Bhagora By Riaz Aqib Kohler Episode No. 32 ||بھگوڑا مصنف ریاض عاقبکوہلر قسط نمبر 32
Bhagora
By
Riaz Aqib Kohler
بھگوڑا
مصنف
ریاض عاقب کوہلر
بھگوڑا
قسط نمبر32
ریاض عاقب کوہلر
”عمر جان صیب!.... بھائی کانام تم نے نئیں بتایا؟“”میرا نام امجد ہے۔“ میرے بولنے سے پہلے امجد نے جواب دیا۔”آپ بھی ڈیرہ کا ہے؟“
”نہیں.... میرا تعلق مانسہرہ سے ہے۔“
”تو تم لوگوں کا یارانہ کیسے بنا۔“ وہ ٹوٹی پھوٹی اردو بول رہا تھا ۔
”ہم دونوں فوج میں اکٹھے رہے ہیں۔“ امجد نے جواب دیا اور وہ اثبات میں سرہلا کر رہ گیا۔ اس کے بعد ملک بہادر کی حویلی تک وہ اسی طرح امجد سے انٹریو لیتا رہا۔ﷲ تعالیٰ کی شان بھی عجیب ہے وہی حویلی جس کے دفاعی نظام کو دیکھتے ہوئے ہم اس میں گھسنے کا پروگرام بھی نہیں بنا سکتے تھے اس وقت ایک معزز مہمان کی طرح اس کے دروازے ہمارے لیے کھل گئے تھے۔
حاجی بہادر سے ہمارا تعارف طوفان خان نے اپنے بہت زیادہ قریبی دوستوں کے طور پر کرایا تھا۔ حویلی کا دفاعی نظام ہمیں حویلی کے اندر آ کر پہلے سے بھی زیادہ مضبوط لگنے لگا تھا۔رات کو طوفان خان نے ہمارے لیے پُر تکلف دعوت کا بندوبست کیا تھا، ہمارے لیے سب سے زیادہ حیران کن کھانا حویلی کے وسیع صحن میں آگ کے الاﺅ پر سالم روسٹ ہونے والے دنبوں کا تھا۔ کھانا ان کی روایت کے مطابق زمین پر دستر خوان بچھا کرکھایا گیا۔ کھانے کے بعد قہوے کا دور چلا ۔ قہوہ پی کر ہم صحن میں بچھی چارپائیوں پر آبیٹھے۔ چند افراد جیب سے سگریٹ نکال کر اس میں چرس بھرنے لگے۔
”اگر آپ لوگ چرس، افیون یا کسی اور نشے کا شوق رکھتے ہو تو ہر چیز ادھر دستیاب ہو جاتی ہے۔“ طوفان خان نے ہم سے پوچھا۔”شکریہ....ہم ان نعمتوں سے دور ہیں۔“اور طوفان خان کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ اسی وقت ایک شخص رباب لیے نمودار ہوا اس کے ہمراہ دوسرے شخص کے ہاتھ میں مٹی کا گھڑا تھا ،دونوں دسترخوان کے لیے بچھائی گئی دری کے اوپر بیٹھ گئے اور پھر رباب کے تاروں سے جادو بھری آواز سُر کی شکل میں نکلی ۔ گھڑا بجانے والے نے بھی رباب کے سُر کے ساتھ اپنے گھڑے کی تھاپ کو ملایا لیاتھا۔ رات گئے تک وہ پشتو کی مختلف غزلیں اور گیت گاکر ہمیں محظوظ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ ہم نے طوفان خان سے سونے کی جازت طلب کی جس کے ساتھ ہی وہ محفل اختتام کو پہنچی۔ یوں بھی مجھے گانے سننے کا بالکل شوق نہیں تھا لیکن میزبان کی دل آزاری کے خوف سے میں خاموش رہا ،البتہ وقت میں نے ضائع نہیں ہونے دیا تھا اور دبی زبان میں طوفان خان سے جنگل خیل کے متعلق مختلف قیمتی سوالات پوچھتا رہا تھا۔
سونے کے لیے بھی حویلی کے صحن ہی کو استعمال کیا گیا تھا۔ پُرتکلف غذا اور پھر سارے دن کی تھکن کی وجہ سے ہم چارپائی پر لیٹتے ہی پُرسکون نیند میں ڈوب گئے تھے۔
” آپ لوگ پسند کرو تو کچھ راستے تک میں آپ لوگوں کے ساتھ جا سکتا ہوں۔“ جنگل خیل کے راستے کی نشاندہی کرتے ہوئے طوفان خان نے پیشکش کی۔ وہ پگڈنڈی نما راستا ایک اونچی پہاڑی کے اوپر سے گزر رہا تھا۔ دگن سے مسلسل تین گھنٹوں کے سفر کے بعد ہم وہاں تک پہنچے تھے۔
”بہت شکریہ طوفان خان۔ آگے ان شا ءﷲ ہم خود ہی چلے جائیں گے۔ آپ صرف اتنی رہنمائی کر دیں کہ اس کے علاوہ بھی جنگل خیل تک جانے کا کوئی راستا ہے۔ میرا مطلب ایسے راستے سے ہے جس پر بندہ گاڑی میں بیٹھ کر جا سکے۔“”گاڑی کا راستا تو موجود ہے ....لیکن وہ راستا بہت زیادہ طویل ہے، 4 سے 5دن لگ جاتے ہیں کیونکہ اس کے لیے بندے کو پہلے افغانستان کی سرحد عبور کرنا پڑتی ہے اور پھروہاں سے جنگل خیل کے لیے دوبارہ پیچھے آنا پڑتا ہے۔ طوالت کے ساتھ اس راستے کی حالت بھی بہت خستہ و خراب ہے، میں زندگی میں صرف ایک مرتبہ اس راستے سے جنگل خیل تک گیا تھا۔ اس کے بعد دوبارہ مجھے وہ راستا استعمال کرنے کی جرا¿ت نہیں ہوئی۔ افغانستان سے البتہ اس کا راستا اتنا دشوار گزار نہیں ہے۔“”یہاں سے کتنا وقت لگ جائے گا؟“ ”یہ آپ لوگوں کی رفتار پر منحصر ہے۔ نارمل رفتار سے چلیں تو دو سے تین دن لگ جائیں گے۔“
”اچھا طوفان خان اب ہم اجازت چاہیں گے۔“ اس کی بات ختم ہوتے میں نے اس سے ملنے کے لیے بازو پھیلاتے ۔ ”اگر زندگی رہی تو ان شاءﷲدوبارہ ملیں گے۔“”ان شاءﷲ۔“اس نے مجھے اپنے مضبوط بازوﺅں میں بھینچتا ۔ ”بس میری یہ بات یاد رکھنا کہ وہ علاقہ کافی خطرناک ہے اور اپنے نام کی طرح وہاں جنگل کا قانون چلتا ہے۔ جو طاقتور ہووہی وہاں کا ملک اور سردار ہے اور علاقے کی اسی خوبی کی بنا پر چودھری اکبر نے اسے پسند کیا تھا۔ اسے وہاں گئے ہوئے تین چار ہفتے ہونے والے ہیں اب تک تو شایداس نے اپنے قدم مضبوطی سے جما لیے ہوں۔“”ہم ضرورآپ کی ہدایات کا خیال رکھیں گے۔“ میں اس سے علاحدہ ہو کربولا۔
امجد کو سے چھاتی لگا کر وہ اپنی ڈبل کیبن ٹویوٹا میں بیٹھتا ہوا بولا۔
”عمر جان.... چودھری اکبر سے مل کر گنڈہ پور قوم کے متعلق جو برا تاثر میرے دل میں اُجاگر ہوا تھا آپ سے ملنے کے بعد بالکل زائل ہو گیا ہے۔“
”طوفان خان میں یہ تو نہیں کہتا کہ گنڈہ پور قوم کوئی بہت اچھی قوم ہے البتہ اتنا ضرور بتاوں گاکہ چودھری اکبر کا تعلق گنڈہ پور قوم سے نہیں ہے۔ آپ نے شاید غور نہیں کیا وہ چودھری اکبر ہے اور چودھری اس کا نام نہیں بلکہ قوم ہے۔“”غلط فہمی دور کرنے کا شکریہ۔“ اس نے مسکرا کر کہا۔ ”اور خدا حافظ۔“ کہہ کر اس نے واپسی کے لیے گاڑی موڑ لی۔”چل بھئی ماجے۔“ میں نے جنگل خیل کے رستے کی طرف قدم بڑھائے ۔ ”بڑا شوق تھا تمھیں وزیرستان کی سیر کرنے کا۔“
”تم سے تو کچھ کم ہی تھا۔“
میں خاموش ہی رہا تھا ۔ نامعلوم جنگل خیل میں ہمارے لیے کون کون سے ہنگامے منتظر تھے۔
جنگل خیل کا راستا کافی دشوار گزار تھا۔ چڑھائی بالکل سیدھی تھی اور تنگ راستے پر بہ مشکل ایک آدمی چل سکتا تھا۔ میں امجد سے چند قدم آگے تھا۔ جن حضرات کا پہاڑی علاقے سے واسطہ پڑ چکا ہو ان کے علم میں یہ بات ضرور ہو گی کہ چڑھائی چڑھنا کس قدر مشکل اور تکلیف دہ کام ہوتا ہے۔ شمالی علاقہ جات میں گزارے ہوئے عرصے کی بہ دولت ہم دونوں کو پہاڑوں میں زندگی گزارنے کا کافی تجربہ تھا۔ جب ہم وہاں نئے نئے تعینات ہوئے تھے تو پہلے سے وہاں پر موجود ساتھی ہمیں چڑھائیاں چڑھنے کا یہ گر بتلاتے تھے کہ....
”خود نہ تھکو بلکہ پہاڑوں تھکاﺅ۔“
یعنی اتنا آہستہ چلو کہ سانس نہ چڑھے اور پہاڑ تمھارے چڑھنے کا انتظار کر کر کے تھک جائیں۔ اس وقت بھی ہم اس مقولے پر عمل پیرا ہو کر آہستہ آہستہ بلندی کی منزلیں طے کر رہے تھے۔ ہم بغیر رکے مسلسل ایک گھنٹا محوِ سفر رہے یہاں تک کہ چند میٹر ہموار سطح آنے کے بعد راستا ہلکا سادائیں مڑ کر ایک بار پھر بلند ہونے لگا اس مرتبہ ہمارے دائیں ہاتھ پر کھڑی چٹان تھی بالکل دیوار کی طرح سیدھی جسے ہم فوجی زبان میں ”کلف“ کہتے ہیں۔
میں تقریباًاوپر پہنچ گیاتھاجبکہ امجد مجھے سے چند قدم پیچھے تھا اچانک اس کا پاﺅں پھسلا اور وہ ”اف“ کی آواز کے ساتھ دائیں جانب گرا۔ اس کے پھسلنے کی آواز سنتے ہی میں پیچھے کے جانب مڑا۔
”سنبھل کے ماجے۔“ حالانکہ یہ بات کہنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی اور امجد بھی اچھی طرح جانتا تھا کہ اس جگہ سے نیچے گرنے کا کیا مطلب ہے۔ مگر کہتے ہیں ناہونی شدنی ہو کر رہتی ہے۔ وہ سنبھلنے کی کوشش کے باوجودوہ راستے سے نیچے کی طرف کھسکا اور دوسرے ہی لمحے وہ بلندی سے دھکیلے گئے پتھر کی طرح اس سیدھی ڈھلان سے نیچے کی طرف بڑھا۔ میں گھبرا کر چیخا....
”امجد، د،د، د“ خوف سے ایک لمحے کے لیے میری آنکھیں بند ہو گئیں تھیں۔دوبارہ آنکھیں کھولنے پر مجھے امجد ایک جھاڑی کو پکڑ کر لٹکا نظر آیا اس کی خوش قسمتی کہ وہ جھاڑی اس کے گرنے کے مقام سے چند میٹر نیچے زمین کے متوازی اُگی ہوئی تھی۔ نیچے گرتے ہوئے بھی امجد نے اپنے حواس پر قابو رکھا تھا اور اس جھاڑی پر اپنی گرفت قائم کرلی تھی۔ ایسی جھاڑیوں کی جڑیں بہت مضبوطی سے پہاڑ میں پیوست ہوتی ہیں اور ان کی اسی مضبوطی کی وجہ سے اس وقت امجد اس جھاڑی کے ساتھ سیدھا لٹک رہا تھا۔ وہ غیر اہم سی جھاڑی جو چند لمحے پہلے ہماری نظر میں کسی اہمیت کی حامل نہیں تھی اس وقت ہفت اقلیم کی دولت سے بھی زیادہ حیثیت اختیار کر گئی تھی۔
”شاباش ماجے، اسے مضبوطی سے تھامے رہو.... اور نیچے نہیں دیکھنا۔ بس چند میٹر کا فاصلہ ہے میں ابھی تمھیں کھینچ لیتا ہوں۔“اس نے میری بات کا جواب نہیں دیا تھا ۔ میں نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور پھر اپنی کلاشن کوف سے سلنگ نکالی مگر اس کی لمبائی اتنی زیادہ نہیں تھی کہ وہ امجد تک پہنچ سکتی۔ امجد کی اپنی گن اور کپڑے کا تھیلا نیچے گر چکے تھے۔ میں نے اپنے تھیلے میں موجود گرم چادر نکالی اور پنڈلی سے بندھے ہوئے خنجر کو کھول کر چادر کو لمبائی میں تین برابر ٹکڑوں میں کاٹ دیا۔ ان ٹکڑوں اور سلنگ کو میں نے دو رسوں کو جوڑنے والی گانٹھ ریف ناٹ کی مدد سے مضبوطی سے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا۔ گانٹھوں کی مختلف اقسام ہم پہاڑی علاقے کے کورس میں بڑی تفصیل سے سیکھ چکے تھے۔ یہ کورس ہم نے رٹّوسکول میں اپنی کمانڈو سروس کے دوران کیا تھا۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے بتاتا چلوں کہ گانٹھوں کی تقریباً 18اقسام ہیں، ان کے بارے بیان کرنے کا تو یہ موقع نہیں البتہ اتناضرور کہوں گا کہ یہ گانٹھیں عام زندگی میں بھی بڑی مدد گار اور مفید ثابت ہوتی ہیں۔ اس وقت بھی ریف ناٹ سے چادر کے ٹکڑے جوڑتے ہوئے مجھے یہ اطمینان حاصل تھا کہ وہ گانٹھ خود بخود کسی قیمت پر نہیں کھل سکتی تھی۔ تھوڑا سا نیچے ہو کر میں نے راستے میں اپنے بیٹھنے کے لیے ایک جگہ منتخب کی، اپنے دونوں پاﺅں پہاڑ میں مضبوطی سے گڑے ہوئے پتھروں پر لٹکا کر میں نے رسّی امجد کے جانب لٹکا دی۔ سلنگ والی سائیڈ میں نے امجد کی طرف رکھی تھی اور سلنگ کے سرے پر پھانسی کے پھندے کی طرح کا حلقہ بنا دیا تھا تاکہ امجد اس میں سے اپنا ہاتھ گزار کر پکڑے۔ اس کا فائدہ یہ تھا کہ سلنگ ہاتھ سے پھسل جانے کی صورت میں بھی وہ نیچے نہیں جا سکتا تھا۔
امجد کی نگاہیں میری جانب ہی مرکوز تھیں، جیسے ہی سلنگ کا حلقہ اس کے ہاتھ تک پہنچا اس نے جھاڑی پر بائیں ہاتھ کی گرفت قائم رکھتے ہوئے دایاں ہاتھ آہستہ سے رسّی کے حلقے کی جانب بڑھایا۔ ایک ہاتھ سے اپنے پورے بدن کو سہارنا بہت مشکل کام ہے اور جب سچوئیشن ایسی ہو کہ ہاتھ چھوٹنے کا مطلب صریحاً موت ہو تو پھر یہ کام اور بھی دشوار اور مشکل ترین ہو جاتا ہے، مگر وہ امجد تھا اس نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ایک ہاتھ سے لٹکتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے سلنگ کو تھام لیا اور پھر دوسرا ہاتھ بھی جھاڑی سے ہٹا کر سلنگ پر جما دیا اور اس کے ایسا کرتے ہی اس کے تمام جسم کا بوجھ میرے دونوں بازوﺅں پر منتقل ہو گیا تھا۔ میں نے چادر پر گرفت مضبوط کرتے ہوئے پیچھے کے جانب لیٹ گیا ۔ میری ذراسی لغزش اور کمزوری سے ہم دونوں آسانی سے موت کے سفر پر روانہ ہو سکتے تھے۔ وہ بے جان پتھر جس پر میں نے اپنے دونوں پاﺅں ٹکائے ہوئے تھے، مجھے بہت تقویت دی تھی اس کی غیر موجودی میں شاید مجھے زیادہ محنت کرنا پڑتی۔ پیچھے کی طرف جھکنے کی وجہ سے امجد میری نظروں سے اوجھل تھا لیکن رسّی کو لگنے والے جھٹکے اس کی پیش قدمی کا مظہر تھے۔ وہ چند میٹر کا فاصلہ طے کرنے میں شاید امجد کو پانچ سے دس منٹ لگے ہوں مگر وہ منٹ ہمارے لیے صدیوں پر محیط ہو گئے تھے۔ اوپر پہنچتے ہی امجد میرے ساتھ بیٹھ کر لمبے لمبے سانس لینے لگا۔ اس کی قمیص پسینے سے بھیگ گئی تھی۔
”شہلا بی بی شادی سے پہلے بیوہ ہونے چلی تھی۔“ وہ اپنا سانس درست کرتے ہی بولا۔
”اس کے لیے تو بہتر ہی یہی تھا۔ جس کام کے لیے اس نے شادی کے بعد دعائیں مانگنی ہیں اگر وہ شادی سے پہلے ہو جاتا تو کیا مضائقہ تھا۔“
”غلط فہمی ہے تمھاری۔“ اس نے برا سامنہ بنایا۔ ”اگر مجھے کچھ ہو جاتا تو وہ رو رو کر جان دے دیتی۔“
”اسے سادہ الفاظ میں تم شادی¿ مرگ کہہ سکتے ہو۔“
”اچھا بکواس کرنے کی ضرورت نہیں اور پانی پلاﺅ۔“
”تمھارے غصے کو دیکھ کر لگتاہے میں نے سچی بات کہی ہے۔“میں پانی کی بوتل تھیلے سے نکال کر اس کے جانب بڑھائی۔
”ہونہہ!.... بڑا آیا سچا۔“ وہ پانی کی بوتل منہ سے لگا کر غٹاغٹ آدھی بوتل پی گیا۔ مجھے بھی اس وقت کافی پیاس محسوس ہو رہی تھی اس لیے بقیہ آدھی بوتل میں نے چڑھالی اور خالی بوتل تھیلے میں رکھ لی۔ مجھے پتا نہیں تھا کہ آگے پانی ہمیں کتنی دیر بعد میسر ہوتا، مگر ٹریننگ نے ہمیں یہ سکھلایا تھا کہ اگر کبھی ایسے حالات میں پھنس جاﺅ جہاں پانی ملنے کی امید نہ ہو یا کم ہو تو اپنے پاس موجود پانی وقفے وقفے سے گھونٹ کبھی دو گھونٹ اور کبھی زبان تر کر لینے سے زیادہ بہتر یہی ہے کہ ایک ہی مرتبہ سیراب ہو کر پانی پیا جائے اور ہماری اس وقت کی جدوجہد کا تقاضا یہی تھا کہ ہم اپنی کھوئی ہوئی توانائی کو بحال کر کے آگے جانے کے لیے خود کو تیار کرتے۔”چلیں؟“ امجد نے پوچھا۔”چلو۔“ میں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ چند منٹوں بعد ہی ہم نسبتاً ہموار جگہ پر پہنچ گئے تھے اس کے بعد اترائی تھی اور اس طرف اِکا دُکا درخت بھی نظر آرہے تھے۔ چڑھائی کے برعکس اترائی میں بہت کم توانائی خرچ ہوتی ہے لیکن رستا دشوار ہونے کی صورت میں گرنے کا خطرہ اترائی میں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ خوش قسمتی سے اترائی بہت ہموار تھی اور نیچے لڑھکنے کا خطرہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ ہم ٹہلنے کے انداز میں اترتے چلے گئے ۔ اوپر کی نسبت نیچے درخت زیادہ تھے۔ ایک جگہ درختوں کے جھنڈ کے ساتھ ہمیں پتھروں کے درمیان صاف و شفاف پانی چمکتا نظر آیاوہ ایک چھوٹا سا چشمہ تھا اور پانی ایک چھوٹے سے گڑھے میں جمع ہو گیا تھا۔
”کتنی خوب صورت جگہ ہے۔“ امجد چشمے اور اس کے ساتھ موجود درختوں کے جھنڈ کو دیکھتے ہوئے بولا۔
”بیٹھو کھانا کھا لیتے ہیں۔“ پانی کو دیکھ کر میری بھوک چمک اٹھی تھی۔ہم دونوں کے پاس اپنا اپنا کھانا موجود تھا مگر امجد کا تھیلا نیچے گر چکا تھا۔ اس کے لیے ہمیں صرف ایک بندے کے کھانے پر گزارہ کرنا پڑ گیا۔ یوں بھی ہمیں کھانے کی اتنی زیادہ فکر نہیں تھی۔ ہم کئی دن تک بھوک برداشت کر سکتے تھے۔ کھانا کھا کر ہم نے چشمے کے ٹھنڈے پانی سے سیراب ہو کرپانی پیا اور پھر بوتل کو بھر کروہاں سے آگے بڑھ گئے۔
”امجد یہ گن رکھ لو۔“ میں نے کلاشن کوف اس کی جانب بڑھائی ۔ ”میرے پاس پستول موجود ہے۔“
امجد نے خاموشی سے کلاشن کوف پکڑ کر کندھے سے لٹکالی۔ہمارے سامنے ایک بڑی سی وادی تھی جو کافی سرسبز تھی۔ درختوں کے جھنڈوں کے ساتھ اِکا دُکا گھر بھی نظر آرہے تھے۔”جانو.... تُم نے طوفان خان سے جنگل خیل کے متعلق کافی معلومات حاصل کیں تھیں، تمھارے خیال کے مطابق ہم کب تک وہاں پہنچ جائیں گے۔“”جہاں تک جنگل خیل کا تعلق ہے تو وہ اس وادی سے شروع ہو جاتا ہے۔“ میں نے اپنے سامنے پھیلی وادی کے جانب اشارہ کیا۔ ”البتہ یہاں خال خال گھروندے نظر آرہے ہیں وادی کے پار پہاڑی عبور کر کے کافی بڑے بڑے گاﺅں شروع ہو جاتے ہیں اور جنگل خیل کا علاقہ افغان بارڈ بلکہ اس سے بھی کافی اندر تک چلا جاتا ہے۔ اس سارے علاقے کو جنگل خیل کہتے ہیں۔ پہچان کی خاطر ہر چھوٹے بڑے گاﺅں کا اپنا نام بھی ہوتا ہے۔ اب اکبر خان اس سارے علاقے میں کہاں چھپا ہے، اس کے لیے ہم نے خود ہی تگ و دو کرنی ہے طوفان خان اس سے متعلق بس اتنا بتا سکا ہے کہ اکبر خان یہ وادی عبور کر کے سامنے والی پہاڑیوںکے پیچھے موجود کسی گاﺅں میں چھپا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ جنگل خیل کے نام سے یہاں دو گاﺅں بھی مشہور ہیں۔“
ہم پہاڑی سے نیچے اتر کر اس وادی میں چلنا شروع ہو گئے تھے۔ سورج کا سفر زوال کے جانب شروع ہو گیا تھا۔”جانو صاحب !.... کہیں رات گزار نے کے لیے جگہ ڈھونڈو۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہاں کی رات پنجاب جیسی ہو گی۔“”یہ بات تمھیں نیچے لڑھکنے سے پہلے سوچنا چاہئے تھی۔ دونوں گرم چادروں کا بیڑہ غرق کر کے یہ خیال آرہا ہے کہ رات کو سردی ہو گی۔“”ملک جانو صاحب!.... میں پہلے سے تمھیں اس لیے بتا رہا ہوں کہ ملازمین کی شب بسری اور کھانے پینے کی ضرورت مالک کے ذمہ ہوتی ہے۔“”ٹھیک ہے جو مالک کھائے وہ تُم بھی کھا لینا اور جہاںسوئے گا تمھیں بھی سلا دے گا۔“”فلسفہ نہیں چلے گا ملک صاحب ! “”اگر اس بکواس کی بجائے تم دائیں بائیں نگاہ دوڑاﺅ تو شاید کوئی موزوں جگہ مل ہی جائے۔“ ”یہ میری نہیں تمھاری ذمہ داری ہے۔“اس نے کندھے اچکائے ۔
میں نے اسے جواب دینے کے بجائے دائیں بائیں غور سے دیکھنا شروع کر دیا۔ اس دوران ہم بغیر رکے سیدھے چلے جارہے تھے۔اچانک ایک جھاڑیوں کے جھنڈ سے دو تین بکریاں اور انھیں ہنکارتی ہوئی ایک نوجوان لڑکی باہر نکلی وہ مقامی لباس میں تھی۔ عورتوں کا مقامی لباس گھگرا، پاجامہ اور ایک بڑے دوپٹے پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ لباس ستر پوستی کے سارے شرعی تقاضے پورے کرتا ہے۔ سردیوں گرمیوں میں اس علاقے کی خواتین اس لباس میں نظر آتی ہیں۔
ہم پر نظر پڑتے ہی وہ لڑکی ٹھٹک کر رک گئی اورجلدی سے دوپٹہ ٹھیک کر کے چہرہ ڈھانپنے لگی۔امجد نے کہا۔”اسی سے رہائش کی بات نہ کرلیں؟“ ”ماجے !.... اگر تُم نے ضرور اکبر خان سے ملاقات سے پہلے مرنے کی ٹھان لی ہے تو ایسا کر لیتے ہیں؟“
”کیا مطلب ہے؟“ وہ حیرانی سے بولا۔
”مطلب یہ ہے کہ تم لاہور میں نہیں گھوم رہے۔ یہ وزیرستان ہے یہاں پرائی عورتوں سے بات کرنا۔ نہ صرف ناپسندیدہ اور معیوب ہے بلکہ کسی حادثے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ عورت کے بھائی، باپ یا شوہر کی صرف ایک گولی ضائع ہو گی اور ماجے صاحب جنت یا جہنم کا ٹکٹ لے کر پیادیس سدھادیں گے۔“
”کیوں میں نے چوڑیاں پہن رکھی ہیں کیا؟ یا میرے پاس ہتھیار نہیں ہے۔“”اچھا دفع کرو اس بحث کو ۔“ میں نے جان چھڑائی ۔ ”اور شب بسری کا کچھ سوچو۔“ اس وقت ہم لڑکی سے آگے بڑھ آئے تھے۔ مگر اس سے پہلے کہ امجد میری بات کا جواب دیتا۔ اس لڑکی نے ہمیں آواز دی۔”ورورا !....چہ تا سو مسافر یئے نوشیہ منگ کور کے اوکڑے“(بھائی اگر آپ لوگ مسافر ہو تو رات ہمارے گھر میں گزار لو۔)
ہم دونوں ٹھٹک کر رک گئے ۔
” کیا کہہ رہی ہے ؟“ امجد مستفسر ہوا۔”کہہ رہی ہے کہ اگر مسافرہو تو رات ہمارے ہاں گزار لو۔“”واہ.... اسے کہتے ہیں نیت صاف اور منزل آسان۔“
”خورے ڈیرا مہربانی“(بہن بہت مہربانی) آپ کا گھر کس طرف ہے؟“
”سیدھے چلتے جائیں، اس بڑے درخت سے دائیں مڑ جانا۔“ اس نے قریباً سو گز دور ایک نمایاں درخت کی طرف اشارہ کیا۔اور میں سرہلاتا ہوا امجد کو ساتھ لیے اس درخت کے جانب چل دیا۔ وہ بھی اپنی بکریوں کو ہنکاتی ہمارے پیچھے چل پڑی۔ تھوڑی دیر بعد میں ہم اس کے گھر کے قریب پہنچ گئے تھے۔ گھر کے باہرایک صحت مند بوڑھا کلھاڑی کے ساتھ خشک لکڑیوں کے ٹکڑے کر رہا تھا۔ ہم پر نظر پڑتے ہی اس نے کلھاڑی پھینکی اور کسی شنا سا کی طرح بڑی گر م جوشی سے ”پخیر پخیر“ کہتے ہوئے ہمارے جانب بڑھا۔
”السلام علیکم ماما۔“ میں نے مو¿دبانہ انداز میں سلام کیا۔
”وعلیکم السلام۔“ اس کا لہجہ نہایت شیر یں اور اخلاص سے پُر تھا۔ اس نے پُرتپاک انداز میں ہم دونوں سے معانقہ کیا۔ ”آپ لوگوں کو غالباً پلوشہ بیٹی لے کر آئی ہے۔“
”جی ابو جان۔“ اس سے پہلے کہ میں اس کی بات کا جواب دیتا پلوشہ ہمارے پیچھے نمودار ہوئی۔
”آو بیٹا !....بیٹھو“ ۔وہ ہمیں مکان کے سامنے پڑی ہوئی چارپائی کی طرف لے گیا۔”بیٹی !مہمانوں کے نہانے کے لیے باتھ روم میں پانی رکھ دو۔“ ہمیں چارپائی پر بٹھا کر وہ اپنی بیٹی کو مخاطب ہو ا۔اس کے انداز میں اتنی بے تکلفی اور شفقت تھی کہ ہم خود کو بنِ بلایا مہمان سمجھنے کی بجائے اس کے خصوصی مہمان سمجھ رہے تھے۔
بیٹی کو پانی لانے کا کہہ کر وہ خود گھر کے اندر گھس گیا۔ واپسی پر اس کے ہاتھ میں مٹی کی درمیانے سائز کی صراحی تھی جس میں و ہ ٹھنڈا پانی لے کر آیا تھا۔ پانی عجیب قسم کی فرحت بخش ٹھنڈک لیے ہوئے تھا۔ پانی پینے کے دوران پلوشہ مکان کے سامنے بنے ہوئے پتھر کے باتھ روم میں پانی کی دوبالٹیاں رکھ چکی تھی۔
”ابو جان پانی رکھ دیا ہے۔ مہمانوں کو کہیں نہالیں۔“ ”جاﺅ بیٹا!.... ایک ایک کر کے نہالو۔“ وہ مشفق لہجے میں بولا اور میں سر ہلاتا ہوا باتھ روم کی طرف بڑھ گیا۔
ہم دونوں جب تک نہا کر تازہ دم ہوتے وہ خوشبو دار قہوہ بنا کر لے آیا تھا۔ نہانے اور قہوہ پینے سے ہماری تھکن بالکل اتر گئی تھی۔ اس دوران اس بوڑھے کا اندازِ گفتگو بالکل ایسا رہا جیسے وہ برسوں سے ہمارا واقف کار اور شناسا ہو۔”بیٹا ایک منٹ میںوضو کرکے آتا ہوں پھر نماز پڑھتے ہیں۔“ ہمارے قہوہ پیتے ہی وہ اٹھ گیا۔تھوڑی دیر بعد ہی وہ وضو کر کے آگیا۔ اس کی اقتدا میں ہم نے شام کی نماز باجماعت ادا کی نماز کے بعد وہ توکھانے کا بندوبست کرنے کے لیے گھر میں گھس گیا جبکہ میں اور امجد اس بے لوث شخص کی مہمان نوازی پر تبصرے کرنے لگے۔
کھانا ہم نے عشاءکی نماز پڑھ کر کھایا۔ مرغی کا سالن اور تندوری روٹیاں، ہم گنجائش سے بھی زیادہ کھا گئے تھے۔ روٹی کے بعد قہوے کا دور چلا اس دوران ہم گپ شپ کرتے رہے۔ امجد کے بارے یہ جان کر وہ پشتو نہیں جانتا اس بزرگ نے اس سے اردو میں حال احوال پوچھنے کی کوشش کی تھی مگر اس کی اردو ایسی تھی کہ اس سے زیادہ پشتو امجد کو سمجھ میںآجاتی۔ مگر اس کا دل رکھنے کے لیے امجد سمجھنے کے انداز میں سر ہلاتا رہا اور تکے سے ٹوٹ پھوٹے جواب بھی دیتا رہا۔ مگر بزرگ کی اردو زیادہ دیر اس کا ساتھ نہ دے سکی اور امجد کی جان بخشی کرتے ہوئے وہ مجھے پشتو میں مخاطب ہوا۔
”بیٹا برا نہ مناﺅ تو ایک بات پوچھوں؟“”ماما جی ایک چھوڑ دس پوچھو۔“ میں سعادت مندی سے بولا۔
”آپ لوگ جنگل خیل کس سلسلے میں جارہے ہو؟ اگر سیر و تفریح کا ارادہ ہے تو ہماری بہرام شاہ وادی بھی خوب صورتی میں جنگل خیل سے پیچھے نہیں آپ لوگ یہیں پر جتنا عرصہ جی چاہے رہ جاﺅ میں آپ کو پوری وادی کی سیر کراﺅں گا۔“نہیں ماما ! ہم سیرو تفریح کے لیے نہیں بلکہ ایک ضروری کام کے سلسلے میں جارہے ہیں۔“
”اگر آپ لوگوں کو کوئی اسلحہ وغیرہ یا نشہ وشہ چاہے ہو تو وہ بھی میں آپ کی جگہ جنگل خیل جا کر لے آسکتا ہوں۔“”ہماری غرض و غایت یہ بھی نہیں ہے۔“
”تو پھر کیا وجہ ہے۔ وہی تو میں پوچھنا چا ہ رہا ہوں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ آپ لوگ جنگل خیل کا رخ کریں۔“”کیوں ماما؟“ میں حیرانی سے مستفسر ہوا۔”وہ اس لیے بیٹا کہ آپ دونوں کے چہرے پر مجھے خاندانی شرافت اور سعاد ت مندی کے آثار نظر آرہے ہیں جبکہ جنگل خیل میںتو اپنے نام کی مثل جنگل کا قانون ہی چلتا ہے ۔ وہاں پر طاقت اور غنڈہ گردی کاراج ہے۔ پورے پاکستان، وزیرستان، افغانستان، اور روس کی مختلف ریاستوں کے لچے لفنگے وہاں جمع ہیں۔ مختلف گروہوں کی بادشاہی ہے آئے روز فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ وہ جگہ شریفوں کے جانے کے لائق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں آپ دونوںکا وہاں جانا مناسب نہیں سمجھتا۔“
”ماما جی اﷲ تعالیٰ آپ کو عزت اور زندگی دے کہ آپ نے ہمارے لیے اتنا کچھ سوچا مگر کاش ہم آپ کی بات ماننے کے قابل ہوتے۔“”میں سمجھا نہیں؟“ اس نے حیرانی سے پوچھا۔
”ماما جی میں گنڈہ پور ہوں.... اور ایک گنڈہ پور سب کچھ بھلا سکتا ہے اپنے دشمن سے بدلہ لینا نہیں بھول سکتا۔“”ہوں۔“ کہہ کر بابا گہری سوچ میں کھو گیا اور پھر تھوڑی بعد اس نے پوچھا....”آپ لوگوں کو کامل یقین ہے کہ آپ کا دشمن وہیں پر چھپا ہے۔“
”جی“ میں اثبات میں سر ہلایا۔
”اچھا پھر اس سلسلے میں مَیں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟“
”آپ کی دعاﺅں کی ہمیں ہر آن ضرورت رہے گی۔“”آپ دونوں کے پاس ایک ہی کلاشن کوف دکھائی دے رہی ہے اگر پسند کروتو میں اپنی کلاشن کوف آپ لوگوں کے حوالے کر سکتا ہوں۔“”جزاک ﷲ ماما جی ۔ گن کے علاوہ ہمارے پاس یہ پستول بھی موجود ہے۔“ میںنے جیب سے گیراگٹ مارک تھرٹین نکال کر اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔ ”اور ویسے بھی ضرورت پڑی تو ہم وہیں سے خرید لیں گے پیسے کافی ہیں ہمارے پاس۔“”بہ ہر حال آپ لوگوں کے پاس آج شب سوچنے کے لیے موجود ہے اس بارے کوئی مناسب حل سوچ لو میں نہیں چاہتا کہ جنگل خیل کا اندھیرا آپ لوگوں کو نگل جائے۔“
ﷲ خیر کرے گا ماما جی.... بس آپ ہمارے لیے خصوصی دعا کرنا۔“
”اچھا اب آپ لوگ آرام کرو۔ رات کو کسی چیز کی ضرورت پڑے تو طلب کر لینا۔“ وہ ہمیں بیٹھک میں چھوڑ کر گھر میں گھس گیا۔ اس کے جاتے ہی امجد کے سوالات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اور مجھے بابا جی سے سنی ہوئی تمام باتیں ازسرِ نو اسے تفصیل سے سنانی پڑیں۔
”ویسے چودھری اکبر نے چھپنے کے لیے صحیح جگہ کا انتخاب کیا ہے۔“ تمام تفصیل سنتے ہی وہ بولا۔
”لازمی بات ہے جان تو ہر کسی کو پیاری ہوتی ہے۔ چودھری بھی اپنے دفاع کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرے گا۔“ امجد گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ جسے غنیمت سمجھتے ہوئے میں نے بھی آنکھیں بند کر لیں دن کی تھکن اور بے آرامی نے جلد ہی مجھے نیند کی آغوش میں دھکیل دیا تھا۔
صبح کے وقت ہم روزمرہ کے معمولات اور ناشتے کے بعد جانے کے تیار کھڑے تھے عبداللہ بابا نے ہماری بہت اچھے طریقے سے مہمان نوازی کی تھی۔ حالانکہ اس کے مکان اور کپڑوں وغیرہ کی حالت چیخ چیخ کر اس کی غربت کا اعلان کر رہی تھی۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ اس کی کچھ مالی امداد کردوں مگر مجھے پتا تھا کہ اس نے کسی حالت میں بھی یہ امداد قبول نہیں کرنی تھی۔
امجد میری پریشانی بھانپ گیا تھا ۔اس لےے پنجابی میں کہنے لگا۔ ”اس کی بیٹی کو کسی بہانے کچھ رقم دے دو۔“ مجھے امجد کی ترکیب بہت بہتر لگی۔
”اچھا ماما اب ہم چلتے ہیں.... لیکن ہماری چھوٹی بہن نظر نہیں آرہی جو ہمیں مہمان بنا کر لائی تھی۔“
”وہ گھر میں ہی ہو گی۔ ناشتا کر کے اپنی ماں کے کاموں میں اس کا ہاتھ بٹائے گی اور پھر بکریاں لے کر وادی میں نکل جائے گی۔“ ہمیں یہ بتا کر وہ اپنی بیٹی کو آوازیں دینے لگا۔ ”پلوشہ۔ او پلوشے۔“”جی ابو جان۔“ وہ سر پر دوپٹادرست کرتے گھر سے باہر آگئی۔”گڑیا ادھر آﺅ۔“ میں نے اسے اپنی جانب بلایا اور وہ جھجکتے ہوئے ہمارے قریب آگئی۔
”بہن! آپ کی بڑی مہربانی۔ آپ کی وجہ سے ہمیں کافی راحت وآرام ملا۔ میران شاہ سے چلتے وقت ہمیں پتا نہیں تھا کہ راستے میں ہماری ملاقات ایک ننھی سی بہن سے ہو جائے گی ورنہ ہم ضرور اپنی گڑیا کے لیے تحفے تحائف لاتے۔ بہ ہر حال ابھی یہ تھوڑی سی رقم ہے اس سے اپنی مرضی کی کوئی چیز خرید لینا۔“ میں نے جب سے 5ہزار کی رقم نکال کر اس کے جانب بڑھائی۔ اس نے گھبرا کر اپنے والد کے جانب دیکھا تو وہ پریشانی سے بولا۔
”بالکل نہیں بیٹا.... آپ لوگوں کو آگے رقم کی بہت ضرورت پڑے گی۔ ہمارے پاس ﷲ کا دیا بہت کچھ ہے میں آپ دونوں کی جگہ پر اس کے لیے میران شاہ سے تحفے منگوا لوں گا۔“”ماما جی!.... آپ ہمارے درمیان بالکل نہیں بولیں گے۔ یہ بھائی اور بہن کا معاملہ ہے اگر اس نے رقم نہ لی تو ہم سمجھیں گے کہ اس نے ہمیں بھائی نہیں سمجھا تھا۔“
”نن .... نہیں بھیا۔“ وہ گھبرا کر بولی۔”یہ بات نہیں ہے۔ اصل میں اصل میں ۔“”اصل نقل چھوڑو۔“ میںنے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ ”بھائیوں سے تو بہنیں زبردستی رقم نکلوالیتی ہیں تم کیسی بہن ہو کہ بھائی کی دی ہوئی رقم کو ٹھکرا رہی ہو۔“میری جذباتی دھمکی کا رگررہی اور اس نے جھجکتے ہوئے رقم لے لی۔میری دیکھا دیکھی امجد نے بھی آگے بڑھ کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اتنی ہی رقم زبردستی اسے تھما دی۔
”اب ہم چلتے ہیں گڑیا، ہمارے لیے دعا کرنا۔“ یہ کہہ کر ہم دونوں عبداﷲ خان سے بغل گیر ہو کر جنگل خیل کی راہ ہو لیے۔ جب تک ہم نظر آتے رہے باپ بیٹی وہیں کھڑے ہمیں جاتا دیکھتے رہے یہاں تک کہ درختوں کے جھنڈنے ہمیں ایک دوسرے کی نظروں سے اوجھل کر دیا۔”بہنیں بھی ﷲ تعالیٰ کی عجیب نعمت ہوتی ہیں۔“ امجد نے خاموشی کو توڑا۔”ہاں یار.... عورت کا ہر روپ ہی نرالا ہے....ماں کے روپ میں قدموں تلے جنت رکھتی ہے تو بیوی کے روپ میں راحت وسکون ہے بیٹی کے روپ میں سراپا رحمت اور بہن کے روپ میں عزت و حرمت کا نشان ہے۔“
”ویسے تمھارے خیال میں ہم سامنے والی پہاڑی کس وقت تک عبور کر لیں گے۔“ اس نے موضوع بدلا۔ اسے پتا تھا کہ مزیداگر کچھ دیر اس موضوع پر بات ہوئی تو میں نے امی جان اور سعدیہ کی یادوں میں کھو جانا تھا۔
”حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے.... پہاڑی علاقہ ہے اور یہاں فاصلے دھوکا دیتے ہیں۔ اگر تجربے کی بات کروں تو تمھیں بھی یاد ہو گا کہ ہمارے انسٹریکٹرز کہتے تھے کہ سورج اگر آپ کی پشت پر چمک رہا ہو تو ہدف آپ کو اصل فاصلے سے دور نظر آئے گا اور ہدف اگر اردگرد کی چیزوں سے بڑا ہو تو نزدیک نظر آئے گا۔ ابھی اس ہدف میں متضاد باتیں پائی جارہی ہیں اس کا مطلب ہے یہ جتنی دور نظر آرہا ہے یہ اس کا درست فاصلہ ہے۔ اس لحاظ سے ہم تین چار گھنٹوں میں اس پہاڑی کے بیس میں پہنچ جائیں گے البتہ اس کی چڑھائی چڑھنے میں کتنا وقت خرچ ہو گا یہ نزدیک جاکر اوپر چڑھنے والے راستے کو دیکھ کر پتا چلے گا۔“”میں تم سے متفق نہیں ہوں۔“ امجد نے نفی میں سر ہلایا۔ ”تمھاری پہلی بات گودرست ہے کہ سورج ہماری پشت پر چمک رہا ہے۔ مگر دوسری بات بالکل غلط ہے کیونکہ ہدف بے شک بڑا ہے مگر اس کے اردگرد موجود پہاڑ بھی اسی نسبت سے بڑے ہیں، اس لحاظ سے یہ پہاڑی اپنے اصل فاصلے سے دور نظر آرہی ہے اور اگلے دو گھنٹوں میں ہم اس کے بیس میں ہوں گے“.... اور امجد کا تجزیہ درست نکلا۔ اگلے دو سوا دو گھنٹوں میں ہم پہاڑی کی بیس میں پہنچ چکے تھے۔ وہ کوئی اکیلی ٹیکری نما پہاڑی نہیں تھی بلکہ پہاڑیوں کا ایک مسلسل سلسلہ تھا اور اس سلسلے میں ہم خصوصی طور پر جس پہاڑی کی بات کر رہے تھے وہ اردگرد کے پہاڑوں سے اس لحاظ سے مختلف تھی کہ باقی پہاڑیوں کے مقابلے میں اس پرسبزے کی بہتات تھی اس کی یہ نشانی ہمیں طوفان خان نے بتلائی تھی اور بعد میں عبداﷲ خان نے اس کی تصدیق کی تھی۔
پہاڑی کے بیس میں پہنچ کر ہم آرام کے لیے چند لمحے بھی نہیں رکے تھے۔ ویسے بھی درختوں کے بیچ اوپرجانے کا راستا صاف نظر آرہا تھا اس لیے ہم نے اپنا سفر جاری رکھا، رفتار البتہ پہلے کی نسبت کم ہو گئی تھی۔
”ارے اس جگہ سے اترنا تو ناممکن ہے۔“ اوپر پہنچتے ہی امجد اس پہاڑی کی نیچے اترتی سیدھی ڈھلان کو دیکھ کر واویلا کیا۔”ادھر سے کس بے وقوف نے تمھیں اترنے کا کہا ہے۔“
”تو پھر؟“”ابھی ہم نے سکائی لائن ہی پر حرکت کرناہے۔“ ”تو اس سے بہتر نہیں تھا کہ ہم اوپر چڑھنے کی بجائے نیچے ہی نیچے سفر کرتے اور جس جگہ اب نیچے اتریں گے۔ اسی کی مخالف سمت اوپر چڑھ جاتے۔“
”اگر گدھوں کو اعتراض نہ ہوتا تو میں ضرور تمھیں گدھا کہتا۔ بے وقوف جو لوگ اس راستے کو استعمال کرتے رہے ہیں میں انھی کی رہنمائی کے مطابق چل رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے جس جگہ اترنے کا راستا ٹھیک ہو اس جگہ کی چڑھائی ناقابل عبور ہو۔“”شکریہ آپ نے اپنے ہم جنسوں کا اعتراض مجھ تک پہنچا دیا۔“
ہم کچھ دیر خاموشی سے چلتے رہے ....اس خاموشی کو امجد ہی نے توڑا۔”جانو صاحب !بھوکا مارنے کا ارادہ ہے۔ کچھ کھانے پینے کے بارے بھی سوچو۔“” کوئی موزوں جگہ نظر نہیں پڑ رہی ۔ میرا ارادہ تھا کہ کسی چشمے کے کنارے بیٹھ کر کھائیں گے۔“”چھوڑو چشمے کو.... بوتلوں میں پانی موجود تو ہے۔“ وہ راستے کے قریب ایک گھنے درخت کی طرف بڑھا۔ میں بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔ صبح سے ہم بغیر رکے چل رہے تھے لیکن کوئی خاص تھکن نہیں ہوئی تھی اور اس کی وجہ کمانڈو ٹریننگ تھی ورنہ ان علاقوں میں مسلسل اتنی دیر تک سفر کرنا بڑا جان جوکھوں کا کام تھا۔ ہم چند منٹ پاﺅں پسار کر پتھریلی زمین پر بیٹھ گئے۔ اس طرح بیٹھنے سے بڑا سکون مل رہا تھا۔تیز دھوپ اور کٹھن سفر کی وجہ سے جسموں سے نکلنے والا پسینہ چند لمحوں ہی میں خشک ہو گیا تھا۔ پنجاب کے لحاظ سے ہمیں مارچ کے اخیراور اپریل کے پہلے ہفتے کے موسم کی طرح کا موسم محسوس ہو رہا تھا۔ امجد نے کپڑے میں بند روٹی کھول کر درمیان میں رکھی۔ تندوری روٹی، جنگلی ساگ جس میں ممتا کی محبت اور ہمشیرہ کے پیار کی خوشبو رچی بسی تھی ہم چند لمحوں میں سب چٹ کر گئے۔”جانو صاحب مجھے تو نیند آرہی ہے۔“ امجد پتھر پر سر ٹیک کر لیٹ گیا۔ ”اگر تُم نے جانا ہے تو بہ صدشوق تشریف لے جا سکتے ہو۔“
”ماجے !.... آگے راستا خطرناک ہے۔ روشنی روشنی میں جتنا سفر طے ہو جائے بہتر ہے رات گزارنے کے لیے کوئی ٹھکانہ بھی ڈھونڈنا ہے ہر جگہ پلوشہ بہن نہیں ٹکراتی کہ جو زبردستی مہمان بنا کر ساتھ لے جائے۔“”ﷲ کسی کو بھی تمھارے جیسا سخت مالک نہ دے....غضب خدا کا سارا دن خوار کرنے کے بعد بھی چند لمحوں کا آرام تمھیں برا لگ رہا ہے۔“
میں نے کہا۔”ساری رات آرام ہی تو کرنا ہے۔“ مگر وہ خاموش رہا تھا۔
اس مرتبہ ہماری رفتار پہلے کے مقابلے میں کچھ کم تھی۔ کھانا کھانے کے بعد جسم آرام کا طلب گار ہوتا ہے ۔ مگر ہماری قسمت میں آرام نہیں تھا۔ سورج غروب ہونے میں تھوڑی ہی دیر باقی تھی کہ ہم اترنے کی جگہ پر پہنچ گئے۔ اس کی نشانی طوفان خان اور عبدﷲ خان کے مطابق پہاڑی سلسلے کا دو حصوں میں منقسم ہونا تھا۔ ایک شاخ اسی سیدھائی میں چلی گئی تھی جبکہ دوسری شاخ بائیں طرف مڑ گئی تھی۔ اس کے علاوہ پارکی پہاڑی اس جگہ آ کر ختم ہو گئی تھی اور وہاں ایک بڑا ساخشک نالہ دکھائی دے رہا تھا۔”ماجے !....یہاں سے اتر کر اس نالے میں سفر کرنا ہے۔“
”ویسے آپ ٹھیک کہہ رہے تھے یار اس جگہ سے اوپر آنا ناممکن ہے۔“ اس نے آنے کی سمت کی چڑھائی کے جانب اشارہ کیا۔”ہاں مگر اترائی بہت مناسب ہے۔“ میں نیچے اترنے میں پہل کی، وہ بھی سر ہلاتے ہوئے میرے پیچھے چل پڑا۔ ہم اب تک درمیان میں ہی تھے کہ سورج ڈوب گیا مگر اندھیرا نہیں چھایا تھا۔ نالے کے درمیان اور پہاڑی کی تقریباً چوتھائی بلندی تک کافی گھنے درخت تھے ہم ان درختوں کے جھنڈ سے کوئی پچاس ساتھ قدم دور تھے کہ اچانک وہاں سے تین افراد برآمد ہوئے ان کا رخ ہماری جانب ہی تھا، ہمیں دیکھ کر وہ ذرا سا ٹھٹکے گویا ہم پہ اسی وقت ان کی نظر پڑی تھی اور پھر ہماری طرف چل پڑے۔
”پہ دے لارہ تاسو سوک جینئی خونہ دہ لیدلے۔“(اس راستے پہ آپ نے کوئی لڑکی تو نہیں دیکھی) نسبتاً چھوٹے قد والے نے پوچھا۔ وہ تمام مضبوط بدن اورمیانہ قامت افراد تھے۔ تمام کے سر پر عورتوں کی مانند لمبے لمبے بال تھے۔ کلاشن کوفیں انھوں نے کندھوں سے لٹکانے کی بجائے ہاتھوں میں اٹھائی ہوئی تھیں۔ مگر ہم سے بات کرنے والے کا قد باقیوں کے مقابلے میں چھوٹا تھااور اس کے پوچھنے کے انداز سے ظاہر ہو ہا تھا کہ وہ حکم دینے کا عادی ہے۔ ہم سے بھی اس نے اسی طرح حکمیہ لہجے میں بات کی تھی۔
جواباََ میں نے نفی میں سرہلانے پر اکتفا کیا تھا۔”مجھے جھوٹ بولنے سے سخت نفرت ہے۔“ وہ غصیلے لہجے میں بولااورکلاشن کوف میری طرف تان لی ۔ امجد نے کلاشن کوف کندھے سے لٹکائی ہوئی تھی۔ مگر بدقسمتی سے مخالف نے بغیر کسی وجہ کے گن مجھ پر تان لی تھی۔ امجد نے بعد میں گن کندھے سے اتارنے کی کوشش کی۔ مگر وہ امجد کو ایسا موقع نہیں دے سکتے تھے ۔گولی چلنے کا دھماکہ ہوا، گولی اس کے سر سے چند انچ ہی اوپر گزری ہو گی۔
”کلاشن کوف لاندے غزار کا“(کلاشن کوف نیچے پھینک دو) مخاطب امجد تھا۔ امجد نے ہونٹ بھنیچتے ہوئے گن اپنے پاﺅں میں گرا دی۔ اس کے ساتھیوں نے بھی کلاشن کوفیں ہماری طرف سیدھی کر لی تھیں۔
”میرا نام ہیبت خان ہے اور میں نے بڑے بڑے بگڑوں ہوﺅں کو سیدھا کیا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ سچ سچ بتا دو لڑکی کو کہاں چھپایا ہے۔“ اس مرتبہ بھی پستہ قامت ہی بولا تھا۔ جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ باقی دونوں یا تو اس کے ملازم تھے یا کم از کم رتبے میں اس سے نیچے تھے۔
”آپ ہیبت خان ہیں یا وحشت خان ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ اگر ہم نے کسی عورت یا لڑکی کو دیکھا ہوتا تو ضرور آپ کو مطلع کرتے۔ اس لیے بات بڑھانے سے بہتر ہے کہ آپ اپنی راہ لیں اور ہمیں بھی جانے دیں۔“ میں نے بہ مشکل اپنا غصہ ضبط کیا تھا۔
”ہا ہا ہا....سن رہے ہو حکم داد!.... بات بڑھانے سے بہتر ہے ہم اپنی راہ لیں۔ کل کا لونڈا ہیبت خان کو نصیحت کر رہا ہے۔“ اس کے دونوں ساتھی بھی ہنس پڑے تھے ۔”حکم دادا ذرا ان کی تلاشی لو تاکہ پتا چلے یہ کتنے پانی میں ہیں۔ ایسے لونڈے کافی نقدی جیبوں میں لیے پھرتے ہیں۔“
ایک سر ہلاتے ہوئے آگے بڑھا اس کا رخ میری جانب تھا سب سے پہلی غلطی جو اس سے سر زد ہوئی وہ اپنی گن کو کندھے سے لٹکانے کی تھی۔ دوسرے نمبر پر وہ آگے بڑھتے ہوئے اپنے دونوں ساتھیوں اور ہمارے درمیان حائل ہو گیا تھا۔ اس علاقے میں چونکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو صرف گن فائیٹر ہوتے ہیں بچپن ہی سے ہتھیاروں کے ساتھ کھیلنے کی وجہ سے ان کانشانہ بہت اچھا اور ہتھیار پر کنٹرول وقابو بہت بہتر ہوتا ہے مگر بغیر ہتھیار کے وہ جسمانی طاقت کے بل پر کسی کو زیر کر لیں تو دوسری بات ہے۔ خالی ہاتھ لڑنے کے فن سے ناواقف ہوتے ہیں۔ وہ اینڈتا ہوا میرے قریب پہنچا۔ اس کا ارادہ میری تلاشی لینے کا تھا جبکہ میں نے اس کے لیے کوئی اورپروگرام سوچا ہوا تھا۔ اس نے شاید کبھی اتنی لمبی چھلانگ نہیں لگائی ہوگی جس طرح کہ اس وقت وہ اُڑ کر گیا تھا۔اس کے ساتھیوں میں سے ایک کی کلاشن کوف گرجی مگر یہ اضطراری فائر تھا جو اپنے ساتھی کو بچانے کے لیے اس نے گن کی نالی آسمان کی طرح کر کے کیا تھا۔
امجد کے لیے اتنی مہلت کافی تھی اس نے بجلی کی سی سرعت سے اپنے قدموں میں پڑی کلاشن کوف اٹھالی ۔ حکم داد ہیبت خان اور اپنے دوسرے ساتھی کو ساتھ لیے نیچے گر گیا تھا۔ان کے سنبھلنے سے پہلے امجد دھاڑا.... ”خبر دار کوئی حرکت نہ کرے۔“ امجد کی اردو شاید انھیں سمجھ نہیں آئی تھی کہ ہیبت خان نے لیٹے لیٹے ہی اپنی کلاشن کوف کارخ ہماری طرف کرنا چاہا مگر امجد تیار تھا اس کی گن سے نکلنے والی گولی ہیبت خان کے بازو میں پیوست ہو گئی تھی ۔”اگر زندگی عزیز ہے تو ہاتھ اٹھا کر کھڑے ہو جاﺅ۔“ اس مرتبہ میں نے انھیں پشتو میں خبر دار کیا۔لیکن شاید انھیں زندگی عزیز نہیں تھی انھوں نے میری دھمکی کی قطعاً پرواہ نہ کی اور اس کی وجہ غالباً ان کا وہ جاہلی غرور وتکبر تھا جس کی بہ دولت وہ کسی کی دھمکی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، اور یہ غرور انھیں لے ڈوبا۔اس مرتبہ امجد نے سنگل شاٹ کی بجائے سلیکٹو لیور کو برسٹ پر سیٹ کرتے ہوئے ٹریگرپریس کیا، شام کے سناٹے میں کلاشن کوف کی تڑتڑاہٹ گونجی اور تینوں ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگے۔” غلط تو نہیں کیا؟“ اس نے فائر کرنے کے بعد پوچھا۔
”نہیں ٹھیک ہوا ہے۔ اگر ان میں سے ایک بھی بچ جاتا تو ہمارے لیے ایک نیا محاذ کھل جاتا۔“” اب ان کا کیا کریں؟“”ان کے پاس موجود ایمونیشن حاصل کرو اور چلتے ہیں یہاں زیادہ دیر رکنا ٹھیک نہیں، گو فائرنگ یہاں آئے روز کا معمول ہے لیکن پھر بھی برے وقت کا کوئی پتا نہیں چلتا یہ نہ ہو کوئی ہمیں یہاں دیکھ لے اور ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کی شروعات ہو جائے۔“
ہم نے جلدی سے ان کی سرسری تلاشی لی نقدی اور ایمونیشن کو اپنے قبضے میں کرتے ہوئے ہم وہاں سے روانہ ہو گئے لیکن اس سے پہلے ان کی لاشیں راستے سے تھوڑا ہٹ کر موجود ایک گڑھے میں دھکیلنا نہیں بھولے تھے۔ کلاش کوفیں بھی ان کے ساتھ ہی گڑھے میںپھینک دی تھیں۔ یہ ایک وقتی احتیاط پسندی تھی ورنہ راستے میں کافی مقدار میں ان کا خون پھیلا ہوا تھا۔ جس سے آسانی سے ان کی لاشوں کی نشاندھی ہو جانا تھی۔ لیکن رات کے وقت کسی کو بھی راستے میں پڑا خون نظر نہیں آسکتا تھا، صبح تک ہم نے یوں بھی اس جگہ سے کافی دور نکل جانا تھا۔
”ماجے !....اب راستے سے ہٹ کر چلنا پڑے گا۔“” ٹھیک ہے، مگر آسمان کو دیکھ رہے ہو۔“”کیا مطلب ؟“ میں نے اوپر دیکھا۔”بادل دیکھو کس تیزی سے اکٹھے ہو رہے ہیں اگر بارش شروع ہو گئی تو ہم اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکیں گے۔“”یہ تو ہے۔“ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ ہلکی ہلکی ہوا چلنا شروع ہو گئی تھی اور شام کا ملگجا اندھیرا بادلوں کے باعث گہرا ہو گیا تھا۔ہم دونوں راستے سے آہستہ آہستہ دائیں ہٹتے جارہے تھے۔
”رات گزارنے کے لیے کوئی موزوں جگہ بھی دھیان میں رہے۔“
”اس اندھیرے میں موزوں جگہ خاک ملے گی۔“ مگر میں اس کی بات کا جواب دئےے بغیر دائیں بائیں کسی مناسب جگہ کی تلاش میںنگائیں دوڑاتا رہا۔”جانو!....اگر ہم کسی کے مہمان بن جائیں تو کیا مضائقہ ہے۔“
”میں نے تو سوچا تھا کہ ڈاکٹر شہلا جیسی پڑھی لکھی لڑکی کا ساتھ تم پر کچھ اثر ڈالے گا مگر اس کے آثار نظر نہیںآرہے تیرا گدھا پن پہلے کی طرح روز افزوں ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔“”اس میں گدھے پن کی کیا بات ہے؟“”بے وقوف !.... ہم تین آدمیوں کو قتل کر چکے ہیں۔ اور ان کے گھر یا قبیلے کے لوگ قاتل کی تلاش اردگردکے علاقے ہی سے شروع کریں گے اور اس کے بعد ہمارا منظرِ عام پر آنا کچھ مشکل نہیں ہو گا۔“
”ہم نے کون سا ہفتا گزارنا ہے۔ صبح ہوتے ہی نکل چلیں گے۔“”اگر ہم اپنے دشمن کی تلاش میں اتنی دور کا سفر کر سکتے ہیں تو ان لوگوں کے لیے جنگل خیل تک ہمارا پیچھا کرنا کوئی اتنا مشکل نہیں ہو گا۔“
”اچھا ٹھیک ہے یار!.... نہیں ٹھہرتے کسی کے گھر میں؟“ اس نے کلاشن کوف کو کندھے سے الٹا لٹکالیاکیونکہ ہلکی ہلکی بوندیں گرنا شروع ہو گئی تھیں اوربیرل میں پانی کے قطرے چلے جانے کی صورت میں بیرل کے زنگ پکڑنے کا خدشہ تھا۔ بارش کی رفتار میں آہستہ آہستہ تیزی آتی گئی۔ ہم مزید کچھ دیر اسی طرح بغیر آڑ کے رہتے تو مکمل بھیگ جاتے مگر خوش قسمتی سے آسمانی بجلی کی چمک میں میری نظر دائیں طرف چند قدم کے فاصلے پر موجود ایک کھوہ پر پڑی۔ یہ غیبی امداد تھی کیونکہ میرا غار کے دھانے کی جانب دیکھنا اور بجلی کا چمکنا ایک ہی لمحے میں وقوع پذیر ہوا تھا۔غار کے دھانے کے ساتھ ایک جھاڑی نما درخت بھی موجود تھا جس نے کافی حد تک اس کے منہ کو ڈھانپا ہوا تھا۔
”ماجے اس طرف۔“ میں پہاڑی کھوہ کی طرف بڑھ گیا۔ امجد بھی بغیر کچھ کہے میرے پیچھے چل پڑا۔
اچانک بارش کی رفتار میں اضافہ ہوا لیکن بارش کی تیزی بھی مجھے حفاظتی قدم اٹھانے سے بازنہ رکھ سکی۔ میں نے بائیں ہاتھ میں پستول تھامتے ہوئے دائیں ہاتھ سے جیب سے پنسل ٹارچ نکالی اور اسے جلا کر کھوہ کے اندر گھس گیا۔ کسی بھی نقصان پہنچانے والے درندے سے نمٹنے کے لیے میں ذہنی طور پر تیار تھا۔ اس چند گز لمبی غار میں کسی درندے کو دیکھ کر مجھے اتنی حیرانی نہ ہوتی جتنی اس نوجوان لڑکی کو دیکھ کر ہوئی تھی جو ہمارے اندر داخل ہوتے ہی گھبرا کر کھڑی ہو گئی تھی۔
جاری ہے
No comments: