Ads Top

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر47 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi

 by 

Abu Shuja Abu Waqar 


غازی از ابو شجاع ابو وقار
 پیشکش محمد ابراہیم
47 قسط نمبر
 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar 
Presented By Muhammad Ibraheim
 Episode 47
اصل حقائق اور مہاجروں کے احتجاجی مظاہرے کا سن کر مجھے ایک انوکھی تجویز سوجھی مجھے یقیں تھا کہ اگر میری یہ تجویز کارگر ہوتی ہے تو مہاجروں کا احتجاج یک لخت الٹا رخ اختیار کر لے گا میں نے محسن کو کہا کہ وہ فوری کشمیری مسجد جاے جہاں قتل ہونے والوں کی تجہیز وتکفین کی تیاری کی جا رہی ہے اور نہایت چالاکی سے یہ بات پھیلا دے کہ مرنے والے نہ تو مسلم تھی اور نہ مہاجر اس کے علاوہ کچھ نہ بولے اور مسجد کے قریب میرا انتظار کرے محسن کے جانے 30 منٹ بعد میں نے لڑکوں سے کہا کہ وہ کمروں میں رہیں یا بازار کی سیر کر آئیں یہ کہہ کر میں نے سائیکل رکشہ لیا اور کشمیری مسجد کی طرف چل دیا کشمیری مسجد کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ محسن ایک طرف کھڑا میرا انتظار کر رہا تھا اس نے بتایا کہ اس نے یہ بات پھیلا دی ہے لیکن لاشیں پوسٹ مارٹم ہو کر ابھی تک یہاں نہیں پہنچیں قریب 3ہزار لوگ انکا جنازہ پڑھنے کے لیے وہاں کھڑے تھے کھٹمنڈو میں کشمیری مسجد کا ہونا عجیب بات تھی اس کے پیچھے کہانی یہ تھی کشمیر کے راجہ کی ظلم سے کشمیر کا ایک خاندان کھٹمنڈو آ کر آباد ہو گیا رفتہ رفتہ ان کا کاروبار چمکا تو اور بھی کشمیر سے لوگ یہاں آ کر آباد ہو گئے انہوں نے یہاں ایک محلہ بسایا جسکا نام کشمیری محلہ رکھا اور کشمیری مسجد بنائی اور اب یہ لوگ مسلمانوں کی بے لوث خدمت کرتے تھے ان 8 مہاجروں کے جنازے کا بھی ان لوگوں نے پورا بندوبست کیا ہوا تھا ان میں چند معتبر ایک کوٹھی کے لان بیٹھے ہوئے تھے میں ان کے پاس گیا سلام کیا ان سے میری واقفیت تو نہ تھی لیکن وہ لوگ بڑے تپاک سے ملے میں نے بتایا کہ میں چٹاگانگ میں ملازم تھا بڑی مشکل سے کھٹمنڈو پہنچا ہوں اور اب پاکستان جانے کے انتظار میں ہوں چونکہ گذشتہ رات بہت بڑا واقعہ ہوا تھا لہذا جلد ہی موضوع اس طرف پھر گیا میں نے باتوں کے درمیان کہا کہ میں نے یہاں آ کر سنا ہے کہ مرنے والے غیر مسلم تھے وہ سب میری بات سن کر ہنسنے لگے اور بولے یہ کیسے ہو سکتا ہے میں نے کہا بے شک یہ افواہ ہی صحیح مگر تصدیق کرنے
میں کیا حرج ہے الغرض میرے زور دینے پر وہ رضا مند ہوگئے اور بولے کہ غسال کو کہہ دیں گے کہ غسل دیتے وقت وہ اس بات کی اصلیت کو جانچے میتیں آئیں تو مہاجروں کا جوش و خروش بہت بڑھ گیا یہاں بھی پاکستانی سفارت خانے اور نیپالی پولیس کے خلاف نعرے بازی شروع ہو گئی وہاں دو غسال تھے دونوں ایک ایک میت کو غسل دینے کے لیے میت کے پاس گئے اور معتبرین کے کہنے کے مطابق جب انہوں نے ان میتوں کو چیک کیا تو وہ لاحول ولا قوۃ پڑھتے ہوئے کھڑے ہو گئےغسال نے سرگوشی میں مہاجروں کو بتایا کہ یہ دونوں غیر مسلم ہیں مہاجروں کو یقین نہ آیا تو دو معتبر بزرگوں نے آٹھوں کو خود چیک کیا تو آٹھوں غیر مسلم نکلے سب لوگ حیران رہ گئے اب غسل دینا تو ایک طرف وہاں پر سب یہ کہنا شروع ہو گئے کہ لاشوں کو ہندوؤں کے حوالے کر دیا جائے میں نے دونوں بزرگوں سے کہا کہ وہ میرے ساتھ سفارت خانے چل کر لوگوں کو اصل حقائق سے آگاہ کریں ورنہ وہاں صورتحال بگڑ سکتی ہے وہ دونوں فوراً ایک کشمیری کی موٹر گاڑی میں سفارت خانے پہنچےاور پولیس کے میگا فون سے لوگوں کو مرنے والوں کی اصلیت بتائی تو وہاں سب مہاجر یہ بات سن کر خاموش ہو گئے اور کشمیری مسجد کی طرف چل دئیے تاکہ خود یہ تماشا دیکھ سکیں اب یہ موضوع شروع ہو گیا کہ مرنے والے کون تھے اور انہیں کیوں قتل کیا گیا جتنے منہ اتنی باتیں ہونا شروع ہوگئی میرا مشن مکمل ہو چکا تھا اب میرے لیے ضروری تھا کہ لڑکوں کو بحفاظت فوراً نیپال سے نکالنا یہ سوچ کر میں ہوٹل واپس چلا آیا میں قیصر کے کمرے میں گیا اور کہا کہ سب لڑکوں کو یہی بلا لو جب سب جمع ہوگئے تو میں نے انہیں کہا کہ سفارت خانے کو بچانے کے لیے میں نے مرنے والوں کو ہندو ظاہر کروا دیا ہے پہلے تو مہاجر سمجھ کر خانہ پوری ہونا تھی مگر اب نیپالی پولیس اپنی تفتیش کا دائرہ بڑھاے گی اور مکتی باہنی والوں کو یہاں بھجینے اور انڈین سفارت خانہ بھی چپ نہیں رہے گا لہذا تم لوگوں کو اب جلد از جلد نیپال سے نکلنا ہو گا میں نے انہیں فی کس 10 ہزار روپیہ دیا اور سفری اخراجات الگ اور شاپنگ کے لیے الگ پیسے دیئے اور کہا کہ تم لوگ فوراً شاپنگ کر لو انکو بازار بھیج کر میں نے قیصر کو کل صبح پیر گنج کے لیے 6 ٹکٹ بک کروانے کے لیے بھیج دیا نذیر اور عارف کے لیے الگ الگ خط بھی قیصر کو دیئے جسمیں نذیر کو ایک ماہ کے اندر مکان خالی نہ کرنے کی صورت میں وہ جیسا چاہیں انکے ساتھ سلوک کرنے کا اختیار دے دیا اور ایک خط خفیہ طور پر حبیبِ کو دینے کے لیے بھی لکھ کر دیا جسمیں مکان خالی نہ کرنے کیصورت میں نذیر اور لڑکوں کے ریایکشن کا لکھا میں نے قیصر کو کہا کہ دہلی پہنچ کر مجھے اپنی خیریت سے پہنچنے پر انفارم ضرور کرے دوسری صبح 8 بجے یہ 6 مجاہدوں کا قافلہ کھٹمنڈو سے پیر گنج کیطرف روانہ ہو گیا چوتھے روز دہلی سے مجھے نذیر اور عارف کی کال آئی جسمیں قیصر گروپ کا خیریت سے دہلی پہنچنے کا بتایا گیا نذیر کو میں نے بتایا کہ میں آپکی پریشانی کی مکمل تفصیل محکمے کو لکھ کر بھیج دی ہے لہذا ایک ماہ میں امید ہے کام ہو جائے گا متبادل جگہ سراے بیرم خان سے بہتر کوئی نہیں ہو سکتی لہذا وہاں ایک مکان ڈھونڈ کران کو وہاں سیٹل ہونے میں ان کی مدد کرے کھٹمنڈو میں مہاجروں کے روپ میں چھپپے ابھی تک 9 درندوں کو ٹھکانے لگایا تھا مجھے یقین تھا کہ ابھی مزید بھی ہوں گے جو یہاں ہماری نظروں میں نہیں آے یا پھر فیملیز کی شکل میں ہوں گے بھارتی سفارت خانہ 200 افراد پر مشتمل تھا جبکہ پاکستان کا سفارت خانہ 18 افراد پر مشتمل تھا اور بھارتی سفارت خانے کی آڑ میں وہ نہ صرف نیپال بلکہ چین کی بھی جاسوسی کرتے تھے چین نے کھٹمنڈو سے اپنی بارڈر لائن تک 134 میل لمبی سڑک بنائی تھی جو بلکل سیدھی تھی یہ سڑک چینی انجنیئرز کا شاہکار تھی دہلی سے آے ہوئے لڑکوں نے اپنا ایڈریس علی گڑھ الہ آباد اور لکھنؤ لکھوایا تھا اور ہوٹل کرایہ بھی خود ہی پے کیا تھا جو بعد میں میں نے ان کو دے دیا بعد دوپہر محسن بھی ہوٹل چھوڑ کر گیسٹ چلا گیا اس نے 12ہزار روپے لگاے تھے جو میں نے اسے بعد میں واپس کر دیئے پیسے کی کمی انسان کو کمزور بنا دیتی ہے میں نہیں چاہتا تھا کہ محسن جیسا انسان کمزور پڑے اس لیے اسکا سارا خرچہ میں نے خود اٹھا لیا
میں نے محسن کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ وہ روزانہ سفارت خانے جاے اور سارے دن کی روپوٹ شام کو ہوٹل میں آ کر دے ان آٹھ لاشوں کو انڈین سفارت خانے کے حوالے کر دیا گیا تھا جنہوں نے اسے جلا دیا تھا ایک ہفتہ میں نے نہایت خاموشی سے گزاراہ میرا نیپال میں مشن ابھی شروع ہوا تھا سفارت خانے نے اب ان 9 بندوں کی رجسٹریشن ختم کر دی تھی اور اب رجسٹریشن دوبارہ کی جا رہی تھی رجسٹریشن بہت سخت کر دی گئی تھی ایک کمرے میں لے جا کر کپڑے اتار کر پہلے اس بات کی تصدیق کی جاتی تھی کہ مسلم ہے یا غیر مسلم پھر رجسٹریشن ہوتی تھی اس کے علاوہ رجسٹریشن کے لیے کچھ شواہد دینے پڑتے اور ساتھ کم از کم 3 مہاجروں کی گواہی لازمی قرار پائی گئی چونکہ محسن اور بزرگ شاعر بھی اسی زمرے میں آتے تھے لہذا میں ان کے پرانے رجسٹریشن کارڈ لے کر کافی دنوں کے بعد سفارت خانے گیا میرا خیال تھا کہ سفیر مجھے اچھی طرح نہیں ملے گا مگر وہ ایک سیاسی آدمی تھا وہ مجھے بڑے تپاک سے ملا اور چاے بسکٹ منگواے بڑے اچھے طریقے سے گفتگو کی میں نے انکو ان دونوں کے رجسٹریشن کارڈ دے کر پوچھا کہ سفیر صاحب کیا ان دونوں کو میری ضمانت پر نیو رجسٹریشن کارڈ مل سکتے ہیں سفیر نے کہا کہ کیوں نہیں آپ کے کہنے پر تو ہم 2 ہزار مہاجروں کی رجسٹریشن کرنے کے لیے تیار ہیں یہ کہہ کر اس نے گھنٹی بجائی اسکا پی اے اندر آیا تو سفیر نے اسے دونوں رجسٹریشن کارڈ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے نیو کارڈ بنا دو وہ 15 منٹ میں کارڈ بنا کر لے آیا سفیر سے کافی دیر گپ شپ کی اس نے اتنے دن نہ آنے کا گلہ بھی کیا میں نے کہا کہ بس کچھ مجبوری تھی اس لیے نہی آ سکا اس کے بعد میں نے جانے کی اجازت چاہی تو اس نے کہا کہ شام کا کھانا وہ میرے ساتھ کھاے میرے گھر میں کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں میں نے انکار کیا تو اس نے ضد پکڑ لی نہیں آپکو آنا ہو گا مہاجروں کے بارے کچھ گفتگو کرنی ہے میں نے کہا ٹھیک میں شام کو آ جاؤ گا چونکہ سفارت خانے کی نااہلی پہلے ہی سامنے آ چکی تھی اب سفیر میرے ساتھ بات چیت کر کے کچھ راز اگلوانا چاہتا تھا مگر. میں کالے چور پر تو بھروسہ کر سکتا تھا مگر سفیر اینڈ کمپنی پر کبھی بھی بھروسہ نہیں کر سکتا تھا شام کو میں سفیر کے گھر گیا کھانا کھایا کھانا کھانے کے بعد اس نے مجھے دو پیکٹ سگار کے دیئے جس پر لکھا ہوا تھا جس پر پاکستان کا سرکاری نشان اور سپیشلی بلینڈڈ فار پرائمنسٹر آف پاکستان کھدا ہوا تھا میں نے سفیر کا شکریہ ادا کیا اور اپنا پیکٹ کھول کر سگار نکالنا چاہا تو سفیر نے منع کرتے ہوئے کہا کہ یہ تم اپنے ہوٹل میں جاکر کھول کر پینا یہاں پر پینے کے لیے میری طرف سے اس نے اپنے پیکٹ سے سگار نکال کر مجھے دیا ہر سگار سلور کی ایک ٹیوب میں بند تھا جس پر بھی پہلے والے الفاظ درج تھے اب بتائیے یہ کیسے کیا؟ سفیر صاحب نے مسکراتے ہوے گہری نگاہ سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا
میں نے آگے سے سوال کیا. کیا سب کیسے کیا؟ میں نے انجان بنتے ہوئے ان سے وہی سوال پوچھ لیا. سفیر شاید یہ جان کر کہ مجھے سوال کی سمجھ نہیں آئی بولے بھئی میں ان آٹھ غیر مسلموں کی بات کر رہا ہوں جو گزشتہ ایک رات میں آٹھوں قتل کر دئے گئے میں نے جواب دیا کہ سنا تو میں نے بھی ہے سفیر نے کہا میں تو سمجھتا تھا کہ یہ کارروائی آپ نے کروائی ہے کیونکہ یہ غیر مسلم مہاجروں کے روپ میں ہمارے سفارت خانے میں رجسٹرڈ تھے اور انکے ایکسپوز ہونے کے بعد نئے سرے سے رجسٹریشن کی کاروائی کی جا رہی ہے میں نے کہا کہ میرا اس سارے واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے میرے پاس تو صرف ایک پسٹل ہے جبکہ میری اطلاع کے مطابق انہیں خنجروں اور کھکھڑیوں سے مارا گیا ہے میں اکیلا بھلا ایک رات میں ان آٹھوں کو کیسے مار سکتا تھا میرا نفی میں جواب سن کر سفیر صاحب مخمصے میں پڑ گئے اب سوال کرنے کی میری باری تھی میں نے کہا چلئیے چھوڑیئے وہ کمبخت اسی قابل تھے سو وہ تو مر گئے مگر آپکے لیے مصیبت کھڑی کر گئے نئے سرے سے رجسٹریشن کر کے آئندہ آنے والے جاسوسوں کو پکڑ لیں گے مگر جو جاسوس آپ پہلے پاکستان بھیج چکے ہیں انکا کیا ہو گا میں تو سمجھتا ہوں کہ ان آٹھ غیر مسلم جاسوسوں کی سفارت خانے میں بحیثیت مسلم مہاجر ین رجسٹریشن کے حوالے سے میں اس واقعے کی تفصیل اور پہلے سے بھجیے گئے مہاجرین کی مشکوک اڈنٹٹی کی روپوٹ بھیجوں گا تو وہاں تو زلزلے آ جائیں گے سفیر صاحب جو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ بڑی کاوش سے مجھے راہ راست پر لاے ہیں میری بات سن کے بلکل بجھ گئے کافی دیر سوچنے کے بعد بولے ان حالات میں مجھے تو استعفیٰ دے کر واپس چلے جانا چاہیئے اور تو کوئی بات نہیں بس ایک پریشانی ہے کہ میری دونوں بچیاں یہاں کالج میں پڑھتی ہیں انکا ایک ایک سال ضائع ہو جاے گا ادھر کم بخت میرا دل جو ظالم کے لیے بھی نرم ہو جاتا تھا یہاں بھی نرم ہونے لگا اسی دل کے ہاتھوں مجبور ہی کر میں نے گورکھ پور میں جن سویلین سے ٹیکسیاں چھنینی تھیں انکو زندہ رکھ کر میں نے بھارتی انٹیلیجنس کے لیے سوراخ چھوڑ دیا تھا میں نے سفیر کو کہا کہ آپ گھبرائیے مت میں پاکستان روپوٹ تو ضرور بھیجوں گا مگر ایسی نہیں کہ آپکی بچیوں کا سال ضائع ہو آپ پریشان مت ہوں یہ کہہ کر میں کھڑا ہو گیا سفیر نے بڑی اپنائیت سے میری کمر پر ہاٹھ ڈال کر مجھے اپنی گاڑی میں ہوٹل چھوڑنے ساتھ چل دیا میں نے سفیر سے کہا کہ آپ ایسا کریں کہ ان تمام مہاجرین کی فہرستیں جنہیں آپ آج تک کھٹمنڈو سے پاکستان بھجوا چکے ہیں مجھے کل تک دے دیں اس نے حامی بھر لی
تیسرے روز سفیر نے مجھے پاکستان بھجے گے مہاجروں کی مکمل تفصیل کے ساتھ فہرستیں دے دیں میں نے ان فہرستوں کی دو دو کاپیاں بنوا کر ایک ایک اپنے پاس رکھ لیں اور ایک ایک پاکستان بھجوا دی اور ساتھ میں نے اپنے پورے کیے گئے مشن کی تفصیلی رپورٹ اور سفارت خانے کی نئی پالیسی کو سراہا میں نے یہ سفارت خانے والی روپوٹ سفیر کو پڑھوا کر پیکٹ میں بند کی اور ڈاک بھیج دی اس کے بعد جب تک میں کھٹمنڈو رہا سفیر کا رویہ میرے ساتھ بہت اچھا رہا اور سفارت خانے کیطرف سے مطمئن ہو کر میں نے اپنی تمام تر توجہ اپنے مشن پر لگا دی روپوٹ میں میں نے خاص طور پر لکھا کہ ایسے مہاجر جو اکیلے اکیلے فیملی کے بغیر پاکستان پہنچ چکے ہیں ان کو تلاش کر کے انکی مکمل نگرانی کی جاے ہو سکتا ہے ان میں بھارتی جاسوس ہوں ایمبیسی میں پاکستان سے آنے والے دس پندرہ روز پرانے اخبارات پڑھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ پاکستان کو دولخت کرنے والی سیاسی قوتیں بچے کھچے پاکستان کی کس طرح سے جڑیں کھوکھلی کر رہی ہیں 71ء کی شکست کے بعد بھی پاکستانی عوام آنکھیں بند کر کے خود کھائی میں گرنے جا رہے تھے ایسی صورت حال بن گئ تھی کہ پاکستان سے محبت اور وفادار بہت کم رہ گئے اور وہ اس چراغ کو جلانے کی بھر پور کوشش کر رہے تھے حکم الہی اٹل فیصلے کیصورت میں ہمارے سامنے کھڑا تھا کہ جس قوم کو اپنی حالت آپ درست کرنے کا خیال نہ رہے اللہ پاک بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتے پاکستانی عوام نے سنبھلنے کی کوشش کرنا تو درکنار اس کا خیال کرنا بھی چھوڑ دیا تھا کھٹمنڈو پولیس نے بہت ہاتھ پاؤں مارے مگر ان آٹھ آدمیوں کے قتل کرنے والے تک نہ پہنچ سکی بات پھر یہی ختم ہو جاتی تھی کہ غیر مسلم تھے تو انہوں نے پاکستان ایمبیسی میں مسلم مہاجر ظاہر کر کے رجسٹریشن کیوں کروائی تھی وہ پاکستان کیوں جانا چاہتے تھے اور ان کے یہاں ٹھہرنے کا مقصد کیا تھا آخر کار کھٹمنڈو پولیس نے ہوٹلز گیسٹ ہاؤسز سرائے ہر جگہ پوچھ گیچھ کی مگر کچھ حاصل نہ ہوا تو انہوں نے اس کیس پر بلکل خاموشی اختیار کر لی. جب دیکھا کہ اب خطرہ نہیں رہا تو میں نے پھر لسٹیں نکال لیں اور دیکھنا شروع کر دیا کہ ایسی مہاجر فیملیز جن کے مرد کوئی کام بھی نہیں کرتے اور اپنا خرچہ چلا رہے ہیں کیسے یہ کر رہے ہیں جبکہ ان کے گرد مہاجروں کی چھوٹی چھوٹی ٹولیاں بھی منڈلاتی رہتی ہیں میں نے خود ان کی تصدیق کرنے کی بجاے محسن کی ڈیوٹی لگائی اور اسے وہ فیملیز بتائیں اور کہا کہ وہ ان میں شامل ہو کر انکی چھان بین کرے.
میری ہدایت پر محسن نے اپنا معمول بنا لیا جہاں بھی چند مہاجر جمع ہوتے وہاں جا کر وہ پاکستان کے خلاف بولنا شروع کر دیتا اگر کوئی اعتراض کرتا وہ اپنی قمیض اٹھا کر انکو اپنے زخموں کے نشان دکھاتا اور کہتا کہ میں بھی پاکستان سے محبت کا دم بھرتا تھا مگر مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج نے میرے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ میرے گھر والے مارے گئے اور مجھ پر ظلم کیا گیا اور بڑی مشکل سے جان بچا کر یہاں مہاجروں کی صورت میں رہ رہا ہوں اب آگے یہ پاکستانی سفارت خانے والے ہم سب پر کیا کیا ظلم کر رہے ہیں اسی طرح پروپیگنڈا کرتے کرتے محسن کو 8 دن گزر گئے ایک دن محسن ویسی ہی اداکاری کر رہا تھا کہ اسے ایک مہاجر نے بلایا اور اپنے ساتھ ایک گھر میں لے گیا جہاں پر اور بھی مہاجر بیٹھے ہوئے تھے گھر بہت سجا سجایا ہوا تھا گھر کا مالک بہت خوبصورت قالین پر گاؤ تکیے لگاے بیٹھا تھا اس نے محسن کے ساتھ بہت اخلاق سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہم دوسری بار مہاجر ہوئے ہیں اور یہ سب کچھ مغربی پاکستان کا کیا دھرا ہے ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اپنے ہم خیال لوگوں کو جمع کریں پھر مغربی پاکستان جا کر وہاں رہنے والے شیطان صفت حکمرانوں اور لوگوں کا جینا حرام کر دیں اس محفل میں مشروب اور شراب کے جام چل رہے تھے
محسن کے بیان کے مطابق وہ بہت دیر تک جذباتی تقریر کرتا رہا اور ہم سب کو پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے اکساتا رہا محسن نے بتایا کہ وہاں بیٹھے لوگ سچے یا جھوٹے دل سے اسکی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے وہ فوری اپنے مقصد اور مشن تک نہیں پہنچا بلکہ پہلے آہستہ آہستہ ہمارا برین واش کرتا رہا محفل برخاست ہونے پر اس نے سب وہاں موجود مہاجروں کو پچاس پچاس روپے دئے اور محسن کو آئندہ اپنی ہونے والی میٹنگز میں دعوت دی میں نے محسن کو کہا کہ وہ وہاں باقاعدگی سے جاے اور وہاں پر جانے والے مہاجروں کے کوائف اور مشرقی پاکستان میں انکے کاروبار اور دیگر معلومات کا پتہ لگانے کی کوشش کرے
 محسن اپنے کام پر جت گیا اور میں نے محسن جیسے بہادر اور پر خلوص مہاجروں کی تلاش شروع کردی کیونکہ اکیلے محسن کے ساتھ یہ کام کرنا بہت مشکل تھا 
جاری ہے

Next Episode


No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.