Ads Top

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر46 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi

 by 

Abu Shuja Abu Waqar 


غازی از ابو شجاع ابو وقار
 پیشکش محمد ابراہیم
46 قسط نمبر
 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar 
Presented By Muhammad Ibraheim
 Episode 46
میں نے اسے تسلی دی اور کہا کہ میں کوشش کروں گا کہ یہ مسئلہ جلد از جلد حل ہو جائے 3 روز بعد پاکستان جانے والی ڈاک میں میں نے نذیر کا خط اور قیصر سے ہونے والی بات چیت اور اس کے ارادوں کے متعلق تفصیل سے لکھا
پھر مجھے بعد میں جب تک نیپال میں رہا قیصر اور دوسروں سے رابطہ رہا تو ان سے معلوم ہوا کہ میرا خط پاکستان ڈاک پہنچنے کے بعد اس گروپ لیڈر کو واپس بلا لیا گیا اور حبیب کو گروپ لیڈر بنا دیا گیا تھا اور انہوں نے سراے بیرم خان میں ایک فلیٹ کرایہ پر حاصل کر وہاں شفٹ ہو گئے تھے اس طرح میری کوششوں سے جو میں نے بھارت میں ایک گروپ تشکیل دیا تھا وہ بکھرنے سے بچ گیا آئندہ 3 روز تک ہم نے ان 8 مکتی باہنی کے کارندوں کی مکمل چھان بین ان کے اوقات اور ان کے متعلق ہر قسم کی معلومات حاصل کرتے ہوئے محسن کی رہنمائی میں گزار دیئے جب ہمیں ان کے متعلق مکمل تسلی ہوگئی کہ ان کے متعلق تمام معلومات اکٹھی کر چکے ہیں تو ہم نے بازار سے دستانے اور دیگر سامان خرید لیا چونکہ کھٹمنڈو کی زمین پتھریلی تھی اس لیے جوتوں کے نشانوں کی فکر ہی نہیں تھی بس کاروائی والی رات کا تعین باقی رہ گیا تھا
اسی سوچ میں تھے کہ ایک اور مسئلہ بن گیا وہ یہ کہ کھٹمنڈو میں ہوٹلز میں رہنے والے زیادہ طرح سیاح تھے جو غیر ملکی اور ان کا مشغلہ نیپال کی پہاڑیوں کو سر کرنا ہوتا تھا وہ صبح سویرے نکل جاتے اور شام کو واپس آتے تھے اکثر ایسا ہوتا کہ نیپالی جرائم پیشہ لوگ ان سیاحوں کو لوٹ لیتے تھے جس کیوجہ سے کھٹمنڈو کے تھانوں میں کافی زیادہ ایف آئی آر درج ہونے لگی تو حکومت نے یوں کیا کہ ہوٹل میں واپسی لاسٹ رات 8 بجے کا ٹائم رکھا اور تمام ہوٹلز کو اطلاع کی گئی کہ وہ تمام ہوٹلز میں رہنے والوں کی روپوٹ 8 بجے تک متعلقہ تھانے میں ہر روز جمع کروائیں اس طرح جرائم پر کچھ قابو پڑ گیا تھا لیکن ہمارا مشن تو 9 بجے شروع ہونا تھا اگر ہم رات کو اپنے ہوٹلز میں نہ ہوتے تو صبح 8 قتلوں کے شک میں ہمیں گرفتار کر لیا جاتا میرے ساتھ لڑکے بھی اس کیس میں پھنس جاتے جب یہ مسئلہ سامنے آیا تو ہم نے عارضی طور پر مشن ملتوی کر دیا میرا ہوٹل وسیع رقبے پر پھیلا ہوا تھا اور دو منزلہ تھا میں اپنے کمرے کی عقبی کھڑکی کے ذریعے بآسانی اتر سکتا تھا اور باہر سے واپس آ کر چیک ان ہو سکتا تھا دوسرے دن میں نے قیصر سے مشورہ کیا لہذا اگلے دن وہ بھی ہوٹل میں عارضی طور پر انٹر ہو گئے اب مسئلہ یہ تھا کہ ہوٹل کی بجلی بند کی جاے کیوں کہ لان میں نیلگوں روشنی تھی جس سے گارڈز ہمیں کھڑکیوں سے اترتے ہوئے دیکھ سکتے تھے اگر بجلی بند ہو جاتی ہے تو گارڈ مین گیٹ کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور ہمیں نکل بھاگنے کا موقع مل جاتا ہے اب ہمیں ہوٹل کے مین سوئچ روم کی تلاش تھی جو جلد ہی مل گیا قیصر وہاں ٹہلنے لگا باقی تینوں اپنی پوزیشنز میں کھڑے ہو گئے میں نے ریسیپشن پر جا کر ان سے بروشر مانگ کر انہی ادھر الجا دیا اچانک ایک لڑکے نے چلانا شروع کر دیا اس نے قالین کے نیچے سانپ کو گھستے دیکھا ہے سب ادھر متوجہ ہو گئے اس دوران قیصر نے اپنی کاروائی مکمل کر لی اور ہمیں اشارہ کیا ہم ایک ایک کر کے وہاں سے نکل گئے قیصر نے بند مین سوئچ کا ایک فیوز نکال لیا اور مجھے دیتے ہوئے کہا کہ اس جیسے دو فیوز لانے ہیں باقی لڑکے روم میں چلے گئے جبکہ میں اور قیصر بازار سے ایک گھنٹے میں دو فیوز خرید لاے اصلی فیوز قیصر نے موقع ملتے ہی وہاں لگا دیا اب ہم نے اپنے مشن کی باقی جزیات پر غور کیا قیصر نے لائٹ آف کرنی تھی قیصر نے کہا کہ اگر ہمیں گراؤند فلور میں ایک کمرہ مل جاے تو ہمیں رسیوں والے جھنجھٹ سے چھٹکارا مل سکتا ہے لہذا اگلے دن محسن بریف کیس میں اپنے کپڑے ڈال کر آ گیا اور اس نے گراؤنڈ فلور پر کمرہ کرایہ پر لے لیا ہم بازار گئے اور سب کے لیے خاکی اوور کوٹ خرید لیے جو نیپالی پولیس پہنتی تھی اب ہم ہر طرح سے مشن کے لیے تیار تھے اور ہمیں آج رات ہی مشن سر انجام دینا تھا
 ہمارا آپریشن تین حصوں پر منقسم تھا پہلا حصہ ہوٹل لائٹ آف کر کے نکلنا دوسرا مکتی باہنی والوں کو گروپس میں منقسم ہو کر ٹھکانے لگانا اور تیسرا کسی کی نظر میں آے بغیر واپس ہو ٹل اپنے رومز میں پہنچنا آپریشن کا سٹارٹ ٹائم رات 10 بجے منتخب کیا گیا ٹھیک 10 بجے قیصر کی ہدایت کے مطابق فرسٹ فلور کے لڑکے نے اپنے کمرے اور قیصر کے کمرے کے لیمپس کے بلب اتار کر بلب ہولڈر میں کرنسی سکے رکھ کر سوئچ آن کرنے تھے تاکہ شارٹ سرکٹ کے باعثِ دونوں فلورز کی لائٹس آف ہو جائیں لائٹس آف ہوتے ہی قیصر نے سوئچ بورڈ میں بازار سے خریدے گئے فیوز لگانے تھے جن کی تاریں کٹی ہوئی تھیں اور پھر ہم سب نے کھڑکی کے راستے نکل کر ہوٹل باہر پارکنگ ائیریا سے باہر کھڑی گاڑی تک پہنچنا تھا سب کام کو مکمل کر کے 5 منٹ تک پہنچنے کا گاڑی تک ٹائم رکھا گیا اگر کوئی اس سے لیٹ ہو جاتا ہے تو آج مشن ملتوی کر دینا تھا پونے دس بجے ہم سب نے اپنا ضروری سامان کوٹوں کی جیبوں میں منتقل کیا اور محسن کے کمرے میں آ گئے ہوٹل والوں کو جل دینے کے لیے تاش کے پتے محسن کے کمرے کے میز کے اوپر رکھ دیئے تاکہ ہمارے اجتماع کا پتہ چل سکے 9 بج کر 50 منٹ پر ایک لڑکا جسکی ڈیوٹی بلب نکال کر سکا رکھنا تھا اپنا کوٹ ہمارے پاس رکھ کر اوپر والی منزل پر گیا ٹھیک 10 بجے بتیاں گل ہو گئیں اور اسی دوران قیصر نے اپنا کام مکمل کر دیا اوپر والا لڑکا بھی نیچے آ گیا ہوٹل مکمل اندھیرے میں ڈوب گیا ہم بغیر وقت ضائع کیے کھڑکی راستے سے باہر نکلے اور گاڑی تک پہنچ گئے گاڑی میں لڑکے پیچھے اور محسن اور میں آگے بیٹھ گئے میں ڈرائیو کر رہا تھا اور محسن مجھے گائیڈ کر رہا تھا مطلوبہ جگہ پر پہنچ کر مین روڈ سے ہٹ کر ہم نے گاڑی روکی اور ہم سب ایک گلی میں گم ہو گئے تقریباً ڈیرھ گھنٹے بعد پہلا گروہ واپس آیا اور گاڑی میں بیٹھ کر دوسرے ٹارگٹ کیطرف روانہ ہوگئے ایک میل چلنے کے بعد محسن نے پھر گاڑی رکوائی اور اس ٹارگٹ کو ہٹ کرنے میں بھی تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ لگا پھر تیسرے ٹارگٹ کی طرف روانہ ہو گئے
 تیسرا ٹارگٹ شہر کی دوسری جانب نیپالی آبادی کے جھرمٹ میں ایک بلڈنگ کی تیسری منزل پر تھا چونکہ یہ تھوڑا مشکل ٹارگٹ تھا اس لیے ساتھیوں کو کور دینے کے لیے میں بلڈنگ کی سیڑھیوں کے دروازے پر پسٹل لے کر کھڑا ہو گیا تھوڑی دیر بعد دروازے کھلنے اور بند ہونے کی آوازیں آئیں اور پھر میرے ساتھی بھاگتے ہوئے نیچے اترے اور گاڑی میں بیٹھ محسن نے کہ اب جلدی جلدی ہوٹل پہنچو میں نے گاڑی تیز چلاتے ہوئے جب ہوٹل کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ سب لائٹس آن ہو چکی ہیں میں نے وہی سے گاڑی موڑی اور سیدھا شیر پنجاب ہو ٹل پہنچ گیا ملازم صفائی وغیرہ کر رہے تھے میں نے ان سے کہا کہ سردار جی کو بلائیں سردار جی آ گئے اور میں نے کہا کہ آج کی رات آپکے ہاں بیتانی ہے اس لیے کچھ بندوبست کریں اس وقت اور تو کچھ نہ ہو سکتا تھا اس نے ٹیبل جوڑ کر ان کے اوپر چادریں بچھا دیں میں نے سردار جی سے کہا کہ اپنے ملازمین کو سختی سے ہدایت کریں کہ ہمارے یہاں آنے کا کسی سے ذکر نہ کریں سردار جی نے ایکٹنگ شروع کر دی کافی دیر ایکٹنگ کرنے کے بعد اس نے ملازمین سے کہا کہ اگر آپ میں سے کسی نے ان کے متعلق بتایا کہ یہ لوگ رات یہاں بتا کر گئے ہیں تو میری عزت خاک میں مل جائے گی اور میں کسی کو منہ دکھانے قابل نہیں رہوں گا اور پھر میں تم سب کو قتل کر کے خود بھی آتما ہتیا کر لوں گا ملازمین نے جب اپنے سردار کی یہ حالت دیکھی تو انہوں نے کہا کہ ہم کسی سے بھی اس بات کا ذکر نہیں کریں گے بلکے بھول جائیں گے کہ یہ لوگ یہاں آے تھے
اس کے بعد قیصر میں اور سردار جی باہر آ گئے قیصر نے بتایا کہ دستانے اور چاقو گاڑی کی پچھلی سیٹ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں میں نے قیصر کو اندر بھیجا اور سردار سے کہا کہ ایسی جگہ چلیں جہاں بہت گہری کھائیاں ہوں کچھ سامان وہاں پھینکنا ہے سردار نے کہا کہ آؤ گاڑی میں بیٹھ کر ہم روانہ ہو گئے سردار نے پوچھا تو میں نے کہا کہ بعد میں بتاؤں گا گہری کھائیوں والے ایریا میں پہنچ کر میں نے سب چاقو وہاں ایک بہت گہری کھائی میں پھینک دییے اور واپس ہوٹل آ گئے پھر سردار سے کہا کہ آگ جلواؤ آگ جل گئ تو میں نے دستانے اس میں جلا دیئے اور پھر سردار کو کہا کہ گاڑی اندر باہر سے اچھی طرح دھلوا دو یہ کام بھی ہو گیا لڑکوں کے کوٹوں پر خون کے دھبے لگے ہوئے تھے انہوں نے وہ بھی دھو دیئے سب کام سے فراغت کے بعد چاے اور کیک کھاے تو اس دوران سردار نے پھر پوچھا تو میں نے کہا کہ صبح اکیلے میں بتاؤں گا صبح 4 بجے میں نے سردار سےکہا کہ ہمیں انا پورنا ہوٹل میں چھوڑ آے اس نے گاڑی سٹارٹ کی ہم سب اس میں بیٹھے اور ہوٹل کی پیچھے کیطرف ہم سڑک پر اتر گئے اور میں نے سردار کو پھر تنبیح کی کہ اس بات کا نہ خود کسی سے ذکر کرنا اور نہ ملازمین کریں اس بات کا انکو سختی سے بتا دینا ہم سب سڑک پر اتر کر دیوار پھلانگ کر چھپتے ہوے محسن کے کمرے کی کھڑکی کے ذریعے کمرے میں داخل ہو گئے
 لابی میں کھلنے والا دروازہ کھول کر دیکھا تو ریسیپشن پر دو ممبر نیند میں اونگھ رہے تھے کمرے کے بیرونی دروازے پر ڈو ناٹ ڈسٹرب کا بورڈ لٹک رہا تھا ہم نے محسن کے کمرے میں تاش کے پتے بکھیر دئیے اور اونچی آواز میں باتیں کرتے ہوئے اپنے کمروں کیطرف سیڑھی چڑنے لگے ہماری آواز سن کر ریسیپشن جاگ گئے اور انہوں نے گڈ مارننگ سر کہا وہ بولے ساری رات آپکے کمرے کی بتی جلتی رہی ہے تو میں نے کہا کہ ہم لوگ تاش کھیل رہے تھے مسکراہٹوں کے تبادلوں کے ساتھ ہم اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے ساری رات جاگنے اور مشن کی ٹینشن کیوجہ سے ہم سب تھکے ہوئے تھے میں تو کمرے میں جاتے ہی کپڑے بدلے اور گہری نیند سو گیا یقیناً باقیوں کا بھی یہی حال ہو گا دوپہر 12 بجے میری آنکھ کھلی میں نے اپنے فلور پر ٹھہرے ہوئے لڑکوں کو خود جا کر جگایا اور محسن کو کال پر کہا کہ ایک گھنٹے میں سب تیار ہو کر نیچے ڈائنگ ہال میں پہنچ جائیں میں گرم پانی سے نہایا اور تیار ہو کر نیچے پہنچا تو وہ سب ڈائننگ ہال میں بیٹھے میرا ویٹ کر رہے تھے کھانے کے بعد میں نے محسن کو کہا کہ وہ سفارت خانے جاے اور رات والے واقعے کی مہاجروں سے سن گن اور ان کے ردعمل کا جائزہ لے محسن کے جانے کے بعد ہم سب اسی کے کمرے میں چلے گئے میں نے قیصر سے گذشتہ رات کی تفصیل پوچھی تو اس نے بتایا کہ 6 موذیوں کو ختم کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی کہ ہم انکو پولیس کہہ کر دروازہ کھٹکھٹا کر کھلواتے اور دو اسے پکڑ لیتے باقی دو کمروں کی تلاشی لیتے پھر اسکی گردن پر چاقو پھیر دیتے اور احتیاطاً ایک وار اسکے دل پر کرتے تاکہ بچنے کے کوئی چانس ہی نہ رہیں ایک گھر میں دروازہ کھٹکھٹانے پر دروازہ کھلا تو دو نے اسے پکڑ لیا اب اسکو قتل کرنے کی محسن کی باری تھی محسن آگے بڑھا تو اس نے محسن کو پہچان لیا اور بولا کیا بات ہے تو محسن نے اپنی کھکھڑی سے اسکا پیٹ چاک کر دیا اور اس کے جسم سے انتڑیاں دل گردے ہر چیز باہر نکل گئی محسن جنون میں آ چکا تھا اس نے اس کی گردن ٹانگیں بازو الگ کر دیئے محسن کے منہ سے جھاگ نکلنے لگی تھی محسن اس کے جسم کے ٹکڑوں پر وار کرتا جاتا اور ساتھ کہتا جاتا ابھی تو ایک کا بدلہ لیا ہے ابھی باقی چار کا بدلہ باقی ہے بڑی مشکل سے اسے ہم نے قابو کیا اور گھر سے باہر نکل آئے آخری اور آٹھویں گھر ہمیں یہ دشواری پیش آئی کہ لکڑی کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے آواز پیدا ہونے کی وجہ سے چند ایک گھر کے مکین جاگ گئے اور انہوں نے ہمیں تعداد اور نیپالی پولیس کے کوٹ پہنے دیکھا تو اپنے دروازے بند کر لیے یہاں ٹارگٹ والے مکان کے رہائشی نے دروازہ کھولا اور ہمیں دیکھ کر پیچھے بھاگا ہم اسے پکڑ کر پیچھے والے کمرے میں لے گئے جو شاید اس کے سونے کا کمرہ تھا چونکہ اس گھر میں ہم اکھٹے ساتوں گئے تھے اس لیے 6 نے اسے دبوچا کہ اسکے منہ سے آواز تک نہ نکل سکی یہاں بھی ہم نے محسن کو موقع دیا جس نے کھکھڑی کے چند وار کر کے اس کا کام تمام کر دیا اور گردن تن سے جدا کر دی یہاں محسن کو غبار نکالنے کا موقع نہ دیا کیونکہ اس بلڈنگ کا کوئی بھی رہائشی پولیس کو فون کر سکتا تھا لہذا ہم کام نپٹا کر نیچے آ گئے قیصر کے بیان کو میں نے مختصر لکھا ہے ورنہ اس نے تفصیل بتانے میں دو گھنٹے لگاے تھے اسی دوران محسن بھی واپس آ گیا اس نے بتایا کہ آٹھوں کے قتل کا سب کو پتہ لگ چکا ہے سارے مہاجر بہت مشتعل ہیں اور سفارت خانے کے باہر نعرہ بازی کر رہے ہیں سفارت خانے نے مدد کے لیے پولیس بلا لی ہے جس نے مہاجروں کو سفارت خانے سے باہر نکال کر سڑک کی دوسری طرف دائیں بائیں دھکیل دیا ہے مہاجر سفارت خانے کیطرف سے تحفظ نہ ملنے اور بلاوجہ یہاں روکے رکھے جانے پر نعرہ بازی کر رہے ہیں
جاری ہے

Next Episode


No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.