب !....آپ حکم کریں ہمارے بس میں جو کچھ ہوا ہم ضرورکریں گے۔“”اس لڑکی کو آپ صرف اسی کام کے سلسلے میں ہی لائے تھے نا؟ جس کا مشورہ میں نے دیا تھا۔“ ”جی ہاں۔“ میں نہ سمجھنے والے انداز میں بولا۔
”اگر میں کہوں کہ اسے اس مقصد کے لیے استعمال نہ کریں تو کیاآپ میری بات مان لیں گے۔“”کیوں نہیں۔“ میں نے جلدی سے کہا۔ ”مگر اس کا نعم البدل کیا ہو گا.... ہمارے پاس آج کا دن ہے اور اتنے قلیل عرصے میں ہم کوئی ایسی لڑکی نہیں ڈھونڈ سکتے جو ہمارے ساتھ لزا کی طرح مخلص ہو۔“
لزاکے متعلق اس کی دلچسپی کل سے صاف نظر آرہی تھی اور اس کے تمہید باندھنے سے ہی مجھے انداز ہو گیا تھا کہ وہ کیا کہنے والا ہے۔ مگر میں اس کے منہ سے یہ سب کچھ سننا چاہ رہا تھا۔”ضروری تو نہیں کہ اس کے لیے کوئی لڑکی استعمال کی جائے۔ لڑکی کے بغیر بھی یہ کام ہو سکتا ہے۔“”کیسے؟....یہی تومیں جاننا چاہ رہا ہوں“ میں نے اس کی بات میں دلچسپی لی ۔”کل شادی میں شرکت کی غرض سے چودھری لازماً جائے گا اور شادی کا ہنگامہ رات گئے ہی ختم ہو گا۔ دوسرے چودھری کا کھانا شادی والے گھر میں ہی ہو گا کیونکہ مجھے اور میرے آدمیوں کوبھی کھانے کا دعوت نامہ ملا ہوا ہے۔ کل شام کو جب چودھری شادی کی تقریب میں الجھا ہوگا اگرہم گاڑی میں کھانا لے کر چودھری کے گھر جائیں اور اس کے گھر میں موجود محافظوں کو یہ تاثر دیں کہ یہ کھانا شادی کے گھرسے آیا ہے اور اس دوران ان محافظوں کی نظر بچا کر آپ دونوں وہیں چھپ جاﺅ تو کیسا رہے گا؟“
اس کا منصوبہ سن کر میں حقیقتاًخوشی سے اچھل پڑا ....
”اگر یوں ہو جائے تو کیا کہنے۔“
”اس کا مطلب ہے آپ میری تجویز سے متفق ہیں۔“ وہ جیسے خوشی سے کھل اٹھا۔”بالکل.... اس سے اچھی تجویز ہو ہی نہیں سکتی۔“
”یعنی لزا اس منصوبے سے خارج ہو گئی، اب اس کا کیا کرو گے؟“ اس نے لزا کے متعلق میری رائے جاننی چاہی۔ مگر میں نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں میں اس کی بات لوٹائی۔
”آپ ہی بتائیں اس کاکیا کرنا چاہےے؟۔“ چند لمحے سوچنے کے بعدوہ بولا۔”عمر بھائی حقیقت یہ ہے کہ لزا مجھے پسند آگئی ہے اور میں مستقل اسے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں اور یہ تو آپ کو پتا ہی ہو گا کہ میں کتنی آسانی سے اس کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہوں۔“
”ملک صاحب آپ کی بات بجا سہی مگر اس کا فیصلہ تو لزا خود کر سکتی ہے کہ آیا وہ آپ کے پاس رہنا چاہتی ہے یا نہیں رہنا چاہتی۔“
”اگر آپ مہربانی کریں تو اس سے یہ سب کچھ پوچھ کر مجھے بتلا سکتے ہیں کیونکہ میں انگریزی نہیں جانتا۔ دوسرے آپ اسے میرے ساتھ رہنے کے فوائد بھی صحیح طریقے سے سمجھا سکتے ہیں۔“
”اتنا تو خیر ہم کر دیں گے اور شاید وہ مان بھی جائے۔ مگر آپ کو یہ پتا ہونا چاہیے کہ ایک تو وہ نشے کی عادی ہے دوسرے اس کا ماضی بھی کوئی اتنا صاف نہیں ہے۔ آگے آپ کی مرضی۔“
”مجھے وہ اپنی ہر خامی سمیت قبول ہے۔“”جیسے تمھاری مرضی.... لزا کو جاگنے دو ہم اس سے بات کر لیتے ہیں۔“”امجد سے تو مشورہ کر لو۔“”اسے چھوڑیںآپ ۔“
”چلو پھر لزا کے پاس چلتے ہیں شاید وہ جاگ گئی ہو۔“ جانان خان نے بے چینی سے پہلو بدلا۔”نہیں فی الحال آپ رہنے دیں ہم اکیلے میںاس سے بات کر لیتے ہیں۔“ ”یہ بھی ٹھیک ہے لیکن مجھے اس کے فیصلے سے جلدی آگاہ کرنا۔“اور میں سرہلاتا امجد کو ساتھ لیے باہر آگیا۔
”یہ کیا آپ لوگ مسلسل لزا کے پیچھے پڑے تھے۔“ کمرے سے نکل کر امجد مستفسر ہوا اور میں ہنستے ہوئے بولا
عشق نے غالب نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
”کیا مطلب؟“ امجد کچھ نہ سمجھتے ہوئے بولا اور میں نے مختصراً اسے جانان خان سے ہونے والی گفتگو بتا دی۔”ہاں یہ تجویز ٹھیک ہے۔“ وہ بھی جانان خان کے منصوبے سے متفق ہوگیا۔ ”کامیابی اور ناکامی تو ﷲ کے ہاتھ میں ہے مگر ہمارے ضمیر پر تو کوئی بوجھ نہیں پڑے گا ناں؟“
اور لزا کو جانان خان کے حوالے کر دینے کے بارے تمھاری کیا رائے ہے۔“
”اس بات کو لزا کی مرضی پر چھوڑ دو....ہم نے کوئی ٹھیکہ نہیں لیا بچھڑے ہوﺅں کو ملانے کا۔“اس دوران ہم لزا کے کمرے کے قریب پہنچ چکے تھے یوں تو جانان خان کی آرام گاہ سے اس کمرے کا فاصلہ اتنا زیادہ نہیں تھا مگرہم نہایت سُست روی سے چلتے ہوئے وہاں پہنچے تھے اس لیے میں نے امجد کو تمام تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کرلی تھی۔
کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا، ہلکے سے دروازہ کھٹکھٹا کرہم اندر داخل ہوگئے امجد مجھ سے ایک قدم پیچھے تھا وہ تکیہ موڑ کر کمرے کے پیچھے رکھے دونوں ہاتھ گردن سے لپیٹے جانے کن خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔ ہمارے کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ جلدی سے اٹھ کر میری جانب بڑھی۔
”جان !....تم کہاں تھے۔ دیکھو کتنی دیر سے تمھاری منتظر ہوں؟“
اس کی پیش قدمی سے ہی مجھے اس کے ارادے کا پتا چل گیا اور حفظ ماتقدم کے طور پر میں نے جلدی سے مصافحے کے لیے ہاتھ اس کی سمت بڑھا دیا۔ میری اس حرکت پر ایک لمحے کے لیے اس کے چہرے کا رنگ متغیر سا ہوا مگر پھر خود پر قابو پاتے ہوئے اس نے میرا ہاتھ تھام لیا۔”رات کیسی گزری۔“ میں نے نارمل لہجے میں پوچھا۔”بہت اچھی گزرتی اگر آپ میرے ساتھ ہی رہتے۔“ اس نے اپنا ہاتھ امجد کی طرف بڑھایا۔
میں اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے بولا۔ ”بیٹھوتم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔“”بولو۔“ وہ میرے ساتھ بیٹھ گئی۔”لزا!.... ہم تمھیں جس مقصد کے لیے لائے تھے وہ پورا ہو گیا ہے۔ اب آپ ہماری طرف سے فارغ ہیں اگر جانا چاہتی ہیں تو جا سکتی ہیں۔ البتہ جس بندے کی یہ حویلی ہے اس کی خواہش ہے کہ آپ اس کے ساتھ ہی رہیں وہ آپ کی تمام ضروریات کو پورا کرتا رہے گا ۔ ہم دونوں تو چونکہ خود اس کے مہمان ہیں اور شاید کل پرسوں تک یہاں سے چلے جائیں اس لیے آپ سے الوداع ہونے آئے ہیں۔ اگر ہمارے لائق کوئی خدمت ہو یا کسی چیز کی ضرورت ہو تو آپ بے تکلف بتا سکتی ہیں۔“
”حویلی کا مالک کون ہے؟“
”وہی .... جس نے کل ہمارے ساتھ بیٹھ کے کھانا کھایا تھا۔“ ”آپ لوگوں نے کہاں جانا ہے اور اگر میں آپ کے ساتھ جانا چاہوں تو....؟“”بہت مشکل ہے۔ کیونکہ ہم دشمن دار لوگ ہیں اور ہمارے ساتھ رہنے سے آپ کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔“
”مجھے پتا ہے آپ مجھ سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہے ہیں۔“ وہ مایوسی سے بولی۔ ”بہ ہر حال میں کچھ عرصہ تک یہیں رہنا چاہوں گی اگر اس کا رویہ میرے ساتھ اچھا رہا تو ٹھیک ہے ورنہ یہ زمین کافی وسیع ہے۔“
”او کے پھر ہمیں اجازت دو۔“ میں کھڑا ہوگیا۔ ”ہم نے اب کسی کام سے جانا ہے۔“ امجد نے بھی میری تقلید کی تھی اس کے تاثرات ظاہر کر رہے تھے کہ وہ میری باتوں سے متفق ہے۔
لزا نے بے دلی سے ہمیں الوداع کہا وہ ہمارے انداز کو دیکھتے ہوئے سمجھ گئی تھی کہ ہم اس سے جان چھڑاناچاہ رہے ہیں۔وہاں سے ہم سیدھے جانان خان کے پاس پہنچے جو بے چینی سے ہمارا منتظر تھا۔ اسے لزا کے اثبات کی خوش خبری سنا کرہم اپنے کمرے میں آگئے اور اپنے منصوبے کو آخری شکل دینے لگے۔
سرخ رنگ کی ڈبل کیبن درمیانی رفتار سے چودھری اکبر کے مکان کی طرف بڑھ رہی تھی۔ جاگیردار ڈرائیو کر رہا تھا اور اس کے ساتھ شمع گل بیٹھا ہوا تھا۔ ہم دونوں چہروں پر ڈھاٹے لپیٹے گاڑی کے کیبن بیٹھے تھے ۔ جبکہ عقبی حصے میں بھی دو ملازم سوار تھے ان کے ساتھ روٹیوں کا چھابہ اور تین دیگچے بھی پڑے ہوئے تھے چھابے پر بڑی سی چادر پڑی ہوئی تھی تاکہ روٹیاں گرد آلود نہ ہوں۔ تینوں دیگچوں میں نمکین ، میٹھے چاول اور دنبے کا روسٹ گوشت موجود تھا اور یہی مینو آج شادی والے گھر میں مہمانوں کو پیش کیا جانا تھا۔
گزشتہ رات ہم اکٹھے بیٹھ کر اس منصوبے پر تفصیلاً بحث کر چکے تھے۔ اس لیے ہر آدمی کو اپنا کام ازبر تھا۔گاڑی چودھری کی حویلی کے سامنے رک گئی فرنٹ سیٹ پر جا گیردار کے ساتھ بیٹھے ہوئے شمع گل نے گاڑی سے باہر آ کر گیٹ کھٹکھٹانے کے لیے قدم بڑھائے مگر اس سے پہلے دروازے کی چھوٹی کھڑ کی کھلی اور ایک پہلوان نما شخص بر آمد ہوا اسے دیکھتے ہی میں نے پہچان لیا۔ یہ وہی موصوف تھا کہ جس وقت سب سے پہلے چودھری اکبر سے میری ہاتھا پائی ہوئی تھی تو یہ اس کے ساتھ موجود تھا اس کے علاوہ ایک اور پہلوان بھی اس وقت چودھری کے ساتھ تھا اور ان دونوں کو میں نے مار مار کر لمبا کر دیا تھا اور اسی خدشے سے کہ ان کا سامنانہ ہو جائے میں نے اورامجد نے اپنے چہروں کے گرد کپڑے لپیٹے ہوئے تھے۔
پروگرام کے مطابق شمع گل اس سے مستفسر ہوا۔
”گھر میں کتنے آدمی موجود ہو۔ ہم کھانا لے کر آئے ہیں۔“پہلوان نے حیرانی سے پوچھا۔”کہاں سے؟“
”امجد خان کے گھر سے ۔ اس نے حکم دیا ہے کہ جو لوگ بارات میں کسی مجبوری کے باعث شرکت نہیں کر سکے ہیں ان کے گھروں تک کھانا پہنچایا جائے۔ اب جلدی سے بتاﺅ کہ یہاں کتنے افراد ہیں ہم نے اور جگہوں پر بھی جانا ہے۔“
”یہاں تو ہم دو آدمی موجود ہیں۔“
”دوسرا کدھر ہے۔“ شمع خان کے اچانک سوال پہ پہلوان بے ساختہ بولا۔”وہ پچھلے مورچے میں کھڑا ہے۔“”اچھا آپ برتن لے آئیں۔ لیکن خیال رہے میٹھے چاول، نمکین چاول اور روسٹ کے لیے علاحدہ علاحدہ برتن لانے ہیں۔“پہلوان سرہلاتے ہوئے واپس مڑ گیا، تھوڑی دیر بعد ہی وہ تین مختلف برتن اور روٹیوںکے چھابے کے ساتھ لوٹ آیا۔گاڑی میں پیچھے بیٹھے ہوئے دونوں ملازموں نے جلدی جلدی اس کے برتن چاولوں اور روسٹ وغیرہ سے بھر دیئے۔
شمع گل نے ان دونوں ملازموں کوکہا۔ ”یہ کھانا بھائی صاحب کے ساتھ گھر کے اندر تک چھوڑ آﺅ کیونکہ تمام برتن اکیلے لے جانااس کے لیے مشکل ہو جائے گا۔“
اور چونکہ یہ سب کچھ پہلے سے طے تھا اس لیے وہ بغیر کسی حجت کے ”جی اچھا“ کہہ کر گاڑی سے اترے اور پہلوان کے ساتھ چل پڑے۔ پہلوان رسماً بھی انکارنہ کر سکا۔ ان کے حویلی میں داخل ہوتے ہی ہم دونوں پھرتی سے گاڑی سے باہر آئے اور جاگیر دار کی سمت الوداعی ہاتھ ہلا کر دروازے کی جانب بڑھ گئے۔ حویلی کے اندر گھس کر ہم نے سامنے نگاہ دوڑائی پہلوان ہمیں ایک چھوٹے سے کمرے کی طرف بڑھتا دکھائی دیا جو شایدان کا کچن تھا۔ اگر ہم دوڑ کر اصل عمارت میں چھپنے کی کوشش کرتے تب بھی عمارت تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔ کیونکہ پہلوان کچن کے دروازے تک پہنچنے والا تھا اور اس کے علاوہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ دوڑنے سے ہمارے پاﺅں سے ہونے والی آہٹ سن کروہ پیچھے مڑ کر دیکھتا اور ہمارا سارا پلان فیل ہو جاتا اور ہمارے وہاں چھپنے کے لیے کوئی گنجائش بھی باقی نہ رہتی۔ ہم بجلی کی سی سرعت سے ایک فیصلے پر پہنچے اور گیٹ کے ساتھ موجود چھوٹے سے کمرے میں گھس گئے۔ یہ کمرہ چوکیدار کے لیے بنایا گیا تھالیکن عام کمرے کے برعکس یہ اونچا تھا اس کے دو پورشن اوپر نیچے بنائے گئے تھے گویا اندر سے یہ دو منزلہ تھا۔ اوپر والے پورشن پر چڑھنے کے لیے لکڑی کی ایک سیڑھی لگائی گئی تھی۔ نیچے ایک چارپائی پڑی تھی جس پر کھجور کے پتوں سے بنی ایک چٹائی بچھی ہوئی تھی اور ایک میلی سی چادر بھی پڑی ہوئی تھی۔ اس مختصر سے کمرے میں ہمیں کوئی ایسی جگہ نظر نہ آئی جہاں ہم کمرے میں گھسنے والے کسی شخص کی نگاہ سے چھپ سکتے۔ اوپر والا پورشن بھی اس لحاظ سے موزوں نہیں تھا۔ کمرے میں گھسنے والے نے لازماً ڈیوٹی کے لیے اوپر چڑھناتھا ۔ لے دے کے دروازے کے کواڑ تھے جن کے پیچھے خود کو چھپانے کی کوشش کی جا سکتی تھی مگروہ کوشش بھی اس صورت میں کامیاب ہوتی کہ کمرے میں داخل ہونے والا بغیر دائیں بائیں غور کیے دوسری منزل پر چڑھ جاتا۔ اگر چارپائی کے اوپر ایسی چادر بچھی ہوتی جس کی وجہ سے کمرے میں داخل ہونے والے کو اس کے نیچے چھپا ہوا بندہ نظر نہ آ سکتا تو وہ ایک بہترین جگہ تھی لیکن بدقسمتی سے اس کے اوپر چٹائی بچھی تھی اور اس کے نیچے چھپنے والا بغیر کسی تردد کے نظر آسکتا تھا۔
میں نے دروازے کی درز سے جھانکا جانان خان کے دونوں ملازم پہلوان سے الوداعی مصافحہ کر کے رخصت ہو رہے تھے۔ ان کے دروازے سے باہر نکلنے تک پہلوان صحن میں کھڑا رہا۔ اس کے بعد یقینی طور پر اس نے اپنی ڈیوٹی پر پہنچنا تھا، گو اس پر قابو پانا ہمارے لیے کوئی مشکل نہیں تھا مگر اس صورت میںہمارا پلان فیل ہو جاتا اور چودھری اپنے ملازموں کی غیر موجودی سے بدک بھی سکتا تھا۔
لیکن اس دن شاید ہماری قسمت عروج پر تھی کہ جونھی گاڑی کے سٹارٹ ہو کر چلنے کی آواز آئی پہلوان نے گیٹ میں موجود کھڑکی کی کنڈی اندر سے لگائی اور عمارت کے عقبی حصے کی جانب چل پڑا ۔
وہ جیسے ہی میری نگاہ سے اوجھل ہوا میں نے آہستگی سے دروازے کا کواڑ کھول کر باہر جھانکا وہ حویلی کی پشت کی جانب مڑتا دکھائی دیا، میرے اندازے میں وہ اپنے ساتھی کو کھانے کی اطلاع دینے جارہا تھا۔ یہ چند لمحے ہمارے لیے غنیمت تھے ورنہ بعد میں ہم چوہے کی طرح اس کمرے میں پھنس جاتے۔
”امجد چلو۔“ اس کے عمارت کے پیچھے غائب ہوتے ہی میں نے تیز لہجے میں کہا اور ہم دونوں تیزی سے اندرونی عمارت کی طرف بڑھے۔ ہماری حتی الوسع کوشش یہی تھی کہ ہمارے پاﺅں کی آواز نہ نکلے اور ہم اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی رہے۔ ہم اندرونی عمارت کے قریب پہنچنے والے تھے کہ میرے کانوں میں پہلوان کی آواز آئی جو ساتھی کو کھانے کے لیے بلا رہا تھا۔ اس نے شاید مورچے کے اوپر چڑھنے کی زحمت گوارانھیں کی تھی کہ اس کی زور دار آواز ہمارے کانوں تک پہنچ رہی تھی حویلی کا طرزتعمیر مقامی تھا۔ چھوٹا سا برآمدہ عبورکر کے ہم اندر داخل ہوئے، ایک مختصرسی گیلری تھی جس کے دونوں جانب اور سامنے کی طرف کمروں کے دروازے نظر آرہے تھے۔ مجھے پتا تھا کہ ان کے سامنے والے کمروں کے ساتھ ملحق اور بھی بہت سارے کمرے موجود ہوں گے کیونکہ مقامی لوگ کمرہ در کمرہ تعمیر کے عادی تھے۔ اس کی وجہ شاید اس سردی کی شدت کو کم کرنا ہو جو اس علاقے میں ریکارڈ پڑتی ہے۔
”اس منحوس کا کمرہ کون سا ہو سکتا ہے؟“ امجد نے برآمدے کے مین دروازے کے کواڑ بند کر دئےے۔
”جو کمرہ سب سے زیادہ پُر تعیش اور سجا ہوا ہو گا وہی اس کا ہو گا.... آخر چودھری ہے“۔ میںنے جیب سے پنسل ٹارچ نکال کر آگے بڑھ گیا۔ گو جس وقت ہم اندر داخل ہوئے تھے اس وقت ابھی تک سورج غروب نہیں ہوا تھا مگر عمارت کے اندر روشنی کا کوئی خاطرہ خواہ بندوبست نہیں کیا گیا تھا اس لیے گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔برآمدے کے مین دروازے کے ساتھ دوکھڑکیاں موجود تھیں جو بند تھیں ان کو کھولنے سے گیلری میں خاطر خواہ روشنی پھیل سکتی تھی مگرہم اس قسم کا کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔
تھوڑی دیر اندرونی عمارت میں گھومنے کے بعد ہی ہم نے چودھری کی خواب گاہ تلاش کرلی تھی لکڑی کا جہازی سائز بیڈ اور فرش پر بچھا ہوا ایرانی قالین دیکھتے ہی ہمیں یقین ہو گیاکہ وہ چودھری کی خواب گاہ تھی۔ وہاں چھپنے کے لیے سب سے بہترین جگہ بیڈ لگا، ہم اس کے نیچے گھس کر آرام سے لیٹ گئے تھے۔
جاری ہے
No comments: