Aur Neel Behta Raha By Annyat Ullah Altamish Altamish Episode No.50 ||اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش قسط نمبر 50
Aur Neel Behta Raha
By
Annyat Ullah Altamish
اور نیل بہتا رہا
از
عنایت اللہ التمش
#اورنیل_بہتارہا/عنایت اللہ التمش
#قسط_نمبر_50
رات کو جب مسافر گہری نیند سو گئے اور جہاز کے عملے کے وہی آدمی بیدار تھے جنھیں بیدار رہنا تھا ۔اس وقت کپتان اپنے کیبن سے نکلا اور سیدھا اس جگہ پہنچا جہاں لڑکی لپٹے ہوئے بادبانوں میں چھپی سو رہی تھی۔ کپتان نے لڑکی کے پاؤں کو ہلکی سی ٹھوکر مار کر جگایا لڑکی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔
کون ہو تم ؟،،،،کپتان نے بڑے رعب سے پوچھا۔۔۔ یہاں کیوں سو رہے ہو؟
میں جہاز کا مسافر ہوں،،،،،لڑکی نے جواب دیا۔۔۔۔ یہاں کھڑا تھا تو میری آنکھ لگ گئی۔
کپتان نے لڑکی کو بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور اس کے سر کا کپڑا اتار دیا لڑکی کے لپٹے ہوئے لمبے بال کھل گئے اور شانوں اور پیٹھ پر بکھر گئے اس کا لباس تو مردانہ تھا لیکن وہ اپنی آواز کو مردانہ نہیں بنا سکتی تھی۔
مجھے دھوکہ دے رہی ہو۔۔۔ کپتان نے غصیلی آواز میں کہا۔۔۔ اور اسے باہر گھسیٹ کر کہا۔۔۔ اکیلی ہو یا کوئی آدمی ساتھ ہے؟
کپتان کو معلوم تھا کہ اس کے ساتھ دو آدمی ہے لیکن وہ ظاہر کر رہا تھا جیسے اسے کچھ بھی معلوم نہیں اور وہ ویسے ہی اس طرف آ نکلا تھا ۔لڑکی نے بتا دیا کہ اس کے ساتھ دو آدمی ہیں، یہ نہ بتایا کہ جہاز کے ہی ایک آدمی نے اسے کرائے کے علاوہ رشوت لے کر مردانہ لباس میں جہاز میں سوار کرایا تھا۔
میں تمہیں سمندر میں پھینک دوں گا۔۔۔ کپتان نے لڑکی کو ایک جھٹکے سے اپنے قریب کرلیا۔۔۔۔۔لڑکی اپنے حسن و جوانی سے واقف تھی اور وہ مردوں کی کمزوری سے بھی آگاہ تھی کپتان نے اسے جب جھٹکے سے اپنے قریب کیا تو وہ دانستہ کپتان کے سینے سے جا لگی اور اپنا ایک بازو کاپتان کے گلے میں ڈال دیا پھر اپنا ایک گال کپتان کے گال سے لگا دیا۔
مجھے روشنی میں لے جاکر دیکھو۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ اتنی قیمتی چیز کوئی پاگل ہی سمندر میں پھینکتا ہو گا۔
کپتان تو آیا ہی اسے اپنے کیبن میں لے جانے کے لیے تھا، وہ لڑکی کو بازو سے پکڑ کر اپنے کیبل میں لے گیا، اس نے اس لڑکی کو سرائے میں دیکھا تھا لیکن کچھ دور سے صرف چہرہ دیکھا تھا، اب اسے دیکھا اور اس کے ریشمی چمکدار بال دیکھے تو کپتان کو پتہ چلا کہ یہ تو بہت ہی قیمتی چیز ہے اور ایسی لڑکیاں عموماً کسی بادشاہ کے حرم میں ہی دیکھی جاتی ہیں لڑکی ذرا سی بھی گھبرائی ہوئی نہیں تھی۔
دیکھ لڑکی!،،،،، کپتان نے کہا۔۔۔ یہ عمر مرنے والی نہیں یہ خطرہ میں مول لیتا ہوں اس سفرمیں تم میرے اس کمرے میں رہو گی تیرے لئے میں شہنشاہ ہرقل کا قانون توڑ رہا ہوں۔
کپتان نے شراب نکالی خود بھی پینے لگا اور لڑکی کو بھی دی لڑکی نے بلاتکلف پینی شروع کردی،،،،،، لڑکی نے وہ رات کپتان کے کمرے میں گزاری۔
صبح کپتان لڑکی کے دونوں ساتھیوں سے ملا اور انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر کہا کہ انہوں نے اسے دھوکہ دیا ہے لیکن لڑکی اتنی بھولی بھالی اور معصوم ہے کہ اسے اس پر ترس آ گیا ہے ورنہ اگلی بندرگاہ پر جاکر انہیں گرفتار کرلیا جاتا اور سزا ملتی پھر اس نے کہا کہ لڑکی کو چھپا کر رکھے گا دونوں آدمی چپ رہے انہیں کوئی غم نہ تھا کہ لڑکی جہاز میں کہاں رہتی ہے۔
تین چار دن لڑکی کپتان کے ساتھ رہی اس نے مردانہ لباس اتار دیا تھا کپتان اسے نہایت اعلی قسم کا کھانا کھلاتا تھا اور رات شراب بھی پلاتا تھا لڑکی کپتان کے ساتھ پوری طرح بے تکلف ہو گئی ، وہ تو تکلف اور حجاب والی لڑکی تھی ہی نہیں۔
تین چار دنوں بعد ایک رات لڑکی کچھ زیادہ ہی شراب پی گئی ادھیڑ عمر کپتان زندہ دل اور خوش گوار طبیعت آدمی تھا اس نے ایسی فضا پیدا کر دی اور اس کے ساتھ شراب نے اپنا رنگ دکھایا کہ لڑکی آپے سے باہر ہو گئی۔ کپتان نے اسے اپنے ساتھ لگاتے اور کچھ بیہودہ حرکتیں کرتے ہوئے کہا تم جیسی حسین لڑکی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔
تم نے میرا صرف حسن دیکھا ہے۔۔۔ لڑکی نے مخمور آواز میں کہا۔۔۔ جب سنو گے کہ ہرقل قتل ہو گیا ہے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ میں صرف حسین ہی نہیں بلکہ جس کی چاہو جان لے سکتی ہوں، خواہ وہ کسرہ روم ہرقل ہی ہو۔
کپتان قہقہے لگا کر ہنسا اس کا خیال تھا کہ لڑکی نے یہ بات مذاق میں کہی ہے لڑکی اس کے قہقہے پر سنجیدہ ہو گئی۔
کیا سمجھتے ہو میں مذاق کر رہی ہوں ؟،،،،لڑکی نے کہا۔۔۔ میں ہرقل کو زہر پلانے جارہی ہو یہ جو دو آدمی میرے ساتھ ہیں یہ میرے محافظ ہیں میں واپس مصر پہنچوں گی تو پھر میرے پاس آ کر وہ خزانہ دیکھ لینا جو مصر کا حکمران مجھے دے گا۔
یہ بات سن کر کپتان کچھ سنجیدہ ہوا ۔
تھا تو وہ بھی شراب کے نشے میں لیکن اس ادھیڑ عمری میں آکر شراب اس کی عقل پر حاوی نہیں ہوسکتی تھی، لڑکی عیار اور مکار ہی سہی لیکن نوجوانی کی عمر میں وہ پختہ کار نہیں ہوسکتی تھی، اور شراب کا اس کی عقل پر حاوی ہو جانا قدرتی تھا ۔ نوعمری کی وجہ سے وہ راز فاش کرنے پر اتر آئی تھی۔ اور فخر محسوس کر رہی تھی کپتان نے محسوس کیا کہ لڑکی یہ بات شراب کے نشے میں نہیں کہہ رہی بلکہ کوئی بات ضرور ہے۔ اس نے ذرا بہتر طریقے سے یہ راز لینا چاہا،
ہرقل کو کوئی نہیں قتل کرسکتا۔۔۔ کپتان نے کہا۔۔۔ میں خود چاہتا ہوں کہ ہرقل کو قتل کر دیا جائے لیکن مجھے اتنی ہمت نہیں نہ میں ہرقل تک پہنچ سکتا ہوں۔
میں ہرقل تک پہنچنے کے لئے جا رہی ہوں۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ اور دیکھنا میں کس طرح پہنچتی ہوں۔
کس طرح ؟،،،،،کپتان نے پوچھا۔
تم نے سرائے میں مجھے غریبوں جیسے کپڑوں میں دیکھا تھا۔۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ میرا اصل لباس میرے سامان میں ہے وہ لباس دیکھو گے تو تمہیں پتہ چلے گا کہ میں کس حیثیت اور معیار کی لڑکی ہوں، میرے ساتھ جو دو آدمی ہیں ان کو بھی پہنے ہوئے کپڑوں سے نہ دیکھنا یہ کوئی معمولی سے آدمی نہیں یہ مقوقس کے خاص اعتماد کے آدمی ہیں، ہم غریبانہ کپڑے پہن کر اس لئے جارہے ہیں کہ کسی کی نظر ہماری طرف نہ اٹھے۔
لیکن میں سوچتا ہوں۔۔۔ کپتان نے کہا۔۔۔تم ہرقل تک پہنچو گے کس طرح؟
نہایت آسانی سے پہنچوں گی۔۔۔ لڑکی نے جواب دیا ۔۔۔یہ دو آدمی مجھے مقوقس کی طرف سے تحفے کے طور پر ہرقل کو پیش کریں گے، مقوقس نے مجھے ہرقل کی عادت بتادی ہے میں اس کی شراب میں تھوڑا سا زہر ملا دوں گی۔
زہر کہاں سے لاؤں گی؟،،،، کپتان نے پوچھا۔
ساتھ لے جا رہی ہوں۔۔۔ لڑکی نے جواب دیا۔۔۔ زہر ہمارے سامان میں ہے۔
اس طرح لڑکی نے نوعمری کی نادانی اور شراب کی زیادتی کے زیر اثر اس قدر خطرناک راز فاش کردیا۔ کپتان نے مزید باتیں کرید کر یقین کر لیا کہ لڑکی زیادہ پی جانے کی وجہ سے بے معنی باتیں نہیں کر رہی بلکہ اس کے اندر سے صحیح بات نکل رہی ہے۔ اس لڑکی اور اس کے ساتھ دونوں آدمیوں کی بدقسمتی اور ہرقل کی خوش بختی کی یہ کپتان رومی تھا اور ہرقل کے مداحوں میں سے تھا ،ایسا نہ ہوتا تو بھی کپتان نے انعام واکرام کے لالچ میں فیصلہ کر لیا جو یہ تھا کہ وہ ھرقل تک پہنچے گا اور اسے بتائے گا کہ اس لڑکی کو مقوقس نے تمہیں زہر دینے کے لئے بھیجا ہے۔ اس نے اگلی صبح باہر نکلتے ہی ان دونوں آدمیوں کو بلایا اور پھر اپنے عملے کے دو چار آدمی بلائے انہیں کہا کہ ان ان دونوں آدمیوں کو لے جاؤ اور ان کے ہاتھ ہتھکڑیوں میں باندھ دو اور پاؤں میں بیڑیاں ڈال دو ، جہاز میں جہاز میں ایسے ایک دو کمرے بنے ہوئے تھے جن میں عملے کے ان آدمیوں کو بند کیا جاتا تھا جو جہاز میں کوئی جرم کرتے تھے۔ دونوں آدمیوں کو وہاں لے جا کر بند کر دیا گیا۔
کپتان نے پہلے تو یہ سوچا تھا کہ لڑکی کو بھی قید میں ڈال دے لیکن پھر سوچا یہ کہ ہرقل کے سامنے جاکر یہ تینوں کہہ دیں گے کہ کپتان جھوٹ بول رہا ہے اور یہ زہر اس نے خود اس کے سامان میں رکھا ہے وجہ یہ بتائیں گے کہ کپتان اس لڑکی کو اپنے کمرے میں رکھنا چاہتا تھا اور یہ آدمی اپنی بہن کو اس ذلت سے بچانے کی فکر میں تھا، مختصر یہ کہ کپتان نے سوچ لیا کہ یہ لوگ اس کے خلاف کوئی بھی کہانی گڑھ سکتے ہیں۔
اس نے بہتر یہ سمجھا کہ لڑکی کو ہاتھ میں لے لے اور لڑکی اپنی زبان سے بتائیے کہ اسے مقوقس نے بھیجا ہے اور کام یہ سونپا ہے۔
اس سوچ کے مطابق کپتان نے لڑکی کے ساتھ اور زیادہ محبت اور مروت شروع کردی، وہ بڑا کایاں اور تجربے کار آدمی تھا اس کے سامنے لڑکی کی چالاکیاں اور فریب کاریاں دم توڑ گئی، کپتان نے لڑکی کا دل جیت لیا اور اسے ہم خیال بنا لیا ہے لیکن اسے کامیابی پوری طرح حاصل ہوگئی، کپتان نے لڑکی کو خاص طور پر یقین دلایا تھا کہ وہ اسے ہرقل سے اتنا انعام دلا دے گا کہ مقوقس کے انعام کو بھول جائے گی، اگر لڑکی چاہے تو ہرقل اس کے ساتھ شادی کر کے اپنی چہیتی ملکہ بھی بنا لے گا۔ یہ ایسا خوبصورت خواب تھا جو کپتان نے اسے دکھایا تو لڑکی اس کے آگے ڈھیر ہوگئی اس نے لڑکی کو تیار کرلیا کہ وہ ہرقل کے آگے یہ سارا بیان دے دی گی۔
پھر جہاز بحیرہ روم کی بندرگاہ سے جا لگا اتنے بڑے بحری جہازوں کے کپتانوں کو کسی حد تک قانونی اختیار حاصل ہوتے تھے جو آج بھی ہیں، اس کپتان نے دونوں آدمیوں کو قید سے نکالا اور اپنے چار آدمی ساتھ لیے پھر سواری کا انتظام کیا اور اپنی دیگر جہاز کی مصروفیات سے فارغ ہو کر بزنطیہ کی طرف سفر کا قصد کیا۔
وہاں سے بزنطیہ بہت ہی دور تھا راستے میں دو پڑاؤ تو کرنے ہی پڑھتے تھے ،کپتان نے ان کا سامان اپنے قبضے میں کرلیا تھا لڑکی نے اسے زہر کی پڑیا سامان میں سے نکال کر دکھائی تھی جو کپتان نے دیکھ کر پھر سامان میں رکھ دی تھی، دونوں آدمیوں کو جب قید سے نکالا گیا تو انہیں بدستور زنجیروں اور بیڑیوں میں بندھا رہنے دیا گیا ، وہ کپتان کی منتیں کرتے تھے کہ انہیں چھوڑ دے اور وہ لڑکی کو بھی یہیں چھوڑ کر واپس چلے جائیں گے لیکن کپتان بڑا ہی سخت طبیعت آدمی تھا اور پھر ہرقل سے انعام ملنے کی توقع تھی، کچھ اور انعام ملتا یا نہ ملتا یہی کافی تھا کہ وہ کسریٰ روم شاہ ہرقل کا منظور نظر بن جاتا۔
کپتان نے دو گھوڑا گاڑیوں کا انتظام کیا ایک میں وہ لڑکی کو لے کر بیٹھا دوسری میں دونوں آدمیوں کو اور اپنے چار مسلح محافظوں کو بٹھایا اس طرح بزنطیہ کی طرف سفر شروع ہوا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
وہ چوتھے روز بزنطیہ پہنچے ، اور کپتان سیدھا ہرقل کے محل میں گیا اور اندر اطلاع بھیجوائی کہ فلاں نام کے بحری جہاز کا کپتان بڑے ہی ضروری کام سے آیا ہے۔
ہرقل کو اطلاع بھیجوائی گئی، تو جواب آیا کہ ابھی ابھی مصر سے قاصد کوئی ضروری پیغام لے کر آیا ہے، کپتان کو یہ بھی بتایا کہ جب وہ اندر جائے تو ذرا سنبھل کر بات کرے کیونکہ ہرقل یہ پیغام پڑھ کر غصے میں آیا ہوا ہے۔
ہرقل کو غصے میں آنا ہی تھا کیونکہ یہ مقوقس کا پیغام تھا جس میں اس نے ہرقل کو اطلاع دی تھی کہ عین شمس کے میدان میں لڑائی ہوئی ہے اور اپنی کتنی فوج ماری گئی، اور مسلمانوں کو کیا کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، جن میں قابل ذکر یہ ہے کہ مسلمان نیل کے دونوں کناروں پر قابض ہوگئے ہیں، اور کشتیوں کا پورا بیڑہ ان کے قبضے میں چلا گیا ہے۔
بہت دیر بعد کپتان کو اندر بلایا گیا ہرقل نے اسے دیکھتے ہی گرج کر پوچھا، تم کیا لینے آئے ہو؟،،،، کیا تمہارا جہاز ڈوب گیا ہے؟،،،،، اور تمہیں نیا جہاز بنوا دوں۔
نہیں قیصرائے روم!،،،،، کپتان نے کہا۔۔۔۔ میں کچھ لینے نہیں بلکہ دینے آیا ہوں میرا جہاز سلامت ہے میں سلطنت روم کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے آیا ہوں۔
تو پھر جلدی بولو۔۔۔۔ ہرقل نے غضب ناک لہجے میں کہا۔
فرمانروائے مصر مقوقس نے آپ کے لئے ایک بڑی ہی حسین اور نوخیز لڑکی تحفے کے طور پر بھیجی ہے۔۔۔۔ کپتان نے کہا۔۔۔۔ لیکن یہ لڑکی آپ کی موت کا بڑا ہی دلکش فرشتہ بن کر آئی ہے، اپنے حسن اور دلکش جسم کے ساتھ آپ کے لئے زہر کی پڑیا بھی لائی ہے۔ حکم ہو تو اس لڑکی اور اس کے ساتھ آئے ہوئے دو آدمیوں کو پیش کرو؟
فوراً حاضر کرو۔۔۔۔ ہرقل نے حکم دیا۔
کپتان باہر نکلا اور لڑکی کو اندر لے گیا اب لڑکی اپنے اس لباس میں تھی جو وہ پہنا کرتی تھی ہرقل نے اسے دیکھا تو کچھ دیر دیکھتا ہی رہ گیا، ہر بادشاہ کی طرح وہ ایسی ہی لڑکیوں کا دلادہ تھا۔
قیصر روم روم کو سناؤ کہ تمہیں کس نے اور کیوں بھیجا ہے؟،،،، کپتان نے لڑکی سے کہا۔
لڑکی نے ذرا ذرا سی تفصیلات کے ساتھ ہرقل کو پوری بات سنا دی کہ اسے مقوقس نے کس کے ذریعے طلب کیا ،اور اسے کیا کام سونپا تھا ،اور کیا انعام پیش کیا تھا۔
ان دونوں کو حاضر کرو۔۔۔ ہرقل نے بیتابی سے کہا۔
دو آدمی پاؤں میں بیڑیاں اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈالے اندر آئے۔
کیا تم اس لڑکی کے محافظ بن کر آئے ہو؟،،،،،، ہرقل نے پوچھا اور ساتھ ہی کہا ۔۔۔۔سچ بولو گے اور مجھے دھوکہ دینے کی کوشش کرو گے تو میں سر قلم کردوں گا۔
اب جواب دو۔
دونوں آدمیوں نے اپنے سروں کو اوپر نیچے جنبش دے کر اقرار کیا کہ وہ اس لڑکی کے محافظ بن کر آئے تھے مقصد یہ بیان کیا کہ اس لڑکی نے ہرقل کو زہر دینا تھا۔
ہرقل پہلے ہی غصے میں تھا مقوقس نے شکست کا پیغام دے کر اسے آگ بگولہ بنا ڈالا تھا ویسے بھی وہ فرعونی ذہن کا بادشاہ تھا کسی پر رحم کرنا جانتا ہی نہیں تھا۔
شہنشاہ روم!،،،،، ان دونوں میں سے ایک آدمی نے رندھی ہوئی آواز میں عرض کی۔۔۔ ہم مقوقس کا حکم ٹال نہیں سکتے تھے ٹالتے تو وہ ہمیں جلاد کے حوالے کردیتا ،ادھر آپ ہمارا سر قلم کرنا چاہتے ہیں ہم جان بخشی کی عرض کرتی ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ واپس مصر نہیں جائیں گے۔
تم میری جان لینے آئے تھے۔۔۔۔ ہرقل نے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ لا کر کہا ۔۔۔اور میں تمہاری جان بخشی کر دوں ،میں جانتا ہوں تم انعام کے لالچ میں مجھے زہر دلوانے آئے تھے۔
ہرقل نے تالی بجائی اور باہر سے ایک محافظ دوڑتا اندر آیا ہرقل نے اسے کہا کہ ان دونوں آدمیوں کو اور اس لڑکی کو بھی لے جاؤ اور جلاد کے حوالے کردو ان کی لاشیں کہیں دور پھینک دینا۔
یہ حکم سن کر لڑکی کی چیخ نکل گئی ،کپتان اٹھ کھڑا ہوا اور ہرقل سے استدعا کی کہ اس لڑکی نے تو یہ راز مجھے دے دیا تھا اسے بخش دیا جائے۔
یہ ایک خوبصورت ناگن ہے۔۔۔۔ ہرقل نے کہا۔۔۔ مقوقس سے انعام لے کر مجھے زہر دینے کا وعدہ کیا ، اور اسے دھوکہ دیا، یہ اس قابل ہے کہ اسے اپنے حرم میں رکھ لو لیکن یہ کسی بھی وقت مجھے دھوکہ دے سکتی ہے،،،، لے جاؤ انھیں۔
پلک جھپکتے تین محافظ اندر آئے اور تینوں کو پکڑ کر اور گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے لڑکی کی چینخ و پکار سنائی دیتی رہی، جو ہوتے ہوتے دور نکل گئی، ان کے سرقلم کرنے کے لئے جلاد تیار تھا۔
تم نے میری جان بچائی ہے۔۔۔ ہرقل نے کہا۔۔۔ اور پوچھا۔۔۔۔ کیوں؟
اس لئے کہ میں آپ کے مداحوں میں سے ہوں۔۔۔ کپتان نے کہا ۔۔۔میں نے بڑی استادی سے اس لڑکی سے یہ راز لیا تھا۔
میں تمہیں اپنی جان کی قیمت دوں گا ۔۔۔ہرقل نے کہا۔۔۔ اور پھر تالی بجائی۔
ایک آدمی اندر آیا تو ہرقل نے کسی کا نام لے کر کہا اسے فوراً بلاؤ، وہ شخص فوراً آ گیا جو شاید اس کا وزیر یا کوئی ایسا ہی بڑا حاکم تھا،ہرقل نے اسے کہا کہ اس کپتان کو اتنا انعام دے دو وہ حاکم کپتان کو اپنے ساتھ لے گیا۔
ہرقل کی اس ذہنی اور جذباتی کیفیت میں یہی توقع رکھی جاسکتی تھی کہ وہ کسی وقت مصر حکم بھیجے گا کہ مقوقس کو معزول کرکے قید میں ڈال دیا جائے، یا یہ کہ مقوقس کو فوراً بزنطیہ بھیجا جائے۔
ہرقل جیسے فرعون بادشاہ سے یہ توقع ہو ہی نہیں تھی کہ وہ مقوقس کی یہ حرکت معاف کردے گا، لیکن ایک رومی وقائع نگار کے حوالے سے تاریخ داں ابن الحکم نے لکھا ہے کہ ہرقل گہری سوچ میں کھو گیا اور پھر اس نے اپنے دو تین مشیروں اور ایک دو جرنیلوں کو طلب کیا، سب آ گئے تو ہرقل نے انھیں یہ ساری بات سنائی سب پر سناٹا طاری ہو گیا۔
مجھے مشورہ دو ۔۔۔ہرقل نے کہا۔۔۔ مجھے کیا کرنا چاہیے۔
اس جرم کی سزا موت سے کم کیا ہوگی۔۔۔۔ ایک مشیر نے کہا۔
باقی سب نے اس کی تائید کی ،پھر انہوں نے باری باری مقوقس کے خلاف زہر اگلا اور یہ مشورہ متفقہ طور پر پیش کیا کہ مقوقس کو یہاں پابجولاں لا کر سر عام قتل کیا جائے۔
نہیں !،،،،، ہرقل نے خلاف توقع کہا ۔۔۔موت کوئی سزا نہیں میں اس شخص کو زندہ رکھوں گا اور اسے ذلیل و خوار کر کے ملک بدر کروں گا ،یہ سزا موت سے زیادہ بری ہے کہ آدمی ذلت و خواری میں زندہ رہے ،اسے فرمانروائی سے ہٹاکر بھکاری بنا دوں گا ،تاکہ جو لوگ اس کے دربار میں سجدے کرتے تھے وہ اسے دیکھیں اور منہ پھیر لیں،،،،،، وہ ایسے حالات خود ہی پیدا کرتا چلا جارہا ہے کہ عربوں کے ہاتھوں مارا جائے گا یا اسے جنگی قیدی بنا کر قتل کر دیں گے، یا وہ خود ہی مجھے موقع دے گا کہ میں اسے ملک بدر کر دو،،،،،
تم دیکھ رہے ہو کہ وہ شکست پر شکست کھائے جارہا ہے، آدھی فوج مروا چکا ہے۔ مسلمان دریائے نیل کے دونوں کناروں پر قابض ہوگئے ہیں، میں اسے بخشونگا نہیں ، اور اسے پتہ بھی نہیں چلنے دوں گا کہ مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ اس نے میرے قتل کا انتظام کیا تھا۔
مقوقس بابلیون میں بیٹھا ہرقل کی موت کی خبر کا انتظار کر رہا تھا اور مسلمانوں کے سپہ سالار عمرو بن عاص اپنے لشکر کے ساتھ مصر پر چھاتے چلے جارہے تھے۔ مقوقس کو صرف یہ کامیابی حاصل ہوئی تھی کہ بنیامین کے کہنے پر قبطی عیسائی رومی فوج میں شامل ہونے لگے تھے۔
#جاری_ہے
No comments: