ناول جنت کے پتے قسط 27
جنت کے پتے
از
نمرہ احمد
ناول؛ جنت کے پتے
قسط 27
"برگر کنگ سامنے ہی ہے.،جلدی سے اس میں چلے جاتے ہیں،اس سے پہلے کہ وہ باہرنکلے." مگر تمہیں اس پر کافی الٹنے کی کیا ضرورت تھی؟" ہالے جھنجھلائ. (کچھ پرانے حساب اتارنےتھے) تم خود ہی تو میرے کپ کی طرف اشارہ کر رہی تھی. "میرا مطلب تھاکہ کپ چھوڑواور باہرنکلو." وہ مزید بحث کیے بنا ہاتھ سے ہالے کو ساتھ کھینچتی برگر کنگ کا گلاس ڈور دھکیل کر اندر داخل ہوئ. وہ دونوں ایسے اندھادندھ طریقے سے دوڑتی آئیں اور
استقبالیں کاؤنٹر پہ آکر دم لیاکہ وہاں موجود لڑکا قدرے بوکھلاگیا. "کیاہوا؟جہان نہیں ہےادھر."وہ سمجھاوہ دوبارہ جہان کے لیےآئ ہیں."ٹھیک ہے،ٹھیک ہے!" حیا نے پھولے تنفس کے درمیان ہاتھ اٹھا کر کہا. تمہارے کچن میں کوئ دروازہ ہےجو پچھلی گلی میں کھلتاہو؟ "کچن میں نہیں،مگر پینٹری میں بیک ڈور ہے.آپ میرے ساتھ آئیں."شایدوہ سمجھ گیاتھاکہ وہ دونوں کسی سے بچنا چاہ رہی ہیں،سو بناکوئ مزید سوال کیےوھ انہیں اپنی رہنمائ
میں پینٹری میں لے آیا.پینٹری مستطیل سی تھی اوراس میں اسٹوریج شیلف اور بڑے بڑےفریزرز رکھےتھے.کچھ دوسرا کاٹھ کباڑ بھی تھا. "وہ رہادروازہ."اس نے ایک دروازے کی طرف اشارہ کیااور ایک مشکوک نظر ان پہ ڈالتاواپس پلٹ گیا. ہالے نے پینٹری سے کچن میں کھلنے والا دروازہ بند کیااورپھر قدرے تزبزب سے پچھلی گلی کے دروازے کودیکھا."ابھی باہر نکلنے کا فائدہ؟گورسل تو ڈیڑہ بجے آۓ گی،تب تک یہیں بیٹھتے ہیں."وہ ایک کونے سے دو
پلاسٹک کی کرسیاں اٹھالائ اور کمرے کے وسط میں فرش پہ آمنے سامنے رکھیں."ویسے اب میں سوچ رہی ہوں کہ تم نے ٹھیک ہی کیا،استقلال جدیسی میں اکثر ایسےڈرنک لوگوں سےٹکراؤ ہوجاتاہےجو عجیب حرکتیںکرتےہیں." تب ہی میں نے کافی الٹی،تاکہ وہ فورا" ہمارے پیچھےنہ آسکے." وہ کرسی پہ نہیں بیٹھی بلکہ دروازے کےقریب چلی آئ تھی.دروازے کے ساتھ ایک چوکور کھڑکی نماروشن دان تھا.وہ بہت اونچانہیں تھا،بلکہ حیاکےچہرےکے بلکل برابرتھا.
اس نے روشن دان کی شیشےکی سلائیڈ ایک طرف کی تو ٹھنڈی ہوااور پچھلی گلی کی آوازیں اندر آنے لگیں.وہ استقلال اسٹریٹ کی بغلی گلی تھی.استقلال اسٹریٹ کی دونوں جانب ایسی ہی گلیاں تھیں جو ذرا تنگ اور چھوٹی مگردونوں اطراف سےعمارتوںسےگھری تھیں."اب تم مجھےبتاؤ،یہ منگنی کاکیاقصہ ہے؟"ذرا سکون کاسانس ملاتو ہالے کوادھوری بات یادآگئ.وہ پرجوش سی کرسی پہ آگے ہوکر بیٹھی. حیانےپلٹ کردیکھااورمسکرادی.جو تناؤاورپریشانی وہ
تھوڑی دیر پہلے محسوس کررہی تھیں،وھ پینٹری کی فضامیں تحلیل ہوتی جارہی تھی."بتاتی ہوں."وہ کرسی پہ آبیٹھی اور گورسل شٹل آنے تک وہ سارا قصہ سناچکی تھی.بس میں بھی ساراراستہ وہ دونوں یہی باتیں کرتی رہیں. "اگروہ جانتاتھاتو اس نے پہلے اظہار کیوں نہیں کیا؟" اب کردیایہی بہت ہے.وہ بہت پریکٹیل اورکم گوساآدمی ہے.اس سے وابستہ توقعات میں نےاب کمکردی ہیں.اس نےشانےاچکاکرکہاتھا.کمرےمیں آکرہالےتوسونےچلی گئ
جبکہ اس نے پہلےتواپنی میزکی درازمیںاس ڈبیاکی تصدیق کی جس میں موبائیل شاپ کےلڑکےنےجی پی ایس ٹریسر ڈال کردیاتھا.وہ دراز میں ہی رکھی تھی،جہاں وہ چھوڑ کرگئ تھی،پھر پاشاکوکیسےپتاچلاکہ وہ کہاہے؟ہوسکتاہے اس کی کسی اور شے میں بھی ٹریسر ہو،یاپھروہ محض اتفاق ہو،لیکن اس کےاتفاقات تو کم ہی ہوتےتھے،اتناتواسےیقین تھا.جو بھی ہے،وہ ہرشےکوذہن سے جھٹک کراپناپزل باکس نکال کر دبے قدموں باہر آگئ.بالکونی کی بتی اسے
دیکھتےہی جل اٹھی.وہ وہیں پہلے زینے پہ بیٹھ گئ اور پزل باکس چہرے کے سامنے کیا.چاروں پہیلیاں ایک چوکور کی صورت میں باکس کی چاروں اطراف پہ لکھی تھیں.چوکور اسکوائر تاقسم اسکوائر.دھڑکتےدل اور نم ہتھیلیوں کے ساتھ وہ سلائیڈز اوپر نیچےکرنےلگی. Taksim کا آخری حرف ایم جیسےہی جگہ پہ آیا.کلک کی آواز کے ساتھ باکس کی دراز اسپرنگ کی طرح باہر نکلی.وہ بنا پلک جھپکےبے یقینی سےباکس کےاندردیکھ رہی تھی.اس نے میجر
احمد کا پزل حل کر لیاتھا.وہ باکس کھول چکی تھی.دراز میں ایک سفید مستطیل کاغذ رکھاتھا.وہ کاغذ پوری دراز پہ فٹ آرہاتھا.اس نے دو انگلیوں سے پکڑ کرکاغذ باہر نکالا.بالکونی کی مدھم روشنی میں وہ کاغذ پہ لکھی تحریر بنا کسی دقت کے پڑھ سکتی تھی.
Two full stops under the key
(چابی کے نیچے دو فل اسٹاپس) اس نے بے یقینی سے وہ سطر پڑھی جو کاغذ کےاوپری حصے پہ لکھی تھی.کیا یہ کوئ مذاق تھا؟اپریل فول؟اس کاغذ کےٹکڑے
کے لیے اس نے اتنی محنت کی؟ کاغذ کے چاروں کونوں میں چھوٹاچھوٹاسا چھ (6)کا ہندسہ بھی لکھاتھا.اس نےکاغذ پلٹا.اس کی پشت پہ بالکل وسط میں ایک بار کوڈ چھپاتھا.موٹی پتلی ایک انچ کی لکیریں اور ان کے نیچے ایک سیریل نمبر،شیمپو،لوشن اور ان گنت دوسری اشیا کے لفافوں اور ڈبوں کے کونوں میں اکثر ایسے ہی بارکوڈ چھپےہوتےتھے.اس بار کوڈ کاوہ کیاکرےگی؟ مگر نہیں،باکس میں کچھ اور بھی تھا.دراز کی زمین سےایک لوہےکی لمبی اور
عجیب وضع کی چابی چپکی تھی.اس نے دو انگلیوں سےچابی کو کھینچا تووہ جو گوند کے محض ایک قطرے سے چپکائ گئ تھی،اکھڑ کرحیاکے ہاتھ میں آگئ.حیانےدیکھا،چابی کے نیچے موجود لکڑی پہ دو موٹے موٹے نقطےلگے تھےاور ان کے درمیان لکھاتھا
Emanet
پھر کوئ پزل؟پھر پہیلیاں؟چابی تلے دو فل اسٹاپ؟ وہ دونوں نقطے اسےمل گۓ مگراب وہ انکا کیاکرے؟کاش!وہ یہ سب اٹھاکرمیجر احمد کےمنہ پردے مارسکتی.یہ چابی کس شےکی تھی؟ کسی کمرے،کسی گاڑی،
کسی گھر کی؟اگرپہاڑکھودنے پہ یہ مراہواچوہاہی نکلناتھاتوبہترتھاوہ اسے توڑ کرہی نکال لیتی،اچھامذاق تھا.اس نے خفگی سے دراز بند کی تو وہ پھر باہر نکل آئ.اس نے دوبارہ درازکواندر دھکیلااور اسےپکڑےپکڑےسلائیڈ اوپر نیچےکیں.کوڈ بارکا سہ حرفی لفظ بگڑگیا.باکس پھر سے لاک ہوگیا.اس نے ہاتھ ہٹایاتودرازباہر نہیں آئ.واپس بسترپہ لیٹتے ہوۓ وہ بے حد کڑھ رہی تھی.ایک چابی سے کوئ اور پزل باکس کھلےگا،اس سےکوئ اور،اس سے کوئ
اور.... کیاوہ ساری زندگی مقفل تالے ہی کھولتی رہے گی؟ اچھامذاق تھا. پھر وہ ذہن سے یہ سوچیں جھٹک کر پاشاکے بارے میں سوچنے لگی.ایک مطمئن مسکراہٹ خودبخود اس کے لبوں پر بکھر گئ.
بہت اچھاکیااس نے کافی الٹ کر.وہ اسی قابل تھا.حقیقت میں اپنےروبروپاشاکودیکھتےہوۓاسےتصاویرسے بہترلگاتھا.اس کاقدکافی اونچاتھا.چھ فٹ سےبھی اوپراورلباس بھی مناسب تھا.آنکھوں پہ بغیر فریم کی گلاسز لگاۓاورذرا،ذراسی بڑھی شیو.وہ روبرو دیکھنے میں بس ایساتھاکہ مقابل اس کی عزت کرے.مگر اس سے بڑھ کر کچھ نہیں.ہینڈسم تووہ اسے کبھی نہیں لگاتھا،نہ ہی اس کی شخصیت میں کوئ سحر تھا.(جس کی باتیں بہارے کرتی تھی)وہ
دیکھنے میں بس درمیانے درجے کا آدمی لگتاتھایاشایداستقلال اسٹریٹ میں چہل قدمی کرنے کے لیے اس نے خود کو ایک عام آدمی کی طرح ڈریس اپ کرکےکیموفلاج کررکھاتھا.شایدیہی بات ہو.وہ ان ہی سوچوں میں گھری کب نیند کے سمندر میں ڈوب گئ،اسے علم ہی نہ ہوسکا. اس نےچابی کی ہول میں گھمائ اور پھر الماری کاپٹ کھولا.سامنے والے خانے میں جہاںچند کاغذات کےاوپراس نے جلی ہوئ اطراف والا پزل باکس رکھاتا.اب وہ وہاں نہیں تھا.اس کے
ذہن نے لمحوں میں کڑیوں سے کڑیاں ملائیں،اگلےہی پل وہ پٹ بند کرکےباہرآیاتھا."بہارے گل!"سڑھیوں کے دہانے پہ کھڑے ہوکر اس نے آواز دی.بہارےکافی دنوں سےاس کی آواز کی منتظرتھی،مگر عبدالرحمن کو اپنی مصروفیت میں الماری کھولنےکاموقع شاید آج ملاتھا.اس لیے اب آواز سن کروہ جو ٹی وی کےسامنےبیٹھی تھی،تابعداری سےاٹھی اور سر جھکاۓمودب انداز میں سڑھیاں چڑھنےلگی.تیسری منزل کےدہانےپہ پہنچ کر اس نےسراٹھایا.وہ اس کےسامنے
کھڑاتھا.وہ ابھی ابھی ہوٹل سےآیاتھا،سو ٹائ کی ناٹ ڈھیلی کیے،کوٹ کےبغیرتھا.اسےمتوجہ پاکرعبدالرحمن نےسوالیہ ابرو اٹھائ."کیابہارےگل مجھے بتاناپسند کریں گی کہ وہ پزل باکس کہاں ہے؟" میں پسند کروں گی. بہارےنے سادگی سے اثبات میں گردن ہلائ. "میں نےوہ حیاکوواپس کردیا." وہ چند لمحےکچھ کہہ ہی نہ سکا.اس کا چہرہ بے تاثرتھا.مگر بہارےجانتی تھی کہ اسےدھچکالگاہے. "وہ کس کی اجازت سے؟" وہ تمہاری چیز نہیں تھی عبدالرحمن!
جس کی تھی،میں نے اسےدےدی."وہ چند ثانیے اسے دیکھتارہا،پھر اس کے سامنےایک پنجے کےبل فرش پہ بیٹھااور سیدھابہارے کی آنکھوں میں دیکھا. "کیاتم نےمجھ سےرازداری کاوعدہ نہیں کیاتھا؟" میں رحمن کے بندے کو خوش کرنے کے لیے رحمن کو ناراض نہیں کر سکتی تھی.میں جھوٹ نہیں بول سکتی تھی."اس کی بڑی بڑی آنکھیں بھیگ گئیں. "جوجتنااچھاجھوٹ بولتاہے بہارے!یہ دنیااسی کی ہوتی ہے."لیکن پھر اس کی آخرت نہیں ہوتی،یہ عائشےگل کہتی ہے
وہ زخمی انداز میں مسکرایا. "پھرتومجھے تمہارے دوسرے وعدے کابھی اعتبارنہیں کرناچاھیے."نہیں!ہم واقعی جزیرے پہ کسی سےتمہارےبارےمیںبات نہیں کرتے.وہ نہیں،ایک اوروعدہ بھی تھا ہمارےدرمیان،ہمارالٹل سیکرٹ. بہارے کے کندھوں پہ ایک دم بہت بھاری بوجھ سا آگرا.اس نےاداسی سےعبدالرحمن کو دیکھا جو منتظر سا اسےہی دیکھ رہاتھا
بہت پہلےعبدالرحمن نے اس سے عہد لیاتھاکہ اگروہ مرگیاتووہ اسےجنازہ بھی دےگی اور اس کی میت کو اون بھی کرےگی. "تم سچ بولنےوالی بہارےگل پہ اعتبار کرسکتےہو.پوراادالار،بلکہ پورا ترکی تمہیں چھوڑ دےگا،مگر بہارےگل تمہیں کبھی نہیں چھوڑےگی. اور ہو سکتاہےکہ ایک وقت ایساآۓ،جب تم مجھے پہچاننےسےبھی انکارکردو.تم کہو،کون عبدالرحمن،کہاںکاعبدالرحمن؟ "تم ایسی باتیں مت کیاکرو،مجھے دکھ ہوتاہے." اور اس بارےمیں بھی
عائشےگل کی کوئ کہاوت ہوگی.وہ ذراسا مسکرایا. "اسکو چھوڑو،وہ تو بہت کچھ کہتی رہتی ہے.میں دوسرے کان سے نکال دیتی ہوں."اس نےناک پہ سےمکھی اڑاکرگویا عبدالرحمن کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا."وہ تو مجھ سےاتنی خفاہوئ تھی کہ میں نےتم سےشادی کی بات کیوں کی. لمحے بھر کو رک کربہارے ذرا تشوش سےبولی."تم مجھ سے شادی کروگے نا عبدالرحمن؟"ساتھ ہی اس نے گردن موڑ کراردگرد دیکھ بھی لیا.عائشےقریب میں کہیں نہیں تھی. وہ
دھیرےسےہنس دیا."مگرمیں تمہاری نئی دوست میں دلچسپی رکھتاہوں"وہ تم سےشادی کیوں کرےگی؟وہ اپنےکزن کوپسندکرتی ہےاوراس کا کزن بہت ہینڈسم ہے."بہارے کو جیسے بہت غصہ آیاتھا."اور تمہاری دوست کوعبدالرحمن جیساکوئ بدصورت نہیں لگتاہوگا،ہےنا؟"یہ سچ ہے.اسےتم باکل پسند نہیں ہو،مگرمجھےتم سےزیادہ کوئ ہینڈسم نہیں لگتا." وہ مسکراتےہوۓاٹھ کھڑاہوا.بہارےنے گردن اٹھاکراسےدیکھا."سنو!وہ حیاکےپزل باکس پہ جو پہیلی کھدی تھی،وہ
کس نے لکھی تھی؟"وہ جاتےجاتےذراچونک کر واپس پلٹا.مجھےکیسےعلم ہوسکتاہے؟میں نےتو ابھی تک اس باکس پر غور ہی نہیں کیاتھا."نہیں!دراصل میرےباکس کی پہیلی اور حیاکی پہیلی بالکل ایک سی لکھی تھیں،تب ہی حیانےمجھ سےپوچھاتھاکہ میری پہیلی کس نےلکھی ہے؟ وہ واقعتا"چونکاتھا.بلکہ ٹھہرو!تم نےکہاہوگاکہ عبدالرحمن کےپاس ہر کام کےلیے بہت سےبندےہوتےہیں.بہارےکامنہ کھل گیا."تمہیں کیسےپتا؟"بہارےگل گل!میں تمھاری سوچ سےبھی زیادہ
اچھے طریقےسے تمہیں جانتاہوں.وہ کہہ کررکانہیں.بہارےنےآزردگی سےاسےجاتےدیکھا.وہ اس سےخفاتھا،وہ جانتی تھی مگرعائشےکہتی تھی،بندہ خفاہوجاۓ،خیرہے،بس رحمن خفانہ ہو."اف!"اس نے سر جھٹکا."عائشےگل کی کہاوتیں!!" آڈیٹوریم اسٹوڈینٹس سےکھچاکھچ بھراتھا.باسکٹ بال کامیچ جاری تھا.کورٹ میںلڑکےنارنجی گینداچھالتےادھرادھربھاگ رہےتھے.تماشائیوںکی نگاہیںبھی گیند پہ لگی تھیں.مخصوص شور،ہنگامہ اور رش.حیاان سب سے بےنیاز،اپنابیگ
تھامےکرسیوں کی قطاروںکے درمیان ...رستہ بناتی آگے بڑھ رہی تھی.امتحان قریب تھےاور ان دنوں وہ اتنی مصروف رہی تھی کہ معتصم سےبات کرنےکاموقع نہ مل سکا.ابھی لطیف نےبتایاکہ وہ آڈیٹوریم میں ہے تو وہ یہاں......
*****
ﺁﮔﺊ ۔ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺏ ﻭﮦ ﻓﻠﺴﻄﯿﻨﯽ ﻟﮍﮐﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﭼﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﺫﺭﺍ ﺍﺣﺘﯿﺎﻁ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ۔
ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﻭﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﮈﺍﺳﯿﻨﭧ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﺟﺴﮯ ﺗﮩﮯﻣﮕﺪ ﻭﮦ ﻭﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺍﺳﮑﺎﺭﻑ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ ﺳﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﻮﺋﯽ ﻏﻠﻂ ﺑﺎﺕ ﺟﮍﯼ ﺗﻮ ﺑﺪﻧﺎﻡ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﺳﮑﺎﺭﻑ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮨﻮﺗﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﻌﺘﺼﻢ ﯾﺎ ﺣﯿﺴﻦ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺳﮯ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﻣﻠﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﮐﺴﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﭘﮧ ﻣﻠﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﺐ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮨﯽ ﮨﻮﮞ ۔
ﻭﮦ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﻗﻄﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ ﮐﮭﯿﻞ ﭘﮧ ﻣﺮﮐﻮﺯﮐﯿﮯ ﮐﺮﺳﯽ ﭘﺮ ﺁﮔﮯ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﻭﮦ ﻣﯿﭻ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﻃﺮﻑ ﺩﻭ ﮐﺮﺳﯿﺎﮞ ﺧﺎﻟﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﮐﺮﺳﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﮓ ﺳﮯ ﭘﺰﻝ ﺑﺎﮐﺲ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﯿﺎ۔ ﻭﮦ ﭼﻮﻧﮑﺎ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﮭﻮﻝ ﻟﯿﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﻮﮈ ﺗﺎﻗﺴﻢ ﺗﮭﺎ۔ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺍﮔﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺪﺩ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮ۔
ﺍﻭﮦ ﺳﻼﻡ ﭨﮭﺮﻭ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ ۔ ﻣﻌﺘﺼﻢ ﻧﮯ ﺩﺍﺭﺯ ﮐﮭﻮﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻏﺬ ﭘﮧ ﻟﮑﮭﯽ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﭘﮍﺋﯽ ﭘﺮ ﭘﮭﺮ ﺍﺳﮯ ﭘﻠﭩﺎ۔
ﺑﺎﺭ ﮐﻮﮈ ۔ ﺑﺎﺭ ﮐﻮﮈ ﺗﻮ ﺍﯾﺸﯿﺎ ﮐﮯ ﺑﯿﮑﺘﺲ ﭘﮧ ﻟﮕﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺸﯿﻦ ﮨﯽ ﮈﯼ ﭨﯿﮑﭧ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺑﺎﺭ ﮐﻮﮈ ﺑﮭﯽ ﻣﺸﯿﻦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﮯ۔ ﺗﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﭘﮩﭽﺎﻧﮯ ﻣﮕﺮ ﮐﺪﮬﺮ ﮨﻮﮞ ۔ ﺷﺎﯾﺪ ﺍﺱ ﺳﻄﺮ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺪﺩ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ۔ ﻭﮦ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﮐﺎﻏﺬ ﭘﻠﭧ ﮐﺮ ﺳﻄﺮ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﭘﮭﺮ ﻧﻔﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮨﻼ ﮐﺮ ﺩﺭﺍﺯ ﺳﮯ ﭼﺎﺑﯽ ﺍﭨﮭﺎﻟﯽ۔
ﺑﻈﺎﮨﺮ ﺗﻮﯾﮩﯽ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺳﻄﺮ ﺍﺱ ﭼﺎﺑﯽ ﺗﻠﮯ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﻭﮦ ﻧﻘﻄﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻟﻔﻆ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺁﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔
ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻟﻔﻆ ﮐﺴﯽ ﺗﺎﻟﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻭﯾﺴﮯ ﮐﻤﻨﭧ ﮐﮩﺘﮯ ﮐﺴﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺫﺭﺍ ﺍﻟﺠﮭﻦ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ۔
ﯾﮧ ﺍﻣﺎﻧﺖ ﮨﮯ ﻧﺎ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻭﺍﻻ ﺍﻣﺎﻧﺖ ﺗﺮﮎ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﻮ ﯾﮩﯽ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮔﮩﺮﯼ ﺳﺎﻧﺲ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﮭﻨﭽﯽ ۔
ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﺗﺮﮎ ﺍﻭﺭ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﻤﺎﺛﻠﺖ ۔
ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﯿﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻣﺎﻧﺖ ﮐﮩﯽ ﻻﮎ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭼﺎﺑﯽ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﯼ ﮨﮯ ۔ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﯾﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﻈﯿﻢ ﺍﻟﺸﺎﻥ ﺳﺎ ﻣﺤﻞ ﮨﻮ ﯾﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺮﺍﻧﮉ ﻧﯿﻮ ﮔﺎﮌﯼ ۔ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﮧ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﺳﮯ ﮨﻨﺴﺎ۔
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺘﺎ۔
ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯﺍﺱ ﺑﺎﮐﺲ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﺎﺩﯾﺪﺩ ﻟﮑﮭﺎﺋﯽ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﭻ ﺩﮐﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ۔
ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺷﯿﺶ ﮐﺮ ﭼﮑﯽ ﮨﻮﮞ ۔ ﺍﺱ ﺍﯾﮏ ﻟﻔﻆ ﺍﻣﺎﻧﺖ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺎﮐﺲ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﯼ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﻭﺍﭘﺲ ﮈﺍﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺁﭨﮫ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﺋﯽ ۔ ﻣﻌﺘﺼﻢ ﻣﺰﯾﺪ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺏ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﮨﯽ ﮐﺮﻧﺎ ﺗﮭﺎ ۔
ﺍﻣﺘﺤﺎﻧﻮﻥ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭼﻮﮞ ﮔﺌﯽ ۔ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻗﺼﮯ ﮐﻮ ﺑﻨﺪ ﮨﯽ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮﺍﺑﺎ ﻣﻌﺘﺼﻢ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺷﺎﻧﮯ ﺍﭼﮑﺎ ﺩﯾﮯ۔
ﻭﮦ ﺁﮈﯾﭩﻮﺭﯾﻢ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﺑﺠﺎ۔ ﺍﻣﺎ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻓﻮﻥ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﯿﮓ ﺳﮯ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ ﯾﮧ ﻭﮨﯽ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﻧﻤﺒﺮ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﺍﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺠﺮ ﺍﺣﻤﺪ ﻧﮯ ﻓﻮﻥ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﮨﯿﻠﻮ ﮐﺮﺳﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﻭﮦ ﺫﺭﺍ ﺍﻭﻧﭽﺎ ﺑﻮﻟﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﺍﻭﺭ ﮔﺮﺩ ﮐﮧ ﺷﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺠﺮ ﺍﺣﻤﺪ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺑﻤﺸﮑﻞ ﺳﻨﺎﺋﯽ ﺩﮮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ
ﺍﺳﻼﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ ﮐﺴﯽ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﺣﯿﺎ ﻭﮨﯽ ﻧﺮﻡ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﭨﮭﮩﺮﺍ ﮨﻮﺍ ﺍﻧﺪﺍﺯ ۔ ﺍﺏ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭼﺮﺗﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺊ ﺑﻠﮑﮧ ﺯﺭﺍ ﺍﺣﺘﯿﺎﻁ ﺳﮯ ﺑﻮﻝ ﮨﯽ ﻟﯿﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﻭﻋﻠﯿﮑﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﯿﺮﯼ ﺧﯿﺮﺕ ﺁﭖ ﮐﻮ ﭘﺘﺎ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ ۔ ﻭﮦ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﺎﺭ ﺋﺮﻭﮌ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺰ ﭼﻼﺗﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﺟﻮﺍﺑﺎ ﻭﮦ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﺳﮯ ﮨﻨﺴﺎ۔
ﺍﺏ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔
ﻣﺠﮭﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﺗﻮ ﺧﯿﺮ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﺷﺎ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﮮ
ﻋﻼﻭﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔
ﻏﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺧﯿﺮﺕ ۔
ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺬﺍﻕ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮐﺘﻨﯽ ﭘﮩﯿﻠﯿﺎﻥ ﺑﻮﺟﮭﻮﮞ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺯﭺ ﺳﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﯿﮓ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ ﺳﺒﺎﻧﺠﯽ ﮐﯽ ﻋﻤﺎﺭﺕ ﮐﯽ ﺑﯿﺮﻭﻧﯽ ﺳﯿﮍﮬﯿﻮﮞ ﭘﮧ ﺭﮐﮭﺎ۔
ﻣﯿﮟ ﻣﺰﺭﺕ ﺧﻮﺍﮦ ﮨﻮﮞ ۔ ﺑﻌﺾ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺍﺗﻨﯽ ﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺭﺍﺯ ﺩﺍﺭﯼ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﮧ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﻏﻠﻂ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮧ ﻟﮓ ﺟﺎﺋﯿﮟ ۔ ﻭﯾﺴﮯ ﺍﯾﮏ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺗﮭﺎ ﺁﭖ ﻧﮯ ﮨﯽ ﺍﺗﻨﮯ ﺩﻥ ﻟﮕﺎ ﺩﯾﮯ۔
ﺧﯿﺮ ﺁﭖ ﮐﺎ ﭘﺰﻝ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺣﻞ ﮐﺮ ﮨﯽ ﻟﻮﮞ ﮔﺊ ﻣﮕﺮ ﮐﯿﺎ ﮔﺎﺭﻧﭩﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﺮﯾﻞ ﻓﻮﻝ ﮐﮧ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﮯ۔ ﻭﮦ ﻭﮨﯽ ﺳﯿﮍﮬﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺳﺘﻨﺒﻮﻝ ﮐﯽ ﺩﮬﻮﭖ ﺍﺭﺩﮔﺮﺩ ﺳﺒﺰﺍ ﺯﺍﺭ ﮐﻮ ﺳﻨﮩﺮﯼ ﭘﻦ ﻋﻄﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔
ﺍﺗﻨﺎ ﻏﯿﺮ ﺳﻨﺠﯿﺪﮦ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﻣﺠﮭﮯ ۔
ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﻭﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺧﻮﺍﺟﮧ ﺳﺮﺍﺑﻦ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻠﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺷﺮﻣﻨﺪﮔﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﮧ۔
ﺷﺮﻣﻨﺪﮔﯽ ﮐﯿﺴﯽ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺍﺟﮧ ﺳﺮﺍﺑﻦ ﮐﺮ ﺁﭖ ﺳﮯ ﻣﻼ ﮨﯽ ﺗﮭﺎ ﺧﻮﺍﺟﮧ ﺳﺮﺍﺑﻦ ﮐﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺤﻔﻞ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ ۔
ﻭﮦ ﺷﺎﯾﺪ ﺑﺮﺍﻣﺎﻥ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﻣﮕﺮ ﺧﻮﺍﺟﮧ ﺳﺮﺍ ﺑﻨﻨﺎ ﺑﺰﺭﺕ ﺧﻮﺩ ﺑﮩﺖ ﻋﺠﯿﺐ ﮨﮯ ۔
ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﺎ ﺧﻮﺍﺟﮧ ﺳﺮﺍ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ۔ ﮐﯿﺎ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺣﻠﯿﮧ ﺍﭘﻨﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﮩﯿﮟ ۔ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺳﺐ ﺑﻨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺑﺲ ﺍﺳﯽ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺁﭖ ﻣﻞ ﮔﯿﺌﮟ ۔
ﺁﭖ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺎﻡ ﺳﺮﺍ ﺑﻦ ﮐﺮ ﻧﮑﻮﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺩﻡ ﺑﺨﻮﺩ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ ۔ ﭘﮩﻠﯽ ﺩﻓﻌﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﻮﺍﻝ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﮭﺎ ۔
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺁﻓﺲ ﺍﺋﯿﮯ ﮔﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﯽ ﺗﻔﺼﯿﻞ ﺑﺘﺎﻭﻥ ﮔﺎ۔
ﺁﭖ ﮐﮯ ﺁﻓﺲ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺭﮨﯽ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺍﻣﺎﻧﺖ ﻭﮦ ﮐﯿﺴﮯ ﮈﮬﻮﻧﮉﻭ ﻣﯿﮟ ۔
ﺟﻮ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻏﻮﺭ ﮐﺮﯾﮟ ۔ ﻭﮦ ﮈﻭﻟﯽ ﮐﯽ ﺍﻣﺎﻧﺖ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﺳﯽ ﮐﻮ ﻣﻠﻨﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺻﻼﺣﯿﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﺧﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻗﺎﺑﻞ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﺳﮑﮯ۔ ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﺎﺻﻼﺣﯿﺖ ﮨﯿﮟ ۔
ﭨﺮﺍﺋﯽ ﻣﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﺘﺎ ﮐﺮ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻓﻮﻥ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ۔ ﺳﺒﺎﻧﺠﯽ ﮐﯽ ﺩﮬﻮﭖ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﺳﯿﮍﮬﯿﻮﮞ ﭘﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔
ﮐﻠﯿﻨﮏ ﮐﯽ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﭨﮭﻨﮉﯼ ﺳﯽ ﺧﻨﮑﯽ ﭼﮭﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻭﮦ ﮐﺎﻭﭺ ﭘﮧ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺳﯽ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺎﺭﯼ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﮨﺎﻟﮯ ﮐﮯ ﺗﻮﺳﻂ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮈﺭﻣﺎ ﭨﻮ ﻟﻮﺟﺴﭧ ﺳﮯ ﻭﻗﺖ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﺑﻈﺎﮨﺮ ﭨﮭﯿﮏ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﺷﺌﮯ ﮐﮯ ﺩﯾﮯ ﮔﺌﮯ ﻟﻮﺷﻦ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﮕﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﻟﮕﻨﮯ ﭘﮧ ﻭﮦ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﺫﺭﺍ ﺭﻭﮐﮭﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺮ ﮐﯽ ﺟﻠﺪ ﺟﻮ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﻮﺋﯽ ﻭﮦ ﺍﻟﮓ۔
ﺣﯿﺎ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﭘﺮﺱ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ۔ ﭨﺮﯾﺴﺮ ﻭﺍﻟﯽ ﮈﺑﯿﺎ ﮈﺭﻭﻡ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﺍﺳﺘﻨﺒﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﺗﺐ ﮨﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﺍﻟﯽ ﻧﺸﺴﺖ ﭘﮧ ﺍﯾﮏ ﺳﯿﺎﮦ ﻋﺒﺎﯾﺎ ﻭﺍﻟﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﺁ ﺑﯿﭩﮭﯽ ۔ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭼﻨﺪ ﮔﮩﺮﮮ ﺳﺎﻧﺲ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺗﻨﻔﺲ ﺑﺤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﭘﺮ ﭨﺸﻮ ﺳﮯ ﻧﻘﺎﺏ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﭼﮩﺮﮦ ﺗﮭﭙﺘﮭﭙﺎﻧﮯ ﻟﮕﯽ ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺳﮯ ﻟﮓ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﭘﯿﺪﻝ ﺁﺋﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺗﮭﮏ ﮔﺊ ﮨﮯ ۔
ﺣﯿﺎ ﻻﺷﻌﻮﺭﯼ ﻃﻮﺭ ﭘﮧ ﻧﮕﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﺯﺍﻭﯾﮧ ﻣﻮﮌ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﺁﺝ ﮐﻞ ﻭﮦ ﻋﺒﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺣﺠﺎﺏ ﻭﺍﻟﯽ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺳﺘﻨﺒﻮﻝ ﺍﯾﺴﯽ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺑﮩﺖ ﮐﻢ ﮨﯽ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺍﺳﮑﺎﺭﻑ ﺍﻭﺭ ﻻﻧﮓ ﺍﺳﮑﺮﭨﺲ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﻞ ﺟﺎﺗﯿﮟ ۔ ﺍﮐﺜﺮﯾﺖ ﺍﯾﺴﯽ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﺱ ﮐﮧ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﺎﻭﭺ ﭘﮧ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﺍﺳﮑﺮﭦ ﺑﻨﺎ ﺁﺳﺘﯿﻦ ﮐﮯ ﺑﻼﻭﺯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺏ ﺻﻮﺭﺕ ﺑﺎﻝ۔ ﻭﮦ ﭨﺎﻧﮓ ﭘﮧ ﭨﺎﻧﮓ ﺭﮐﮭﮯ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﮔﮭﭩﻨﮯ ﭘﮧ ﭘﮭﯿﻼ ﻣﮕﺰﯾﻦ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﮕﻦ ﺗﮭﯽ ۔ ﺍﺳﺘﻨﺒﻮﻝ ﮐﯽ
ﻋﻼﻣﺘﯽ ﻟﮍﮐﯽ ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺳﮑﺮﭦ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﻧﺎﺭﻧﺠﯽ ﺗﮭﺎ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺍﻥ ﺩﻭ ﮐﺮﺍﻭﻥ ﻓﺶ ﺟﯿﺴﺎ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﺎﻭﭼﺰ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺭﮐﮭﯽ ﻣﯿﺰ ﭘﮧ ﺳﺠﮯ ﺍﯾﮑﻮﺭﻡ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔ ﻧﮭﻨﯽ ﻧﮭﻨﯽ ﺳﯽ ﻧﺎﺭﻧﺠﯽ ﻣﭽﮭﻠﯿﺎﮞ ﺟﻦ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺟﻦ ﮐﯽ ﺳﺎﻧﺲ ﺍﻭﺭ ﺟﻦ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﺐ ﭘﺎﻧﯽ ﺗﮭﺎ۔
ﻋﺒﺎﯾﺎ ﻭﺍﻟﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﺍﺏ ﭘﺮﺱ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﮐﭽﮫ ﺗﻼﺵ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﺣﯿﺎ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﺍﺳﮯ ﯾﻮﮞ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﺮﺱ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭﻧﺞ ﺟﻮﺱ ﮐﯽ ﺑﻮﺗﻞ ﻧﮑﺎﻟﯿﺎﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮈﮬﮑﻦ ﺍﺗﺎﺭﺍ ﭘﺮ ﺯﺭﺍ ﺭﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﺎ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﮬﺎﺋﯽ۔
ﻧﻮ ﺗﮭﯿﻨﮏ ﯾﻮ ۔ ﻭﮦ ﺫﺭﺍ ﺳﻨﺒﮭﻞ ﮐﺮ ﺳﯿﺪﮬﯽ ﮨﻮﺋﯽ ۔ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﯽ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺑﻮﺗﻞ ﺍﺳﭩﺮﺍ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﻟﮕﯽ ۔ ﺳﯿﺎ ﻧﻘﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺮﻣﺌﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻟﮓ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔
ﺁﭖ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﯾﮧ ﻋﺒﺎﯾﺎ ﭘﮩﻨﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮫ ﮨﯽ ﺑﯿﭩﮭﯽ ۔
ﻧﻘﺎﺏ ﺗﻠﮯ ﺍﯾﮏ ﮔﮭﻮﻧﭧ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﺳﮯ ﺳﺮ ﮨﻼﯾﺎ۔
ﺁﭖ ﮐﻮ ﮔﭩﮭﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ۔
ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﺳﻮ ﮔﭩﮭﻦ ﮐﯿﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻟﮍﮐﯽ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﻮﺗﻞ ﮐﺎ ﮈﮬﮑﻦ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ۔ ﻣﮕﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻮ ﻧﻘﺎﺏ ﮐﺎ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﮨﯽ ﮔﭩﮭﻦ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ۔
ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺯﮨﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ۔
ﺁﭖ ﮐﮯ ﺫﮨﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺁﺗﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ ﻧﺎ۔ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺭﺥ ﻣﻮﮌﮮ ﻏﯿﺮ ﺍﺭﺍﺩﯼ ﻃﻮﺭ ﭘﮧ ﺑﺤﺚ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﮐﯿﺎ ﺑﮩﺖ ﭘﮍﮬﮯ ﻟﮑﮭﮯ ﻣﺎﮈﺭﻥ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮐﻤﺘﺮﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺍﯾﮏ ﻧﮕﺎﮦ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮑﻮﺭﻡ ﮐﮯ ﭘﺎﺭ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﺗﺮﮎ ﻟﮍﮐﯽ ﭘﮧ ﮈﺍﻟﯽ ﺟﻮ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﻣﮕﺰﯾﻦ ﻣﯿﮟ ﮔﻢ ﺗﮭﯽ۔
ﺑﮩﺖ ﻣﺎﮈﺭﻥ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﺗﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻣﺎﮈﺭﻥ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮨﮯ۔ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮐﻤﺘﺮﯼ ﺗﻮ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺟﻮ ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﮐﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺗﺒﺮﺝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔
ﺗﺒﺮﺝ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﮨﻮ۔
ﺍﺳﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﺗﮭﺎ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻧﻔﯽ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﺩﻥ ﮨﻼﺋﯽ۔
ﺗﺒﺮﺝ ۔۔۔۔۔ﺍﻭﮞ۔۔۔۔۔ﮐﯽﺳﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎﻭﮞ ؟ﺍﺱ ﻟﮍﮐﯽ ﻧﮯ ﻟﻤﺤﮯ ﺑﮭﺮ ﮐﻮ ﺳﻮﭼﺎ ۔ﺗﻢ ﻧﮯ ﺩﺑﺌﯽ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺍﻭﻧﭽﮯ ﺍﻭﻧﭽﮯ ﭨﺎﻭﺭﺯ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ۔ﺑﺮﺝ ﺍﻟﻌﺮﺏ ،ﺑﺮﺝ ﺍﻟﺨﻠﯿﻔﮧ؟
ﮨﺎﮞ ﺗﺼﺎﻭﯾﺮ ﻣﯿﮟ ۔
ﺑﺲ ﺍﺳﯽ ﺑﺮﺝ ﺳﮯ ﺗﺒﺮﺝ ﻧﮑﻼ ﮨﮯ۔ﮐﺴﯽ ﺷﮯ ﮐﻮ ﺍﺗﻨﺎ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺑﻨﺎﻧﺎ ﮐﮧ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﻧﻈﺮ ﺁ ﺋﮯ۔ﻭﮦ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﭘﮩﻠﮯ ﯾﻮﺳﻒ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﻣﺼﺮ ﮐﯽ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﺟﻮ ﺗﺒﺮﺝ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ﻭﮦ ﺍﺑﻮ ﺟﮩﻞ ﮐﮯ ﻋﺮﺏ ﮐﯽ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﺯﯾﺐ ﻭ ﺯﯾﻨﺖ ﮐﺮ ﮐﮧ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﮧ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔ﺍﮔﺮ ﺍﺳﺘﻨﺒﻮﻝ ﮐﯽ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺍﻥ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﮐﺮ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﯿﺮﻭﯼ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﺎﮈﺭﻥ ﺗﻮ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯿﮟ۔ﻣﺎﮈﺭﻥ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺗﻢ ﮨﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﯿﺴﯽ ﺷﺮﻣﻨﺪﮔﯽ ۔ﺍﺱ ﻧﮯ ﺭﺳﺎﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﻨﺪﮬﮯ ﺍﭼﮑﺎﺋﮯ۔
ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﯾﮧ ﺍﻋﺘﻤﺎﺩ ﻭﮦ ﺩﻡ ﺑﺨﻮﺩ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ ۔ ( ﺗﺮﮐﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﺛﺮ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﺗﮭﯽ ) ۔
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﻘﺎﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮩﻦ ﺳﮑﺘﯿﮟ؟۔ﻭﮦ ﺍﺏ ﭨﯿﺸﻮ ﺳﮯ ﻣﺎﺗﮭﮯ ﭘﮧ ﺁﺋﮯ ﭘﺴﯿﻨﮯ ﮐﮧ ﻗﻄﺮﮮ ﺗﮭﭙﺘﮭﭙﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔
ﺷﺎﯾﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﺳﭧ ﮐﺰﻧﺰ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﻘﺎﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﺘﺎ۔ﺍﺱ ﺷﮩﻼ ﯾﺎﺩ ﺗﮭﯽ ﭘﺮ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﯿﮑﻨﮉ ﮐﺰﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺗﮭﯽ۔
ﺗﻢ ﯾﮧ ﺭﻭﺍﺝ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﺑﻦ ﺟﺎﻭ۔
ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ۔؟ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﯽ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺷﺎﻧﮯ ﺍﭼﮑﺎ ﺋﮯ۔
ﺟﻮ ﻏﺎﺭ ﺛﻮﺭ ﮐﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﺳﻮﺭﺍﺥ ﭘﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﭘﺎﻭﮞ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺭﯼ ﺭﺍﺕ ﺳﺎﻧﭗ ﺳﮯ ﮈﺳﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺍﻑ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺕ ﮐﯽ ﻧﯿﮑﯿﺎﮞ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ
ﺧﻄﺎﺏ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮭﺮﮐﯽ ﻧﯿﮑﯿﻮﻥ ﮐﮧ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﮨﺮ ﺷﺨﺺ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻦ ﺳﮑﺘﺎ۔ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﭘﮩﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ۔
ﺍﺩ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﯼ ﭘﮑﺎﺭﯼ ﮔﺊ ﺗﻮﻭﮦ ﭼﻮﻧﮑﯽ۔ ﭘﺮ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﭨﮫ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﺋﯽ ۔ ﺍﺳﮯ ﺍﺏ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﯽ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﻨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺫﮨﯿﻦ ﺻﺎﻑ ﺗﮭﺎﺍﻥ ﮐﺮﺍﻭﻥ ﻓﺶ ﮐﮯ ﻧﺎﺭﻧﺠﯽ ﭘﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺷﻔﺎﻑ ﺍﻭﺭ ﺻﺎﻑ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﻭﮦ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﭗ ﺳﮑﺘﯽ۔ ﺍﺱ ﺗﺼﻮﺭ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﻡ ﮔﭩﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺍﯾﮑﻮﺭﻡ ﮐﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﻠﺒﻠﮯ ﺑﻦ ﺍﻭﺭ ﻣﭧ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﭽﮭﻠﯿﺎﮞ ﺗﮭﮑﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﭘﭽﮭﻠﮯ ﺩﺋﺮﮮ ﺩﻭﮌ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔ ﺩﺋﺮﮦ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺁﻏﺎﺯ ﺍﻭﺭ ﺍﺧﺘﺘﺎﻡ ﮐﯽ ﺗﻔﺮﯾﻖ ﻣﭧ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ۔
ﺍﺳﺘﻘﻼﻝ ﺟﺪﯾﺴﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﭼﮩﻞ ﭘﮩﻞ ﺗﮭﯽ ۔ ﭨﮭﻨﮉﯼ ﺳﯽ ﺩﮬﻮﭖ ﮔﻠﯽ ﮐﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﻃﺮﺍﻑ ﻣﯿﮟ ﺍﭨﮭﯽ ﻗﺪﯾﻢ ﻋﻤﺎﺭﺗﻮﮞ ﭘﮧ ﮔﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮔﻮﯾﺎ ﺳﻨﮩﺮﯼ ﺑﺮﻑ ﮨﻮ۔
ﻭﮦ ﺟﮩﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﺘﯽ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮪ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﺗﻔﺎﻕ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﯿﺎﮦ ﺍﺳﮑﺎﺭﻑ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺎﮦ ﺍﺳﮑﺮﭦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮔﺮﮮ ﺑﻼﻭﺯ ﭘﮩﻦ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﻥ ﻧﮯ ﺳﯿﺎﮦ ﺟﯿﻨﺰ ﭘﮧ ﮔﺮﮮ ﺁﺩﮬﯽ ﺁﺳﺘﯿﻦ ﻭﺍﻟﯽ ﭨﯽ ﺷﺮﭦ ۔ ﺁﺝ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺍﺩﮬﺮ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺳﺘﻘﻼﻝ ﺍﺳﭩﺮﯾﭧ ﮐﻮ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﮯ ۔ ﺍﺳﮯ ﺍﺱ ﮔﻠﯽ ﮐﺎ ﺍﻧﺖ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﭼﻠﺘﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ۔
ﮐﭽﮫ ﭘﯿﻮﮔﯽ ﺟﮩﺎﻥ ﻧﮯ ﺭﮎ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﭘﮭﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﯿﮯ ﺑﻨﺎ ﺍﯾﮏ ﮐﯿﻔﮯ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ۔ ﺟﺐ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﺍﺳﭙﻮﺯﯾﺒﻞ ﮔﻼﺱ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﻐﻞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﻝ ﺷﺪﮦ ﺍﺧﺒﺎﺭ ۔
ﺷﮑﺮﯾﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮔﻼﺱ ﺗﮭﺎﻣﺎ۔ ﺟﮭﺎﮒ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﺍ ﭘﯿﻨﺎ ﮐﻮﻻﮈﺍ ﻧﺎﺭﯾﻞ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﻨﺎﺱ ﮐﯽ ﺭﺳﯿﻠﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﻗﺴﻢ ﺍﺳﮑﻮﺍﺋﺮ ﺳﮯ ﺍﭨﮭﺘﯽ ﭨﯿﻮﻟﭙﺲ ﮐﯽ ﻣﮩﮏ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﻧﺲ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﮭﻨﭽﯽ ۔ ﺟﮩﺎﻥ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻨﺒﻮﻝ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺗﮭﺎ۔
ﮨﻮﮞ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﮯ ۔ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﺗﺒﺼﺮﮦ ﮐﺮﺗﺎ ﮔﮭﻮﻧﭧ ﺑﮭﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺣﯿﺎ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮔﻼﺱ ﭘﮑﺮﮮ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻭﮦ ﭘﻼﭨﯿﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮩﻦ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﯾﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﻨﮕﻨﯽ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭘﮩﻠﯽ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﯽ ﺍﻧﺎ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﺍﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﺳﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺱ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﯿﺮﻧﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺗﻢ ﺍﺱ ﺭﻭﺯ ﺩﻭ ﺩﻓﻌﮧ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺑﯿﮏ ﺩﻭﮌ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮐﯿﻮﮞ ﭘﮍ ﮔﺌﯽ ۔ ﻭﮦ ﺳﺮﺳﺮﯼ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﭼﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﯾﻘﯿﻨﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻭﺭﮐﺮ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﺭﭘﻮﺭﭨﺪﯼ ﮨﻮ ﮔﯽ ﻣﮕﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺗﯿﺎﺭ ﺗﮭﺎ ۔ ﻋﺎﺋﺸﮯ ﮔﻞ ﻧﮯ ﺑﮯ ﺷﮏ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺳﭻ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻋﺎﺋﺸﮯ ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔
ﮐﻮﺋﯽ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﻧﻈﺮ ﺁﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮨﺎﻟﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﮐﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﺷﭩﻞ ﮐﮯ ﺁﻧﮯ ﺗﮏ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﺗﻮ ﮐﺮﻧﺎ ﺗﮭﺎﻧﺎ۔
ﺍﮔﺮ ﭘﭽﮭﻠﯽ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﻣﻠﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﺳﺘﻘﻼﻝ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﺗﻮ ﺑﮯ ﺷﮏ ﺑﺮﮔﺮ ﮐﻨﮓ ﮐﮧ ﺍﺳﯽ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﻮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﻟﯿﻨﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﭽﮭﻠﯽ ﻃﺮﻑ ﮔﮭﻨﭩﯽ ﻟﮕﯽ ﮨﮯ ۔ ﮔﻼﺱ ﺧﺎﻟﯽ ﮐﺮ ﮐﮧ ﺟﮩﺎﻥ ﻧﮯ ﮐﭽﺮﮮ ﺩﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﭼﮭﺎﻝ ﺩﯾﺎ ۔ ﺣﯿﺎ ﮐﺎ ﺍﺑﮭﯽ ﺁﺩﮬﺎ ﮔﻼﺱ ﺑﺎﻗﯽ ﺗﮭﺎ۔
ﺗﻢ ﺳﻨﺎﻭ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻟﻨﺪﻥ ﮐﺐ ﺟﺎﻧﺎﮨﮯ ۔ ﻭﮦ ﮐﺎﻓﯽ ﺑﻠﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﻗﺮﯾﺐ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﺗﮯ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﺳﺮﺥ ﭨﺮﺍﻡ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺍﺭ ﺳﯿﺎﺣﻮﮞ ﮐﺎ ﮔﺮﻭﮦ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺳﯿﭩﯿﺎﻥ ﺑﺠﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﮐﺎﻥ ﭘﮍﯼ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻨﺎﺋﯽ ﻧﮧ ﺩﯾﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﺍﮔﻠﮯ ﻣﺎﮦ ﮐﺎ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺗﺐ ﺗﮏ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮ ﮔﯽ۔ ﺑﺎﻗﯽ ﺍﮐﺴﭽﻨﯿﺞ ﺳﭩﻮﮈﻧﭩﺲ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ۔
ﮐﭽﮫ ﺗﺮﮐﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﮔﮭﻮﻣﮯ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﻗﻄﺮ ﭘﯿﺮﺱ ﺩﺑﺊ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺟﺎﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ۔
ﺗﻮ ﺗﻢ ﮨﻤﺎﺭﺑﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﻨﺪﻥ ﭼﻠﻮﻧﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﺟﻮﻻﺋﯽ ﻣﯿﮟ
ﻭﺍﭘﺲ ﺁﮐﺮ ﮐﻠﺌﺮﻧﺲ ﮐﺮﻭﺍﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﭘﺲ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﻧﺎ۔
ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﯿﻮﮎ ﺍﺩﺍ ﺭﮨﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﻮﮞ ۔ ﮔﻮﮐﮧ ﺟﮩﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﻨﺪﻥ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﺎﻓﯽ ﭘﺮﮐﺸﺶ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍ ﮨﺎﻣﯽ ﺑﮭﺮﻧﺎ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮭﺎ۔ ﺍﻭﮦ ﮈﺍﻧﭧ ﭨﯿﻞ ﻣﯽ ﮐﮯ ﺗﻢ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﻭﮨﯽ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻟﮑﮫ ﺭﮨﯽ ﮨﻮ۔
ﺟﮩﺎﻥ ﻧﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﮨﻼ ﮐﺮ ﮔﻮﯾﺎ ﻧﺎﮎ ﺳﮯ ﻣﮑﮭﯽ ﺁﺭﺍﺋﯽ ۔ ﺣﯿﺎ ﻧﮯ ﮔﺮﺩﺍﻥ ﭘﮭﯿﺮ ﮐﺮﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ ﮨﺎﻟﮯ ﮐﯽ ﺩﻭﺳﺖ ﭼﮭﺎﭘﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﺗﮭﯽ ﻣﮕﺮ ﺟﮩﺎﻥ ﮐﮯ ﻣﻨﻊ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﮩﺎﺱ ﻧﮯ ﻭﮦ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ۔ ﺁﺝ ﺻﺒﺢ ﮨﯽ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻮﺍﺳﮯ ﻟﮕﺎ ﺍﺳﮯ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﺴﯽ ﺑﺎﺍﻋﺘﻤﺎﺩ ﺷﺨﺺ ﺳﮯ ﺷﺌﺮ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﯿﺮ ﺍﺣﻤﺪ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﮐﺴﯽ ﭘﮧ ﺍﻋﺘﻤﺎﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﺗﺐ ﮐﯽ ﺻﺒﺢ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﯿﺮ ﺍﺣﻤﺪ ﮐﻮ ﭨﯿﮑﺴﭧ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺫﮨﯿﻦ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ۔
ﮔﮉ ﮔﺮﻝ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺍﺱ ﮐﮧ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﻘﺎﺑﻞ ﺁﮐﮭﺮﺍ ﮨﻮﺍ ﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺣﯿﺎ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﺎ ﻣﻨﻈﺮ ﭼﮭﭗ ﮔﯿﺎ۔ ﻭﮦ ﻧﺎ ﺳﻤﺠﮭﯽ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔
ﺑﻌﺾ ﺩﻓﻌﮧ ﺟﻮ ﮨﻢ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﮨﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﮨﻢ ﺩﯾﮑﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ۔
ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺭﻭﻝ ﺷﺪﮦ ﺍﺧﺒﺎﺭ ﮐﮭﻮﻻ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺳﮯ ﻟﭙﯿﭩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﮐﻮﻥ ﺁﺋﺲ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﯽ ﺳﻨﮩﺮﯼ ﮐﻮﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺧﺒﺎﺭ ﮐﻮ ﺭﻭﻝ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺣﯿﺎ ﮐﺎ ﮔﻼﺱ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﮍﮬﯿﺎ ۔ ﺣﯿﺎ ﻧﮯ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﯽ ﺳﮯ ﮔﻼﺱ ﺍﺳﮯ ﭘﮑﺮﯾﺎ ۔
ﺍﯾﮏ ﭼﯿﺰ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﻧﻈﺮ ﮐﺎ ﺩﮬﻮﮐﺎ ﻟﻮﮒ ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺟﻮ ﻭﮦ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﻭﮦ ﭼﮭﭙﺎ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮔﻼﺱ ﮐﻮﻥ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮉﯾﻞ ﺩﯾﺎ۔ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺩﮬﺎﺭ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺍﺧﺒﺎﺭ ﮐﯽ ﮐﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ۔ ﺟﮩﺎﻥ ﻧﮯ ﺧﺎﻟﯽ ﮔﻼﺱ ﺣﯿﺎ ﮐﻮ ﺗﮭﻤﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺧﺒﺎﺭ ﮐﯽ ﮐﻮﻥ ﮐﻮ ﻣﺰﯾﺪ ﻟﭙﯿﭩﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻨﮧ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺨﺎﻟﻒ ﺳﻤﺖ ﺳﮯ ﺍﺧﺒﺎﺭ ﮐﮭﻮﻟﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﮭﻠﺘﯽ ﮔﺌﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﺭﺍ ﺍﺧﺒﺎﺭ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﮐﮭﻞ ﮐﺮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﮔﯿﺎ ۔
ﺻﻔﺤﮯ ﺳﻮﮐﮭﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺱ ﻏﺎﺋﺐ ۔
ﺯﺑﺮﺩﺳﺖ ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﺎﻟﯽ ﺑﺠﺎﻧﮯ ﻟﮕﯽ ۔ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﯾﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﭨﺮﮎ ﺗﮭﯽ ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﯾﻘﯿﻨﺎ ﮐﻤﺎﻝ ﻣﮩﺎﺭﺕ ﺳﮯ ﺟﻮﺱ ﮐﮩﯿﮟ ﺁﺱ ﭘﺎﺱ ﮔﺮﺍ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﭘﮭﺮ ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺑﮩﺮﺣﺎﻝ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮐﻦ ﺗﮭﺎ ۔
ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﺟﮩﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﺧﺒﺎﺭ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺭﻭﯾﮧ ﺗﮩﮧ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﭘﮑﮍ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ۔
ﺩﻓﻌﺘﺎ ﺣﯿﺎ ﮐﺎ ﻓﻮﻥ ﺑﺠﺎ ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﺮﺱ ﺳﮯ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ۔ ﻣﺠﯿﺮ ﺍﺣﻤﺪ ﮐﯽ ﮐﺎﻝ ﺁﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﺎﻝ ﮐﺎﭦ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ ۔ ﺟﮩﺎﻥ ﺍﺗﻨﺎ ﻣﮩﺰﺏ ﺗﻮ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﻮﺍﻝ ﻧﮧ ﮐﺮﺗﺎ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﺑﺘﺎﻧﮧ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﻣﺠﯿﺮ ﺍﺣﻤﺪ ﮐﯽ ﮐﺎﻝ ﺗﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﮐﺎﻡ ﺗﮭﺎ ﺍﻥ ﺳﮯ ۔ ﻭﮦ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﺮﺳﺮﯼ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻟﯽ ۔ ﯾﮧ ﺳﺮﺳﺮﺍ ﺟﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﮩﺎﻥ ﮐﮯ ﻣﻮﮈ ﮐﺎ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺍﺱ ﭘﮧ ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﻣﯿﺠﺮ ﺍﺣﻤﺪ ﮐﻮﻥ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻧﺎ ﺳﻤﺠﮭﯽ ﺳﮯ ﺣﯿﺎ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺳﺎﺋﺒﺮ ﮐﺮﺍﯾﻢ ﺳﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﭩﯿﻠﯽ ﺟﻨﺲ ﺁﻓﯿﺴﺮ ﮨﯿﮟ ۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﺑﺎ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﻭﮦ ﺯﺭﺍﺭﮐﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻭﮞ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﺮﺍ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﮯ ﮔﺎﻧﺎ۔
ﺁﻑ ﮐﻮﺭﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺷﺎﻧﮯ ﺍﭼﮑﺎ ﺩﯾﮯ۔ ﮐﻮﻥ ﮐﯿﺘﺎ ﻗﺎﺑﻞ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﮨﮯ ﯾﮧ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺗﻢ ﺟﻮﺩ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﻮ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺗﻮ ﺳﺐ ﺍﯾﮏ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔
ﺍﺗﻨﯽ ﺑﮯ ﭼﯿﻨﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ۔
ﺭﺋﻠﯽ ﺟﯿﺴﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺟﻮﺱ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﺮﺍ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ۔ ﻭﮦ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻞ ﺁﮐﮭﺮﺍ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﮔﻼﺱ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﺟﻮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﭘﮑﮍﮮ ﮐﮭﮍﯼ ﺗﮭﯽ۔
ﯾﻘﯿﻨﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮔﻼﺱ ﺟﮩﺎﻥ ﮐﻮ ﺗﮭﻤﺎﯾﺎ ۔ ﺗﺐ ﺗﮏ ﻭﮦ ﺩﻭﺑﺎﺭ ﺍﺧﺒﺎﺭ ﮐﻮ ﮐﻮﻥ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﻟﭙﯿﭧ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮔﻼﺱ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺧﺒﺎﺭ ﮐﯽ ﮐﻮﻥ ﮐﺎ ﮐﮭﻼ ﻣﻨﮧ ﮔﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﭩﺎ ۔ ﭘﯿﻨﺎ ﮐﻮﻻﮈﺍ ﺍﯾﮏ ﺩﮬﺎﺭ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ .....
ﺟﺎﺭﯼ ﻫﮯ

No comments: