ناول جنت کے پتے قسط 26
جنت کے پتے
از
نمرہ احمد
ناول؛ جنت کے پتے
قسط 26
رگڑیں اور باہر نکل آئیں..
ایک فیصلہ تھا جو اس نے نیلی مسجد کو گواہ بنا کر کیا تھا.اب اس فیصلے کو نبھانا تھا..
پھپھو اور ابا لاؤنج میں بیٹھے بیتے دنوں کی باتیں کر رہے تھے.پھپھو بہت خوش تھیں. بار بار نم آنکھیں پونچھتیں. وہ کچن میں چائے بنا رہی تھی. جہان کیک ٹرے میں سیٹ کر رہا تھا.آج اس نے کون سا اعتراف کیا ہے. وہ سب یوں ظاہر کر رہے تھے. گویا انہیں یاد ہی نہ ہو ..
"تمھاری پڑھائ کا حرج تو بہت ہو گیا ہوگا.? اتنے دن لگا دیئے ادالار میں'ڈورم آفیسر نے طلبی کی ہوگی.?
وہ کیک پر کچھ چھڑکتے ہوئے پوچھ رہا تھا.
نہیں ڈورم میں حاضری مارکنگ کا کوئ نظام نہیں ہے.ہاں حرج تو ہوا ہے پانچ دن اسپرنگ بریک میں شامل ہو گئے تھے. اوپر کے چھ دن غیر حاضری لگی تھی. اب مزید ایک چھٹی کی گنجائش ہوگی میرے پاس... وہ کیتلی میں چائے انڈیلتے ہوئے بولی.. دونوں ایک دوسرے کو نہیں دیکھ رہے تھے.
ایگزامز کب ہیں.?
مئ کے آخر سے جون کے پہلے ہفتے تک..
اور پاکستان تم نے پانچ جولائ کو جانا ہے نا.?
اور یہ آخری مہینہ تو شاید ترکی گھومنے کے لیے ہے..
ہاں مگر ایکسچینج سٹوڈنٹس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ قریبی ممالک بھی دیکھ لیں. کوئ قطر جا رہا ہے تو کوئ پیرس.. وہ ٹرے اٹھا کر جانے کے لیے مڑی..
"ہم لندن چلیں.?
حیا نے پلٹ کر حیرت سے دیکھا.وہ اوون سے اسنیکس کی پلیٹ نکالتے ہوئے مسکرایا تھا..
ہم لندن جا رہے ہیں کچھ عرصہ تک ابا کے علاج کے لیے تم بھی ساتھ چلو..
آئیڈیا اچھا ہے.. سوچوں گی.. وہ مسکراتے ہوئے باہر نکل گئ..
میری بہت خواہش تھی بھائ کہ یہ سب پاکستان میں رشتےداروں کے سامنے ہو. لیکن شاید ایسا جلد ممکن نہ ہو ہم دونوں تو یہاں اس لیے ابھی غیر رسمی انداز میں رسم کر لیتے..
پھپھو شاید ابا سے بات کر چکی تھیں.تبھی مسکرا رہی تھیں. وہ کارپٹ پر گھٹنوں کے بل بیٹھی ٹرے سے پیالیاں نکال کر رکھ رہی تھی. ناسمجھی سے انہیں دیکھنے لگی..
پھپھو مسکراتے ہوئے اٹھیں اور سلور کلر کی ٹرے لے آئیں.جس میں سرخ فیتہ رکھا نظر آرہا تھا.حیا نے ناسمجھی سے ٹرے کو اور پھر ٹرالی گھسیٹ کر لاتے جہان کو دیکھا.
اس نے بھی سوالیہ نگاہوں سے پھپھو کو دیکھا..
جہان سکندر آپ کو اعتراض تو نہیں..?
پھپھو نے مسکراتے ہوئے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے متنبہ کیا.وہ شاید راضی نہیں تھا.
مگر "نہیں" کہ کر ٹرالی آگے لے آیا.حیا میز پر ہی ٹرے چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئ..
اسے نظر آیا سرخ فیتے کے دونوں طرف ایک ایک انگھوٹھی بندھی تھی.
شادی کا وقت تو ظاہر ہے ہم بعد میں ڈیسائیڈ کریں گے. مگر ہر ماں کی طرح میری بھی خواہش ہے کہ میں اپنی بہو کو انگھوٹھی پہناؤں. فاطمہ بھی ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا.وہ دونوں انگھوٹھیوں کو پکڑے ان کی طرف آئیں..
ان کے ہاتھ بڑھانے پر حیا نے خواب کی سی کیفیت میں اپنا ہاتھ آگے بڑھایا..
انہوں نے مسکراتے ہوئے اس میں انگھوٹھی ڈالی. وہ ایک سادہ'پلیٹینیم بینڈ تھا.سرخ ربن کے دوسرے سرے سے بندھا بینڈ جہان کی انگلی میں ڈالا.اور چھوٹی قینچی اٹھا کر ربن درمیان سے کاٹا.دونوں کی انگھوٹھیوں
سے بندھا ربن ان کے ساتھ جھولتا رہ گیا.
ترکی میں منگنی شاید ایسے ہوتی تھی..
حیا نے سن ہوتے دماغ کے ساتھ سر اٹھایا..
جہان پھپھو کو دیکھتے ہوئے مسکرا رہا تھا.وہ اس کی پیشانی کو چوم کر دعا دے رہی تھیں. ابا بھی اٹھ کر گلے سے لگائے دعا دے رہے تھے.وہ سب کتنا حسین تھا. کسی خواب کی طرح..
تم کیوں چپ بیٹھے ہو برخودار.? ابا جہان سے پوچھ رہے تھے..
میں سوچ رہا ہوں میں وہ پہلا آدمی ہوں جس کی منگنی شادی کے بعد ہو رہی..
وہ ہنس کر بولا.. وہ نچلا لب چبا کر کچن میں چلی گئ..
شام میں دیر سے جہان ابا کو چھوڑنے گیا. پھپھو اپنا کام نبٹانے لگی. وہ لاؤنج میں آکر بیٹھ گئ. وہ مسکراتے ہوئے اپنی انگھوٹھی گھما رہی تھی جب فون کی گھنٹی بجی..
ہیلو اس نے فون اٹھایا وہ نسوانی آواز تھی.
کیا میں مسٹر جہان سکندر سے بات کر سکتی ہوں.?
نہیں وہ باہر گئے ہیں. آپ پیغام چھوڑ دیں.
وہ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد بولی..
آپ انہیں کہیے گا کہ انہوں نے جو پارسل بھجوایا تھا وہ کھو گیا ہے. میں اسے رات میں کال کروں گی..
اس کے ساتھ ہی فون رکھ دیا.
حیا نے ایک نظر فون کو دیکھا اور کریڈل واپس رکھ دیا..
جہان جب واپس آیا وہ بیٹھی تھی جبکہ پھپھو سونے جا چکی تھیں. حیا کا ارادہ تھا کہ وہ لندن ٹرپ کا پلین ڈسکس کرے گی. مگر پہلے اس کا پیغام..
ماموں صبح ہوٹل سے واپس چلے جائیں گے. ہمیں آنے سے منع کر دیا ایسا کرو دو کپ کافی بناؤ اور لے آؤ ساتھ مووی دیکھتے ہیں..
اوکے لاتی ہوں. اوہ ہاں تمہارا فون آیا تھا کوئ لڑکی تھی کہ رہی تھی کہ اسے تمہارا بھیجا پارسل نہیں ملا.اور رات کو کال کرے گی..
وہ تیزی سے واپس مڑا..
میرا پارسل نہیں ملا اور کیا کہا.? وہ بے یقینی سے دیکھ رہا تھا
کچھ نہیں.!
کافی لاؤں..?
نہیں رہنے دو.. وہ پریشان سا فون کی طرف آیا اور سی ایل آئ چیک کرنے لگا..اور پھر اسے دیکھتے بولا تمہیں صبح کیمپس بھی جانا ہے ایسا کرو سو جاؤ. میں تھوڑا کام کروں گا.
رنگین بلبلہ پھٹ گیا تھا.
سارا موڈ غارت.. سارا پلان ختم..
وہ اچھا کہہ کر کمرے میں چلی آئ..
دروازے کی ہلکی سی درز کھلی رہنے دی..جب تک سو نہیں گئ جہان اسے مضطرب سا بیٹھا نظر آتا رہا تھا.....
وہ صبحفجر پہ اٹھی تو دیکھا'جہان اسی طرح صوفے پہ بیٹھا 'فون کو دیکھ رہا تھا۔اس کی آنکھیں رت جگے سے سرخ ہو رہی تھیں۔اس لڑکی کا فون نہیں آیا شاید۔انتظار لا حاصل۔اس کے دل پہ بہت سا بوجھ آن پڑا تھا۔
کلاس میں وہ سر سے دوپٹا اتار کر گئی تھی اور بلکل پیچھے بیٹھی رہی۔باہر نکلتے ہی اس نے دوپٹا پھر ٹھیک سے سر پہ لے لیا۔کامن روم میں واپس آئی تومتعصم مل گیا۔
”حیا۔۔۔۔۔کی آحال ہے؟“حسین اور متعصم اس کے لیے کھڑے ہو گئےتھے۔ڈی جے کی سکھائی گئی اردو۔وہ اداس مسکراہٹ کے ساتھ ان کے پاس آئی۔
”میں ٹھیک ٹھاک ہوں اور آپ کی خیریت ٹھیک چاہتی ہوں۔مجھے تمہیں کچھ دکھانا تھا۔“آخری فقرہ اس نے انگریزی میں ادا کیا۔
”پزل باکس؟وہ کھلا؟“
”نہیں'مگر اس پہ لکھی پہیلی مل گئی ہے۔ٹھہرو میں لے آٶں۔“وہ الٹے قدموں واپس پلٹ گئی۔
کمرے میں آ کر اس نے بیگ کھولا'کپڑے'جوتے'سوئیٹرز'پرس'ہر چیزالٹ پلٹکی'مگر پزل باکس وہاں نہیں تھا۔
”کدھر گیا؟یہیں تو تھا۔آخری دفعہ کہاں رکھا تھا اس نے؟“وہ سوچنے لگی۔”ہاں'اسٹڈی میں'جب وہ جہان کے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔”اوہ'خدا نہ کرے وہ پاشا کے ہاتھ لگے۔“
اس نے جلدی سےموبائل اٹھایا اور اس کی ٹوٹی اسکرین کو دیکھتے ہوۓ عائشے کا نمبر ملانے لگی۔
سفید محل کے عقبی باغیچے میں سہ پہر اتری تھی۔
عائشے اسٹول پہ بیٹھی'ورگ ٹیبل پہ لکڑی کا ٹکڑا رکھے'نوکدار چھرے سے اس کو چھید رہی تھی۔اس کی آنکھیں مکمل اپنے کام پہ مرکوز تھیں۔
”عائشے!حیا کی کال!“بہارے اس کا موبائل پکڑے بھاگتی ہوئی باہر آئی تھی۔عائشہ نے ہاتھ روک کر اسے دیکھا'اور پھر موبائل تھام لیا۔”سلام علیکم حیا۔“اب وہ فون کان سے لگائے ازلی خوش دلی سے رسمی باتیں کر رہی تھی۔بہارے ساتھہی کھڑی ہو گئی اور ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ باتیں سننے لگی۔
”پزل باکس؟“عائشے کی مسکراہٹ ذرا سمٹی'بھویں الجھن سے سکڑیں۔”تمہارا والا کدھر رکھا تھا؟“
بہارے نے چونک کر دیکھا۔اس کا دل اس لمحے زور سے دھڑکاتھا۔
”میں نے کل ہی پوری اسٹڈی کی صفائی اپنے سامنےکروائی ہے۔اگر ہوتا تو مل جاتا۔ہو سکتا ہے کہ تم ساتھ لے گئی ہو؟اچھا تم فکر نہ کرو۔میں دوبارہ دیکھ کر کرتی ہوں۔“اس نے موبائل بند کر کے میز پہ رکھا۔
”بہارے!تم نے حیاکا پزل باکس تو نہیں ویکھا؟“
”نہیں!“بہارے نے ہولے سو نفی میں سر ہلایا۔
”چلو پھر یوں کرتے ہیں مل کر تلاش کرتےہیں
مہمان کی چیز میزبان کے گھر میں کبھی کھونی نہیں چاہیۓ۔بہت شرمندگیکی بات ہوتی ہے۔“
وہ چیزیں سمیٹتے ہوئےاٹھ گئی۔بہارےسرجھکاۓاپنی بڑی بہن کے پیچھے چل دی۔اس کے ذہن کے پردے پہ صرف ایک آواز گونج رہی تھی۔
”یہ باکس میرے پاس ہے۔یہ بات میرے اور تمہارے درمیان راز رہے گی۔تم حیا یا عائشے کو نہیں بتاٶگی اس بارےمیں ٹھیک ہے؟“
”ٹھیک عبدالحمٰن!“اس نےبےدلی سےزیرلب دہرایا۔
اس روز جب عائشےنےاسے ایس ایم ایس کیا تب وہ ہالے کے ساتھ جمعہ کی نماز پہ ایوب سلطان جامعه
آئی ہوئی تھی۔
نماز جمعہ پہ جامعہ میں خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔
ترک رسم کے مطابق کم سن بچےجمعہ کی نماز پڑھنے سلطان کے مخصوص لباس میں آۓ۔سنہری پگڑی'سنہرا اور سفید زرتار لباس'میان میں تلوار'کامدارجوتےپہنے وہ ننھے سلاطین اپنی ماٶں کی انگلیاں تھامے ہر جگہ پھر رہے ہوتے۔
انصاری محلے میں ہالے کے ساتھ چلتے ہوۓ اسے بےاختیار اپنا اور ڈی جے کا ترکی میں پہلا دن یاد آ یا تھا۔وہ دن جو بہت طویل تھا۔اب ان ساڑھےتین ماہ میں کتنا کچھ بدل چکا تھا۔
انصاری محلےمیں استنبول کے بہترین اور سستے اسکارف ملا کرتے تھے۔وہ اب سر ڈھکے بغیر باہرنہیں نکلتی تھی'مگر اس کے سارے دوپٹے شیفون کے یا ریشمی ہوتے'جو سر پہ نہیں ٹکتے تھے۔اب وہ یہاں ایسے اسکارف لینے آئی تھی'جو سادہ اور ایک رنگ کے ہوں نہ کہ ایسے شوخ اور کام دار کہ ہر کسی کی توجہ گھیریں۔اسے اب کسی اور کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرنا تھا۔جہان اس کا تھا'اسے اور کچھ نہیں چاہیے تھا۔
وہ اپنے چند جوڑوں کے ساتھ ہم رنگ اسکارف پیک کروا رہی تھی'جب میسج ٹیون بجی۔اس نے فون نکال کر خراش زدہ اسکرین کو دیکھا۔عائشے کا پیغام جگمگا رہا تھا۔
”میں نے سارے گھر میں ڈھونڈا'مگر نہیں ملا۔تم خود کسی دن آ جاٶ'دوبارہ مل کر ڈھونڈ لیتے ہیں۔“
اس نےویک اینڈ پہ آنے کا وعدہ کر کے موبائل پرس میں رکھ دیا۔
”واپسی پہ جواہر چلتے ہیں'مجھے فون کی اسکرین ٹھیک کروانی ہے۔“
”شیور!“ہالے نے ہامی بھر لی۔وہ ڈی جےکے بعد اس کے ساتھ ساتھ ہی رہا کرتی تھی۔ہالے ان لوگوں میں سے تھی'جو دوسروں کی مددکےلیےہمہ وقت تیار رہتےہیں اوربدلے کی توقع کے بغیر مدد کرتے رہتے ہیں۔ترکی کے پر خلوص لوگ!
تاقسم سے انہوں نے انڈر گراٶنڈ میٹرو پکڑی۔پہلا سٹاپ چھوڑ کر وہ دوسرے سٹاپ پہ اتر گئیں۔اسٹیشن سے باہر سامنےہی جواہر شاپنگ مال تھا۔بلندوبالا کھجور کے درخت'لش چمکتا مال۔روشنیوں کا سمندر۔
ہالے کچھ کھانے کے لیے ٹیک اوے کرنے ایک ریسٹورنٹ میں چلی گئی اور وہ بالائی فلور پہ فون ریپئیرنگ شاپ پہ آ گئی۔
”پانچ دس منٹ کا کام ہے میم!آپ کاٶچ پہ بیٹھ جائیں۔میں ابھی کر دیتا ہوں۔“جس ترک دکان دار لڑکے نے اس سے فون لیا تھا' وہ فون کا معائنہ کر کے بولا۔
وہ سر ہلا کر سامنے کاٶچ پہ آبیٹھی اور ریک سے ایک میگزین اٹھا کر یونہی ورق گردانی کرنے لگی۔
لڑکا اب شوکیس کے پیچھے کھڑا'اس کے موبائل کے ٹکڑےالگ کر رہا تھا۔کیسنگ اتار کر اس نے بیٹری نکالی تو ایک دم رک گیا اور سر اٹھا کر قدرے تزبزب سے حیا کو دیکھا۔
”میڈم!“اس نے ذرا الجھن سے پکارا۔حیا نے میگزین سے سر اٹھاکر اسےدیکھا۔”کیا ہوا؟“
”یہ لگا رہنے دوں؟“
”کیا؟“وہ رسالہ رکھ کر اس کے قریب چلی آئی۔
”آپ کے فون میں جی پی ایس ٹریسر ہے۔اسے لگا رہنے دوں؟“
”ٹریسر؟میرے فون میں ٹریسر ہے؟“وہ سانس لینا بھول گئی تھی۔
”اوہ!آپ کو نہیں معلوم تھا اور جس نے یہ ٹریسر ڈالا ہے'وہ تو ہمہ وقت آپ کی لوکیشن ٹریس کر رہا ہو گا۔“
وہ بنا پلک جھپکےاپنےموبائل کےاندرلگے ایک ناخن برابر ایک ٹریسر کو دیکھے گئی۔
اور وہ سوچتی تھی'پاشا کو اس کی لوکیشن کا کیسے پتہ چلتا ہے؟یقیناً اس کے پچھلے فونز میں بھی ٹریسرز ہوں گے۔تب ہی۔
”یہ بہت سوفسٹی کیٹڈ ہے میم!وہ جب چاہے۔
اس سےفون کا مائیک آن کر کے آپ کی گفتگوبھی سن سکتاہے۔اب اس کاکیا کروں؟“
وہ چند لمحے اسے دیکھے گئ۔اسکا ذہن تیزی سے کام کر رہا تھا۔
”اسے لگا رہنے دو۔“
”رئیلی؟“لڑکا حیران ہوا تھا۔
”ایک ٹریسر نکالوں گی تو وہ اس اور ڈال دے گا اس لیے بہتر ہے میں اسی تریسر سےدھوکا دیتی رہوں۔میں ہر جگہ اسےساتھ نہیں لے کر جاٶں گی۔خصوصاً اس جگہ نہیں'جہاں میں نہیں چاہتی کہ اس کو پتہ چلے۔“
”اوہ ویری اسمارٹ!“لڑکا مسکرا دیا۔”میں آپ کو کسی چھوٹی سی ڈبی میں یہ ڈال دیتا ہوں تا کہ آپ کو اسے بار بار فون سے علیحدہ نہ کرنا پڑے۔“
وہ اب احتیاط سے وہ ننھا سا ٹریسر نکال رہا تھا۔حیا ابھی تک بنا پلک جھپکے اسے دیکھ رہی تھی۔
عبدالرحمٰن پاشا۔۔۔وہ کیا کرے اس آدمی کا؟وہ اپنااتناوقت اورتوانائی اس پہ کیوں صرف کرتاتھا؟کیایہ اندھی محبت تھی؟شاید کچھ اور؟
اندھیرے کمرے میں مدھم سبز نائٹ بلب کی روشنی بکھری تھی اور جزیرے کے ساحل سے سر ٹکراتی لہروں کی سرسراہٹ یہاں تک محسوس ہوتی تھی۔عائشے آنکھوں پہ بازو رکھےقریباً نیند میں جا چکی تھی۔جب بہارے نے پکارا۔
”عائشے'بات سنو!“وہ چت لیٹی چھت پہ کسی غیر مرئی نقطے کو گھور رہی تھی۔نیند اس کی آنکھوں سےکوسوں دور تھی۔
”ہوں؟“عائشے کی آواز نیم غنودگی سے بوجھل تھی۔
”جب بندہ بار بار جھوٹ بولتا ہےتو کیا ہوتا ہے؟“
”اللٰہ اسے اپنے پاس۔بہت جھوٹ بلنے والا“لکھ لیتا ہے۔“
بہارے نے چونک کر اسے دیکھا۔عائشے کی آنکھوں پہ بازو تھا۔شکر کہ وہ بہارےکا چہرہ نہیں دیکھ سکتی تھی۔
”اپنے پاس کدھر؟آسمانوں پہ؟“
”ہاں'آسمانوں پہ۔“
”کیا اس کے نام کے ساتھ ”جھوٹا“کسی بڑے پوسٹر پہ لکھا جاتا ہے؟“
”شاید ایسا ہی ہو۔اب سو جاٶ۔“
”عائشے!اگر اللٰہ تعالیٰ وہ پوسٹر آسمان پہ بچھا دےتو کیا سب کو اس کے نام کے ساتھ جھوٹا لکھا نظر آئے گا؟اس کی آواز میں انجانا سا خوف تھا۔
چشم تصور میں اس نے دیکھا'باہر تاریک آسمان پہ سرخ انگاروں سےلکھا تھا۔
”اناطولیہ کی بہارے گل ۔۔۔۔۔بہت جھوٹ بولنے والی۔“
”ہاں'سب کو ہر جگہ وہ نظر آۓ گا۔“
”جو گھر کے اندر 'کمرےکے اندر ہو گااسے بھی؟“
”ہاں'اب سو جاٶبچے!صبح کام پہ بھی جانا ہے۔“
”اور اگر کوئی بیڈکے نیچےگھس جاۓ'تو وہاں سے بھی آسمان نظر آۓگا؟“
”ہاں اور بہارے گل!تم اب بولیں تو میں تمہیں ٹرنک میں بند کر دوں گی۔“
عائشے جھنجھلا کربولی تھی۔اس کی نیند بار بار ٹوٹ رہی تھی۔وہ سارے دن کی تھکی ہوئی تھی۔بہارے ذرا سی عائشے کے قریب کھسکی اور چہرہ اس کےکان کے قریب لے آئی۔
”عائشے!“اس نےبہت دھیمی سی سرگوشی کی۔
”کیا ٹرنک کےاندر سے آسمان نظر آۓ گا؟“
”اللٰہ اللٰہ!“عائشے نے غصےسے بازو ہٹایا۔
بہارے نے غڑاپ سے منہ کمبل کے اندر کر لیا۔
مگر اسے کمبل کے اندر سے بھی آسمان نظر آرہاتھا۔سرخ انگارے اسی طرح دمک رہے تھے۔
اس شام وہ تاقسم اپنی سرخ ہیل ٹھیک کروانے آئی تھی۔جب ہیل جڑ گئی تو وہ کسی خیال کے تحت شاپر۔.....
Ye read krne k bd neeche di gai pic ready krle uske bd ye read kare
نہیں ملا ،، عائشے اپنے گھر سے پزل باکس کھو جانے پہ بہت اداس تھی ۔
اب میرے سیپ سے موتی کبھی نہیں نکلے گا ۔ بہارے بڑبڑائی ۔ وہ دونوں محسوس کیے بنا اسٹڈی ٹیبل کے دراز کھول کھول کر دیکھ رہی تھیں ۔
وہ باکس عبدالرحمان کے ہاتھ نہ لگ جائے مجھے اسی بات کا ڈر ھے وہ باکس اس کو نہیں ملنا چاہیے عائشے !،
بہارے کی جھکی گردن مزید جھک گئی ۔ ملازمہ کبھی چوری نہیں کرتی اس نے بھی باکس نہیں دیکھا ۔۔ کہاں ڈھونڈیں ۔۔،
حیا تھکے تھکے سے انداز میں کرسی پر گر سی گئی اس کا دل بہت برا ھو رہا تھا ۔
آئی ایم سوری حیا ۔۔ عائشے نے آزردگی سے کہا اسی پل کمرے میں دبی دبی سسکیاں گونجنے لگیں حیا نے چونک کر بہارے کو دیکھا ۔ وی سر جھکائے ہولے ہولے رو رہی تھی ۔
بہارے ! کیا ھوا ؟ وہ دونوں بھاگ کر اس کے پاس آئیں بہارے نے بھیگا چہرہ اٹھایا
وہ باکس عبدالرحمان کے پاس ھے ۔ اس نے مجھے تمہیں بتانے سے منع کیا تھا ،،۔
کیا ؟ وہ سانس لینا بھول گئی عائشے خود ششدر سی کھڑی رہ گئی ۔
مگر مجھے پتا ھے اس نے وہ کدھر رکھا ھے ۔ میں تمہیں لا دیتی ھوں ۔ بہارے ایکدم اٹھی اور باہر بھاگ گئی وہ دونوں بالکل ساکت ششدر سی اپنی جگہ کھڑی تھیں
پانچ منٹ بعد ہی بہارے واپس آئی تو اس کا بھیگا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا اس کے ہاتھ میں پزل باکس تھا وہ حیا کا پزل باکس ہی تھا اس میں کوئی شک نہیں تھا ۔
یہ لو تمہاری امانت ۔۔،، اس نے باکس حیا کی طرف بڑھایا ۔
بہارے گل حیا سلیمان تم سے بہت پیار کرتی ھے ۔ اس نے بے اختیار جھک کر اس ننھی پری کے دونوں گال چومے۔۔، اور تم اس کو ڈانٹنا مت ۔ سچ بولنے پہ کسی کو ڈانٹا نہیں کرتے ۔۔،، اس نے ساتھ ہی عائشے کو کہہ دیا تھا ۔ جو بہارے سے زرا سی خفا سی لگ رہی تھی مگر اس کی بات سمجھ کہ مسکرا دی ۔
آنے کسی کے گھر گئی ھوئی تھیں کھانا کھانے کے بعد وہ حیا کو واپس چھوڑنے کے لیے گھر سے نکل آئیں ۔ بہارے قریبی کلب سے عبدالرحمان کا گھوڑا لے آئی تھی اور اب اس پر بیٹھی ان دونوں کے عقب میں چلی آ رہی تھی ۔
اسے عبدالرحمان نے رائیڈنگ سکھائی ھے ۔
بہارے سے اچھی رائیڈنگ پورے ادا میں کوئی نہیں کر سکتا ۔
وہ بس مسکرا کر رہ گئی عبدالرحمان کا نام وہ آخری نام تھا جو اس وقت وہ سننا چاہتی تھی اس نے اس کا باکس کیوں رکھا ، وہ یہی سمجھنے سے قاصر تھی ۔
تم پہ یہ اسکارف بہت اچھا لگتا ھے حیا ۔ اسے کبھی مت چھوڑنا ۔۔،
نہیں چھوڑوں گی میں سبانجی سے جیت گئی میں اتاترک سے جیت گئی مجھے اور کیا چاہیے ۔
تمہیں کچھ بھی چھوڑنا پڑے اسے مت چھوڑنا ۔۔ عائشے نے دہرایا حیا نے مسکرا کر سر ہلا دیا ۔
ان کے عقب میں گھوڑے پر بیٹھی بہارے نے اچنبھے سے عائشے کو دیکھا تھا ۔ اس کی بہن اتنے اسرار سے بات دہراتی تو نہیں تھی ،، پھر اب کیوں ؟
معتصم نے جلی ھوئی اطراف والے پزل باکس کو الٹ پلٹ کر دیکھا پھر ایک بڑے ڈبے کی طرف اشارہ کیا جو اس کے ساتھ گھاس پر پڑا تھا ۔
پہلے فلوٹیلا کے لیے فنڈ دو ۔۔
اوہ شیور !،، وہ گھاس پر بیٹھتے ھوئے پرس سے پیسے نکالنے لگی چند نوٹ ڈبے کی درز میں ڈال کر اس نے دیکھااس پہ جلی حروف میں لکھا تھا فریڈم فلوٹیلا 2010..
وہ مئی 2010 تھا اور اسی ماہ کے آخر تک فلوٹیلا نے غزہ کے لیے روانہ ھونا تھا یہ بات فلسطینی اب تک بہت دفعہ دہرا چکے تھے
گھاس کے آگے مصنوعی جھیل دوپہر کی کرنوں سے چمک رہی تھی معتصم اس چمکتی دھوپ میں باکس پکڑے کافی دیر اسے الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا ۔
یقین کرو مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا ۔ مگر اس پہ ہومر والی پہیلی کو حل کرنا آسان ھو گا ۔ ٹہرو ! کوشش کرتے ہیں ۔ اس نے جلی لکڑی پہ لکھے سنہرے حروف پڑھے ۔
Marked on Homer,s Doubts
A Stick with twin sprouts
ہومر وہی فلسفی تھا نا جس کے بارے میں ہراقلیطس نے کہا تھا کہ اسے درے مارے جانے چاہئیں ؟
اس کے کہنے پر معتصم نے سر اٹھا کر خفگی سے اسے دیکھا تھا ۔ وہ شانے اچکا کر رہی گئی ۔ یونانی فلسفہ وہ آخری شے تھی ۔ جو اسے دلچسپ لگتی تھی ۔ مگر شاید میجر احمد کا حساب الٹا تھا ۔
ہومر کے شبہات پہ نشان زدہ اسٹک ۔ یہاں کسی نشان کی بات ھو رہی ھے ہومر کے شبہات ، مگر کیسے شبہات ؟ وہ سوچنے لگا ۔
معتصم نشان تو کسی کے لکھے ھوئے کام پہ ہی لگایا جا سکتا ھے نا تو کیا ہومر کے لکھے ہوئے کام میں کسی کے شکوک وشبہات کا ذکر ھے ؟؟
یہ تو مجھے نہیں پتا ، مگر اس کے اپنے کام میں جو حصہ بعد میں آنے والے ناقدین کو مشکوک لگتا ھے ، اسے مارک ضرور کیا گیا ھے ۔
کیسے مارک کیا گیا ھے ؟ وہ چونکی ۔۔،، کسی خاص نشان سے ؟؟
مجھے بس اتنا معلوم ھے کہ ہومر کے کام میں مشتبہ حصہ ھوتا ھے اس پہ obelus کا نشان لگا کر مارک کیا جاتا ھے ۔
Obelus کیا ھوتا ھے ؟
تمہیں اوبلیس کا نہیں پتا ؟ یہ ہوتا ھے اوبلیس ،، اس نے رجسٹر کےصفحے پر ایک سیدھی لکیر کھینچی اور اس کے اوپر اور نیچے ایک ایک نقطہ لگا دیا
یہ تو تقسیم کے سمبل ھے ۔ اس طرح کہو نہ ۔۔ اس نے پزل باکس کی سلائیڈز اوپر نیچے کیں یہاں تک کہ پورا لفظ اوبلیس لکھا گیا مگر باکس جامد رہا
یہ صرف پہلی پہیلی کا جواب ھے حیا ! ہمیں ان چاروں کے جواب تلاش کر کے ان میں سے مشترک بات ڈھونڈنی ھے ،، اس نے یاد دلایا
حیا نے بددلی سے پزل باکس اسے تھمایاب وہ خود کو اس وقت بہارے کی طرح محسوس کر رہی تھی اپنے تحفے کے اتنے قریب مگر اتنی ہی دور اور بےبس ۔ بہت بےبس
شام کا اندھیرا استقلال اسٹریٹ پر اتر آیا تھا گلی کی رونق اور روشنیاں عروج پر تھیں وہ اور ہالے کافی دنوں بعد استقلال اسٹریٹ آئی تھیں ۔ امتحان قریب تھے سو نکل ہی نہیں پائی تھیں ۔ اب نکلیں تو ڈی جے کی یادیں تازہ ھو گئیں ۔ خریدا انھوں نے کچھ نہیں بس ونڈو شاپنگ کرتی رہیں ۔ وہ آٹھ بجے والے گورسل سے آئی تھیں ۔ گورسل کو واپس رات کے ڈیڑھ بجے جانا تھا سو تب تک ان کا ارادہ خوب اچھی طرح سے جدیسی میں گھومنے کا تھا ۔ پہلے تو برگر کنگ میں ڈنر کر لیتے ہیں ۔ ٹھیک ؟ وہ اس روز کے بعد جہان سے بھی نہیں ملی تھی سوچا اب مل لے ۔
تمہاری صلح ھو گئی اس سے ؟ وہ برگر کنگ کے دروازے پہ تھیں جب ہالے نے پوچھا۔۔ حیا نے زرا حیرت سے اسے دیکھا پھر ہنس پڑی ۔
وہ بات تو بہت پرانی ھو گئی اب تو بہت کچھ بدل چکا ھے ۔ وہ مدھم مسکراہٹ کے ساتھ بولی ۔
سیاہ
اسکارف چہرے کے گرد لپیٹ رکھا تھا اور اس میں دمکتا اس کا چہرہ بہت مطمئن لگ رہا تھا ۔
ہاں لگ تو رہا ھے ،، ہالے شرارت سے مسکرائی حیا نے اپنا دایاں ہاتھ آگے کیا پلاٹینم رنگ رات کی مصنوعی روشنیوں میں چمک رہی تھی
وہاٹ ؟؟ تمہاری جہان سکندر سے منگنی ھو گئی ھے اور تم نے مجھے بتایا نہیں ،، ہالے خوشگوار حیرت سے کہہ اٹھی ۔ وہ دونوں ریسٹورینٹ کے دروازے میں کھڑی تھیں اطراف میں لوگ آ جا رھے تھے ۔
مگر ہماری شادی منگنی سے پہلے ھوئی تھی یہی کوئی بیس اکیس سال پہلے ۔ لمبی کہانی ھے ڈنر کے بعد سناؤں گی ،، وہ جلدی سے ہالے کا بازو تھامے اندر چلی آئی ۔ آج اس نے وہی سرخ ہیل پہن رکھی تھی اور ذرا احتیاط سے چل رہی تھی ۔
جہان تو چھ بجے تک آف کر گیا تھا ابھی گھر پہ ھو گا ۔ وہاں کام کرنے والے لڑکے نے بتایا اسے مایوسی ھوئی مگر اب کچھ نہیں ھو سکتا تھا ۔
مجھے پوری کہانی سناؤ تم نے اتنی بڑی باتنہیں بتائی ہالے پرجوش بھی تھی اور سارا قصہ سننے کے لیے بےتاب بھی تھی ۔
چلو ٹاقسم چلتے ہیں ۔ وہیں بیٹھ کر سناتی ھوں وہ ہنس کر بولی
چند قدم کا فاصلہ تھا باتوں میں ہی کٹ گیا وہ اسکوائر پہ آئیں تو جگہ جگہ بارش سے گیلی سڑک چمک رہی تھی حیا نے بے اختیار اپنے پاؤں کو دیکھا ،
یہیں ٹوٹی تھی میری ہیل ،،، اس نے دھیرے سے مسکراتے ھوئے اپنی مرمت شدہ ہیل کو دیکھا لکڑی کی بہت باریک ہیل اب بالکل ٹھیک لگ رہی تھی ۔ پھر کتنا خوار کرایا تھا اس نے اس دن ۔ سرخ ہیل سرخ کوٹ اور برستی بارش اسے بہت کچھ یاد آیا تھا ۔
آؤ پارک میں چلتے ہیں ،، ہالے اسے بلا رہی تھی مگر وہ اسی طرح کھڑی سر جھکائے اپنی ہیل کو دیکھ رہی تھی لمحے بھر کو اس کے گرد جگمگاتا اسکوائر ھوا میں تحلیل ھو گیا ۔ ساری آوازیں بند ھو گئیں وہ ساکت کھڑی اپنی ہیل دیکھ رہی تھی یہیں ٹوٹی اس کی ہیل ۔۔۔ یہیں ۔۔ یہیں ۔۔
Snepped There A Bloody pine
بلڈی ؟؟؟ یعنی خون ۔۔۔۔ مگر خون سرخ ھوتا ھے ۔۔ سرخ لکڑی ۔۔۔ لکڑی کی ہیل ۔۔
Slip There Some Tears divine
اس کی متحیر نگاہوں نے ٹاقسم اسکوائر کا احاطہ کیا ۔۔
آفاقی آنسو ، آسمان کے آنسو ، بارش ، نہریں تقسیم ھوتی تھیں اسی جگہ ۔۔
Roud the emerald Crusified
اس کی نظریں مجسمے کے گرد پھیلے گھاس کے قطعہ اراضی پر جم گئیں ۔ جنہیں دو گزر گاہیں صلیب کے نشان کی طرح کاٹ رہی تھیں ۔ زمرد گھاس جو مصلوب تھی ۔
And The Freedome petrified
ساکن ھوئی پتھر بنی آزادی ۔ یقیناً مجسمہ آزادی اتاترک کا مجسمہ استقلال یمینی
A Lover lost in Symbolic Smell
پیار جو کھو گیا ؟؟؟
ڈی جے ۔۔۔ اس کے ذہن میں جھماکا ھوا ادھر ساتھ استقلال جدیسی میں اور روز ٹاقسم اسکوائر میں ٹیولپس کی مہک پھیلی تھی علامتی خوشبو ۔۔۔۔ ٹیولپس جو استنبول کی علامت تھے ۔
Under which the lines dwell
اس جگہ کے نیچے کیا تھا ؟؟؟ لکیریں نہیں لائنز ۔۔ ہاں ؟ میٹرو لائنز ۔ ریلوے لائنز ۔ نیچے ریلوے اسٹیشن تھا ۔ ایک ایک کر کے پزل کے سارے ٹکڑے جڑتے جا رھے تھے
Obehus کا نشان کس چیز کا تھا بھلا ؟؟
حیا یہ آدمی ہمیں فالو کر رھا ھے ،، ہالے نے اس کا بازو جھنجھوڑا وہ ہالے کی طرف متوجہ نہیں تھی کسی خوابیدہ کیفیت میں وہ بڑبڑائی ۔
Taksim پورے چھ حروف اس
کی آنکھوں
میں بے یقینی تھی،اس نے پزل حل کر لیاتھا."حیا..!یہ آدمی ہمارے پیچھے آرہاہے." ہالے کی آواز میںذراسی گھبراہٹ تھی.وہ جیسے کسی خواب سے جاگی اور پلٹ کردیکھا. سڑک کے اس پار کھڑاشخص اسے دیکھ کر مسکرایاتھا.وہ ایک دم برف کا مجسمہ بن گئ.اس کا چہرہ سفید پڑگیا. وہ اس چہرے کو کیسے بھول سکتی تھی؟ عبدالرحمن پاشا. آنے کے ساتھ اور انفرادی کتنی ہی تصویروں میں وہ اسے دیکھ چکی تھی.وہ اسے دیکھ کر جس شناسائ سے مسکرایا
تھا.اس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اسے پہچان چکاہے. "چلو!واپس اسٹریٹ میں چلتے ہیں." وہ ہالے کا ہاتھ تھامے تیزی سے واپس پلٹ گئ.لوگوں کے رش میں سے جگہ بناتے،تیز تیز قدموں سے فٹ پاتھ پہ چلتے ہوۓ وہ دونوں اس شخص سے دور جا رہی تھیں. جب حیا کو یقین ہوگیا کہ وہ ان کو کھوچکاہے،تو اسی طرح ہالے کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے ایک کافی شاپ میں آگئ. "پتانہیں کون تھا." انہوں نے ایک کونے والی میز کا انتخاب کیاتھا.ہالے دومگ گرما
گرم کافی کےلے آئ اور اب وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھی،اس آدمی کے بارے میں تبادلہ خیال کررہی تھیں. "ہاں!پتانہیں کون تھا.؟اس نے لاتعلقی سے شانے اچکاۓ اور گرم کپ لبوں سے لگایا.ایک دم ہی کافی کا گھونٹ کسی تلخ زہر کی طرح اس کی گردن کو جکڑ گیا.اسے سامنے سے پاشا آتادکھائ دیاتھا.وہ کافی شاپ میں کب داخل ہوا انہیں پتا ہی نہیں چلاتھا. "ہالے وہ ادھر ہی آگیا."اس نے سراسیمگی کی سی کیفیت میں کپ نیچے کیا. ہالے نے پریشا
نی سے پلٹ کر دیکھا.وہ عین ان کے سر پرآپہنچاتھا. "کیا میں آپ کو جوائن کر سکتاہوں مسز جہان سکندر؟" کرسی کی پشت پر ہاتھ رکھ کر کھڑےاس نےمسکراتےہوۓپوچھا.لمبی سرمئ برساتی میں ملبوس، وہ اچھا خاصا آدمی تھا.فریم لیس گلاسز کے پیچھے سے چھلکتی آنکھوں میں واضح مسکراہٹ تھی.وہ لمحہ ملاقات جس سے اس کو کبھی ڈر نہیں لگاتھا.اس وقت بے حد خوف زدہ کرگیاتھا. "جی!ضرور بیٹھیے."اس نے کپ پہ اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوۓ بظاہر
مسکرا کر کہا. ہالے نے آنکھوں میںاسے کوئ اشارہ کیاتھا.حیانے سمجھ کر سرکو اثبات میں ذرا سی جنبش دی.جیسے ہی وہ کرسی کھینچ کر بیٹھنے لگااس نے گرماگرم کافی اس کے چہرے پہ الٹ دی.پاشا کے لیے یہ حملہ قطعا" غیر متوقع تھا.گو کہ ردعمل کے طور پہ اس نے چہرہ فورا"پیچھے کیاتھا،اس کے باوجود کافی اس کے رخسار کو جھلساگئ تھی. "چھبک،چھبک" (جلدی،جلدی) ہالے نے اس کا ہاتھ تھامااور دوسرے ہی لمحے وہ دونوں باہر بھاگی تھیں.
کافی گرم تھی اور اس نے پاشا کا چہرہ سرخ کردیاتھا. وہ بلبلا کر چہرہ ہاتھوں سے صاف کررہاتھا.دوسرےگاہک اور ویٹرز اس کی جانب لپکےتھے.یہ وہ آخری منظرتھاجو حیانے باہر نکلنے سے پہلے دیکھاتھا. "وہ نہیں آرہاجلدی چلو!"گلی میں لوگوں کےرش میں سے راستہ بناتے ہوۓ تیز قدموں سے دوڑتے،ہالے باربار گردن موڑ کر دیکھتی تھی....
جاری هے

No comments: