Aur Neil Behta Raha By Inyat Ullah Altamish Episode No.51 ||اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش قسط نمبر 51
Aur Neel Behta Raha
By
Annyat Ullah Altamish
اور نیل بہتا رہا
از
عنایت اللہ التمش
#اورنیل_بہتارہا/عنایت اللہ التمش
#قسط_نمبر_51
مقوقس اور اس کا جرنیل تھیوڈور قلعہ بابلیون میں بیٹھے ہرقل کی موت کی اطلاع کا انتظار بڑی ہی بے تابی سے کر رہے تھے، ان کے اندازے کے مطابق کتنے دن گزر گئے تھے کہ اب تک اطلاع آ جانی چاہیے تھی ،دن پر دن گزرتے جا رہے تھے اور ان دونوں کی بے تابی بڑھتی جا رہی تھی۔
ان دونوں نے یہاں تک سوچ رکھا تھا کہ حالات سازگار ہوئے تو ہرقل کی موت کی اطلاع کے فوراً بعد مصر میں اپنی خودمختاری کا اعلان کر دیں گے۔ یہ دونوں دراصل قبطی عیسائی تھے انہوں نے ہرقل کی عیسائیت کو قبول نہیں کیا تھا ،ان کا یہ عقیدہ ہرقل نے صرف اس لیے برداشت کر لیا تھا کہ مقوقس مصر کا فرمانروا تھا، اور جرنیل تھیوڈور ، اطربون کے بعد دوسرا بڑا ہی قابل اور تجربہ کار جرنیل تھا ۔ اس حیثیت کے علاوہ ہرقل کو معلوم تھا کہ تھیوڈور کو مصر کے قبطی عیسائیوں میں خصوصی مقبولیت حاصل ہے ہرقل مقوقس اور تھیوڈور کی دوستی سے بھی آگاہ تھا ان دونوں کی ناراضگی سے ہرقل ڈرتا تھا۔
اب تو بہت ہی زیادہ دن گزر گئے تھے ان دونوں کو شک ہونے لگا کہ ان کی سازش ناکام ہو گئی ہے۔
یہ مت بھولیں۔۔۔ تھیوڈور نے کہا۔۔۔جس لڑکی کو ہم نے اتنی خطرناک مہم پر بھیجا ہے وہ اصل میں ایک طوائف زادی ہے ، مجھے شک ہے کہ اسے ہرقل کا حرم پسند آگیا ہے ،اور چونکہ وہ بہت ہی خوبصورت ہے اس لیے ہرقل اس پر فریفتہ ہوا جا رہا ہوگا ،اور لڑکی اس دھوکے میں آگئی ہوگی کہ روم اور مصر کا بادشاہ ہمیشہ کے لئے اس کے ہاتھ میں آ گیا ہے اور اب وہ ملکہ بنے گی۔
یہ شک مجھے بھی ہوتا ہے۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔ لیکن یہ خیال بھی آتا ہے کہ لڑکی کو موقع ہی نہیں ملا ہوگا۔
دونوں نے اس مسئلے پر غور کرنا شروع کیا تو اس فیصلے پر پہنچے کہ اپنا کوئی جاسوس اسکندریہ بھیجا جائے جو یہ معلوم کرے کہ ایک لڑکی دو آدمیوں کے ساتھ کس جہاز پر اور کب بحرہ روم کے پار جانے کے لیے روانہ ہوئی تھی ۔
تھیوڈور نے اس یقین کا اظہار کیا کہ لڑکی نے ان کا راز فاش نہیں کیا،،،،،، اگر ایسا ہوتا تو اب تک مقوقس اور تھیوڈور ہرقل کے قیدی ہوتے یا اب تک انہیں جلاد کے حوالے کیا جا چکا ہوتا۔
جب یہ طے کر لیا کہ کوئی جاسوس استعمال کیا جائے تو یہ مسئلہ سامنے آیا کہ ایسا کونسا جاسوس ہے جسے اعتماد میں لیا جا سکتا ہے، جاسوس بھی ایسا درکار تھا جو بزنطیہ میں ہرقل کے محل کے اندر کے حالات بھی معلوم کرنے کی اہلیت اور اثر و رسوخ رکھتا ہو، ایک تو عام قسم کے جاسوس تھے، اور دوسرا گروہ ان جاسوسوں کے افسروں کا تھا جو بادشاہ اور جرنیل وغیرہ جاسوس افسروں کے ساتھ دوستی کا ماحول پیدا کیے رکھتے تھے، مقوقس اور تھیوڈور نے سوچ سوچ کر ایک افسر کو منتخب کرلیا ۔
وہ بھی درپردہ قبطی عیسائی تھا۔ ان دونوں نے اس جاسوس افسر کو بلایا دونوں نے پہلے ہی طے کر لیا تھا کہ اس جاسوس کو کیا بتانا ہے۔
انہوں نے اس جاسوس کو یہ بتایا کہ ایک لڑکی کو بزنطیہ جاسوسی کے لئے بھیجا تھا معلوم یہ کرنا تھا کہ ہرقل مصر کی مخدوش صورتحال جانتے ہوئے بھی کمک کیوں نہیں بھیج رہا، اور کیا وہ کمک بھیجے گا بھی یا نہیں؟،،،، جاسوس کو یہ بھی بتایا گیا کہ لڑکی کے ساتھ دو آدمی بھیجے گئے تھے انہوں نے لڑکی کو ہرقل کے پیش کرنا تھا اور یہ کہنا تھا کہ یہ مقوقس نے بطور تحفہ بھیجی ہے۔
جاسوس افسر کے لئے یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی کہ مقو اس ہرقل کی جاسوسی کر رہا تھا ، جاسوس جانتا تھا کہ ہرقل نے اپنے جاسوس مصر میں بھیج رکھے ہیں جو یہ دیکھتے رہتے اور ہرقل کو پیغام اور اطلاعات بھیجتے ہیں کہ مقوقس اور جرنیل یہاں کیا کر رہے ہیں، اور ان کی نیت اور ان کے ارادے کیا ہیں، اگر مقوقس اور تھیوڈور ہرقل کی نیت اور ارادے معلوم کرنا چاہتے تھے تو یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی۔
جاسوس نے کہا کہ یہ کام اگر اسے بتایا جاتا تو وہ بہتر طریقے سے کسی تجربے کار جاسوس سے کروا لیتا۔
اگر ہمارا یہ کام نہیں ہوا تو کوئی افسوس نہیں۔۔۔۔ مقوقس نے کہا ۔۔۔خطرہ یہ نظر آتا ہے کہ لڑکی نے ہرقل کے یہاں جاکر اور محل کی شان و شوکت سے متاثر ہوکر راز ہی فاش نہ کر دیا ہو ،،،،،،، ہمارے دونوں آدمیوں کو تو واپس آ جانا چاہیے تھا۔
جاسوس کو ہر ایک بات اچھی طرح سمجھا دی گئی اور اسے کہا گیا کہ وہ اسکندریہ جاکر معلوم کرے اور اگر اسے پتہ چل جائے کہ لڑکی اور یہ دو آدمی فلاں دن اور فلاح جہاز سے گئے تھے تو جاسوس بزنطیہ چلا جائے اور وہاں سے ان کا سراغ لگائے ،جاسوس کو یہ بھی بتایا دیا گیا کہ یہ دونوں آدمی اور لڑکی کس لباس میں اور کس حلیے میں گئے تھے، جاسوس اسی شام بابلیون سے اسکندریہ روانہ ہو گیا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
یہ جاسوس جو اچھی خاصی حیثیت کا افسر تھا بادبانی کشتی کے ذریعے اسکندریہ پہنچا، کشتی ہی اسے پہچانے کا تیز ذریعہ تھی۔ دریائے نیل کا بہاؤ اسی طرف تھا اور کشتی بادبانی تھی اسکندریہ میں ایک ہی ایسی بڑی سرائے تھی جہاں بحیرہ روم کے پار جانے والے مسافر جہاز کی روانگی کا انتظار کرتے تھے، جاسوس مسافر کے بھیس میں اسی سرائے میں ٹھہرا۔
جاسوس کو بتا دیا گیا تھا کہ لڑکی اور وہ دو آدمی کن دنوں اسکندریہ پہنچے تھے، جاسوس نے اسکندریہ کے سرائے میں سرائے کے مالک اور نوکر وغیرہ سے پوچھنا شروع کردیا وہ بڑا ہی قابل اور تجربہ کار جاسوس تھا، اسے ہر کسی سے یہی ایک جواب ملا کہ اس سرائے میں تو مسافر آتے جاتے ہی رہتے ہیں اور کئی ایک کے ساتھ عورتیں بھی ہوتی ہیں کسی کے لئے یہ بتانا ممکن نہیں تھا کہ کوئی خاص قسم کی لڑکی خاص قسم کے آدمیوں کے ساتھ یہاں ٹھہری تھی۔
آخر ایک ذہین سے نوکر کو کچھ یاد آیا جاسوس نے اس کے ساتھ کچھ باتیں کی اور اسے ان تینوں کا لباس اور حلیہ بتایا تو نوکر نے کہا کہ اگر یہی لڑکی تھی تو اسے اس نے دیکھا تھا۔
نوکر نے کہا کہ وہ حیران اس لئے ہوا تھا کہ وہ لباس سے تو بالکل معمولی سے لوگ لگتے تھے لیکن انہوں نے سرائے میں الگ کمرہ لیا تھا ،وہاں تو اچھے اچھے لوگ آتے اور دو چار دن گزارنے کے لئے بڑے کمرے میں رہتے تھے تاکہ خرچہ زیادہ نہ ہو، یہ تینوں یعنی دو آدمی اور ایک لڑکی ایسے کمرے میں ٹھہرے تھے جو امیرکبیر لوگوں کے لئے ہی بنائے گئے تھے، نوکر ان کے ساتھ کمرے تک گیا تھا، اس کے بعد بھی وہ چند مرتبہ کمرے میں کچھ لے کر گیا اور ایک بار لڑکی جو ہر وقت چہرے پر نقاب رکھتی تھی بے خیالی میں نقاب ہٹا بیٹھی اور نوکر کی نظر اس کے چہرے پر پڑی وہ تو بہت ہی حسین لڑکی تھی۔
مختصر یہ کہ جاسوس کو بہت حد تک یقین ہو گیا کہ نوکر نے اسی لڑکی کو دیکھا تھا اور اس کے ساتھ وہی دو آدمی تھے جن کو مقوقس اور تھیوڈور نے لڑکی کے ساتھ بھیجا تھا۔ جاسوس کو پتہ چل گیا کہ وہ دو تین دن رک کر فلاں جہاز سے گئے تھے ،اسے جہاز کا نام بھی معلوم ہو گیا اور جہاز کے کپتان کا نام بھی۔
جاسوس نے بزنطیہ جانے کا فیصلہ کر لیا دوسرے مسافروں کو تو اگلے جہاز کا انتظار کرنا پڑتا تھا لیکن اس جاسوس کے لئے سرکاری انتظام کردیا گیا تھا، بڑی بادبانی کشتیاں تیار رہتی تھیں، جاسوس نے بندرگاہ پر جاکر اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ وہ اپنی ڈیوٹی پر جارہا ہے اور اسے فوراً بحیرہ روم عبور کرایا جائے، اسے اسی وقت ایک کشتی دے دی گئی جس میں تربیت یافتہ ملاح موجود تھے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
جاسوس بزنطیہ پہنچا اور وہاں جاسوسی کے محکمے کے جو افسر تھے انہیں ملا ، وہ اسے بڑی اچھی طرح جانتے تھے اس نے انہیں بتایا کہ اسے پتہ چلا ہے کہ مسلمانوں کے دو تین جاسوس یہاں آگئے ہیں وہ انہیں پکڑنے کے لیے آیا ہے۔
ان افسروں کے ساتھ وہ ادھرآدھر کی باتیں کرتا رہا قدرتی بات تھی کہ وہاں کے افسروں نے اس سے مصری کی جنگی صورتحال کے متعلق پوچھا جاسوس نے کہا کہ شاہ ہرقل نے قبطی عیسائیوں پر جو ظلم و ستم ڈھائے تھے اس کا نتیجہ اب یہ سامنے آ رہا ہے کہ قبطی فوج کو تعاون دیتے ہیں نہ اپنے ملک کے دفاع کے لئے کچھ کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کے اسقف اعظم بنیامین نے انہیں کہہ دیا ہے کہ وہ اسلام کے اس طوفان کو روکنے میں اپنی فوج کی مدد کریں۔
جاسوسی کے محکمے کے یہ سارے افسر رومی تھے انہیں بجا طور پر افسوس ہو رہا تھا کہ مصر سلطنت روم سے نکلتا نظر آرہا ہے۔ انہوں نے ہرقل کے ظلم و ستم اور قتل و غارت گری کی باتیں شروع کر دیں ، باتوں باتوں میں ایک نے کہا کہ ڈیڑھ دو مہینے گزرے ہرقل نے ایک نوخیز اور خوبصورت لڑکی کو اور اس کے ساتھ دو آدمیوں کو جلاد کے حوالے کرکے ان کے سر قلم کروا دیے ہیں کسی کو بھی معلوم نہیں وجہ کیا تھی۔
مقوقس کے جاسوس نے یہ سنا تو وہ چونکا اور کرید کرید کر پوچھنے لگا کے وہ آدمی کون تھے اور لڑکی کو کہاں سے لائے تھے؟ اسے جواب ملا کہ مصر سے ایک بحری جہاز آیا تھا سنا ہے اس جہاز کا کپتان ان تینوں کو لایا تھا اور اس حالت میں لایا کہ دونوں آدمیوں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پاؤں میں بیڑیاں تھیں۔یہ بھی بتایا گیا کہ ہرقل نے جہاز کے کپتان کو بہت سا انعام و اکرام دیا تھا۔
ہو سکتا ہے وہ مسلمان جاسوس ہوں۔۔۔ ہرقل کے ایک جاسوس افسر نے کہا ۔۔۔اور ہوسکتا ہے وہ یہی مسلمان جاسوس ہوں جن کے پیچھے تم آئے ہو۔
میں اس رائے سے اتفاق نہیں کرتا۔۔۔ ایک اور بولا اگر وہ جاسوس ہوتے تو شاہ ہرقل انہیں ہمارے حوالے کرتا تاکہ ہم ان سے معلوم کر سکتے کہ انہوں نے یہاں سے کیا کیا معلومات حاصل کی ہے۔
مقوقس کے جاسوس نے اور بھی کئی ایک باتیں معلوم کرلیں اور اسے یقین ہوگیا کہ یہی تھی وہ لڑکی اور یہی تھے وہ دو آدمی جنھیں مقوقس نے بھیجا تھا ، وہ وہاں سے واپس مصر کو روانہ ہو گیا۔
کئی دنوں کی خشکی کا اور پھر سمندر کا سفر کرکے یہ جاسوس واپس مقوقس کے پاس پہنچا اور اسے ساری رپورٹ دی ،مقوقس اور جرنیل تھیوڈور پھر بھی حیرت زدہ رہے کہ ہرقل نے ان تینوں کو قتل کیوں کروایا تھا؟،،،،، ان دونوں کو یہ افسوس تو ہوا کہ ان کی قتل کی سازش ناکام رہی ہے لیکن اطمینان یہ جان کر ہوا کہ ان کا راز فاش نہیں ہوا اگر ہوجاتا تو اب تک ہرقل ان دونوں کو قتل کروا چکا ہوتا۔
مقوقس کے سامنے صرف یہی ایک مسئلہ نہیں تھا کہ ہرقل کو قتل کروانا ہے اس کے دماغ پر تو عرب کے مسلمان غالب آئے ہوئے تھے جو مصر میں ہر قلعے پر قابض ہوتے چلے آرہے تھے، انہوں نے دریائے نیل بھی پار کر لیا تھا اور پھر فیوم کے پورے کا پورا صوبہ اپنی تحویل میں لے کر محصولات اور دیگر ٹیکس وصول کرنے شروع کر دیے تھے ، وہ حیران ہوتا رہا تھا کہ ہرقل کمک کیوں نہیں بھیج رہا؟،،،،، شام کی جنگ میں جب ہرقل کی فوج کاٹ رہی تھی اور پیچھے ہی پیچھے ہٹتی چلی آرہی تھی تو ہرقل نے مصر سے اچھی خاصی کمک منگوالی تھی جس کا کمانڈر اس کا اپنا بیٹا قسطنطین تھا ،مگر اب ہرقل نے اپنے اس بیٹے کو بزنطیہ میں بٹھا رکھا تھا آخر کیوں؟ ۔۔۔۔مقوقس کو اس سوال کا جواب اس جاسوس افسر سے مل گیا۔
جاسوس نے مقوقس کو بتایا کہ وہ ہرقل کے شاہی محلات کے اندر کے احوال و کوائف بھی معلوم کر لایا ہے ہرقل بوڑھا ہو گیا تھا اور اب اس کی جانشینی کا تنازع سر اٹھا رہا تھا ۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جو اس جاسوس نے بیان کی تھی، ہرقل کو اپنے بیٹے قسطنطین کے ساتھ بہت پیار تھا اور اسی کو اہمیت دیتا تھا اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ قسطنطین جرنیل اور فوج کی قیادت میں خصوصی مہارت اور اہلیت رکھتا تھا ، ہر کسی کے ذہن میں یہی ایک یقین تھا کہ ہرقل کا جانشین قسطنطین ہی ہوگا لیکن ایک دعوے دار اور بھی تھا۔
یہ دعویدار ہرقل کی ایک اور بیوی کا بیٹا تھا، یہ بیوی صرف بیوی نہیں بلکہ ملکہ تھی، اور ملکہ بھی ایسی کے سلطنت روم پر اس کا حکم چلتا تھا بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ وہ ہرقل پر بھی اپنا حکم چلایا کرتی تھی ، بہت ہی چالاک اور عیار عورت تھی اس کا نام ملکہ مرتینا تھا۔
اس کا ایک جوان بیٹا تھا جس کا نام ہرقلیوناس تھا ۔ ملکہ مرتینا اپنے اس بیٹے کو ہرقل کا جانشین اور سلطنت روم کا وارث بنانا چاہتی تھی، لیکن ہرقلیوناس قسطنطین جیسا جنگجو طبع نہیں تھا ۔ وہ محض شہزادہ تھا اور اس میں خوبی یہی تھی کہ وہ ملکہ کا بیٹا تھا۔ بلکہ اسے میدان جنگ سے بچائے رکھتی تھی۔ اس کا میدان جنگ میں جانے کا امکان ہی نہیں تھا کیونکہ وہ لڑنے والا آدمی تھا ہی نہیں
تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہرقل ملکہ مرتینا سے کچھ ڈرتا بھی تھا شاید اس کی وجہ ہرقل کا بڑھاپا تھا ،ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مرتینا نے رومی فوج کے بڑے بڑے جرنیلوں کو اپنی مٹھی میں لے رکھا تھا اور انہیں اس قدر عیش و عشرت کرواتی تھی کہ وہ اس کی مٹھی میں ہی رہنے کو بے تاب رہتے تھے۔ بظاہر ان جرنیلوں کی وفاداری ہرقل کے ساتھ تھی لیکن وہ ملکہ مرتینا کی خوشنودی کے حصول کے لئے کوشاں رہتے تھے۔
ہرقل بڑا ہی ظالم بادشاہ تھا وہ چاہتا تو مرتینا کو قتل کروا سکتا تھا یا اسے غائب ہی کروا دیتا، لیکن اسے معلوم تھا کہ کسی نہ کسی طرف سے اس پر انتقامی وار پڑے گا جس سے وہ سنبھل نہیں سکے گا ،انتقام کا خطرہ اس کے اپنے بیٹے سے بھی تھا اس صورتحال کو وہ خاموشی سے دیکھ رہا تھا اور اس نے اس کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی۔
معروف مصری تاریخ داں محمد حسنین ہیکل نے یورپی اور عرب تاریخ نویسوں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ ملکہ مرتینا نے پوری کوشش کر ڈالی تھی کہ ہرقل کو بڑھاپے کے بہانے تخت و تاج سے لاتعلق کر دے لیکن کامیاب نہ ہوسکی ۔ تاریخ میں تفصیلات نہیں ملتی کہ یہ کوشش کس نوعیت کی تھی لیکن یہ واضح ہے کہ جب مصر پر مجاہدین اسلام نے حملہ کیا تھا اس وقت ملکہ مرتینا ہرقل پر زور دیا تھا کہ قسطنطین کو فوج دے کر مصر بھیج دیں ورنہ مصر کا ہاتھ سے نکل جانا کوئی حیرت والا واقعہ نہیں ہوگا۔ مرتینا نے قسطنطین کی بہت ہی تعریفیں کی تھی اور کہا تھا کہ مصر کو عربوں سے قسطنطین بچا سکتا ہے۔
مرتینا تو چالاک اور ہوشیار تھی ہی ۔ہرقل بھی کچھ کم عیار نہیں تھا وہ جان گیا کہ اس کی ملکہ قسطنطین کی شجاعت کے جو قصیدے سنا رہی ہے اس میں اصل نیت یہ کار فرما ہے کہ قسطنطین مصر جائے اور مارا جائے ہرقل کوئی جواز پیش کرکے مرتینا کی یہ بات نہ مانی۔
اس کے بعد مصر سے جنگ کی صورتحال کی جو بھی اطلاع گئی وہ حوصلہ شکن اور انتہائی مایوس کن تھی، مرتینا نے ہرقل پر زور دینا شروع کر دیا کہ وہ خود فوج ساتھ لے کر مصر چلا جائے ورنہ مقوقس مصر عربوں کو دے بیٹھے گا۔ یہاں بھی مرتینا کی نیت یہی تھی کہ قسطنطین نہ مرے ہرقل ہی مارا جائے یا ہرقل مصر میں ایسا الجھ کر رہ جائے کہ مرتینا تخت پر بیٹھ کر روم کی شہنشاہیت کا دعوی کر دے ،،،،،،،،ہرقل نے اس کی یہ بات بھی نہ مانی۔
مقوقس کے جاسوس نے بتایا کہ ہرقل اپنی ملکہ سے تخت و تاج کو بچانے کے لئے اور پھر قسطنطین کو اپنا جانشین مقرر کرنے کے لئے نہ خود مصر آ رہا ہے نہ قسطنطین کو بھیج رہا ہے، اس کا مطلب یہ تھا کہ ہرقل نے مصر کی تمام تر ذمہ داری مقوقس پر ڈال دی تھی،،،،،،،،،، مقوقس نے اس جاسوس افسر کو انعام دے کر رخصت کردیا وہ اپنا جاسوسی کا کام بڑی ہی خوش اسلوبی سے جا کر پورا کر آیا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷=*
ہرقل کو اب یہ یقین بھی ہو گیا تھا کہ مقوقس، اور اس کا بنایا ہوا اسقف اعظم قیرس بھی اس کے دشمن ہو گئے ہیں۔ مقوقس کو جب یہ یقین ہوگیا کہ ہرقل اس کی مدد کے لئے کچھ بھی نہیں کرے گا تو اس نے اپنے جرنیل تھیوڈور سے گفتگو کی تھیوڈور نے اسے حتمی طور پر کہہ دیا کہ مصر کا دفاع اب انہیں کے ذمہ داری ہے، اور ہرقل کی طرف دیکھنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔
آخر دونوں اس نتیجے پر پہنچے کہ ہرقل کو بدلتی ہوئی صورتحال کی اطلاع دیتے رہیں گے لیکن مصر میں اپنی پالیسی اور اپنی سہولت کے مطابق لڑیں گے اور ہرقل کا کوئی حکم نہیں مانیں گے، لیکن اسے یہ احساس نہیں ہونے دیں گے کہ اس کی حکم عدولی دانستہ کی جا رہی ہے، اس نے کبھی بازپرس کی تو یہ جواز پیش کریں گے کہ اس کا حکم جب مصر میں پہنچا تو یہاں کی صورتحال بہت ہی بدل چکی تھی۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ مقوقس کا اسلام کے بارے میں رویہ دوسرے غیر مسلم بادشاہوں کی طرح جارحانہ اور حقارت آمیز نہیں تھا۔ دین اسلام کے متعلق اور رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی رسالت کے متعلق مقوقس کا اپنا ہی ایک نظریہ تھا۔ جس کا ذکر پہلے آچکا ہے ۔یہاں مختصراً ایک بار پھر پیش کیا جا رہا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ایک بار کسریٰ ایران، قیصر روم ، حیرہ، اور غسان کے بادشاہوں، عرب کے جنوبی علاقے کے حکمران ،اور فرمانروائے مصر مقوقس کے نام پیغام بھیجے تھے۔ جن میں ان سب کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی ۔
کسریٰ ایران نے بڑی رعونت سے یہ پیغام پھاڑ کر اس کے پرزے اڑا دیے تھے، اور پیغام لے جانے والے ایلچی کی بےعزتی کر کے دربار سے نکال دیا تھا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسریٰ کی سلطنت کے ٹکڑے اسی طرح بکھر جائیں گے اور یہ سلطنت ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی۔
دوسروں کا رویّہ حقارت آمیز تھا ۔ لیکن مقوقس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کا باقاعدہ جواب دیا اور ایسے نظریے کا اظہار کیا تھا جس سے سب حیران رہ گئے تھے، اس کے پاس حضرت حاطب رضی اللہ تعالی عنہ پیغام لے کر گئے تھے، مقوقس نے حضرت حاطب کا استقبال پورے احترام سے کیا اور حضور صلی اللہ وسلم کا پیغام پوری توجہ سے پڑھا تھا، تاریخ گواہ ہے کہ مقوقس نے حضرت حاطب رضی اللہ تعالی عنہ کو الگ بیٹھا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کچھ باتیں پوچھی اور پھر پیغام کا جواب لکھا تھا۔
مقوقس نے پیغام میں لکھا تھا کہ میں جانتا تھا کہ ابھی ایک نبی کا آنا باقی ہے میرا خیال تھا کہ یہ نبی شام میں ظہور پذیر ہو گا لیکن یہ عرب کی انتہائی کٹھن اور صبر آزما زمین پر ظاہر ہوا ہے ۔ مقوقس نے اپنے پیغام میں ایسا اشارہ تک نہیں دیا کہ اسے رسالت پر اعتراض ہے بلکہ اس نے یہ لکھا کہ وہ قبطی عیسائیوں سے اس بارے میں کچھ نہیں کہے گا، البتہ یہ صاف طور پر کہا کہ عرب کے مسلمان مصر کے میدانوں میں اتریں گے اور مصر پر ان کا غلبہ ہو جائے گا۔
مقوقس نے پیغام کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دو نوخیز اور خوبصورت لڑکیاں بطور تحفہ بھیجی تھی اور ایک نہایت اعلی نسل کا خچر بھی بھیجا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو لڑکیوں میں سے ایک کو اپنی ازواج مطہرات میں شامل کر لیا تھا، یہ تھیں حضرت ماریہ رضی اللہ تعالی عنہا ،انکے بطن سے حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ پیدا ہوئے تھے۔
اسلام کے بارے میں ایسا قابل احترام رویّہ رکھنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ مقوقس پورا مصر یا اس کا کچھ حصہ مجاہدین اسلام کے حوالے کردیتا۔ اس کے باوجود کے اس نے خود پیشن گوئی کی تھی کہ عرب کے مسلمان مصر پر غالب آجائیں گے، وہ عرب کے مجاہدین کا مقابلہ اپنی پوری طاقت اور تمام تر وسائل کے ساتھ کرنے کو تیار تھا اور کر بھی رہا تھا، اس نے اپنی فوج کو یہی ایک پیغام دیا تھا کہ اسلام کے اس سیلاب کو روکنا ہے البتہ اس نے اپنے رویے میں یہ ایک نرم گوشہ رکھا ہوا تھا کہ مسلمان کے ساتھ صلح صفائی کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا تھا، لیکن ساتھ یہ کہتا تھا کہ مسلمان مصر سے نکل جائیں۔
اب اس نے مسلمانوں کی اس قدر برق رفتار اور قیامت خیز پیشقدمی اور فتوحات کا سلسلہ دیکھا، اور پھر ہرقل کی نیت کا اسے پتہ چلا تو اس نے تھیوڈور اور دیگر جرنیلوں سے کہہ دیا کہ اب وہ اپنی پالیسی کے مطابق لڑے گا اور جو کارروائی بہتر سمجھے گا وہی کرے گا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
مجاہدین اسلام کی کامیابی صرف یہ نہیں تھی کہ وہ فتوحات حاصل کرتے بڑھے ہی چلے جا رہے تھے، بلکہ ان کی فتح یہ تھی کہ ان کی قیامت خیزی نے ہرقل کے شاہی نظام میں ایسا زلزلہ بپا کر دیا تھا کہ اس کا اپنا فرمانروا مقوقس، اور اس کے جرنیل، اور اس کا مقرر کیا ہوا اسقف اعظم اس کے دشمن ہو گئے تھے، وہ ہرقل جو فرعونِ ثانی تھا اپنے گھر میں اپنی ملکہ سے ڈرنے لگا تھا۔ اس کے گھر میں ایسی صورتحال پیدا ہوگئی تھی کہ وہ خود مصر جانے کا خطرہ مول لیتا تھا نہ اپنے بیٹے قسطنطین کو کمک دے کر بھیجتا تھا ۔
تاریخ آج تک حیران ہے کہ صحیح معنوں میں مٹھی بھر مجاہدین کو ایسی کامیابیاں اور وہ بھی اتنی بڑی جنگی طاقت کے مقابلے میں کس طرح حاصل ہوئی، تاریخ لکھنے والے صرف یہ لکھ گئے ہیں کہ یہ ایک معجزہ تھا لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ معجزہ بیٹھے بٹھائے تو رونما نہیں ہو جایا کرتا۔
اللہ اپنے کرم و فضل سے صرف انہیں نوازا کرتا ہے جو اپنی جان اور اپنا مال اور اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں قربانی کے لئے پیش کر دیا کرتے ہیں، یہ ایمان کی مضبوطی کی ایک دلیل تھی اور یہ فتح دراصل اسلام کی صداقت کی فتح تھی۔
ہرقل کس انجام کو پہنچ رہا تھا اسے اللہ کی لعنت کہا جائے تو صحیح ہوگا ،قرآن میں کئی آیات میں آیا ہے کہ اللہ پر ایمان لانے والوں پر کفار جو ظلم و ستم کرتے ہیں ان کفار کا انجام بہت ہی برا اور قابل نفرت ہو گا، اس کے ساتھ ہی اللہ نے یہ بھی بشارت دی ہے کہ جو اہل ایمان کفار کے ان مظالم کا مقابلہ ثابت قدم رہ کر کریں گے اللہ انہیں بہترین اور ہمیشہ رہنے والا اجر عطا کرے گا اور ظالموں سے انتقام لے گا۔
ہرقل اگر اسلام قبول نہ کرتا اور حضرت عیسی علیہ السلام کی عیسائیت کے ساتھ ہی وفادار رہتا ،اور اپنے دل میں بنی نوع انسان کی وہی محبت رکھتا جو حضرت عیسی علیہ سلام کے دل میں تھی ،اور جس کی تعلیم آپ علیہ السلام نے کی تھی، تو شاید ہرقل کا انجام اتنا برا نہ ہوتا لیکن اس نے عیسائیت کو بھی مسخ کرکے اپنا ہی ایک مذہب بنا ڈالا تھا۔ اس پر تو لعنت برسنی ہی تھی۔
#جاری_ہے
No comments: